Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 29

سورة طه

وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾

And appoint for me a minister from my family -

اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَارُونَ أَخِي

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth prayer was وَاجْعَل لِّي وَزِيرً‌ا مِّنْ أَهْلِي (and make for me an assistant from my own family - 20:29). The first three prayers of Sayyidna Musa (علیہ السلام) concerned his own person. This fourth prayer relates to the assembling of means which would facilitate the successful completion of his mission, and the most important among these was the appointment of a deputy or a helper, w... ho would assist him in this task. The literal meaning of the word j is |"one who carries a burden|", and since a minister of a state carries the burden of responsibilities entrusted to him by the ruler, he is called a minister. This shows the extreme foresight and prudence of Sayyidna Musa (علیہ السلام) because the success of any movement or enterprise depends on the selection of competent and dedicated supporters. With good and loyal workers it is easy to surmount all obstacles and hurdles, while with irresponsible and indifferent workers the best preparations and arrangements become futile. If one were to examine the causes of the decline of some of the modern states and the evils from which they suffer, they can all be attributed to the irresponsible conduct, mismanagement and incompetence of the ministers and advisers. It is related from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that when Allah Ta` ala appoints someone to govern a country and wishes that the country should be well administered, He provides the ruler with a good Wazir to assist him in whatever he does, and if he forgets to attend to some important task, the Wazir is quick to remind him and to help him in what he intends to do. (Nisa&i, from Qasim Ibn Muhammad). In this prayer Sayyidna Musa (علیہ السلام) has specified that the helper he wants should be from his own family, the reason being that the behavior and conduct of a member of the family is well-known. Besides, there is mutual affection and understanding between the members of the family which greatly helps towards the accomplishment of the mission. But it is essential that the person selected should be competent and in possession of the merit necessary for the performance of his duties so that his selection may not be attributed to nepotism and favouritism. Nowadays when there is a scarcity of people of integrity and dedication, the ruler who appoints his own close relatives to be his Wazir and deputies renders himself liable to public criticism. When, however, the standards of probity and integrity are high, such appointments are considered normal and are, in fact, conducive to the more efficient performance of sensitive assignments. Indeed all the four Khulafa& ar-Rashidin (guided Caliphs) who succeeded the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) were in some way related to him. In his prayer Sayyidna Musa (علیہ السلام) first asked that the helper he required should be from his own family and then specifically asked for his brother Harun to be his Wazir so that with the latter&s support and assistance he could better perform the duties of his prophetic mission.  Show more

چوتھی دعا واجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ (یعنی بناوے میرا ایک وزیر میرے ہی خاندان میں سے) پچھلی تین دعائیں اپنے نفس اور ذات سے متعلق تھیں یہ چوتھی دعا اعمال راست کو انجام دینے کے لئے اسباب کرنے سے متعلق ہے اور ان اسباب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اور اہم اس کو قرار دیا کہ اس...  کا کوئی نائب اور وزیر ہو جو ان کی مدد کرسکے۔ وزیر کے معنی ہی لغت میں بوجھ اٹھانے والے کے ہیں، وزیر سلطنت چونکہ اپنے امیر و بادشاہ کا بار ذمہ داری سے اٹھاتا ہے اس لئے اس کو وزیر کہتے ہیں۔ اس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کمال عقل معلوم ہوا کہ کسی کام یا تحریک کے چلانے کے لئے سب سے پہلی چیز انسان کے اعوان و انصار ہیں وہ منشاء کے مطابق مل جائیں تو آگے سب کام آسان ہوجاتے ہیں اور وہ غلط ہوں تو سارے اسباب و سامان بھی بےکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ آج کل کی سلطنتوں اور حکومتوں میں جتنی خرابیاں مشاہدہ میں آئی ہیں غور کریں تو ان سب کا اصلی سبب امیر ریاست کے اعوان و انصار اور وزرا و امرا کی خرابی بےعملی یا عدم صلاحیت ہے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ جب کسی شخص کو کوئی حکومت و امارت سپرد فرما دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہ اچھے کام کرے حکومت کو اچھی طرح چلائے تو اس کو نیک وزیر دے دیتے ہیں جو اس کی مدد کرتا ہے اگر یہ کسی ضروری کام کو بھول جائے تو وزیر یاد دلا دیتا ہے اور جس کام کا وہ ارادہ کرے وزیر اس میں اس کی مدد کرتا ہے۔ (رواہ النسائی عن القاسم بن محمد) اس دعا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو وزیر طلب فرمایا اس کے ساتھ ایک قید مِّنْ اَهْلِيْ کی بھی لگا دی کہ یہ وزیر میرے خاندان و اقارب میں سے ہو کیونکہ اپنے خاندان کے آدمی کے عادات و اخلاق دیکھے بھالے اور طبائع میں باہم الفت و مناسبت ہوتی ہے جس سے اس کام میں مدد ملتی ہے بشرطیکہ اس کو کام کی صلاحیت میں دوسروں سے فائق دیکھ کرلیا گیا ہو۔ محض اقربا پروری کا داعیہ نہ ہو۔ اس زمانے میں چونکہ عام طور پر دیانت و اخلاص مفقود اور اصل کام کی فکر غائب نظر آتی ہے۔ اس لئے کسی امیر کے ساتھ اس کو خویش و عزیز کو وزیر یا نائب بنانے کو مذموم سمجھا جاتا ہے اور جہاں دیانتداری پر بھروسہ پورا ہو تو کسی صالح و اصلح خویش و عزیز کو کوئی عہدہ سپرد کردینا کوئی عیب نہیں بلکہ مہمات امور کی تکمیل کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفاء راشدین عموماً وہی حضرات ہوئے جو بیت نبوت کے ساتھ رشتہ داریوں کے تعلقات بھی رکھتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں پہلے تو عام بات فرمائی کہ میرے خاندان و اہل میں سے ہو، پھر متعین کرکے فرمایا کہ وہ میرا بھائی ہارون ہے جس کو میں وزیر بنانا چاہتا ہوں تاکہ میں اس سے مہمات رسالت میں قوت حاصل کرسکوں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَہْلِيْ۝ ٢٩ۙ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ وَزِيرُ : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . و... أَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه/ 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه/ 87] . الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه/ 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه/ 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩۔ ٣٥) اور ہارون (علیہ السلام) کو میرا معاون مقرر کردیجیے اور ان کے ذریعے سے میری قوت کو مضبوط کردیجیے اور میری کام یعنی فرعون کی جانب تبلیغ رسالت میں ان کو میرے ساتھ شامل کردیجیے تاکہ ہم دونوں مل کر تیری خوب نمازیں زبان وقلب سے پڑھیں اور کثرت سے تیرا ذکر زبان وقلب سے کریں یقینا آپ ہمارے حال سے وا... قف ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْ ) ” لفظ ” وزیر “ کا مادہ وزر (بوجھ) ہے۔ اس لحاظ سے اس کے معنی ہیں : بوجھ اٹھانے والا۔ یعنی ذمہ داریوں میں مدد کرنے اور سہارا بننے والا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:29) وزیرا۔ الوزر کے معنی بارگراں کے ہیں۔ اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں وزیر وزر سے صیغہ صفت ہے وزیروہ شخص جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو اور اس کے عہدہ کو وزارت کہا جاتا ہے۔ وزیر۔ معین ۔ مددگار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی مددگار جو اس بار عظیم کو اٹھانے میں میرا شریک ہو۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” ایسے بڑے پیغمبر کو سمجھانے کے لئے ایک پیش کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پیغمبر کے پیش کار حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ ابتدا میں حضرت ابوبکر کی تبلیغ ہی سے سب لوگ مسلمان ہوئے جن کا شمار کبار صحابہ میں ہے۔ (از موضح وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور دوسری التجا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے رب کے حضور یہ التجا بھی کی کہ میرے رب میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دیجیے میرے بھائی کے ساتھ میری کمر کو مضبوط کیجئے اور اسے میرے کام میں شریک بنا دیں تاک... ہ ہم کثرت کے ساتھ تیری حمد اور ذکر کریں بلاشبہ تو ہمیں اچھی طرح دیکھنے والا ہے۔ حضرت ہارون موسیٰ (علیہ السلام) سے تقریباً تین سال بڑے تھے فرعون کے مظالم اور حالات کی سنگینی کے باعث حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پشتی بانی اور کام میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اپنے رب کے حضور یہ دعا کی کہ میرے رب میرے بھائی کو میرے کام میں شریک بنا دے تاکہ ہم تیری حمد، اور ذکر زیادہ سے زیادہ کرسکیں تو ہر حال میں ہمیں دیکھنے والا ہے۔ حمد سے مراد زبانی اور جسمانی طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکر ادا کرنا ہے ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا، نصیحت حاصل کرنا اور اللہ کی توحید بیان کرنا ہے ذکر کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ارشاد فرمایا : رمی اور طواف بھی اللہ کے ذکر کے لیے : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّمَاجُعِلَ رَمْیُ الْجِمَارِ وَالسَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لإِقَامَۃِ ذِکْرِ اللَّہِ قَالَ أَبُو عیسَی وَہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ کَیْفَ تُرْمَی الْجِمَارُ ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا رمی جمار اور صفامروہ کی سعی کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا۔ “ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْ ےَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا ےَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَےِّتِ ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے رب کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی سی ہے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ ) [ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ “ (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ ] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ نیکی کے کام میں ایک دوسرے کی پشتی بانی کرنا چاہیے۔ ٢۔ دین کا داعی اپنے ساتھیوں کے ساتھ تقویّت محسوس کرتا ہے۔ ٣۔ توحید کا پرچار کرنا سب سے بڑا ذکر ہے۔ ٤۔ آدمی کو ہر حال اللہ کی حمد و ثنا اور اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٥۔ آدمی کسی حالت میں بھی ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ذکر کے معانی، اس کا حکم اور فضیلت : ١۔ اللہ کا ذکر صبح اور شام کثرت سے کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٢۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ : ١٠) ٣۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ : ٢٠٣) ٤۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ : ٢٠٠) ٥۔ جنگ کے دوران۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال : ٤٥) ٦۔ اے ایمان والو ! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٧۔ جب نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (النساء : ١٠٣) ٨۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) ٩۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے کامیاب ہونگے۔ ( الجمعہ : ١٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ یہ چوتھی درخواست ہے۔ میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی اس مہم میں میرا شریک بنا دے تاکہ دونوں مل کر اس کام کو سرانجام دے سکیں ” اُشْدُدْ بِهٖ اَزْرِيْ “ ،” اَزر “ کے معنی قوت کے ہیں۔ الازر القوۃ الشدیدۃ (مفردات ص 15) ۔ یعنی میرے بھائی کو میرے کام میں شریک کر کے میری قوت کو مضبوط کردے۔ یا از... ر کے معنی ظہر (کمر) ہے۔ یعنی میری کمر مضبوط فرما (” اُشْدُدْ بِهٖ اَزْرِيْ “ ) ای ظہری (قرطبی ج 11 ص 193) ۔ ” وَ اَشْرِکْهُ فِیْ اَمْرِيْ “ یہ پانچویں درخواست ہے یعنی ہارون کو نبوت اور تبلیغ میں میرا شریک بنا دے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29 اور میرے گھر والوں میں سے میرے لئے ایک مدد گار مقرر کر دے۔