Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 92

سورة البقرة

وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ مُّوۡسٰی بِالۡبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۹۲﴾

And Moses had certainly brought you clear proofs. Then you took the calf [in worship] after that, while you were wrongdoers.

تمہارے پاس تو موسیٰ یہی دلیلیں لے کر آئے لیکن تم نے پھر بھی بچھڑا پوجا تم ہو ہی ظالم ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ جَاءكُم مُّوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ... And indeed Musa came to you with clear proofs, meaning, with clear signs and clear proofs that he was the Messenger of Allah and that there is no deity worthy of worship except Allah. The clear signs -or miracles- mentioned here are; the flood, the locusts, the lice, the frogs, the blood, the staff and the hand. Musa's miracles also include; parting the sea, shading the Jews with clouds, the manna and quails, the gushing stone, etc. ... ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ ... yet you worshipped the calf, meaning, as a deity instead of Allah, during the time of Musa. Allah's statement, ... مِن بَعْدِهِ ... after he left, after Musa went to Mount Tur to speak to Allah. Similarly, Allah said, وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلً جَسَداً لَّهُ خُوَارٌ And the people of Musa made in his absence, out of their ornaments, the image of a calf (for worship). It had a sound (as if it was mooing). (7:148) ... وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ and you were Zalimun. meaning, you were unjust in this behavior of worshipping the calf, although you knew that there is no deity worthy of worship except Allah. Similarly, Allah said, وَلَمَّا سُقِطَ فَى أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَيِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَـسِرِينَ And when they regretted and saw that they had gone astray, they (repented and) said: "If our Lord have not mercy upon us and forgive us, we shall certainly be of the losers." (7:149)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 یہ ان کے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آیات کی وضاحت اور دلیل کی بات لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اسکے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تنگ کیا اور اللہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] یہ واضح معجزات صرف عصائے موسیٰ اور یدبیضا ہی نہ تھے۔ بلکہ بیشمار دوسرے معجزات بھی تھے جیسے سمندر کا پھٹ جانا، اور فرعون کی غرقابی۔ چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹ نکلنا، جنگل میں من وسلویٰ کا نزول وغیرہ وغیرہ۔ اتنے واضح معجزات دیکھنے کے بعد بھی تم اللہ کی الوہیت پر ایمان نہ لائے اور موسیٰ کی غیر حاضری میں تمہیں تھوڑا سا موقعہ ملا تو فوراً پھر سے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ ایک اور وجہ سے ان کے تورات پر ایمان کے دعوے کا رد ہے کہ تم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا سلوک کیا جو اپنی نبوت کی واضح نشانیاں اور ناقابل تردید دلائل لے کر تمہارے پاس آئے، جیسے عصا، ید بیضاء، طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک، خون، سمندر کا پھٹنا، من وسلویٰ ، پتھر سے بارہ چشموں کا نکلنا، بادل کا سایہ وغیرہ، پھر ان نشانیوں کے آنے کے بعد تم نے بچھڑا بنا کر پوجنا شروع کردیا، تو کیا یہ تورات پر ایمان تھا ؟ (مِنْۢ بَعْدِهٖ ) اس سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے ” طور “ پر جانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے نشانیاں لانے کے بعد بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The |"clear signs|" mentioned in the verse refers to the miracles which- had manifested themselves even before the Torah was given to Sayyidna Musa (Moses علیہ السلام) -- for example, his staff that turned into a .snake, the palm of his hand which shone brightly, the splitting of the sea to make a path for the Israelites, etc. These miracles were meant to affirm the Oneness of Allah and His omnipotence, and to provide an evidence for the prophethood of Sayyidna Musa۔ (علیہ السلام) In refutation of the Jews, the verse points out that although they lay a claim to &Iman ایمان (faith), yet have been falling into the sin of Shirk شرک (association), which involves a denial not only of Sayyidna Musa (علیہ السلام) but even of Allah Himself. Although the Jews who were the contemporaries of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، did not themselves take part in the worship of the golden calf, yet they respected such of their forefathers as had done so, and took their side. So, for all practical purposes, they too were guilty of the same sin. The verse also suggests that no wonder if these people, whose forefathers denied Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، should now be denying the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

