Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 99

سورة البقرة

وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۚ وَ مَا یَکۡفُرُ بِہَاۤ اِلَّا الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۹۹﴾

And We have certainly revealed to you verses [which are] clear proofs, and no one would deny them except the defiantly disobedient.

اور یقینًا ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Proofs of Muhammad's Prophethood Allah says; وَلَقَدْ أَنزَلْنَأ إِلَيْكَ ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ And indeed We have sent down to you manifest Ayat and none disbelieve in them but Fasiqun (those who rebel against Allah's command). Imam Abu Jafar bin Jarir said that Allah's statement, وَلَقَدْ أَنزَلْنَأ إِلَيْكَ ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ (And indeed We have sent down to you manifest Ayat) means, "We have sent to you, O Muhammad, clear signs that testify to your Prophethood." These Ayat are contained in the Book of Allah (Qur'an) which narrates the secrets of the knowledge that the Jews possess, which they hid, and the stories of their earlier generations. The Book of Allah also mentions the texts in the Books of the Jews that are known to only the rabbis and scholars, and the sections where they altered and distorted the rulings of the Tawrah. Since Allah mentioned all of this in His Book revealed to His Prophet Muhammad, then this fact alone should be enough evidence for those who are truthful with themselves and who wish to avoid bringing themselves to destruction due to envy and transgression. Further human instinct testifies to the truth that Muhammad was sent with and the clear signs that he brought which he did not learn or acquire from mankind. Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said that, وَلَقَدْ أَنزَلْنَأ إِلَيْكَ ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ (And indeed We have sent down to you manifest Ayat) means, "You recite and convey this Book to them day and night, although you are an Ummi (unlettered) who never read a book. Yet, you inform them of what they have (in their own Books). Allah stated that this fact should serve as an example, a clear sign and a proof against them, if they but knew." The Jews break Their Covenants When the Messenger of Allah was sent and Allah reminded the Jews of the covenant that they had with Him, especially concerning Muhammad, Malik bin As-Sayf said, "By Allah! Allah never made a covenant with us about Muhammad, nor did He take a pledge from us at all." Allah then revealed,

سلیمان علیہ السلام جادوگر نہیں تھے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ایسی نشانیاں جو آپ کی نبوت کی صریح دلیل بن سکیں نازل فرما دی ہیں یہودیوں کی مخصوص معلومات کا ذخیرہ ان کی کتاب کی پوشیدہ باتیں ان کی تحریف و تبدیل احکام وغیرہ سب ہم نے اپنی معجزہ نما کتاب قرآن کریم میں بیان فرما دیئے ہیں جنہیں سن کر ہر زندہ ضمیر آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ یہودیوں کو ان کا حسد و بغض روک دے ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ایک امی شخص سے ایسا پاکیزہ خوبیوں والا حکمتوں والا کلام کہا نہیں جا سکتا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ابن صوریا قطوبنی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ بطور نبوت کوئی ایسی چیز نہیں لائے جس سے ہم پہچان لیں نہ آپ کے پاس کوئی ایسی خاص روشن دلیلیں ہیں اس پر یہ آیت پاک نازل ہوئی چونکہ یہودیوں نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ ہم سے پیغمبر آخر الزمان کی بابت کوئی عہد لیا گیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ان کی عادت ہی ہے کہ عہد کیا اور توڑا بلکہ ان کے اکثریت تو ایمان سے بالکل خالی ہے نبذ کا معنی پھینک دینا ہے چونکہ ان لوگوں نے کتاب اللہ کو اور عہد باری کو اس طرح چھوڑ رکھا تھا گویا پھینک دیا تھا اس لئے ان کی مذمت میں یہی لفظ لایا گیا دوسری جگہ صاف بیان ہے کہ ان کی کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود تھا فرمایا آیت ( يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) 7 ۔ الاعراف:157 ) یعنی یہ لوگ توراۃ وانجیل میں حضور کا ذکر موجود پاتے ہیں یہاں بھی فرمایا ہے کہ جب ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا ہمارے پیغمبر ان کے پاس آیا تو ان کے ایک فریق نے اللہ رب العزت کی کتاب سے بےپرواہی برت کر اس طرح اسے چھوڑ دیا جیسے کوئی علم ہی نہیں ۔ بلکہ جادو کے پیچھے پڑ گئے اور خود حضور پر جادو کیا جس کی اطلاع آپ کو جناب باری تعالیٰ نے دی اور اس کا اثر زائل ہوا اور آپ کو شفا ملی ۔ توراۃ سے تو حضور کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے کہ وہ تو اس کی تصدیق والی تھی تو اسے چھوڑ کر دوسری کتابوں کی پیروی کرنے لگے اور اللہ کی کتاب کو اس طرح چھوڑ دیا کہ گویا کبھی جانتے ہی نہ تھے نفسانی خواہشیں سامنے رکھ لیں اور کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا یہ بھی کہا گیا ہے کہ راگ باجے کھیل تماشے اور اللہ کے ذکر سے روکنے والی ہر چیز آیت ( ماتتلوا الشیاطین ) میں داخل ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جب آپ بیت الخلاء جاتے تو اپنی بیوی حضرت جرادہ کو دے جاتے جب حضرت سلیمان کی آزمائش کا وقت آیا اس وقت ایک شیطان جن آپ کی صورت میں آپ کی بیوی صاحبہ کے پاس آیا اور انگوٹھی طلب کی جو دے دی گئی اس نے پہن لی اور تخت سلیمانی پر بیٹھ گیا تمام جنات وغیرہ حاضر خدمت ہو گئے حکومت کرنے لگا ادھر جب حضرت سلیمان واپس آئے اور انگوٹھی طلب کی تو جواب ملا تو جھوٹا ہے انگوٹھی تو حضرت سلیمان لے گئے آپ نے سجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ان دنوں میں شیاطین نے جادو ، نجوم ، کہانت ، شعر و اشعار اور غیب کی