Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 93

سورة البقرة

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اسۡمَعُوۡا ؕ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ عَصَیۡنَا ٭ وَ اُشۡرِبُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡعِجۡلَ بِکُفۡرِہِمۡ ؕ قُلۡ بِئۡسَمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِہٖۤ اِیۡمَانُکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۳﴾

And [recall] when We took your covenant and raised over you the mount, [saying], "Take what We have given you with determination and listen." They said [instead], "We hear and disobey." And their hearts absorbed [the worship of] the calf because of their disbelief. Say, "How wretched is that which your faith enjoins upon you, if you should be believers."

جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو کھڑا کر دیا ( اور کہہ دیا ) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور سنو ، تو انہوں نے کہا ، ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت ( گویا ) پلا دی گئی بسب ان کے کفر کے ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں بُرا حکم دے رہا ہے ، اگر تم مومن ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Jews rebel after Allah took Their Covenant and raised the Mountain above Their Heads Allah says; وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُواْ مَا اتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُواْ ... And (remember) when We took your covenant and We raised above you the Mount (saying), "Hold firmly to what We have given you and hear (Our Word)." Allah rem... inded the Jews of their errors, breaking His covenant, transgression and defiance, when He raised Mount Tur above them so that they would believe and agree to the terms of the covenant. Yet, they broke it soon afterwards. ... قَالُواْ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ... They said, "We have heard and disobeyed." We have mentioned the Tafsir of this subject before. ... وَأُشْرِبُواْ فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ... And their hearts absorbed (the worship of) the calf, Abdur-Razzaq said that Ma`mar narrated that Qatadah said that it, means, "They absorbed its love, until its love resided in their hearts." This is also the opinion of Abu Al-Aliyah and Ar-Rabi bin Anas. Allah's statement, ... قُلْ بِيْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُمْ مُّوْمِنِينَ Say: "Worst indeed is that which your faith enjoins on you if you are believers." means, "Worse yet is the manner in which you behaved in the past and even now, disbelieving in Allah's Ayat and defying the Prophets. You also disbelieved in Muhammad, which is the worst of your deeds and the harshest sin that you committed. You disbelieved in the Final Messenger and the master of all Prophets and Messengers, the one who was sent to all mankind. How can you then claim that you believe, while committing the evil of breaking Allah's covenant, disbelieving in Allah's Ayat and worshipping the calf instead of Allah"   Show more

صدائے باز گشت اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کی خطائیں مخالفتیں سرکشی اور حق سے روگردانی بیان فرما رہا ہے کہ طور پہاڑ جب سروں پر دیکھا تو اقرار کر لیا جب وہ ہٹ گیا تو پھر منکر ہو گئے ۔ اس کی تفسیر بیان ہو چکی ہے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ گئی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ کسی چیز کی محبت انسان...  کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا کر اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا کر دریا میں ڈال دیا تھا جس پانی کو بنی اسرائیل نے پی لیا اور اس کا اثر ان پر ظاہر ہوا گو بچھڑا نیست و نابود کر دیا گیا لیکن ان کے دلوں کا تعلق اب بھی اس معبود باطل سے لگا رہا دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان کا دعویٰ کس طرح کرتے ہو؟ اپنے ایمان پر نظر نہیں ڈالتے؟ بار بار کی عہد شکنیاں کئی بار کے کفر بھول گئے؟ حضرت موسیٰ کے سامنے تم نے کفر کیا ان کے بعد کے پیغمبروں کے ساتھ تم نے سرکشی کی یہاں تک کہ افضل الانبیاء ختم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی نہ مانا جو سب سے بڑا کفر ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 یہ کفر اور انکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کر کے سن لیا یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ کہتے کہ ہم نے کونسا عمل کرنا ہے۔ 