Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 98

سورة البقرة

مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ جِبۡرِیۡلَ وَ مِیۡکٰىلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۹۸﴾

Whoever is an enemy to Allah and His angels and His messengers and Gabriel and Michael - then indeed, Allah is an enemy to the disbelievers.

۔ ( تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے ) جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو ، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَليِكَتِهِ وَرُسُلِهِ ... Whoever is an enemy to Allah, His Angels, His Messengers, Allah stated that whoever takes Him, His angels and messengers as enemies, then...Allah's messengers include angels and men, for Allah said, اللَّهُ يَصْطَفِى مِنَ الْمَلَـيِكَةِ رُسُلً وَمِنَ النَّاسِ Allah chooses Messengers from angels and from men. (22:75) Allah said, ... وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ ... Jibril (Gabriel) and Mikhail (Michael). Allah mentioned Jibril and Mikhail specifically - although they are included among the angels who were messengers - only because this Ayah was meant to support Jibril the emissary between Allah and His Prophets. Allah also mentioned Mikhail here, because the Jews claimed that Jibril was their enemy and Mikhail was their friend. Allah informed them that whoever is an enemy of either of them, then he is also an enemy of the other as well as Allah. We should state here that Mikhail sometimes descended to some of Allah's Prophets, although to a lesser extent than Jibril, because this was primarily Jibril's task, and Israfil is entrusted with the job of blowing the Trumpet for the commencement of Resurrection on the Day of Judgment. It is recorded in the Sahih that whenever the Messenger of Allah would wake up at night, he would supplicate, اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَايِيلَ وَمِيكَايِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالاَْرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم O Allah, Lord of Jibril, Mikhail and Israfil, Creator of the heavens and earth and Knower of the seen and the unseen! You judge between Your servants regarding what they differ in, so direct me to the truth which they differ on, by Your leave. Verily, You guide whom You will to the straight path. Allah's statement, ... فَإِنَّ اللّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ then verily, Allah is an enemy to the disbelievers. informed the disbelievers that whoever takes a friend of Allah as an enemy, then he has taken Allah as an enemy, and whoever treats Allah as an enemy, then he shall be Allah's enemy. Indeed, whoever is an enemy of Allah then he will lose in this life and the Hereafter, as stated earlier; مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ اذَنْتُهُ بِالْمُحَارَبَة Whoever takes a friend of Mine as an enemy, I shall wage war on him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے حدیث میں ہے، جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا، گویا کہ اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض وعناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں ؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو (اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ 62 ۝ښ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ 63؀ۭ ) 010:062 ، 063 لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی نام کی نذر ونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیسا کہ بدقسمتی سے اولیاء اللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالیٰ اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] جبریل دشمنی کا جواب :۔ وجہ یہ ہے کہ فرشتے تو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے اور جو فرشتوں کا دشمن ہے وہ دراصل اللہ کا دشمن اور کافر ہے، اور اللہ خود فرشتوں سے دشمنی رکھنے والے کافروں کا دشمن ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : (بعض یہود کو جو وہ عہد یاد دلایا گیا جو ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے باب میں توراۃ میں لیا گیا تھا تو انہوں نے خود عہد لینے ہی سے صاف انکار کردیا اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ) کیا (اس عہد لینے سے ان کو انکار ہے) اور ان کی تو یہ حالت ہے کہ انہوں نے اپنے مسلم عہدوں کو بھی کبھی پورا نہیں کیا بلکہ جب کبھی بھی ان لوگوں نے (دین کے متعلق) کوئی عہد کیا ہوگا (ضرور) اس کو ان میں سے کسی نہ کسی فریق نے نظر انداز کردیا ہوگا بلکہ ان (تعمیل عہد نہ کرنے والوں) میں زیادہ تو ایسے ہی نکلیں گے جو (سرے سے اس عہد کا) یقین ہی نہیں رکھتے (سو تعمیل نہ کرنا تو فسق تھا ہی یہ یقین نہ کرنا اس سے بڑھ کر کفر ہے) فائدہ : اور ایک جماعت کی تخصیص اس لئے کی گئی کہ بعض ان میں ان عہود کو پورا بھی کرتے تھے حتیٰ کہ اخیر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لے آئے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ۝ ٩٨ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨) جو آدمی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور جبریل (علیہ السلام) و میکائل (علیہ السلام) کا دشمن ہو تو ایسے یہودیوں کا اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) اور تمام ایمان والے بھی دشمن ہیں

