Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 27

سورة طه

وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾

And untie the knot from my tongue

اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَفْقَهُوا قَوْلِي

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ۔۔ : سورة شعراء کی آیت (١٣) : (وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں وہ روانی نہ تھی جسے وہ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ فرعون کو بھی ان پر طعن کے لیے یہی کمزوری ملی کہ کہا : (وَلَا ی... َکَادُ یُبِیْنُ ) [ الزخرف : ٥٢ ] ” اور یہ (موسیٰ ) قریب نہیں کہ بات واضح کرے۔ “ اگرچہ فرعون کی بات کا کچھ اعتبار نہیں، کیونکہ جھوٹا الزام لگا دینا اس سے کچھ بعید نہ تھا۔ الغرض ! اس کے لیے انھوں نے دو دعائیں کیں، ایک تو یہ کہ اے میرے رب ! میری زبان کی کچھ گرہ کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں۔ کچھ گرہ کا مفہوم ” عُقْدَةً “ کی تنوین سے ظاہر ہو رہا ہے۔ زبان سے مکمل گرہ دور کرنے کی دعا کے بجائے انھوں نے یہ کہہ کر اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے لیے نبوت کی درخواست کردی کہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں اور میرے اہل خانہ میں سے میرا بوجھ بٹانے والے ہوں گے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ بہتر دعا نہیں کی۔ بعض تفاسیر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن میں انگارا منہ میں ڈالنے کا ذکر ہے، مگر وہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، جن سے کسی بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا ۔۔ : یعنی مددگار جو اس عظیم بوجھ کو اٹھانے میں میرا شریک ہو۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ایسے بڑے پیغمبروں کو (ساری) خلق کی طرف بہت (یعنی مکمل) خیال نہیں ہوتا، ایک پیش کار چاہیے کہ خلق کو سہج میں سمجھائے، ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش کار ابوبکر صدیق (رض) تھے، ابتدا میں ابوبکر (رض) کی تبلیغ ہی سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، جن کا شمار کبار صحابہ میں ہے۔ “ (موضح)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third prayer وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي (And remove the knot from my tongue, that they may understand my speech - 20:27, 28). The story behind this |"knot|" is that as an infant Sayyidna Musa (علیہ السلام) lived with his own mother who used to suckle him and was paid for her services by the Pharaoh. When he was weaned, the Pharaoh and his wife &Asiya (رض) adopted ... him, and took him away from his mother. One day Sayyidna Musa (علیہ السلام) caught hold of the Pharaoh&s beard and slapped him on the face. Another version has it that he was playing with a stick and with it he struck the Pharaoh on his head. The Pharaoh was enraged and made up his mind to put him to death. His wife &Asiya (رض) tried to pacify him and said, |"0 King! Why do you take this matter so seriously? After all he is merely a child who does not understand things. You can test him if you like and you will find that he cannot distinguish between good things and bad things|". Thereupon, the Pharaoh ordered two trays to be brought. One was filled with live coal and the other with jewellery. It was expected that the child would be attracted by the brightness of the burning coal and reach for it because children are not normally drawn towards jewellery which is not as bright. This would have convinced the Pharaoh that what Sayyidna Musa (علیہ السلام) did was nothing more than the act of an innocent child. But Sayyidna Musa (علیہ السلام) was no ordinary child. Allah Ta&ala had chosen him to be a prophet whose instincts were unusual from the very moment of his birth. He put forth his hand to reach out for the jewellery instead of the coal, but Jibra&il (علیہ السلام) turned his hand away and placed it in the tray containing coal. He picked up a piece of burning coal and put it in his mouth and so burned his tongue. The Pharaoh was thus fully satisfied that the action of Sayyidna Musa (علیہ السلام) was not due to mischief but the result of a child&s inability to distinguish between good and bad for himself. This incident caused an impediment in his speech which has been called عُقْدَةً (knot) in the Qur&an, and Sayyidna Musa (علیہ السلام) prayed to Allah Ta&ala to make loose this knot. (Mazharl and Qurtubi) The first two prayers are of a general nature and sought Allah Ta` ala&s help in all matters. The third prayer is for the removal of a disability because eloquence and fluency of expression are essential elements in the successful conduct of prophetic mission. In a subsequent verse Allah Ta&ala informed Sayyidna Musa (علیہ السلام) that all his prayers had been granted which would suggest that he was cured of his disability. However, Sayyidna Musa علیہ السلام in his prayer to make Sayyidna Harun (علیہ السلام) his partner in the prophethood also said ھُوَاَفصَحُ مِنِّی لِساناً (He is more fluent in his tongue than me - 28:34) which would indicate that his speech&s impediment was not fully cured and that the stammer persisted, though in a milder form. One of the defects which the Pharaoh found in Sayyidna Musa (علیہ السلام) was that وَلَا یَکَادُ یُبِینُ (he cannot express himself clearly - 43:52). Some people have argued that in his prayer Sayyidna Musa (علیہ السلام) had prayed to Allah Ta’ ala to loose the knot of his tongue only to the extent that others could understand his words. To that extent his stammer was cured but a trace of it still remained, which is not inconsistent with the grant of his prayer.  Show more