93۔ 2 ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے کہ انسان کو اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے دوسرے اس کو اشرِبُوا (پلا دی گئی) سے تعبیر کیا گیا کیونکہ پانی انسان کے رگ و ریشہ میں خ... وب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزر اس طرح نہیں ہوتا (فتح القدیر) 93۔ 3 یعنی بچھڑے کی محبت و عبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں پر گھر کرچکا تھا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] میثاق کے وقت بھی تمہارے دل میں چور تھا :۔ یعنی جب تم سے تمہارے سروں پر طور پہاڑ کو جھکا کر تورات کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا عہد لیا جا رہا تھا۔ جس کا پہلا اور بنیادی حکم یہی تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو گے اور نہ کسی کو اللہ کا شریک بناؤ گے تو تمہارے اسلاف نے کہا تھا کہ ہ... م نے یہ احکام سن لیے ہیں، اس وقت بھی تمہارے دل میں چور موجود تھا۔ کیونکہ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم تمہارے دلوں میں موجود تھے۔ اور تم نے تورات کے احکام کو دل سے قطعاً تسلیم نہیں کیا تھا۔ [١١١] یعنی ایمان کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ انسان مشرکانہ اعمال و عقائد کو یکسر چھوڑ کر نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف سبقت کرے۔ مگر تمہارا یہ ایمان کس قسم کا ایمان ہے جو مشرکانہ افعال، بدعہدیوں اور نافرمانیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ تمہارے اسلاف بھی یہی کچھ کرتے رہے اور تم بھی انہی کی ڈگر پر چل رہے ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ۤ) ہم نے سنا اور نہیں مانا۔ “ یہ دونوں لفظ انھوں نے زبان سے کہہ دیے ہوں تو کچھ تعجب نہیں، جو قوم (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ ) کہہ سکتی ہے ان سے یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ رفع طور کے وقت ” سَمِعْنَا “ کہہ دیا ہو اور بعد میں صاف ” ہم نہیں مانتے “ کہہ دیا ہو۔ بعض اہل علم...  نے فرمایا کہ ان کے زبان سے اقرار کو ” سَمِعْنَا “ اور عمل نہ کرنے کو ” وَعَصَيْنَا “ سے بیان فرمایا ہے، گویا انھوں نے زبان حال سے یہ کہا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین سے کہا : (ائْتِيَا طَوْعًااَوْ كَرْهًا ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ١١ ] ” تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آگئے۔ “ اس تفسیر کی بھی گنجائش ہے، مگر جب ان کا منہ میں موجود زبان سے کہنا ممکن ہے، بلکہ صاف ظاہر ہے تو زبان حال کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ گزشتہ آیت : (ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ) [ البقرۃ : ٦٤ ] میں بھی ان کا عہد و میثاق کے بعد اس سے پھرجانا گزر چکا ہے۔ وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ ) جس طرح پانی رگ رگ میں سرایت کرجاتا ہے اسی طرح اس بچھڑے کی محبت ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرگئی۔ ” الْعِجْلَ “ سے پہلے ” حُبٌّ“ کا لفظ مقدر ہے۔ ” الْعِجْلَ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ” اس بچھڑے “ ترجمہ کیا گیا۔ ” وَاُشْرِبُوْا “ کے الفاظ سے اشارہ ہے کہ اس بچھڑے کی محبت اس حد تک پہنچ گئی کہ اس میں ان کا کچھ اختیار نہ رہا، بلکہ یہ معاملہ ہوگیا جیسے کسی اور نے ان کے دلوں میں اس کی محبت انڈیل دی ہو۔ بِكُفْرِھِمْ ان کی بچھڑے سے اس حد تک محبت اور عبادت بھی کفر تھی، مگر اس کا باعث ان کا سابقہ کفر تھا جس کا ذکر شروع سورت سے آ رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ کفر مزید کفر کا اور ایمان مزید ایمان کا باعث ہوتا ہے۔ (اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) یہ ان کے اس دعویٰ پر مزید چوٹ ہے کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا، یعنی حقیقت میں تم تورات پر بھی ایمان نہیں رکھتے، ورنہ تورات پر ایمان تمہیں ” سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا “ کہنے کا اور بچھڑے کی عبادت جیسے صریح شرک کا حکم کیسے دے سکتا ہے اور اگر دیتا ہے تو تمہارا ایمان تمہیں بہت بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In refuting the claim of the Jews to be authentic and true already referred to in Verse 63. When the Israelites succeeded, with the help of Allah, in escaping from Egypt and crossing the sea, they came upon a people who used to worship idols. They found this cult so attractive that they requested Sayyidna Musa (Moses علیہ السلام) to