امام الائمہ حضرت محمد بن اسحاق بن خزیمہ رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب التوحید میں حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار سال پہلے سورہ طہ اور سورہ یاسین کی تلاوت فرمائی جسے سن کر فرشتے کہنے لگے وہ امت بہت ہی خوش نصیب ہے جس پر یہ کلام نزل ہو گا ۔ وہ زبانیں یقیناً مستحق مبارکباد ہیں جن سے کلام اللہ کے یہ الفاظ ادا ہوں گے ۔ یہ روایت غریب ہے اور اس میں نکارت بھی ہے اور اس کے راوی ابراہیم بن مہاجر اور ان کے استاد پر جرح بھی ہے ۔
[١] یہ سورت سورة مریم کے بعد بلکہ ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور ہجرت حبشہ سن ٥ نبوی میں ہوئی تھی۔ نیز یہ سورة سیدنا عمر کے اسلام لانے سے پہلے نازل ہوئی تھی، عام روایت کے مطابق یہی سورت سن کر سیدنا عمر کے دل میں اسلام جاگزیں ہوا تھا اور سیدنا عمر سن ٦ نبوی میں اسلام لائے تھے۔
Commentary طه (Ta-Ha) Many Commentators have assigned different meanings to this word. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) thinks it means یا رجُل (0 man! ) while according to Ibn ` Umar (رض) it means یا حبیبی (0 my Dear! ). It is also suggested that طه and یٰسین are the names of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . However the most obvious explanation is the one given by Sayyidna Abu Bakr (رض) and the majority of scholars, namely that like many other isolated letters appearing at the beginning of several chapters of the Qur’ an (such as الٓمٓ), this word is also among the مُتَشابِھَات mysteries whose meaning is known only to Allah Ta’ ala.
سورة طہٰ سورة طہ مکہ میں نازل ہوئی اور اس کی ایک سو پینتیس آیتیں ہیں اور آٹھ رکوع اس سورت کا دوسرا نام سورة کلیم بھی ہے (کما ذکر السخاوی) وجہ یہ ہے کہ اس میں حضرت کلیم اللہ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ مفصل مذکور ہے۔ مسند دارمی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کرنے سے بھی دو ہزار سال پہلے سورة طہٰ و یٰسن پڑھی (یعنی فرشتوں کو سنائی) تو فرشتوں نے کہا کہ بڑی خوش نصیب اور مبارک ہے وہ امت جس پر یہ سورتیں نازل ہوں گی اور مبارک ہیں وہ سینے جو ان کو حفظ رکھیں گے اور مبارک ہیں وہ زبانیں جو ان کو پڑھیں گی، یہی وہ مبارک سورت ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا تہیہ کر کے نکلنے والے عمر بن خطاب کو ایمان قبول کرنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں گرنے پر مجبور کردیا جس کا واقعہ کتب سیرت میں معروف و مشہور ہے۔ ابن اسحٰق کی روایت اس طرح ہے کہ عمر بن خطاب ایک روز تلوار لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے۔ راستہ میں نعیم بن عبداللہ مل گئے، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے عمر بن خطاب نے کہا کہ میں اس گمراہ شخص کا کام تمام کرنے کے لئے جا رہا ہوں جس نے قریش میں تفرقہ ڈال دیا، ان کے دین و مذہب کو برا کہا ان کو بیوقوف بنایا اور ان کے بتوں کو برا کہا۔ نعیم نے کہا کہ عمر تمہیں تمہارے نفس نے دھوکہ میں مبتلا کر رکھا ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردو گے اور ان کا قبیلہ بنو عبد مناف تمہیں زندہ چھوڑے گا کہ زمین پر چلتے پھرتے رہو۔ اگر تم میں عقل ہے تو اپنی بہن اور بہنوئی کی خبر لو کہ وہ مسلمان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے تابع ہوچکے ہیں، عمر بن خطاب پر ان کی بات اثر کرگئی اور یہیں سے اپنی بہن بہنوئی کے مکان کی طرف پھرگئے۔ ان کے مکان میں حضرت خباب بن ارت صحابی ان دونوں کو قرآن کی سورت طٰہٰ پڑھا رہے تھے جو ایک صحیفہ میں لکھی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے جب محسوس کیا کہ عمر بن خطاب آرہے ہیں تو حضرت خباب گھر کے کسی کمرہ یا گوشہ میں چھپ گئے اور ہمشیرہ نے یہ صحیفہ اپنی ران کے نیچے چھپا لیا مگر عمر بن خطاب کے کانوں میں خباب بن ارت کی اور ان کے کچھ پڑھنے کی آواز پہنچ چکی تھی اس لئے پوچھا کہ یہ پڑھنے پڑھانے کی آواز کیسی تھی جو میں نے سنی ہے ؟ انہوں نے (اول بات کو ٹالنے کے لئے) کہا کہ کچھ نہیں، مگر اب عمر بن خطاب نے بات کھود لی کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دونوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع اور مسلمان ہوگئے ہو اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید پر ٹوٹ پڑے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ نے جب دیکھا تو شوہر کو بچانے کے لئے کھڑی ہوگئیں۔ عمر بن خطاب نے ان کو بھی مار کر زخمی کردیا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو بہن بہنوئی دونوں نے بیک زبان کہا کہ سن لو ہم بلا شبہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں اب جو تم کرسکتے ہو کرلو ہمشیرہ کے زخم سے خون جاری تھا اس کیفیت کو دیکھ کر عمر بن خطاب کو کچھ ندامت ہوئی اور بہن سے کہا کہ وہ صحیفہ مجھے دکھلاؤ جو تم پڑھ رہی تھیں تاکہ میں بھی دیکھوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تعلیم لائے ہیں۔ عمر بن خطاب لکھے پڑھے آدمی تھے اس لئے صحیفہ دیکھنے کے لئے مانگا۔ بہن نے کہا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہم نے یہ صحیفہ اگر تمہیں دے دیا تو تم اس کو ضائع کردو یا بےادبی کرو۔ عمر بن خطاب نے اپنے بتوں کی قسم کھا کر کہا کہ تم یہ خوف نہ کرو میں اس کو پڑھ کر تمہیں واپس کردوں گا۔ ہمشیرہ فاطمہ نے جب یہ رخ دیکھا تو ان کو کچھ امید ہوگئی کہ شاید عمر بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس وقت کہا کہ بھائی بات یہ ہے کہ تم نجس ناپاک ہو اور اس صحیفہ کو پاک آدمی کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اگر تم دیکھنا ہی چاہتے ہو تو غسل کرلو۔ عمر نے غسل کرلیا پھر صحیفہ ان کے حوالہ کیا گیا تو اس میں سورة طٰہٰ لکھی ہوئی تھی اس کا شروع حصہ ہی پڑھ کر عمر نے کہا کہ یہ کلام تو بڑا اچھا اور نہایت محترم ہے۔ خباب بن ارت جو مکان میں چھپے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے عمر کے یہ الفاظ سنتے ہی سامنے آگئے اور کہا کہ اے عمر بن خطاب مجھے اللہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے رسول کی دعا کے لئے منتخب فرما لیا ہے کیونکہ گزشتہ کل میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللھم اید الاسلام بابی الحکم بن ہشام اور بعمر بن الخطاب، یا اللہ اسلام کی تائید وتقویت فرما ابوالحکم بن ہشام (یعنی ابو جہل) کے ذریعہ یا پھر عمر بن خطاب کے ذریعہ۔ مطلب یہ تھا کہ ان دونوں میں سے کوئی مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کی کمزور جماعت میں جان پڑجائے۔ پھر خباب نے کہا کہ اے عمر اب تو اس موقع کو غنیمت سمجھ، عمر بن خطاب نے خباب سے کہا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلو (قرطبی) آگے ان کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا اور اسلام قبول کرنا مشہور و معروف واقعہ ہے۔ خلاصہ تفسیر طٰہٰ (کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) ہم نے آپ پر قرآن (مجید) اس لئے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں بلکہ ایسے شخص کی نصیحت کے لئے (اتارا ہے) جو (اللہ سے) ڈرتا ہو یہ اس (ذات) کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے (اور) وہ بڑی رحمت والا عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہے (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے اور وہ ایسا ہے کہ) اسی کی ملک ہیں جو چیزیں آسمانوں میں اور جو چیزیں زمین میں ہیں اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں (یعنی آسمان سے نیچے اور زمین سے اوپر) اور جو چیزیں تحت الثریٰ میں ہیں (یعنی زمین کے اندر جو تر مٹی ہے جس کو ثریٰ کہتے ہیں جو چیز کہ اس کے نیچے ہے، مراد یہ کہ زمین کی تہہ میں جو چیزیں ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت و سلطنت تھی) اور (علم کی یہ شان ہے کہ) اگر تم (اے مخاطب) پکار کر بات کہو تو (اس کے سننے میں تو کیا شبہ ہے) وہ تو (ایسا ہے کہ) چپکے سے کہی بات کو اور (بلکہ) اس کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں اس کے (بڑے) اچھے اچھے نام ہیں (جو اوصاف و کمالات پر دلالت کرتے ہیں سو قرآن ایسی ذات جامع الصفات کا نازل کیا ہوا ہے اور یقینی حق ہے) ۔ معارف و مسائل طٰہ، اس لفظ کی تفسیر میں علماء تفسیر کے اقوال بہت ہیں۔ حضرت ابن عباس سے اس کے معنی یا رجل اور ابن عمر سے یا حبیبی منقول ہیں، بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طٰہ اور یٰسٓ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء گرامی میں سے ہیں اور بےغبار بات وہ ہے جو حضرت صدیق اکبر اور جمہور علماء نے فرمائی کہ جس طرح قرآن کی بہت سی سورتوں کے ابتداء میں آئے ہوئے حروف مقطعہ مثلاً الٓمّٓ وغیرہ متشابہات یعنی اسرار میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا لفظ طٰہ بھی اسی میں داخل ہے۔
