Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 1

سورة طه

طٰہٰ ۚ﴿۱﴾

Ta, Ha.

طٰہٰ

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is a Reminder and a Revelation from Allah Allah says, طه Ta Ha. We have already discussed the separated letters at the beginning of Surah Al-Baqarah, so there is no need to repeat its discussion here. Allah says, مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْانَ لِتَشْقَى

علم قرآن سب سے بڑی دولت ہے ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طہ سے اے شخص ہے کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے ۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری یعنی طہ یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر ۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں ۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ نے شروع کر دیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لئے عبرت ہے یہ الہامی علم ہے جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی ۔ چنانچہ بخاری مسلم میں ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہو جاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے حافظ ابو القاسم طبرانی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لئے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے؟ پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کر دی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے ۔ یہ قرآن نیک لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں خوف الٰہی ہے تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے ۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہو جاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں ۔ یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک رازق قادر ہے ۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے ۔ ترمذی وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے حضرت عباس والی حدیث میں امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے ۔ وہ رحمان اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے ۔ تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں وہی سب کا خالق مالک الہ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں ۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ۔ کعب کہتے ہیں اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں اس کے نیچے ہوا خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے ۔ حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے ۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں چوتھی میں جہنم کی گندھک پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا بھی غور طلب ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے میں لشکر کے شروع میں تھا اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا تم میں سے محمد کون ہیں؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ میں اس کیساتھ ہو گیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے ۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اس میں حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں؟ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اس نے کہا میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ آپ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو ۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے ۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا ہے ۔ اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آ گیا اسی پر شبیہ جاتی ہے اس نے کہا بجا ارشاد فرمایا ۔ اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت خون اور بال اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا ۔ اچھا یہ بتایئے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا ایک مخلوق ہے ۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا زمین کہا اس کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا پانی ۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا اندھیرا ۔ کہا اس کے نیچے؟ فرمایا ہوا ۔ کہا ہوا کے نیچے؟ فرمایا تر مٹی ، کہا اس کے نیچے؟ آپ کے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہو گیا ۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے ۔ اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی آپ نے فرمایا اسے پہچانا بھی؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں ۔ امام ابو حاتم رازی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں ۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں غلط ملط کر دیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے ۔ اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن اونچی نیچی چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے جیسے فرمان ہے کہ اعلان کر دے کہ اس قرآن کو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم ۔ سب کی پیدائش اور مار کر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے ۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے ۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے ۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل اس پر ظاہر ہیں ۔ وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں ۔ سورہ اعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یہ سورت سورة مریم کے بعد بلکہ ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور ہجرت حبشہ سن ٥ نبوی میں ہوئی تھی۔ نیز یہ سورة سیدنا عمر کے اسلام لانے سے پہلے نازل ہوئی تھی، عام روایت کے مطابق یہی سورت سن کر سیدنا عمر کے دل میں اسلام جاگزیں ہوا تھا اور سیدنا عمر سن ٦ نبوی میں اسلام لائے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

طٰهٰ : ظاہر یہی ہے کہ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں، کیونکہ یہ دونوں حرف دوسری جگہ مقطعات میں استعمال ہوئے ہیں، ” طا “ ” طٰسۗمّۗ“ (شعراء) میں اور ” ہا “ ” كۗهٰيٰعۗصۗ“ (مریم) میں۔ مقطعات کی تفسیر کے لیے سورة بقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر دیکھیے۔ عبد الرزاق نے اپنی صحیح سند کے ساتھ قتادہ اور حسن کا قول نقل کیا ہے کہ ” طٰهٰ “ کا معنی ہے ” یَا رَجُلُ ! “ اے آدمی ! کیونکہ قبیلہ بنوعک میں یہ ` لفظ اس معنی میں بولا جاتا تھا، مگر پہلی بات زیادہ صحیح ہے، کیونکہ قرآن مجید قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary طه (Ta-Ha) Many Commentators have assigned different meanings to this word. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) thinks it means یا رجُل (0 man! ) while according to Ibn ` Umar (رض) it means یا حبیبی (0 my Dear! ). It is also suggested that طه and یٰسین are the names of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . However the most obvious explanation is the one given by Sayyidna Abu Bakr (رض) and the majority of scholars, namely that like many other isolated letters appearing at the beginning of several chapters of the Qur’ an (such as الٓمٓ), this word is also among the مُتَشابِھَات mysteries whose meaning is known only to Allah Ta’ ala.

