Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 60

سورة طه

فَتَوَلّٰی فِرۡعَوۡنُ فَجَمَعَ کَیۡدَہٗ ثُمَّ اَتٰی ﴿۶۰﴾

So Pharaoh went away, put together his plan, and then came [to Moses].

پس فرعون لوٹ گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کئے پھر آگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Meeting of the Two Parties, Musa's Propagation of the Message and the Magicians Allah informs, فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى So Fir`awn withdrew, devised his plot and then came back. Allah, the Exalted informs that when Fir`awn and Musa agreed to an appointed meeting at a specified place and time, Fir`awn began to gather some magicians from the cities of his kingdom. Every person who had any affiliation with magic at that time was summoned, and magic was very widespread and in demand at that time. This is as Allah says, وَقَالَ فِرْعَوْنُ ايْتُونِى بِكُلِّ سَـحِرٍ عَلِيمٍ And Fir`awn said: "Bring me every well-versed sorcerer." (10:79) Then, the day came. It was the day when all of the people gathered, which was well-known, being the day of the festival. Fir`awn was there sitting upon his throne surrounded by the elite officials of his kingdom. The subjects were all standing on his right and his left. Then, Musa came forward leaning upon his stick accompanied by his brother Harun. The magicians were standing in front of Fir`awn in rows and he was prodding them, inciting them and encouraging them to do their best on this day. They wanted to please him and he was promising them and inspiring them. They said, فَلَمَّا جَأءَ السَّحَرَةُ قَالُواْ لِفِرْعَوْنَ أَإِنَّ لَنَا لاّجْراً إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَـلِبِينَ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذاً لَّمِنَ الْمُقَرَّبِينَ Will there surely be a reward for us if we are the winners! He (Fir`awn) said: "Yes, and you shall then verily be of those brought near (to myself)." (26:41-42)

مقابلہ اور نتیجہ ۔ جب کہ مقابلہ کی تاریخ مقرر ہو گئی ، دن وقت اور جگہ بھی ہو گئی تو فرعون نے ادھر ادھر سے جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا اس زمانے میں جادو کا بہت زور تھا اور بڑے بڑے جادوگر موجود تھے ۔ فرعون نے عام طور سے حکم جاری کر دیا تھا کہ تمام ہوشیار جادوگروں کو میرے پاس بھیج دو ۔ مقررہ وقت تک تمام جادوگر جمع ہوگئے فرعون نے اسی میدان میں اپنا تخت نکلوایا اس پر بیٹھا تمام امراء وزراء اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے رعایا سب جمع ہو گئی جادوگروں کی صفوں کی صفیں پرا باندھے تخت کے آگے کھڑی ہو گئیں ۔ فرعون نے ان کی کمر ٹھونکنی شروع کی اور کہا دیکھو آج اپنا وہ ہنر دکھاؤ کہ دنیا میں یادگار رہ جائے ۔ جادوگروں نے کہا کہ اگر ہم بازی لے جائیں تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا ؟ کہا کیوں نہیں؟ میں تو تمہیں اپنا خاص درباری بنا لوں گا ۔ ادھر سے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تبلیغ شروع کی کہ دیکھو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ شامت اعمال برباد کر دے گی ۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاک نہ جھونکو کہ درحقیقت کچھ نہ ہو اور تم اپنے جادو سے بہت کچھ دکھا دو ۔ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں جو فی الواقع کسی چیز کو پیدا کر سکے ۔ یاد رکھو ایسے جھوٹے بہتانی لوگ فلاح نہیں پاتے ۔ یہ سن کر ان میں آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ بعض تو سمجھ گئے اور کہنے لگے یہ کلام جادوگروں کا نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کے رسول ہیں ۔ بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ جادوگر ہیں مقابلہ کرو ۔ یہ باتیں بہت ہی احتیاط اور راز سے کی گئیں ۔ ( ان ھذن ) کی دوسری قرأت ( ان ھذین ) بھی ہے مطلب اور معنی دونوں قرأت وں کا ایک ہی ہے ۔ اب با آواز بلند کہنے لگے کہ یہ دونوں بھائی سیانے اور پہنچے ہوئے جادوگر ہیں ۔ اس وقت تک تو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہے بادشاہ کا قرب نصیب ہے مال و دولت قدموں تلے لوٹ رہا ہے لیکن آج اگر یہ بازی لے گئے تو ظاہر ہے کہ ریاست ان ہی کی ہو جائے گی تمہیں ملک سے نکال دیں گے عوام ان کے ماتحت ہو جائیں گے ان کا زور بند بندھ جائے گا یہ بادشاہت چھین لیں گے اور ساتھ ہی تمہارے مذہب کو ملیا میٹ کر دیں گے ۔ بادشاہت عیش و آرام سب چیزیں تم سے چھن جائیں گی ۔ شرافت عقلمندی ریاست سب ان کے قبضے میں آ جائے گی تم یونہی بھٹے بھونتے رہ جاؤ گے ۔ تمہارے اشراف ذلیل ہو جائیں گے امیر فقیر بن جائیں گے ساری رونق اور بہار جاتی رہے گی ۔ بنی اسرائیل جو تمہارے لونڈی غلام بنے ہوئے ہیں یہ سب ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور تمہاری حکومت پاش پاش ہو جائے گی ۔ تم سب اتفاق کر لو ۔ ان کے مقابلے میں صف بندی کر کے اپنا کوئی فن باقی نہ رکھو جی کھول کر ہوشیاری اور دانائی سے اپنے جادو کے زور سے اسے دبا لو ۔ ایک ہی دفعہ ہر استاد اپنی کاری گری دکھا دے تاکہ میدان ہمارے جادو سے پر ہو جائے دیکھو اگر وہ جیت گیا تو یہ ریاست اسی کی ہو جائے گی اور اگر ہم غالب آ گئے تو تم سن چکے ہو کہ بادشاہ ہمیں اپنا مقرب اور دربار خاص کے اراکین بنا دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آگیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] یہ مقابلہ صرف جادوگروں کی ہار جیت کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دراصل یہ مسئلہ فرعون کے برسراقتدار رہنے یا نہ رہنے کا تھا۔ لہذا ملک بھر کے ہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کے لئے اس نے اپنے مقدور بھر جتن کر لئے اور وعدہ کے دن فرعون ان جادوگروں اور اپنے لاؤ لشکر سمیت میدان مقابلہ میں بروقت پہنچ گیا۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلم اور ان کا بھائی بھی بروقت پہنچ گئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ ۔۔ : یعنی فرعون نے مجلس برخاست کردی اور پھر اپنے سرداروں سے مشورے اور سب کے اتفاق کے بعد پوری کوشش سے ایک طرف تو سلطنت کے ہر علاقے سے ماہر جادوگر جمع کرلیے اور انھیں انعام و اکرام اور قرب شاہی کا وعدہ کر کے مقابلے کے لیے تیار کیا اور دوسری طرف عام لوگوں کو دیکھنے کی ترغیب دی کہ مقابلہ دیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں۔ پھر فرعون سب کچھ ساتھ لے کر میدان مقابلہ میں آگیا۔ دیکھیے سورة اعراف (١٠٩، ١١٠) ، شعراء (٣٤، ٣٥) اور نازعات (٢٢، ٢٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The words فَجَمَعَ كَيْدَهُ (and put his plot together) in verse 60 indicate that the Pharaoh assembled his magicians and their tools. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) there were seventy two magicians but others have put their number at figures which vary from four hundred to nine hundred thousand. Their leader was a blind man whose name was Sham` un (شمعُون).