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:98) من شرطیہ ہے جواب شرط محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے ۔ من کان عدو وا ۔۔ ومیکل فھو کانو مجزی باشد العذاب۔ جو کوئی مخالف (یا دشمن) ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل یا میکائیل کا تو وہ کافر ہے اور مستوجب عذاب شدید ہے۔ عربی میں واؤ صرف عطف ہی کے لئے نہیں آتا۔ بلکہ بمعنی او (یا) بھی مستعمل ہے، یہاں اسی معنی میں آیا ہے ۔ یعنی ان میں سے جو سکی ایک کا دشمن ہے وہ سب کا دشمن ہے۔ عدوا۔ عدو۔ مصدر بھی ہے اور اس صورت میں یہ خد ہے دوستی اور محبت کا ۔ عدو اسم بھی ہے اس صورت میں یہ مقابل ہے دوست کا۔ یہاں مؤخر الذکر صورت میں استعمال ہے عدوا بوجہ خبر کان کے منصوب ہے۔ فان اللہ۔ میں گاء جزائیہ ہے۔ اس صورت میں جملہ سابقہ شرطیہ اور فان اللہ عدو للکفرین۔ جواب شرط ہوگا ۔ ترجمہ آیت یوں ہوگا : جو کوئی مخالف ہوا اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبریل کا۔ یا میکائیل کا تو اللہ (بھی) بالیقین مخالف ہے (ایسے) کافروں کا ۔ (تفسیر الماجدی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہود جو ن کہ میکا ئیل (علیہ السلام) کو اپنا دوست کہتے تھے اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان کا جبر یل کے ساتھ ذکر فرایا کہ ایک سے دشمنی بعینہ دوسرے سے دشمنی ہے بلکہ خود اللہ تعالیٰ سے دشمنی ہے کیونکہ یہ مقرب فرشتے اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : من عادی لی ولیا فقد بارزنینی بالعرب (بخاری) کہ جس نے میرے دوست سے دشمنی رکھی وہ گویا مجھ سے لڑنے نکلا یہی وجہ ہے کہ جبریل سے عداوت پر اللہ تعالیٰ نے غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ بعض یہود نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سن کر جبرائیل (علیہ السلام) وحی لاتے ہیں کہا کہ ان سے تو ہماری عداوت ہے احکام شاقہ اور واقعات ہائلہ ان ہی کے ہاتھوں آیا کہتے ہیں میکائیل خوب ہیں کہ بارش اور رزق ان سے متعلق ہے اگر وہ وحی لایا کرتے تو ہم مان لیتے اس آیت میں اسی کا رد ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ ” جو اللہ کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کے دشمن ہیں ، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ “ اس کے بعد روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے ۔ آپ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ پر جو سچائی اور کھلی نشانیاں نازل ہورہی ہیں ، آپ ان پر جم جائیں ۔ سوائے فساق وفجار کے اور کوئی ان کا منکر نہیں ہوسکتا ۔ اور بنی اسرائیل کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ کبھی اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے ۔ چاہے وہ عہد انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہو یا انبیائے سابقین کے ساتھ کیا ہو۔ یا وہ عہد انہوں نے نبی آخرالزمان کے ساتھ کیا ہو ۔ قرآن کریم ان کی مذمت کرتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا ہے جو ان کی تمام کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو خود ان کے پاس موجود ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

