Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 104

سورة طه

نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا ﴿۱۰۴﴾٪  14

We are most knowing of what they say when the best of them in manner will say, "You remained not but one day."

جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت سے ہم باخبر ہیں ان میں سب سے زیادہ اچھی راہ والا کہہ رہا ہوگا کہ تم توصرف ایک ہی دن رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ... We know very well what they will say, This means in their condition of conversing amongst themselves. ... إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً ... when the best among them in knowledge and wisdom will say; the one with perfect intelligence amongst them, ... إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ يَوْمًا You stayed no longer than a day! This is because on the Day of Judgement they will sense the shortness of the worldly life within themselves. For the worldly life, with its repetitious time periods and successive nights, days and hours, is as if it is just one day. For this reason, on the Day of Resurrection the disbelievers will think the worldly life was very short. By this they mean to prevent the establishment of the evidence against them due to the shortness of time that they had. Allah says about this, وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُواْ غَيْرَ سَاعَةٍ And on the Day that the Hour will be established, the criminals will swear that they stayed not but an hour, until His statement, وَلَكِنَّكُمْ كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (but you knew not"). (30:55-56) Allah also says, أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَأءَكُمُ النَّذِيرُ Did We not give you lives long enough, so that whosoever would receive admonition could receive it! And the warner came to you. (35:37) Allah, the Exalted, also says, قَـلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِى الاٌّرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُواْ لَبِثْنَا يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَأدِّينَ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (Allah will say): What number of years did you stay on earth! They will say: "We stayed a day or part of a day. Ask of those who keep account." He (Allah) will say: "You stayed not but a little, if you had only known!" (23:112-114) This means that you only remained in it (the earth) a little while. If you only knew, you would have preferred the eternal life over the temporal life. Yet, you conducted yourselves in an evil manner. You gave the present, temporary life precedence over the eternal and everlasting life.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انھیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہوگی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍ ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ ) 30 ۔ الروم۔ 55) جس دن قیامت برپا ہوگی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلا سورة فاطر، 37 سورة المؤمنون۔ ، 112۔ 114 سورة النازعات وغیرہ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو پاقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یہاں ٹھہرنے سے مراد دنیا کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور برزخ کی زندگی بھی۔ انسان کی عادت ہے کہ اسے خوش کے لمحات قلیل بھی نظر آتے ہیں اور قریب بھی۔ بیسیوں برس پہلے کے واقعات اسے یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے کل کی بات ہے اور قیامت کے دہشت ناک احوال دیکھ کر یہ تصور اور بھی بڑھ جائے گا کوئی اس زندگی کو ہفتہ عشرہ قرار دے گا اور جو سب سے زیادہ سمجھدار ہوگا وہ پہلے کی تردید کرتے ہوئے اس زندگی کو صرف ایک دن کی زندگی بتلائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ ۔۔ : ” اَمْثَلُ “ بمعنی ” أَفْضَلُ “ ہے۔ ” اَلْمَثَالَۃُ “ یعنی ” اَلْفَضْلُ ۔ “ ” طَرِيْقَةً “ سب سے اچھے طریقے والا سے مراد یہاں سب سے اچھی رائے والا ہے۔ اسے زیادہ اچھی رائے والا اور عقل مند اس لیے فرمایا کہ اس نے دنیا کے عارضی اور ختم ہونے کو اور آخرت کے ہمیشہ اور باقی رہنے کو دوسروں سے زیادہ سمجھا، اس لیے اس نے کہا کہ دس راتیں کہاں، تم تو ایک دن سے زیادہ دنیا میں نہیں ٹھہرے۔ طبری نے فرمایا کہ قیامت کی ہولناکی انھیں دنیا کا عیش و عشرت ایسا بھلائے گی کہ وہ دنیا میں رہنے کی صحیح مدت بھی نہیں بتاسکیں گے۔ دیکھیے سورة مومنون (١١٢ تا ١١٤) اور روم (٥٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ اِذْ يَقُوْلُ اَمْثَلُہُمْ طَرِيْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا يَوْمًا۝ ١٠٤ۧ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ طرق الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] ، قال الشاعر : 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي … طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک : ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة . وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ، وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ. ( ط رق ) الطریق کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤) وہ زندہ ہو کر جس مدت کے بارے میں بات چیت کریں گے ہم اسے خوب جانتے ہیں جب کہ ان سب کا زیادہ عاقل اور سچا صاحب الرائے یوں کہتا ہوگا کہ تم ایک ہی روز قبر میں رہے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُہُمْ طَرِیْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا ) ” اَمْثَلْکے معنی مثالی کے ہیں ‘ یعنی ان میں سے بہترین طریقے والا ‘ انتہائی شائستہ ‘ مہذب (cultured) اور سب سے زیادہ پڑھا لکھا شخص۔ یہ گویا ان کا لال بجھکڑہو گا جو دنیا میں بزعم خود مثالی شخصیت کا مالک اور دانشور تھا۔ یہی ترکیب قبل ازیں آیت ٦٣ میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں۔ وہاں فرعون کا وہ بیان نقل ہوا تھا جس میں اس نے اپنے ملک کے آئین و تمدن کو ” طَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی “ قرار دیا تھا۔ یہاں پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات پر مشتمل پانچ رکوع اختتام پذیر ہوئے۔ اس سے آگے سورة کے اختتام تک وہی مضامین ہیں جو عام طور پر مکی سورتوں میں ملتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81. This is a parenthesis that has been inserted to remove this doubt of the hearers: How has it been known today what the people will be talking in whispers on the Day of Resurrection? 82. This is another parenthesis which has been inserted in answer to another objection raised by some hearer. It appears that when this Surah was being recited, someone might have raised this question as a ridicule: Where will these high mountains go on the Day of Resurrection, for it appears from your description of Resurrection that all the people of the world will be running about in a level plain? In order to understand the background of the question, it should be kept in mind that Makkah, where this Surah was first recited on the occasion of its revelation, is surrounded on all sides by high mountains. The answer to this question follows immediately: Allah will reduce them to fine dust and scatter it away.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :81 یہ جملۂ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں سامعین کے اس شبیہ کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخر اس وقت میدان حشر میں بھاگتے ہوئے لوگ چپکے چپکے جو باتیں کریں گے وہ آج یہاں کیسے بیان ہو رہی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

45: یعنی جن دنوں کا شمار وہ صرف دس دن سمجھ کر کر رہے تھے، ان کی صحیح تعداد ہم جانتے ہیں 46: یعنی جس شخص کو زیادہ سمجھ دار سمجھا جاتا تھا، وہ تو کہے گا کہ ہمارے دنیا میں قیام کی مدت یا قبروں میں رہنے کی مدت صرف ایک ہی دن تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:104) املثہم۔ ان میں سے زیادہ اچھا۔ بہتر ۔ امثل کے اصلی معنی تو زیادہ مشابہ کے ہیں لیکن اس کا استعمال اس شخص کے لئے ہوتا ہے جو اچھے لوگوں کے مشابہ ہو اور اس اعتبار سے اس کے معنی زیادہ بہتر اور زیادہ نیک کے ہیں۔ طریقۃ۔ ای رایا وعقلا۔ عقل اور رائے میں۔ امثلہم طریقۃ۔ جو ان میں کا سب سے زیادہ صائب الرائے۔ محتاط ۔ اندازہ لگانے والا۔ زیادہ زیرک۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان لبشتم الایوماً (٠٢ : ٣٠١) ” تم نے صرف ایک دن زندگی بسر کی۔ “ یوم دنیا کی یہ طویل زندگیاں انہیں نہایت ہی مختصر نظر آئیں گی۔ یہاں زندگی میں لوگوں نے جو عیاشیاں کی تھیں ، وہ زندگی کے غم نظر آئیں گے اور ایک نہایت ہی مختصر زمانہ نظر آئے گا۔ قدر و قیمت کے اعتبار سے بھی حقیر زمانہ ۔ کیونکہ دس راتوں کی کیا قیمت ہے اگرچہ حد درجہ عیش و عشرت وہ ، اور ایک رات کی قدر و قیمت کیا ہے اگرچہ اس کا ایک ایک منٹ خوش بختی سے بھرا پڑا ہو۔ ان دونوں کی قدر و قیمت بمقابلہ زمانہ لامحدود اور ایام خلود کیا قیمت ہو سکتی ہے ، جس میں یہ لوگ اب حساب و کتاب کے بعد جانے والے ہیں یعنی جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ اس ہولناک منظر قیامت سے ہمیں پھر یہاں دنیا میں لایا جاتا ہے ، یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ قیامت میں ان پہاڑوں کا کیا وہ گا۔ ان کو تو بس یہ پہاڑ بھی پڑے نظر آتے ہیں ۔ جواب میں اس وقت بھی نہایت ہی خوفناک اور ہولناک تصویر کشی کی جاتی ہے اور کہا اتا ہے تم پہاڑوں کا غم مت کرو خود اپنی فکر کرو کہ تم پر کیا گزرے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

104 جو کچھ یہ کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں جبکہ ان میں سے بہترین رائے اور اچھی راہ رکھنے والا یوں کہے گا کہ نہیں تم تو صرف ایک دن رہے گا۔ یعنی میدان حشر میں جو خفیہ سرگوشیاں کرتے ہیں وہ ہم کو سب معلوم ہے جبکہ ان میں سے ایک اچھی رائے کا سمجھدار اور ہوشیار یوں کہے گا کہ دس دن کس کے تم تو صرف ایک دن رہے ہو گے اس کو امثلھم طریقۃ اس لئے فرمایا کہ اس نے وہاں کے عذاب اور وہاں کی ہولناکی کا دوسروں سے بہتر اندازہ کیا یہ نہیں کہ تجدید میعاد کا اندازہ صحیح ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی دنیا میں رہنا اتنا نظر آوے گا یا قبر میں رہنا۔ 12 ہم کو خوب معلوم ہے یعنی چپکے کہنا ہم سے نہیں چھپتا۔ 12