71. See (Surah Al-Aaraf, Ayat 150).
72. It can also be interpreted like this: You did not wait for orders from me. In order to understand fully the statement of Prophet Aaron (peace be upon him), one should read this verse along with (verse 150 of Surah Al-Aaraf), where he says: Son of my mother, these people overpowered me and were going to kill me. So, let not the enemies gloat over me. Do not count me among the people who have done wrong. Now if both these verses are read together, one can easily see the true picture of the event. Prophet Aaron (peace be upon him) did his utmost to stop the people from committing the sin of calf-worship, but they revolted against him and might even have killed him. Fearing a clash between them, therefore, he held his peace lest Prophet Moses (peace be upon him), on his return, might blame him for letting the situation worsen and failing to control it effectively in his absence. The last clause of (Surah Al-Aaraf, Ayat 150) also gives the hint that there existed among the people a good number of the enemies of the two brothers.
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :71
ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے ، اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :72
حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع رہنا اس کے راہ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ، اور اتحاد چاہے وہ شرک ہی پر کیوں نہ ہو ، افتراق سے بہتر ہے خوہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو ۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا ۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورہ اعراف کی آیت 150 کے ساتھ ملا کر پڑہنا چاہیے ۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ : اَبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ ۗ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَلٓا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر ۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی ، مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تل گئے ۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے ، اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا ، میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا ۔ سورہ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی ۔