سورة طہٰ سورة طہ مکہ میں نازل ہوئی اور اس کی ایک سو پینتیس آیتیں ہیں اور آٹھ رکوع اس سورت کا دوسرا نام سورة کلیم بھی ہے (کما ذکر السخاوی) وجہ یہ ہے کہ اس میں حضرت کلیم اللہ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ مفصل مذکور ہے۔ مسند دارمی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کرنے سے بھی دو ہزار سال پہلے سورة طہٰ و یٰسن پڑھی (یعنی فرشتوں کو سنائی) تو فرشتوں نے کہا کہ بڑی خوش نصیب اور مبارک ہے وہ امت جس پر یہ سورتیں نازل ہوں گی اور مبارک ہیں وہ سینے جو ان کو حفظ رکھیں گے اور مبارک ہیں وہ زبانیں جو ان کو پڑھیں گی، یہی وہ مبارک سورت ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا تہیہ کر کے نکلنے والے عمر بن خطاب کو ایمان قبول کرنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں گرنے پر مجبور کردیا جس کا واقعہ کتب سیرت میں معروف و مشہور ہے۔ ابن اسحٰق کی روایت اس طرح ہے کہ عمر بن خطاب ایک روز تلوار لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے۔ راستہ میں نعیم بن عبداللہ مل گئے، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے عمر بن خطاب نے کہا کہ میں اس گمراہ شخص کا کام تمام کرنے کے لئے جا رہا ہوں جس نے قریش میں تفرقہ ڈال دیا، ان کے دین و مذہب کو برا کہا ان کو بیوقوف بنایا اور ان کے بتوں کو برا کہا۔ نعیم نے کہا کہ عمر تمہیں تمہارے نفس نے دھوکہ میں مبتلا کر رکھا ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردو گے اور ان کا قبیلہ بنو عبد مناف تمہیں زندہ چھوڑے گا کہ زمین پر چلتے پھرتے رہو۔ اگر تم میں عقل ہے تو اپنی بہن اور بہنوئی کی خبر لو کہ وہ مسلمان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے تابع ہوچکے ہیں، عمر بن خطاب پر ان کی بات اثر کرگئی اور یہیں سے اپنی بہن بہنوئی کے مکان کی طرف پھرگئے۔ ان کے مکان میں حضرت خباب بن ارت صحابی ان دونوں کو قرآن کی سورت طٰہٰ پڑھا رہے تھے جو ایک صحیفہ میں لکھی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے جب محسوس کیا کہ عمر بن خطاب آرہے ہیں تو حضرت خباب گھر کے کسی کمرہ یا گوشہ میں چھپ گئے اور ہمشیرہ نے یہ صحیفہ اپنی ران کے نیچے چھپا لیا مگر عمر بن خطاب کے کانوں میں خباب بن ارت کی اور ان کے کچھ پڑھنے کی آواز پہنچ چکی تھی اس لئے پوچھا کہ یہ پڑھنے پڑھانے کی آواز کیسی تھی جو میں نے سنی ہے ؟ انہوں نے (اول بات کو ٹالنے کے لئے) کہا کہ کچھ نہیں، مگر اب عمر بن خطاب نے بات کھود لی کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دونوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع اور مسلمان ہوگئے ہو اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید پر ٹوٹ پڑے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ نے جب دیکھا تو شوہر کو بچانے کے لئے کھڑی ہوگئیں۔ عمر بن خطاب نے ان کو بھی مار کر زخمی کردیا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو بہن بہنوئی دونوں نے بیک زبان کہا کہ سن لو ہم بلا شبہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں اب جو تم کرسکتے ہو کرلو ہمشیرہ کے زخم سے خون جاری تھا اس کیفیت کو دیکھ کر عمر بن خطاب کو کچھ ندامت ہوئی اور بہن سے کہا کہ وہ صحیفہ مجھے دکھلاؤ جو تم پڑھ رہی تھیں تاکہ میں بھی دیکھوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تعلیم لائے ہیں۔ عمر بن خطاب لکھے پڑھے آدمی تھے اس لئے صحیفہ دیکھنے کے لئے مانگا۔ بہن نے کہا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہم نے یہ صحیفہ اگر تمہیں دے دیا تو تم اس کو ضائع کردو یا بےادبی کرو۔ عمر بن خطاب نے اپنے بتوں کی قسم کھا کر کہا کہ تم یہ خوف نہ کرو میں اس کو پڑھ کر تمہیں واپس کردوں گا۔ ہمشیرہ فاطمہ نے جب یہ رخ دیکھا تو ان کو کچھ امید ہوگئی کہ شاید عمر بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس وقت کہا کہ بھائی بات یہ ہے کہ تم نجس ناپاک ہو اور اس صحیفہ کو پاک آدمی کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اگر تم دیکھنا ہی چاہتے ہو تو غسل کرلو۔ عمر نے غسل کرلیا پھر صحیفہ ان کے حوالہ کیا گیا تو اس میں سورة طٰہٰ لکھی ہوئی تھی اس کا شروع حصہ ہی پڑھ کر عمر نے کہا کہ یہ کلام تو بڑا اچھا اور نہایت محترم ہے۔ خباب بن ارت جو مکان میں چھپے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے عمر کے یہ الفاظ سنتے ہی سامنے آگئے اور کہا کہ اے عمر بن خطاب مجھے اللہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے رسول کی دعا کے لئے منتخب فرما لیا ہے کیونکہ گزشتہ کل میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللھم اید الاسلام بابی الحکم بن ہشام اور بعمر بن الخطاب، یا اللہ اسلام کی تائید وتقویت فرما ابوالحکم بن ہشام (یعنی ابو جہل) کے ذریعہ یا پھر عمر بن خطاب کے ذریعہ۔ مطلب یہ تھا کہ ان دونوں میں سے کوئی مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کی کمزور جماعت میں جان پڑجائے۔ پھر خباب نے کہا کہ اے عمر اب تو اس موقع کو غنیمت سمجھ، عمر بن خطاب نے خباب سے کہا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلو (قرطبی) آگے ان کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا اور اسلام قبول کرنا مشہور و معروف واقعہ ہے۔ خلاصہ تفسیر طٰہٰ (کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) ہم نے آپ پر قرآن (مجید) اس لئے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں بلکہ ایسے شخص کی نصیحت کے لئے (اتارا ہے) جو (اللہ سے) ڈرتا ہو یہ اس (ذات) کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے (اور) وہ بڑی رحمت والا عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہے (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے اور وہ ایسا ہے کہ) اسی کی ملک ہیں جو چیزیں آسمانوں میں اور جو چیزیں زمین میں ہیں اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں (یعنی آسمان سے نیچے اور زمین سے اوپر) اور جو چیزیں تحت الثریٰ میں ہیں (یعنی زمین کے اندر جو تر مٹی ہے جس کو ثریٰ کہتے ہیں جو چیز کہ اس کے نیچے ہے، مراد یہ کہ زمین کی تہہ میں جو چیزیں ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت و سلطنت تھی) اور (علم کی یہ شان ہے کہ) اگر تم (اے مخاطب) پکار کر بات کہو تو (اس کے سننے میں تو کیا شبہ ہے) وہ تو (ایسا ہے کہ) چپکے سے کہی بات کو اور (بلکہ) اس کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں اس کے (بڑے) اچھے اچھے نام ہیں (جو اوصاف و کمالات پر دلالت کرتے ہیں سو قرآن ایسی ذات جامع الصفات کا نازل کیا ہوا ہے اور یقینی حق ہے) ۔ معارف و مسائل طٰہ، اس لفظ کی تفسیر میں علماء تفسیر کے اقوال بہت ہیں۔ حضرت ابن عباس سے اس کے معنی یا رجل اور ابن عمر سے یا حبیبی منقول ہیں، بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طٰہ اور یٰسٓ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء گرامی میں سے ہیں اور بےغبار بات وہ ہے جو حضرت صدیق اکبر اور جمہور علماء نے فرمائی کہ جس طرح قرآن کی بہت سی سورتوں کے ابتداء میں آئے ہوئے حروف مقطعہ مثلاً الٓمّٓ وغیرہ متشابہات یعنی اسرار میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا لفظ طٰہ بھی اسی میں داخل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

طٰہٰ۝ ١ۚ مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي۝ ٢ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ شقي الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ، . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] ( ش ق و ) اشقاوۃ ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢۔ ٣) یہ قرآن کریم آپ پر ہم نے اس لیے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں بلکہ ایسے شخص کی نصیحت کے لیے جو کہ مطیع وفرمانبردار ہو، یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اس وقت آپ رات کو تہجد میں اس قدر دیر تک قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک تک ورم آجاتا تھا تو اس آیت مبارکہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ پر آسانی فرما دی، یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قرآن کریم آپ پر بذریعہ جبریل امین اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ خود کو تکلیف دیں، طہ کے معنی مکی اصطلاح میں اے آدمی کے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ طٰہٰ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسمائے گرامی میں سے ایک نام ہے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان حروف مقطعات میں سے ہے جو مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں اور ان کے ٹھیک ٹھیک معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٤:۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق یہ سورة مکی ہے مجاہد کے قول کے موافق طٰہٰ حروف مقطعات میں سے ہے حروف مقطعات کی تفسیر کا ذکر سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب تہجد کی نماز فرض ہوئی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کی نماز میں یہاں تک کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آجاتا تھا آپ کا یہ حال دیکھ کر مکہ کے مشرک لوگ کہتے تھے یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محنت اور مشقت میں ڈالنے کے لیے اتارا گیا ہے ١ ؎۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی اس بات کے جواب میں فرمایا اے رسول اللہ کے یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے تم پر تکلیف اٹھانے کے لیے نہیں اتارا بلکہ یہ قرآن تو ان لوگوں کی نصیحت کے لیے اتارا ہے جن کے دل میں آخرت کے عذاب کا ڈر ہے جن لوگوں کے دل میں آخرت کے عذاب کا ڈر نہیں ہے وہ مسخراپن سے ایسی باتیں کرتے ہیں کہ قرآن تم کو اور مسلمانوں کو محنت اور مشقت میں ڈالنے کے لیے اترا ہے یہ منکر قرآن لوگ قیامت کے دن نیک کام والوں کے محنت اور مشقت کے اجر کو دیکھیں گے تو پچھتائیں گے کہ انہوں نے یہ محنت ومشقت کیوں نہیں اٹھائی مشرکین مکہ یہ جو کہتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بنا لیا ہے مشرکین کی اس بات کو جھٹلانے کے لیے فرمایا یہ قرآن اس صاحب قدرت کا اتارا ہوا ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اس لیے اس قرآن سے اس کی یہ قدرت ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے ان پڑھ رسول پر یہ اپنا ایسا کلام اتارا ہے کہ ان پڑھ آدمی تو کیا اہل کتاب بھی قرآن میں کی غیب کی باتیں بغیر تائید غیبی کے ہرگز نہیں بتا سکتے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور معجزوں کے علاوہ قرآن کا ایک ایسا معجزہ مجھ کو دیا گیا ہے جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن قرآن کے پیرو لوگوں کی تعداد اور آسمانی کتابوں کے پیروؤں سے زیادہ ہوگی ٢ ؎۔ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں فقط قرآن کی ہدایت سے غیر قوموں کے لوگ جو قرآن کے پیرو بن رہے ہیں اس سے اس حدیث کا مطلب اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ معتبر سند سے ترمذی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی پانسو برس کی راہ کی اونچائی ہے ٣ ؎۔ یہ حدیث والسموت العلی کی تفسیر ہے جس سے آسمانوں کی اونچائی کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ ١ ؎ الدر المنثور ص ٢٨٩ ج ٤۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٥١٢ باب فضائل سید المرسلین۔ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر تفسیر آیت ہذا مگر جامع ترمذی کی یہ روایت بروایت ابوہریرہ (رض) ہے مشکٰوۃ ص ٥١٠ باب بدء الخلق فصل تیسری۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

( 20:1) لتشقی۔ لام تعلیل کے لئے ہے تشقی مضارع واحد مذکر حاضر شقاوۃ مصدر۔ (باب سمع) شقاوت۔ سعادت کی ضد ہے۔ اس کے معنی ہیں تکلیف میں پڑنا۔ جیسے فلا یضل ولا یشقی (20:123) نہ وہ بھٹکے گا۔ اور نہ وہ تکلیف میں پڑے گا۔ یا کمبختی جیسے ربنا غلبت علینا شقوتنا (23:106) اے ہمارے رب ہم پر ہماری کم بختی نے زور کیا۔ لتشقی۔ کہ تو مشقت میں پڑے۔ کہ تو تکلیف وتعب اٹھائے۔ اس تکلیف اور تعب کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو آپ کا کافروں کے ردوانکار پر حزن وملال۔ دوم۔ راتوں کو آپ کا قرأت قرآن میں طویل قیام یہاں تک کہ قدم مبارک متورم ہوجاتے ۔ پہلی صورت میں آیت کا مطلب ہوگا :۔ کہ کفار کے راہ حق کو تسلیم نہ کرنے پر اس قدر کبیدہ خاطر نہ ہوں کہ زندگی دوبھر ہوجائے آپ کا کام تذکیروہ تبلیغ ہے اور جگہ ارشاد ربانی ہے فلعلک باخع نفسک علی اثارہم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا (18:6) شاید آپ ان کے (اعراض کے پیچھے) غم سے اپنی جان دے دیں گے۔ دوسری صورت میں یہ کہ۔ اپنے آپ پر اتنی سختی کی ضرورت نہیں بلکہ آسانی سے جتنا پڑھ سکیں اتنا کافی ہے۔ جیسے ارشاد ہے فاقرء وا ما تیسر من القران (173:20) سو تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة طہ : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف سورة طہ : مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کا عجیب واقعہ جو انہیں فرعون کے ساتھ پیش آیا بیان کرتی ہے اس سے بھی عجیب واقعہ خود اہل مکہ میں سے سیدنا عمر فاروق (رض) کا ایمان لانا اسی کے سبب سے ہوا ، ایک روز تنگ آکر گھر سے نکل پڑے کہ اس شخص نے شہر کا سکون چھین لیا ہے آخر ایک ہی تو بندہ ہے اسے قتل کر کے قصہ ختم کرنا چاہیے ، مراد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات تھی راستے میں ایک صحابی (رض) ملے تیمور دیکھ کر پوچھا کیا ارادے ہیں ، کہا یہ نئے مذہب والا فسانہ ختم کیا چاہتا ہوں ، انہوں نے فرمایا کہ کسی اور طرف جانے سے پہلے گھر کی خبر لو تمہاری تو بہن بھی مسلمان ہوچکی ہے ، بڑے غصے میں پلٹے تو بہن کے دروازے پہ جا پہنچے اندر حضرت خباب (رض) بن ارت انہیں اور ان کے خاوند کو یہی سورة طہ پڑھا رہے تھے جس کی آواز انہوں نے بھی سنی کچھ سمجھ نہ آیا ، دروازہ کھولنے کو کہا تو انہوں نے حضرت خباب (رض) کو چھپا دیا ، دروازہ کھولا اور پوچھا تم کچھ پڑھ رہے تھے انہوں نے ٹالنا چاہا مگر کہا میں نے سنا ہے تم نے بھی نیا دین قبول کرلیا ہے اور بہنوئی پر جھپٹے ، بہن آڑے آئی تو اس کا سر پھٹ گیا تو ان دونوں نے برملا کہہ دیا کہ آپ نے ٹھیک سنا ہے اور جو کہ سکتے ہیں ضرور کریں ، حضرت (رح) نے حملہ حیدری جو شیعہ کی معروف تاریخ سے ہے علامہ باذل ایرانی کے اشعار نقل فرمائے ہیں کہ ان کی بہن نے کہا ۔ گرشاد باشی در ملول نمودیم دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبول گربکشی سربرآریم پیش ولے باز نگردیم از دین خویش : ترجمہ : آپ خوش ہوں یا رنجیدہ خاطر حق یہ ہے کہ ہم نے دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبول کرلیا ہے ، اگر آپ قتل بھی کرنا چاہیں تو سرحاضر ہے مگر اب ہم اپنے دین سے واپس نہ ہوں گے پھٹے ہوئے سر اور بہتے ہوئے خون کے ساتھ بہن کے ان الفاظ نے ان کا دل ہلا دیا ، کہنے لگے آخر پڑھ کیا رہے تھے مجھے بھی تو دکھاؤ ، صاحب علم تھے اور کلام کے حسن وقبحہ سے واقف مگر انہوں نے فرمایا بھائی یہ صحیفہ پاک ہے اور آپ نجس ، اگر دیکھنا ہو تو غسل کرلو یعنی قرآن وقت نزول سے لکھا جاتا تھا ۔ (جس قدر قرآن نازل ہوتا لکھ لیا جاتا) یہ درست نہیں کہ عہد عثمانی میں لکھا گیا ، ہاں عرب نے اپنی اپنی لغت میں لکھنا شروع کردیا تھا اور وہ بھی جب اسلام عرب میں پھیل گیا تو حضرت عثمان (رض) نے سب کو پھر اسی ایک لہجے پر جمع فرمایا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا ۔ انہوں نے غسل کر کے وہ ورق اٹھایا پڑھا تو اسی مبارک سورة کی ابتدائی آیات تھیں ششدر رہ گئے کہ کس قدر عجیب کلام ہے وہ کتنی عظیم ذات ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہی سب کچھ ہے یہ سن کر حضرت خباب (رض) بھی باہر آگئے اور فرمایا عمر کل میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے سنا کہ اللہ ابی الحکم بن ہشام یا عمر بن الخطاب میں سے ایک کو اسلام کی قوت بنا دے میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ وہ دعا تمہارے حق میں قبول ہوگئی ، اس طرح حضرت عمر (رض) نے ان کے ساتھ جا کر ایمان قبول کیا جو بہت مشہور واقعہ ہے ۔ (مرید اور مراد) اور حضرت عمر (رض) مراد نبی قرار پائے جبکہ باقی ساری امت مرید نبی یہ آپ کی ذاتی اور جزوی فضلیت ہے طہ حروف مقطعات جن کی جن کی بات پہلے چکی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان بھید ہیں ، ارشاد ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آپ پر مشقت بن جائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن بھر تبلیغ میں مشقت اٹھاتے تورات کو اس قدر قیام فرماتے کہ تلاوت کرتے کرتے پاؤں مبارک سوج جاتے اللہ کریم نے اس سے منع فرمایا ، چناچہ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اول رات آرام فرماتے اور آخرت تہجد میں قرآن پڑھا کرتے تھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فعل خالص قرب الہی کے لیے تھا تو اللہ نے خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع فرمایا تو حصول دنیا کے لیے قرآن کے چلے کاٹنا اور راتوں کو ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر پڑھنا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ (حصول دنیا کیلئے قرآن کے چلے اور رت جگے) بلکہ خود اس غرض سے قرآن پڑھنے کی صورت جائز نہ ہوگی ہاں تلاوت سمجھنے کے لیے کرے ، اللہ کی رضا کے لیے کرے ، اس کے بعد اپنے دنیا کے کاموں کے لیے بھی ضرور دعا کرے تو درست ہے ، یہی مفہوم ان احادیث مبارکہ کا بھی ہے جن میں قرآنی سورتوں کا پڑھنا بعض امور میں مفید بتایا گیا ہے کہ تلاوت تو خلوص سے اللہ کی رضا کی خاطر کرے اور دعا بھی کرے محض حصول دنیا کا ذریعہ نہ بنا لے کہ ضرورت پڑی تو ساری رات پڑھا کام نکل گیا تو چھوڑ دیا ، واللہ اعلم ۔ بلکہ یہ کتاب تو ایسے لوگوں کے لیے جن میں اللہ کا خوف اور خشیت پیدا ہوجائے نصیحت اور رہنما ہے ۔ امام ابن کثیر (رح) نے یہاں ایک حدیث نقل فرمائی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ روز حشر علماء سے فرمائے گا میں نے تمہیں علم ہی اس لیے دیا تھا کہ تمہیں بخش دوں خواہ تم نے کتنے قصور کیے مجھے پرواہ نہیں مگر یہ یاد رہے کہ عالم وہی شمار ہوگا جس میں اللہ کی خشیت بھی موجود ہوگی کہ فرما دیا (آیت) ” لمن یخشی “ ۔ اور یہ کسی ایسی ہستی کی باتیں نہیں ہیں جسے جہاں کی خبر ہی نہ ہو یہ تو اس کا کلام ہے اور اس کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمینوں کو اور آسمانوں کو بلندیوں کو بنایا ہے اور ان کی ہر بات اس کی پیدا کی ہوئی ہے نیز بنانے کے بعد بھی تو ان کو چھوڑ نہیں دیا ۔ (استوی علی العرش) بلکہ وہ بہت بڑا مہربان عرش پہ قائم سے مراد ہے کہ عرش الہی کو ان سب باتوں کا مرجع اور مدار بنا دیا ہے یا جدید لغت میں عرش ان سب زمینوں اور آسمانوں کا صدر دفتر یا سیکرٹریٹ ہے ورنہ اللہ جگہ اور جہت سے بہت بلند اور پاک ہے ، آج کل مسلمانوں کا طبقہ اسی مذہب کی اشاعت کرتا ہے کہ اللہ ذاتی طور پر تو عرش پر تشریف فرما ہے مگر اس کا علم ہر شے کے ساتھ ہے جبکہ حق یہ ہے کہ اس کی ذات ہر شے کو محیط ہے اور متقدمین مفسرین نے اس بات کا خوب جواب دیا ہے کہ اگر یہ جانا جائے کہ اللہ کرسی پر تشریف فرما ہے تو اس کی ایک جہت تو معلوم ہوئی جو کرسی کے ساتھ ہے تو محدود ہوا اور محدود فانی ہوتا ہے لہذا یہ عقیدہ درست نہیں ، حضرت (رح) نے اس جگہ نوٹ دیا ہے کہ سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ معنی معلوم کیفیت مجہول یعنی کیفیت کے بارے میں کوئی نہیں جان سکتا ۔ اور سب کچھ جو آسمانوں میں ہے یا زمینوں پر ہے یا زیر زمین جہاں انسانی علوم وآلات بھی نہیں پہنچ پاتے وہ اسی کا ہے کوئی آواز سے بولے یا دل میں سوچے وہ سب جانتا ہے بلکہ وہ ایسی باتیں بھی جانتا ہے جو فی الحال سوچنے والے کے دل میں نہیں آئیں اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں اور سارے خوبصورت نام اسی کے ہیں ۔ تو کیا آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ سنا ؟ کہ اس میں وہ مشکلات بیان ہوئیں ، جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تبلیغ رسالت میں پیش آتی ہیں اور یقینا آپ کو بھی آئیں گی لہذا ساری رات کھڑا رہنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرف متوجہ کرنا مقصود تھا یہ بھی ثابت ہوا کہ محض چلہ کشی وغیرہ سے مخلوق کی اصلاح کے لیے محنت کرنا افضل بھی ہے اور ضروری بھی ۔ (خلق خدا کی اصلاح کے لیے محنت زیادہ افضل ہے) یہاں اس واقعہ کو اس جگہ سے لیا ہے جب انہیں نبی ورسول کی حیثیت سے مبعوث فرمایا گیا ، دوسری جگہ مذکور ہے کہ فرعون نے ان کو قتل کا حکم دیا تو وہ اس کے سپاہیوں سے بچ کر ملک سے نکل گئے ، مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ۔ شادی بھی کی اور ان کی خدمت کرتے رہے حتی کہ جتنے عرصے کا وعدہ کیا تھا پورا کرکے رخصت ہوئے کہ گھر میں رہ جانے والوں ماں بہن اور بھائی سے بچھڑے دس برس ہوچکے تھے اور اتنے عرصے میں بات بھی پرانی ہوچکی ہوگی تو چھپ چھپا کر روانہ ہوئے ، خادم اور اہلیہ ساتھ تھیں راستے سے ہٹ کر سفر کر رہے تھے کہ طور پہاڑ کی دائیں جانب وادی میں پہنچے تو رات نے آلیا موسم سرد تھا لہذا رات کو ٹھنڈ مزید بڑھ گئی تو طور کی ایک گھاٹی میں روشنی دیکھی سمجھے آگ ہے تو گھر والوں سے فرمایا تم لوگ یہاں ٹھہرو میں آگ لے کر آتا ہوں اور وہاں یقینا کوئی راہ بتانے والا بھی مل جائے گا جب وہاں پہنچے تو عجیب منظر تھا کہ ایک درخت کو آگ نما شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور وہ بجائے جلنے کے مزید شاداب اور تروتازہ لگ رہا تھا ، اسی حیرت میں غرق تھے کہ آواز آئی ، اے موسیٰ میں تمہارا پروردگار تم سے بات کر رہا ہوں ، مفسرین فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ آواز اس طرح سنی کہ ہر طرف سے آرہی ہے اور صرف کان ہی نہیں سن رہے سارا بدن کان بن گیا ہے اور سارا بدن سن رہا ہے ۔ (الھام یا القاء ووجدان میں یقین کی کیفیت موجود ہوتی ہے) یہاں یہ سوال بھی نقل فرمایا کہ بھلا انہیں یقین کیسے آیا کہ یہ رب ہی کی آواز ہے تو جواب خوب ارشاد فرمایا کہ اللہ جل جلالہ نے ان کے قلب کو اس پر مطمئن کردیا کہ یقین کرلیں ، یعنی جن اہل اللہ کو کشف نہ بھی ہو مگر وجدان نصیب ہو تو اللہ کی طرف سے بات ان کے قلب میں آجاتی ہے اور اس کے ساتھ یقین کی دولت بھی ہوتی ہے کہ قلب مطمئن ہوجاتا ہے ، اگر شیطانی القا شامل ہوجائے تو یقین کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ (اللہ کا کلام بلاواسطہ سننا) مفسرین کرام نے یہاں احادیث کا حوالہ بھی دیا ہے اور ظاہر بھی ہے کہ جب پکارا ہی براہ راست یا موسیٰ کہہ کر گیا تو آپ نے کلام ربانی کو بلاواسطہ سنا ، گویا اللہ چاہے تو اللہ جل جلالہ کا کلام بلاواسطہ سننا نصیب ہو سکتا ہے کہ معجزات انبیاء ہی کرامات اولیاء بنتے ہیں ، نیز ارشاد ہوا کہ جوتے اتار دیں کہ آپ طوی کی مقدس وادی میں ہیں ۔ (جوتے اگر پاک ہوں تو ان میں نماز ادا کی جاسکتی ہے) ایک تو جوتے اتارنا ادب کا اظہار بھی ہے نیز اس وقت غالبا جوتے بغیر دباغت کے کھال سے بنتے تھے اگر دباغت کی گئی ہو اور جوتے پاک ہوں تو ان میں نماز تک درست ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے ثابت ہے مگر یورپ اور مغرب کے بنے ہوئے جوتوں کو خوب پرکھنا چاہیے کہ اندر اکثر سؤر کا چمڑہ لگا دیتے ہیں اور وہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتا ، ان میں نہ نماز ہوگی اور اگر چھو گیا تو پاؤں بھی ناپاک ہوجائے گا ۔ اور میں نے تمہیں نبوت و رسالت کے لیے چن لیا ہے کہ نبوت ہمیشہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے ، لہذا جو وحی آرہی ہے اسے پوری توجہ سے سنیں اور اسی طرح حدیث شریف میں ارشاد ہے قرآن کو پورے ادب اور توجہ سے سنا جائے حتی کہ ہاتھ پاؤں وغیرہ یا کوئی عضو بھی کسی اور حرکت میں مصروف نہ ہوں تو اللہ کریم سمجھنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں ۔ (قرآن سننے کا ادب) اور میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ، لہذا میری ہی عبادت کر اور میری یاد اور میرے ذکر کے لیے نماز ادا کیا کر ، صاحب معارف فرماتے ہیں کہ ذکر اللہ نماز کی روح ہے اور نماز میں دل سے زبان سے ، اعضاوجوارح سے ذکر کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔ (ذکر اللہ نماز کی روح ہے) بہرحال عبادات سب محدود ہیں جبکہ ذکر بہرحال اور ہر آن لازم ہے اور بیشک قیامت قائم ہونے والی ہے ، یہ اللہ جل جلالہ کی حکمت کہ اس کے وقت کو ہر ایک سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ہر نفس کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے یہ تو اللہ کریم کا احسان ہے کہ بندوں کو اس کے قائم ہونے کی خبر کردی کہ اس روز کے لیے تیاری کرسکیں ورنہ ہر شخص کے سر پہ اس کی شخصی قیامت یعنی موت کھڑی ہے اور پھر سب عالم کو یکجا حاضر آکر جواب دینا ہے اور کوئی منکر قیامت کسی طور بھی اللہ جل جلالہ کی عبادت سے نہ روک سکے نہ طاقت سے اور نہ لالچ سے کہ وہ خود تو دنیا اور خواہشات نفس میں ڈوب کر ایمان کھو چکا ہے اور کسی ماننے والے یا ایماندار کو نہ روک دے کہ وہ تباہ ہوجائے ، پھر ارشاد ہوا یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے ؟ عرض کیا بارے الہا یہ عام سی لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگا لیتا ہوں اور بکریاں چرانے میں کام آتی ہے اور بہت سے کاموں میں استعمال کرتا ہوں ۔ (حسن طلب) بڑا سادہ سا سوال تھا اور مختصر جواب دیا جاسکتا تھا کہ عصا ہے مگر عجب لطف وکرم کی بارش دیکھی تو مزید دامن بھر لیا کہ ساری کائنات میں سب سے زیادہ پر لطف اللہ کا کلام ہے اور پھر جب کسی کو بلاواسطہ نصیب ہو تو کیا کہنے ، جنت کی بیشمار نعمتوں میں سے سب سے زیادہ لذید دیدار باری اور لطف کلام ہی ہوگا جو اللہ جل جلالہ جسے چاہے یہاں بھی نصیب کر دے ، لوگ شہروں کی رونقوں پہ فدا ہیں اور وہاں جنگل میں بحر کرم کی موجیں اٹھ اٹھ کر تجلیات ذاتی کو بےنقاب کر رہی ہیں مگر حسن طلب میں حد ادب بہرحال شرط ہے ، اگرچہ بات لمبی ضرور کرلی مگر اتنی نہیں کہ حد ادب عبور کر جائے اور بہت سے کام بھی اس سے لیتا ہوں کہہ کر مختصر بھی کردی ۔ ” سبحان اللہ “۔ ارشاد ہوا پھینک دو اسے اے موسیٰ ، جب آپ نے ڈال دیا تو ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا جو ادھر ادھر دوڑنے لگا تو بتقاضائے بشریت آپ ذرا جھجکے ، ارشاد ہوا خوف نہ کھائیں اور اسے پکڑ لیا ، جیسے آپ اسے پکڑیں گے ہم اسے پہلی صورت پہ لوٹا دیں گے یعنی پھر سے عصا بن جائے گا اور اپنا ہاتھ بغل میں دے کر نکالیں ، وہ روشن ہو کر نکلے گا یہ دوسرا معجزہ ہے اور یہ اس لیے ہے کہ آپ اللہ جل جلالہ کی قدرت کا تماشا کرلیں ، اب یہ دلائل نبوت لے کر فرعون کے پاس جائیں کہ وہ حد سے بڑھ چکا ہے ثابت ہوا کہ نبی کا معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے ۔ (معجزہ دلیل حقانیت اور نبی کی قوت اس کی صداقت ہوتی ہے) اور اس کی اصل قوت اس کی صداقت ہی ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ مبعوث ہوتا ہے لہذا ولی کی کرامت بھی وہ محیر العقول واقعہ ہوگا جو نبی (علیہ السلام) کی صداقت کی دلیل اور قیام دین کا سبب بنے ورنہ شعبدہ بازی ہوگی نیز ولی کے کردار کی صداقت بھی ساتھ ہوگی ، تب ظہور کرامت ہو سکے گا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 8 تشقی تو مشقت اٹھاتا ہے۔ تذکرۃ دھیان اور توجہ دینے کی چیز۔ یخشی وہ ڈرتا ہے۔ العلی بلند وبالا۔ استوی وہ برابر ہوا۔ قائم ہوا۔ الثریٰ گیلی مٹی۔ السر بھید، دل میں چھپی بات۔ اخفی بہت زیادہ پوشیدہ، چھپا ہوا۔ اسماء الحسنی بہترین نام۔ تشریح :- آیت نمبر 1 تا 8 اس سورت کو بھی ” حروف مقطعات ‘ ‘ سے شروع کیا گیا ہے۔ جن حروف کے معنی کا علم اور اس کا بھید اللہ کو معلوم ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کو تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل کیا ہے تاکہ اس کے وہ بندے جو محتاط، خوف الٰہی سے سرشار اور زندگی کے ہر معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ان کو صحیح راستہ دکھایا جاسکے اور وہ اپنی حقیقی منزل تک پہنچ سکیں۔ یہ اس اللہ کا کلام ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور اسے انتہائی نظم و ضبط سے اپنی مصلحت کے مطابق چلا رہا ہے۔ اس نے یہ زمین جس پر انسان چلتا پھرتا، رہتا بستا اور ہر طرح کے بےانتہا فائدے حاصل کرتا ہے اور وہ بلند وبالا آسمان جو ایک سائبان کی طرح تان دیا گیا ہے اس کی قدرت کے نمونے ہیں وہ کائنات کو پیدا کر کے خاموش یا لاتعلق ہو کر نہیں بیٹھ گیا بلکہ وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر موجود ہے اور جس طرح چاہتا ہے نظام کائنات کو چلا رہا ہے جو کچھ آسمان زمین بلکہ تحت الثری تک میں موجود ہے وہ ذرہ ذرہ کا مالک ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے نہ وہ کسی کی شرکت کا محتاج ہے وہ کھلی چھپی اور راز کی تمام باتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ ہر ایک کی سنتا ہے۔ اللہ کو زور سے پکارا جائے یا آہستہ سے وہ انسانی جذبات اور خیالات کا پوری طرح علم رکھتا ہے۔ وہ ہر رواز اور بھید کو جاننے والا معبود حقیقی ہے اس کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ! اللہ نے جس کائنات کو پیدا کر کے اس ہدایت کیلئے اپنی کتاب قرآن کریم کو نازل کیا ہے آپ اس قرآن کریم کی تعلیمات کو ساری دنیا میں پہنچانے کی جدوجہد کیجیے اور اپنی جدوجہد اور کوشش میں کمی نہ کیجیے ہم نے یہ قرآن ہدایت کے لئے نازل کیا ہے آپ کو کسی مشقت یا مصیبت میں ڈالنے کے لئے نازل نہیں کیا ہے۔ یہ قرآن انسانی ذہنوں کی تسکین اور سکون کے لئے بھیجا گیا ہے۔ یہ ایک ورشنی ہے جو آہستہ آہستہ پھیل کر رہے گی اور وہ لوگ جو اس قرآن کے ذریعے اپنے دلوں میں خوف الٰہی کی قندیلیں روشن کرلیں گے۔ ان کو زندگی کا سچا راستہ ضرور نصیب ہوجائے گا۔ ارشاد ہے کہ انسان اپنے مالک اور اس کی مہربانیوں کو پہچان لے کیونکہ آسمان سے لیکر زمین اور اس کی تہہ تک کی ساری چیزیں اس کی ہیں وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ اس کی ہستی اس لائق ہے کہ اس کے سامنے جھکا جائے اس کی عبادت اور بندگی کی جائے۔ اس کائنات میں سب سے بہتر اور لائق تعظیم اس کے نام ہیں، اس کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جس کو ایسے حسین اور خوبصورت نام نصیب ہوں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن سورۃ طٰہٰ مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار مکہ کا جور و استبداد اپنے عروج پر تھا۔ مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کے قریب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا قدرے تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کن مشکلات میں دین کا کام کرتے رہے۔ لفظ طٰہٰ بھی حروف مقطعات ہیں۔ حسب عادت کچھ اہل علم نے اس کے بھی مفہوم نقل کیے ہیں۔ جو علمی موشگافیوں کے سوا کچھ نہیں کیونکہ بالآخر وہ بھی ثقہ اہل علم کی طرح یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس کا حقیقی مفہوم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشکل اور سخت ترین حالات میں پوری جان سوزی اور اخلاص کے ساتھ تبلیغ دین کا فریضہ ادا فرما رہے تھے۔ آپ رات کی تاریکیوں میں تہجد کی نماز میں لوگوں کی ہدایت کے لیے رو رو کر دعائیں کرتے۔ دن کے وقت تندہی کے ساتھ اصلاح احوال کی کوشش میں مصروف رہتے۔ لیکن مشرکین ناصرف دن بدن کفر و شرک میں آگے ہی بڑھے جا رہے تھے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ جس پر آپ کا دل پسیج جاتا اور آپ غمگین رہتے۔ اس صورت حال میں یہ سورة مبارکہ نازل ہوئی۔ جس کی ابتدا میں آپ کو تسلّی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے رب نے قرآن مجید اس لیے تو نہیں اتارا کہ آپ اپنی استعداد سے بڑھ کر مشقت میں پڑجائیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ اپنی جان کو ہلاک کرلیں گے۔ الشعراء آیت : ٣ بیشک قرآن مجید سراپا نصیحت ہے۔ یقین رکھو قرآن مسائل بڑھانے نہیں کم کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ لیکن اس سے نعمت سے وہی شخص مستفید ہوتا ہے جو اپنے رب کا خوف اور برے انجام سے ڈر نے والا ہے۔ یہی بات قرآن مجید کی پہلی آیت میں کہی گئی ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو گناہوں سے بچنے اور اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة طہ بسم اللہ الرحمن الرحیم طہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہ الاسمآء الحسنی (١ : ٨) ” “۔ نہایت ہی نرم و نازک اور تروتازہ آغاز ہے ‘ حروف مقطعات طا۔ ہا۔ اشارہ یہی ہے کہ یہ وپری سورة ایسے ہی حروف مقطعات سے مرکب ہے۔ جس طرح یہ قرآن ایسے ہی حروف سے مرکب ہے جیسا کہ دوسری سورتوں کے آغاز میں بھی یہی اشارہ ان حروف کے ذریعہ دیا گیا ہے۔ یہاں جو دو حروف چنے گئے ہیں ان میں ایک مزید یہ اشارہ بھی پیش نظر ہے کہ انکے تلفظ کے آخر میں الف مقصورہ آتا ہے جس طرح اس پوری سورة میں فواصل الف مقصورہ پر ختم ہوتے ہیں۔ حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم کا ذکر آتا ہے ‘ جس طرح پورے قرآن میں جس سورة کا آغازحروف مقطعات سے ہوتا ہے ‘ ان کے بعد متصلاً قرآن کریم کا ذکر ہوتا ہے۔ یہاں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کی شکل میں تبصرہ ہے قرآن مجید اور اس کی دعوت پر کہ یہ مصیبت نہیں ہے۔ مآ انزلنا۔۔۔۔ لتشقی (٠٢ : ٢) ” ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑ جائو “ یعنی یہ قرآن آپ پر نازل ہوا کہ آپ اس کی تبلیغ کریں ‘ اس کی وجہ سے تم پر کوئی مصیبت نہ آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کی تلاوت میں آپکو تکلیف ہو ‘ یہ نہیں کہ اس پر عمل میں آپ کو کوئی مشقت ہو ‘ یہ تو یاد دہانی اور نصیحت آموزی کے لئے آسان کردیا گیا ہے۔ اس کے اندر جو احکام دیئے گئے ہیں وہ انسانی طاقت کی حدد کے اندر اندر ہیں۔ یہ نعمت خداوندی ہے ‘ مصیبت و عذاب خداوندی نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ تو عالم بالا سے انسان کا رابطہ ہوتا ہے اور انسان کو عالم بالا کی تائید حاصل ہوتی ہے اور وہ قوت و اطمینان حاصل کرتا ہے۔ اللہ کی رضا مندی کا شعور ‘ اللہ کے ساتھ انس و محبت کا شعور ‘ اور اللہ کے ساتھ صلے اور رابطے کا شعور اس سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ قرآن اس لئے بھی نازل نہیں ہوا کہ اگر لوگ اسے نہیں مانتے تو آپ پر یشان ہوں کیونکہ یہ آپ کے فرائض میں نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ نہ اس لئے نازل ہوا ہے کہ آپ ان لوگوں کے عدم ایمان کی وجہ سے دل کو حسرتوں کا خزانہ بنادیں۔ یہ تو صرف اس لیے ہے کہ آپ نصیحت کرتے چلے جائیں اور لوگوں کو انجام بد سے ڈراتے چلے جائیں۔ الا تذکرۃ المن یخشی (٠٢ : ٣) ” یہ تو ایک یاد دہانی ہے ‘ ہر اس شخص کے لئے جو ڈرے “۔ جو شخص ڈرتا ہے ‘ جب اسے نصیحت کی جائے تو وہ اثر قبول کرتا ہے ‘ اللہ سے ڈرتا ہے اور اللہ سے معافی طلب کرتا ہے بس یہاں تک رسول اور داعی کے فرائض پورے ہوجاتے ہیں۔ رسولوں اور داعیوں کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ وہ دلوں کو لگے ہوئے تالے کھول دیں یا لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے جس نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس پوری کائنات کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے ‘ اس پر محیط ہی اور اس کو دلوں کے خفیہ ارادے اور راز تک معلوم ہیں۔ تنیزلا ممن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما تحتا الثری (٦) (٠٢ : ٤ تا ٦) ” نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں “۔ کیونکہ جس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے وہی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ‘ ان بلند ترین آسمانوں کو ‘ کیونکہ یہ قرآن بھی اسی طرح ایک تکوینی مظہر ہے جس طرح زمین و آسمان مظاہر کو نیہ ہیں۔ یہ بھی عالم بالا سے اترا ہے۔ یہاں قرآن مجید ان قوانین قدرت کو جو اس کائنات میں کار فرما ہیں اور ان قوانین کو جو اس قرآن میں ضبط کیے گئے ہیں یکجا کر کے بیان کرتا ہے۔ آسمانوں کا پر تو زمین پر پڑتا ہے اور اس طرح قرآن بھی ملاء اعلیٰ سے زمین کی طرف آتا ہے۔ جس ذات نے ملا اعلیٰ کی طرف سے یہ قرآن نازل کیا ہے اور جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ کون ہے ؟ رحمن ہے اور رحمن جو نہایت ہی مہربان ہوتا ہے ‘ اس کی جانب سے اترا ہوا قرآن کبھی بھی باعث مشقت اور مصیبت نہیں ہوسکتا۔ قرآن اور رحمن دونوں میں صفت رحمت قدر مشرک ہے۔ اور یہ رحمت ہی ہے جس نے اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں ان کی اصل مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 طہ