fabricate a visible and concrete god for them too. When he reprim... anded them, they realized their error, and offered& repentance. But repentance has many degrees. Since their repentance was not of a very high order, the darkness of their error did not altogether leave their hearts, but continued to grow, and finally manifested itself in the worship of the golden calf. As an act, of penance, some of them had to be slain, and others, as some commentators report, were forgiven and not slain. Possibly the repentance of these latter was again of a low order. As for those who had not indulged in the worship of the calf, they did not hate the action of the worshippers of the calf as much as they should have. So, their hearts too carried a trace of the sin of association (shirk شرک). So, either through the feebleness of their repentance or through a want of proper hatred for infidelity, their hearts became indolent in religious matters, so much so that when Allah asked them to take a pledge to follow the injunctions of the Torah steadfastly, Mount Tur طور (Sinai) was suspended over their heads to threaten them. This verse reports the Jews as having replied that they had heard the Command of Allah, but they would not obey, or would not be able to obey. It means that out of sheer fright they said (only with their tongues) that they had heard (that is to say, accepted) the Command of Allah. But there was no real consent in their hearts, and their posture and attitude was such as if they were saying that they would not or could not obey. Having referred to such example of their perversity and rebellion, the Holy Qur&an asks the Jews to have a look at themselves and also at their claim to genuine faith. Could a true faith ever inspire men to such deeds? If it is their brand of |"faith|" which leads them into such grave sins, then it cannot be a true faith. Hence their claim to be true believers is evidently false.  Show more

خلاصہ تفسیر : اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب ہم نے تمہارا قول وقرار لیا تھا اور (اس قول وقرار لینے کے لئے) طور کو تمہارے (سروں کے) اوپر لاکھڑا کیا تھا ( اور اس وقت حکم دیا تھا کہ) لو جو کچھ (احکام) ہم تم کو دیتے ہیں ہمت (اور پختگی) کے ساتھ لے لو اور (ان احکام کو دل سے) سنو (اس وقت) انہوں نے (ڈر کے مارے ... زبان سے تو) کہہ دیا کہ ہم نے (قبول کرلیا اور) سن لیا اور (چونکہ واقع میں یہ بات دل سے نہ تھی، اس لئے گویا بزبان حال یوں بھی کہہ رہے تھے کہ) ہم سے عمل نہ ہوگا اور (وجہ ان کی اس بددلی کی یہ تھی کہ) ان کے قلوب (کے ریشہ ریشہ) میں وہی گوسالہ پیوست ہوگیا تھا ان کے کفر (سابق) کی وجہ سے (جبکہ دریائے شور سے اتر کر انہوں نے ایک بت پرست قوم کو دیکھ کر درخواست کی تھی کہ ہمارے لئے کوئی ایسا ہی مجسم معبود تجویز کردیا جائے) آپ فرما دیجئے کہ (دیکھ لیا تم نے اپنے ایمان مزعوم کے افعال کو سو) یہ افعال تو بہت برے ہیں جن کی تعلیم تمہارا ایمان تم کو کر رہا ہے اگر تم (بزعم خود اب بھی) اہل ایمان ہو (یعنی یہ ایمان نہیں ہے) فائدہ : اس آیت میں جو اسباب اور مسببات مذکور ہیں ان کی ترتیب کا حاصل یہ ہے کہ دریائے شور سے پار ہو کر ان سے ایک کلمہ کفر کا صدور ہوا ہرچند موسیٰ (علیہ السلام) کی ڈانٹ ڈپٹ سے توبہ کرلی لیکن توبہ کے مراتب بھی مختلف ہوتے ہیں اعلیٰ درجہ کی توبہ نہ ہونے کے سبب اس کی ظلمت قلب میں کچھ باقی رہ گئی تھی وہ ترقی پاکر گوسالہ پرستی کا سبب بن گئی پھر اس کی توبہ میں بعضوں کو قتل ہونا پڑا اور بعض کو غالباً بلاقتل معافی ہوگئی ہو جیسا کہ بعض مفسرین نے ذکر بھی کیا ہے ان کی توبہ بھی کچھ ضعیف ہوئی ہوگی اور جو گوسالہ پرستی سے محفوظ رہے تھے ان کو بھی گوسالہ پرستوں سے جس قدر نفرت واجب تھی اس میں کوتاہی ہونے سے ایک گونہ اثر اس معصیت شرکیہ کا ان کے قلب میں باقی تھا بہرحال ضعف توبہ یا کفر سے نفرت نہ ہونے کے آثار باقی رہنے نے دلوں میں دین سے سستی پیدا کردی جس سے اخذ میثاق میں کوہ طور کو ان پر معلق کرنے کی نوبت آئی ،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝ ٠ ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا۝ ٠ ۭ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا۝ ٠ ۤ وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْعِـجْلَ بِكُفْرِھِمْ۝ ٠ ۭ قُلْ بِئْسَمَا يَاْمُرُكُمْ بِہٖٓ اِيْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٩٣...  أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ طور طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله : وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح/ 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج/ 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص/ 46] ، وَطُورِ سِينِينَ [ التین/ 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء/ 154] . ( ط و ر ) طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح/ 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج/ 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص/ 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین/ 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء/ 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعما ل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ« وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأن وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرورولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٣) اور جس وقت ہم نے تمہارا اقرار لیا، اور پہاڑ کو اکھاڑ کر تمہارے سروں پر اٹھایا کہ جو اپنی کتاب میں تم پر احکام اتارے گئے ہیں اسے پوری کوشش اور ہمیشگی کے ساتھ پورا کرو، تو گویا کہ یہ لوگ کہنے لگے کہ اگر پہاڑ اوپر نہ ہوتا تو صرف ہم آپ کی بات کو سنتے مگر حکم کی نافرمانی کرتے، ان کے دلوں میں تو ان ک... ے کفر کی وجہ سے کفر کی سزا کے طور بچھڑے کی پرستش کی محبت داخل کردی گئی تھی، اے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اگر بچھڑے کی پرستش کی محبت تمہارے خالق ومالک کی محبت کے برابر ہے اور اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ ہمارے دادا مومن تھے تو تمہارا یہ ایمان بہت ہی برا ہے جو تمہیں بچھڑے کی پوجا کا حکم دیتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ط) (خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا ط) ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کرسنو۔ (قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَاق) ۔ یعنی ہم نے سن تو لیا ہے ‘ مگر مانیں گے...  نہیں ! قوم یہود کی یہ بھی ایک دیرینہ بیماری تھی کہ زبان کو ذرا سا مروڑ کر الفاظ کو اس طرح بدل دیتے تھے کہ بات کا مفہوم ہی یکسر بدل جائے۔ چناچہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کے بجائے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جو منافقین تھے ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ ان کی جب سرزنش کی جاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا آپ کی اپنی سماعت میں کوئی خلل ہوگا۔ (وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ ط) (قُلْ بِءْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ ) (اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) ! یہ عجیب ایمان ہے جو تمہیں ایسی بری حرکات کا حکم دیتا ہے۔ کیا ایمان کے ساتھ ایسی حرکتیں ممکن ہوتی ہیں ؟ آگے پھر ایک بہت اہم آفاقی سچائی (universal truth) کا بیان ہو رہا ہے ‘ جس کو پڑھتے ہوئے خود ‘ دروں بینی (introspection) کی ضرورت ہے۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں ‘ لاڈلے ہیں ‘ اس کے بیٹوں کی مانند ہیں ‘ ہم اولیاء اللہ ہیں ‘ ہم اس کے پسندیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں ‘ لہٰذا آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے ہے۔ چناچہ ان کے سامنے ایک لٹمس ٹیسٹ (litmus test) رکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ میرے اور آپ کے لیے بھی ہے ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

63: اس واقعے کی تفصیل اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر 63 کے حاشیہ میں گذرچکی اور بچھڑے کا واقعہ آیت 53 کے تحت۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:93) واذا اخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور خذوا ما اتینکم بقوۃ ملاحظہ ہو (2:63) واسمعوا۔ واؤ عاطفہ ہے ۔ اسمعوا فعل امر، جمع مذکر حاضر۔ سماع (باب سمع) سے۔ تم سنو، یعنی قبول کرو اور اطعت کرو، اطاعت کو سننے سے اس لئے تعبیر کیا کہ سننا اطاعت کا سبب ہے۔ عصینا۔ ماضی جمع متکلم ۔ ہم نے انکار کیا۔ ہم نے...  ہمیں مانا۔ معصیۃ وعصیان (باب ضرب) مصدر سے واشربوا فی قلوبہم العجل بکفرہم۔ اور ان کے کفر کے سبب بچھڑا (گویا) ان کے دلوں میں رچ گیا یا العجل۔ مضاف الیہ ہے اس کا مضاف حذف کیا گیا ہے اصل میں حب العجل تھا۔ معنی ہونگے اور ہلادی گئی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت بہ سبب ان کے کفر کے۔ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے۔ بئسما ۔۔ ان کنتم مؤمنین۔ تقدیر کلام یوں ہے ان کنتم مؤمنین فیئسما یامرکم بہ ایمانکم۔ پہلا جملہ شرط اور دوسرا جواب شرط۔ اگر تم (بقول تمہارے) ایمان دار ہو تو تمہارا ایمان بہت بری بات بتاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ تم ایماندارہی نہیں ورنہ ایسے قبیح افعال کے تم مرتکب نہ ہوتے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ماننے کا اقرار کیا لیکن پورا نہ کیا (دجیز)5 یعنی درحقیت تم مومن ہو ہی نہیں اس لیے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے تم بچھڑے کی پوچا جیسا کھلا شرک اروآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے تھے (فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہود کہتے ہیں کہ ہم تو وہی مانیں گے جو ہم پر نازل ہوا یہ اس بات میں بھی سچے نہیں کیونکہ ان پر طور پہاڑ بلند کرکے عہد لیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ان کے شرک اور دنیا کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر آیت ٦٣ کے ساتھ ملا کر پڑھیے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے ... کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جبری ہدایت کی بجائے اختیاری ہدایت کا طریقہ پسند فرمایا ہے۔ جبری ہدایت کے نظریے کی تردید کے لیے بنی اسرائیل کا عملی تجربہ پیش فرمایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ جبری ہدایت دیر پا نہیں ہوا کرتی جب تک انسان اخلاص اور دل کی صفائی کے ساتھ حقیقت قبول نہ کرے۔ یہودیوں کے سر پر کوہ طور اٹھانے اور ان کے سننے اور سمجھنے کے باوجود انہوں نے ” اللہ “ کی نافرمانی کا اعلان کیا۔ جس کا بنیادی سبب شرک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے ہر انسان کے سینے میں دو کی بجائے ایک دل رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک دل میں توحید اور شرک، اللہ کی محبت اور غیر کی محبت بیک وقت نہیں رہ سکتی۔ اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان توحید کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی غلامی میں لذت محسوس کرے گا اور تابعداری میں آگے ہی بڑھتا جائے گا اگر غیر اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا کیونکہ شرک توحید کے متوازی نظریے کا نام ہے اسی بنا پر یہودیوں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کیونکہ ان کے دلوں میں گائے پرستی کا نظریہ گھر کرچکا تھا۔ انسان کی ہر حرکت وعمل کے پیچھے نظریہ کی قوت ہی کارفرما ہوتی ہے اور انسان ویسا ہی عمل کرتا ہے جیسے اس کی فکری قوت اس کی راہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ جس طرح تمہارے عقائد ہیں جنہیں تم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے ویسے ہی تمہارے اعمال برے ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی چیز ہے اگر وہ مضبوط ہو تو آدمی کے کردار میں نکھار پیدا ہوتا ہے آدمی کے اعمال اچھے ہوں تو ایمان میں تازگی اور احساس بڑھتا ہے۔ آدمی کا کردار اچھانہ ہو تو اس سے اس کا ایمان بھی متاثر ہوتا ہے مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لینے کے لیے ان پر طور پہاڑ کو بلند کیا۔ ٢۔ کفر کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت جاگزیں ہوچکی۔ ٣۔ اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرنا برے عقیدہ کی نشانی ہے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کے جرائم : ١۔ یہودی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ (آل عمران : ١١٧) ٢۔ اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا ظلم ہے۔ (البقرۃ : ٧٥) ٣۔ دیہودیوں کا مریم صدیقہ پر الزام لگانا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٦) ٤۔ یہودیوں کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٧) ٥۔ آیات اللہ کا انکار کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٣ ) ٦۔ یہودیوں کا انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٥) ٧۔ یہودیوں کا ہفتہ کے دن میں زیادتی کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٤) ٨۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٦٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک چٹان اور پہاڑ کے سائے میں تم سے ایک پختہ میثاق لیا تھا ، کیا تمہیں یاد نہیں کہ تم نے اس قسم کے غیر معمولی میثاق کو بھی توڑدیا تھا اور تم سرکشی اور معصیت میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْ... نَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ” پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو جو طور کو تمہارے اوپر اٹھاکر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو ۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا ، مگر مانیں گے نہیں ۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ “ یہاں آکر خطابی انداز گفتگو ، حکامت وبیان میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ پہلے تو بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ تم یہ یہ کرتے رہے ، اس کے بعد کلام کا رخ مومنین اور عام انسانوں کی طرف پھرجاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ بنی اسرائیل یہ یہ کام کرتے رہے ، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھادیا جاتا ہے کہ آپ اچانک انہیں آڑے ہاتھوں لیں ۔ اور ان سے پوچھیں کہ ان کا ایمان کس قدر گھٹیا اور مکروہ ایمان ہے جو بقول ان کے انہیں ایسا صریح کافرانہ اور ناپسندیدہ رویہ اختیار کرنے کے لئے مجبور کررہا ہے ۔ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ” کہو اگر تم مومن ہو ، تو عجیب ایمان ہے جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے ۔ “ قرآن کریم کی یہ دو مصورانہ تعبیریں کس قدر گہری سوچ بچار کی مستحق ہیں ۔ یہ کہ ” انہوں نے کہا ” ہم نے سن لیا مگر مانیں گے نہیں۔ “ اور یہ کہ ؟” اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں کو بچھڑا پلادیا گیا تھا۔ “ انہوں نے کہا ” ہم نے سن لیا۔ “ اور بعد میں کہا ، ہم مانیں گے نہیں ۔ لیکن پہلے ہی سے یہ نہیں کہا ؟” ہم مانیں گے نہیں۔ “ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں وہ ایک ہی سانس میں کس طرح کہہ گئے ؟ درحقیقت یہ ایک خاموش موقف اور حقیقت واقعہ کی حکایتی تعبیر ہے ۔ انہوں نے اپنے منہ سے کہا ” ہم نے سن لیا ۔ “ لیکن اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ” مانیں گے نہیں ۔ “ کیونکہ عمل ہی دراصل زبانی تکلم کو معنی پہناتا ہے ۔ اور عملی اظہار قولی اظہار سے زیادہ قوی ہوتا ہے ۔ واقعاتی صورت حال کی اس تعبیر سے دراصل اسلام کے اس ہمہ گیر اصول کا اظہار ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر محض باتوں اور زبانی جمع خرچ کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اسلام میں اصل اعتبار عمل ہی کا ہے ۔ واقعاتی حرکات اور الفاظ کی تعبیروں کے درمیان عمل ہی اصل رابطہ ہے اور فیصلے عمل پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ دوسری تعبیر کہ ” ان کے دلوں کو بچھڑا پلادیا گیا۔ “ بڑی ہی سخت اور اپنی نوعیت کی منفرد تعبیر ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ” وہ پلائے گئے ہیں “ یعنی کسی نے انہیں کچھ پلادیا ہے۔ کیا پلادیا ہے ؟ انہیں بچھڑا پلایا گیا ہے ۔ کہاں ؟ ن کے دلوں میں ، کس قدر سخت تعبیر ہے یہ ؟ انسانی تخیل یہ کوشش کررہا ہے کہ دلوں میں ایک بچھڑے کو داخل ہوتے ہوئے دیکھے یا تصور کرے ۔ یعنی گویا مجسم بچھڑا دلوں میں داخل ہورہا ہے اور یہ بچھڑا ان کے دلوں کی دنیا میں چھایا ہوا ہے ۔ تعبیر معانی کے لئے ایسی حسی تجویز کی گئی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے انسان کے پردہ خیال سے اصل مفہوم و مدعا ، یعنی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت و عبادت ، اوجھل ہوجاتا ہے ۔ اور انسان یہ سوچتا ہے کہ گویا فی الواقعہ بچھڑا انہیں گھول کر پلادیا گیا ہے۔ ایسے مقامات پر ادبیاتی نقطہ نظر سے غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مصورانہ طرز ادا کی کیا قدر و قیمت ہے ؟ نظریاتی اور ذہنی تعبیروں کے مقابلے میں قرآن کریم کی حسی تعبیر کس قدر واضح اور مفصل ہے ۔ الفاظ میں اصل صورت واقعہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔ قرآن کریم کی حسی طرز تعبیر اور اس کی خصوصیات میں سے یہ ایک اہم تعبیر ہے ۔ یہودیوں کا یہ بڑا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں ، وہی راہ ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جنہیں عالم آخرت میں یقیناً فلاح نصیب ہوگی ۔ اور آخرت میں ان کے سوا ، دوسری اقوام کو کچھ نہ ملے گا ، یہودیوں کے اس دعوے کا صاف صاف اشارہ اس طرف تھا کہ آخرت میں نبی آخرالزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بھی نجات سے محروم ہوگی ۔ اس پروپیگنڈے سے یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کریم کی تعلیمات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور دین اسلام کے بارے میں بےاعتمادی کی فضا پیدا کردی جائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں ، دونوں فریق کھڑے ہوجائیں اور ان میں سے جو بھی جھوٹا ہے اس کی ہلاکت کے لئے دعا کریں ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں سے عہد و پیمان اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت اس سے پہلے بھی اسی سورت کے آٹھویں رکوع میں یہودیوں سے پختہ عہد لینے اور کوہ طور ان پر اٹھانے اور مضبوطی کے ساتھ توریت شریف کو تھامنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لینے کا ذکر گزرا ہے یہاں پھر اس کو دھرایا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ جب ان کو حکم ہ... وا کہ توریت شریف کو مضبوطی