تیسری دعا، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ ، یعنی کھول دے میری زبان کی بندش تاکہ لوگ میرا کلام سمجھنے لگیں۔ اس بندش کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دودھ پینے کے زمانے میں تو اپنی والدہ ہی کے پاس رہے اور دریا پار فرعون سے ان کو دودھ پلانے کا وظیفہ اور صلہ ملت... ا رہا۔ جب دودھ چھڑایا گیا تو فرعون اور اس کی بیوی آسیہ نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا اس لئے والدہ سے واپس لے کر اپنے یہاں پالنے لگے۔ اسی عرصہ میں ایک روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا اور بعض روایات میں ہے کہ ایک چھڑی ہاتھ میں تھی جس سے کھیل رہے تھے وہ فرعون کے سر پر ماری، فرعون کو غصہ آیا اور اس کے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ بیوی آسیہ نے کہا کہ شاہا، آپ بچے کی بات پر خیال کرتے ہیں جس کو کسی چیز کی عقل نہیں اور اگر آپ چاہیں تو تجزیہ کرلیں کہ اس کو کسی بھلے برے کا امتیاز نہیں۔ فرعون کو تجربہ کرانے کے لئے ایک طشت میں آگ کے انگارے اور دوسرے میں جواہرات لا کر موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دیئے خیال تھا کہ بچہ ہے یہ بچوں کی عادت کے مطابق آگ کے انگارے کو روشن خوبصورت سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا جواہرات کی رونق بچوں کی نظر میں ایسی نہیں ہوتی کہ اس طرف توجہ دیں، اس سے فرعون کو تجربہ ہوجائے گا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ بچپن کی نادانی سے کیا۔ مگر یہاں تو کوئی عام بچہ نہیں تھا، خدا تعالیٰ کا ہونے والا رسول تھا جن کی فطرت اول پیدائش سے ہی غیر معمولی ہوتی ہے موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی بجائے جواہرات پر ہاتھ ڈالنا چاہا مگر جبرئیل امین نے ان کا ہاتھ آگ کے طشت میں ڈال دیا اور انہوں نے آگ کا انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا، جس سے زبان جل گئی اور فرعون کو یقین آگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں ایک قسم کی تکلیف پیدا ہوگئی اسی کو قرآن میں عقدہ کہا گیا ہے اور اسی کو کھولنے کی دعا حضرت موسیٰ نے مانگی۔ (مظہری و قرطبی) پہلی دو دعائیں تو عام تھیں سب کاموں میں اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے، تیسری دعا میں اپنی ایک محسوس کمزوری کے ازالہ کی درخواست کی گئی کہ رسالت و دعوت کیلئے زبان کی طلاقت اور فصاحت بھی ایک ضروری چیز ہے۔ آگے ایک آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ سب دعائیں قبول کرلی گئیں جس کا ظاہر یہ ہے کہ زبان کی یہ لکنت بھی ختم ہوگئی ہوگی مگر خود موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون کو اپنے ساتھ رسالت میں شریک کرنے کی جو دعا کی ہے اس میں یہ بھی فرمایا ہے کہ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا، یعنی ہارون (علیہ السلام) نے زبان کے اعتبار سے بہ نسبت میرے زیادہ فصیح ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اثر لکنت کا کچھ باقی تھا۔ نیز فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو عیوب لگائے ان میں یہ بھی کہا کہ وّلَا يَكَادُ يُبِيْنُ ، یعنی یہ اپنی بات کو صاف بیان نہیں کرسکتے۔ بعض حضرات نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خود اپنی دعا میں اتنی ہی بات مانگی تھی کہ زبان کی بندش اتنی کھل جائے کہ لوگ میری بات سمجھ لیا کریں، اتنی لکنت دور کردی گئی کچھ معمولی اثر بھی رہا تو وہ اس دعا کی قبولیت کے منافی نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِيْ۝ ٢٧ۙ حلَ أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [...  الرعد/ 31] ، ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی عقد العَقْدُ : الجمع بين أطراف الشیء، ويستعمل ذلک في الأجسام الصّلبة کعقد الحبل وعقد البناء، ثم يستعار ذلک للمعاني نحو : عَقْدِ البیع، والعهد، وغیرهما، فيقال : عاقدته، وعَقَدْتُهُ ، وتَعَاقَدْنَا، وعَقَدْتُ يمينه . قال تعالی: عاقدت أيمانکم «5» وقرئ : عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6» ، وقال : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة/ 89] ، وقرئ : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ «1» ، ومنه قيل : لفلان عقیدة، وقیل للقلادة : عِقْدٌ. والعَقْدُ مصدر استعمل اسما فجمع، نحو : أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة/ 1] ، والعُقْدَةُ : اسم لما يعقد من نکاح أو يمين أو غيرهما، قال : وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] ، وعُقِدَ لسانه : احتبس، وبلسانه عقدة، أي : في کلامه حبسة، قال : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] ، النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق/ 4] ، جمع عقدة، وهي ما تعقده الساحرة، وأصله من العزیمة، ولذلک يقال لها : عزیمة كما يقال لها : عُقْدَة، ومنه قيل للساحر : مُعْقِدٌ ، وله عقدة ملك «2» ، وقیل : ناقة عاقدة وعاقد : عقدت بذنبها للقاحها، وتیس وکلب أَعْقَدُ : ملتوي الذّنب، وتَعَاقَدَتِ الکلاب : تعاظلت «3» . ( ع ق د ) العقد کے معنی کسی چیز کے اطراف کو جمع کردینے یعنی گرہ باندھنے کے ہیں یہ اصل میں تو سخت اجسام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے عقد الحبل ( رسی کی گرہ باندھنا عقد البناء وغیرہ محاورات ہیں ۔ پھر بطور استعارہ معانی پر ۔ بھی بولا جاتا ہے جیسے عقد البیع سودے کو پختہ کرنا عقد العھد محکم عہد باندھنا وغیرہ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس سے پختہ عہد وبیمان باندھا قرآن میں ہے : ۔ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6»جن لوگوں سے تم نے پختہ عہد باندھ رکھے ہوں ۔ ایک قرات میں عقدت ایمانکم سے نیز فرمایا : ۔ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة/ 89] پختہ قسموں ہر ایک قرات میں ہے اسی سے لفلان عقیدۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی پختہ یقین کے ہیں العقد ( گلے کا ہار ) اور العقد یہ اصل میں مصدر ہیں اور بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں اس کی جمع عقود آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة/ 1] اپنے اقراروں کو پورا کرو العقد ۃ نکاح عہدو پیمان وغیرہ جو پختہ کیا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔۔۔ عقد لسانہ اس کی زبان پر گرہ لگ گئی فی لسانہ عقدۃ اس کی زبان میں لکنت ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق/ 4] اور گرہوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے میں عقدۃ عقدۃ کی جمع ہے یعنی وہ گر ہیں جو جادو گر عورتیں لگاتی ہیں دراصل اس کے معنی عزیمۃ کے ہیں اس لئے اس پر عقدۃ اور عزیمۃ دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور جادو گر کو معقدۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ لہ عقدۃ ملک اس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے ۔ ناقۃ عاتدۃ وعاقد وہ اونٹنی جس کی دم گرہ دار ہوجائے اور یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ نر سے جفتی کی خواہشمند ہے ۔ تیس وکلب اعقد نرسانڈ یا کتا جس کی دم لپٹی ہوئی ۔ تعاقدت لکلاب کتوں کا آپس میں جفتی کرنا ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: بچپن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک انگارا زبان پر رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں تھوڑی سی لکنت پیدا ہوگئی تھی۔ اسی لکنت کو یہاں ’’ گرہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:27) احلل۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو کھول دے۔ حل یحل حل (نصر) بمعنی گرہ کشائی۔ عقدۃ۔ گرہ۔ لکنت۔ رکاوٹ۔ بندش۔ عقد سے جس کے معنی باندھنے کے ہیں واحلل عقدۃ من لسانی۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ضروری نہیں کہ حضرت موسیٰ کی زبان میں لکنت ہو بلکہ گرہ کھلونے سے مراد قوت گویائی کے لئے دعا کرنا ہے کہ میں فصاحت و بلاغت سے اپنا مفہوم ادا کرسکوں۔ قرآن میں زیادہ سے زیادہ یہ چیز معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی نسبت حضرت ہارون کی زبان میں فصاحت و بلاغت زیادہ پائی جاتی تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ یہ تیسرے درخواست ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بچپن میں فرعون کی گود میں تھے تو انہوں نے اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ اور اس کی داڑھی کے بال بھی نوچ ڈالے اس پر فرعون نے برہم ہو کر کہا کہ یہ تو میرا دشمن ہوگا اور ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ فرعون کی بیوی آسیہ نے کہا وہ نادان بچہ ہے جو آگ اور جواہرات م... یں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ چناچہ فوراً دہکتے کوئلوں کا ایک طشت اور جواہرات کا ایک طشت لا کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دئیے گئے۔ انہوں نے ہاتھ جواہرات کی طرف بڑھایا۔ جبریل (علیہ السلام) نے ان کا ہاتھ آگ کے طشت میں رکھ دیا۔ انہوں نے ایک دہکتا ہوا کوئلہ منہ میں رکھ لیا۔ جس سے زبان جل گئی اور اس کی وجہ سے ان کی زبان میں گرہ پڑگئی اور وہ ہکلا کر بات کرتے تھے۔ یہاں اس گرہ کے کھولنے کی دعا کی (قرطبی، روح وغیرہ) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 اور میری زبان کی گرہ کھول دے یعنی میری زبان کی لکنت ہٹا دے اور دور کر دے۔