107. The Quran has described the different conditions and experiences through which the criminals will pass from the Day of Resurrection to the time of their entry into Hell: You were neglectful of this, now We have removed the curtain from before you and your sight has become very sharp. (Surah Qaaf, Ayat 22). He is only deferring them to the Day when all eyes shall stare with consternation. They will be running in terror with heads uplifted and eyes fixed upwards and hearts void. (Surah Ibrahim, Ayats 42-43). We have fastened the augury of every man to his own neck and on the Day of Resurrection We will bring forth a writing which he will find like an open book. (It will be said to him:) Here is your record: read it. Today you can yourself reckon your account. (Surah Al-Isra, Ayats 13-14). In the light of the above and this (verse 126), it appears that in the Hereafter, the criminals shall be enabled to see the horrible sights and to realize the consequences of their evil deeds, but in other respects they will be like the blind man who cannot see his way and is deprived of even a staff to feel his way, nor is there anyone to guide him. So he stumbles and is knocked about and does not know where to go and how to satisfy his needs. This very state has been expressed thus: You forgot Our Revelations when they came to you, so you are being forgotten today, as if, you were blind and had no one to look after you.
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :107
قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے ۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ، تو اس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا ، اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے ، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے ۔ یعنی تجھے خوب نظر آ رہا ہے ۔ ( ق ۔ آیت 22 ) ۔ دوسری کیفیت یہ ہے : اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُؤسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَتُھُمْ ھَوَ آء ، اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ، سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اڑے جاتے ہیں ( ابراہیم ۔ آیت 43 ) ۔ تیسری کیفیت یہ ہے : وَنُخْرِجُ لَہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَاباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْراً ہ اِقْرأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً ہ اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا ۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ( بنی اسرائیل ۔ آیات 13 ۔ 14 ) ۔ انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے جو آیت زیر بحث میں بیان ہوئی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامت اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے ، لیکن بس ان کی بینائی یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی ۔ باقی دوسری حیثیتوں سے انکا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو ، جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو ، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو ، اور اس کو کچھ نہ سوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے ۔ اسی کیفیت کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ جس طرح تو نے ہماری آیات کو بھلا دیا تھا اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے ۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا ، کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا ، اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی ۔