خلاصہ تفسیر غرض (یہ سن کر) فرعون (دربار سے اپنی جگہ) لوٹ گیا پھر اپنا مکر کا (یعنی جادو کا) سامان جمع کرنا شروع کیا پھر (سب کو لے کر اس میدان میں جہاں وعدہ ٹھہرا تھا، آیا (اس وقت) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان (جادوگر) لوگوں سے فرمایا کہ ارے کمبختی مارو ! اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا مت کرو (کہ اس کے وجود یا توحید کا انکار کرنے لگو یا اس کے ظاہر کئے ہوئے معجزات کو سحر بتلانے لگو) کبھی خدا تعالیٰ تم کو کسی قسم کی سزا سے بالکل نیست و نابود ہی کر دے اور جو جھوٹ باندھتا ہے وہ (آخر کو) ناکام رہتا ہے پس جادوگر (یہ بات سن کر ان دونوں حضرات کے بارہ میں) باہم اپنی رائے میں اختلاف کرنے لگے اور خفیہ گفتگو کرتے رہے (بالاخر سب متفق ہوکر) کہنے لگے کہ بیشک یہ دونوں جادوگر ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جادو (کے زور) سے تم کو تمہاری سر زمین سے نکال باہر کریں اور تمہارے عمدہ (مذہبی) طریقہ کا دفتر ہی اٹھادیں تو اب تم مل کر اپنی تدبیر کا انتظام کرو اور صفیں آراستہ کر کے (مقابلہ میں) آؤ اور آج وہی کامیاب ہے جو غالب ہو (پھر) انہوں نے ( موسیٰ (علیہ السلام) سے) کہا کہ اے موسیٰ (کہئے) آپ (اپنا عصا) پہلے ڈالیں گے یا ہم پہلے ڈالنے والے بنیں آپ نے (نہایت بےپروائی سے) فرمایا نہیں تم ہی پہلے ڈالو (چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور نظر بندی کردی) پس یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کی نظر بندی سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں ایسی معلوم ہونے لگیں جیسے (سانپ کی طرح) چلتی دوڑتی ہوں سو موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں تھوڑا سا خوف ہوا (کہ جب دیکھنے میں یہ رسیاں اور لاٹھیاں بھی سانپ معلوم ہوتی ہیں اور میرا عصا بھی بہت سے بہت سانپ بن جاوے گا تو دیکھنے والے تو دونوں چیزوں کو ایک ہی سا سمجھیں گے تو حق و باطل میں امتیاز کس طرح کریں گے اور یہ خوف باقتضائے طبع تھا ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلا کو یقین تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے تو اس کے تمام نشیب و فراز کا بھی انتظام کردے گا اور اپنے مرسل کی کافی مدد کرے گا اور ایسا خوف طبعی جو درجہ وسوسہ میں تھا شان کمال کے منافی نہیں الغرض جب یہ خوف ہوا اس وقت) ہم نے کہا کہ تم ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے اور اس کی صورت یہ ہے کہ) یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں جو (عصا) ہے اس کو ڈال دو ، ان لوگوں نے جو کچھ (سانگ) بنایا ہے یہ (عصا) سب کو نگل جاوے گا یہ جو کچھ بنایا ہے جادوگروں کا سانگ ہے اور جادوگر کہیں جاوے (معجزے کے مقابلے میں کبھی) کامیاب نہیں ہوتا ( موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی ہوگئی کہ اب امتیاز خوب ہوسکتا ہے چناچہ انہوں نے عصا ڈالا اور واقعی وہ سب کو نگل گیا) سو جادوگروں (نے جو یہ فعل فوق السحر دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ بیشک معجزہ ہے اور فوراً ہی سب) سجدہ میں گر گئے ( اور با آواز بلند) کہا کہ ہم تو ایمان لے آئے ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام) کے پروردگار پر، فرعون نے (یہ واقعہ دیکھ کر جادوگروں کو دھمکایا اور کہا کہ بدون اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں (یعنی میری خلاف مرضی) تم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے واقعی (معلوم ہوتا ہے کہ) وہ (سحر میں) تمہارے بھی بڑے (اور استاذ) ہیں کہ انہوں نے تم کو سحر سکھلایا ہے (اور استاد شاگردوں نے سازش کر کے جنگ زرگری کی ہے تاکہ تم کو ریاست حاصل ہو) سو (اب حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے) میں تم سب کے ہاتھ پاؤں کٹواتا ہوں ایک طرف کا ہاتھ اور ایک طرف کا پاؤں اور تم سب کو کھجوروں کے درختوں پر ٹنگواتا ہوں (تاکہ سب دیکھ کر عبرت حاصل کریں) اور یہ بھی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ ہم دونوں میں (یعنی مجھ میں اور رب موسیٰ میں) کس کا عذب زیادہ سخت اور دیرپا ہے ان لوگوں نے صاف جواب دے دیا کہ ہم تجھ کو کبھی ترجیح نہ دیں گے بمقابلہ ان دلائل کے جو ہم کو ملے ہیں اور بمقابلہ اس ذات کے جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو جو کچھ کرنا ہو (دل کھول کر کر ڈال تو بجز اس کے کہ اس دنیوی زندگانی میں کچھ کرلے اور کر ہی کیا سکتا ہے بس ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے تاکہ ہمارے (پچھلے) گناہ (کسر وغیرہ) معاف کردیں اور تو نے جو جادو (کے مقدمہ) میں ہم پر زور ڈالا اس کو بھی معاف کردیں اور اللہ تعالیٰ (با اعتبار ذات وصفات کے بھی تجھ سے) بدرجہا اچھے ہیں اور (با اعتبار ثواب و عقاب کے بھی) زیادہ بقا والے ہیں (اور تجھ کو نہ خیریت نصیب ہے نہ بقا تو تیرا کیا انعام جس کا وعدہ ہم سے کیا تھا اور کیا عذاب جس کی اب وعید سناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جس ثواب اور عذاب کو بقا ہے اس کا قانون یہ ہے کہ) جو شخص (بغاوت کا) مجرم ہو کر (یعنی کافر ہو کر) اپنے رب کے پاس حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ (مقرر) ہے اس میں نہ مرے ہی گا اور نہ جئے ہی گا ( نہ مرنا تو ظاہر ہے اور نہ جینا یہ کہ جینے کا آرام نہ ہوگا) اور جو شخص اس کے پاس مومن ہو کر حاضر ہوگا جس نے نیک کام بھی کئے ہوں سو ایسوں کے لئے بڑے اونچے درجے ہیں یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے اور جو شخص (کفر و معصیت سے) پاک ہو اس کا یہی انعام ہے (پس اس قانون کے موافق ہم نے کفر کو چھوڑ کر ایمان اختیار کرلیا۔ ) معارف ومسائل فَـجَمَعَ كَيْدَهٗ ، فرعون نے اپنے کید یعنی مقابلہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تدبیر میں ساحروں اور ان کے آلات کو جمع کرلیا۔ حضرت ابن عباس سے ان ساحروں کی تعداد بہتر منقول ہے اور دوسرے اقوال ان کی تعداد میں بہت مختلف ہیں، چار سو سے لے کر نو لاکھ تک ان کی تعداد بتلائی گئی ہے اور یہ سب اپنے ایک رئیس شمعون کے ماتحت اس کے حکم کے مطابق کام کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کا رئیس ایک اندھا آدمی تھا (قرطبی) واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَيْدَہٗ ثُمَّ اَتٰى۝ ٦٠ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) غرض کہ یہ سن کر فرعون دربار سے اپنی جگہ چلا گیا پھر اپنا مکر یعنی جادو کا سامان اور جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا اور جن جادوگروں کو فرعون نے جمع کیا وہ بہتر (٧٢) تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (فَتَوَلّٰی فِرْعَوْنُ ) ” جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ طے ہوگیا تو فرعون نے اپنی پوری توجہ اس کے لیے تیاری کرنے پر مرکوز کردی۔ (فَجَمَعَ کَیْدَہٗ ثُمَّ اَتٰی ) ” اس نے اپنی پوری مملکت سے ماہر جادو گروں کو اکٹھا کیا اور یوں پوری تیاری کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے کے لیے میدان میں اترا تاکہ ثابت کرسکے کہ آپ ( علیہ السلام) کا دعویٰ باطل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32. Pharaoh and his courtiers considered the coming encounter as a decisive one as far as their own future was concerned and, therefore, they attached the utmost importance to it. Courtiers were sent throughout the country to muster round all the magicians wherever available. People were especially encouraged to come in the largest numbers to witness the magic skills so as to keep them immune from the awe inspired by the staff of Moses (peace be upon him). It was openly said that the fate of their religion hinged on the skill of their magicians. Their religion could survive only if they won, otherwise the religion of Moses (peace be upon him) would have its sway see (Surah Ash-Shuara, Ayat 34-51). Here one should bear in mind the fact that the religion of the royal family and the elite of Egypt was much different from that of the common people. They had separate gods and temples and different creeds and concepts about the life after death. They also differed in the practice of religion as well as in the ideologies. (Toynbee: A Study of History: Somervell’s Abridgment Vols. I-VI, pp. 31-32). Moreover, there were sufficiently strong pockets of the population, who under the influence of various religious upheavals, were prone to prefer Monotheism to a creed of polytheism. Besides this, there was also a fairly large element of the worshipers of One God for the Israelites and their fellow believers were at least ten per cent of the total population. Pharaoh also remembered that about 150 years earlier a religious revolution had been brought about by Pharaoh Amenophis IV or Akhenaton (1377-1360 B.C.) by military force, which had abolished all deities except Aton, a single, universal god, which was worshiped by the king and his family. Though this religious revolution had been reversed later by another king, yet its influence retrained, and Pharaoh dreaded that Moses (peace be upon him) might bring about yet another revolution.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :32 فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کے فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے ۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اسے لے آئیں ۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں ۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے ۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا ، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا ( ملاحظہ ہو سورۂ ہو سورۂ شعراء رکوع 3 ) ۔ اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مصر کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا ۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے ، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے ، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی ، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی ، دونوں کے عملی طریقے اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو Toynbee کی A Study of History صفحہ 31 ۔ 32 ) ۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نوبت ایک توحیدی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے ۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صدی حصہ تھے ۔ اس کے علاوہ اس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمیں وفس یا اَخناتون ( 1377 ق م 1360 ق م ) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا ، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتون باقی رکھا گیا تھا ۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے الٹ دیا گیا ، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا ۔ ان حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کی وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:60) فتولی۔ پھر (فرعون) واپس مڑا۔ (یعنی دربار سے محل کو واپس چلا گیا) ۔ کیدہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا مکروہ فریب۔ دائو۔ اپنے دائو فریب کا سامان جیسا کہ آگے (20:64) میں آیا ہے۔ فاجمعوا کیدکم تو تم اپنے سامان فن کو اکٹھا کرلو۔ جمع کیدہ اس نے اپنے جادو (دائوں۔ فریب وغیرہ) کا سامان اکٹھا کیا۔ ثم اتی۔ پھر آیا۔ (یعنی یوم مقررہ پر میدان مقررہ میں حسب وعدہ تیاری کے بعد واپس آیا)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ایک طرف تو سلطنت کے ہر علاقہ سے ماہر جادو گر جمع کر لئے اور انہیں انعام و اکرام کا وعدہ کر کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور دوسری طرف عام لوگوں کو ترغیب دی کہ مقابلہ دیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ طے پانے کے بعد فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ مصر کے قومی دن کے موقع پر پہلے ہی ملک کے دارالحکومت میں بہت بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پورے ملک میں جشن کا عالم ہوتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت نے بہت بڑے اجتماع کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا اور ایسا اجتماع منعقد کیا جس کی مثال مصر کی تاریخ میں پہلے سے موجود نہ تھی جب کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔ فرعون پورے شان و شکوہ اور دبدبہ کے ساتھ انتظامیہ اور پورے ملک کے جادوگروں کے ساتھ اجتماع میں نمودار ہوا۔ لوگوں کے جذبات انتہائی مشتعل تھے۔ ایک طرف جادوگروں کی فوج اور دوسری طرف صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) تھے۔ مگر اس تنہائی اور کسمپرسی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جونہی ماحول قدرے پر سکون ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر نہایت افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ تمہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا وہ ناکام ہوا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنا اور ان کے معجزات کو جادو قرار دینا تھا۔ رسول اپنے رب کی طرف سے بات کرتا ہے اس لیے رسول کو جھٹلانا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہاں فرعون کی کوشش اور اسباب کے لیے کَیْدَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی مکر و فریب ہوتا ہے۔ کیونکہ فرعون نے حقیقت جاننے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں سب کچھ کیا تھا اس لیے اسے فریب قرار دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ رسول کو جھٹلانا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ جھوٹ بولنے والا بالآخر نامراد ہوتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فتول فرعون فجمع کیدہ ، ثم اتی (٠٦) قرآن مجید نے فرعون کی ہدایات فرعون کے سرداروں کے مشورے اور پھر اس کے اور جادوگروں کے درمیان جو مکالمہ ہوا ، ان سب امور کو مجمل چھوڑ دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے باہم جو مشورے ہوئے ، جو تیاریاں کی گئیں ، جادگروں سے جو وعدہ ہوئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی یہ سب امور ترک کردیئے گئے ہیں۔ صرف ایک مختصر جملہ کہا کہ ” فرون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کر لئے اور مقابلے میں آگیا “ ۔ یہ مختصر اور چھٹوی سی آیت مسلسل تین اقدامات اور حرکات کو ظاہر کرتی ہے ، فرعون گیا ، تمام تدابیر اختیار کیں اور مقابلے پر آگیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سوچا کہ مقابلے میں آنے سے قبل ان لوگوں کو نصیحت کرنا ایک بنیادی فریضہ ہے یہ کہ حق کے مقابلے میں وہ جو افتراء باندھ رہے ہیں وہ نہایت ہی خطرناک فعل ہے ، اس لئے کہ ہو سکتا ہے وہ باز آجائیں ، جادو کے ذریعہ سچائی کے مقابلے میں آنے کا ارادہ ترک کردیں ، یہاں جادو کو افترئا کہا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ فرعون نے مجلس برخاست کی اور جادوگروں کو جمع کرنے کا حکم دے دیا یہاں تک کہ ملک کے مشہور اور ماہر جادوگروں کو بلایا۔ ادھر مقررہ دن بھی آپہنچا۔ ” قَالَ لَھُمْ مُّوْسیٰ الخ “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور جادوگروں سے خطاب کر کے فرمایا۔ ہلاکت ہو تمہارے لیے تم اللہ کے ساتھ شرک کر کے اور میرے معجزات کو جادو کہہ کر اللہ تعالیٰ پر افترا نہ کرو۔ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بیخ و بن سے اکھیڑ کر رکھ دیگا اور تمہیں بالکلیہ تہس نہس کردے گا۔ ای لا تختلقوا علیہ الکذب ولا تشرکوا بہ ولا تقولوا للمعجزات انھا سحر (قرطبی ج 11 ص 214) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60 دن کی بات طے ہونے کے بعد فرعون ملس سے چلا گیا اور اپنی جگہ لوٹ گیا اور اپنے مکرو فریب کا سامان جمع کرنے لگا اور آخر کار وعدے کے دن سب کو لیکر آموجود ہوا۔ یعنی جب مقابلہ کی تاریخ اور جگہ وغیرہ طے ہوگئی تو فرعون مجلس سے لوٹ گیا اور اپنے مکرو فریب کی غرض سے جادوگروں کو اکٹھا کرنے لگا اور آخر کار مقررہ وقت پر تمام حمایتیوں کو لیکر آموجود ہوا۔