خلاصہ تفسیر : اور (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) تم لوگوں کے پاس صاف صاف دلیلیں (توحید و رسالت کی) لائے (مگر) اس پر بھی تم لوگوں نے گوسالہ کو (معبود) بنالیا، موسیٰ (علیہ السلام) کے (طور پر جانے کے) بعد اور تم (اس تجویز میں) ستم ڈھا رہے تھے، فائدہ : بینات سے وہ دلائل مراد ہیں جو اس قصہ سے پہلے جبکہ توراۃ نہ ملی تھی موسیٰ (علیہ السلام) کے نبی برحق ہونے پر قائم ہوچکی تھیں مثلاً عصاء اور یدبیضاء دریا کا پھٹنا وغیرہ، رد کی تقریر کا حاصل ظاہر ہے کہ تم دعویٰ تو ایمان کا کرتے ہو اور صریح شرک میں مبتلا ہو جس سے موسیٰ (علیہ السلام) بلکہ خدا تعالیٰ کی صریح تکذیب بھی لازم آتی ہے گوسالہ کو معبود بنانے کا معاملہ اگرچہ ان یہودیوں کے ساتھ پیش نہیں آیا تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نزول قرآن کے وقت موجود تھے مگر چونکہ یہ لوگ اپنے اجداد کے حامی اور طرفدار رہتے تھے اس لئے فی الجملہ یہ بھی رد میں شامل ہیں، اور اسی سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جن کے اسلاف نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کرکے کفر کیا وہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انکار کے مرتکب ہوں تو چنداں عجیب نہیں ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِـجْلَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۝ ٩٢ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آت جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ ے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) امر و نہی اور دلائل کے ساتھ آئے مگر تم لوگوں نے ان کے ” کوہ طور “ پر جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم بالیقین کافر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:92) ولقد جاء کم موسی۔ واؤ عاطفہ لام تاکید کا ۔ اور قد تحقیق کا ہے۔ اور بیشک تمہارے پاس (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) آئے۔ بینت۔ روشن دلائل ۔ یہاں مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لے کر اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے۔ مثلاً عصا۔ یدبیضاء انفلاق البحر (سمندر کو پھاڑ کر قوم کو پار کرنا) وغیرہ یہ تو معجزات تھے۔ بالبینت۔ میں باء تعدیہ کے لئے ہے یعنی حضرت موسیٰ لائے۔ اتخزتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ اتخاذ (افتعال) تم نے اختیار کیا (بطور معبود کے) العجل۔ بچھڑا۔ گئو سالہ۔ گائے کا بچہ۔ من بعدہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کے بعد۔۔ یا آپ کے کوہ طور پر جانے کے بعد۔ وانتم ظلمون ۔ جملہ حالیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی تمہارا یہ دعوی کہ ہم صرف تورات کو مانتے ہیں ایک دوسری وجہ سے بھی غلط ہے کہ تم نے حضرت موسیٰ سے کیا سلوک کیا جو اپنی نبوت کی واضح نشانیاں اور ناقابل تردید دلیلیں لیے کر تمہارے پاس آئے تھے جیسے طوفان ٹڈی مینڈک، خون عصا۔ من وسلوی اور ابر کا سا دریا کا بھٹ کر در ٹکڑے ہوجا نا اور پتھر سے بارہ چشموں کا جا ری ہونا وغیرہ۔ (ابن کثیر)3 یعنی ان واضح نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد یا حضرت موسیٰ کے طور پر جا نے کے بعد۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ بینات سے مراد وہ دلائل ہیں جو اس قصہ سے پہلے کہ اس وقت تک تورات نہ ملی تھی صدق موسیٰ پر قائم ہوچکی تھیں مثلا عصا اور ید بیضاء اور فلق بحر وغیرذالک۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بات یہ نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ تمہارے پہلے نبی تھے اور تمہارے عظیم نجات دہندہ تھے ۔ وہ تمہارے پاس جو ہدایت لے آئے تھے تم نے اس کا بھی انکار کیا تھا وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ ” تمہارے پاس موسیٰ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آئے ، پھر بھی تم اتنے ظالم تھے کہ ان کے پیٹھ موڑتے ہیں بچھڑے کو معبود بنایا تھا ۔ کیا یہ تمہارے ایمان اور وحی الٰہی کا مقتضاء تھا کیا اس طرز عمل کے ہوتے ہوئے تم یہ دعویٰ کرسکتے ہو کہ تم ان ہدایات اور نشانیوں پر ایمان لاچکے ہو جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس لائے تھے ؟ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَلَقَدْ جَآءَ کُمْ مُّوسٰی بالْبَیِّنَاتِ ) (الایۃ) یعنی تمہارے پاس موسیٰ (علیہ السلام) بھی کھلی ہوئی اور واضح دلیلیں لے کر آئے جو تم نے خود دیکھیں جس سے ان کا رسول اللہ ہونا واضح ہوگیا اور انہوں نے پوری طرح توحید کی دعوت دی اور تم کو جم کر لا الہ الا اللہ کی تبلیغ کی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لیکن جب وہ کوہ طور پر توریت شریف لینے چلے گئے تو تم لوگوں نے ان کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تمہارا یہ غیر اللہ کی پرستش کرنا سراسر ظلم صریح تھا، راہ حق کے خلاف چلنا دلائل واضحہ اور آیات بینات سامنے ہوتے ہوئے منکر ہوجانا سراسر ظلم ہے جو تمہاری پرانی عادت ہے تمہارے اسلاف کی حرکتیں تمہارے سامنے ہیں جن کا تم کو علم ہے لیکن ابھی تک ان کو پیشوا بنائے ہوئے ہو اور انہیں کی راہ پر گامزن ہو۔ (من ابن کثیر ص ١٢٧ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

