Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 101

سورة الأنبياء

اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾ۙ

Indeed, those for whom the best [reward] has preceded from Us - they are from it far removed.

البتہ بیشک جن کے لئے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے ۔ وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى ... Verily, those for whom the good has preceded from Us, Ikrimah said, "Mercy." Others said it means being blessed. ... أُوْلَيِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ they will be removed far therefrom. When Allah mentions the people of Hell and their punishment for their associating others in worship with Allah, He follows that with a description of the blessed who believed in Allah and His Messengers. These are the ones for whom the blessing has preceded from Allah, and they did righteous deeds in the world, as Allah says: لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ For those who have done good is the best reward and even more. (10:26) هَلْ جَزَاءُ الاِحْسَـنِ إِلاَّ الاِحْسَـنُ Is there any reward for good other than good. (55:60) Just as they did good in this world, Allah will make their final destiny and their reward good; He will save them from punishment and give them a great reward. ... أُوْلَيِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جاسکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ و عزیز علیہالسلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کردیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرکین سب اپنے معبودوں سمیت جہنم کا ایندھن بنیں گے تو ہم مشرک کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں کے علاوہ فرشتوں کو بھی پوجتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو معبود بنا رکھا ہے تو کیا یہ فرشتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) سب جہنم میں جائیں گے ؟ اس سوال کا جواب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیا کہ جو شخص بھی خود یہ چاہتا ہو کہ اس کی عبادت کی جائے وہ یقیناً جہنم میں جائے گا۔ اور اسی حوالہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نازل فرمایا اور ہر دو جواب کی رو سے فرشتے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ تمام ہستیاں بھی مستثنیٰ قرار دے دی گئیں۔ جو خود تو اللہ کے نیک بندے اور صرف اللہ ہی کے عبادت گزار تھے لیکن بعد میں لوگوں نے انھیں پوجنا شروع کردیا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم جن پانچ بتوں، ود، سواع، یغوث، یغوی اور نسر کو پکارتے تھے وہ حقیقتاً اللہ کے عبادت گزار بندے تھے۔ اور اللہ دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ بعد میں شیطان نے لوگوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر اپنے پاس رکھ لیا کرو۔ تاکہ تمہیں اللہ کی عبادت میں وہی مزا آئے جو ان بزرگوں کی موجودگی میں آتا تھا۔ چناچہ ابتداًء ان کے مجسمے اس غرض سے تراشے گئے تھے پھر بعد کے لوگوں نے انہی مجسموں کی عبادت شروع کردی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور اس طرح شیطان اپنے شر میں کامیاب ہوگیا اور بنی نوع انسان میں شرک کا آغاز ہوا۔ پھر شرک صرف یہی نہیں ہوتا کہ انسان کسی کے سامنے سجدہ کرے یا ایسے آراء بجا لائے جو اللہ کے لئے مختص ہیں یا ان کے سامنے قربانی یا نذر و نیاز دے بلکہ کسی بھی چیز کو مشکل کشا اور حاحت روا سمجھ کر اسے پکارا جائے تو یہ بھی واضح شرک ہے۔ اور ایسے && بزرگوں && کی بھی اس دنیا میں کمی نہیں جو اس قسم کی تعظیم و تکریم کے متمنی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی فی الواقع جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اور جن لوگوں کو بعد میں معبود بنادیا گیا۔ حالانکہ وہ خود ان باتوں سے منع کرتے رہے۔ انھیں جہنم کی ہوا بھی نہ لگے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۔۔ :” الْحُسْنٰٓى“ ” اَلْأَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، معنی ہے سب سے اچھی چیز۔ مراد وہ سعادت اور خوش قسمتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کی تقدیر میں لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی وجہ سے جہنم میں جانے والوں کے ذکر کے بعد اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کا ذکر فرمایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سعادت اور نیک اعمال کی توفیق یا معافی مقدر کردی ہے اور وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد وہ صالحین، انبیاء اور فرشتے لیے ہیں جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ آیت مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنھوں نے اعتراض کیا تھا کہ اگر اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی گئی ہے وہ جہنم میں جائیں گے تو لوگوں نے عبادت فرشتوں اور پیغمبروں کی بھی کی ہے۔ جواب یہ دیا گیا کہ یہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ اگرچہ اس آیت میں اس اعتراض کا جواب بھی موجود ہے، تاہم آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں فرشتوں، پیغمبروں اور صالحین کے ساتھ تمام سعادت مند مومن بھی شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص اسلوب ہے کہ وہ جنت و جہنم اور نیک و بد دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سعادت مند لوگوں کو عطا ہونے والی پانچ نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے پہلی یہ ہے کہ وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At that point Allah Ta` ala revealed the verse : إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (Surely, those for whom the good (news) from Us has come earlier shall be kept far away from it. - 21:101) that is those for whom Our grace and good result is ensured will be kept away from Hell. And for the same Ibn al-Ziba` ra، Allah Ta` ala has revealed this Qur’ anic verse a. وَلَمَّا ضُرِ‌بَ ابْنُ مَرْ‌يَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (43:57) that is when Ibn al-Ziba` ra put forward the example of Sayyidah Maryam (علیہا السلام) ، the people of his clan, Quraish, were overtaken by joy.