سورة طٰهٰ زمانۂ نزول : اس سورۃ کا زمانہ نزول سورہ مریم کے زمانے قریب ہی کا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو ۔ بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہو چکی تھی ۔ ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستہ میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو ، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے ۔ وہاں ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور ان کے بہنوئی سعید بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن اَرت سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا ۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے ۔ انہوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی ۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا ۔ بہن نے بچانا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا ۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں ، ہم مسلمان ہو چکے ہیں ، تم سے جو کچھ ہو سکے کرلو ۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے بھی وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے ۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے ۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کرلو ، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا ۔ اس میں یہی سورہ طٰہ لکھی ہوئی تھی ۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا کیا خوب کلام ہے ۔ یہ سنتے ہی حضرت خباب بن ارت ، جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے ، باہر آ گئے اور کہا کہ بخدا ، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا ، کل ہی میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا ، ابوالحکم بن ہشام ( ابو جہل ) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے ۔ پس اے عمر ، اللہ کی طرف چلو ، اللہ کی طرف چلو ۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا ۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہے ۔ موضوع و مبحث : سورہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے ۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکالو ، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو ، اور ہٹ دھرم لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر کے دکھاؤ ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہو جائے ۔ یہ مالک زمین و آسمان کا کلام ہے ۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں ، یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں ، خواہ کوئی مانے یا نہ مانے ۔ اس تمہید کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے ۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے ۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے ۔ مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے ، اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں ۔ ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ عرب میں کثیر التعداد یہودیوں کی موجودگی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تفوق کی وجہ سے ، نیز روم اور حبش کی عیسائی سلطنتوں کے اثر سے بھی ، عربوں میں بالعموم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا ۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور سے اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں : ۔ 1 ) ۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کرتا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کرلی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے ۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے ، کچھ اسی طرح بصیغۂ راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی ۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آگئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کا ڈھول پیٹا ۔ ایسے اعلانات پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے ؟ 2 ) ۔ جو بات آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں ( یعنی توحید اور آخرت ) ٹھیک وہی بات منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھائی تھی ۔ 3 ) ۔ پھر جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بغیر کسی سر و سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا عَلم بردار بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ، ٹھیک اسی طرح موسیٰ علیہ السلام بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کر دیے گئے تھے کہ جا کر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں ۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں ۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جابر حکمراں سے ٹکرا جا ۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مددگار کے طور پر دے دیا ۔ کوئی فوج فرّا اور ہاتھی گھوڑے اس کار عظیم کے لیے اس کو نہیں دیئے گئے ۔ 4 ) ۔ جو اعتراضات اور شبہات اور الزامات اور مکر و ظلم کے ہتھکنڈے اہل مکہ آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں ان سے بڑھ چڑھ کر وہی سب ہتھیار فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں استعمال کیے تھے ۔ پھر دیکھ لو کہ کس طرح وہ اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوا اور آخرکار کا کون غالب آ کر رہا ؟ خدا کا بے سرو سامان نبی ؟ یا لاؤ لشکر والا فرعون ؟ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بے سر و سامانی اور کفار قریش کے سرو سامان پر نہ جائیں ، جس کام کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آخر کار غالب ہی ہو کر رہتا ہے ۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے ساحران مصر کا نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب حق ان پر منکشف ہو گیا تو وہ بے دھڑک اس پر ایمان لے آئے اور پھر فرعون کے انتقام کا خوف انہیں بال برابر بھی ایمان کی راہ سے نہ ہٹا سکا ۔ 5 ) ۔ آخر میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک شہادت پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتدا کس مضحکہ انگیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رہنے کے کبھی روادار نہیں ہوئے ہیں ۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ اس طرح قصۂ موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہرحال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے ۔ اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ۔ نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے ۔ پھر آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے ۔ اَحیاناً شیطان کے بہکائے میں آجاتا تو خیر ایک وقتی کمزوری ہے جس سے انسان بمشکل ہی بچ سکتا ہے ۔ مگر آدمی کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جب اس پر اس کی غلطی واضح کر دی جائے تو وہ اپنے باپ آدم کی طرح صاف صاف اس کا اعتراف کر لے ، توبہ کرے ، اور پھر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے ۔ غلطی اور اس پر ہٹ اور نصیحت پر نصیحت کیے جانے پر بھی اس سے باز نہ آنا ، اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے جس کا نقصان آدمی کو خود ہی بھگتنا پڑے گا ، کسی دوسرے کا کچھ نہ بگڑے گا ۔ آخر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ان منکرین حق کے معاملے میں جلدی اور بے صبری نہ کرو ۔ خدا کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر انکار پر فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے ۔ لہٰذا گھبراؤ نہیں ۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ ۔ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو ۔ اسی سلسلے میں نماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر ، تحمل ، قناعت ، رضا بقضا اور احتساب کی وہ صفات پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کے لیے مطلوب ہیں ۔
سورۃ طہ تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی۔ مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر (رض) اسی سورت کو سن کر اسلام لائے تھے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ اور ان کے بہنوئی حضرت سعید بن زید (رض) ان سے پہلے خفیہ طور پر اسلام لاچکے تھے جس کا انہیں پتہ نہیں تھا۔ ایک روز وہ گھر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ نامی ایک صاحب انہیں ملے، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ پہلے اپنے گھر کی خبر لیں جہاں آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں۔ حضرت عمر غصے کے عالم میں واپس آئے تو بہن اور بہنوئی حضرت خباب بن ارت (رض) سے سورۃ طہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر کو آتے دیکھا تو انہوں نے وہ صحیفہ جس پر سورۃ طہ لکھی ہوئی تھی، کہیں چھپا دیا، لیکن حضرت عمر پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم مسلمان ہوچکے ہو، اور یہ کہہ کر بہن اور بہنوئی دونوں کو بہت مارا۔ اس وقت ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سزا دیں، ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، وہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا کہ اچھا مجھے بھی دکھاؤ، وہ کیسا کلام ہے۔ بہن نے ان سے غسل کروا کر صحیفہ ان کو دکھایا جس میں سورۃ طہ لکھی ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر حضرت عمر (رض) مبہوت رہ گئے، اور انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا نہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حضرت خباب (رض) نے بھی انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی، اور بتایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دے کر اسلام کی قوت کا سامان پیدا فرمادے۔ چنانچہ اسی وقت وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اسلام قبول کرلیا۔ جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی، وہ مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا۔ کفار مکہ نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اس لیے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق کے علمبرداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں، لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوا ہے جس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں، یہ بھی کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ بھی کہ آخری فتح انہی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا مقصود ہے کہ تمام انبیائے کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدائے واحد پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة نمبر 20 کل رکوع 8 آیات 135 الفاظ و کلمات 1251 حروف 5466 مقام نزول مکہ مکرمہ سورة مریم اور سورة طہ کے نزول کا زمانہ قریب ہی لگتا ہے سورة طہ ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے ہی نازل ہوئی تھی یا ہجرت حبشہ کے وقت، بہرحال حضرت عمر فاروق کے قبول اسلام سے پہلے ہی یہ سورت نازل ہوچکی تھی جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے۔ قرآن کریم کے نازل کیے جانے کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف ہو اور ان کے دل نرم ہوں تو اس قرآن کے روحانی فیوض اور برکات ہے محروم نہ رہیں گے لیکن جن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے اور ہر طرح کی نعمتوں سے وہ پہلو بچاتے، کتراتے گریزاں رہتے ہیں وہ قرآن کریم کی تعلیمات اور سعادت سے محروم ہی رہیں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن رات اللہ کا دین پہنچانے کی جدوجہ دفرماتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دلی تمنا تھی کہ ہر شخص دین اسلام کی دولت سے مالا مال ہوجائے۔ اس کے لئے آپ اتنی مشقت برداشت فرماتے جس کا تصور ممکن نہیں ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو اس غم میں اپنی جان گھلا ڈالیں گے کہ وہ ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جدوجہد کے ساتھ ساتھ دعا بھی فرماتے تھے۔ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی بار گاہ میں یہ دعا فرمائی، الٰہی ! ابو الحکم بن ہاشم (ابوجہل) اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کا حامی بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو قبول فرمایا اور حضرت عمر ابن خطاب دولت ایمان سے مالا مال ہوگئے۔ حضرت عمر کے ایمان لانے کے اسباب یہ پیدا ہوئے کہ کفار مکہ جب ہر طرح کے لالچ اور دھمکیوں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوئے تو ایک دن اس مشورہ پر سب کا اتفاق ہوگیا کہ جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کو قتل کردیا جائے لیکن یہ کون کرے گا۔ اس کی ہمت کسی میں نہ تھی۔ حضرت عمر جو نہایت بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے، کہنے لگے کہ یہ کام میں کروں گا۔ اسی وقت اٹھے اور ننگی تولار گلے میں لٹکائے نہایت جوش اور غصہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روانہ ہوگئے ۔ راستے میں ایک شخص نے پوچھا کہ عمر کہاں کے ارادے ہیں ؟ کہنے لگے کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ اس شخص نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو۔ تمہارے بہنوئی اور چچا زاد بھائی سعید بن زید اور تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ خبر حضرت عمر پر بجلی بن کر گری۔ وہ فوراً اپنی بہن کے گھر کی طرف پلٹ گئے اس وقت حضرت خباب بن الارت قرآن کریم کی سورت طہ جو کسی چیز پر لکھی ہوئی تھی حضرت عمر کی بن اور بہنوئی کو پڑھا رہے تھے۔ جب حضرت عمر دروازے پر پہنچے تو ان کو کلام پاک کی آواز سنائی دی حضرت عمر نے جیسے ہی اندر داخل ہونے کے لئے آواز دی جس میں غصہ جھلک رہا تھا تو حضرت خطاب گھر کے کسی کونے میں چھپ گئے۔ حضرت عمر نے گھر میں داخل ہوتے ہی نہایت غصے اور خفگی کے ساتھ اپنے بہنوئی سے پوچھا کہ کیا میں نے صحیح سنا ہے کہ تم نے اسلام قبول کرلیا ہے ہے ؟ انہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ ہم نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دنی کو قبول کرلیا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر کا غصہ اتنا شدید ہوگیا کہا نہوں نے اپنے چچا زاد بھائی اور بہنوئی سعید بن زید کو مارنا شروع کردیا۔ حضرت فاطمہ بنت خطاب نے اپنے شوہر کی حمایت میں ان کو بچانے کی کوشش کی تو حضرت فاطمہ بھی زخمی ہوگئیں اور ان کے بدن سے خون رسنے لگا ۔ بہن کا خون دیکھ کر حضرت عمر مار نے سے رک گئے اور حیران ہو کر کہا کہ فاطمہ مجھے دکھاؤ وہ کونسا کلام ہے جس نے تمہارے دل کو موم بنا دیا اور تم ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کرنے کے لئے تیار ہو۔ حضرت فاطمہ بنت خطاب نے کہا کہ بھائی اس قرآن کے صفحے کو ہاتھ لگانے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے۔ آپ پہلے غسل کر لیجیے۔ حضرت عمر غسل کرنے چلے گئے تو حضرت خباب بن الارت بھی باہر نکل آئے جب وہ غسل کر کے واپس آگئے تو ان کو سور طہ کی آیات دی گئیں جنہیں حضرت عمر فاروق نے غور سے پڑھا اور اس سچے کلام پر ایمان لانے کا ارادہ کیا حضرت خباب ابن الارت حضرت عمر کو اسی حالت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس مقام پے لے گئے۔ جہاں آپ عبادت و بندگی میں مشغول تھے۔ حضرت عمر کو آتا دیکھ کر صحابہ کرام گھبرا گئے مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عمر کو آنے دو اگر آج اس نے اسلام قبول نہ کیا تو اس کی تلوار سے اس کی گردن اتار دی جائے گی لیکن یہاں تو رنگ ہی بدل چکا تھا۔ حضرت عمرفاروق نے آتے ہی اسلام لانے کا ارادہ ظاہر فرمایا جس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوگئے اور اس وقت موجودہ مسلمانوں نے اس قدر زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ پورے ملک میں ان کی آواز گونج اٹھی۔ حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ سچا دین ہے تو ہم چھپ کر عبادت کو یں کریں ؟ ہم کیوں نہ بیت اللہ میں جا کر نماز ادا کریں۔ آپ نے اجازت دے دی اور اس طرح حضرت عمر نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر پہلی نماز بیت اللہ میں جا کر ادا کی حضرت عمر فاروق کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں میں جوش و جذبہ اور بھی بڑھ گیا اور کفار مکہ کے گھروں میں کہرام مچ گیا اور صف ماتم بچھ گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو قبول فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة طہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے اس قرآن کو اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ اور آپ کے ماننے والوں کو کسی مشقت، مصیبت اور مشکل میں ڈال دیں اور نہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں کہ جو لوگ ایمان لانے سے کرتا رہے ہیں اور بےدینی پر جمے بیٹھے ہیں ان کو زبردستی اسلام میں داخل کردیں۔ بلکہ آپ اللہ کا دین پہنچاتے رہئے جن کے نصیب میں دین اسلام کی سعادت ہے وہ ضرور اسلام قبول کرلیں گے۔ اس میں جلدی یا بےصبری کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جس کے دل میں خوف الٰہی ہوگا۔ وہ اس راہ حق سے محروم نہ رہے گا۔ سورة طہ میں حضرت موسیٰ کے واقعہ کو ایک مرتبہ پھر ایک نئے انداز سے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اہل ایمان کو اس بات پر تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون بغیر ظاہری اسباب کے اتنے زبردست اور طاقوتر شخص فرعون اور اس کے اقتدار سے ٹکرا گئے۔ فرعون کی ساری سازشوں اور کوششوں کے باوجود جس طرح اللہ نے بنی اسرائیل کو عزت اور سربلندی سے نوازا تھا۔ اسی طرح اگر ایمان والوں نے صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے اللہ کے دین کو نہایت فہم و فراست کے ساتھ کفار اور مشرکین تک پہنچایا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں یا مسلمان کامیاب نہ ہوں۔ حضرت آدم کے واقعہ کو بیان کر کے اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ حضرت آدم سے ایک غلطی ہوئی مگر جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگی اور ندامت کا اظہار کیا۔ تب اللہ نے ان کو معاف کردیا کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے اور وہ گناہوں کو معاف کردینے والا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ آج کفار مکہ اگر اپنے گناہوں اور غیر اللہ کی پرستش سے توبہ کر کے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت قبول کرلیں تو نہ صرف اللہ ان کے پچھلے گناہوں کو معاف کر دے گا بلکہ ان کو دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا فرمائے گا۔ اس سورة میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے جثار صحابہ کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو پہنچانے کی امکانی جدوجہد کرتے رہیں لیکن اس میں کسی جلدی یا بےصبری کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ مجرموں کو فوراً ہی سزا نہیں دیتا بلکہ وہ گناہگاروں کو سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع عنایت فرماتا رہتا ہے اگر ان منکرین نے پھر بھی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنے کفر و شرک ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے بیٹھے رہے تو اللہ کی قدرت و طاقت یہ ہے کہ وہ ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دے گا اور اہل ایمان کو سربلند فرما دے گا۔