180 یہ یہودیوں کے کذب دعویٰ کی چوتھی دلیل ہے یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس توحید باری کے واضح دلائل لیکر آئے کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں اور اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔ الا ظھر ان یراد بالدلائل الدالۃ علی الوحدانیۃ فانہ ادخل فی التفریع بما بعد (روح ص 325) ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۔ بَعْدِہ کی ضمیر کا مرجع جملہ ماقبل کا مضمون ہے۔ ای بعد مجی موسیٰ (علیہ السلام) بھا (روح ص 325 ج 1) یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توحید کے دلائل واضحہ کے ساتھ آمد کے بعد تم نے گوسالہ کو معبود اور کارساز بنا لیا۔ اور اس کی نذریں اور منتیں دینا شروع کردیا۔ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ اور اس شرک اور گوسالہ پرستی کی وجہ سے اس سے ان کے دعوی توحید کا پول اور کذب ظاہر ہوگیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جب ان یہود سے کہا اجتا ہے کہ تم دوسری کتب سماویہ پر بھی جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں ایمان لائو جیسے انجیل اور قرآن تو یہ جواب دیتے ہیں کہ بس ہم تو اس کتاب پر ایمان لائیں گے۔ جو ہماری جانب نازل کی گئی ہے یعنی توریت کو مانیں گے اور اس کے علاوہ دوسری کتابوں کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ دوسری کتب سماویہ بھی حق ہیں اور وہ کتابیں اس کتاب کی تصدیق کرنیوالی ہیں جو ان کے پاس ہے۔ آپ ان سے پوچھئے ۔ اچھا اگر تم توریت پر ایمان رکھتے ہو تو اب سے پہلے خدا کے نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے اور تمہارے ایمان کی یہ تو حلات ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس صاف اور واضح دلائل لے کر تشریف لائے تھے تو تم نے ان کے طور پر جانے کے بعد ایک بچھڑے کو معبود تجویز کرلیا اور تم تو ہمیشہ سے ظلم اور ناانصافی کے خوگر ہو۔