Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 98

سورة طه

اِنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَسِعَ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ﴿۹۸﴾

Your god is only Allah , except for whom there is no deity. He has encompassed all things in knowledge."

اصل بات یہی ہے کہ تم سب کا معبود برحق صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں ۔ اس کا علم تمام چیزوں پر حاوی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Your God is only Allah, there is no God but Him. He has full knowledge of all things. Musa was saying to them, "This is not your god. Your God is only Allah, the One Whom there is no true God except Him. Worship is not befitting to anyone except Him. For everything is in need of Him and everything is His servant. Concerning the statement, ... وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا He has full knowledge of all things. The word `Ilm (knowledge) is in the accusative case for distinction. It means that He is the All-Knower of everything. أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمَا (Allah) surrounds all things in (His) knowledge. (65:12) And He says, وَأَحْصَى كُلَّ شَىْءٍ عَدَداً And (He) keeps count of all things. (72:28) Therefore, لااَ يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ Not even the weight of a speck of dust escapes His knowledge. (34:3) He also says, وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّحَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ Not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59) And He says, وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ And no moving creature is there on earth but its provision is due from Allah. And He knows its dwelling place and its deposit. All is in a Clear Book. (11:6) The Ayat that mention this are numerous.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اِلٰــهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ ۭ ۔۔ : یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ہے جنھوں نے سامری سے خطاب کے بعد اپنی امت کے لوگوں کو مخاطب فرمایا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی دو دلیلیں بیان ہوئی ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اس صفت میں ساری صفات آجاتی ہیں، تفصیل اس کی علم کلام کی کتابوں میں ” لا الٰہ الا اللہ “ کی تشریح میں مذکور ہے۔ دوسری دلیل خاص صفت علم ہے جس کے گھیرے سے کوئی چیز باہر نہیں۔ ” وَسِعَ “ کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ گھیرا ڈالنے والی چیز میں اس کے اندر والی چیز سے زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ (ابن عاشور) جو ” كُلَّ شَيْءٍ “ سے بھی وسیع ہے، اس کی وسعت کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۭ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ٩٨ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨) تمہارا معبود حقیقی تو وہی اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اور وہ ہمارا پروردگار اپنے علم سے تمام چیزوں سے تمام جزیوں کو احاطہ میں کیے ہوئے ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ) ” اسرائیلی قوم کے بگڑے ہوئے عقائد اور ان کی عمومی ذہنیت کی جو تفصیلات ہمیں قرآن سے ملتی ہیں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہندو برہمن کی سوچ ‘ ذہنیت اور عقائد کی اس سے بہت قریبی مشابہت نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں میری ذاتی رائے ہے کہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل (چودہ سو سال قبل مسیح) کے لگ بھگ جب آریا نسل کے لوگ ہندوستان کی طرف محو سفر تھے تو ان کے ساتھ کسی مقام پر کچھ اسرائیلی قبائل بھی شامل ہوگئے تھے۔ یہ تقریباً وہی زمانہ تھا جب مصر سے بنی اسرائیل کا خروج (Exodus) ہوا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ان کے کچھ ایسے قبائل کا ذکر ملتا ہے جنہیں وہ اپنے گم شدہ قبائل (The lost tribes of the house of Israel) کہتے ہیں۔ یہ وہ قبائل ہیں جو صحرا میں گم ہوگئے تھے اور ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں چلے گئے۔ میرے خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے وہ گم شدہ قبائل کسی نہ کسی طرح آریاؤں (آریا لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت حام کی نسل سے تھے) کے ان گروہوں سے آملے تھے جو اس زمانے میں ہندوستان کی طرف کوچ کر رہے تھے اور اس طرح آریاؤں کے ساتھ وہ لوگ بھی ہندوستان میں آ بسے تھے۔ اس سلسلے میں میرا گمان یہ ہے کہ ہندوبرہمن انہی اسرائیلیوں کی نسل سے ہیں۔ میرے اس گمان کی بنیاد ہندوؤں اور اسرائیلیوں کے رسم و رواج اور عقائد میں پائی جانے والی گہری مشابہت ہے۔ مثلاً جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے بچھڑے کو جلا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہایا تھا ‘ بالکل اسی طرح ہندو اپنے ُ مردوں کو جلا کر ان کی راکھ کو گنگا وغیرہ میں بہاتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنایا تھا ‘ ہندو بھی مذہبی طور پر گائے کو مقدس مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو روایتی طور پر اپنے لیے وہی شوخ یا زرد گیروا رنگ پسند کرتے ہیں جو قرآن میں بنی اسرائیل کے لیے مخصوص گائے کا رنگ بتایا گیا ہے (البقرہ : ٦٩) ۔ پھر سامری کے اچھوت ہوجانے کے تصور کو بھی ہندوؤں نے بعینہٖ اپنایا اور اس کے تحت اپنے معاشرے کے ایک طبقے کو اچھوت قرار دے ڈالا۔ اسی طرح بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کے اٹھائے جانے سے متعلق قرآنی بیان (الاعراف : ١٧١) سے مماثل ہندوؤں میں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہنومان جی پہاڑ کو اٹھا لائے تھے۔ الغرض اسرائیلیوں اور ہندوؤں کے باہم مشترک عقائد اور رسم و رواج میرے اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ ہندوستان کے برہمن اسرائیلیوں ہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا خیال یہ بھی ہے کہ اپنشدز کی تحریروں میں صحف ابراہیم کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ میں نے ایک زمانے میں ان کا مطالعہ کیا تھا تو معلوم ہوا کہ ان کی تحریروں میں توحید کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہے۔ قرآن حکیم میں صحف ابراہیم (علیہ السلام) اور صحف موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے (الاعلیٰ : ١٩) ۔ ” صحف موسیٰ (علیہ السلام) ٰ “ تو عہد نامہ قدیم (Old Testament) کی پہلی پانچ کتابوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں ‘ اگرچہ تحریف شدہ ہیں ‘ لیکن صحف ابراہیم (علیہ السلام) کا بظاہر کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دوسری طرف اپنشد زکی تحریروں میں توحید کی تعلیمات کا پایا جانا ان میں الہامی اثرات کی موجود گی کا واضح ثبوت ہے۔ اسی بنا پر میں اس نظریے کا قائل ہوں کہ اپنشدز یا تو صحف ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی تحریف شدہ شکلیں ہیں یا کم از کم صحف ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کے اثرات کسی نہ کسی طرح ان تک ضرور پہنچے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معبود باطل کی حیثیت بتلانے اور اس کا انجام دکھلانے کے بعد سچے معبود کا تعارف کر وایا گیا ہے۔ یہ کتنی عظیم حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایک واقعہ بھی داستاں گوئی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا باقی تمام واقعات کو اجزاء کی شکل میں مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے موقع اور مضمون کی مناسبت سے ایسی نصیحت کی جاتی ہے جو انسان کے دل پر اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسی اصول کے پیش نظر یہاں پہلے معبود باطل یعنی بچھڑے کے بارے میں بتلایا کہ ناعاقبت اندیش لوگوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ بچھڑے کا مجسمہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی نفع و نقصان کا مالک ہے۔ جس کے ثبوت کے لیے یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ اسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے سامنے ہی ریزہ ریزہ کرتے ہوئے سمندر میں پھینک دیا۔ جسے لوگ حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکار رہے تھے وہ اپنا وجود بھی نہ بچا سکا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو ! اللہ ہی تمہارا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر ! یہ گزرے ہوئے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں کیونکہ اس میں نصیحت ہے اور اس نصیحت کو قرآن مجید کی صورت میں ہم نے آپ پر نازل کیا ہے۔ جس نے اس نصیحت سے اعراض کیا وہ قیامت کے دن اس گناہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بدترین سزاؤں میں مبتلا ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہاں ذکر سے پہلی مراد عقیدۂ توحید ہے جو قرآن مجید کی اولین بنیادی نصیحت ہے۔ باقی نصیحتیں اور اعمال اسی کی تفصیل اور تقاضے ہیں (وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَےْہِ ثَوْبٌ اَبْےَضُ وَھُوَ نَآءِمٌ ثُمَّ اَتَےْتُہُ وَقَدِ اسْتَےْقَظَ فَقَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِی ذَرٍّ وَّکَانَ اَبُوْ ذَرٍّ اِذَا حَدَّثَ بِھٰذَا قَالَ وَاِنْ رَغِمَ اَنْفُ اَبِیْ ذَرٍّ ) [ رواہ البخاری : باب الثیاب البیض ] ” حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت سفید چادر لیے ہوئے آرام فرما رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا تو آپ جاگ چکے تھے۔ ارشاد ہوا جس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر اسی عقیدے پر فوت ہوا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے عرض کیا چاہے وہ چور ہو یا زانی ؟ فرمایا ہاں چور ہو یا بدکار۔ میں نے دوبارہ تعجب سے پوچھا اگر وہ چور اور بدکار ہو تب بھی ؟ فرمایا اگرچہ وہ زانی اور چور ہو تب بھی میرے تیسری دفعہ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں الفاظ کا اعادہ کرتے ہوئے یہ محاورہ استعمال فرمایا۔ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ توحید والا تو ضرور جنت میں داخل ہوگا) ۔ حضرت ابوذر (رض) جب بھی آپ کا فرمان نقل کرتے تو اعزاز کے طور پر یہ الفاظ دہرایا کرتے تھے کہ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ذکر اور نصیحت کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ جس نے اس ذکر سے انحراف کیا وہ اس جرم کی قیامت کے دن سزا پائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسلامی عقیدے کے بارے میں اس وضاحت کے ساتھ ہی اس سورة میں قصہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ حصہ اب ختم ہوتا ہے۔ اس قصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ حاملین دعوت اسلامی پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہر طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ابتداء میں ان سے کوئی غلطی بھی ہوجائے۔ اس کے بعد اس قصے کے دوسرے مراحل کو یہاں ترک کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ بنی اسرائیل نافرمانیاں کرتی ہیں ، اور ان پر ایک کے بعد ایک عذاب آتا ہے۔ چونکہ یہاں رحمت اور مہربانی اور نوازشات کا موضوع ہے اور یہ رحمتیں اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہیں ، اسلئے اس قصے کی وہ کڑیاں جن میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا تذکرہ آتا ہے ، ان کا ذکر چونکہ موضوع و مضمون اور سورة کی فضا کے خلاف ہے اس لئے ان کو یہاں حذف کر کے اس قصہ کو یہاں ختم کردیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ یہ پانچویں آیت توحید ہے گوسالہ سامری کا عجز اور اس کی بےبسی ظاہر کرنے کے بعد توحید اور معبود حق کا اعلان فرمایا اور کلام کا رخ سامری سے تمام بنی اسرائیل کی طرف موڑ دیا کہ تمہارا معبود تو صرف اللہ ہے۔ جس کے سوا کوئی الوہیت کے لائق نہیں اور کوئی الہ اور معبود بننے کے قابل نہیں، جس کا علم ہر چیز پر حاوی اور ساری کائنات کو محیط ہے اور وہ ہر چیز پر قادر اور علی الاطلاق مختار و متصرف ہے اور یہ گوسالہ جماد اور محض بےجان ہے بھلا یہ کیونکر معبود ہوسکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

98 بس تمہارا معبود حقیقی تو صرف اللہ تعالیٰ ہے اس کے سوا کوئی اور عبادت اور پرستش کے قابل نہیں وہ اللہ تعالیٰ ازروئے علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یعنی اس کے احاطہ علمی سے کوئی چیز باہر نہیں۔