سورة طٰہٰ کا تعارف ربط سورة : سورة مریم کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر قرآن مجید کو آسان کردیا گیا ہے جس کا مرکزی پیغام ” اللہ “ کی توحید ہے، سورة طٰہٰ کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ آپ قرآن کو مشکل نہ سمجھیں اور اپنے رب کی توحید بیان کرتے جائیں۔ یہ سورة اپنے نام یعنی طٰہٰ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے، 8 رکوع اور 135 آیات پر مشتمل ہے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورة طٰہٰ مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب عمر بن خطاب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن عمر بن خطاب یہ عزم لے کر گھر سے نکلے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تمام کردیا جائے۔ راستہ میں ان کی برادری کا ایک آدمی ملا اور اس نے عمر کے تیور دیکھ کر پوچھا کہ کدھر کا ارادہ ہے ؟ عمر بن خطاب کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا انہیں قتل کرنے کے لیے چڑھ دوڑے ہو پہلے اپنے گھر کو تو سنبھالو۔ تیرا بہنوئی سعید اور تیری بہن فاطمہ مسلمان ہوچکے ہیں یہ سنتے ہی عمر اپنے بہنوئی کے گھر پہنچے دروازے پر سنا کہ ان کی بہن سورة طٰہٰ کی تلاوت کر رہی ہے۔ اندر گئے بہنوئی اور بہن کو مارا وہ بہن جس نے بھائی کے سامنے کبھی آنکھ نہیں اٹھائی تھی زخمی ہونے کے باوجود کہنے لگی جس قدر چاہو مار لو ہم دین نہیں چھوڑ سکتے۔ بہن کی ایمانی جُرأت پر حیران ہو کر کہتے ہیں کہ جو پڑھ رہی تھی مجھے بھی سناؤ۔ بہن نے سورة طٰہٰ کی ابتدائی آیات پڑھ کر سنائیں۔ زخمی بہن کی دکھ بھری آواز اور قرآن کی جلالت کی تاب نہ لا کر بالآخر حضرت عمر (رض) مسلمان ہوئے۔ تفصیل کے لیے سیرت عمر (رض) کا مطالعہ فرمائیں۔ اس سورة مبارکہ کی ابتداء ان الفاظ سے ہوئی ہے کہ اے پیغمبر ! ہم نے یہ قرآن آپ کی مشکلات کو بڑھانے کے لیے نازل نہیں کیا۔ اس کے نزول کا مقصد تو یہ ہے کہ آپ اس شخص کو نصیحت فرمائیں جو اپنے رب سے ڈرنے والا ہے۔ قرآن کو اس ذات کبیریا نے نازل کیا ہے جس نے زمین کو پیدا فرمایا ور آسمان کو بلند وبالا کیا وہ ذات بڑی الرّحمان ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیز ہے وہ اسی کی ملکیت ہے۔ انسان اپنی بات کو خفیہ رکھے یا اس کا الفاظ میں اظہار کرے، وہ ذات سب کچھ جانتی ہے۔ اس کا نام اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور اس کے بہترین نام ہیں وہ آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والے طویل اور شدید کشمکش سے آگاہ کرتا ہے جس کا آپ کو پہلے سے کچھ علم نہیں۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے رہنما اصول اور آپ کی امت کے لیے بہترین نصائح بیان کرنے کے ساتھ بتلایا گیا ہے کہ بیشک باطل جس قدر چاہے طاقتور ہو بالآخر وہ ناکام رہتا ہے۔ بشرطیکہ حق والے حق پر قائم رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ اس سورة کے آخر میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں شیطان کی سازش اور شرارت کا ذکر فرما کر اولاد آدم کو نصیحت کی گئی ہے کہ جو شخص اپنے رب کی نصیحت سے اعراض کرے گا اور شیطان کے پیچھے لگے گا اس کی دنیا تنگ کردی جائے گی اور آخرت میں اس حالت میں پیش ہوگا کہ اپنے رب کے حضور کوئی حجّت پیش نہیں کرسکے گا۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں عذاب سے دوچار کیا جائے تو کہتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس رسول آتا۔ ہم اس کی پیروی کر کے ذلّت سے بچ جاتے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو ان میں موجود ہیں لیکن پھر بھی یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں فرما دیں کہ تم اپنی جگہ اپنے انجام کا انتظار کرو میں اپنے مقام پر اپنے کام کے انجام کا منتظر ہوں۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلّی دی گئی ہے کہ تمہارا دشمن فرعون سے زیادہ باوسائل اور طاقتور نہیں اور تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں سے بڑھ کر کمزور اور مظلوم نہیں ہو۔ لہٰذا پورے حوصلے سے اپنا کام جاری رکھو۔ فتح تمہاری ہوگی کیونکہ انجام کار متقی حضرات کے لیے ہے۔
