Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 37

سورة طه

وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلَیۡکَ مَرَّۃً اُخۡرٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾

And We had already conferred favor upon you another time,

ہم نے تو تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى

جس سال قتل موقوف تھا اس سال تو حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا اس برس حضرت موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے ۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا ؟ بے اندازہ تھی ۔ ایک فتنہ تو یہ تھا ۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہوگیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے ... پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے ۔ چنانچہ بحکم الٰہی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا ۔ یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا ۔ یہ بادشاہ بیگم کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا ۔ ادھر ام موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا ۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں ۔ یہ دوسرا فتنہ تھا آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے ۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا ؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی تدابیر اعلیٰ اور محروم ہدایت فرعون ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ حلف بیان فرماتے ہیں کہ اگر وہ بھی کہہ دیتا کہ ہاں بیشک وہ میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ضرور راہ راست دکھا دیتا جیسا کہ اس کی بیوی صاحبہ مشرف بہ ہدایت ہوئی لیکن اس نے خود اس سے محروم رہنا چاہا اللہ نے بھی اسے محروم کر دیا ۔ الغرض فرعون کو جوں توں راضی رضامند کر کے اس بچے کے پالنے کی اجازت لے کر آپ آئیں اب محل کی جتنی دایہ تھیں سب کو جمع کیا ایک ایک کی گود میں بچہ دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کا دودھ آپ پر حرام کر دیا آپ نے کسی کا دودھ منہ میں لیا ہی نہیں ۔ اس سے ملکہ گھبرائیں کہ یہ تو بہت ہی برا ہوا ۔ یہ پیارا بچہ یونہی ہلاک ہو جائے گا ۔ آخر سوچ کر حکم دیا کہ انہیں باہر لے جاؤ ادھر ادھر تلاش کرو اور اگر کسی کا دودھ یہ معصوم قبول کرے تو اسے بہ منت سونپ دو ۔ باہر بازاروں میں میلہ سا لگ گیا ہر شخص اس سعادت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا ۔ آپ کی والدہ نے اپنی بڑی صاحبزادی آپ کی بہن کو باہر بھیج رکھا تھا کہ وہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ وہ اس مجمع میں موجود تھیں اور تمام واقعات دیکھ سن رہی تھیں جب یہ لوگ عاجز آ گئے تو آپ نے فرمایا اگر تم کہو تو میں ایک گھرانہ ایسا بتلاؤں جو اس کی نگہبانی کرے اور ہو بھی اس کا خیر خواہ یہ کہنا تھا کہ لوگوں کو شک ہوا کہ ضرور یہ لڑکی اس بچے کو جانتی ہے اور اس کے گھر کو بھی پہچانتی ہے ۔ اے ابن جبیر یہ تھا تیسرا فتنہ ۔ لیکن اللہ نے لڑکی کو سمجھ دے دی اور اس نے جھٹ سے کہا کہ بھلا تم اتنا نہیں سمجھے کون بدنصیب ایسا ہو گا جو اس بچے کی خیر خواہی یا پرورش میں کمی کرے جو بچہ ہماری ملککہ کا پیارا ہے ۔ کون نہ چاہے گا کہ یہ ہمارے ہاں پلے تاکہ انعام و اکرام سے اس کا گھر بھر جائے ۔ یہ سن کر سب کی سمجھ میں آ گیا اسے چھوڑ دیا اور کہا بتا تو کون سی دایہ اس کے لئے تجویز کرتی ہے؟ اس نے کہا میں ابھی لائی دوڑی ہوئی گئیں اور والدہ کو یہ خوش خبری سنائی والدہ صاحب شوق و امید سے آئیں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیا اپنا دودھ منہ میں دیا بچے نے پیٹ بھر کر پیا اسی وقت شاہی محلات میں یہ خوشخبری پہنچائی گئی ملکہ کا حکم ہوا کہ فوراً اس دایہ کو اور بچے کو میرے پاس لاؤ جب ماں بیٹا پہنچے تو اپنے سامنے دودھ پلوایا اور یہ دیکھ کر کہ بچہ اچھی طرح دودھ پیتا ہے بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ دائی اماں مجھے اس بچے سے وہ محبت ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں تم یہیں محل میں رہو اور اس بچے کی پرورش کرو ۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کے سامنے اللہ کا وعدہ تھا انہیں یقین کامل تھا اس لئے آپ ذرا رکیں اور فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر یہاں رہوں ۔ اگر آپ چاہتی ہیں تو یہ بچہ میرے سپرد کر دیں میں اسے اپنے گھر لے جاتی ہوں ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی ملکہ صاحبہ نے مجبوراً اس بات کو بھی مان لیا اور آپ اسی دن خوشی خوشی اپنے بچے کو لئے ہوئے گھر آ گئیں ۔ اس بچے کی وجہ سے اس محلے کے بنو اسرائیل بھی فرعونی مظالم سے رہائی پا گئے ۔ جب کچھ زمانہ گزر گیا تو بادشاہ بیگم نے حکم بھیجا کہ کسی دن میرے بچے کو میرے پاس لاؤ ایک دن مقرر ہو گیا تمام ارکان سلطنت اور درباریوں کو حکم ہوا کہ آج میرا بچہ میرے پاس آئے گا تم سب قدم قدم پر اس کا استقبال کرو اور دھوم دھام سے نذریں دیتے ہوئے اسے میرے محل سرائے تک لاؤ ۔ چنانچہ جب سواری روانہ ہوئی وہاں سے لے کر محل سرائے سلطانی تک برابر تحفے تحائف نذریں اور ہدیے پیشکش ہوتے رہے اور بڑی ہی عزت و اکرام کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تو خود بیگم نے بھی خوشی خوشی بہت بڑی رقم پیش کی اور بڑی خوشی منائی گئی ۔ پھر کہنے لگی کہ میں تو اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گی وہ بھی اسے انعام و اکرام دیں گے ، لے گئیں اور بادشاہ کی گود میں لٹا دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے گھسیٹی ۔ فرعون کھٹک گیا اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ کیا عجب یہی وہ لڑکا ہو آپ اسے فوراً قتل کرا دیجئے ۔ اے ابن جبیر یہ تھا چوتھا فتنہ ملکہ بیتاب ہو کر بول اٹھیں اے بادشاہ کیا ارادہ کر رہے ہو؟ آپ اسے مجھے دے چکے ہیں میں اسے اپنا بیٹا بنا چکی ہوں ۔ بادشاہ نے کہا یہ سب ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو اس نے تو آتے ہی داڑھی پکڑ کر مجھے نیچا کر دیا گویا یہی میرا گرانے والا اور مجھے تاخت و تاراج کرنے والا ہے ۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا بادشاہ بچوں کو ان چیزوں کی کیا تمیز سنو میں ایک فیصلہ کن بات بتاؤں اس کے سامنے دو انگارے آگ کے سرخ رکھ دو اور دو موتی آبدار چمکتے ہوئے رکھ دو پھر دیکھو یہ کیا اٹھاتا ہے اگر موتی اٹھا لے تو سمجھنا کہ اس میں عقل ہے اور اگر آگ کے انگارے تھام لے تو سمجھ لینا کہ عقل نہیں جب عقل و تمیز نہیں تو اس کی داڑھی پکڑ لینے پر اتنے لمبے خیالات کر کے اس کی جان کا دشمن بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے چنانچہ یہی کیا گیا دونوں چیزیں آپ کے سامنے رکھی گئیں آپ نے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا لئے اسی وقت وہ چھین لئے کہ ایسا نہ ہو ہاتھ جل جائیں اب فرعون کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس کا بدلہ ہوا رخ ٹھیک ہو گیا ۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ کو جو کام کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے قدرتی اسباب مہیا ہو ہی جاتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دربار فرعون میں فرعون کے خاص محل میں فرعون کی بیوی کی گود میں ہی پرورش ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ آپ اچھی عمر کو پہنچ گئے اور بالغ ہو گئے ۔ اب تو فرعونیوں کے جو مظالم اسرائیلیوں پر ہو رہے تھے ان میں بھی کمی ہو گئی تھی سب امن و امان سے تھے ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک فرعونی اور ایک اسرائیلی کی لڑائی ہو رہی تھی اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ کو سخت غصہ آیا اسلئے کہ اس وقت وہ فرعونی اس بنی اسرائیل کو دبوچے ہوئے تھا آپ نے اسے ایک مکا مارا اللہ کی شان مکا لگتے ہی وہ مر گیا یہ تو لوگوں کو عموماً معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کی طرف داری کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی وجہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ آپ نے انہی میں دودھ پیا ہے اس لئے ان کے طرفدار ہیں اصلی راز کا علم تو صرف آپ کی والدہ کو تھا اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو بھی معلوم کرا دیا ہو ۔ اسے مردہ دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہے وہ بہکانے والا اور کھلا دشمن ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے کہ باری تعالیٰ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو معاف فرما پروردگار نے بھی آپ کی اس خطا سے درگزر فرما لیا وہ تو غفور و رحیم ہے ہی ۔ چونکہ قتل کا معاملہ تھا آپ پھر بھی خوفزدہ ہی رہے تاک جھانک میں رہے کہ کہیں معاملہ کھل تو نہیں گیا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالیٰ بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کردیا تھا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] مطالبات کی منظوری :۔ یعنی جو کچھ درخواستیں تم نے پیش کی ہیں وہ سب کی سب منظور کی جاتی ہیں۔ ان احسانات کے علاوہ پہلے بھی ہم تم پر احسان کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کرکے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ احسانات یاد دلاتے ہیں جو ان کی پیدائش سے لے کر تاحال ان پر کئے گئے ہیں اور ان ... کی تفصیل سورة قصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم خاص اسی مہم کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور اسی کام کے لئے ہماری زیرنگرانی تمہاری پرورش ہوتی رہی ہے۔ فرعون جیسے جابر بادشاہ سے ٹکر لینے کے لئے جن صفات کی ضرورت تھی۔ وہ تمہیں ودیعت کرکے اس کام کے لئے تمہارا انتخاب کرلیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى : اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی، نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہونے، عصا و ید بیضا کے معجزے عطا ہونے، ان کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور اس موقع پر کی ہوئی چاروں دعاؤں کی قبولیت میں سے ہر ایک عظیم احسان تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے کیے گئے آٹھ احسانات کا ذکر فر... مایا۔ مقصد یہ کہ میں نے تم پر پہلے بھی احسان کیے، اب بھی کیے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، کیونکہ میں نے تمہیں بنایا ہی خاص اپنے لیے ہے، فرمایا : (وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي) [ طٰہٰ : ٤١ ] ” اور میں نے تجھے اپنے لیے خاص طور پر بنایا ہے۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آئندہ کے وعدے کا یقین دلانے کے لیے پچھلے احسانات یاد دلائے، فرمایا : (وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى ۝ۭاَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى ۝۠وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى ۝۠وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى ) [ الضحیٰ : ٥ تا ٨ ] ” اور یقیناً عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہوجائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پس جگہ دی اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا اور اس نے تجھے تنگدست پایا تو غنی کردیا۔ “ (ابن عاشور) ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تجھ پر ایک اور بار بھی احسان کیا “ اس میں احسان کو مجمل رکھا ہے، تاکہ شوق پیدا ہو کہ وہ کیا احسان تھا، پھر چار آیات (٣٨ تا ٤١) میں پے در پے آٹھ احسان ذکر فرمائے : 1 ”ۙاِذْ اَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّكَ مَا يُوْحٰٓي “ 2”ۭ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ “ 3” وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ “ 4” فَرَجَعْنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ “ 5” وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ “ 6 ” وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا “ 7 ” فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ ڏ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى“ 8 ” وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّ‌ةً أُخْرَ‌ىٰ (And We have bestowed Our favour on you once more - 20:37). Having bestowed His gifts and special favours on Sayyidna Musa (علیہ السلام) such as the honour of conversation with Allah, the grant of prophethood and miracles etc. Allah Ta&ala reminds him of the benefits and favours which He had showered on him throughout his life - from his...  birth uptill that time and how He had saved his life from numerous risks and hazards. In relation to time, these benefits (which will be discussed in the following pages) pertain to an earlier period.  Show more

خلاصہ تفسیر ہم تو اور دفعہ اور بھی (اس کے قبل بےدرخواست ہی) تم ہر احسان کرچکے ہیں جبکہ ہم نے تمہاری ماں کو وہ بات الہام سے بتلائی جو (بوجہ مہتم بالشان ہونے کے) الہام سے بتلانے کے (قابل) تھی (وہ) یہ کہ موسیٰ کو (جلادوں کے ہاتھ سے بچانے کے لئے) ایک صندوق میں رکھو، پھر ان کو (مع صندوق کے) دریا میں (ج... س کی ایک شاخ فرعون کے محل تک بھی گئی تھی) ڈال دو پھر دریا ان کو (مع صندوق کے) کنارہ (کے پاس) تک لے آوے گا (آخر کار) ان کو ایک ایسا شخص پکڑے گا جو (کافر ہونے کی وجہ سے) میرا بھی دشمن ہے اور ان کا بھی دشمن ہے (خواہ فی الحال بوجہ اس کے کہ سب بچوں کو قتل کرتا تھا خواہ آئندہ ان کا خاص طور پر دشمن ہوگا) اور (جب صندوق پکڑا گیا اور تم اس میں سے نکالے گئے تو) میں نے تمہارے (چہرے کے) اوپر اپنی طرف سے ایک اثر محبت ڈال دیا (تاکہ جو تم کو دیکھے پیار کرے) اور تاکہ تم میری (خاص) نگرانی میں پرورش پاؤ۔ (یہ اس وقت کا قصہ ہے) جبکہ تمہاری بہن (تمہاری تلاش میں فرعون کے گھر) چلتی ہوئی آئیں، پھر (تم کو دیکھ کر اجنبی بن کر) کہنے لگیں (جبکہ تم کسی انّا کا دودھ نہ پیتے تھے) کیا تم لوگوں کو ایسے شخص کا پتہ دوں جو اس کو (اچھی طرح) پالے رکھے (چنانچہ ان لوگوں نے چونکہ ان کو تلاش تھی منظور کیا اور تمہاری بہن تمہاری ماں کو بلا کر لائیں) پھر (اس تدبیر سے) ہم نے تم کو تمہاری ماں کے پاس پھر پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کو غم نے رہے (جیسا تھوڑے عرصہ تک فراق سے مغموم رہیں) اور (بڑے ہونے کے بعد ایک اور احسان کیا کہ) تم نے (غلطی سے) ایک شخص (قبطی) کو جان سے مار ڈالا (جس کا قصہ سورة قصص میں ہے اور مار کر غم ہوا خوف عقاب سے بھی اور خوف انتقام سے بھی) پھر ہم نے تم کو اس غم سے نجات دی (خوف عقاب سے تو اس طرح کہ استغفار کی توفیق دی اور اس کو قبول کیا اور خوف انتقام سے اس طرح کہ مصر سے مدین پہنچا دیا) اور (مدین پہنچنے تک) ہم نے تم کو خوب خوب محنتوں میں ڈالا (اور پھر ان سے خلاصی دی جن کا ذکر سورة قصص میں ہے کہ خلاصی دینا بھی منت ہے اور خود ابتلاء بھی بوجہ اس کے کہ وہ سبب ہے حصول اخلاق حمیدہ و ملکات فاضلہ کا مستقل احسان ہے) ۔ پھر (مدین پہنچے اور) مدین والوں میں کئی سال رہے پھر ایک خاص وقت پر (جو میرے علم میں تمہاری نبوت اور ہم کلامی کے لئے مقدر تھا) تم (یہاں) آئے اے موسیٰ اور (یہاں آنے پر) میں نے تم کو اپنے (نبی بنانے کے) لئے منتخب کیا (سو اب) تم اور تمہارے بھائی دونوں میری نشانیاں (یعنی معجزات کہ اصل دو معجزے ہیں عصا و ید بیضا اور ہر ایک میں وجوہ اعجاز متعدد ہیں) لے کر (جس موقع کے لئے حکم ہوتا ہے) جاؤ اور میری یادگاری میں (خواہ خلوت میں خواہ تبلیغ کے وقت) سستی مت کرنا (اب موقع جانے کا بتلایا جاتا ہے کہ) دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ بہت نکل چلا ہے پھر (اس کے پاس جا کر) اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید وہ (رغبت سے) نصیحت قبول کرلے یا (عذاب الہٰی سے) ڈر جاوے (اور اس سے مان جاوے) ۔ معارف ومسائل وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو انعامات و عنایات حق اس وقت مبذول ہوئیں کہ شرف ہم کلامی سے نوازا گیا، نبوت و رسالت عطا ہوئی، خاص معجزات عطا ہوئے اس کے ساتھ یہاں حق تعالیٰ اپنی وہ نعمتیں بھی ان کو یاد دلاتے ہیں جو شروع پیدائش سے اس وقت تک زندگی کے ہر دور میں آپ پر مبذول ہوتی رہیں اور مسلسل آزمائشوں اور جان کے خطروں کے درمیان قدرت حق نے کن حیرت انگیز طریقوں سے ان کی حفاظت فرمائی۔ یہ نعمتیں جن کا ذکر آگے آتا ہے زمانہ وقوع کے اعتبار سے پہلی ہیں یہاں جو ان کو اخرٰی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ نعمتیں اس کے بعد کی ہیں بلکہ اخریٰ کبھی مطلقاً دوسرے کے معنے میں بھی آتا ہے جس میں مقدم موخر کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا یہاں بھی یہ لفظ اسی معنے میں ہے (روح) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ پورا قصہ حدیث کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ آگے آئے گا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّۃً اُخْرٰٓى۝ ٣٧ۙ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقب... ح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٨) اور ہم تو اس احسان کے علاوہ ایک مرتبہ پہلے بھی تم پر احسان کرچکے ہیں، جب کہ ہم نے تمہاری ماں کو وہ بات الہام سے بتلائی جو الہام سے بتانے کے قابل تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17. Allah recounts the favors He had shown to Prophet Moses (peace be upon him) since his birth in order to impress upon him the fact that he had been brought up under divine care right from his birth for the purpose of appointing him as a Messenger. Here mere references have been made but in Surah Al-Qasas details of the favors have been given.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :17 اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کو ایک ایک کر کے وہ احسانات یاد دلاتا ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اس وقت تک اس نے ان پر کیے تھے ۔ ان واقعات کی تفصیل سورہ قصص میں بیان ہوئی ہے ۔ یہاں صرف اشارات کیے گئے ہیں جن سے مقصود حضرت موسیٰ کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم اسی کام کے لیے ... پیدا کیے گئے ہو اور اسی کام کے لیے آج تک خاص طور پر سرکاری نگرانی میں پرورش پاتے رہے ہو جس پر اب تمہیں مامور کیا جا رہا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ ٤٠:۔ ان آیتوں کا مطلب سمجھنے کے قابل اس قصہ کا حاصل یہ ہے کہ فرعون نے خواب میں ایک آگ دیکھی جو شام کے ملک سے پیدا ہو کر مصر میں بنی اسرائیل کا محلہ جو کہلاتا تھا سوائے اس محلہ کے مصر کے اور سب گھر جل گئے فرعون نے اس وقت کے نجومیوں سے اپنے اس خواب کی تعبیر پوچھی انہوں نے یہ تعبیر بتلائی کہ بنی اس... رائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے سبب سے فرعونی سلطنت برباد ہوجائے گی۔ فوعون نے اس تعبیر سے بچنے کے لیے یہ تدبیر نکالی ہے کہ بنی اسرائیل میں جس قدر لڑکے پیدا ہوں ان کو مار ڈالا جائے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کو کہتے ہیں جن کا اصلی وطن ملک شام ہے یوسف (علیہ السلام) کی مصر کی سکونت کے سبب سے یہ لوگ مصر میں آن کر آباد ہوئے حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی اصلی سکونت ملک شام کی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ہزارہا لڑکے قتل ہوگئے اور ان میں کے بڈھے اپنی موت سے مرے تو فرعون کے مصاحبوں نے فرعون سے کہا کہ اس طرح سے تمام بنی اسرائیل ختم ہوجائیں گے اور سلطنت کے محنت مزدوری کے کام جو ان کے ذمہ ہیں ان میں حرج پڑجائے گا اس کے بعد سے فرعون نے یہ حکم دیا کہ ایک سال بنی اسرائیل کے لڑکے قتل کیے جایا کریں اور دوسرے سال چھوڑ دیئے جایا کریں اتفاق سے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اس سال میں ہوئی جس میں بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کیے جانے کی باری تھی اس واسطے موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو تدبیر موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو بتلائی اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اوپر نبوت اور معجزوں کے احسانات کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ اے موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کے احسانات کچھ اسی پر منحصر نہیں ہیں کہ اس نے تم کو نبی کیا معجزے دیئے بلکہ تم پر اس کے یہ احسانات بھی ہیں کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کیے جانے کے سال میں جب تمہاری پیدائش ہوئی تو تمہاری جان کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ دودھ پلانے کے بعد وہ تم کو ایک صندوق میں لٹا کر نیل دریا میں وہ صندوق ڈال دیا کریں پھر اللہ کی قدرت سے ایک دن وہ صندوق بہہ کر فرعون کے محل کے نیچے پہنچ گیا جو فرعون اور اس کی بی بی آسیہ نے نکلوایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں تمہاری ایسی محبت ڈال دی کہ وہ دودھ پلوا کر تمہارے پالنے کو تیار ہوگئے اور اللہ کے حکم سے جب تم نے کسی غیر انا کا دودھ نہ پیا تو تمہاری بہن نے تمہاری ماں کا درپردہ پتہ دیا غرض اس تدبیر سے اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ تمہارے دیکھنے سے تمہاری ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تمہاری جدائی کا غم تمہاری ماں کے دل سے جاتا رہے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تقدیر الٰہی کے موافق جو بات پیش آنے والی ہے وہ ٹل نہیں سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر جو کچھ لوح محفوظ میں لکھا جانا تھا وہ لکھ کر قلم بھی خشک ہوگیا ١ ؎۔ مطلب یہ ہے کہ تحریر کے ختم ہوجانے پر قلم خشک کیا جاتا ہے اس لیے لوح محفوظ کی تحریر اب ختم ہوگئی کوئی نئی بات اب اس تحریر میں نہیں لکھی جاسکتی اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ انسانی تدبیر سے تقدیر نہیں ٹل سکتی اپنی تدبیر کے موافق فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکے قتل کروا ڈالے مگر تقدیر الٰہی کے موافق اس نے جو خواب دیکھا تھا آخر اس کا ظہور ہو کر رہا ولتصنع علی عینی اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری محبت فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کے دل میں اس واسطے ڈال دی کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں تمہاری پرورش اچھی طرح ہوجائے اللہ تعالیٰ نے فرعون کو اپنا دشمن تو اس لیے فرمایا کہ وہ ملعون خدا کی ہستی کا منکر اور اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن وہ یوں تھا کہ بنی اسرائیل کے ہزارہا لڑکے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دشمنی میں قتل کرائے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٠ باب الایمان بالقدر۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:37) مننا۔ من مصدر سے ماضی جمع متکلم (باب نصر) ہم نے بڑا احسان کیا۔ ہم نے بڑی نعمت دی المنۃ جمع المنن احسان۔ مہربانی۔ نعمت۔ یہ دوطرح سے ہے ایک منت بالفعل جیسے لقد من اللہ علی المؤمنین (3:164) خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے۔ اور اسی معنی میں آیت ہذا میں ہے۔ دوسرا معنی منت بالقول ہے جیسے لا تبط... لوا صدقتکم بالمن والاذی (2:264) اپنے صدقوں کو احسان جتلا کر اور اذیت پہنچا کر باطل نہ کریں۔ مرۃ اخری۔ اور ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی تم پر احسان کیا تھا۔ یہاں ایک بار سے مراد شمار نہیں ہے کیونکہ قبل ازیں خداوند تعالیٰ نے صرف ایک احسان ہی نہیں فرمایا تھا بلکہ متعدد احسانات کئے جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ یہاں ایک بار سے مراد یہ ہے کہ اب ہم آپ کو مانگنے پر عطا کر رہے ہیں اور اس سے قبل ہم بن مانگے ہی آپ پر احسانات کر رہے ہیں۔ مرۃ اخری سے مراد یہ مؤخر الذکر احسانات ہیں یا مرۃ اخری سے مراد یہ نئی درخواست کا قبول کرنا ہے۔ یعنی ہم نے پہلے بھی تم پر احسانات کئے ہیں اور یہ ایک بار پھر تم پر احسان کیا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر تمہارے ساتھ کردیا ہے (پھر اس کے بعد گذشتہ احسانات کا ذکر ہے) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

و لقد مننا علیک۔۔۔۔۔ واصطنعتک لنفسی (٧٣ تا ١٤) ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے بادشاہ کے دربار میں پیغام حق پہنچانے کے لیے جارہے ہیں جو اس وقت اس کرئہ ارض پر نہایت ہی سرکش ‘ ظالم اور داداگیر بادشاہ تھا ، وہ کفر و ایمان کے معف کہ میں داخل ہو رہے تھے ‘ وہ پہلی بار فرعون کے دربار میں جارہے تھے۔ وہ... اں ان کے لیے مسائل ‘ واقعات اور مشکلات کے پہاڑ کھڑے تھے۔ پھر ان کی قوم کی حالت یہ تھی کہ ایک طویل عرصہ ذلت اور غلامی کی زندگی گزارتے گزارتے وہ اس کی خ اگر ہوگئے تھے۔ ان کی فطرت ہی بدل گئی موسیٰ (علیہ السلام) اگر اپنی مہم میں کامیاب ہوئے بھی تو ان کی قوم اس آزادی کے لئے نہ موزوں ہے نہ تیار۔ ان کے رب ان کو بتاتے ہیں کہ تمہیں تیاری کے بعد بھیجا جا رہا ہے اور وہ کسی بھی رسول کو جب بھیجتے ہیں کہ اس کے ارسال کے لیے اسٹیج تیار ہوتا ہے۔ یہ کہ اے موسیٰ تمہاری تربیت بھی ہم ایک عرصہ سے اپنی نگرانی میں کر رہے ہیں۔ جب تم دودھ پیتے بچے تھے تب سے ہم نے تمہیں تربیت دینا شروع کی ہے۔ اس ضیعف و ناتوانی کی حالت میں اللہ کا فضل تمہارے شامل حال رہا ہے ۔ تم فرعون کے ہاتھ میں تھے۔ تمہارے پاس کوئی قوت نہ تھی لیکن یہ اللہ ہہی کی حکمت تھی جس نے فرعون کی دست درازیوں سے تمہیں بچایا۔ یہ دست قدرت تھا جو تمہاری مدد کر رہا تھا۔ اللہ کی نظروں میں تم تھے۔ قدم قدم پر تمہاری نگرانی اور نگہبانی ہو رہی تھی ۔ لہٰذا آج بھی فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا ، آج تو تم جوان ہو۔ رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہوگیا ہے اور تم اس کی بارگاہ میں ہو۔ اور میں نے تمہیں خود اپنے مشن کے لئے پیدا کیا ہے اور تربیت دی ہے اور چنا ہے۔ ولقد مننا علیک مرۃ اخری (٠٢ : ٧٣) ” ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا “۔ تم پر تو زمانہ قدیم سے مسلسل مہربانیاں ہو رہم ہیں۔ ایک عرصے سے اللہ کی مہربانی اور فضل تمہارے شامل حال ہے اور اس مشن کی سپردگی کے بعد تو یہ مسلسل جاری رہے گا۔ دیکھو ‘ تم پر یہ احسان کیا کم تھا کہ فرعون بچوں کو قتل کر رہا تھا اور ہم نے تیری ماں کو یہ الہام کیا کہ ان اقذفیہ فی ۔۔۔۔۔ الیم بالساحل (٠٢ : ٥٣) ” ہم نے تیری ماں کو اشارہ دیا ‘ ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے کہ ” اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے ‘ دریا اسے ساحل پر پھینک گا “۔ یہ ایسے افعال ہیں جن میں سختی پائی جاتی ہے ’‘ بچے کو تابوت میں گرانا ‘ تابوت کو نذر سمندر کرنا ‘ سمندر کی طرف سے اسے ساحل پر پھینک دینا اور پھر کیا ؟ یہ تابوت اب کہاں جائے گا ‘ اس میں بچہ پھینکا گیا ہے ‘ تابوت سمندر کی لہروں کے کرم پر ہے۔ لہریں اسے ساحل پر پھینک دیتی ہیں۔ کون اب اسے لے گا ؟ عدولی وعدولہ (٠٢ : ٩٣) ” اسے میرا دشمن اور اس بچے کا شمن اٹھا لے گا “۔ ان خطرات کے ہجوم میں اور ان صدمات کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس ضعیف ‘ ناتوان اور بےبس بچے کو جو تابوت میں قید ہے ‘ کیا پیش آتا ہے ؟ کون اسے بچاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن میں تابوت میں ڈال کر بہا دیا جانا پھر فرعون کے گھر والوں کا اٹھا لینا اور فرعون کے محل میں ان کی تربیت ہونا چونکہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگ بنی اسرائیل پر بہت ظلم کرتے تھے اس لیے مصر سے چلے جانے کی ضرورت تھی لیکن فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کو یہ بھی گوارہ نہ تھ... ا کہ انہیں وہاں سے جانے دیں۔ پھر مزید بات یہ ہوئی کہ کاہنوں نے فرعون کو یہ بتایا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو تیری حکومت کے زوال کا ذریعہ بنے گا لہٰذا اس نے یہ کام شروع کردیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہوتا تھا اسے قتل کردیتا تھا اور جو لڑکی پیدا ہوتی تھی اسے زندہ رہنے دیتا تھا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تو ان کی والدہ بڑی گھبرائیں اور انہیں خطرہ ہوا کہ کہیں میرے لڑکے کو بھی قتل نہ کر دے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس بچہ کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دو اور تم نہ ڈرنا اور نہ غم کرنا ہم اسے تمہارے پاس واپس پہنچادیں گے اور اے پیغمبر بنادیں گے۔ کمافی سورة القصص (اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ) انہوں نے بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا، بچہ صندوق میں تھا اور صندوق پانی میں بہہ رہا تھا۔ دریا نے اس صندوق کو ایک کنارہ پر لگا دیا وہیں فرعون کا محل تھا اس کے گھر والوں نے دیکھا کہ کنارہ پر ایک صندوق موجود ہے اس کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں ایک بچہ ہے۔ یہ وہی بچہ تھا جو فرعون کا دشمن اور فرعون کے لیے مصیبت بننے والا تھا۔ سورة طہ میں فرمایا (یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ ) (اس بچہ کو وہ شخص لے لے گا جو میرا دشمن ہے اور اس بچہ کا بھی دشمن ہے) اور سورة قصص میں فرمایا (فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَھُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا) (سو اس بچہ کو فرعون کے لوگوں نے اٹھالیا تاکہ ان کے لیے دشمن بنے اور غم کا باعث ہوجائے) فرعون کو احساس ہوا کہ یہ بچہ کہیں وہی نہ ہو جو میری حکومت کے زوال کا باعث بن جائے لہٰذا اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ (مشہور ہے کہ فرعون لاولد تھا) اس کی بیوی نے کہا کہ یہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کر۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں نفع پہنچادے یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں۔ اسی طرح مشورہ ہوا اور انہیں انجام کی خبر نہ تھی۔ کمافی سورة القصص (وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَکَ لَا تَقْتُلُوْہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) اللہ تعالیٰ شانہ نے مزید یہ کرم فرمایا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی محبت ڈال دی جو شخص بھی انہیں دیکھتا گود میں لیتا اسے ان پر پیار آتا تھا اور اس پیار کی وجہ سے فرعون نے بھی اپنی بیوی کی بات مان لی کہ اسے بیٹا بنالیں گے اور اس بات کا امکان ہوتے ہوئے کہ ممکن ہے یہ بنی اسرائیل ہی میں سے لڑکا ہو قتل کرنے سے باز رہا۔ اسی کو فرمایا (وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ) اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی (وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ ) اور تاکہ تم میری نگرانی میں پرورش پاؤ۔ ادھر تو بچہ کو فرعون کے گھر والوں نے اٹھالیا اور اس بچہ کے پالنے اور بیٹا بنانے کے مشورے ہوگئے اور ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بہت بیقراری ہوگئی قریب تھا کہ اس بیقراری میں بات ظاہر کر دیتیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مضبوط رکھا انہوں نے ضبط و تحمل سے کام لیا اور ساتھ ہی یہ سوچا کہ پتہ تو چلانا چاہیے کہ بچہ کہاں پہنچا ؟ لہٰذا انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن سے کہا کہ جدھر کو بچہ گیا ہے ادھر کو چلی جاؤ اور بچے کا سراغ لگاؤ اس لڑکی نے حضرت موسیٰ کو دور سے دیکھ لیا اور پتہ چل گیا کہ بچہ خیریت سے ہے اور شاہی محل میں ہے، لیکن آل فرعون کو اس کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس کی بہن اسے دیکھ رہی ہے۔ کمافی سورة القصص (وَ قَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِ فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ۔ آل فرعون نے بچہ کی پرورش کا فیصلہ کرلیا لیکن اب دودھ پلانے والی کی تلاش ہوئی جو بھی عورت اس کام کے لیے بلائی جاتی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کا دودھ لینے سے انکار کردیتے، وہ جو ان کی بہن دور سے دیکھ رہی تھی اس نے کہا کہ میں تمہیں ایسا گھرانہ بتادیتی ہوں جو اس کو دودھ پلائے اور اس کی اچھی طرح پرورش بھی کرے اور اس کی خیر خواہی میں لگا رہے۔ فرعون کے گھر والوں کو تو دودھ پلانے والی عورت کی ضرورت ہی تھی انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن سے کہا اچھا تم جس عورت کو مناسب حال سمجھ رہی ہو اس کو بلا لاؤ۔ چناچہ وہ اپنے گھر گئیں اور اپنی والدہ کو (جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی والدہ تھیں) بلا کرلے آئیں۔ جب انہوں نے بچہ کو گود میں لیا اور دودھ پلانے لگیں تو بڑی خوشی کے ساتھ اپنی ماں سے چمٹ کر انہوں نے دودھ پی لیا فرعون کے گھر والوں نے کہا کہ اچھا بی بی تم اس بچہ کو لے جاؤ۔ تم ہی اس کی پرورش کرو اور اس خدمت کے عوض ہمارے ہاں سے وظیفہ بھی ملتا رہے گا۔ چناچہ وہ اپنے بچہ کو گھر لے آئیں اسی کو فرمایا سورة طہ میں (اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ فَتَقُوْلُ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَّکْفُلُہٗ فَرَجَعْنٰکَ الآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُھَا وَ لَا تَحْزَنَ ) (جب تمہاری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتہ بتادوں جو اس کی کفالت کرے پھر ہم نے تم کو تمہاری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو) اور سورة قصص میں فرمایا (وَ حَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ھَلْ اَدَلُّکُمْ عَلآی اَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَہٗ لَکُمْ وَ ھُمْ لَہٗ نٰصِحُوْنَ فَرَدَدْنٰہُ الآی اُمِّہٖ کَیْ تَقَرَّعَیْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (اور ہم نے پہلے ہی موسیٰ پر دودھ پلانے والیوں کی بندش کر رکھی تھی سو وہ یعنی ان کی بہن کہنے لگیں کیا میں تم لوگوں کو کسی ایسے گھرانے کا پتہ نہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس بچہ کی پرورش کریں اور اس کی خیر خواہی کریں غرض ہم نے موسیٰ کو ان کی والدہ کے پاس واپس پہنچایا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تاکہ وہ غم میں نہ رہیں اور تاکہ اس بات کو جان لیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن اکثر لوگ یقین نہیں رکھتے) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حفاظت اور کفالت کی صور تحال بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور انعام یاد دلایا اور فرمایا (وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰکَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰکَ فُتُوْنًا) (اور تو نے ایک جان کو قتل کردیا سو ہم نے تمہیں غم سے نجات دی اور تمہیں محنتوں میں ڈالا) اس کا تفصیلی واقعہ سورة قصص میں مذکور ہے۔ اجمالی طور پر یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہوگئے تو باہر نکلتے اور بازاروں میں دوسرے انسانوں کی طرح چلتے پھرتے تھے اور انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ میں فرعون کا بیٹا نہیں ہوں بنی اسرائیل میں سے ہوں اور مجھے جس نے دودھ پلایا ہے وہ میری والدہ ہی ہے۔ ان کی قوم پر آل فرعون کی طرح سے جو مظالم ہوتے تھے انہیں بھی دیکھتے رہتے تھے۔ ایک دن یہ ہوا کہ باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک شخص بنی اسرائیل میں سے اور ایک شخص قوم فرعون سے لڑ رہے ہیں۔ ان کی قوم کے آدمی نے ان سے مدد مانگی لہٰذا انہوں نے فرعون کی قوم کے آدمی کو ایک گھونسہ رسید کردیا۔ گھونسہ لگنا تھا کہ یہ شخص وہیں ڈھیر ہوگیا یہ بات تو مشہور ہوگئی کہ فرعون کی قوم کے ایک آدمی کو کسی نے قتل کردیا ہے لیکن یہ پتہ نہ چلا کہ مارنے والا کون ہے ؟ اگلے دن پھر ایسا واقعہ پیش آیا کہ ان کی قوم کا وہی شخص جس نے کل مدد چاہی تھی آج پھر کسی سے لڑرہا تھا یہ دوسرا شخص قبطی یعنی قوم فرعون کا تھا اسرائیلی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر پھر مدد مانگی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑ کر ماریں جو قوم فرعون سے تھا اور جس کے مقابلہ میں اسرائیلی شخص مدد طلب کر رہا تھا، ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اسرائیلی یہ سمجھا کہ مجھے مار رہے ہیں، وہ کہنے لگا کہ آج تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ کل ایک آدمی کو قتل کرچکے ہو۔ اسرائیلی کی زبان سے یہ کلمہ نکلا اور فرعونی کے کان میں پڑگیا اس نے فرعون کو خبر پہنچادی لہٰذا وہ بہت برہم ہوا اور اب یہ مشورے ہونے لگے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا جائے۔ اب فرعون کے اہلکار موسیٰ (علیہ السلام) کی تلاش میں تھے کہ ایک شخص ان کے پاس دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ اے موسیٰ فرعونی لوگ تمہارے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں تاکہ تمہیں قتل کردیں لہٰذا تم ان کی سر زمین سے نکل جاؤ، یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈرتے ہوئے وہاں سے نکلے اور مدین چلے گئے اور مدین تک پہنچنے میں اور وہاں رہنے میں بہت سی تکلیفیں اٹھائیں۔ وہاں چند سال رہے اس کے بعد واپس مصر آئے اور راستے میں نبوت سے سر فراز ہوئے یہ جو فرمایا (وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰکَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰکَ فُتُوْنًا فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَھْلِ مَدْیَنَ ثُمَّ جِءْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی) اس میں اسی تفصیل کا اجمال ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 اور یقینا ہم تو تجھ پر بےمانگے ایک دفعہ اور بھی بہت بھاری احسان کرچکے ہیں۔ یعنی ہم تو بدون تمہاری درخواست کے تم پر احسان کرچکے ہیں آگے اس احسان کا ذکر ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