Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 83

سورة البقرة

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۸۳﴾

And [recall] when We took the covenant from the Children of Israel, [enjoining upon them], "Do not worship except Allah ; and to parents do good and to relatives, orphans, and the needy. And speak to people good [words] and establish prayer and give zakah." Then you turned away, except a few of you, and you were refusing.

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، اسی طرح قرابتداروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا ، نمازیں قائم رکھنا اور زکوۃ دیتے رہا کرنا ، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Covenant that Allah took from the Children of Israel Allah says; وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَايِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ ... And (remember) when We took a covenant from the Children of Israel, (saying): Worship none but Allah (alone) and be dutiful and good to parents, and to kindred, and to orphans and (the poor), Allah reminded the Children of Israel of the commandments that He gave them, and the covenants that He took from them to abide by those commands, and how they intentionally and knowingly turned away from all of that. Allah commanded them to worship Him and to associate none with Him in worship, just as He has commanded all of His creatures, for this is why Allah created them. Allah said, وَمَأ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ And We did not send any Messenger before you (O Muhammad) but We revealed to him (saying): La ilaha illa Ana (none has the right to be worshipped but I (Allah)), so worship Me (alone and none else). (21:25) and, وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ And verily, We have sent among every Ummah (community, nation) a Messenger (proclaiming): "Worship Allah (alone), and avoid the Taghut (all false deities). (16:36) This is the highest and most important right, that is, Allah's right that He be worshipped alone without partners. After that comes the right of the creatures, foremost, the right of the parents. Allah usually mentions the rights of the parents along with His rights. For instance, Allah said, أَنِ اشْكُرْ لِى وَلِوَلِدَيْكَ إِلَىَّ الْمَصِيرُ Give thanks to Me and to your parents. Unto Me is the final destination. (31:14) Also, Allah said, وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً And your Lord has decreed that you worship none but Him. And that you be dutiful to your parents, (17:23), until, وَءَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ And give to the kinsman his due and to the Miskin (poor) and to the wayfarer. (17:26) The Two Sahihs record that Ibn Mas`ud said, I said, `O Messenger of Allah! What is the best deed?' He said, الصَّلَةُ عَلى وَقْتِهَا `Performing the prayer on time.' I said, 'Then what?' He said, بِرُّ الْوَالِدَيْن `Being kind to one's parents.' I said, `Then what?' He said, الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله `Jihad in the cause of Allah.' Allah then said, ... وَالْيَتَامَى ... and to orphans, meaning, the young who have no fathers to fend for them. ... وَالْمَسَاكِينِ ... and Al-Masakin (the poor), plural for Miskin, the one who does not find what he needs to spend on himself and his family. We will discuss these categories when we explain the Ayah of Surah An-Nisa where Allah said, وَاعْبُدُواْ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْياً وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً Worship Allah and join none with Him (in worship); and do good to parents. (4:36) Allah's statement, ... وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً ... and speak good to people, meaning, say good words to them and be lenient with them, this includes commanding good and forbidding evil. Al-Hasan Al-Basri commented on Allah's statement, `The good saying' means commanding good and forbidding evil, and being patient and forgiving. The `good words to people', as Allah commanded, also includes every good type of behavior that Allah is pleased with." Imam Ahmad narrated that Abu Dharr said that the Prophet said, لاَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْيًا وَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَالْقَ أَخَاكَ بِوَجْهٍ مُنْطَلِق Do not belittle any form of righteousness, and even if you did not find any good deed except meeting your brother with a smiling face, then do so. This Hadith was also collected by Muslim in his Sahih and At-Tirmidhi, who graded it Sahih. Allah commands the servants to say good words to people, after He commanded them to be kind to them, thereby mentioning two categories of manners: good speech and good actions. He then emphasized the command to worship Him and the command to do good, ordaining the prayer and the Zakah, ... وَأَقِيمُواْ الصَّلَةَ وَاتُواْ الزَّكَاةَ ... and perform As-Salah and give Zakah. ... ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً مِّنكُمْ وَأَنتُم مِّعْرِضُونَ Then you slid back, except a few of you, while you are backsliders. Allah informed us that the People of the Book, except for a few among them, ignored these orders, that is, they knowingly and intentionally abandoned them. Allah ordered this Ummah similarly in Surah An-Nisa when He said, وَاعْبُدُواْ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْياً وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً وَبِذِى الْقُرْبَى وَالْيَتَـمَى وَالْمَسَـكِينِ وَالْجَارِ ذِى الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّـحِبِ بِالجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـنُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً Worship Allah and join none with Him (in worship); and do good to parents, kinsfolk, orphans, Al-Masakin (the poor), the neighbor who is near of kin, the neighbor who is a stranger, the companion by your side, the wayfarer (you meet), and those (servants) whom your right hands possess. Verily, Allah does not like such as are proud and boastful. (4:36). Of these orders, this Ummah has practiced what no other nation before it has, and all praise is due to Allah.