سے تھام لو اور اس کے احکام کو سن لو تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سن تو لیا لیکن ہم اس پر عمل نہ کریں گے حکم تھا کہ دل کے کانوں سے سنو، قبول کرنے کے لیے سنو، عمل کرنے کے لیے سنو لیکن انہوں نے اپنے اوپر پہاڑ گرنے کے ڈر سے اس وقت تو کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا اور اوپر کے دل سے اقرار بھی کرلیا جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے لیکن بعد میں اس قول وقرار سے پھرگئے اور نافرمانی پر تل آئے اور کہنے لگے کہ سنا تو ہے لیکن عمل کرنا ہمارے بس کا نہیں۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے بچھڑے کی جو عبادت کی تھی وہ ان کے اندر رچ بس گئی تھی اور رگ و پے میں گھس گئی تھی جیسے پینے کی چیز اندر جا کر جہاں جہاں جگہ دیکھتی ہے اپنی جگہ پکڑ لیتی ہے ان کے کفر کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا کہ بچھڑے کی محبت ان کے اندر پوری طرح سرایت کرگئی اور جاگزیں ہوگئی۔ پھر فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں تم ایمان کے دعویدار ہو اگر تم مومن ہو (حالانکہ مومن نہیں) تو سمجھ لو کہ تمہارا ایمان تمہیں برے اعمال کی تعلیم دیتا ہے کفر اور شرک پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ کیسا ایمان ہے جو توحید کی تعلیم نہیں دیتا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ابھارتا ہے اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب پر آمادہ کرتا ہے جن کا نبی ہونا تم پر دلائل سے واضح ہے۔ فائدہ : بچھڑے کی عبادت سے ان لوگوں نے توبہ تو کرلی تھی جیسا کہ سورة بقرہ کے چھٹے رکوع میں گزرا لیکن اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سوں نے اوپر اوپر سے توبہ کرلی، دل کی گہرائی سے توبہ نہ کی اور بچھڑے کی پرستش کا اثر ان میں باقی رہا اور اس اثر کی وجہ سے اللہ کی کتاب توریت شریف کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے جب پہاڑ اٹھا کر ان پر کھڑا کردیا گیا تو اس وقت جھوٹ موٹ کو مان گئے لیکن بعد میں نافرمانی پر تلے رہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

181 یہ یہودیوں کے کذب دعویٰ کی پانچویں دلیل ہے یعنی تورات کو بھی تم نے ہرگز نہیں مانا۔ جب تورات تمہارے سامنے پیش کی گئی تو تم نے اسے ماننے اور اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ چناچہ تورات کو منوانے کے لیے ہم نے کوہ طور کو اٹھا کر تمہارے سروں پر کھڑا کیا۔ تمہارے سروں پر پہاڑ کھڑا کر کے تمہیں یہ حکم دیا...  گیا کہ تورات کے احکام کو قبول کرو اور ان پر مضبوطی سے عمل کرو۔ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا۔ تو ان ظالموں نے زبان سے تو ماننے کا اقرار کرلیا لیکن عملی طور پر نافرمانی کی اور اسے نہ مانا۔ یا واؤ مطلق جمع کے لیے۔ سمعنا وعصینا دونوں باتیں انہوں نے مختلف اوقات میں کہی تھیں۔ سمعنا تو اس وقت کہا جب پہاڑ ان کے سر پر لا کر کھڑا کیا گیا اور عصینا اس وقت کہا جب پہاڑ ہٹا دیا گیا۔182 یہ لوگ تورات پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ کفر وشرک سے انہیں خاص انس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سامری کے گوسالہ کی محبت ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور شرک وبت پرستی کی محبت ان کے رگ وپے میں اس طرح جاری وساری تھی جس طرح کپڑے میں رنگ اور جسم کی گہرائیوں میں پانی سرایت کرجاتا ہے۔ کما یتداخل الصبغ الثوب والشراب اعماق البدن (بیضاوی ص 31) اس گوسالہ پرستی کی گہری محبت ہی کا نتیجہ تھا کہ کہ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم ملا تو انہوں نے اس میں پس وپیش کیا تو کیا تورات شرک اور بت پرستی کی اجازت دیتی ہے ؟183 اگر واقعی تم مومن ہو تو یہ بھلا ایمان ہے جو تم سے ایسے ناشائستہ اور برے افعال کا ارتکاب کرا رہا ہے۔ یعنی قتل انبیائ، شرک اور گوسالہ پرستی اور تورات کا انکار۔ یہ تمام امور قبیحہ اور افعال شنیعہ مقتضائے ایمان کے خلاف ہیں۔ لہذا تمہارا اپنے انبیائ (علیہم السلام) پر نازل شدہ ہدایت اور وحی پر بھی ایمان نہیں ہے۔ یہود کو مباہلہ کا چیلنج جس طرح آج کل کے بعض پیشہ ور گدی نشین اپنے مریدوں کے سامنے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ چونکہ بزرگوں کی اولاد ہیں اس لیے وہ اور ان کے مرید خیر و عافیت سے ضرور جنت میں جائیں گے اسی طرح یہودیوں کے مولی اور پیر بھی دعویٰ کرتے تھے کہ جنت میں صرف وہی اور ان کے پیروکار جائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے افہام و تفہیم کی انواع کے بیان اور ان کے ایک باطل قول کی تردید کے بعد ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا ہے۔ یہ چیلنج ان کے اسی سب سے بلند بانگ دعویٰ کے جواب میں ہے کہ ہم اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کی اولاد ہیں، اس لیے ہم خدا کے چہیتے اور محبوب ہیں اور جنت میں ہمارے سوا کوئی نہیں جائے گا۔ سبب نزولھا قولھم لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الخ وَنَحْنُ اَبْنَائُ اللہ وَاَحبائ ہ الخ ولن تمسنا النار الخ (روح ص 327 ج 1، قرطبی ص 33 ج 1، معالم ص 71 ج 1، ابن کثیر ص 127 ج 1) تو اس کا جواب مباہلہ سے دیا گیا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور اس بات کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد اور قول لیا اور تمہارے اوپر طور کو معلق کردیا اور تم کو حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو پوری عزیمت اور قوت سے قبول کرو تو انہوں نے پہاڑ کو دیکھ کر یہ کہا کہ ہم نے سن تو لیا لیکن ہم سے اس پر عمل نہیں ہوگا اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے کفر کے با... عث ان کے قلوب میں اس گئو سالہ کی محبت پیوست کردی گئی تھی۔ آپ فرما دیجیے اگر تم واقعی اپنے خیال اور گمان میں اہل ایمان ہو تو جن اعمال و افعال کی تم کو تمہارا ایمان تعلیم دے رہا ہے وہ افعال و اعمال بہت برے ہیں۔ (تیسیر) مدعا یہ ہے کہ ان کے کفر اور حسد کی یہ حالت ہے کہ جب ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ اور کتابوں پر بھی ایمان لائو تو جواب دیتے ہیں کہ جو کتاب ہماری جانب اتاری گئی ہے ہم تو اس پر ایمان لائیں گے اور توریت کے ما سوا دوسری کتابوں کا انکار کرتے ہیں تو اول تو اسی سے کافر ہوگئے پھر جس پر ایمان کے مدعی ہیں اس کی بھ یہ حالت ہے کہ گزشتہ زمانے میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو قتل کرتے رہے ہیں پھر لطف یہ ہے کہ توریت کے بعد کی جن کتابوں کے ساتھ کفر کا برتائو کر رہے ہیں وہ تو ریت کی تصدیق کرنیوالی ہیں تو اب مطلب یہ ہوا کہ ان کا توریت پر بھی ایمان نہیں ہے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا قتل تو ہر آسمانی کتاب میں حرام اور ممنوع ہے۔ اسی طرح توریت کی تصدیق کرنیوالی کتاب کی تکذیب خود توریت کی تکذیب کو مستلزم ہے ، پھر ان کے دعوے کی تغلیط اس سے بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے خود حضرت موسیٰ کی موجودگی میں کیا کیا کہ جب حضرت موسیٰ بڑے بڑے دلائل لیکر آئے مثلاً عصا کا سانپ ہوجانا، ید بیضائ، دریا کا پھٹ جانا، پتھر میں سے بارہ چشموں کا نکلنا وغیرہ تو انہوں نے موسیٰ کے تشریف لانے کے بعد یا ان کے کوہ طور جانے کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ وانتم ظلمون کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم بچھڑے کو معبود بنانے میں بڑے ظلم و ستم کا ارتکاب کر رہے تھے۔ سمعناد عصینا کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے ت و پہاڑ گرنے کے خوف سے کہتے تھے کہ ہم نے سن لیا اور دل سے کہتے تھے کہ ہم نے قبول نہیں کیا یا ان کے طرز عمل نے یہ ثابت کردیا کہ یہ دل سے قبول نہیں کر رہے تھے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ واقع میں یہ ان کا کہنا دل سے نہ تھا اس لئے گویا زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ ہم سے عمل نہیں ہوگا زبان قال سے جو کچھ کہہ رہے تھے زبان حال سے اس کا انکار کر رہے تھے، بچھڑے کی محبت ان کے قلوب میں اس طرح پلا دی گئی تھی جس طرح کسی کپڑے کو اگر رنگیں تو اس میں رنگ بیٹھ جاتا ہے۔ اگرچہ بچھڑے کا قصہ ختم ہوچکا تھا ان کے کفر کی وجہ سے پھر وہ اثرات جو اس کی محبت کے قلب میں باقی رہ گئے تھے رفتہ رفتہ اثر پذیر ہوگئے اور چونکہ عام طریقہ سے ان کی عادت کفر و نافرمانی کی تھی اور شرک کی طرف طبعاً مائل تھے حتیٰ کہ دریا کے پار ہوتے ہی حضرت موسیٰ سے بت فراہم کرنی کی فرمائش کردی تھی، اسی کفر و عصیان کی بدولت یہ نوبت ہوگئی کہ دل میں بچھڑے کی محبت نے جگہ پکڑ لی اور نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں گستاخیاں کرتے رہے جو پیغمبر توریت کی تبلیغ کے لئے مبعوث ہوئے ان کو قتل کردیا۔ حضرت عیسیٰ تشریف لائے تو ان کی جان کے در پے ہوگئے اور اب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور آیا تو اسی توریت کو آڑ بنا لیا اور قرآن پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اس پر فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ حرکات شنیعہ اور قبیحہ جو مذکور ہوئیں انہی پر تمہارا ایمان ہے تو یہ افعال تو بہت ہی برے ہیں جن کی تمہیں تمہارا ایمان تعلیم دیتا ہے یا یہ کہ اگر تم اپنے زعم باطل میں ایمان والے ہو اور ان افعال کا تم اور تمہارے بڑے ارتکاب بھی کرتے رہے ہو تو یہ کام تو بہت ہی برے ہیں جن کی تعلیم تمہیں تمہارا ایمان دیتا ہے اور وہ ایمان ہی کیا جو توریت احکام کے خلاف اعمال پر آمادہ کرے مطلب یہ ہے کہ تم مومن ہی نہیں ہو، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ظاہر میں کہا ہم نے مانا اور چھپے کہا کہ نہ مانا۔ (تسہیل)  Show more