Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 48

سورة طه

اِنَّا قَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡنَاۤ اَنَّ الۡعَذَابَ عَلٰی مَنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿۴۸﴾

Indeed, it has been revealed to us that the punishment will be upon whoever denies and turns away.' "

ہمارے طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لئے عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And peace will be upon him who follows the guidance! Truly, it has been revealed to us that the torment will be for him who denies, and turns away. In His flawless revelation, Allah has revealed to us that torment is prepared exclusively for those who reject the signs of Allah and turn away from His obedience. As Allah says, فَأَمَّا مَن طَغَى وَءاثَرَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِىَ الْمَأْوَى Then for him who transgressed all bounds, and preferred the life of this world, Verily, his abode will be Hellfire. (79:37-39) Allah, the Exalted, also says, فَأَنذَرْتُكُمْ نَاراً تَلَظَّى لااَ يَصْلَـهَأ إِلااَّ الااٌّشْقَى الَّذِى كَذَّبَ وَتَوَلَّى Therefore I have warned you of a blazing Fire. None shall enter it save the most wretched. Who denies and turns away. (92:14-16) Allah also says, فَلَ صَدَّقَ وَلاَ صَلَّى وَلَـكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى So he neither believed nor prayed! But on the contrary, he belied and turned away. (75:31-32) This means that he denied with his heart and turned away by his actions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ ۔۔ : توحید و رسالت اور بنی اسرائیل کو اپنے ظلم و ستم اور غلامی سے آزاد کرنے کی دعوت کے ساتھ ہی خوش خبری بھی سنائی کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا سلامت رہے گا۔ اس آیت میں ڈرانے کا فریضہ سرانجام دیا کہ ہمیں وحی کے ذریعے سے بتایا گیا ہے کہ جو جھٹلائے گا اور منہ پھیرے گا اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ اس ڈرانے میں بھی نرم سے نرم الفاظ، جو ممکن تھے، ملحوظ رکھے، یہ نہیں فرمایا کہ تم پر عذاب نازل ہوگا۔ اس سلامتی اور عذاب دونوں کو عام رکھا، اس میں دنیا اور آخرت دونوں کی سلامتی اور عذاب شامل ہیں۔ یہ مضمون سورة نازعات (٣٠ تا ٣٩) اور سورة قیامہ (٣١ تا ٣٥) وغیرہ میں بھی بیان ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝ ٤٨ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور ہمارے پاس یہ حکم پہنچا ہے کہ دائمی عذاب اس شخص پر ہوگا جو کہ توحید کا منکر ہو اور ایمان سے منہ پھیرلے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ) ” چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( (علیہ السلام) ) نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر اللہ کا پیغام پوری تفصیل کے ساتھ اس تک پہنچا دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. A comparative study of this incident as given in the Bible and the Talmud will show that the Quran does not copy the stories from these books, but gives its own version in order to portray the Messengers in their true glory and dignity. According to the Bible, when God said to Moses (peace be upon him) that He would send him to Pharaoh, Moses (peace be upon him) replied: Who am I, that I should go unto Pharaoh, and that I should bring forth the children of Israel out of Egypt? (Exodus 3: 11). God persuaded and encouraged Moses (peace be upon him) by giving him signs but he was still reluctant and said: O my Lord, send, I pray thee, by the hand of him whom thou wilt send. (Exodus 4: 13). And the Talmud goes even further than this and says that there was an argument between God and Moses (peace be upon him) for seven days that he should become a Prophet but Moses (peace be upon him) did not accept the offer. At this God was angry with him and so made his brother Aaron (peace be upon him) a partner in his Prophethood. Moreover, He deprived the descendants of Moses (peace be upon him) of the office of priesthood and bestowed it on the descendants of Aaron (peace be upon him). These two versions depict Allah to be suffering from human weaknesses and Prophet Moses (peace be upon him) from inferiority complex.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :19 اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصویر پیش کی گئی ہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے تو حضرت موسیٰ نے جواب میں کہا میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں ۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰ کو بہت کچھ سمجھایا ، ان کی ڈھارس بندھائی ، معجزے عطا کیے ، مگر حضرت موسیٰ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ اے خداوند ، میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج ( خروج 4 ) ۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ کے درمیان سات دن تک اسی بات پر رد و کد ہوتی رہی ۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن ، مگر موسیٰ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں ۔ آخر اللہ میاں نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تو ہی نبی بن ۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ لوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے ، ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے ، اور اب اپنے خاص بچوں ( بنی اسرائیل ) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں ۔ اس پر خدا ناراض ہوگیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں ان سے یہ قصے نقل کر لیے گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ ٥٢:۔ اوپر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے فرعون کو یہ جتلایا تھا کہ جو کوئی اللہ کے رسول کو جھٹلا دے گا وہ آخرت میں سزا بھگتے گا ان آیتوں میں یہ جتلایا کہ ہم نے وہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے ہم کو یہی حکم بھیجا ہے کہ جو کوئی اللہ کے رسولوں کو جھٹلائے گا اور اللہ کے حکم سے اس کے رسول جن باتوں کی نصیحت کرتے ہیں ان کے مان لینے کی طرف رخ نہ کرے گا تو وہ آخرت میں سزا بھگتے گا۔ سورة الشعراء میں آئے گا کہ فرعون خدا کی ہستی کا اس قدر سخت منکر تھا کہ خدا کی ہستی کے اقرار کو قابل قید جرم گنتا تھا اسی واسطے اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے اوپر کی آیتوں میں فرعون سے یہ کہا تھا کہ ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے رسول ہیں لیکن فرعون نے غرور کے مارے ان لفظوں کو نہیں دہرایا بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ تم دونوں کا رب کون ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی اس بات کا یہ جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس آدمی کو آدمی کی صورت میں اور جانوں کو جانور کی صورت میں پیدا کیا اور پھر ہر ایک کو زندگی کے بسر کرنے کا طریقہ سکھایا مثلا آدمی اور جانوروں کے بچہ کو پیدا ہوتے ہی دودھ پینے کا طریقہ سکھایا فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ جب اللہ نے سب کو پیدا کیا ہے اور اسی کی تعظیم سب پر واجب ہے تو پچھلی بہت سی قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے اس واجب کو ادا نہیں کیا پھر آخر ان کا کیا انجام ہوگا موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا اللہ کے کار خانہ میں بھول چوک نہیں ہے ان سب پچھلی قوموں کا حال اللہ تعالیٰ کے پاس ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے اس کے موافق ایک دن نیکی بدی کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انتظام کہ اس نے اتنی بڑی زمین بچھونے کی طرح پانی پر بچھائی جس میں کہیں کھیتی ہے کہیں باغات ہیں کہیں ایک شہر سے دوسرے شہروں کے جانے کے راستے ہیں آسمان ہے تو ایسا ہی ہے کہ ہر سال وقت مقررہ پر اس میں سے پانی برستا ہے یہ سب انتظام اس بات کا گواہ ہے کہ ایک دن نیک وبد کا ضرور فیصلہ ہوگا تاکہ یہ سب انتظام ٹھکانے لگے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد پر کچھ نہ ہوگا وہ بڑے نادان ہیں کیونکہ یہ نادان لوگ دنیا کا کوئی چھوٹا سا انتظام بھی کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ پہلے سے سوچ لیتے ہیں مثلا فرعون نے دریائے نیل سے اپنے باغوں تک نہر جو بنائی تو یہ نتیجہ سوچ کر بنائی کہ نہر سے باغوں کے پیڑوں کو پانی اچھی طرح پہنچے گا پھر فرعون یا اس کے ساتھ جو دنیا کے اتنے بڑے انتظام کو بےنتیجہ بتلاتے ہی ان سے بڑھ کر دنیا میں نادان کون ہوسکتا ہے اصل بات یہ ہے کہ راحت کے وقت انسان اللہ کو بھول جاتا ہے ہاں تکلیف کے وقت انسان کو اللہ یاد آتا ہے جس طرح راحت کے زمانہ تک فرعون خدا کی ہستی کا منکر رہا جب قلزم میں ڈوبنے کی تکلیف سر پر آن پڑی تو اپنی خدائی کو غلط ٹھہرا کر اللہ تعالیٰ کی فرما نبرداری کا قائل ہوگیا جس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخای ومسلم کے حوالہ سے عبادہ بن الصامت کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ روایتیں بھی اسی سورة میں گزر چکی ہیں ٢ ؎۔ کہ ایسے آخری وقت کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں مقبول نہیں ہے کیونکہ ایسے آخری وقت پر شرع کا کوئی حکم آدمی کے ذمہ باقی نہیں رہتا پھر ایسے وقت احکام شرع کی پابندی کا اقرار کیا کام آسکتا ہے۔ ١ ؎ مثلاص ٢٤٠ ج ٣۔ ٢ ؎ تفسیر ہذاص ٦١ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:48) تولی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ تولی مصدر (تفعیل) اس نے منہ موڑا۔ اس نے پیٹھ پھیری۔ وہ پھر گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ اسی طرح ہمیں وحی کے ذریعہ یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت میں عذاب اس شخص پر آئے گا جس نے اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی اور ان کو قبول کرنے اور ان پر ایمان لانے سے اعراض کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 اور بلاشبہ ہم کو یہ حکم بھیجا گیا ہے اور ہم کو یہ بات وحی کی گئی ہے کہ ہر قسم کا عذاب اس شخص پر ہوگا جو تکذیب کا مرتکب ہو اور احکام الٰہی سے روگردانی کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا وہی شخص دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جہان میں مستحق ہوگا جو دین حق کی تکذیب کرے اور راہ حق سے روگردانی کرے اور پیٹھ پھیرے۔