Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 45

سورة طه

قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی ﴿۴۵﴾

They said, "Our Lord, indeed we are afraid that he will hasten [punishment] against us or that he will transgress."

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa's fear of Fir`awn and Allah's strengthening Him Allah, the Exalted, informs that Musa and Harun pleaded to Allah, expressing their grievance to him: قَالاَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَى Both of them said: "Verily, we fear lest he should hasten to punish us or lest he should transgress." They meant that Fir`awn might seize them unexpectedly with a punishment, or transgress against them by tormenting them, when they actually did not deserve it. Ad-Dahhak reported from Ibn Abbas that he said that; transgress here means, "To exceed the bounds." قَالَ لاَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى

اللہ کے سامنے اظہار بےبسی ۔ اللہ کے ان دونوں رسولوں نے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اپنی کمزوری کی شکایت رب کے سامنے کی کہ ہمیں خوف ہے کہ فرعون کہیں ہم پر کوئی ظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے ۔ ہماری آواز کو دبانے کے لئے جلدی سے ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دے ۔ اور ہمارے ساتھ ناانصافی سے پیش نہ آئے ۔ رب العالم کی طرف سے ان کی تشفی کردی گئی ۔ ارشاد ہوا کہ اس کا کچھ خوف نہ کھاؤ میں خود تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری اور اس کی بات چیت سنتا رہوں گا اور تمہارا حال دیکھتا رہوں گا کوئی بات مجھ پر مخفی نہیں رہ سکتی اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے وہ بغیر میری اجازت کے سانس بھی تو نہیں لے سکتا ۔ میرے قبضے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا ۔ میری حفاظت و نصرت تائید و مدد تمہارے ساتھ ہے ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں دعا کی کہ مجھے وہ دعا تعلیم فرمائی جائے جو میں فرعون کے پاس جاتے ہوئے پڑھ لیا کروں تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ۔ ہیا شراھیا جس کے معنی عربی میں انا الحی قبل کل شئی والحی بعد کل شئی یعنی میں ہی ہوں سب سے پہلے زندہ اور سب سے بعد بھی زندہ ۔ پھر انہیں بتلایا گیا کہ یہ فرعون کو کیا کہیں؟ اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ گئے ، دروازے پر ٹھہرے ، اجازت مانگی ، بڑی دیر کے بعد اجازت ملی ۔ محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں پیغمبر دو سال تک روزانہ صبح شام فرعون کے ہاں جاتے رہے دربانوں سے کہتے رہے کہ ہم دونوں پیغمبروں کی آمد کی خبر بادشاہ سے کرو ۔ لیکن فرعون کے ڈر کے مارے کسی نے خبر نہ کی دو سال کے بعد ایک روز اس کے ایک بےتکلف دوست نے جو بادشاہ سے ہسنی دل لگی بھی کر لیا کرتا تھا کہا کہ آپ کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے اور ایک عجیب مزے کی بات کہہ رہا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ کے سوا اس کا کوئی اور رب ہے اور اس کے رب نے اسے آپ کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اس نے کہا کیا میرے دروازے پر وہ ہے اس نے کہا ہاں ۔ حکم دیا کہ اندر بلا لو چنانچہ آدمی گیا اور دونوں پیغمبر دربار میں آئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں رب العالمین کا رسول ہوں فرعون نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ تو موسیٰ ( علیہ السلام ) ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ آپ مصر میں اپنے ہی گھر ٹھہرے تھے ماں نے اور بھائی نے پہلے تو آپ کو پہچانا نہیں گھر میں جو پکا تھا وہ مہمان سمجھ کر ان کے پاس لا رکھا اس کے بعد پہچانا سلام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس بادشاہ کو اللہ کی طرف بلاؤں اور تمہاری نسبت فرمان ہوا ہے کہ تم میری تائید کرو ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا پھر بسم اللہ کیجئے ۔ رات کو دونوں صاحب بادشاہ کے ہاں گئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لکڑی سے کواڑ کھٹکھٹائے ۔ فرعون آگ بگولا ہو گیا کہ اتنا بڑا دلیر آدمی کون آگیا ؟ جو یوں بےساختہ دربار کے آداب کے خلاف اپنی لکڑی سے مجھے ہوشیار کر رہا ہے؟ درباریوں نے کہا حضرت کچھ نہیں یونہی ایک مجنوں آدمی ہے کہتا پھرتا ہے کہ میں رسول ہوں ۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے پیش کرو ۔ چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کو لئے ہوئے آپ اس کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے انہیں سزائیں نہ کر ہم رب العالمین کیطرف سے اپنی رسالت کی دلیلیں اور معجزے لے کر آئے ہیں اگر توہماری بات مان لے تو تجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہوگی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو خط شاہ روم ہرقل کے نام لکھا تھا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ مضمون تھا کہ یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ روم ہرقل کے نام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو ۔ اس کے بعد یہ کہ تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عنایت فرمائے گا ۔ مسیلمہ کذاب نے صادق و مصدوق ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے رسول مسلیمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام ، آپ پر سلام ہو ، میں نے آپ کو شریک کار کر لیا ہے شہری آپ کے لئے اور دیہاتی میرے لئے ۔ یہ قریشی تو بڑے ہی ظالم لوگ ہیں ۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسلیمہ کذاب کے نام ہے سلام ہو ان پر جو ہدایت کی تابعداری کریں سن لے زمین اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے انجام کے لحاظ سے بھلے لوگ وہ ہیں جن کے دل خوف الٰہی سے پر ہوں ۔ الغرض رسول اللہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے یہی کہا کہ سلام ان پر ہے جو ہدایت کے پیرو ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہمیں بذریعہ وحی الٰہی یہ بات معلوم کرائی گئی ہے کہ عذاب کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو جھٹلائیں اور اللہ کی باتوں کے ماننے سے انکار کر جائیں ۔ جیسے ارشاد ہے ( فَاَمَّا مَنْ طَغٰى 37؀ۙ ) 79- النازعات:37 ) جو شخص سرکشی کرے اور دنیا کی زندگانی پر مر مٹ کر اسی کو پسند کر لے اس کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ میں تمہیں شعلے مارنے والی آگ جہنم سے ڈرا رہا ہوں جس میں صرف وہ بدبخت داخل ہوں گے جو جھٹلائیں اور منہ موڑ لیں اور آیتوں میں ہے کہ اس نے نہ تو مانا نہ نماز ادا کی بلکہ دل سے منکر رہا اور کام فرمان کے خلاف کئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] فرعون کے ہاں جانے کے خدشات :۔ مصر پہنچ جانے کے بعد جن دونوں بھائی فرعون کے ہاں جانے کو تیار ہوئے اور فرعون جابر اور خود سر بادشاہ کے پاس جاکر اسے دعوت دینے کا خیال کیا تو اپنے پروردگار سے عرض کیا کہ ہم تعمیل ارشاد کو حاضر ہیں مگر اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہماری بات سننے پر آمادہ بھی ہوگا یا نہیں یا بات سن لینے پر غصہ سے بھڑک نہ اٹھے گا یا ہم پر بھی دست درازی کرے یا آپ کی شان میں مزید گستاخانہ باتیں کہنے لگے۔ جس سے اصل مقصد ہی فوت ہوجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہوں۔ وہ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر پہنچ کر ہارون (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور دونوں بھائیوں نے اپنی بےسرو سامانی اور فرعون کی سرکشی، حاکمانہ تسلط اور ظلم و ستم پر غور کیا تو انسانی فطرت کے مطابق ڈرے اور اپنے رب سے اس کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ اے ہمارے رب ! ہم تو ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرتے ہوئے ہمیں قید یا قتل نہ کر دے، یا کوئی اور خوف نا ک سزا نہ دے، یا اس کی سرکشی اور بڑھ جائے اور وہ کفر اور گمراہی میں مزید بڑھ جائے، یا تیری ذات وصفات کے بارے میں کوئی نامناسب بات کہہ گزرے، جس سے ہمیں ہر تکلیف سے زیادہ تکلیف پہنچے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Why was Sayyidna Musa (علیہ السلام) afraid? The words إِنَّنَا نَخَافُ (We are afraid) signifies that here Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Sayyidna Harun (علیہ السلام) expressed twofold fear before Allah. The first fear is pointed out by the word أَن يَفْرُ‌طَ which means to cross all boundaries. So the meaning of the sentence is &perhaps the Pharaoh would attack even before listening to us&. The other fear is mentioned with the words أَن يَطْغَىٰ - which means that Sayyidna Musa (علیہ السلام) was apprehensive that the Pharaoh might, after listening to his demands, become so refractory and perverse that he might speak about Allah in disrespectful terms. It will be recalled that when prophethood was bestowed upon Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، he had prayed to Allah to depute Sayyidna Harun (علیہ السلام) also to assist him in his mission, and Allah had accepted his prayer. At the same time Allah informed him سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا & (|"We make. your arm stronger through (the help of) your brother and will make for you the upper hand so they will not reach you (with any harm) |"-28:35) and that whatever else he asked for was granted to him (قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ ) |"You have been granted your request 0 Musa|" - 20:36. Among the things granted to him was شرح صدر (heart at peace) which means that he was made immune to fear. So, when he had received such firm assurances from Allah, how does one explain the fear expressed by him in this verse. One answer to this question is that the promise of victory and security from harm is rather vague in that victory may refer to success in debate with the Pharaoh and his men. It can also be argued that victory could come only if the Egyptians heard his arguments and reasoning, and saw his miracles but there was this possibility also that they might attack him before he had laid his arguments before them. Besides, شرح صدر does not mean elimination of natural fear. The second point is that fear of fearsome things is a natural instinct and even prophets are not free from it in spite of their complete faith in the promises of Allah. Sayyidna Musa (علیہ السلام) himself was afraid to pick up his staff when it turned into a snake therefore Allah re-assured him with the word لَا تَخَف (do not be afraid). On all such occasions Allah removed their fears by propitious tidings. Three other verses: فَخَرَ‌جَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَ‌قَّبُ (So, he went out of it (the city) in a state of fear, waiting (for what comes next) - 28:21) and فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا (Then, next morning he was fearful, waiting [ for what comes next ] - 28:18) and فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ (So Musa concealed some fear in his heart - 20:67) can also be quoted expressing the same fear. It was this natural fear which persuaded the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to migrate to Madinah and some of his Companions (رض) to migrate first to Abbysinia and later to Madinah. In the Battle of Ahzab the Muslims were so overawed by the strength of their enemies that they dug a trench as a protective measure even though Allah had promised them victory on numerous occasions. The truth is that while they did not have the least doubt about their ultimate victory, the fear which they felt was the result of a spontaneous human impulse in the face of danger, and the prophets being human are not immune to this impulse.

خلاصہ تفسیر (جب یہ حکم دونوں صاحبوں کو پہنچ چکا تو) دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم تبلیغ کے لئے حاضر ہیں لیکن) ہم تبلیغ کے لئے حاضر ہیں لیکن) ہم کو اندیشہ ہے کہ (کہیں) وہ ہم پر (تبلیغ سے پہلے ہی) زیادتی نہ کر بیٹھے (کہ تبلیغ ہی رہ جاوے) یا یہ کہ (عین تبلیغ کے وقت اپنے کفر میں) زیادہ شرارت نہ کرنے لگے کہ اپنی بک بک میں تبلیغ نہ سنے نہ سننے دے جس سے وہ عدم تبلیغ کے برابر ہوجاوے) ارشاد ہوا کہ (اس امر سے مطلق) اندیشہ نہ کرو (کیونکہ) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب سنتا دیکھتا ہوں (میں تمہاری حفاظت کروں گا اور اس کو مرعوب کردوں گا جس سے پوری تبلیغ کرسکو گے جیسا دوسری آیت میں ہے وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا) سو تم (بےخوف و خطر) اس کے پاس جاؤ اور (اس سے) کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے فرستادے ہیں (کہ ہم کو نبی بنا کر بھیجا ہے) سو (تو ہماری اطاعت کر اصلاح عقیدہ میں بھی کہ توحید کی تصدیق کر اور اصلاح اخلاق میں بھی کہ ظلم وغیرہ سے باز آ اور) بنی اسرائیل کو (جن پر تو ناحق ظلم کرتا ہے اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر کے) ہمارے ساتھ جانے دے (کہ جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں رہیں) اور ان کو تکلیفیں مت پہنچا (اور) ہم (جو دعویٰ نبوت کا کرتے ہیں تو خالی خولی نہیں بلکہ ہم) تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے (اپنی نبوت کا) نشان (یعنی معجزہ بھی) لائے ہیں اور (تصدیق اور قبول حق کا ثمرہ اس قاعدہ کلیہ سے معلوم ہوگا کہ) ایسے شخص کے لئے (عذاب الٰہی سے) سلامتی ہے جو (سیدھی) راہ پر چلے (اور تکذیب و رد حق کے باب میں) ہمارے پاس یہ حکم پہنچا ہے کہ (اللہ کا) عذاب (قہر کا) اس شخص پر ہوگا جو (حق کو) جھٹلاوے اور (اس سے) روگردانی کرے (غرض یہ سارا مضمون جا کر اس سے کہو چناچہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور جا کر اس سے سب کہہ دیا) وہ کہنے لگا کہ پھر (جواب میں) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا (دونوں کا بلکہ سب کا) رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب بناوٹ عطا فرمائی پھر (ان میں جو جاندار چیزیں تھیں ان کو ان کے منافع و مصالح کی طرف) رہنمائی فرمائی (چنانچہ ہر جانور اپنی مناسب غذا اور جوڑہ اور مسکن وغیرہ ڈھونڈ لیتا ہے پس وہی ہمارا بھی رب ہے۔ ) معارف ومسائل حضرت موسیٰ کو خوف کیوں ہوا : اِنَّنَا نَخَافُ ، حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) نے اس جگہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دو طرح کے خوف کا اظہار کیا۔ ایک اَنْ يَّفْرُطَ کے لفظ سے جس کے اصلی معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ شاید فرعون ہماری بات سننے سے پہلے ہی ہم پر حملہ کردے، دوسرا خوف اَنْ يَّــطْغٰي کے لفظ سے بیان فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس سے بھی زیادہ سرکشی پر اتر آئے کہ آپ کی شان میں نامناسب کلمات بکنے لگے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابتداء کلام میں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت و رسالت عطا فرمایا گیا اور انہوں نے حضرت ہارون کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی درخواست کی اور یہ درخواست قبول ہوئی تو اسی وقت حق تعالیٰ نے ان کو یہ بتلا دیا تھا کہ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا، نیز یہ بھی اطمینان دلا دیا گیا تھا کہ آپ کی درخواست میں جو جو چیزیں طلب کی گئی ہیں وہ سب ہم نے آپ کو دیدیں قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤ ْلَكَ يٰمُوْسٰى ان مطلوب چیزوں میں شرح صدر بھی جس کا حاصل یہی تھا کہ مخالف سے کوئی دل تنگی اور خوف و ہراس پیدا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے بعد پھر یہ خوف اور اس کا اظہار کیسا ہے اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پہلا وعدہ کہ ہم آپ کو غلبہ عطا کریں گے اور وہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے یہ ایک مبہم وعدہ ہے کہ مراد غلبہ سے حجت و دلیل کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور مادی غلبہ بھی۔ نیز یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر غلبہ تو جب ہوگا کہ وہ ان کے دلائل سنیں معجزات دیکھیں مگر خطرہ یہ ہے کہ وہ کلام سننے سے پہلے ہی ان پر حملہ کر بیٹھے اور شرح صدر کے لئے یہ لازم نہیں کہ طبعی خوف بھی جاتا رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خوف کی چیزوں سے طبعی خوف تو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے جو وعدوں پر پورا ایمان و یقین ہونے کے باوجود بھی ہوتا ہے خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی ہی لاٹھی کے سانپ بن جانے کے بعد اس کے پکڑنے سے ڈرنے لگے تو حق تعالیٰ نے فرمایا لاَ تَخَف ڈر نہیں اور دوسرے تمام مواقع خوف میں ایسا ہی ہوتا رہا کہ طبعی اور بشری خوف لاحق ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے بشارت کے ذریعہ اس کو زائل فرمایا۔ اسی واقعہ کی آیات میں فَخَـــرَجَ مِنْهَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ اور فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَاۗىِٕفًا اور فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى کی آیات اس مضمون پر شاہد ہیں حضرت خاتم الانبیاء اور سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی بشری خوف کی وجہ سے مدینہ شریف کی طرف اور کچھ صحابہ کرام نے پہلے حبشہ کی پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ غزوہ احزاب میں اسی خوف سے بچنے کے لئے خندق کھودی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ نصرت و غلبہ بار بار آ چکا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مواعید ربانی سے یقین تو ان سب کو پورا حاصل تھا مگر طبعی خوف جو بمقضائے بشریت انبیاء میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ يَّفْرُطَ عَلَيْنَآ اَوْ اَنْ يَّطْغٰي۝ ٤٥ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ فرط فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] . ( ف ر ط ) فرط یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف/ 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) دونوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں وہ اس سے پہلے ہم پر ہمیں مارنے کے ساتھ زیادتی نہ کر بیٹھے یا یہ کہ ہمیں قتل ہی کر ڈالے اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اس کے مارنے اور قتل کے ساتھ زیادتی نہ کربیٹھے یا یہ کہ ہمیں قتل ہی کرڈالے اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اس کے مارنے اور قتل کرنے کا خوف مت کرو میں تمہارا مددگار ہوں جو تمہیں کو وہ جواب دے گا اس کو میں سنتا ہوں اور جو وہ تمہارے ساتھ کا رو وائی کرے گا اسے دیکھتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18a. It appears that they implored Allah thus before going before Pharaoh when Prophet Moses (peace be upon him) had reached Egypt and Aaron had joined him in the propagation of the mission.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :18 ( الف ) معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ مصر پہنچ گئے اور حضرت ہارون عملاً ان کے شریک کار ہوگئے ۔ اس وقت فرعون کے پاس جانے سے پہلے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گزارش کی ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ ٤٧:۔ فرعون بڑا ظالم بادشاہ مشہور تھا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہاتھ سے ایک فرعونی مارا گیا تھا اس کا بھی خوف تھا کہ فرعون جب دیکھے گا ضرور بدلہ لے گا اس سبب سے حضرت موسیٰ اور ہارون نے مل کر خدا سے التجا کی کہ یا اللہ فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرنے پائے اللہ تعالیٰ نے ان کی تسکین فرمائی کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس میں گویا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین ہے کہ انبیاء کے ساتھ اللہ ہے باوجود اختیارات بادشہاہی کے فرعون حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر کچھ زیادتی نہ کرسکا تو اے نبی اللہ کے ! اہل مکہ تم پر کیا زیادتی کرسکتے ہیں اللہ کا وعدہ سچا ہے مکہ میں باوجودیکہ سب قوم آنحضرت کے مخالف تھی مگر کسی سے کچھ نہ ہوسکا آخر کر حق ہی کا بول بالا رہا۔ مسند امام احمد نسائی ابوداؤد اور مستدرک حاکم میں اوس بن الصامت (رض) کی بی بی خولہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے جو معتبر روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ خولہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور چپکے چپکے یہ شکایت کی کہ اوس بن الصامت نے زبردستی ان کو طلاق دے دی اللہ تعالیٰ نے فورا اس پر سورة مجادلہ کی چند آیتیں نازل فرمائیں یہ حدیث اسمع و اری کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خولہ کے اپنے رسول کے پاس آنے کو اللہ تعالیٰ نے فورا دیکھ لیا اور ان کی چپکے چپکے سے باتوں کو اسی وقت سن لیا۔ خولہ (رض) کے طلاق کے مسئلہ کی زیادہ تفصیل سورة المجادلہ میں آئے گی اوپر گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل کا اصلی وطن ملک شام ہے یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ سے یہ لوگ مصر میں آن کر آباد ہوئے اور یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد فرعون ان کو بہت ستاتا تھا۔ طرح طرح کی ذلت اور محنت کے کام ان سے لیتا تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے لے جا کر ان کے اصلی وطن ملک شام میں بسا دیا جائے اس حکم کی تعمیل میں موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے فرعون سے یہ کہا کہ بنی اسرائیل کو کیوں ستاتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کو ہمارے ساتھ کردیا جائے ان آیتوں میں مختصر طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا اور یدبیضا کے معجزے کا ذکر قد جئناک بایۃ من ربک کے لفظوں سے ہے لیکن سورة شعراء میں آئے گا کہ اس پہلی ملاقات میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو عصا اور ید بیضاء کا معجزہ بھی دکھایا جس سے پہلے تو فرعون ڈر گیا اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر اور ان کے معجزے کو جادو بتلایا والسلام علی من اتبع الھدی اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق اس کے رسول جو نیک راستہ بتلاتے ہیں جو کوئی اس راستہ پر چلے گا آخرت میں وہی امن وامان سے رہے گا اور جو کوئی اللہ کے رسولوں کو جھٹلائے گا وہ آخرت میں سزا بھگتے گا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) سے یہ وعدہ جو کیا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اس کا ظہور وقت پر ہوتا رہا۔ چناچہ آگے آتا ہے کہ جب جادوگروں کے مقابلہ کے وقت ان جادوگروں نے اپنی رسیوں اور لکڑیوں کے سانپ بنا کر میدان میں چھوڑے تو موسیٰ (علیہ السلام) ان سانپوں کو دیکھ کر کچھ ڈرنے لگے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے فورا ان کی تسکین کی اور فرمایا ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے تم اپنے ہاتھ کی لکڑی جھٹ پٹ زمین میں ڈال دو تمہاری لکڑی کا سانپ جادوگروں کے ان سب سانپوں کو ابھی نگل جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ کر جادوگر ایمان لے آئیں گے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کرے گا اور کون جنت میں داخل ہونے کے قابل۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ ایک ہی معجزے کا اثر فرعون کے دل پر تو یہ ہوا کہ وہ عمر بھر معجزہ کو جادو بتلا کر دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پایا اور اسی معجزے کا اثر جادوگروں کے دل پر یہ ہوا کہ وہ ایمان دار بن کر جنتی ٹھہرے۔ ١ ؎ مثلاص ٢٤٠ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:45) یفرط علینا۔ ہم پر زیادتی کرے۔ مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب فرطمصدر (باب نصر) افراط حد سے بہت زیادہ بڑھ جانا۔ زیادتی (کمی کی ضد) ۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے وکان امرہ فرطا۔ (18:28) اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا۔ اس کی ضد تفریط ہے۔ یعنی تقدم میں کوتاہی کرنا۔ کمی ۔ قرآن مجید میں ہے ما فرطنا فی الکتب (6:38) ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کسی چیز (کے لکھنے ) میں کوتاہی نہیں کی۔ نخاف ان یفرط علینا۔ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا۔ او ان یطغی۔ یا زیادہ سرکشی کرنے لگے۔ زیادہ سرکش ہوجائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی انہیں آزاد کر دے تاکہ وہ تیرے ملک کو چھوڑ کر جہاں ا ہیں چلے جائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ عظیم معجزات پانے کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے خوفزدہ ہونا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجنے سے پہلے بتلا دیا گیا تھا کہ فرعون بغاوت اور نافرمانی میں تمام حدیں پھلانگ چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے ہاں پرورش پائی تھی وہ اسے بہت قریب سے جانتے تھے کہ فرعون بڑا ہی ظالم اور سفاک انسان ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر کو اس لیے چھوڑا تھا کہ وہاں ان کے ہاتھوں حکمران پارٹی کا سھوًا ایک آدمی قتل ہوگیا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر حضرت موسیٰ اور ہارون نے اپنے رب کے حضور اپنے دل کی کیفیت عرض کرتے ہوئے فریاد کی کہ اے ہمارے رب ہمیں شدید خطرہ ہے کہ فرعون ہم پر زیادتی کرے گا۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ دونوں کو فرعون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں یقین رکھو کہ میں تمہاری باتیں سن رہا ہوں گا اور ہر لمحہ تمہاری دستگیری کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی بات سنتا ہے اور ہر چیز اس کے سامنے ہے لیکن یہاں یہ الفاظ استعمال فرما کر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو بالخصوص یہ تسلی دی گئی ہے کہ فرعون سے ڈرنے اور دبنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میری معیت اور نگرانی ہر وقت تمہارے ساتھ ہوگی۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور خصوصی توجہ نصیب ہوجائے وہ اپنے دشمن سے کبھی مرعوب نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وقت کا نبی بھی چند لمحوں کے لیے کسی دشمن سے خوفزدہ ہوسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو اس بات کی تسلی دینے کے بعد حکم فرمایا کہ اب فرعون کے پاس جاؤ اور اسے بتلاؤ کہ ہمیں ہمارے رب نے رسول منتخب کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دو اور ان پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانیوں کے ساتھ آئے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کرے گا وہ سلامت رہے گا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتلایا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جھٹلایا اور اس سے منہ پھیرلیا اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی پہلی ملاقات میں فرعون کو دین کے تین بنیادی امور سے آگاہ فرمایا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ١۔ رسول کا معنٰی ہے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور اس پر عمل کرکے دکھلانے والا۔ ٢۔ رب کا معنٰی ہے کائنات کا خالق، مالک اور ہر کسی کی ضرورت پوری کرنے والا۔ ٣۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ٹھکرائے گا وہ قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوگا۔ ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی آزدی کا بھی مطالبہ کیا کیونکہ آزاد قوم ہی فکر و عمل کے حوالے سے اسلامی اقدار پر عمل اور انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ گویا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب عقیدہ توحید، نبوت کے اغراض و مقاصد، فکرآخرت اور قوم کی آزادی کے مطالبہ پر مشتمل تھا۔ یہی دین کے بنیادی عناصر ہیں باقی مسائل انہی کی تشریح اور تقاضے ہیں۔ مسائل ١۔ جب اللہ کی معیت حاصل ہو تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ١۔ جو شخص ہدایت کی اتباع کرے گا اس کے لیے دنیا اور آخرت میں سلامتی ہوگی۔ ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے انحراف کرے گا وہ دنیا میں پریشان اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اتّباع ہدایت کے دنیا اور آخرت میں فوائد : ١۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بےخوف ہوگا۔ (البقرۃ : ٣٨) ٢۔ امت کو قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے قرآن وسنت کو چھوڑ کر دوسرے کی اتباع نہیں کرنی چاہیے (الاعراف : ٣) ٣۔ میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (یونس : ١٥۔ الاعراف : ٢٠٣) ٤۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ (لقمان : ٥، البقرۃ : ٥) ٥۔ اے ایمان والو ! اگر تم ہدایت پر رہو تو گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ (المائدۃ : ١٠٥) ٦۔ قرآن مجید سرا پارحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ (لقمان : ٣) ٧۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٦٢) ٨۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٩۔ ایمان پر استقامت دکھلانے والوں کو کوئی خوف نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) ١٠۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف نہیں۔ (یونس : ٦٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالا ابنا اننا۔۔۔۔۔۔ علی من کذب و تولی ( ٥٤ تا ٨٤ ) ” ۔ اس سے قبل جو طویل بحث ہوئی تھی اور جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رب تعالیٰ کے ساتھ وادی طوی میں ہم کلام تھے ‘ اس میں حضرت ہارون موجود نہ تھے۔ وہ ایک طویل مناجات تھی اور وسیع سوال و جواب اس میں ہوتے رہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ اور ہارون دونوں کا یہ جواب اننا نخاف ان۔۔۔۔۔۔ ان یطغیٰ (٠٢ : ٥٤) ” دونوں نے عرض کیا پروردگار ‘ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پل پڑے گا “۔ وادی طوی میں مناجات کی جگہ میں نہ تھا۔ قرآن کریم کا قصص کے بارے میں یہ طریقہ ہے کہ وہ قصص کے غیر ضروری حصے درمیان میں سے کاٹ دیتا ہے اور قصص کے جو مناظر وہ دکھاتا ہے اس کے درمیان ایک واضح خلا (Gap ) چھوڑ دیتا ہے۔ یہ خلا عقل انسانی خود پر کردیتی ہے اور سیاق کلام یا منظر آگے بڑھ کر زیادہ موثر اور زیادہ مفید ‘ زندہ اور متحرک مناظر پیش کرنا شروع کردیتا ہے جن کا انسان کے وجدان پر اثر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ طور سے واپسی پر ‘ موسیٰ (علیہ السلام) مصر پہنچے ‘ اللہ نے حضرت ہارون کو بھی یہ منصب دے دیا اور ان کو بھی یہ حکم دے دیا گیا کہ تم حضرت موسیٰ کے معاون پیغمبر ہو۔ اور تمہیں بھی بھائی کے ساتھ فرعون کو دعوت دینے کے لئے جانا ہے۔ اب جب وہ تیاریاں کر کے جانے لگتے ہیں تو پھر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ قالا ربنا اننا۔۔۔۔۔ او ان یطغی (٠٢ : ٥٤) ” دونوں عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پل پڑے گا “۔ فرط کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ کوئی جلدی سے کسی کو اذیت دے۔ فوراً بات کرتے ہیں اور طغیان کا مفہوم فرط اور اذیت سے زیادہ جامع ہے اور فرعون ان دنوں ایک ایسا جبار حکمران تھا جس سے سب کچھ متوقع تھا۔ یہاں اب ان کو فیصلہ کن تسلی دے دی جاتی ہے جس کے بعد نہ کوئی خوف رہتا ہے اور نہ خدشہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45 اس حکم کے بعد دونوں بھائیوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ہم اس بات سے ڈرتے ہیں اور ہم کو اس امر کا اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر کوئی زیادتی نہ کر بیٹھے یا وہ اور زیادہ سرکشی نہ کرنے لگے۔ یعنی تبلیغ سے پہلے ہی کوئی زیادتی کرے یا دوران تبلیغ میں کافرانہ حرکات کا مرتکب ہو اور ان حرکات میں حد سے تجاوز کرے۔