سورة طہ ایک نظر میں اس سورة کا آغاز اور اختتام دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطاب سے ہوتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے فرائض منصبی کیا ہیں ؟ یہ کوئی مصیبت نہیں ہے جس میں آپ کو مبتلا کردیا گیا ہے ‘ نہ کوئی مشقت ہے جس سے آپ کو عذاب دینا مقصود ہے۔ یہ تو ایک دعوت اور یاددہانی ہے۔ لوگوں کو ڈرانا اور خوشخبری سنانا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کو چھوڑ دینا اور ان کو اللہ وحدہ کے سپردکر دینا ہے کہ وہ جو چاہے ان کی تقدیرکا فیصلہ کرے۔ وہ اس کائنات کے ظاہرو باطن پر محیط ہے۔ وہ ظاہرو باطن دونوں کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ بڑے بڑے گردن فراز اس کے سامنے جھکتے ہیں اور سب لوگ اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ خواہ مطیع فرم انہوں یا نافرمان اور باغی ہوں۔ اگر کوئی تکذیب کرتا ہے یا کفر کرتا ہے تو رسول پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اگر لوگ کفر کرتے ہیں اور آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اس سے آپ پر یشان نہ ہوں۔ اس سورة کے آغاز اور انجام کے درمیان حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی دوکڑیاں ہیں۔ یعنی وہ حصہ جہاں سے آپ کی رسالت کا آغاز ہوتا ہے اور بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کرتے ہیں اور پھر وہ بچھڑے کو خدا بناتے ہیں ۔ لیکن یہ قصہ یہاں قدرے طوالت اور تفصیل کیساتھ دیا گیا ہے۔ اللہ اور کلیم اللہ کے درمیان ہمکلامی کے حصے کو زیادہ تفصیل سے دیا گیا ہے۔ اسی طرح موسیٰ و فرعون کے درمیان مکالے اور مجادلے کو بھی زیادہ جگہ دی گئی ہے۔ موسیٰ اور جادوگروں کے مقابلے کو بھی تفصیل سے دیا گیا ہے۔ اس قصے کے درمیان نظر آتا ہے کہ اللہ کریم موسیٰ (علیہ السلام) کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں ‘ خصوصاً آپ کے بچائو کی خصوصی تدابیر کی جارہی ہیں۔ حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کی تخلیق بھی تو خدا نے براہ راست اپنی نگرانی میں کی۔ ان کی تربیت بھی اپنی نگرانی میں دشمن سے کرائی اور ان کو اور ان کے بھائی کو صراحت سے کہا۔ قال لا تخافآ۔۔۔۔۔ واری (٠٢ : ٦٤) ” دونوں بالکل خوف نہ کھائو ‘ بیشک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ‘ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں “۔ اس سورة میں قصہ آدم و ابلیس پر بھی ایک اچنتی نظر ڈالی جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ آدم کی غلطی کے بعد ان پر اپنی رحمت کرتے ہیں۔ آدم کو ہدایت دی جاتی ہے اور اس ہدایت کی استعداد و ویعت کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ابن آدم کو چھوڑ دو کہ وہ اپنی آزادی سے ہدایت و ضلالت میں سے جو راہ چاہے ‘ اختیارکرے۔ البتہ دعوت و تذکیر اور ڈر اوا اور تخویف ضروری ہے۔ اس قصے کے ارد گرد قیامت کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ گویا یہ مناظر اس قصے کا تکملہ ہیں کیونکہ آدم کو دنیا میں خلیفہ بنانے کی اسکیم میں یے طے ہوا تھا کہ انسانوں میں سے راہ راست اپنانے والے جنت میں جائیں گے اور گمراہ جہنم میں جائیں گے اور حضرت آدم کو زمین پر اتارتے ہوئے یہ پوری اسکیم ان کو بتا دی گئی تھی۔ چناچہ سیاق کلام اور بیان اس سورة میں دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ پہلا حصہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ مخاطب کرکے شروع کیا جاتا ہے۔ مآ انزلنا۔۔۔۔۔ لتشقی (٢) الا تذکرۃ لمن یخشی (٣) (٠٢ : ٢۔ ٣) ” ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جائو۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اس شخص کے لئے ‘ جو ڈرے “۔ اور اس کے بعد متصلاً بطور مثال قصہ موسیٰ و فرعون شروع ہوجاتا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ داعی بنا کر بھیجتا ہے ‘ وہ اللہ کے زیر نگرانی کام کرتا ہے ‘ اللہ اس کا محافظ ہوتا ہی اور ان کو مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ دوسرے حصے میں قیامت کے مناظر اور قصہ آدم و ابلیس ہے۔ یہ بھی سورة کے ابتدائیہ اور قصہ موسیٰ کی لائن پر ہے۔ اور اس کے بعد سورة کا خاتمہ بھی خطاب رسول کیساتھ ہے اور یہ خاتمہ سورة کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس سورة کا ایک خاص رنگ ہے ‘ جو پوری سورة پر نظر آتا ہے۔ عالم بالا کا گہرا سایہ اس پوری سورة پر چھایا ہوا ہے۔ اس کو پڑھ کر قلب کے اندر میں خوف خدا اور خشوع پیدا ہوتا ہے۔ دل میں سکون اور طمانیت پیدا ہوتی ہے۔ گردن فرازی کو چھوڑ کر گردنیں جھک جاتی ہیں۔ یہ علوی سایہ سب سے پہلے وادی مقدس طوی پر نظر آتا ہے۔ یہی سایہ عطوفت پھر میدان حشر میں بھی نظرآتا ہے۔ وخشعت۔۔۔۔۔۔ الا ھمسا (٠٢ : ٨٠١) ” اور آوازیں رحمن کے آگے دب جائیں گی ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے “۔ وعنت ۔۔۔ القیوم (٠٢ : ١١١) ” اور لوگوں کے چہرے اس حی وقوم کے سامنے جھک جائیں گے “۔ اس قسم کی فضا سورة کے آغاز سے اختتام تک چھائی ہوئی ہے۔ الفاظ کا صوتی ترنم نہایت ہی نرم ‘ نہایت ولدوز اور نہایت تروتازہ اور فواصل وق وافی میں الف مفصورہ کو مسلسل استعمال کیا گیا ہے ‘ جو سورة کے واقعات ‘ قضا اور مضمون کے ساتھ نہایت ہی ہم آہنگ ہے۔