189 پچھلی آیت میں تو دلائل سے عداوتِ جبریل کی غیر معقولیت بیان کی تھی اب اس آیت میں جبریل اور دوسرے فرشتوں سے عداوت رکھنے والوں کا انجام بیان کیا ہے اس لیے یہ عداوت سے اسم ہے اور عداوت محبت اور دوستی کی ضد ہے اور اس سے مراد ہر وہ فعل ہے جو دوستی اور محبت کے منافی ہو۔ تمام فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور دوسرے فرشتوں سے عداوت رکھنے والوں کا انجام بیان کیا ہے اس لیے یہ عداوت جبریل کی غیر معقولیت کی پانچویں دلیل۔ عدوٌ عداوت سے اسم ہے اور عداوت محبت اور دوستی کی ضد ہے اور اس سے مراد ہر وہ فعل ہے جو دوستی اور محبت کے منافی ہو۔ تمام فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور میکال کی تخصیص باقی فرشتوں پر ان کی فضیلت اور برتری کے اظہار کے لیے یا دونوں کی تخصیص باقی فرشتوں پر ان کی فضیلت اور برتری کے اظہار کے لیے یا دونوں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ یہودیوں نے ان دونوں کا ذکر کیا تھا اور انہیں کے سبب سے یہ آیت نازل ہوئی۔ لان الیہود ذکر وھما ونزلت الایۃ بسببھما (روح ص 324 ج 1) ۔ من شرطیہ ہے اور جواب شرط محذوف ہے۔ تقدیرہ فھو کافر مجزی باشد العذاب (روح ص 334 ج 1) یعنی جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں اور رسولوں کا خصوصاً جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو وہ کافر ہے اور اسے سخت سزا دی جائے گی۔ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ۔ یہ جواب شرط محذوف کی علت ہے یعنی ان کی سزا کی علت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کا دشمن ہے اور ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سزا دیگا اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں سے دشمنی خدا کی ناراضی اور اس کے غضب کا موجب ہے آگے اہل کتاب کے لیے زجر وتنبیہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر آپ فرما دیجیے جو شخص بلا وجہ جبرئیل علیہ سے عداوت و دشمنی کرے تو کرے اس دشمنی کی کوئی وجہ تو ہے نہیں جبرئیل کا کام تو یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کیا ہے، اس قرآن کی شان تو یہ ہے کہ یہ ان کتب سماویہ کی تصدیق کرنیوالا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں ہیں اور یہ قرآن دین حق کی رہنمائی کرنے والا ہے اور ایمان والوں کو بشارت و خوشخبری سنانے والا ہے۔ اب کوئی شخص خواہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو خواہ اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا دشمن ہو خواہ خصوصیت کے ساتھ حضرت جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو ان سب کی دشمنی ایک حیثیت رکھتی ہے اور اس دشمن کی سزا یہ ہے کہ ایسے کافروں کا اللہ تعالیٰ دشمن ہے۔ (تیسیر) یہود سے کسی موقع پر گفتگو ہو رہی تھی دوران گفتگو میں جہاں اور باتیں ہو رہی تھیں ان میں اس کا بھی ذکر آگیا کہ یہ قرآن کونسا فرشتہ لیکر آتا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خدا کا فرشتہ لے کر آتا ہے جس کا نام جبرئیل ہے اس پر یہودی بگڑ کر بولے وہ جبرئیل (علیہ السلام) تو ہمارا دشمن ہے اس لئے کہ وہ وقتاً فوقتاً ہم پر سخت احکام لاتا رہا ہے نیز ہم کو تباہ و برباد کرتا رہا ہے اگر یہ قرآن وہ لاتا ہے تو ہم اس پر ایمان نہیں لاسکتے پہلی آیت میں اس اعتراض کا جواب ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) تو ایک درمیانی فرشتہ ہے وہ تو صرف قرآن کو پیغمبر تک پہنچا دیتا ہے پیغامبر میں تو دو باتیں ہونی ضروری ہیں ایک یہ کہ فرمانبردار ہو اور جو حکم اس کو دیا جائے وہ اس کی تعمیل کرے۔ دوسرے وہ امانت دار ہو کہ پیغام میں کچھ کمی بیشی نہ کرے سو یہ دونوں باتیں جبرئیل میں بوجہ اتم موجود ہیں وہ فرشتہ ہے اور فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کیا کرتے پھر اس کی امانت داری پر ہم خود اس کے شاہد ہیں، نیز یہ کونسی معقول بات ہے کہ ایک قاصد اور پیغامبر کی دشمنی کے باعث پیغام خداوندی کو ماننے سے انکار کردیا جائے۔ قرآن کو دوسری آسمانی کتابوں کے معیار پر جانچ کر دیکھو۔ جبرئیل کی ذات سے کیوں بحث کرتے ہو۔ اگر اس قرآن میں پہلی کتابوں کی تصدیق موجود ہے اور بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کا سامان اس میں بدرجہ اتم موجود ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے بشارت اور خوشخبری سے لبریز ہے تو یہی وہ باتیں ہیں جو عام طور سے تمام کتاب سماویہ میں پائی جاتی ہیں۔ پھر اس پر ایمان لانے سے انکار کرنا حماقت و جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ دوسری آیت میں ایک ضابطہ اور اصول بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور اس کے رسول اور جبرئیل (علیہ السلام) ان سب کی محبت اور عداوت ایک ہی حکم رکھتی ہے۔ کیونکہ مامور کی مخالفت آمر کی مخالفت سمجھی جاتی ہے۔ جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ میکائیل (علیہ السلام) کا نام اس لئے لیا کہ شاید انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا تھا کہ بجرئیل (علیہ السلام) کے علاوہ اگر میکائیل (علیہ السلام) یا کوئی اور فرشتہ اس قرآن کو لاتا تو اس کے مان لینے میں کچھ مضائقہ نہ تھا۔ جیسا کہ بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ یہود نے کہا کہ یہ کلام لاتا ہے جبرئیل (علیہ السلام) اور وہ ہمارا دشمن ہے کئی بار ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کر گیا کوئی اور فرشتہ لاتا تو ہم مانتے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے جو کرتے ہیں بےحکم نہیں کرتے جو ان کا دشمن ہو اللہ بیشک ان کا دشمن ہے۔ (موضح القرآن) آگے کی آیتوں میں ان کے کفر کی علت اور ان کی عہد شکنی کا بیان ہے۔ (تسہیل)