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ، یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بھلائی اور اچھا نتیجہ مقدر ہوچکا ہے وہ اس جہنم سے بہت دور رہیں گے۔ اور اسی ابن الزبعری کے متعلق قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ، یعنی جب ابن زبعری نے حضرت ابن مریم کی مثال پیش کی تو آپ کی قوم کے لوگ قریش خوشی سے شور مچانے لگے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى۝ ٠ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۝ ١٠١ۙ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١۔ ١٠٢) اور جن حضرات کے لیے ہماری طرف سے جنت مقدور ہوچکی ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ و عزیر (علیہ السلام) وہ دوزخ سے نجات میں رہیں گے اور اس سے اس قدر دور رکھے جائیں گے کہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ لوگ اپنی پسند کی چیزوں سمیت جنت میں ہمیشہ رہیں گے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

97. These will be the people who practiced virtue and righteousness in this world. Allah has already promised that they will be kept safe from the torture and will be granted salvation.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :97 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی اور سعادت کی راہ اختیار کی ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور ان کو نجات دی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:101) سبقت ماضی واحد مؤنث غائب۔ پہلے سے ہوچکی۔ پہلے سے ٹھہر چکی۔ سبق مصدر (باب ضرب) الحسنی۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے واحد مؤنث۔ الاحسن واحد مذکر۔ بمعنی سعادت بھلائی۔ یا مراد اس سے الجنۃ ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے سعادت مقدر ہوچکی ہے ۔ مبعدون۔ اسم مفعول جمع مذکر ابعاد (افعال) مصدر۔ دور رکھے گئے۔ دور کئے ہوئے یعنی دوزخ سے ان کو دور رکھا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ اوپر گزرچکا ہے کہ یہ آیت مشرکین کا اعتراض سفع کرنے کے لئے نازل ہوئی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا صلہ اور انعام۔ جن لوگوں کی فطرت اور کوشش کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں خیر اور نیکی رکھ دی ہے۔ وہ لوگ جہنم سے کوسوں دور رکھے جائیں گے۔ اس قدر جہنم سے دور اور محفوظ ہوں گے کہ نہ وہ جہنم کی آہٹ سنیں گے اور نہ جہنم کی بدبو ان تک پہنچ پائے گی۔ انھیں جنت میں وہ سب کچھ دیا جائے گا جس کی دل میں چاہت کریں گے۔ انھیں قیامت کی ہولناکیوں اور گھبراہٹ کے بڑے بڑے مواقع پر کوئی غم اور پریشانی نہیں ہوگی۔ ہر موقعہ اور مقام پر ملائکہ انھیں سلام کریں گے اور کہیں گے یہ ہے وہ اجر و انعام کا دن جس کا رب کریم نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ قیامت کے دن زندہ ہونے کے بعد ہر انسان کو قیامت کے مختلف مراحل سے واسطہ پڑے گا ان میں کچھ مراحل ایسے ہوں گے۔ جب انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسی، نفسی پکار رہے ہوں گے۔ ہر کوئی اپنے گناہوں کے مطابق اپنے پسینے میں شرا بور ہوگا۔ تاہم ہولناک مراحل میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اس بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ (وَعَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ ) [ رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا ] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ‘ آپ فرما رہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا۔ لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض کے ٹخنوں تک ‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا۔ یہ بیان کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو جہنم اور اس کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھے گا۔ ٢۔ جنتیوں کو ہر وہ نعمت عطا کی جائے گی جس کی وہ چاہت کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرمائیں گے۔ ٤۔ جنتیوں کو ملائکہ ہر مقام پر سلام پیش کریں گے۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا ہر مقام پر جنتیوں کا استقبال کرنا : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو انھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمہارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتیوں کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) ٥۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین سبقت ……خلدون (٢١ : ١٠٢) ” رہے وہ لوگ جن کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو وہ یقینا اس سے دور رکھے جائیں گے۔ اس کی سرسراہٹ تک نہ نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ من بھاتی چیزوں میں رہیں گے۔ ‘ لفظ حسبھا ان الفاظ میں سے ہے جو اپنے صوتی ترنم سے اپنے مفہوم کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ لفظ آگ کی اس آواز کو ظاہر کرتا ہے جو جلتی ہے اور جلاتی ہے اور سر سر کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ ایسی آواز ہے کہ اس کے تصور سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس پر اس کے بارے میں سوچتے ہی کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان جن کے بارے میں اچھا فیصلہ صادر ہوچکا ہے اس آواز کو بھی نہ سنیں گے۔ دیکھیں گے بھی نہیں کیونکہ وہ اس دن کے عظیم جزع و فزع سے نجات پا چکے ہیں۔ وہ ایسے باغات میں ہوں گے جن میں ان کو متام مرغوبات فراہم ہوں گی۔ ملائکہ انہیں ہر طرف سے اچھا کہیں گے اور ان کے ساتھ رہیں گے تاکہ یہ لوگ اس دن کے خوف و ہراس سے متاثر نہ ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جن کے بارے میں بھلائی کا فیصلہ ہوچکا وہ دوزخ سے دور رہیں گے جب آیت (اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) (الایۃ) نازل ہوئی تو عبداللہ بن الزبعریٰ نے اعتراض کیا (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا) کہ پھر تو عیسیٰ اور عزیر اور فرشتے سب یہ دوزخ میں جائیں گے کیونکہ ان کی بھی عبادت کی جاتی رہی ہے۔ اس پر آئندہ آیت کریمہ (اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنآی اولٰٓءِکَ عَنْھَامُبْعَدُوْنَ ) نازل ہوئی (بلاشبہ جن کے لیے پہلے ہی ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے (لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَ ھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ ) (وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گی اور اپنی جی چاہی چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے) (لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ ) (ان کو بڑی گھبراہٹ غم میں نہ ڈالے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے) ان آیات میں معترض کا جواب دے دیا ہے اور فرما دیا کہ جن حضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے طے فرما دیا ہے کہ ان کے لیے خوبی اور بہتری ہے اور انعام و اکرام ہے وہ جہنم سے دور رہیں گے۔ جہنم میں جانا تو کجا وہ جہنم کی آہٹ بھی نہ سنیں گے۔ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ وہاں اپنی نفس کی خواہشوں کے مطابق زندگی گزاریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں بڑی گھبراہٹ رنجیدہ نہ کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ بڑی گھبراہٹ سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے کئی قول لکھے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے۔ یعنی جب دو بارہ صور پھونکا جائے گا اور قبروں سے نکل کرمیدان حشر کی طرف روانہ ہوں گے اس وقت کی گھبراہٹ مراد ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ جس وقت دوزخیوں کو دوزخ میں جانے کا حکم ہوگا اس سے اس وقت کی گھبراہٹ مراد ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جس وقت موت کو مینڈھے کی شکل میں لا کر جنت اور دوزخ کے درمیان ذبح کیا جائے گا اس وقت جو کیفیت ہوگی اسے فزع اکبر یعنی بڑی گھبراہٹ سے تعبیر فرمایا ہے۔ درحقیقت ان اقوال میں کوئی تنافی اور تعارض نہیں ہے۔ جن حضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے طے فرما دیا کہ ان کے لیے خوبی ہی خوبی ہے۔ دوزخ سے دوری ہے اور جنت کا داخلہ ہے۔ انہیں کوئی بھی گھبراہٹ رنجیدہ نہ کرے گی۔ (وَ تَتَلَقّٰھُمُ الْمَلآءِکَۃُ ) (جب وہ قبروں سے اٹھیں گے تو فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور فرشتے ان سے یوں بھی کہیں گے (ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) (کہ تمہارا یہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا) تمہیں ایمان اور اعمال صالحہ پر اجر وثواب کی جو خوشخبری دی جاتی تھی آج اس خوشخبری کے مطابق تمہیں امن چین، عیش و آرام اکرام و انعام سب کچھ حاصل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتق لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنیٰ الخ “ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں جب ” اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ الخ “ نازل ہوئی تو کفار قریش اپنے ایک سر کردہ ابن الزبعری کے پاس آئے اور اسے اس آیت کی اطلاع دی تو اس نے کہا اگر میں إحمد کے پاس ہوتا تو اس کو اسکا معقول جواب دیتا۔ قریش نے اس سے پوچھا تو کیا جواب دیتا تو اس نے کہا۔ میں کہتا کہ یہ مسیح بن مریم ہے جس کی نصاریٰ پرستش کرتے ہیں اور یہ عزیر ہے جس کی یہود پرستش کرتے ہیں تو کیا یہ بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے کفار قریش یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ اور انہوں نے سمجھا کہ ابن الزبعری کی بات لاجواب ہے اور محمد کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام، فرشتوں اور اولیاء کرم کو آیت سابقہ کے حکم سے مستثنی فرمادیا۔ کیونکہ ان کے حق میں ” اَلْحُسْنیٰ “ (جنت یا بھلائی اور نیک انجام) کا وعدہ ازل سے ہوچکا ہے۔ من القرطبی وابن کثیر وغیرھما۔ 74:۔ ” اَلْحُسْنیