Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 44

سورة طه

فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی ﴿۴۴﴾

And speak to him with gentle speech that perhaps he may be reminded or fear [ Allah ]."

اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And speak to him mildly, perhaps he may accept admonition or fear (Allah). This Ayah contains a great lesson. Even though Fir`awn was the most insolent and arrogant of people and Musa was the friend of Allah among His creation at that time, Musa was still commanded to speak to Fir`awn with mildness and softness. Therefore, their invitation to him was with gentle, soft and easy speech that is used by one who is a close friend. This is so that the message may have more effect on the souls, and so it would have deeper and more beneficial results. This is as Allah, the Exalted, says, ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَـدِلْهُم بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ Invite (mankind) to the way of your Lord with wisdom and fair preaching, and argue with them in a way that is better. (16:125) Concerning Allah's statement, ... لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى perhaps he may accept admonition or fear (Allah). This means that perhaps he will recant from that which he is in of misguidance and destruction, أَوْ يَخْشَى (or he will fear), meaning that he will become obedient due to fear of Allah. This is as Allah says, لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُوراً For such who desires to remember or desires to show his gratitude. (25:62) Thus, to remember means to recant from that which is dangerous, and fear means to attain obedience.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] دعوت کے لئے قوم کا لہجہ ضروری ہے :۔ کسی کے راہ راست پر آنے اور اسے قبول کرنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دعوت کو پوری سمجھ کر حق بات قبول کرلے اور دوسری یہ کہ اپنے برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہوجائے۔ یہ دونوں باتیں بتلا دیں اور انھیں تاکید کردی کہ فرعون سے جو بات کہیں نرمی کے لہجہ میں کہیں۔ کیونکہ سختی سے بات کرنے سے بسا اوقات الٹا اثر ہوتا ہے۔ مخاطب اصل بات سمجھنے کی بجائے طرز تخاطب اور لہجہ کی بنا پر ضد اور مخالفت پر اتر آتا ہے۔ گویا تبلیغ اور دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک نہایت اہم سبق ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دیتے وقت نرم بات کہیں، جس میں ترغیب ہو، اسے غصہ دلانے والی نہ ہو۔ ہر داعی کو یہی اسلوب اختیار کرنا لازم ہے، کیونکہ دعوت الی اللہ سے مقصود مخاطب کی ہدایت اور اصلاح ہوتی ہے نہ کہ اپنی برتری ثابت کرنا، یا سخت کلامی سے دل کا غصہ نکالنا۔ دیکھیے سورة نحل (١٢٥) اور آل عمران (١٥٩) اللہ تعالیٰ نے وہ نرم بات بھی خود ہی سکھا دی، جیسا کہ آگے آیت (٤٧) میں آ رہا ہے اور دیکھیے سورة نازعات (١٨، ١٩) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا عَاءِشَۃُ ! إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِيْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لاَ یُعْطِيْ عَلٰی مَا سِوَاہٗ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب فضل الرفق : ٢٥٩٣، عن عائشۃ ] ” اے عائشہ ! بیشک اللہ تعالیٰ بہت نرمی والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو نہ سختی پر عطا کرتا ہے اور نہ اس (نرمی) کے سوا کسی اور چیز پر عطا کرتا ہے۔ “ اور یہ بھی فرمایا : ( إِنَّ الرِّفْقَ لَایَکُوْنُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا زَانَہُ وَلاَ یُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَہٗ ) [ مسلم، أیضًا : ٢٥٩٤ ] ” نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس سے بھی نکال لی جائے اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ “ ہاں اگر کہیں نرمی بالکل ہی بےاثر ٹھہرے اور کوئی شخص ہٹ دھرمی اور تکبر سے کسی طرح باز نہ آئے تو اس سے حق بات سختی کے ساتھ کہنے کی بھی اجازت ہے، کیونکہ وہاں ” حکمت “ کا تقاضا یہی ہے، جیسا کہ سورة عنکبوت (٤٦) میں ہے اور زیر تفسیر آیات میں آیت (٤٨) میں موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے۔ لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى : ” لَعَلَّ “ کا لفظ ترجی (امید کرنے) کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں امید کا ذکر آئے تو وہ بات یقینی ہوتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ فرعون نصیحت یا ڈرنے سے محروم رہے گا، پھر ” لَعَلَّ “ کا لفظ کیوں فرمایا ؟ اس کی دو توجیہیں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ” لَعَلَّ “ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کی نسبت سے ہے کہ تم اس سے نرم بات اس امید کے ساتھ کہو کہ وہ نصیحت حاصل کرے گا، یا ڈر جائے گا۔ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تو علم نہیں تھا کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ اسی طرح مخاطب کتنا بھی سرکش ہو، داعی کو ہمیشہ امید کا چراغ دل میں روشن رکھنا لازم ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ” لَعَلَّ “ کا لفظ ” امید ہے “ کے علاوہ ” کَیْ “ یعنی ” تاکہ “ کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسے سورة بقرہ (٢١) میں فرمایا : (لَعَلَّکُم تَتَّقُوْنَ ) ” تاکہ تم بچ جاؤ۔ “ ” يَتَذَكَّرُ “ نصیحت حاصل کرکے ایمان لے آئے یا کم از کم ڈر کر ظلم سے باز آجائے، کیونکہ ایک سرکش آدمی سے یہی امید کی جاسکتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝ ٤٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ لين اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر/ 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع . ( ل ی ن ) اللین کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران/ 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر/ 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) اس کو نرمی کے ساتھ کلمہ ”۔ لا الہ الا اللہ “۔ کی تبلیغ کرنا ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کر کے یا ڈر کر اسلام لے آئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. The only two ways of bringing a man to the right way are: (1) To convince him by argument and admonition, or (2) To warn him of the consequences of deviation.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :18 آدمی کے راہ راست پر آنے کی دو ہی شکلیں ہیں ۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمئن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے ، یا پھر برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہو جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:44) قولا۔ فعل امر، تثنیہ مذکر حاضر۔ قول مصدر۔ تم دونوں کہو۔ تو تم دونوں گفتگو کرو۔ قولا لینا۔ موصوف صفت۔ نرم گفتگو۔ نرم کلام۔ لین کی جمع لینون اور الیناء ہے لان یلین لین (باب ضرب) نرمی کرنا۔ نرم ہونا۔ لعلہ یتذکر۔ شاید وہ نصیحت قبول کرلے۔ یہاں لعل تعلیل کے لئے ہے اور کی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اویخشی۔ یا (میرے غضب سے) ڈرجائے۔ یا اپنے کفر و انکار کے مال کو جان کر ڈر جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 کیونکہ ایک سرکش آدمی کے راہ راست پر آنے کی یہی دو صورتیں ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ فرعون کے پاس جا کر اسے نرمی سے وعظ کرنا۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کرے یا اس کے دل میں خوف خدا آجائے۔ تذکر اور خشیۃ میں فرق یہ ہے کہ تذکر سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہاری تبلیغ سے اس قدر متاثر ہو کہ انکار توحید سے باز آجائے اور ساتھ ہی مسئلہ توحید کو مان بھی لے اور خشیۃ سے مراد یہ ہے کہ یا کم از کم توحید کے انکار ہی سے باز آجائے ” لَعَلَّهٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی “ فلیرجع من انکارہ الی الاقرار و ان ینتقل من الانکار الی الاقرار لکنہ یحصل فی قلبہ الخوف فیترک الانکار وان کان لا ینتقل الی الاقرار الخ (کبیر ج 6 ص 55) ۔ اور حضرت شیخ فرماتے ہیں تذکر سے مراد یہ ہے کہ معجزہ دیکھے بغیر ہی مان لے اور تخشی سے مراد یہ ہے کہ معجزہ دیکھ کر مان لے۔ پہلا درجہ اعلی ہے اور دوسرا ادنی قرآن مجید میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی پہلے اعلی پھر ادنی درجہ مذکور ہوتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ” ھَلْ لَّکَ اِلیٰ اَنْ تَزَکی وَ اَھْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی “ (نازعات) نیز ارشاد ہے ” لَعَلَّهٗ یَزَّکّٰی اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَهٗ الذِّکْريٰ “ (عبس) ۔ ” قَالَا رَبَّنَا الخ “۔ قالا بصیغہ تچنیہ یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا۔ مراد یہ ہے کہ اتمام دعوت اور اظہار معجزات سے پہلے ہی ہمیں سزا دینے کی کوشش کرے گا۔ ای ان یعجل علینا بالعقوبۃ ولا یصبر الی اتمام الدعوۃ واظھار المعجزۃ (روح ج 16 ص 196) ۔ ” اَوْ اَنْ یَّطْغے ٰ الخ “ یا حد سے تجاوز کرے گا۔ یعنی کمال سرکشی اور بےباکی کے باعث۔ اے ہمارے پروردگار وہ تیری شان میں گستاخی کرے گا۔ او ان یزاد طغیانا الی ان یقول فی شانک مالا ینبغی (روح) ۔ لیکن حضرت شیخ فرماتے ہیں دونوں میں فرق یہ ہے ” اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَا “ یعنی دعوت پیش کرنے سے پہلے ہی ہم پر زیادتی کرے۔ ” اَوْ اَنْ یَّطْغٰے “ یعنی دعوت پیش کرنے کے بعد ہمیں قتل کرادے۔ یفرط علینا بان لا یسمع منا او ان یطغی بان یقتلنا (کبیر ج 6 ص 57) ۔ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اللہ کے پیغمبر تھے اور اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل بھروسہ بھی تھا۔ لیکن بتقاضائے بشریت ان کے دلوں میں خوف تھا، جس کا انہوں نے اظہار کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے ماتحت الاسباب خوف وہراس شرک نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

44 پھر تم وہاں جا کر فرعون سے نرم بات اور نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا شاید و ہ نصیحت قبول کرلے۔ یا اللہ تعالیٰ کے ذاب اور اس کی گرفت سے ڈر جائے۔ یعنی موقعہ نرمی کرنے کا ہے سختی اور درشتی کا نہیں کبھی ایسا نہ ہو کہ گفتگو کی تلخی سے حق بات کو قبول نہ کرے اور اچٹ جائے۔