جھوٹی سچی خبروں کی کتابیں لکھ لکھ کر حضرت سلیمان کی کرسی تلے دفن کرنی شروع کر دیں آپ کی آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا آپ پھر تخت و تاج کے مالک ہوئے عمر طبعی کو پہنچ کر جب رحلت فرمائی تو شیاطین نے انسانوں سے کہنا شروع کیا کہ حضرت سلیمان کا خزانہ اور وہ کتابیں جن کے ذریعہ سے وہ ہواؤں اور جنات پر حکمرانی کرتے تھے ان کی کرسی تلے دفن ہیں چونکہ جنات اس کرسی کے پاس نہیں جا سکتے تھے اس لئے انسانوں نے اسے کھودا تو وہ کتابیں برآمد ہوئیں بس ان کا چرچا ہو گیا اور ہر شخص کی زبان پر چڑھ گیا کہ حضرت سلیمان کی حکومت کا راز یہی تھا بلکہ لوگ حضرت سلیمان کی نبوت سے منکر ہو گئے اور آپ کو جادوگر کہنے لگے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو عقدہ کشائی کی اور فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ جادوگری کا یہ کفر تو شیاطین کا پھیلایا ہوا ہے حضرت سلیمان اس سے بری الذمہ ہیں حضرت ابن عباس کے پاس ایک شخص آیا آپ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا عراق سے! فرمایا عراق کے کس شہر سے؟ اس نے کا کوفہ سے! پوچھا وہاں کی کیا خبریں ہیں؟ اس نے کہا وہاں باتیں ہو رہی ہیں کہ حضرت علی انتقال نہیں کر گئے بلکہ زندہ روپوش ہیں اور عنقرب آئیں گے آپ کانپ اٹھے اور فرمانے لگے اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے اور ان کی عورتیں اپنا دوسرا نکاح نہ کرتیں سنو شیاطین آسمانی باتیں چرا لایا کرتے تھے اور ان میں اپنی باتیں ملا کر لوگوں میں پھیلایا کرتے تھے ، حضرت سلیمان نے یہ تمام کتابیں جمع کر کے اپنی کرسی تلے دفن کر دیں ۔ آپ کے انتقال کے بعد جنات نے وہ پھر نکال لیں وہی کتابیں عراقیوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ہی کتابوں کی باتیں وہ بیان کرتے اور پھیلاتے رہتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت آیت ( واتبعوا ) الخ میں ہے اس زمانہ میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ شیاطین علم غیب جانتے ہیں حضرت سلیمان نے ان کتابوں کو صندوق میں بھر کر دفن کر دینے کے بعد یہ حکم جاری کر دیا کہ جو یہ کہے گا اس کی گردن ماری جائے گی بعض روایتوں میں ہے کہ جنات نے ان کتابوں کو حضرت سلیمان کے انتقال کے بعد آپ کی کرسی تلے دفن کیا تھا اور ان کے شروع صفحہ پر لکھ دیا تھا کہ یہ علمی خزانہ آصف بن برخیا کا جمع کیا ہوا ہے جو حضرت سلیمان بن داؤد کے وزیر اعظم مشیر خاص اور دلی دوست تھے یہودیوں میں مشہور تھا کہ حضرت سلیمان نبی نہ تھے بلکہ جادوگر تھے اس بنا پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اللہ کے سچے نبی نے ایک سچے نبی کی برات کی اور یہودیوں کے اس عقیدے کا ابطال کیا وہ حضرت سلیمان کا نام نبیوں کے زمرے میں سن کر بہت بدکتے تھے اس لئے تفصیل کیساتھ اس واقعہ کو بیان کر دیا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ حضرت سلیمان نے تمام موذی جانوروں سے عہد لیا تھا جب انہیں وہ عہد یاد کرایا جاتا تھا تو وہ ستاتے نہ تھے پھر لوگوں نے اپنی طرف سے عبارتیں بنا کر جادو کی قسم کے منتر تنتر بنا کر ان سب کو آپ کی طرف منسوب کر دیا جس کا بطلان ان آیات کریمہ میں ہے یاد رہے کہ علی یہاں پر فی کے معنی میں ہے یا تتلو متضمن ہے تکذب کا ، یہی اولی اور احسن ہے واللہ اعلم خواجہ حسن بصری کا قول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں کا ہونا قرآن سے ثابت ہے اور حضرت سلیمان کا حضرت موسیٰ کے بعد ہونا بھی قرآن سے ظاہر ہے ۔ داؤد اور جالوت کے قصے میں ہے من بعد موسیٰ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے کہا تھا آیت ( انما انت من المسحرین ) یعنی تو جادو کئے گئے لوگوں میں سے ہے ۔ پھر فرماتا ہے آیت ( وما انزل ) الخ بعض تو کہتے ہیں یہاں پر ما نافیہ ہے یعنی انکار کے معنی میں ہے اور اس کا عطف ماکفر سلیمان پر ہے یہودیوں کے اس دوسرے اعتقاد کی کہ جادو فرشتوں پر نازل ہوا ہے اس آیت میں تردید ہے ، ہاروت ، ماروت لفظ شیاطین کا بدل ہے تثنیہ پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے جیسے آیت ( ان کانا لہ اخوۃ ) میں یا اس لئے جمع کیا گیا کہ ان کے ماننے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ان کا نام ان کی زیادہ سرکشی کی وجہ سے سرفہرست دیا گیا ہے قرطبی تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہی ٹھیک مطلب ہے اس کے سوا کسی اور معنی کی طرف التفات بھی نہ کرنا چاہئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جادو اللہ عزوجل کا نازل کیا ہوا نہیں ۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں ان پر کوئی جادو نہیں اترا ۔ اس بناء پر آیت کا ترجمہ اس طرح پر ہو گا کہ ان یہودیوں نے اس چیز کی تابعداری کی جو حضرت سلیمان کے زمانہ میں شیطان پڑھا کرتے تھے حضرت سلیمان نے کفر نہیں کیا نہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو ان دو فرشتوں پر اتارا ہے ( جیسے اے یہودیوں تمہارا خیال جبرائیل و میکائیل کی طرف ہے ) بلکہ یہ کفر شیطانوں کا ہے جو بابل میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور ان کے سردار دو آدمی تھے جن کا نام ہاروت و ماروت تھا ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی اسے اس طرح پڑھتے تھے آیت ( وما انزل علی الملکین داود وسلیمان ) یعنی داؤد و سلیمان دونوں بادشاہوں پر بھی جادو نہیں اتارا گیا یا یہ کہ وہ اس سے روکتے تھے کیونکہ یہ کفر ہے ۔ امام ابن جریر نے اس کا زبردست رد کیا ہے وہ فرماتے ہیں ما معنی میں الذی کے ہے اور ہاروت ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اتارا ہے اور اپنے بندوں کی آزمائش اور امتحان کے لئے انہیں جادو کی تعلیم دی ہے لہذا ہاروت ماروت اس فرمان باری تعالیٰ کو بجالا رہے ہیں ۔ ایک غریب قول یہ بھی ہے کہ یہ جنوں کے دو قبیلے ہیں ملکینی یعنی دو بادشاہوں کی قرأت پر انزال خلق کے معنی میں ہو گا جیسے فرمایا آیت ( وانزل لکم من الانعام ثمانیتہ ازواج ) اور فرمایا آیت ( وانزلنا الحدید ) اور کہا آیت ( وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ رِزْقًا ) 40 ۔ غافر:43 ) یعنی ہم نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا کئے ، لوہا بنایا ، آسمان سے روزیاں اتاریں ۔ حدیث میں ہے دعا ( ماانزل اللہ داء ) یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان سب کے علاج بھی پیدا کئے ہیں مثل مشہور ہے کہ بھلای برائی کا نازل کرنے والا اللہ ہے یہاں سب جگہ انزال یعنی پیدائش کے معنی میں ہے ایجاد یعنی لانے اور اتار نے کے معنی میں نہیں اسی طرح اس آیت میں بھی اکثر سلف کا مذہب یہ ہے کہ یہ دونوں فرشتے تھے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ مضمون بسط و طول کے ساتھ ہے جو ابھی بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ فرشتے تو معصوم ہیں وہ گناہ کرتے ہی نہیں چہ جائیکہ لوگوں کو جادو سکھائیں جو کفر ہے اس لئے کہ یہ دونوں بھی عام فرشتوں میں سے خاص ہو جائیں گے ۔ جیسے کہ ابلیس کی بابت آپ آیت ( وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ) 2 ۔ البقرۃ:34 ) کی تفسیر میں پڑھ چکے ہیں حضرت علی حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر کعب احبار ، حضرت سدی ، حضرت کلبی یہی فرماتے ہیں اب اس حدیث کو سنئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا اور ان کی اولاد پھیلی اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونے لگی تو فرشتوں نے کہا کہ دیکھو یہ کس قدر برے لوگ ہیں کیسے نافرمان اور سرکش ہیں ہم اگر ان کی جگہ ہوتے تو ہرگز ہرگز اللہ کی نافرمانی نہ کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو پسند کر لو میں ان میں انسانی خواہشات پیدا کرتا ہوں اور انہیں انسانوں میں بھیجتا ہوں پھر دیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے ہاروت و ماروت کو پیش کیا اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانی طبیعت پیدا کی اور ان سے کہہ دیا کہ دیکھو بنی آدم کو تو میں نبیوں کے ذریعہ اپنے حکم احکام پہنچاتا ہوں لیکن تم سے بلاواسطہ خود کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا زنا نہ کرنا ، شراب نہ پینا ، اب یہ دونوں زمین پر اترے اور زہرہ کو ان کی آزمائش کے لئے حسین و شکیل عورت کی صورت میں ان کے پاس بھیجا جسے دیکھ کر یہ مفتوں ہو گئے اور اس سے زنا کرنا چاہا اس نے کہا اگر تم شرک کرو تو میں منظور کرتی ہوں انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو ہم سے نہ ہو سکے گا وہ چلی گئی پھر آئی اور کہنے لگی اچھا اس بچے کو قتل کر ڈالو تو مجھے تمہاری خواہش پوری کرنی منظور ہے انہوں نے اسے بھی نہ مانا وہ پھر آئی اور کہا کہ اچھا یہ شراب پی لو انہوں نے اسے ہلکا گناہ سمجھ کر اسے منظور کر لیا ۔ اب نشہ میں مست ہو کر زنا کاری بھی کی اور اس بچے کو بھی قتل کر ڈالا جب ہوش حواس درست ہوئے تو اس عورت نے کہا جن جن کاموں کا تم پہلے انکار کرتے تھے سب تم نے کر ڈالے ۔ یہ نادم ہوئے انہیں اختیار دیا گیا کہ یا تو عذاب دنیا کو اختیار کرو یا عذاب اخروی کو ۔ انہوں نے دنیاے عذاب پسند کئے صحیح ابن حبان مسند احمد ابن مردویہ ابن جریر عبدالرزاق میں یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ مسند احمد کی یہ روایت غریب ہے اس میں ایک راوی موسیٰ بن جبیر انصاری سلمی کو ابن ابی حاتم نے مستور الحال لکھا ہے ابن مردویہ کی روایت میں یہی ہے کہ ایک رات کو اثناء سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت نافع سے پوچھا کہ کیا زہرہ تارا نکلا ؟ اس نے کہا نہیں دو تین مرتبہ سوال کے بعد کہا اب زہرہ طلوع ہوا تو فرمانے لگے اس سے نہ خوشی ہو نہ بھلائی ملے ۔ حضرت نافع نے کہا حضرت ایک ستارہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا ہے آپ اسے برا کہتے ہیں؟ فرمایا میں وہی کہتا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر اس کے بعد مندرجہ بالا حدیث باختلاف الفاظ سنائی لیکن یہ بھی غریب ہے حضرت کعب والی روایت مرفوع سے زیادہ صحیح موقف ہے اور ممکن ہے کہ وہ نبی اسرائیل روایت ہو و اللہ اعلم صحابہ اور تابعین سے بھی اس قسم کی روایتیں بہت کچھ منقول ہیں بعض میں ہے کہ زہرہ ایک عورت تھی اس نے ان فرشتوں سے یہ شرط کی تھی کہ تم مجھے وہ دعا سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو انہوں نے سکھا دی یہ پڑھ کر چڑھ گئی اور وہاں تارے کی شکل میں بنا دی گئی بعض مرفوع روایتوں میں بھی یہ ہے لیکن وہ منکر اور غیر صحیح ہیں ۔ ایک اور رویات میں ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو فرشتے صرف ایمان والوں کی بخشش کی دعا مانگتے تھے لیکن اس کے بعد تمام اہل زمین کے لئے دعا شروع کر دی بعض روایتوں میں ہے کہ جب ان دونوں فرشتوں سے یہ نافرمانیاں سرزد ہوئیں تب اور فرشتوں نے اقرار کر لیا کہ بنی آدم جو اللہ تعالیٰ سے دور ہیں اور بن دیکھے ایمان لاتے ہیں جن سے خطاؤں کا سرزد ہو جانا کوئی ایسی انوکھی چیز نہیں ان دونوں فرشتوں سے کہا گیا کہ اب یا تو دنیا کا عذاب پسند کر لو یا آخرت کے عذابوں کو اختیار کر لو ۔ انہوں نے دنیا کا عذاب چن لیا چنانچہ انہیں بابل میں عذاب ہو رہا ہے ایک رویات میں ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے تھے ان میں قتل سے اور مال حرام سے ممانعت بھی کی تھی اور یہ حکم بھی تھا کہ حکم عدل کے ساتھ کریں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ تین فرشتے تھے لیکن ایک نے آزمائش سے انکار کر دیا اور واپس چلا گیا پھر دو کی آزمائش ہوئی ابن عباس فرماتے ہیں یہ واقعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ کا ہے ۔ یہاں بابل سے مراد بابل دنیاوند ہے اس عورت کا نام عربی میں زہرہ تھا اور لبطی زبان میں اس کا نام بیدخت تھا اور فارسی میں ناہید تھا ۔ یہ عورت اپنے خاوند کے خلاف ایک مقدمہ لائی تھی جب انہوں نے اس سے برائی کا ارادہ کیا تو اس نے کہا پہلے مجھے میرے خاند کے خلاف حکم دو تو مجھے منظور ہے انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس نے کہا مجھے یہ بھی بتا دو کہ تم کیا پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہو اور کیا پڑھ کر اترتے ہو؟ انہوں نے یہ بھی بتا دیا چنانچہ وہ اسے پڑھ کر آسمان پر چڑھ گئی اترنے کا وظیفہ بھول گئی اور وہیں ستارے کی صورت میں مسخ کر دی گئی ۔ حضرت عبداللہ بن عمر جب کبھی زہرہ ستارے کو دیکھتے تو لعنت بھیجا کرتے تھے اب ان فرشتوں نے جب چڑھنا چاہا تو نہ چڑھ سکے سمجھ گئے کہ اب ہم ہلاک ہوئے حضرت مجاہد فرماتے ہیں پہلے پہل چند دنوں تک تو فرشتے ثابت قدم رہے صبح سے شام تک فیصلہ عدل کے ساتھ کرتے رہتے شام کو آسمان پر چڑھ جاتے پھر زہرہ کو دیکھ کر اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے زہرہ ستارے کو ایک خوبصورت عورت کی شکل میں بھیجا الغرض ہاروت ماروت کا یہ قصہ تابعین میں سے بھی اکثر لوگوں نے بیان کیا ہے جیسے مجاہد ، سدی ، حسن بصری ، قتادہ ، ابو العالیہ ، زہری ، ربیع بن انس ، مقتل بن حیان وغیرہ وغیرہ رحم اللہ اجمعین اور متقدمین اور متاخیرن مفسرین نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں اسے نقل کیا ہے لیکن اس کا زیادہ تر دار و مدار بنی اسرائیل کی کتابوں پر ہے کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث اس بات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ قرآن کریم میں اس قدر بسط و تفصیل ہے پس ہمارا ایمان ہے کہ جس قدر قرآن میں ہے صحیح اور درست ہے اور حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ( قرآن کریم کے ظاہری الفاظ مسند احمد ابن حبان بیہقی وغیرہ کی مرفوع حدیث حضرت علی حضرت ابن عباس بن مسعود وغیرہ کی موقوف روایات تابعین وغیرہ کی تفاسیر وغیرہ ملا کر اس واقعہ کی بہت کچھ تقویت ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی محال عقلی ہے نہ اس میں کسی اصول اسلامی کا خلاف ہے پھر ظاہر سے بےجا ہٹ اور تکلفات اٹھانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی واللہ اعلم ) ( فتح البیان ) ابن جریر میں ایک غریب اثر اور ایک عجیب واقعہ ہے اسے بھی سنئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ دومتہ الجندل کی ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد آپ کی تلاش میں آئی اور آپ کے انتقال کی خبر پا کر بےچین ہو کر رونے پیٹنے لگی میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ مجھ میں اور میرے شوہر میں ہمیشہ ناچاقی رہا کرتی تھی ایک مرتبہ وہ مجھے چھوڑ کر لاپتہ کہیں چلا گیا ، ایک بڑھیا سے میں نے یہ سب ذکر کیا اس نے کہا جو میں کہوں وہ کر وہ خود بخود تیرے پاس آ جائے گا میں تیار ہو گئی وہ رات کے وقت دو کتے لے کر میرے پاس آئی ایک پر وہ خود سوار ہوئی اور دوسرے پر میں بیٹھ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں بابل پہنچ گئیں میں نے دیکھا کہ دو شخص ادھر لٹکے ہوئے ہیں اور لوہے میں جکڑے ہوئے ہیں اس عورت نے مجھ سے کہا ان کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ میں جادو سیکھنے آئی ہوں میں نے ان سے کہا انہوں نے کہا سن ہم تو آزمائش میں ہیں تو جادو نہ سیکھ اس کا سیکھنا کفر ہے میں نے کہا میں تو سیکھوں گی انہوں نے کہا اچھا پھر جا اور اس تنور میں پیشاب کر کے چلی آ میں گئی ارادہ کیا لیکن کچھ دہشت سی طاری ہوئی میں واپس آ گئی اور کہا میں فارغ ہو آئی ہوں انہوں نے پوچھا کیا دیکھا ؟ میں نے کہا کچھ نہیں انہوں نے کہا تو غلط کہتی ہے ابھی تو کچھ نہیں بگڑا تیرا ایمان ثابت ہے اب بھی لوٹ جا اور کفر نہ کر میں نے کہا مجھے تو جادو سیکھنا ہے انہوں نے پھر کہا جا اور اس تنور میں پیشاب کر آ میں پھر گئی لیکن اب کی مرتبہ بھی دل نہ مانا واپس آئی پھر اسی طرح سوال جواب ہوئے میں تیسری مرتبہ پھر تنور کے پاس گئی اور دل کڑا کر کے پیشاب کرنے کو بیٹھ گئی میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑے سوار منہ پر نقاب ڈالے نکلا اور آسمان پر چڑھ گیا ہے ۔ واپس چلی آئی ان سے ذکر کیا انہوں نے کہا ہاں اب کی مرتبہ تو سچ کہتی ہے وہ تیرا ایمان تھا جو تجھ میں سے نکل گیا اب جا چلی جا میں آئی اور اس بڑھیا سے کہا انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا اس نے کہا بس تجھے کچھ آ گیا اب تو جو کہے گی ہو جائے گا میں نے آزمائش کے لئے ایک دانہ گیہوں کا لیا اسے زمین پر ڈال کر کہا اگ جا وہ فوراً اگ آیا میں نے کہا تجھ میں بال پیدا ہو جائے چنانچہ ہو گئے میں نے کہا سوکھ جا وہ بال سوکھ گئے میں نے کہا الگ الگ دانہ ہو جا وہ بھی ہو گیا پھر میں نے کہا سوکھ جا تو سوکھ گیا پھر میں نے کہا آٹا بن جا تو آٹا بن گیا میں نے کہا روٹی پک جا تو روٹی پک گئی یہ دیکھتے ہی میرا دل نادم ہونے لگا اور مجھے اپنے بے ایمان ہو جانے کا صدمہ ہونے لگا اے ام المومنین قسم اللہ کی نہ میں نے اس جادو سے کوئی کام لیا نہ کسی پر کیا میں یونہی روتی پیٹتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں لیکن افسوس بدقستمی سے آپ کو بھی میں نے نہ پایا اب میں کیا کرو؟ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی سب کو اس پر ترس آنے لگا صحابہ کرام بھی متحیر تھے کہ اسے کیا فتویٰ دیں؟ آخر بعض صحابہ نے کہا اب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ تم اس فعل کو نہ کرو توبہ استغفار کرو اور اپنے ماں باپ کی خدمت گزاری کرتی رہو یہاں یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے تھے کہ چھوٹی سی بات بتانے میں تامل ہوتا تھا آج ہم بڑی سے بڑی بات بھی اٹکل اور رائے قیاس سے گھڑ گھڑا کر بتانے میں بالکل نہیں رکتے اس کی اسناد بالکل صحیح ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ عین چیز جادو کے زور سے پلٹ جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں نہیں صرف دیکھنے والے کو ایسا خیال پڑتا ہے اصل چیز جیسی ہوتی ہے ویسی ہی رہتی ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( سحروا اعین الناس ) الخ یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور فرمایا آیت ( یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی ) حضرت موسیٰ کی طرف خیال ڈالا جاتا تھا کہ گویا وہ سانپ وغیرہ ان کے جادو کے زور سے چل پھر رہے ہیں اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں لفظ بابل سے مراد بابل عراق ہے بابل دنیاوند نہیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بابل کی زمین میں جا رہے تھے عصر کی نماز کا وقت آ گیا لیکن آپ نے وہاں نماز ادا نہ کی بلکہ اس زمین کی سرحد سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھی اور فرمایا میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے اور بابل کی زمین میں نماز پڑھنے سے بھی ممانعت فرمائی ہے یہ زمین ملعون ہے ۔ ابو داؤد میں بھی یہ حدیث مروی ہے ۔ اور امام صاحب نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا اور جس حدیث کو حضرت امام ابو داؤد اپنی کتاب میں لائیں اور اس کی سند پر خاموشی کریں تو وہ حدیث امام صاحب کے نزدیک حسن ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ بابل کی سر زمین میں نماز مکروہ ہے جیسے کہ ثمودیوں میں نہ جاؤ اگر اتفاقاً جانا پڑے تو خوف الہ سے روتے ہوئے جاؤ ۔ ہئیت دانوں کا قول ہے کہ بابل کی دوری بحر غربی اوقیانوس سے ستر درجہ لمبی اور وسط زمین سے نوب کی جانب بخط استوا سے تئیس درجہ ہے واللہ اعلم ۔ چونکہ ہاروت ماروت کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شفر کفر و ایمان کا علم دے رکھا ہے اس لئے ہر ایک کفر کی طرف جھکنے والے کو نصیحت کرتے ہیں اور ہر طرح روکتے ہیں جب نہیں مانتا تو وہ اسے کہہ دیتے ہیں اس کا نور ایمان جاتا رہتا ہے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے شیطان اس کا رفیق کار بن جاتا ہے ایمان کے نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا غضب اس کے روم روم میں گھس جاتا ہے ابن جریج فرماتے ہیں سوائے کافر کے اور کوئی جادو سیکھنے کی جرات نہیں کرتا ۔ فتنہ کے معنی یہاں پر بلا آزمائش اور امتحان کے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن پاک میں مذکور ہے آیت ( ان ھی الا فتنتک ) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جادو سیکھنا کفر ہے حدیث میں بھی ہے جو شخص کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جائے اور اس کی بات کو سچ سمجھے اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی کے ساتھ کفر کیا ( بزار ) یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی تائید میں اور حدیثیں بھی آئی ہیں پھر فرمایا کہ لوگ ہاروت ماروت سے جادو سیکھتے ہیں جس کے ذریعہ برے کام کرتے ہیں عورت مرد کی محبت اور موافقت کو بغض اور مخالفت سے بدل دیتے ہیں صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شیطان اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بہکانے کے واسطے بھیجتا ہے سب سے زیادہ مرتبہ والا اس کے نزدیک وہ ہے جو فتنے میں سب سے بڑھا ہوا ہو ۔ یہ جب واپس آتے ہیں تو اپنے بدترین کاموں کا ذکر کرتے ہیں کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو اس طرح گمراہ کر دیا ۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے یہ گناہ کرایا ۔ شیطان ان سے کہتا ہے ۔ کچھ نہیں یہ تو معمولی کام ہے یہاں تک کہ ایک آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ڈال دیا یہاں تک کہ جدائی ہو گئی شیطان اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کام کیا اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور اس کا مرتبہ بڑھا دیتا ہے پس جادوگر بھی اپنے جادو سے وہ کام کرتا ہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے مثلاً اس کی شکل صورت اسے بری معلوم ہونے لگے یا اس کے عادات و اطوار سے جو غیر شرعی نہ ہوں یہ نفرت کرنے لگے یا دل میں عداوت آ جائے وغیرہ وغیرہ رفتہ رفتہ یہ باتیں بڑھتی جائیں اور آپس میں چھوٹ چھٹاؤ ہو جائے مرا کہتے ہیں اس کا مذکر مونث اور تثنیہ تو ہے جمع نہیں بنتا پھر فرمایا یہ کسی کو بھی بغیر اللہ کی مرضی کے ایذاء نہیں پہنچا سکتے یعنی اس کے اپنے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے ارادے کے ماتحت یہ نقصان بھی پہنچتا ہے اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا جادو محض بے اثر اور بےفائدہ ہو جاتا ہے یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جادو اسی شخص کو نقصان دیتا ہے جو اسے حاصل کرے اور اس میں داخل ہو پھر ارشاد ہوتا ہے وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لئے سراسر نقصان دہ ہے جس میں کوئی نفع نہیں اور یہ یہودی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری چھوڑ جادو کے پیچھے لگنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں نہ ان کی قدر و وقعت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے نہ وہ دیندار سمجھے جاتے ہیں پھر فرمایا اگر یہ اس کام کی برائی کو محسوس کرتے اور ایمان و تقویٰ برتتے تو یقینا ان کے لئے بہت ہی بہتر تھا مگر یہ بےعلم لوگ ہیں اور فرمایا کہ اہل علم نے کہا تم پر افسوس ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ثواب ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے لیکن اسے صبر کرنے والے ہی پا سکتے ہیں ۔ اس آیت سے یہ بھی استدلال بزرگان دین نے کیا ہے کہ جادوگر کافر ہے کیونکہ آیت میں آیت ( وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ ) 2 ۔ البقرۃ:103 ) فرمایا ہے حضرت امام احمد اور سلف کی ایک جماعت بھی جادو سیکھنے والے کو کافر کہتی ہے بعض کافر تو نہیں کہتے لیکن فرماتے ہیں کہ جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے بجالہ بن عبید کہتے ہیں حضرت عمر نے اپنے ایک فرمان میں لکھا تھا کہ ہر ایک جادوگر مرد عورت کو قتل کر دو چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کی گردن ماری صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ام المومنین حضرت حفضہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ان کی ایک لونڈی نے جادو کیا جس پر اسے قتل کیا گیا ۔ حضرت امام احمد حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین صحابیوں سے جادوگر کے قتل کا فتویٰ ثابت ہے ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جادوگر کی حد تلوار سے قتل کر دینا ہے اس حدیث کے ایک راوی اسمعیل بن مسلم ضعیف ہیں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غالباً یہ حدیث موقوف ہے لیکن طبرانی میں ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مرفوع مروی ہے واللہ اعلم ۔ ولید بن عقبہ کے پاس ایک جادوگر تھا جو اپنے کرتب بادشاہ کو دکھایا کرتا تھا بظاہر ایک شخص کا سر کاٹ لیتا پھر آواز دیتا تو سر جڑ جاتا اور وہ موجود ہو جاتا مہاجرین صحابہ میں سے ایک بزرگ صحابی نے یہ دیکھا اور دوسرے دن تلوار باندھے ہوئے آئے جب ساحر نے اپنا کھیل شروع کیا آپ نے اپنی تلوار سے خود اس کی گردن اڑا دی اور فرمایا لے اب اگر سچا ہے تو خود جی اٹھ پھر قرآن پاک کی یہ آیت پڑھ کر لوگوں کو سنائی آیت ( اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:3 ) کیا تم دیکھتے بھالتے جادو کے پاس جاتے ہو؟ چونکہ اس بزرگ صحابی نے ولید کی اجازت اس کے قتل میں نہیں لی تھی اسلئے بادشاہ نے ناراض ہو کر انہیں قید کر دیا پھر چھوڑ دیا امام شافعی نے حضرت عمر کے فرمان اور حضرت حفصہ کے واقعہ کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب جادو شرکیہ الفاظ سے ہو ۔ معتزلہ جادو کے وجود کے منکرین وہ کہتے ہیں جادو کوئی چیز نہیں بلکہ بعض لوگ تو بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ کہتے ہیں جو جادو کا وجود مانتا ہو وہ کافر ہے لیکن اہل سنت جادو کے وجود کے قائل ہیں یہ مانتے ہیں کہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑ سکتے ہیں اور انسان بظاہر گدھا اور گدھے کو بظاہر انسان بنا ڈالتے ہیں مگر کلمات اور منتر تنتر کے وقت ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے آسمان کو اور تاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا اہل سنت نہیں مانتے ، فلسفے اور نجوم والے اور بےدین لوگ تو تاروں کو اور آسمان کو ہی اثر پیدا کرنے والا جانتے ہیں اہل سنت کی ایک دلیل تو آیت ( وما ھم بضارین ) ہے اور دوسری دلیل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا جانا اور آپ پر اس کا اثر ہونا ہے تیسرے اس عورت کا واقعہ جسے حضرت عائشہ نے بیان فرمایا ہے جو اوپر ابھی ابھی گزرا ہے اور بھی بیسیوں ایسے ہی واقعات وغیرہ ہیں ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جادو کا حاصل کرنا برا نہیں محققین کا یہی قول ہے اس لئے کہ وہ بھی ایک علم ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 39 ۔ الزمر:9 ) یعنی علم والے اور بےعلم برابر نہیں ہوتے اور اس لئے کہ یہ علم ہو گا تو اس سے معجزے اور جادو میں فرق پوری طرح واضح ہو جائے گا اور معجزے کا علم واجب ہے اور وہ موقوف ہے جادو کے سیکھنے پر جس سے فرق معلوم ہو پس جادو کا سیکھنا بھی واجب ہوا رازی کا یہ قول سرتاپا غلط ہے اگر عقلاً وہ اسے برا نہ بتائیں تو معتزلہ موجود ہیں جو عقلاً بھی اس کی برائی کے قائل ہیں اور اگر شرعاً برا نہ بتاتے ہوں تو قرآن کی یہ آیت شرعی برائی بتانے کے لئے کافی ہے صحیح حدیث میں ہے جو کسی شخص کسی جادوگر یا کاہن کے پاس جائے وہ کافر ہو جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ۚ ) یعنی کھلی نشانیاں، جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا واضح ثبوت موجود ہے، قرآن کریم کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام معجزات اس کے تحت آسکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In denying the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the Jews used to say that no clear evidence or sign of his prophethood had been revealed to him such as they could recognize and accept. In reply to this the Holy Qur&an says that Allah has revealed a number of very clear signs and evidences of his prophethood which even they know and understand very well. So, their denial is not based on a lack of recognition or knowledge, but on their habitual disobedience, for, as a general rule, no one denies such evidence except those who are willful and stubborn in their disobedience.

خلاصہ تفسیر : (اس آیت میں ایک خاص عہد شکنی کا ذکر فرماتے ہیں جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے میں کلام تھا ارشاد ہوتا ہے) اور جب ان کے پاس ایک (عظیم الشان) پیغمبر آئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو (رسول ہونے کے ساتھ) تصدیق بھی کر رہے ہیں اس کتاب کی جو ان لوگوں کے پاس ہے (یعنی توراۃ کی کیونکہ اس میں آپ کی نبوت کی خبر ہے تو اس حالت میں آپ پر ایمان لانا عین توراۃ پر عمل تھا جس کو وہ بھی کتاب اللہ جانتی ہیں مگر باوجود اس کے بھی) ان اہل کتاب میں کے ایک فریق نے خود اس کتاب اللہ ہی کو اس طرح پس پشت ڈال دیا جیسے ان کو (اس کے مضمون کا یا کتاب اللہ ہونے کا) گویا اصلاً علم ہی نہیں ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝ ٠ ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ۝ ٩٩ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کرنے کے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) یعنی ہماری طرف سے جبریل امین (علیہ السلام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایسی آیات لے کر آتے ہیں جو اوامرو نواہی کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان کرنے والی ہیں اور ان آیات کا انکار کافر یہودی ہی کرتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ولقد انزلنا الیک “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے سعید (رح) اور عکرمہ (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ابن صوریانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس کوئی ایسی چیز لے کر نہیں آئے جسے ہم پہچانتے ہوں اور نہ آپ پر کوئی بیان کرنے والی واضح آیت نازل ہوئی ہے۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ولقد انزلنا الیک ایت بینت (الخ) کو نازل فرمایا اور مالک بن ابی الصف (رح) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور آپ نے اس عہد ومیثاق کو جو ان سے لیا گیا تھا اور اس عہد و پیمان کو جو ان سے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں لیا گیا تھا بیان کیا تو یہ یہودی کہنے لگے اللہ کی قسم ہم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کوئی عہد نہیں لیا گیا اور نہ ہم سے کسی قسم کا اقرار لیا گیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل کی گئی کہ جس وقت بھی ان سے کوئی عہد لیا گیا الخ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ج ) (وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ ) ۔ یاد کیجیے سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں یہ الفاظ آئے تھے : (وَمَا یُضِلُّ بِہٖ الاَّ الْفٰسِقِیْنَ ) اور وہ گمراہ نہیں کرتا اس کے ذریعے سے مگر فاسقوں کو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(99 ۔ 103) ۔ بعض یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا تھا کہ حضرت موسیٰ کے عصا اور ید بیضا کی طرح آپ کو کوئی صریح اور صاف معجزہ نہیں ملا۔ پھر ہم آپ کو کیونکر اللہ کا رسول جان لیویں۔ اسی گفتگو میں بعض یہود نے یہ بھی کہا تھا کہ تورات میں ایسا کوئی عہد نہیں ہے جس سے ہم لوگوں پر نبی آخر الزمان کی مدد لازم ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور یہود کی پہلی بات کا جواب تو یہ دیا کہ ان لوگوں کی وہ باتیں جو سوا ان کے علماء کے دوسرے کسی کو معلوم نہیں جب کہ نبی آخر الزمان پر قرآن کے ذریعہ سے روزانہ نازل ہوتی ہیں اور نبی آخر الزمان باوجود امی ہونے کے ان باتوں کی ایسی صحیح اطلاع ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کو یہ لوگ اپنی کتاب آسمانی کے مطابق پاتے ہیں تو پھر نبی آخر الزمان کے نبی اور قرآن کے کتاب آسمانی ہونے کے لئے ان لوگوں کو اور کیا معجزہ درکا ہے۔ اور دوسری بات کا جواب یہ دیا کہ نبی آخر الزمان کی فرماں برداری اور مدد کے عہد کو یہ لوگ خوب جانتے ہیں لیکن یہ ان لوگوں کی عادت ہے کہ اپنے عہد پر یہ لوگ قائم نہیں رہتے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ عہد تورات میں موجود ہے جس کا ذکر سورة اعراف کی آیت { اَلَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجَیْلَ } ( ٧ : ١٥٧) میں ہے پھر فرمایا کہ ان کی بد عہدی کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی کتاب تورات کو تور بالکل ایسا چھوڑ دیا ہے کہ اس سے جان بوجھ کر انجان بن گئے ہیں۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں جن وانس کے میل جول سے جادو کی جو دہت لگ گئی تھی اسی کو انہوں نے اپنا دین سمجھ رکھا ہے۔ اور جادو کے رواج کو یہ لوگ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جو منسوب کرتے ہیں یہ بات ان لوگوں کی بالکل غلط ہے۔ یہ جادو تو شیاطین اور ہاروت ماروت کے سبب سے پھیلا ہے ہاروت ماروت کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ بنی آدم کے طرح طرح کے گناہ دیکھ کر ملائکہ نے خدا تعالیٰ کے روبرو بنی آدم پر کچھ طعن کی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر بنی آدم کی سی خواہشیں نفسانی تم میں ہوتیں تو تمہارا بھی گناہوں سے بچنا دشوار تھا۔ ملائکہ نے جواب دیا کہ ہم تو یا اللہ تیری نافرمانی ایسی کبھی نہ کریں گے جیسی نافرمانی بنی آدم کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ میں سے بڑے عابد دو فرشتے جن کا نام ہاروت ماروت تھا چھانٹے اور انسان کی سب خواہشیں ان میں پیدا کر کے کوفہ کی سر زمین پر جو جگہ بابل ہے وہاں ان کو بھیجا اور وہاں وہ ایک عورت زہر نام پارسن کی الفت میں مبتلا ہو کر اس کے کہنے سے شراب پی گئے۔ اور شراب کے نشہ میں زنا کے علاوہ شرک اور قتل نفس کا گناہ بھی ان سے سرزد ہوا۔ اور ان گناہوں کی سزا میں قیامت تک اس پر طرح طرح کا عذاب ہوتا رہے گا۔ یہی دونوں فرشتے لوگوں میں پابندی شریعت کے جانچے کو پہلے جادو کے سیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ پھر جب کوئی شخص زیادہ اصرار کرتا ہے تو اس کو جادو سکھاتے ہیں۔ ہاروت ماروت کے اس قصہ کے صحیح ہونے کا اکثر علمائے مفسرین نے انکار کیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر نے اس قصہ کی روایتیں ایک رسالہ میں جمع کی ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قصہ کی روایت درجہ صحت تک پہنچتی ہے۔ اور اس قصہ کی حاصل ہے ١۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ یہ قصہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا ہے اور اسی زمانہ میں ایک عورت زہرہ ایسی خوبصورت تھی جیسے تاروں میں زہر تارہ خوبصورت ہے۔ فرقہ معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ سرے سے دنیا میں جادو کا وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن قرآن شریف میں چند جگہ جو جادو کا ذکر ہے وہ اور صحیحین میں حضرت عائشہ کی وہ حدیث جس میں لبیدبن عاصم کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرنے کا قصہ ہے ٢۔ اہل سنت کے مذہب کی تائید کے لئے کافی ہے۔ رہا جادو کا سیکھنا اس میں امام ابوحنیفہ ومالک و احمد کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا سیکھنا کفر اور سیکھنے کے بعد جو شخص جادو کا ایک دفعہ بھی عمل کرے اس کی سزا قتل ہے۔ امام شافعی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کے عمل سے نہیں بلکہ عادت کے طور پر چند دفعہ جادو کا عمل کرنے سے ایسا شخص واجب القتل ٹھہرتا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا سیکھنا کبیرہ گناہ ہے ٣۔ اور ترمذی کی جندب کی روایت میں آپ نے جادو گر کی حد قتل قرار دی ہے ٤۔ ان حدیثوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے کہا ہے کہ اگر بغیر دخل تقدیر الٰہی کے کوئی شخص جادو میں مستقل تاثیر کا اعتقاد رکھے تو کفر ہے ورنہ کبیرہ گناہ ہے۔ امام رازی نے معجزہ اور جادو کا فرق پہچاننے کی غرض سے جادو کے سیکھنے کو واجب لکھا ہے اور علماء نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو صحابہ ضرور جادو سیکھتے ٥۔ آیۃ الکرسی قل اعوذ برب الفلق اور قل عوذ برب الناس میں رد سحر کا ایک خاص اثر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:99) ولقد۔ واؤ عاطفہ ۔ لام تاکید کا۔ اور قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کا معنی دیتا ہے۔ ما یکفربھا۔ میں ما نافیہ ہے اور ھا ضمیر واحد مؤنث غائب ایات کی طرف راجع ہے۔ الفاسقون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ فسق و فسوق مصدر۔ فسق فلان کے معنی ہیں کسی شخص کا دائرہ شریعت سے نکل جانا ۔ اور یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے جھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں۔ عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کرنے کے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کھلی آیتیں یعنی واضح نشانیاں جن میں آنحضرت کی نبوت کا بین ثبوت موجود ہے۔ اما رازی لکھتے ہیں کہ قرآن پاک کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جملہ معجزات اس کے تحت آسکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ مضمون کا تسلسل جس میں یہودیوں کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کی طرف واضح ہدایت اور احکامات نازل فرمائے۔ اس کے باوجود یہ لوگ ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ” اللہ “ کی ہدایات میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی پائی جاتی ہے ایسا ہرگز نہیں ہماری ہدایات تو بدر منیر کی طرح روشن اور اس کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ ایسی ہدایات اور بیّن دلائل کا انکار تو وہی لوگ کرتے ہیں جنہوں نے دانستہ طور پر نافرمانی کا وطیرہ اپنا لیا ہو۔ ان کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھی ان سے عہد لیا گیا تو ان کی اکثریت نے اس عہد کو توڑدیا۔ جب بھی اس وعدے کی یاد دہانی اور تجدید عہد کے لیے اللہ کے برگزیدہ رسول ان کے پاس آئے تو ان کے ایک طبقہ نے حقائق جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام سے اس طرح روگردانی اور ایسی لاپرواہی کے ساتھ اسے پس پشت ڈالا جیسا کہ ان کے پاس کوئی ہدایت پہنچی ہی نہیں۔ انسان کی اخلاقی پستی کی اس وقت انتہا ہوجاتی ہے جب اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات کا پاس اور کئے ہوئے وعدہ کا احترام نہ رہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّاقَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّاأَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أنس بن مالک) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جب بھی خطبہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ کلمات ضرور ارشاد فرمائے جو امانت دار نہیں وہ ایماندار نہیں اور جو عہد کا پاسدار نہیں وہ دیندار نہیں۔ “ عہد شکن کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُعْرَفُ بِہٖ ) (رواہ البخاری : باب إذا غصب جاریۃ فزعم أنھاماتت فقضي بقیمۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کرنا پرلے درجے کی نافرمانی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احکام بڑے واضح اور بیّن ہیں۔ ٣۔ یہودی پرلے درجے کے عہد شکن اور کتاب اللہ سے پیٹھ پھیرنے والے ہیں۔ ٤۔ یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ ٥۔ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ ایمان سے تہی دامن ہوا کرتی ہے۔ ٦۔ یہود ونصار یٰ اپنے تصدیق کرنے والے کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن عہد شکن کون اور اس کی سزا ؟ ١۔ کافر عہد کی پروا نہیں کرتا۔ (الانفال : ٥٦) ٢۔ بنی اسرائیل عہد شکن تھے۔ (النساء : ١٥٥) ٣۔ فاسق عہد شکن ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٧) ٤۔ عہد شکنی کے باعث آدمی ملعون اور اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ : ١٣) ٥۔ عہد شکن کو آخرت میں عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب کھول کر بیان کردئیے ہیں جن کی بناء پر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی ان واضح آیات کا انکار کررہے تھے جو خود اللہ کی جانب سے نازل ہوئی تھیں ۔ یعنی وہ لوگ فسق وفجور میں مبتلا تھے ۔ ان کی فطرت بگڑی ہوئی تھی کیونکہ فطرت سلیمہ کے لئے تو اس کے سوا کوئی چارہ کا رہی نہ تھا کہ وہ ان آیات پر ایمان لے آئے اگر دل میں کجی نہ ہو تو یہ آیات از خود اپنے آپ کو منواتی ہیں اور یہودیوں نے کفر کا جو رویہ اختیار کیا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں دلائل کی کچھ کمی ہے یا وہ تشفی بخش نہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ خود ان کی فطرت بگڑ چکی ہے اور وہ فسق وفجور میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد روئے سخن مسلمانوں اور تمام دوسرے انسانوں کی طرف پھرجاتا ہے ۔ یہودیوں کی مذمت کی جاتی ہے اور ان کی صفات رذیلہ میں سے ایک دوسری صفت کو بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں بھی مختلف خواہشات اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اپنے اس مذموم تعصب کے باوجود ان کے درمیان قدر مشترک ہے ۔ وہ کسی ایک رائے پر جمتے بھی نہیں نہ ہی وہ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ وہ کسی ایک رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑتے ۔ اگرچہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور اپنے قومی مفاد کے سلسلے میں پرلے درجے کے خود غرض ہیں اور اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے سوا کسی اور کو بھی اللہ کا فضل وکرم نصیب ہو۔ لیکن اس قومی تعصب کے ہوتے ہوئے بھی وہ باہم متحد نہیں ہیں۔ وہ خود ایک دوسرے کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی بھی نہیں کرتے ۔ جب بھی وہ آپس میں کوئی پختہ عہد کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک گروہ اٹھ کر اسے توڑ دیتا ہے اور ان کے اس متفقہ فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آیات بینات کا انکار فاسقوں ہی کا کام ہے تفسیر درمنثور میں ص ٩٤ ج ١ حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن صور یا یہودی نے حضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے محمد ! کوئی ایسی چیز آپ نہیں لائے جسے ہم پہچانتے ہوتے اور نہ آپ کے پاس ایسی کوئی کھلی ہوئی دلیل ہے جس کی وجہ سے ہم آپ کا اتباع کرلیں۔ اس کی تردید میں اللہ جل شانہ، نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم نے اے محمد ! تمہاری طرف واضح آیات نازل فرمائی ہیں جو آیات بینات ہیں، ان آیات میں یہود کی پوشیدہ باتیں ان کے بھید اور راز بیان کرنا ان کے گزرے ہوئے اسلاف کے حالات بتانا اور ان کی تحریفات کا پتہ دینا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ جل شانہ، نے حضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ظاہر فرمایا اور اپنی کتاب میں نازل فرمایا جو شخص انصاف پسند ہو حسد اور جلن کی وجہ سے اپنی جان ہلاک کرنے پر تل نہ گیا ہو اس کے لیے یہ دلائل کافی اور وافی ہیں۔ لیکن اگر کسی کو حق اور حقیقت سے بعض اور عناد ہو اور حکم عدولی ہی جس کی طبیعت ثانیہ بن گئی ہو اور فسق اس کی طبیعت میں رچ بس گیا ہو وہ ہی ان آیات بینات کا منکر ہوسکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

190 ہم نے آپ کو ایسے واضح دلائل اور ایسی کھلی نشانیاں دی ہیں کہ ان کا انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے ضد وعناد کی وجہ سے فسق وفجور کر اپنا شیوہ بنا رکھا ہے التمردون فی الکف الخارجون عن الحدود (روح ص 335 ج 1) یہ یہودی ضد وعناد اور تمرد وسرکشی میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ایسے واضح دلائل کا بےکھٹک انکار کردیتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi