Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 91

سورة البقرة

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا نُؤۡمِنُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ یَکۡفُرُوۡنَ بِمَا وَرَآءَہٗ ٭ وَ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمۡ ؕ قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡۢبِیَآءَ اللّٰہِ مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۱﴾

And when it is said to them, "Believe in what Allah has revealed," they say, "We believe [only] in what was revealed to us." And they disbelieve in what came after it, while it is the truth confirming that which is with them. Say, "Then why did you kill the prophets of Allah before, if you are [indeed] believers?"

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے ، کفر کرتے ہیں ، اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں کہ اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیاء کو کیوں قتل کیا؟ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Although The Jews denied the Truth, They claimed to be Believers! Allah said, وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ ... And when it is said to them, meaning, the Jews and the People of the Book, ... امِنُواْ بِمَا أَنزَلَ اللّهُ ... Believe in what Allah has sent down, to Muhammad , believe in and follow him. ... قَالُواْ نُوْمِنُ بِمَأ أُنزِلَ عَلَيْنَا ... They say, "We believe in what was sent down to us." meaning, it is enough for us to believe in what was revealed to us in the Tawrah and the Injil, and this is the path that we choose. ... وَيَكْفُرونَ بِمَا وَرَاءهُ ... And they disbelieve in that which came after it. ... وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَهُمْ ... while it is the truth confirming what is with them. meaning, while knowing that what was revealed to Muhammad. الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَهُمْ (it is the truth confirming what is with them), This means that since what was sent to Muhammad conforms to what was revealed to the People of the Book, then this fact constitutes a proof against them. Similarly, Allah said, الَّذِينَ اتَيْنَـهُمُ الْكِتَـبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَأءَهُمْ Those to whom We gave the Scripture (Jews and Christians) recognize him (Muhammad) as they recognize their sons. (2:146) Allah said next, ... قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاء اللّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ "Why then have you killed the Prophets of Allah aforetime, if you indeed have been believers!" This means, "If your claim that you believe in what was revealed to you is true, then why did you kill the Prophets who came to you affirming the Tawrah's Law, although you knew they were true Prophets! You killed them simply out of transgression, stubbornness and injustice with Allah's Messengers. Therefore, you only follow your lusts, opinions and desires." Similarly, Allah said, أَفَكُلَّمَا جَأءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُم اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ Is it that whenever there came to you a Messenger with what you yourselves desired not, you grew arrogant! Some you disbelieved and some you killed. (2;87) Also, As-Suddi said, "In this Ayah, Allah chastised the People of the Book, قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاء اللّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ (Say (O Muhammad to them): "Why then have you killed the Prophets of Allah aforetime, if you indeed have been believers.""

خود پسند یہودی مورد عتاب یعنی جب ان سے قرآن پر اور نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں توراۃ انجیل پر ایمان رکھنا کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس میں بھی جھوٹے ہیں قرآن تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور خود ان کی کتابوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود ہے ، جیسے فرمایا آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:146 ) یعنی اہل کتاب آپ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں پس آپ سے انکار کا مطلب توراۃ انجیل سے بھی انکار کے مترادف ہے ۔ اس حجت کو قائم کر کے اب دوسری طرح حجت قائم کی جاتی ہے کہ اچھا توراۃ اور انجیل پر اگر تمہارا ایمان ہے پھر اگلے انبیاء جو انہی کی تصدیق اور تابعداری کرتے ہوئے بغیر کسی نئی شریعت اور نئی کتاب کے آئے تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا ؟ معلوم ہوا کہ تمہارا ایمان نہ تو اس کتاب پر ہے نہ اس کتاب پر ۔ تم محض خواہش کے بندے نفس کے غلام اپنی رائے قیاس کے غلام ہو ۔ پھر فرمایا کہ اچھا موسیٰ علیہ السلام سے تو تم نے بڑے بڑے معجزے دیکھے طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، خون وغیرہ جو ان کی بد دعا سے بطور معجزے ظاہر ہوئے لکڑی کا سانپ بن جانا ہاتھ کا روشن چاند بن جانا ، دریا کو چیر دینا اور پانی کو پتھر کی طرح بنا دینا ، بادلوں کا سایہ کرنا ، من و سلویٰ کا اترنا ، پتھر سے نہریں جاری کرنا وغیرہ تمام بڑے بڑے معجزات جو ان کی نبوت کی اور اللہ کی توحید کی روشن دلیلیں تھیں سب اپنی آنکھں سے دیکھیں لیکن ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر گئے ادھر تم نے بچھڑے کو اللہ بنا لیا اب بتاؤ کہ خود توراۃ پر اور خود حضرت موسیٰ پر بھی تمہارا ایمان کہاں گیا ؟ کیا یہ بدکاریاں تمہیں ظالم کہلوانے والی نہیں؟ من بعدہ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد ہے دوسری جگہ ارشاد ہے آیت ( واتخذ قوم موسیٰ ) الخ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد آپ کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اپنی جانوں پر اس گو سالہ پرستی سے واضح ظلم کیا جس کا احساس بعد میں خود انہیں بھی ہوا جیسے فرمایا آیت ( ولما سقط فی ایدیھم ) یعنی جب انہیں ہوش آیا نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کو محسوس کرنے لگے اس وقت کہا اے اللہ اگر تم ہم پر رحم نہ کرے اور ہماری خطا نہ بخشے تو ہم زیاں کار ہو جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 91۔ 2 یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیاء (علیہم السلام) کو تم قتل نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] یہود اپنے قول کے مطابق انجیل اور قرآن پر تو اس لیے ایمان نہیں لاتے تھے کہ یہ کتابیں ان کی طرف نازل نہیں ہوئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تم تورات پر ایمان لاتے ہو تو تورات میں کہیں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی ایسا نبی آئے جو تورات کی تصدیق کرتا ہو اور تورات ہی کے مطابق تمہاری رہنمائی کرتا ہو تو تم اسے قتل کرسکتے ہو ؟ اگر یہ بات نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارا تورات پر بھی ایمان نہیں۔ لہذا ہر لحاظ سے تم بےایمان اور کافر ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں یہود کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ اور اس کا رد ذکر فرمایا گیا ہے، وہ یہ کہ جب انھیں قرآن پر ایمان لانے کے لیے کہا جاتا تو وہ کہتے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا، یعنی ہم تورات کو مانتے ہیں اور اسی کے مکلف ہیں، اس کے سوا ہم کوئی چیز نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اول تو تمہارا قرآن کو نہ ماننا بےمعنی بات ہے، کیونکہ وہ تورات کی تصدیق کرنے والا ہے اور جیسا کہ پچھلی آیت میں ذکر ہے کہ تم پہچان بھی چکے ہو کہ یہ وہی رسول ہے جس کی آمد کا تم شدت سے انتظار کر رہے تھے، پھر اگر تمہارا یہی دعویٰ ہے کہ تم صرف تورات کو مانتے ہو تو تم پہلے انبیاء کو کیوں قتل کرتے تھے ؟ حالانکہ وہ سب انبیاء تمہیں تورات کی طرف دعوت دینے آئے تھے اور تورات میں تمہیں انبیاء کے قتل سے منع کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ تمہارا جھٹلانا محض حسد، بغض اور تکبر کی وجہ سے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Jews flatly refused to believe in any Book of Allah -- like the Evangel or the Holy Qur&an - except in the Torah. This denial is a clear evidence of their infidelity (Kufr کفر). Moreover, they also used to add that they believe in the Torah, for it had been sent down to them. This comes to mean that they denied the other Books just because they had not been sent down to them. Such an argument betrays their envy and malice. The Holy Qur&an refutes their argument in three ways: (1) When the truth and authenticity of the other Books has been established on the basis of irrefutable arguments, what does, then, this denial mean? If they had any doubts as to the arguments on the basis of which authenticity was being claimed for these Books, they could very well have voiced this doubt, and satisfied themselves on this point. But why this flat refusal to believe? (2) The other Books, like the Holy Qur&an, confirm the Torah..If one denies them, one at the same time denies the Torah itself. (3) To slay a prophet is tantamount to infidelity (Kufr), according to all the Divine Books. Moreover, the prophets whom the Jews had killed were themselves Israelites, and their teachings, were based on the injunctions of the Torah. But the Jews not only killed these prophets, but also accepted the killers as their chiefs. This is a direct denial of the Torah, and falsifies their claim that they believe in the Torah. In short, nothing that the Jews say or do is acceptable and valid from any possible point of view. The next verses proceed to refute the Jews on several other counts.

لاصہ تفسیر : اور جب ان (یہودیوں) سے کہا جاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ ان تمام کتابوں پر جو اللہ تعالیٰ نے (متعدد پیغمبروں پر) نازل فرمائی ہیں (اور ان تمام کتابوں میں قرآن بھی ہے) تو (جواب میں) کہتے ہیں کہ ہم (تو صرف) اس (ہی) کتاب پر ایمان لاویں گے جو ہم (لوگوں) پر (بواسطہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے) نازل کی گئی ہے (یعنی توراۃ) اور (باقی) جتنی (کتابیں) اس کے علاوہ ہیں جیسے انجیل اور قرآن ان سب کا وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ توراۃ کے ماسوا کتابیں بھی (فی نفسہ) حق (اور واقعی) ہیں اور (فی نفسہ حق ہونے کے علاوہ) تصدیق کرنے والی بھی ہیں اس کتاب کی جو ان کے پاس ہے (یعنی توراۃ کی) آپ (یہ بھی) کہئے کہ (اچھا تو) پھر کیوں قتل کیا کرتے تھے اللہ کے پیغمبروں کو اس کے پہلے زمانہ میں اگر تم (توراۃ پر) ایمان رکھنے والے تھے، فائدہ : یہود نے جو یہ کہا کہ ہم صرف توراۃ پر ایمان لاویں گے دوسری کتب پر ایمان نہ لاویں گے تو ان کا یہ قول صریحی کفر ہے اور اس کے ساتھ جو یہ کہا کہ (توراۃ) جو ہم پر نازل کی گئی ہے اس سے حسد مترشح ہوتا ہے اس کا مفہوم صاف یہ ہے کہ اور کتابیں چونکہ ہم پر نازل نہیں کی گئیں اس لئے ان پر ایمان نہیں لائیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو تین طرح رد فرمایا ہے ، اول یہ کہ جب اور کتابوں کی حقیت اور واقعیت بھی دلیل قطعی سے ثابت ہے تو پھر اس کے انکار کی کیا وجہ ہے ؟ ہاں اگر اس دلیل میں کوئی کلام تھا تو اس کو پیش کرکے تشفی کرلیتے انکار محض کی آخر کیا وجہ ؟ دوسرے اور کتابیں مثلاً قرآن مجید جو توراۃ کا مصدق ہے تو اس کے انکار سے تو خود توراۃ کی تکذیب و انکار لازم آتا ہے، تیسرے یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرنا تمام آسمانی کتابوں کی رو سے کفر ہے پھر تمہارے گروہ کے لوگوں نے جو کئی نبیوں کو قتل کیا جن کی تعلیم بھی توراۃ ہی کے احکام کے ساتھ خاص تھی اور تم ان قاتلین کو اپنا پیشوا اور مقتدا سمجھتے ہو تو براہ راست توراۃ کے ساتھ کفر کرتے ہو اس سے تو تمہارا توراۃ پر ایمان کا دعویٰ بھی غلط ٹھہرتا ہے غرض کسی بھی پہلو سے تمہارا قول وفعل صحیح اور درست نہیں، آگے بعض اور وجوہ و دلائل سے ان یہودیوں کا رد فرمایا گیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَہٗ۝ ٠ ۤ وَھُوَالْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ۝ ٠ ۭ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٩١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١) اور جب ان یہودیوں سے قرآن حکیم پر ایمان لانے کے متعلق کہا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم توریت پر ایمان لائیں گے اور توریت کے علاوہ اور سب کتابوں کا انکار کریں گے، حالانکہ قرآن کریم میں بھی سچ ہے اور توحید خالص کے متعلق جو کچھ ان کی کتاب (توریت) میں ہے قرآن کے مطابق ہے۔ کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے باپ دادا مومن تھے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جوابا فرمادیجئے کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو اس سے پہلے دیگر نبیوں کو کیوں تم قتل کرتے رہے ہو ؟

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ) (قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا) (وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَ ہٗ ق) ۔ چنانچہ انہوں نے پہلے انجیل کا کفر کیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو نہیں مانا ‘ اور اب انہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کفر کیا ہے اور قرآن کو نہیں مانا۔ (وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ ط) (قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآء اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ ؟ (اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) اگر تم ایسے ہی حق پرست ہو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان رکھنے والے ہو تو تم ان پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ؟ تم نے زکریا (علیہ السلام) کو کیوں قتل کیا ؟ یحییٰ ( علیہ السلام) کو کیوں قتل کیا ؟ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل کی پلاننگ کیوں کی ؟ تمہارے تو ہاتھ نبیوں کے خون سے آلودہ ہیں اور تم دعوے دار ہو ایمان کے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(91 ۔ 93) ۔ اس آیت میں یہود نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہمارا ایمان حضرت موسیٰ اور تورات پر ایسا مضبوط ہے کہ غیر دین کے انکار پر ہم مجبور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس دعوے کو کئی طرح جھٹلایا۔ ایک تو یہ کہ جب قرآن میں تورات کی تصدیق موجود ہے تو جس کا ایمان تورات پر مضبوط ہوگا وہ قرآن کا منکر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن کا انکار اس صورت میں تورات کے سچے ہونے کا گویا انکار ہے۔ دوسرے یہ کہ جس کا ایمان تورات پر مضبوط تھا اس نے ان انبیاء کو کیوں شہید کیا جو تورات کے احکام کی مضبوطی کے لئے آئے تھے۔ تیسرے یہ کہ جس کا ایمان موسیٰ (علیہ السلام) پر مضبوط تھا تو اس نے بچھڑے کی پوجا کیوں کی۔ کیا موسیٰ نے ان کو اس پوجا کے لئے کہا تھا۔ چوتھے یہ کہ جس وقت پہاڑ سر پر لایا جا کر تورات کے موافق عمل کرنے کا عہد لیا گیا تھا اس وقت تمہارے بڑوں نے چپکے سے { وَعَصَیْنَا } کہا تھا پھر تمہارا ایمان تورات پر کیونکہ مضبوط ہوسکتا ہے۔ حاصل یہ کہ تم کو تو تورات پر مضبوط ایمان کا لانا کیا نصیب ہوگا تمہارے بڑے بھی اس سے محروم تھے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنے دعویٰ کے موافق ایمان دار ہو اور تمہارا ایمان تم کو یہی سکھاتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو تو تمہارے ایمان کی تعلیم نہایت نالائق تعلمی ہے بلکہ ایمان داری کیا یہ تو عین بےایمانی ہے۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہدایت کے بعد گمراہ وہی قوم ہوتی ہے جو دین میں زبر دستی کے جھگڑوں میں پڑجائے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ١۔ زبر دستی کے جھگڑے اسی طرح کے ہوتے ہیں جس طرح حق بات کے معلوم ہوجانے کے بعد یہ لوگ زبر دستی کے روز کے جھگڑے حق بات کے ٹالنے کی غرض سے نکالتے ہیں۔ امت محمدیہ کے علماء کو اس طرح کے جھگڑوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:91) اذا قیل لہم ۔۔ انزل اللہ جملہ شرطیہ ہے قالوا ۔۔ علینا جواب شرط ہے۔ اور ویکفرون بما ورآءہ جملہ حالیہ ہے قالوا کی ضمیر مستتر سے وھو الحق مصدقا لما معہم : حال مؤکدہ ہے ما انزل اللہ سے مراد قرآن اور تمام کتب سماویہ ہیں ما انزل علینا سے مراد توراۃ ہے۔ ما وراء ہ۔ میں ما موصولہ ہے اور وراءہ مضاف، مضاف الیہ مل کر صلہ۔ مراد اس سے توارۃ کے علاوہ جو کتب سماویہ ہیں۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب توراۃ کے لئے ہے (جو ان ّیہود) پر نازل ہوئی۔ ورآئ۔ ورآئ۔ مصدر ہے لیکن اس کا معنی ہے آڑ۔ حد فاصل ۔ کسی چیز کا آگے ہونا یا پیچھے ہونا۔ علاوہ ۔ سوا۔ وھو۔ میں ھو ضمیر قرآن پاک کی طرف راجع ہے۔ یا قرآن اور انجیل کی طرف ۔ ما معہم، جو ان کے پاس ہے ۔ قل۔ ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ازاں بعد آیت کے آخر تک مقولہ ہے۔ فلم تقتلون ۔۔ من قبل جزا ہے جو شرط سے مقدم آئی ہے بعد کا جملہ ان کنتم مؤمنین۔ جملہ شرطیہ ہے۔ اگر تم ایماندار تھے تو خدا کے رسولوں کو پہلے کیوں قتل کیا کرتے تھے۔ فلم۔ میں فاء جواب شرط پر دلالت کرتا ہے (جزایہ ہے) لم میں لام تعلیل کا ہے۔ م۔ اصل میں ما تھا ۔ جو استفہامیہ ہے (کس لئے۔ کیوں) ما استفہامیہ کو ما خبر یہ سے جدا کرنے کے لئے الف کو حذف کردیا گیا۔ اسی طرح قرآن مجید میں فیم اور بم اور عم آیا ہے مثلا فمن تبشرون (15:54) تو کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو ۔ اور عم یتساء لون (78:1) (یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں۔ اور قالوا فیم کنتم (4:97) (فرشتوں نے) پوچھا تم کس حال میں تھے تقتلون بمعنی قتلتم ہے۔ مضارع کا صیغہ۔ از منہ گزشتہ میں ان کے قتل انبیاء کے فعل کے استمرار کو ظاہر کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ انبیاء کا قتل کرنا اگرچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں کے آباء و اجداد سے ظہور میں آیا تھا۔ لیکن چونکہ یہ خلف اپنے سلف کے افعال سے راضی اور ان کے متبع ہیں اس لئے ان کے قتل کو ان کی طرف بھی منسوب کردیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اول تو تمہارا قرآن کو نہ ماننا نے معنی بات ہے کہ کیونکہ وہ تورات کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے پھر اگر تمہارا یہی دعوی ہے کہ تم صرف تورات کو مانتے ہو تم نے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کیا حالانکہ تورات میں تمہیں انبیاء کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ تما انبیاء تمہیں تورات کی طرف دعوت دینے آئے ہیں معلوم ہوا کہ یہ تکذیب بغض وعناد اور تکبر کی وجہ سے کر رہے ہو۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اپنے گھناؤنے کردار اور بغض کو چھپانے کے لیے یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ہم اسی بات کو مانیں گے جو ہم پر نازل ہوئی اس کا جواب یہ دیا گیا کہ پھر تم نے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کیا تھا ؟ یہودیوں کو جب بھی دعوت دی گئی کہ اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے تو انہوں نے مذہبی عصبیت اور خود ساختہ علمی مقام کی بنا پر اعلان کیا کہ ہم تورات کے سوا ہر چیز کا انکار کرتے رہیں گے۔ بیشک اس میں ہماری تائید ہی کیوں نہ پائی جاتی ہو۔ اس انکار پر ان سے پوچھا جا رہا ہے اگر تم تورات پر فی الحقیقت ایمان رکھتے ہو تو تمہیں ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ باتیں تو سراسر تمہارے عقیدے کے مطابق اور تورات میں پائی جاتی ہیں ان سے انحراف کا تمہارے پاس کیا جواز ہے ؟ جس بات میں تمہاری تائید ہوتی ہو اس کے انکار کا کیا جواز ہے ؟ تم نے انبیاء کرام کو کیوں قتل کیا جب کہ وہ تمام کے تمام بنی اسرائیل میں سے تھے ؟ حضرت موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چالیس دن کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پرستش کیوں کی اور اب تک گائے پرستی کے کیوں قائل ہو جب کہ تورات میں واضح طور پر گائے پرستی سے منع کیا گیا ہے ؟ در اصل تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو اور تم نے باطل نظریات کو ایمان کا درجہ دے دیا ہے جس میں گائے پرستی کا گھٹیا عقیدہ بھی شامل ہے۔ حالانکہ شرک تمام گناہوں کا منبع اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : (وَإِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَيَّ لَاتُشْرِکْ باللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) (لقمان : ١٣) ” اور جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا کہ پیارے بیٹے ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “ ۔۔ حدیث شرک کے بارے میں (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِيٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا وَإِمَامُ ضَلَالَۃٍ وَمُمَثِّلٌ مِّنَ الْمُمَثِّلِیْنَ ) (مسندا حمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبداللہ بن مسعود) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سخت ترین عذاب اس شخص کو ہوگا جس کو نبی نے قتل کیا یا اس نے نبی کو قتل کیا اور گمراہ امام اور تصویریں بنانے والے کو عذاب ہوگا۔ “ مسائل ١۔ یہودی تورات، قرآن اور کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے وہ صرف اپنے خود ساختہ نظریات کو مانتے ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید پہلی کتب سماوی کی تصدیق کرتا ہے۔ ٣۔ گائے پرستی شرک اور ظلم ہے۔ تفسیر بالقرآن قتل انبیاء بد ترین جرم : ١۔ یہود انبیاء کے قاتل ہیں۔ (آل عمران : ١١٢) ٢۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ( المؤمن : ٢٦) ٣۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔ (النساء : ١٥٧) ٤۔ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠) بنی اسرائیل کے بچھڑے کا انجام : ١۔ بچھڑا کس نے بنایا ؟ (طٰہٰ : ٩٥، ٩٦) ٢۔ بچھڑا کس چیز سے بنایا گیا ؟ (طٰہٰ : ٩٦) ٣۔ بچھڑا آواز نکالتا تھا۔ (طٰہٰ : ٨٨) ٤۔ بچھڑے کا انجام کیا ہوا۔ (طٰہٰ : ٩٧) ٥۔ بچھڑا پوجنے والوں پر ” اللہ “ کی لعنت برستی ہے۔ (طٰہٰ : ٨٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ ” جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں ” ہم تو اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ہمارے ہاں (بنی اسرائیل میں) اتری ہے ۔ “ اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق وتائید کررہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ۔ یہ بات وہ اس وقت کہتے تھے ، جب انہیں قرآن پر ایمان لانے اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ ” ہم پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، ہم اس پر ایمان لاچکے اور وہ کافی وشافی ہے۔ “ اس کے سوا وہ تمام ہدایات کا انکار کرتے تھے ۔ خواہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتری ہوں یا نبی آخرالزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتری ہوں۔ قرآن کریم کے نزدیک ان کا یہ طرز عمل اور ان کی جانب سے توریت کے علاوہ تمام دوسری ہدایات کا انکار ایک عجیب حرکت ہے ۔ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ ” کیونکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق وتائید کررہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود ہے۔ “ یعنی بنی اسرائیل کو حق سے کیا واسطہ ؟ کیا ہوا کہ سچائی ان تعلیمات کی تصدیق کررہی ہے جو ان کے پاس موجود ہیں ، کیونکہ اس سے وہ محروم ہوگئے ہیں ۔ یہ تو خود اپنے نفس کے پجاری ہیں ، اپنی قومی عصبیت کے بندے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے وہ تو اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس سے قبل وہ ان ہدایات کو بھی ٹھکراچکے ہیں جو خود ان کے انبیاء پر اتاری گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھاتے ہیں کہ ان کی حقیقت کھولنے کے لئے اور ان کے موقف کی کمزوری کی وضاحت کے لئے وہ ان پر اس پہلو سے حملہ آور ہوں قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ” کہہ دیجئے کہ اگر تم اس تعلیم پر ہی ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ) کیوں قتل کرتے رہے ؟ تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل تمہارے پاس جو تعلیم وہدایت لے کر آئے تھے ، تم ان پر ایمان لائے ہوئے تھے ، تو اگر تم سچے مومن تھے ، تو تم نے انبیاء عظام کو قتل کیوں کیا ؟ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم توریت کے علاوہ کسی کتاب کو نہیں مانتے، اور اس پر ان سے سوال اس آیت شریفہ میں یہودیوں کا یہ قول ذکر فرمایا کہ ہم صرف توریت پر ایمان لاتے ہیں اس کے سوا کسی کتاب کو نہیں مانتے، ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : (وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ ) کہ جو کتاب ہم نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے وہ اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے۔ جس پر وہ ایمان رکھنے کے مدعی ہیں۔ قرآن کو نہ ماننا توریت کے نہ ماننے کو مستلزم ہے۔ علامہ بیضاوی لکھتے ہیں۔ لأنھم لما کفروا بما یوافق التوراۃ فقد کفروابھا۔ توریت شریف میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ کسی قوم میں سے اللہ تعالیٰ نبی بھیجے تو اس کو مت ماننا اور توریت کے علاوہ اللہ کی کسی دوسری کتاب پر ایمان نہ لانا۔ یہ سب باتیں ان کے ذاتی حسد کی وجہ سے ہیں۔ توریت شریف میں تو نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خبر دی ہے جب نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگئی اور ان کی علامات اور صفات سے یہود نے پہچان لیا کہ یہ نبی آخر الزمان ہیں پھر ان سب کے باوجود آپ پر ایمان نہ لانا اور قرآن مجید کو نہ ماننا یہ توریت کے ماننے سے انکاری ہونا ہے، کہہ رہے ہیں کہ ہمارا توریت پر ایمان ہے حالانکہ ان کا اس پر بھی ایمان نہیں۔ یہودیوں کی بری حرکتوں میں سے یہ بھی تھا کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کردیتے تھے۔ آیت بالا میں فرمایا کہ اگر تم توریت پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کرنے کا ارتکاب کیوں کیا نبی کا قتل کرنا تو توریت شریف کے قانون سے بھی کفر ہے۔ تمہارے آباؤ اجداد نے اس جرم کا ارتکاب کیا تم اس سے راضی ہو اور ان کو اپنا مقتدا مانتے ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ توریت شریف پر نہ تمہارا ایمان ہے اور نہ تمہارے باپ دادوں کا ایمان تھا۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت سے انبیاء ( علیہ السلام) تشریف لائے وہ توریت کے احکام کی تبلیغ کرتے تھے اور انہوں نے توریت کے منسوخ ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا۔ اے یہودیو ! تم ان کو نبوت اور رسالت میں سچا بھی جانتے تھے پھر بھی تم نے ان کو قتل کردیا، حالانکہ وہ تمہاری قوم میں سے تھے۔ معلوم ہوا کہ تمہارا دین و ایمان شریعت موسوی کا اتباع نہیں ہے بلکہ خواہشات نفس کا اتباع ہی تمہارا دین ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

178 جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کتاب اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری ہے اس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی تو خدا کی کتاب کو مانتے ہیں۔ ہم کب اس کا انکار کرتے ہیں ؟ مگر صرف اسکو جو ہم پر نازل ہوئی۔ یعنی ہم تو صرف اپنی کتاب تورات کو مانتے ہیں اس کے سوا کسی اور کتاب کو نہیں مانیں گے۔ وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَهٗ ۔ یہ قَالُوْا پر معطوف اور قول یہود کے لیے بطور تتمہ لایا گیا ہے وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ ۔ یہ یہود کے کذب دعوی کی پہلی اور دوسری دلیل ہے اگر وہ اپنے دعوی میں سچے ہوتے تو قرآن پر ضرور ایمان لاتے۔ کیونکہ قرآن خود تعلیمات حقہ کا حامل اور اصول دین میں پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے لیکن ان کی ضد اور عصبیت کی حد یہ ہے کہ قرآن باوجودیکہ حق ہے اور پھر قرآن کوئی نئی اور غیر مانوس بات بھی پیش نہیں کرتا بلکہ وہ وہی دعوت توحید پیش کرتا ہے جو ان کی تورات میں موجود ہے مگر چونکہ یہ قرآن ان کی قوم کے کسی آدمی پر نازل نہیں ہوا اس لیے وہ اسے نہیں مانتے۔ 179 یہ یہودیوں کے دعویٰ ایمان میں جھوٹے ہونے کی تیسری دلیل ہے یعنی تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ تم اپنی قوم کے انبیائ کو مانتے ہو۔ نیز اس وحی اور کتاب کو مانتے ہو جو تم پر نازل ہوئی ہے اگر تمہارا اپنی قوم کے انبیا اور اپنی کتاب پر ایمان ہوتا تو تم نے اللہ کے پیغمبروں کو کیوں قتل کیا ہوتا ؟ کیونکہ تورات تو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ بلکہ وہ تو انبیائ (علیہم السلام) کے اتباع کا حکم دیتی ہے۔ اس سے یہودیوں نے ایمان بالانبیائ اور ایمان بالنبوۃ کے دعویٰ کی حقیقت معلوم ہوگئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi