Commentary Why was Sayyidna Musa (علیہ السلام) afraid? The words إِنَّنَا نَخَافُ (We are afraid) signifies that here Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Sayyidna Harun (علیہ السلام) expressed twofold fear before Allah. The first fear is pointed out by the word أَن يَفْرُطَ which means to cross all boundaries. So the meaning of the sentence is &perhaps the Pharaoh would attack even before listening to us&. The other fear is mentioned with the words أَن يَطْغَىٰ - which means that Sayyidna Musa (علیہ السلام) was apprehensive that the Pharaoh might, after listening to his demands, become so refractory and perverse that he might speak about Allah in disrespectful terms. It will be recalled that when prophethood was bestowed upon Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، he had prayed to Allah to depute Sayyidna Harun (علیہ السلام) also to assist him in his mission, and Allah had accepted his prayer. At the same time Allah informed him سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا & (|"We make. your arm stronger through (the help of) your brother and will make for you the upper hand so they will not reach you (with any harm) |"-28:35) and that whatever else he asked for was granted to him (قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ ) |"You have been granted your request 0 Musa|" - 20:36. Among the things granted to him was شرح صدر (heart at peace) which means that he was made immune to fear. So, when he had received such firm assurances from Allah, how does one explain the fear expressed by him in this verse. One answer to this question is that the promise of victory and security from harm is rather vague in that victory may refer to success in debate with the Pharaoh and his men. It can also be argued that victory could come only if the Egyptians heard his arguments and reasoning, and saw his miracles but there was this possibility also that they might attack him before he had laid his arguments before them. Besides, شرح صدر does not mean elimination of natural fear. The second point is that fear of fearsome things is a natural instinct and even prophets are not free from it in spite of their complete faith in the promises of Allah. Sayyidna Musa (علیہ السلام) himself was afraid to pick up his staff when it turned into a snake therefore Allah re-assured him with the word لَا تَخَف (do not be afraid). On all such occasions Allah removed their fears by propitious tidings. Three other verses: فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ (So, he went out of it (the city) in a state of fear, waiting (for what comes next) - 28:21) and فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا (Then, next morning he was fearful, waiting [ for what comes next ] - 28:18) and فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ (So Musa concealed some fear in his heart - 20:67) can also be quoted expressing the same fear. It was this natural fear which persuaded the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to migrate to Madinah and some of his Companions (رض) to migrate first to Abbysinia and later to Madinah. In the Battle of Ahzab the Muslims were so overawed by the strength of their enemies that they dug a trench as a protective measure even though Allah had promised them victory on numerous occasions. The truth is that while they did not have the least doubt about their ultimate victory, the fear which they felt was the result of a spontaneous human impulse in the face of danger, and the prophets being human are not immune to this impulse.
خلاصہ تفسیر (جب یہ حکم دونوں صاحبوں کو پہنچ چکا تو) دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم تبلیغ کے لئے حاضر ہیں لیکن) ہم تبلیغ کے لئے حاضر ہیں لیکن) ہم کو اندیشہ ہے کہ (کہیں) وہ ہم پر (تبلیغ سے پہلے ہی) زیادتی نہ کر بیٹھے (کہ تبلیغ ہی رہ جاوے) یا یہ کہ (عین تبلیغ کے وقت اپنے کفر میں) زیادہ شرارت نہ کرنے لگے کہ اپنی بک بک میں تبلیغ نہ سنے نہ سننے دے جس سے وہ عدم تبلیغ کے برابر ہوجاوے) ارشاد ہوا کہ (اس امر سے مطلق) اندیشہ نہ کرو (کیونکہ) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب سنتا دیکھتا ہوں (میں تمہاری حفاظت کروں گا اور اس کو مرعوب کردوں گا جس سے پوری تبلیغ کرسکو گے جیسا دوسری آیت میں ہے وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا) سو تم (بےخوف و خطر) اس کے پاس جاؤ اور (اس سے) کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے فرستادے ہیں (کہ ہم کو نبی بنا کر بھیجا ہے) سو (تو ہماری اطاعت کر اصلاح عقیدہ میں بھی کہ توحید کی تصدیق کر اور اصلاح اخلاق میں بھی کہ ظلم وغیرہ سے باز آ اور) بنی اسرائیل کو (جن پر تو ناحق ظلم کرتا ہے اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر کے) ہمارے ساتھ جانے دے (کہ جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں رہیں) اور ان کو تکلیفیں مت پہنچا (اور) ہم (جو دعویٰ نبوت کا کرتے ہیں تو خالی خولی نہیں بلکہ ہم) تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے (اپنی نبوت کا) نشان (یعنی معجزہ بھی) لائے ہیں اور (تصدیق اور قبول حق کا ثمرہ اس قاعدہ کلیہ سے معلوم ہوگا کہ) ایسے شخص کے لئے (عذاب الٰہی سے) سلامتی ہے جو (سیدھی) راہ پر چلے (اور تکذیب و رد حق کے باب میں) ہمارے پاس یہ حکم پہنچا ہے کہ (اللہ کا) عذاب (قہر کا) اس شخص پر ہوگا جو (حق کو) جھٹلاوے اور (اس سے) روگردانی کرے (غرض یہ سارا مضمون جا کر اس سے کہو چناچہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور جا کر اس سے سب کہہ دیا) وہ کہنے لگا کہ پھر (جواب میں) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا (دونوں کا بلکہ سب کا) رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب بناوٹ عطا فرمائی پھر (ان میں جو جاندار چیزیں تھیں ان کو ان کے منافع و مصالح کی طرف) رہنمائی فرمائی (چنانچہ ہر جانور اپنی مناسب غذا اور جوڑہ اور مسکن وغیرہ ڈھونڈ لیتا ہے پس وہی ہمارا بھی رب ہے۔ ) معارف ومسائل حضرت موسیٰ کو خوف کیوں ہوا : اِنَّنَا نَخَافُ ، حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) نے اس جگہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دو طرح کے خوف کا اظہار کیا۔ ایک اَنْ يَّفْرُطَ کے لفظ سے جس کے اصلی معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ شاید فرعون ہماری بات سننے سے پہلے ہی ہم پر حملہ کردے، دوسرا خوف اَنْ يَّــطْغٰي کے لفظ سے بیان فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس سے بھی زیادہ سرکشی پر اتر آئے کہ آپ کی شان میں نامناسب کلمات بکنے لگے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابتداء کلام میں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت و رسالت عطا فرمایا گیا اور انہوں نے حضرت ہارون کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی درخواست کی اور یہ درخواست قبول ہوئی تو اسی وقت حق تعالیٰ نے ان کو یہ بتلا دیا تھا کہ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا، نیز یہ بھی اطمینان دلا دیا گیا تھا کہ آپ کی درخواست میں جو جو چیزیں طلب کی گئی ہیں وہ سب ہم نے آپ کو دیدیں قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤ ْلَكَ يٰمُوْسٰى ان مطلوب چیزوں میں شرح صدر بھی جس کا حاصل یہی تھا کہ مخالف سے کوئی دل تنگی اور خوف و ہراس پیدا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے بعد پھر یہ خوف اور اس کا اظہار کیسا ہے اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پہلا وعدہ کہ ہم آپ کو غلبہ عطا کریں گے اور وہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے یہ ایک مبہم وعدہ ہے کہ مراد غلبہ سے حجت و دلیل کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور مادی غلبہ بھی۔ نیز یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر غلبہ تو جب ہوگا کہ وہ ان کے دلائل سنیں معجزات دیکھیں مگر خطرہ یہ ہے کہ وہ کلام سننے سے پہلے ہی ان پر حملہ کر بیٹھے اور شرح صدر کے لئے یہ لازم نہیں کہ طبعی خوف بھی جاتا رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خوف کی چیزوں سے طبعی خوف تو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے جو وعدوں پر پورا ایمان و یقین ہونے کے باوجود بھی ہوتا ہے خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی ہی لاٹھی کے سانپ بن جانے کے بعد اس کے پکڑنے سے ڈرنے لگے تو حق تعالیٰ نے فرمایا لاَ تَخَف ڈر نہیں اور دوسرے تمام مواقع خوف میں ایسا ہی ہوتا رہا کہ طبعی اور بشری خوف لاحق ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے بشارت کے ذریعہ اس کو زائل فرمایا۔ اسی واقعہ کی آیات میں فَخَـــرَجَ مِنْهَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ اور فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَاۗىِٕفًا اور فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى کی آیات اس مضمون پر شاہد ہیں حضرت خاتم الانبیاء اور سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی بشری خوف کی وجہ سے مدینہ شریف کی طرف اور کچھ صحابہ کرام نے پہلے حبشہ کی پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ غزوہ احزاب میں اسی خوف سے بچنے کے لئے خندق کھودی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ نصرت و غلبہ بار بار آ چکا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مواعید ربانی سے یقین تو ان سب کو پورا حاصل تھا مگر طبعی خوف جو بمقضائے بشریت انبیاء میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے منافی نہیں۔