معبودان باطل سے بچو بنی اسرائیل کو جو حکم احکام دیئے گئے اور ان سے جن چیزوں پر عہد لیا گیا ان کا ذکر ہو رہا ہے ان کی عہد شکنی کا ذکر ہو رہا ہے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ توحید کو تسلیم کریں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں ، یہ حکم نہ صرف بنو اسرائیل کو ہی دیا گیا بلکہ تمام مخلوق کو دیا گیا ہے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء:25 ) یعنی تمام رسولوں کو ہم نے یہی حکم دیا کہ وہ اعلان کر دیں کہ قابل عبادت میرے سوا اور کوئی نہیں سب لوگ میری ہی عبادت کریں اور فرمایا آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل:36 ) یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسکے سوا دوسرے معبودان باطل سے بچو ۔ سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اسکے تمام حقوق میں بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور دوسرے کسی کی عبادت نہ کی جائے اب حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا بیان ہو رہا ہے بندوں کے حقوق میں ماں باپ کا حق سب سے بڑا ہے اسی لئے پہلے ان کا حق بیان کیا گیا ہے ارشاد ہے آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان:14 ) میرا شکر کرو اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مان اور جگہ فرمایا آیت ( وقضی ربک الخ تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کیساتھ احسان اور سلوک کرتے رہو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا پوچھا اس کے بعد فرمایا ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا پوچھا پھر کونسا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ایک اور صحیح حدیث میں ہے کسی نے پوچھا حضور میں کس کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ، پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا کس کے ساتھ؟ فرمایا! اپنے باپ کے ساتھ اور قریب والے کے ساتھ پھر اور قریب والے کے ساتھ آیت میں لا تعبدون فرمایا اس لئے کہ اس میں بہ نسبت لاتعبدوا کے مبالغہ زیادہ ہے طلب یہ خبر معنی میں ہے بعض لوگوں نے ان لا تعبدوا ان لا تعبدوا بھی پڑھا ہے ابی اور ابن مسعود سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ لا تعبدوا پڑھتے تھے یتیم ان چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں جن کا سرپرست آپ نہ ہو ۔ مسکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی اور اپنے بال بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری طرح مہیا نہ کر سکتے ہوں اس کی مزید تشریح انشاء اللہ العظیم سورۃ نساء کی اس معنی کی آیات میں آئے گی پھر فرمایا لوگوں کو اچھی باتیں کہا کرو ۔ یعنی ان کے ساتھ نرم کلامی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو بھلی باتوں کا حکم اور برائی سے روکا کرو ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں بھلائی کا حکم دو ۔ برائی سے روکو ۔ بردباری ، درگزر اور خطاؤں کی معافی کو اپنا شعاربنا لو یہی اچھا خلق ہے جسے اختیار کرنا چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اچھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے بھائیوں سے ہنستے ہوئے چہرے سے ملاقات تو کر لیا کرو ( مسند احمد ) پس قرآن کریم نے پہلے اپنی عبادت کا حکم دیا پھر لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے ۔ پھر اچھی باتیں کہنے کا ۔ پھر بعض اہم چیزوں کا ذکر بھی کر دیا نماز پڑھو زکوٰۃ دو ۔ پھر خبر دی کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور عموماً نافرمان بن گئے مگر تھوڑے سے پابند عہد رہے ۔ اس امت کو بھی یہی حکم دیا گیا فرمایا آیت ( وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ) 4 ۔ النسآء:36 ) اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ، قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ ، اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ ، ہم مشرب مسلک کے ساتھ مسافروں کے ساتھ لونڈی غلاموں کے ساتھ ، سلوک احسان اور بھلائی کیا کرو ۔ یاد رکھو تکبر اور فخر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا الحمد اللہ کہ یہ امت بہ نسبت اور امتوں کے ان فرمانوں کے ماننے میں اور ان پر عمل پیرا ہونے میں زیادہ مضبوط ثابت ہوئی اسد بن وداعہ سے مروی ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کو سلام کیا کرتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ فرمان باری ہے آیت ( وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ) 2 ۔ البقرۃ:83 ) لیکن یہ اثر غریب ہے اور حدیث کے خلاف ہے حدیث میں صاف موجود ہے کہ یہود نصاریٰ کو ابتداً سلام علیک نہ کیا کرو ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] گو بظاہر یہ خطاب یہود مدینہ سے ہے۔ تاہم یہ ایسے احکام ہیں جو ہر شریعت میں غیر متبدل رہے ہیں اور ہماری شریعت میں بھی بعینہ موجود ہیں۔ رہا عہد کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا قصہ تو یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی اور ان کی تاریخ ایسی عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کو وہ تاریخی احسانات یاد دلائے گئے ہیں جو ان کے بزرگوں پر کیے گئے اور انھوں نے شکر گزاری کے بجائے کفر کیا، جس کے نتیجہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی بار عتاب نازل ہوا۔ اب یہاں ان کو وہ عہد یاد دلایا جا رہا ہے جو بنیادی احکام (عبادات و معاملات) دیتے وقت ان سے لیا گیا تھا اور بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کی پابندی نہ کی اور اس سے سراسر بےپروائی اختیار کی۔ اسی قسم کا حکم سورة نساء (٣٦) میں امت مسلمہ کو بھی دیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ : عبادت کی چار قسمیں ہیں : 1 بدنی عبادت، جیسے طواف، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ 2 مالی عبادت، جیسے صدقہ و خیرات کرنا اور نذر و نیاز ماننا۔ 3 لسانی عبادت (یعنی زبان سے) ، جیسے کسی کے نام کا وظیفہ جپنا، یا اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی کا نام لینا۔ 4 قلبی عبادت (یعنی دل سے) ، جیسے کسی پر بھروسا رکھنا، کسی سے خوف کھانا یا امید رکھنا۔ یہ سب عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، ان میں جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنایا وہ شرک کا مرتکب ہوگیا۔ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا) ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آنے کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے علاوہ متعدد دوسری آیات میں عبادت الٰہی کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں سب سے افضل عمل یہی ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا :” سب سے افضل عمل کون سا ہے۔ “ فرمایا : ( اَلصَّلاَۃُ عَلٰی وَقْتِہَا ) ” نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ “ پوچھا : ” پھر کون سا ؟ “ فرمایا : ( بِرُّ الْوَالِدَیْنِ ) ” ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ “ پوچھا : ” پھر کون سا ؟ “ فرمایا : ” جہاد فی سبیل اللہ۔ “ [ بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلوۃ لوقتہا : ٥٢٧ ] اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے اسے جنم دیا، پھر اس کی پرورش کی : (رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا) [ بنی إسرائیل : ٢٤ ] وَالْيَتٰمٰى) یتیم وہ ہے جس کا والد بچپن میں فوت ہوجائے۔ علی بن ابو طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بالغ ہونے کے بعد یتیمی نہیں۔ “ [ أبو داوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٥٧٣ و صححہ الألبانی ] ( وَالْمَسٰكِيْنِ ) اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٦٠) کا حاشیہ۔ ( وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْـنًا) ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” قول حسن یہ ہے کہ نیکی کا حکم دے، برائی سے منع کرے، بردباری اور عفو و درگزر سے کام لے اور جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے اچھی بات کرے اور ہر وہ اچھی عادت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ “ ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، اگر تم کچھ اور نہ کرسکو تو کم از کم اپنے بھائی سے کھلے چہرے کے ساتھ مل لو۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب طلاقۃ ۔۔ : ٢٦٢٦ ] بنی اسرائیل کو قول حسن (اچھی بات) کا حکم تھا، ہماری امت کو اس سے بڑھ کر ” احسن “ (سب سے اچھی بات) کا حکم ہے، چناچہ فرمایا : (وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ) [ بنی إسرائیل : ٥٣ ] ” اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔ “ (وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ) اس سے مراد وہ نماز اور زکوٰۃ ہے جو بنی اسرائیل ادا کرتے تھے۔ ( اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ ) اس سے مراد بنی اسرائیل کے وہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اس عہد پر قائم رہے، یا آپ کے تشریف لانے کے بعد آپ پر ایمان لے آئے۔ باقی سب نے اس عہد و پیمان کو پس پشت پھینک دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حد درجے کا انصاف ہے کہ ان کی عہد شکنی کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی سب کو مجرم قرار نہیں دیا، بلکہ عہد پر قائم رہنے والوں کو، خواہ وہ تھوڑے تھے، عہد توڑنے والوں سے الگ ذکر فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse speaks of the pledge which Allah had made the Israelites take, and the few people it refers to as having been true to the pledge were those who acted upon the Shari&ah of Sayyidna Musa (علیہ السلام) (Moses) as long as it was in force, and when it was abrogated, followed the Shari` ah of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Injunctions and related considerations (1) This verse brings out the basic elements common to Islam and all the earlier Shari` ah: Tauhid توحید (the doctrine of Unity or Oneness); service to one&s parents, relations, orphans and the needy; being gentle in speaking to all human beings; Salah نماز and Zakah زکاۃ . (2) The verse asks us to adopt a gentle tone and an open-hearted manner in speaking to others, whether they are good or evil, pious or impious, orthodox or aberrant, followers of Sunnah or adherents to partitive innovations in it. In religious matter, however, one should not try to hide the truth for the sake of pleasing people or of winning their approval. The Holy Qur&an tells us that when Allah sent Sayyidna Musa and Sayyidna Harun (Moses and Aaron) (علیہم السلام) to the Pharaoh فرعون ، He instructed them to use gentle and soft words (20:42). None of us who addresses another today can be superior to Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، nor can the man addressed be viler than the Pharaoh فرعون . Talha ibn ` Umar recounts that once he said to the great master of the Sciences of Exegesis and Hadith, &At-a& عطاء ، |"One can see around you people who are not quite orthodox in their beliefs. As for me, I am rather short-tempered. If such people come to me, I deal with them harshly.|" ` Ata& replied, |"Do not behave like this,|" and, reciting the present verse, he added, Allah has commanded us to speak to people politely. When Jews and Christians all are to be treated like this, would this commandment not apply to a Muslim, no matter what kind of a man he is?|" (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب لیا ہم نے (تورات میں) قول وقرار بنی اسرائیل سے کہ عبادت مت کرنا (کسی کی) بجز اللہ کے اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنا اور اہل قرابت کی بھی اور بےباپ کے بچوں کی بھی اور غریب محتاجوں کی بھی اور عام لوگوں سے (جب کوئی) بات کہنا ہو تو اچھی طرح (خوش خلقی سے) کہنا اور پابندی رکھنا نماز کی اور ادا کرتے رہنا زکوٰۃ پھر تم (قول وقرار کرکے) اس سے پھرگئے بجز معدودے چند کے اور تمہاری تو معمولی عادت ہے اقرار کر کے ہٹ جانا، فائدہ : یہ معدودے چند وہ لوگ ہیں جو تورات کے پورے پابند رہے تورات کے منسوخ ہونے سے قبل شریعت موسویہ کے پابند رہے جب تورات منسوخ ہوگئی تو شریعت محمدیہ کے متبع ہوگئے، مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ احکام اسلام اور سابقہ شریعتوں میں مشترک ہیں جن میں توحید، والدین اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کی خدمت اور تمام انسانوں کے ساتھ گفتگو میں نرمی وخوش خلقی کرنا اور نماز اور زکوٰۃ سب داخل ہیں، تعلیم و تبلیغ میں سخت کلامی کافر سے بھی درست نہیں : وَقُوْلُوْا للنَّاسِ سے مراد قولاً فاحسن ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب لوگوں سے خطاب کرے تو بات نرم کرے خوش روئی اور کشادہ دلی سے کرے چاہے مخاطب نیک ہو یا بد سنی ہو یا بدعتی، ہاں دین کے معاملہ میں مداہنت اور اس کی خاطر سے حق پوشی نہ کرے وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت نامہ دیا کہ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا (٤٤: ٢٠) تو آج جو کلام کرنے والا ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل نہیں اور مخاطب کتنا ہی برا ہو فرعون سے زیادہ برا خبیث نہیں، طلحہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام تفسیر و حدیث عطاء سے کہا کہ پاس فاسد عقیدے والے لوگ بھی جمع رہتے ہیں مگر میرے مزاج میں تیزی ہے میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں تو میں ان کو سخت باتیں کہہ دیتا ہوں حضرت عطاء نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ ، اس میں تو یہودی و نصرانی بھی داخل ہیں مسلمان خواہ کیسا ہی ہو وہ کیوں نہ داخل ہوگا (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 10 وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۝ ٠ ۣ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝ ٠ ۭ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٨٣ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ اِسْرَاۗءِيْلَ ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو . (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال . عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ قربی وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا يتم اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ. ( ی ت م ) الیتم کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملا چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء/ 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت/ 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة/ 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی / مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے۔ ” واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احساناً ) (یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا) یہ قول باری والدین کے حق کی تاکید اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے خواہ والدین کافر ہوں یا مومن کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ مقرون کردیا ہے۔ قول باری ہے : وذی القربی رشتے داروں کے ساتھ، صلہ رحمی اور تیامی و مساکین کے ساتھ حسن سلوک کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ قول باری ہے : وقولو ا للناس حسناً (اور لوگوں سے بھلی بات کہنا) ابو جعفر محمد بن علی سے مروی ہے کہ تمام لوگوں سے بھی بات کہو۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ وہ لوگ مسلمان اور کافر کے بارے میں اس حکم کے پابند تھے، مذکورہ بالا قول باری اسی امر پر دلالت کرتا ہے۔ ایک قول کے مطاب قیہ آیت اس قول باری کی ہم معنی ہے : ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن (اے نبی ! ) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعے دعوت دو اور لوگوں سے ایسے طریقے سے مباحثہ کرو جو بہترین ہو) اس آیت میں مذکورہ احسان سے مراد اللہ کی طرف بلانا اور اس بارے میں ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ قتال کے حکم کی وجہ سے یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا یحب اللہ الجھر بالسوء من انقول الا من ظلم (اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگمانی پر زبان کھولے، الآیہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو) اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت بھیجنے اور ان سے برأت کا اظہار کرنے کا حکم دیا ہے، نیز معاصی میں مبتلا لوگوں کی نکیر کا بھی حکم ملا ہے۔ یہ ایسے امور ہیں جن کے متعلق انبیاء (علیہم السلام) کے شرائع کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قول حسن یعنی بھلی بات کہنے کا جو حکم ملا ہے اس سے یا تو یہ مراد ہے ک ہ اس کا دائرہ مسلمانوں نیز ان لوگوں تک محدود ہے جو لعنت اور نکیر کے مستحق نہیں ہیں۔ اس صورت میں قول حسن خاص ہوگا۔ یا اس سے اللہ کی طرف دعوت دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہے۔ اس صورت میں یہ عام ہوگا۔ دعوت الی اللہ نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تمام افعال حسن شمار ہوتے ہیں اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے ہمیں خبر دی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل سے ان تمام باتوں کا عہد لیا تھا۔ میثاق اس عقد کو کہتے ہیں خبر دی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل سے ان تمام باتوں کا عہد لیا تھا۔ میثاق اس عقد کو کہتے ہیں جسے وعید یا قسم کے ذریعے مئوکد کردیا گیا ہو۔ مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے بیعت لی تھی اور یہ بیعت اپنی مذکورہ شرائط کے تحت ہوئی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) اب دوبارہ بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لینے کا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ وعدہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی وحدنیت نہیں بیان کروگے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گے اور والدین کیساتھ نیکی اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے اور لوگوں سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں حق اور صحیح بات کہوگے اور پانچ وقت کی نمازوں کو ادا کرو گے، اموال کی زکوٰۃ ادا کیا کروگے مگر پھر تم اس بات سے پھرگئے (مگر کچھ تمہارے آباؤاجداد حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے دوست اور اس عہدوپیمان کو چھوڑ کر اس کو جھٹلانا شروع کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ الاَّ اللّٰہَقف) ۔ “ (وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) “ اللہ کے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا ذکر قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام یہ ہے ۔ (وَّذِی الْقُرْبٰی ) (وَالْیَتٰمٰی) ” (وَالْمَسٰکِیْنِ ) “ (وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا) “ امر بالمعروف کرتے رہو۔ نیکی کی دعوت دیتے رہو۔ (وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ط) یہ بنی اسرائیل سے معاہدہ ہو رہا ہے۔ (ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ الاَّ قَلِیْلاً مِّنْکُمْ ) “ (وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) ۔ “ تمہاری یہ عادت گویا طبیعت ثانیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کے علاوہ ایک اور عہد بھی لیا تھا ‘ جس کا ذکر بایں الفاظ کیا جارہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :92 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں ( اَوْس اور خَزْرَج ) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے ۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِ جنگ ہوتا ، تو دونوں کے حلیف یہُودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما ہوجاتے تھے ۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بُوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے ۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہُودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہُودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے ، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انہیں چھُڑاتا تھا ، اور اس فدیے کے لیے دین کو جائز ٹھہرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا ۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے ، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہ تو اوپر گذر چکا ہے کہ بنی اسرائیل کے سر پر پہاڑ کھڑا کر کے ان سے تورات کے مسئلوں پر عمل کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ یہود کے قائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں تورات کے آٹھ مسئلے ذکر کر کے فرمایا ہے کہ باوجود ایسے سخت عہد کے سوا چند آدمیوں کے تم سب ان مسئلوں پر عمل نہیں کرتے اور اپنے عہد سے پھرگئے ہو۔ اور پھر آگے جاکر فرمایا کہ جو کوئی ایسے کام کرے اس کی یہی سزا ہے کہ دنیا میں وہ طرح طرح سے رسوا ہوگا اور عقبیٰ میں سخت عذاب بھگتے گا۔ مسئلوں میں پہلا مسئلہ توحید کا ہے کہ اللہ کو وحدہ لا شریک لہ جاننا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرتا یہ حکم اللہ تعالیٰ نے ہر ایک رسول کی امت کو دیا ہے۔ چناچہ سورة نحل میں فرمایا ہے { ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبد وا اللہ واجتنبوا الطاغوت } ص ١٦: ٢٦) جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کی تمام امتوں میں جو رسول اللہ تعالیٰ نے بھیجے ہیں ان کی امتوں کو یہی بات سمجھانے کو بھیجے ہیں کہ اللہ ہی کی خالص عبادت کریں اور شرک سے دور رہیں۔ سوا اللہ تعالیٰ کے جس چیز کی پوجا کی جاوے اس کو عربی میں میں طاغورت کہتے ہیں۔ صحیحین میں حضرت معاذ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا حق اس کے بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے اس حق کے ادا ہونے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے ایسے بندوں کو دوزخ کے عذاب سے بچائے ١ شرک ایک تو ظاہری کہ آدمی سوا اللہ کے کسی چیز کی پوجا کرے۔ دوسرا چھپا ہوا چھوٹا شرک ریا کاری ہے کہ لوگوں کے دکھاوے کے لئے آدمی اللہ کی عبادت کرے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا حق پیدا کرنے کے لئے انسان کو دونوں طرح کے شرک سے بچنا چاہیے۔ مسندامام احمد میں محمود بن لبید کی صحیح سند سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ کو اپنی امت کے چھوٹے شرک کا بڑا خوف ہے۔ صحابہ نے پوچھا چھوٹا شرک کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ریا کاری ٢۔ یہود میں سے جب تورات ضائع ہوگئی تو حضرت جبرئیل نے حضرت عزیر کو تورات یاد کرا دی اور حضرت عزیر نے بنی اسرائیل کو اپنی رو سے ساری تورات لکھوا دی اس پر یہود حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا کہنے لگے اور ایسے بڑے توحید کے عہد پر قائم نہیں رہے جس کا مفصل ذکر سورة توبہ میں آئے گا۔ اسی طرح اور مسئلوں کا عمل انہوں نے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کیا اور ماں باپ کے سبب سے ہر ایک انسان پرورش پاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ ماں باپ کا حق کا ذکر کیا ہے۔ مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے ماں باپ کو یا فقط ماں یا فقط باپ کو ان کے بڑھاپے کی حالت میں زندہ پایا اور پھر بھی ان کی خدمت کے اجر میں اس شخص نے جنت حاصل نہ کی تو ایسا شخص بڑا بد نصیب ہے ٣ لوگوں سے نیک بات کہنے میں وعظ و نصیحت بھی داخل ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص ہاتھ یا زبان سے خلاف شرع بات کو منع نہ کرسکے تو ضعیف درجہ ایمان کا یہ ہے کہ دل سے اس خلاف شرع بات کو برا جانے ٤۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں سے نیک بات کہنے میں وعظ نصیحت کا خیال رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:83) اذ فعل محذوف۔ اذکر کے متعلق ہے اس ظرف زمان ہے۔ بطور اسم ظرف مکان یا حرف مفاجاۃ بھی آتا ہے۔ میثاق بروزن مفعال اسم آلہ ہے۔ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنے کا ذریعہ ۔ وثاقۃ سے ۔ یا پختگی اور مضبوطی۔ (بمعنی مصدر) جیسے الذین منقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ (2:27) وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو توڑتے ہیں۔ میثاق اس عہد کو بھی کہتے ہیں جو قسموں کے ساتھ مؤکد کیا گیا ہو (نیز ملاحظہ ہو 2:27) میثاق بنی اسرائیل مضاف، مضاف الیہ۔ بنی اسرائیل سے لیا گیا عہد۔ اخذنا کا مفعول ہے۔ لا تعبدون سے لے کر واتو الزکوۃ تک میثاق کا مضمون ہے۔ لا تعبدون (مضارع منفی جمع مذکر حاضر) خبر بمعنی نہی ہے (تم پرستش نہیں کرو گے ، بمعنی تم پرستش مت کرو) یہ صریح امر یا نہی ہے۔ ابلغ ہے۔ ایسے ہی اور جگہ قرآن مجید میں ہے ولا یضار کاتب ولا شھید (2:282) اور نہ نقصان پہنچایا جاوے لکھنے والا اور نہ گواہ ۔ لا یضار بمعنی نہی ہے یعنی کاتب اور گواہ کو نقصان مت پہنچاؤ۔ اسی بناء پر یہ احسنوا (جو بالوالدین احسانا سے قبل محذوف) اور قولوا (جو آگے آرہا ہے) کا عطف لا تعبدون پر مستحسن ہوگیا۔ وبالوالدین احسانا۔ ای واحسنوا بالوالدین احسانا (اور ماں باپ سے بھلائی کرتے رہنا) وذی القربی۔ اس کا عطف جملہ ماقبل میں الوالدین پر ہے۔ یعنی اور قرابت داروں کے ساتھ (بھی) حسن سلوک کرنا۔ القربی مثل الحسنی یا الرجعی مصدر ہے۔ والیتمی۔ یتیم کی جمع ہے۔ اس کا عطف بھی مثل ذی القربی۔ الوالدین (جملہ سابقہ) پر ہے۔ والمساکین۔ مسکین کی جمع۔ اس کا عطف بھی مثل ذی القربی والیتمی ہے۔ مسکین بروزن مفعیل سکون سے مشتق ہے۔ مسکین کو مسکین اس لئے کہتے ہیں کہ اسے فقر اور تنگدستی نے ایک جگہ ساکن کردیا ہے۔ وقولوا۔ اس کا عطف احسنوا پر ہے (احسنوا بالوالدین احسانا) ۔ حسنا۔ نیک بات۔ مصدر ہے۔ مبالغہ کے طور پر قول کو حسن (نیکی) کہہ دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی بات کہو جو سرتا پا نیکی ہو واقیموا الصلوۃ واتو الزکوۃ۔ ہر دو چیزوں کا عطف احسنوا پر ہے۔ ثم۔ پھر تراخی زمان کے لئے ہے اس میں تو بیخ ہے مخاطبین کے لئے کہ مدت مدینہ تک اس میثاق کے زیر اثر رہنے کے بعد تم پھرگئے۔ تولیتم ۔ ماضی جمع مذکر حاضر، تولی مصدر سے ، تم پھرگئے۔ تم نے منہ موڑ لیا۔ وانتم معرضون ۔ جملہ ھالیہ مؤکدہ ہے فاعل تولیتم سے یا یہ جملہ معترضہ ہے اور تم تو ہو ہی ایسی قوم جو عادۃ مواثیق سے پھرجانے والی ہے۔ معرضون اسم فاعل جمع مذکر حاضر اعراض (افعال) مصدر، منہ موڑنے والے۔ رخ گردانی کرنے والے۔ شروع رکوع سے بنی اسرائیل کو بطور غیبت ارشاد فرمایا اور ثم تولیتم صیغہ خطاب سے کلام کا رخ موڑ دیا۔ جو بنی اسرائیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اور جو آپ سے پہلے تھے سب کو بطور تغیب خطاب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 آیات سابقہ میں بنی اسرائیل کو وہ تاریخ احسانات یاد لائے گئے ہیں جو ان کے بزرگوں پر کئے گئے اور انہوں نے شکر گزاری کی بجائے کفر کیا جس کے نتیجہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی بار عتاب نازل ہوا اب یہاں ان کو وہ عہد یاد لایا جا رہا ہے جو اصل احکام (عبادات ومعامالات) دیتے وقت ان سے لیا گیا تھا اور بتایا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کی پابندی نہ کو او اعراض واہمال کو اپنا شعار بنا لیا اسی قسم کا حکم سورتہ نساء (آیت :26) میں امت مسلمہ کو بھی دیا گیا ہے۔ اب ن کثیر عبادت کی چار قسمیں ہیں (1) بدنی جیسے طواف۔ رکوع سجدہ وغیرہ (2) مالی جیسے صدقہ خیرات کرنا اور نذرانیاز ماننا، (3) لسانی جیسے کسی کے نام وظیفہ جپنا یا اٹھتے بیٹھے چلتے پھر تے کسی کا نام لینا۔ (4) قلبی جیسے کسی پر بھروسہ رکھنا کسی سے خوف کھانا یا امید رکھانا۔ یہ سب عبادتیں اللہ کے لیے ہیں ان میں جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنایا وہ شرک کا مرتکب ہوگیا۔ سلفیہ) ماں باپ کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آنے کو اللہ تعالیٰ علاؤ اس آیت کے متعدد دوسری آیات میں عبادت الہی کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے ثابتج ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں سب سے افضل عمل یہی ہے عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریا فت کیا سب سے افضل عمل کو نسا ہے ؟ فرمایا الصلوہ لوقھا کہ نمازوں کو اول وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا پھر کو نسا : فرمایا بر الولدین ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا ، (ابن کثیر اور قولو اللناس حسنا میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر شرعی لحاظ سے حسن ہونے کا اطلاق ہوسکتا ہو اور یہ لفظ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی شامل ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ل : کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگر تم کچھ اور نہ کرسکو تو کم سے کم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی ہی سے پیش آجاؤ (صحیح مسلم۔ ترمذی) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلے احسان بالفعل کا حکم دیا ہے اور پھر قولو اللناس حسنا میں احسان قولی کا حکم ہے اس کے بعد اقیموا الصلوتہ اوتو الز کوہ میں اس عبادت اور احسان کو متعین کردیا ہے اور اس سے وہ نماز اور زکوہ مراد ہیں جو ان کے مذہب میں تھیں۔ پس یہ آیت ہر قسم کی عبادت بدنی مالی۔ قولی اور قلبی پر مشتمل ہے اور عبادات و معاملات کے اصول بحیثیت مجموعی اس آیت میں آجاتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 83 86 اسرارو معارف بنی اسرائیل ہی کی حالت بیان کرتے ہوئے مزید ارشاد ہوتا ہے کہ ذرا وہ منظر چشم تصور کے سامنے لائو ، جب ہم نے ان سے عہد لیا تھا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے دوسرے والدین کے ساتھ سلوک کرو گے اور تیسرے یہ کہ یتیموں اور مساکین کے ساتھ احسان کرو گے اور چوتھے یہ کہ نوع انسانی تمہارے حسن کلام سے مستفید ہوگی اور پانچویں یہ کہ نماز ادا کرو گے اور جو صدقات فر ض ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو گے۔ مگر سوائے معدودے چند لوگوں کے تم ان باتوں سے پھرگئے۔ یہود ونصاریٰ دعویٰ تو اللہ ہی کی عبادت کا کرتے تھے مگر عملاً اپنے علماء اور ہبان جو کہتے کر گزرتے تھے خواہ وہ اللہ کی اطاعت کے خلاف ہی ہوتا۔ ان کی اس حرکت کو اللہ کریم نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ اتخذواحبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ ، کہ انہوں نے اللہ کریم کو چھوڑ کر علماء سو اور اپنے بےدین پیروں کو اپنا رب بنا لیا ہے۔ یہ دونوں ادارے یعنی علماء اور پیر ہی اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی میں ان سے رہنمائی حاصل کرنے کے محتاج ، مگر جب یہ بگڑتے ہیں تو اللہ کی پناہ ! قوموں کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ، جیسے یہود کے علماء نے اور ان کے پیروں نے یہاں تک زیادتی کی کہ اللہ کی کتاب کو بدل کر رکھ دیا۔ انبیاء جو اصلاح احوال کے لئے تشریف لائے ان کو قتل کیا۔ حتیٰ کہ خود حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات برکات کے اوصاف جو تورات میں مذکور تھے بدلے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قتال سے بھی باز نہ رہے اور یہ قوم آنکھیں بند کرکے ان کے پیچھے دوڑتی رہی جسے اللہ نے سخت ناپسند فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم نے اللہ کی عبادت چھوڑ کر ان ہی کی پوجا شروع کردی حالانکہ یہ لوگ اللہ کی طرف بلاتے تو ان کی اطاعت ضروری تھی مگر جب یہ خود اس راہ سے بھٹکے تو تمہیں چاہیے تھا کہ ان کو چھوڑ دیتے اسی طرح جو شخص اپنے نفس اور خواہشات نفس کی تکمیل میں حدود اللہ کی پرواہ نہیں کرتا وہ بھی غیر اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے جس کے لئے ارشاد ہوا۔ اتخذالھہ ھواہ۔ علمائے سو اور رہبان : دراصل عالم کا منصب مذہب ایجاد کرنا نہیں بلکہ مذہب بیان کرنا ہے اور اللہ اور اس کے نبی کی بات کو خلق خدا تک پہنچانا ہے اگر وہ باتیں گھڑنے میں لگ گیا تو بھٹک گیا۔ رہا پیر تو پیر علماء سے ہی بنتے ہیں یعنی ہر عالم پیر نہیں ہوتا مگر ہر پیر عالم ہوتا ہے کہ جاہل کی بیعت ہی حرام ہے۔ عالم ارشادات نبوت کو لوگوں تک پہنچاتا ہے تو پیر ارشادات کے ساتھ انوار برکات کا حامل بھی ہوتا ہے اور یہ سب کچھ تب ہی ہوگا۔ جب وہ خود اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت گزار ہوگا۔ اگر وہ اپنی زندگی سنت کے خلاف رکھتا ہے تو اس کے پاس برکات کہاں اور دوسروں کو سوا گمراہی کے اس سے کیا حاصل۔ اس کے بعد دوسرا درجہ والدین سے حسن سلوک کا ہے کہ وہ تیرے دنیا میں آنے کا سبب بنائے گئے۔ اولاد پر اور اس کے مال پر ان کا حق ہے اگرچہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی عزت بہرحال ضروری ۔ دین کے معاملہ میں ان کی اطاعت نہ کرے ان کی بےعزتی نہ کرے اور نہ حقیر جانے بلکہ اصلاح کے لئے دعا کرتا رہے۔ اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی شخص سے دوستی کرنے سے پہلے اسے دیکھ لو ، کیا اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اگر نہیں تو کم از کم اپنے والدین کی عزت کرتا ہے جنہوں نے دنیا میں اس کے ساتھ زیادہ بھلائی کی ہے اگر ایسا نہیں تو تو اس سے کیا امید وفارکھتا ہے۔ والدین کے بعد قرابت داروں کا حق ہے ان سے حسن سلوک کرو ، قرابت کو قائم رکھو اور قطع رحمی کے قریب نہ پھینکو۔ پھر معاشرے میں مستحق افراد یعنی یتیم اور مسکین لوگ تمہاری توجہ سے محروم نہ رہیں ، حتیٰ کہ نوع انسانی کی بہی خواہ رہو۔ اور لوگوں سے حسن کلام سے پیش آئو ان سے بدکلامی نہ کرو۔ یعنی ہمیشہ پیار و محبت سے حق بات پہنچاتے رہو۔ حسن کلام یہ ہے کہ کلام حق بھی ہو اور مناسب طریقے سے کہا بھی جائے مداہنت یعنی محض کسی کو خوش کرنے کی خاطر غلط باتیں اور بےجا خوشامد کو احسن کلام نہیں کہا جاسکتا۔ نماز ادا کر رہو ، اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ معاملات کی اصلاح پر صلاحیت عبادات کا مدار ہے ترتیب قرآنی سے یہ بات واضح ہے کہ جب تک معاملات درست نہ ہوں گے عبادات میں لذت کہاں۔ بلکہ اگر بات زیادہ بگڑی تو عبادات چھوٹ ہی جائیں گی۔ جیسا کہ آج کل حالات سامنے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ بھی اپنے معاملات درست نہ رکھ سکے نتیجتاً عبادات گئیں اور بالآخر ایمان رخصت ہوا۔ سوائے ان چند لوگوں کے جنہیں اللہ نے توفیق استقامت عطا کی اور آخر کار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ جنہوں نے ان میں سے پایا۔ انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا نصیب ہوا۔ فرمایا تم تو ہی ہو بدعہد اور پھرجانے والے لوگ۔ یہی ایک بات تھوڑی ہے بھلا وہ وقت یاد کرو ! واذاخذنا میثاقکم……………وانتم تشھدون۔ کہ جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا کہ اپنا خون نہ گرائو گے اور نہ اپنی جانوں کو وطن سے نکلنے پر مجبور کرو گے۔ یہ ہے اخوت اسلامی کو مسلمان سارے ہی ایک ہی بدن کے اجزاء ہیں۔ اگر مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرتا ہے تو گویا وہ اپنا ایک حصہ جسم کاٹ رہا ہے۔ یہ ایسا عہد ہے کہ جس کا تم نے نہ صرف اقرار کیا تھا بلکہ اب تک تسلیم کرتے ہو اور مانتے ہو۔ ثم انتم ھئولاء تقتلون انفسکم………………وما اللہ بغافل عما تعملون۔ پھر کیا تم نے اس کا پاس کیا ہرگز نہیں۔ بلکہ اے یہود یا اے بنی اسرائیل ! یہ تم ہی ہو جو آپس میں ایک دوسرے کا گلاکاٹتے ہو۔ اور اپنوں کو اس قدر تنگ کرتے ہو کہ وہ ترک وطن پر مجبور ہوجاتے ہیں اور پھر جب کسی کو قید کی حالت میں پاتے ہو تو اسے آزاد کراتے ہو اور اس کی خاطر رق میں خرچ کرتے ہو کہ ہمارا دینی بھائی ہے حالانکہ اس کو اس ذلت تک پہنچانے کے ذمہ دار بھی تو تم ہی ہو اور اس کو ذلیل و خوار کرکے ترک وطن پر مجبور کرنا ، اس کو ایذا دینا ہی تم پر حرام تھا وہاں تمہیں اللہ کی اطاعت کیوں بھول گئی ؟ کیا اللہ کی کتاب کے بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کر بیٹھے ہو کہ اسے کچھ اہمیت ہی نہیں دیتے۔ سو اگر انکار ہی ہے تو یاد رکھو کہ تمہارے اس فعل پر تمہیں دنیا میں ذلت نصیب ہوگی اور تم کبھی عزت کی زندگی بسر نہ کرپائو گے یعنی جس شے کے حصول کے لئے تم نے دوسروں کی گردن کاٹی کہ میں اس کی دولت سمیٹ لوں یا میری دھاک بیٹھ جائے۔ وہ تمہیں حاصل نہ ہوسکے گی اور یہی اصول ان قوموں پر لاگو ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرتی ہیں کہ عزت کی زندگی سے محروم ہوجاتی ہیں اور خانہ جنگی کبھی عروج کا سبب نہیں بنی یہ تو اس عمل کا دنیاوی نتیجہ تھا۔ اب آخرت میں اس عمل کے ساتھ احکام الٰہی کا انکار اگرچہ ایک ہی کیوں نہ ہو بھی شامل ہوگیا جو کفر ہے صرف عمل نہ کرنا تو فسق ہے مگر اس کو کیا کیا جائے کہ لوگ کہتے ہیں یہ حکم ہے ہی فضول اور ناقابل عمل تو یہ صریح کفر بن جاتا ہے اور اشد عذاب یعنی بہت سخت عذاب میں مبتلا کردے گا اور یادرکھو اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح آگاہ ہے یعنی ایسا بھی ہرگز نہیں کہ دیکھ تو رہا ہو مگر نگاہ میں سستی ہو اور موٹی موٹی باتیں دیکھ لیں کچھ رہ بھی گئیں۔ نہیں ہرگز نہیں ، وہ پوری طرح تمام اعمال وافعال کے ساتھ سارے ولی عقائد کو بھی دیکھ رہا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 83 تا 86 لا تعبدون (تم عبادت نہ کرو گے) ۔ احسان (اچھابرتاؤ بہتر معاملہ) ۔ ذی القربیٰ (رشتہ دار) ۔ یتمی (یتیم، بےباپ کے بچے) حسن (اچھی بات، بھلائی کی بات) ۔ تولیتم (تم پلٹ گئے) ۔ معرضون (منہ پھیرنے والے) ۔ لا تسفکون (تم نہ بہاؤ گے ) ۔ دماء کم (اپنوں کے خون) ۔ دیار (گھر) ۔ اقررتم (تم نے اقرار کیا) ۔ تشھدون (تم گواہ ہو) ۔ ھؤلاء (وہی (تم ہو) ۔ تظھرون (تم چڑھائی کرتے ہو، چڑھ کر جاتے ہو) ۔ الاثم (گناہ) ۔ العدوان (زیادتی، ظلم ) ۔ اسری (اسیر) قیدی) ۔ تفادوھم (تم ان کا فدیہ دیتے ہو، بدلہ دیتے ہو) ۔ محرم (حرام کردیا گیا) ۔ افتؤمنون (کیا پھر تم ایمان لائے ہو (ا، کیا، پھر، تومنون، تم ایمان لائے ہو) ۔ ماجزاء (کیا بدلہ ہے، کیا سزا ہے) ۔ خزی (رسوائی) ۔ یردون (وہ لوٹائے جائیں گے) ۔ اشد العذاب (سخت عذاب) ۔ اشتروا (انہوں نے خرید لیا) ۔ الضلالۃ (گمراہی) ۔ لا یخفف (کمی نہ کی جائے گی) ۔ لا ینصرون (مدد نہ کئے جائیں گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 83 تا 86 بنی اسرائیل جن کی پوری تاریخ عہد شکنیوں اور وعدہ خلافیوں سے بھری ہوئی ہے ان آیات میں ان کو اپنے عہد کی پابندی کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ یہودیہ اور اسرائیل کی الگ الگ ریاستیں قائم ہونے کے بعد دونوں گروہوں میں انتقام لینے اور مخالفت کرنے کا یہ عجب بھونڈا طریقہ رواج پا گیا تھا کہ دونوں ایک ہی کتاب پر ایمان رکھنے کے باوجود مشرک طاقتوں کو ابھار کر اپنے مخالف یہودیوں پر چڑھائی کراتے۔ باہمی جنگ میں جب دشمنوں کے ہاتھوں ان کے اپنے لوگ قید ہو کر آتے تو یہ کہہ کر ان کے لئے بڑی بڑی رق میں فدیہ میں دے کر چھڑاتے کہ اپنوں کو فدیہ دے کر چھڑا نا ہمارا قومی اور مذہبی فریضہ ہے اور اس کا حکم ہمیں توریت میں دیا گیا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اپنوں کو قتل کرانا، ان کو بستیوں سے نکلوانا اور دربدر کی ٹھوکریں کھلوانا تو ان کے نزدیک کوئی گناہ کی بات نہ تھی مگر لوگوں پر قوم پرستی کی دھونس جمانے کے لئے فدیہ دینا ان کو چھڑوانا اور اس کے لئے اللہ کی آیات کا سہارا لینا افسوس ناک ہے اس لئے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو اپنی خواہشات نفس کا کھلونا بنا رکھا تھا۔ جو بات ان کی خواہش نفس کے مطابق ہوتی اس پر عمل کرلیتے لیکن جس بات میں ان کے نفس پر ضرب پڑتی اسے چھوڑ دیتے۔ قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت سارے عرب میں اور یثرب میں خصوصاً باہمی جنگیں اور حریفانہ کشمکش بڑی شدت سے جاری تھی۔ یثرب یعنی مدینے میں رہنے والے کچھ قبیلے تو مشرک اور کچھ یہودی تھے۔ اوس اور خزرج دو مشرکانہ عقیدہ رکھنے والوں کے قبیلے تھے جن کی آپس کی جنگیں عرب کی تاریخ میں بڑی طویل اور بڑی مشہور ہیں۔ یہودیوں کے قبیلوں کا نام بنو قریظہ اور بنو نضیر تھا۔ ان دونوں قبیلوں کی ایک کتاب اور ایک مذہب ہونے کے باوجود شدید دشمنیاں چل رہی تھیں۔ جب اوس و خزرج کی آپس میں جنگیں ہوتیں تو بنو قریظہ اوس کے ساتھ اور بنو نضیر خزرج کے ساتھ حلیف اور ساتھی بن کر جنگ کرتے ، اس طرح دشمنوں اور مشرکوں سے مل کر یہودی آپس ہی میں ایک دوسرے کا گلا کاٹتے تھے جنگ ختم ہونے کے بعد جو یہودی گرفتار ہو کر آتے تھے تو پھر توریت کی دھائی اور اللہ کے احکامات کا سہارا لینے ہوئے بڑی بڑی رق میں لے کر پہنچتے اور اپنے قبیلے کے یہودیوں کو جنگی قید سے آزاد کراتے۔ یہ کہہ کر فدیہ دیتے کہ یہ تو ہمارا قومی اور ملی فریضہ ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کیا ہے کہ اپنے ہی ہم مذہب بھائیوں کو قتل کرانا، ان پر مشرکوں کو چڑھا کرلے جانا، انہیں وطن سے بےوطن کرانا اور دربدر کی ٹھوکریں کھلوانا کیا اس کو توریت میں حرام قرار نہیں دیا گیا ؟ حریفانہ کشمکش میں تو تم اس بات کو بھول جاتے ہو اور دنیا کو دکھانے کے لئے صرف فدیہ دے کر چھڑانے کی آیات تمہیں یاد رہتی ہیں۔ بعض آیات کا انکار اور بعض آیات پر ایمان یہ تو کھلی ہوئی منافقت اور کفر ہے۔ اس رکوع کی آیات میں بنی اسرائیل کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے، والدین، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے، حسن اخلاق ، نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ قائم کرنے کا جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرو تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اس عہد کا لحاظ کرو ورنہ تمہیں دنیا کی زندگی میں تو رسوائی اور ذلت سے واسطہ پڑے گا ہی لیکن تم اس طرح آخرت کے عذاب کے بھی مستحق بن جاؤ گے، جس سے دنیا و آخرت دونوں برباد ہو کر رہ جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ لیا حالانکہ یہود نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ نہیں لیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ضرور ان سے ان باتوں کا وعدہ لیا ہوا ہے۔ ہر دور میں دین کے بنیادی ارکان اور احکام ایک ہیں اور ان کی ترتیب بھی ایک جیسی ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا جسے حقوق اللہ کہا جاتا ہے۔ حقوق اللہ کے بعد والدین کی تابعداری اور ان کے ساتھ احسان کرنا ہے۔ اور ان کے ساتھ قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، لوگوں سے اچھی بات کہنا، نماز کا اہتمام کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ رب اور خالق ہے لیکن اس نے اپنی تخلیق اور ربوبیت کا ذریعہ والدین کو بنایا ہے اس لیے اپنی ذات کے بعد اس نے اس مقدس رشتہ کو تقدیس و تکریم دیتے ہوئے ہدایات فرمائیں کہ اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ ہر دم اچھا سلوک کرتی رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی اسی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ارشادات فرمائے : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نمازوقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ (عَنْ بَھْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ أَبَرُّّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ ) (رواہ ابو داؤد : باب فی بر الوالدین) ” بہز بن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے پوچھا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کس سے اچھا سلوک کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَافِلُ الْیَتِیْمِ لَہٗ أَوْلِغَیْرِہٖ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطٰی) (رواہ مسلم : باب الإحسان إلی الأرملۃ۔۔ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے رشتہ دار یا کسی دوسرے یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں ایسے ہوں گے۔ راوی نے درمیانی اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ الْیَھُوْدَ دَخَلُوْا عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا أَلسَّامُ عَلَیْکَ فَلَعَنَتْھُمْ فَقَالَ مَالَکِ قُلْتُ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ فَلَمْ تَسْمَعِیْ مَاقُلْتُ وَعَلَیْکُمْ ) (رواہ البخاری : باب الدعاء علی۔۔ ) اچھی بات کا حکم : ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا : السّام علیک کہ تجھ پر ہلاکت ہو۔ حضرت عائشہ (رض) نے ان پر لعنت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : عائشہ ! تجھے کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ فرمایا تو نے میری بات نہیں سنی میں نے وعلیکم کہا کہ تم پر بھی ہو۔ “ بیوہ اور مسکین کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت : (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِيْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین پر نگران اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ “ مسائل ١۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، والدین سے حسن سلوک کرنا، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور ہمیشہ اچھی بات کہنا، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ سے عہد نبھانے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن مقام والدین : ١۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ : ٨٣) ٢۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٣۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٤۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) ٥۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) (دیگر احکام کے بارے میں اگلے مقامات پر وضاحت ہوگی)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

گزشتہ سبق میں جہاں بنی اسرائیل کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کیا گیا تھا ، اس میثاق کی طرف اشارہ بھی کیا گیا تھا ۔ یہاں اس معاہدہ کی بعض شقوں کی طرف تفصیلی اشارہ کیا جاتا ہے ، پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ جس معاہدہ کا ذکر کیا ہے وہ وہی معاہدہ ہے جو ان کے ساتھ کوہ طور کو ان کے سروں پر لٹکانے کے بعد طے پایا تھا ۔ اور جس کے بارے میں انہیں تاکید کی گئی تھی کہ وہ اسے مضبوطی سے پکڑیں اور اس کے اندر جو ہدایات انہیں دی گئی ہیں انہیں یاد رکھیں ۔ غالبًا اس کے اندر دین کے اساسی امور کا بیان تھا اور یہ اساسی امور وہی ہیں جواب اسلام نے ان کے سامنے پیش کئے ہیں اور جنہیں وہ کوئی عجیب اور نئی چیز سمجھ کر رد کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو عہد کیا تھا ، وہ جن امور پر مشتمل تھا ، ان میں سے ایک اہم امر یہ تھا کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، یعنی وہ مکمل توحید کا عقیدہ اختیار کریں ۔ اس عہد میں یہ حکم بھی تھا کہ والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ اس میں یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کریں اور ظاہر ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اچھی باتوں میں سرفہرست ہے ۔ نیز اس عہد میں نماز فرض کی گئی تھی اور زکوٰٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا ، غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جو اسلام کے اندر بھی اساسی امور سمجھے جاتے ہیں اور یہ سب باتیں اسلام میں فرض قرار دی گئی ہیں۔ اس عہد کے مطالعے سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جو اسلام ہے اور یہ کہ اسلام اس دین کی آخری کڑی ہے اور اس میں سابقہ شرائط کی تمام اصولی باتوں کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ دوسری حقیقت یہ عیاں ہوتی ہے کہ یہودیوں کو دین اسلام سے بےحد بغض تھا ۔ اسلام انہیں محض انہیں باتوں کی طرف بلارہا تھا جس کا انہوں نے اپنے اللہ سے معاہدہ کررکھا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کررہے تھے۔ ان کے اس شرمناک طرز عمل کی وجہ سے انداز گفتگو غائبانہ کلام سے تبدیل ہوکر خطاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے حالانکہ اس سے قبل بنی اسرائیل کو چھوڑ کر مومنین کو خطاب کیا جارہا تھا اور ان کے سامنے ان کے برے کارنامے بیان کئے جارہے تھے۔ ان کے یہ سیاہ کارنامے بیان کرتے کرتے اچانک ان سے مخاطب ہونا ان کے لئے سخت شرمندگی کا باعث ہے ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلا قَلِيلا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ ” مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھرگئے ہو اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔ “ اس سے وہ بعض راز معلوم ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی اس عجیب کتاب میں واقعات کو بیان کرتے ہوئے ، کلام میں اچانک التفات کیوں ہوتا ہے ۔ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل سے عہد و پیمان اور ان کا انحراف اس آیت شریفہ میں توریت شریف کے چند احکام مذکور ہیں بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے پختہ عہد لیا تھا کہ تم ان سب کاموں کو کرنا انہوں نے عہد کرلیا۔ لیکن ان میں سے تھوڑے سے آدمیوں کے علاوہ اس عہد سے پھرگئے اور عہد کی خلاف ورزی کرتے رہے۔ ان کے عہد سے پھرجانے کا ذکر فرمانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ و أنتم معرضون کہ اے یہودیو ! تمہاری عادت اور مزاج ہی یہ ہے کہ حق سے اور قول وقرار سے اور اطاعت سے اعراض کیا کرتے ہو۔ اور خاص طور سے زمانہ نزول قرآن کے یہودیوں کو مخاطب فرمایا کہ تم بھی اپنے آباؤ اجداد کے طریقے پر ہو اور قبول حق سے اعراض کئے ہوئے ہو۔ آیت شریفہ میں اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے۔ اور پھر والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور رشتہ داروں اور یتیموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم فرمایا اور لوگوں سے اچھی باتیں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا۔ ان چیزوں کا سابقہ امتوں کو بھی حکم تھا اور یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر نسخ وارد نہیں ہوا۔ امت محمدیہ بھی ان سب چیزوں کی مامور ہے۔ سورة نساء میں فرمایا کہ (وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّ بالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) (اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی۔ اور یتیموں کے ساتھ بھی اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور قریب والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور کے اہل قرابت کے ساتھ بھی، اور برابر میں ساتھ بیٹھنے والے کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں) نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم قرآن مجید میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ سورة بقرہ کے شروع ہی میں متقیوں کی صفات میں ان کا ذکر ہوچکا ہے۔ پھر سورة بقرہ کے پانچویں رکوع میں اقامت الصلوۃ اور اداء زکوٰۃ کا حکم مذکور ہے اور اسی سورة بقرہ کے تیرہویں رکوع میں بھی ان دونوں کا حکم فرمایا ہے اور بھی جگہ جگہ نماز اور زکوٰۃ کی اہمیت اور تاکید قرآن مجید میں مذکور ہے۔ یہ جو فرمایا (وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا) اس میں بہت عموم ہے اور یہ بہت سے احکام پر مشتمل ہے اول تو یہ فرمایا کہ لوگوں سے اچھی باتیں کہو اس عموم میں مومن کافر نیک و بد سب قسم کے انسان آگئے پھر اچھی بات میں سب کچھ آگیا نیکیوں کی راہ بتانا برائی سے روکنا نصیحت میں نرمی اختیار کرنا گفتگو میں بڑوں کا ادب ملحوظ رکھنا اور مسئلہ صحیح بتانا اور سچ بات کہنا کسی کو دھوکا نہ دینا۔ حقوق کی و صول یابی میں نرم کلمات استعمال کرنا اور اس طرح کے بہت سارے احکام پر یہ کلمہ مشتمل ہے۔ اس میں یہودیوں سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور صفت جو توریت میں مذکور ہے اسے واضح طور پر ظاہر کریں اور حق اور حقیقت کو نہ چھپائیں۔ مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ مذکورہ احکام کی پاسداری کریں اور ان سے اعراض کرکے ردگردانی نہ کریں اور (وَ اَنْتُمْ مُّعْرِِضُوْنَ ) کا مصداق نہ بنیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

158 یہ موجودہ بنی اسرائیل کی پہلی خباثت ہے۔ بنی اسرائیل سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وساطت سے تورات میں ان احکام کی پابندی کا عہد لیا گیا تھا۔ سب سے پہلا عہد جو ان سے لیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اسی کو کارساز اور مالک ومختار سمجھیں اور اسے ہی حاجات میں پکاریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ توحید چونکہ حق اللہ ہے اور تمام اعمال کی روح وجان ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا۔ لَا تَعْبُدُونَ بظاہر خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے امر ہے اور یہ تعبیر اس لیے اختیار کی کہ امر بصورت خبر زیادہ موکد ہوتا ہے۔ قال الزمخشری خبر بمعنی الطلب وھو اکد (ابن کثیر ص 119 ج 1) وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۔ حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا درجہ ہے اور ان میں پھر والدین کے حقوق سب پر مقدم ہیں اس لیے حق اللہ کے بعد ماں باپ سے حسن سلوک کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں کئی جگہ توحید کے ساتھ ساتھ والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وباالوالدین، لاتعبدون پر معطوف ہے۔ اور اس کا متعلق تُحْسِنُوْنَ محذوف ہے اور اِحْسَاناً اس فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ حقوق اللہ کے بعد والدین کے حقوق کماحقہ ادا کرو۔ والدین کے حقوق بہت ہیں مثلا ان کا اکرام واحترام کرنا، ان کے جائز احکام کی تعمیل کرنا، ادب سے اور نرمی سے باتیں کرنا، ان کی مالی اعانت کرنا وغیرہ، والدین کے یہ حقوق بہرحال لازم ہیں اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر والدین مشرک ہوں اور شرک کرنے پر مجبور کریں تو اس معاملہ میں ان کی اطاعت جائز نہیں البت ان سے حسن سلوک فرض ہے۔159 ان سب کا عطف الوالدین پر ہے۔ والدین کے بعد رشتہ داروں یتیموں اور غریبوں سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا۔ یہاں حسن سلوک سے مراد ان کی مالی اعانت ہے۔ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا۔ اور بنی اسرائیل سے اس امر کا عہد لیا گیا تھا کہ وہ تمام لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آئیں۔ حُسْناً قَوْلاً اور زکوۃ دینے کا عہد بھی لیا گیا تھا۔ یہاں نماز اور زکوۃ سے وہی نماز وزکوۃ مراد ہے جو بنی اسرائیل پر فرض تھی۔160 لیکن تم نے یہ عہد پورا نہ کیا بلکہ ان احکام سے روگردانی کی، توحید کو چھوڑ دیا اور شرک اختیار کرلیا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور اپنے دوسرے بزرگوں کو خدا کے نائب اور کارساز مانا۔ انسانی حقوق پامال کیے۔ نماز وزکوۃ سے لاپرواہی کی اور تم میں سے بہت تھوڑے اس عہد پر قائم رہے۔ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْن۔ یہ اعراض اور عہد شکنی تم سے کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہمیشہ تمہاری عادت قدیمہ ہی یہی ہے۔ تمہارے آبائ و اجداد کا بھی یہی شیوہ تھا۔ اب تمہارا دستور بھی یہی ہے ای وانتم قوم عادتکم الاعراض والتولی عن المواثیق (روح ص 310 ج 1) آج اگر دیکھا جائے تو بنی اسرائیل کے یہ تمام حالات مسلمانوں میں بھی پیدا ہوچکے ہیں جس طرح وہ اللہ کے نبیوں اور ولیوں کو خدا کا شریک بناتے اور پکارتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی حدیں توڑتے تھے بالکل اسی طرح آج اہل اسلام بھی کر رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد اور قول وقرار لیا کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کی عبادت نہ کرنا اور اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور ان کی خوب خدمت کرنا اور قرابت داروں اور محتاجوں اور یتیموں کے ساتھ بھی بھلائی اور نیکی کرنا اور لوگوں سے جب کوئی بات کہنا تو نرمی اور خوش خلقی سے بھلی بات کہنا اور نماز کی پابندی رکھنا اور زکوۃ ادا کرتے رہنا، پھر تم میں سے سوائے تھوڑے آدمیوں کے اور سب اپنے قول وقرار اور عہد و پیماں سے پھرگئے اور تم تو اقرار کر کے پلٹ جانے اور پھرجانے کے عادی ہی ہو۔ (تیسیر) یہ بہی یہود کے اسلاف کی عہد شکنیوں کا تذکرہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جو یہودی تھے ان کو خطاب ہو کیونکہ وہ بھی آخر ان ہی کی اولاد تھے نیز یہ کہ اس قسم کی وعدہ خلافیوں اور عہد شکنیوں میں وہ بھی مبتلا تھے۔ جو حرکات اور بےہودگیاں ان کے بزرگ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ کیا کرتے تھے، وہی یہ نبی آخر الزماں اور ان کے ہمراہیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کو توجہ دلانا مقصود ہو کہ ان یہودیوں کی تو یہ حالت ہے اور تم ان سے ایمان لانے کی امید کر رہے ہو عہد کا مطلب یہاں بھی وہی ہے جو ہم پہلے عرض کرچکے ہیں یہ ضروری نہیں کہ ہر بات پر اقرار نامہ تحریر کرایا جائے بلکہ ہمارا بندہ ہونا اور ان کا خالق ومالک ہونا یہی عہد ہے کہ ان کا کا محکم دینا اور ہمارا کام تعمیل کرنا ہے جب موسیٰ کو خدا کا پیغمبر اور توریت کو خدا کی کتاب تسلیم کرلیا تو اس کا ہر حکم ایک عہد ہے اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ توریت کے بعض احکام کو اس آیت میں عہد سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ وہی باتیں ہیں جو تقریباً ہر پیغمبر کے عہد میں احکام الٰہی کی فہرست میں شامل ہی رہیں اور قرآن میں تو یہ امور بڑی تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں اس آیت میں سب سے پہلے حضرت حق کی عبادت کا حکم ہے پھر ماں باپ کی خدمت و اطاعت کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد قرابت داروں کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ پھر مساکین و تیامی کا ذکر پھر بول چال کی عام تہذیب بتائی ہے اور لوگوں کے ساتھ گفتگو کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے۔ پھر نماز اور زکوۃ کا ذکر ہے ان تمام احکام کی پابندی پر ان سے عہد و پیماں کو یاد دلا کر ان کی عہد شکنی کو یاد دلایا ہے اور ان مخصوص لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو نبی آخر الزماں ؐ کی تشریف آوری سے قبل اپنے اپنے پیغمبروں کے حکم کی تعمیل کرتے رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد آپ پر اور آپ کے قرآن پر ایمان لے آئے۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت ہی کم ہے پھر آخر میں ان کی عام عادت کا اعلان کیا ہے۔ سبحان اللہ کیا خوب ترتیب ہے اور اس قدر فرق مراتب کی رعایت ہے آگے اسی قسم کے ایک اور عہد کا ذکر ہے جس میں سے یہود نے بعض حصہ کو چھوڑ دیا اور بعض حصے پر رسماً عمل کرتے رہے۔ (تسہیل)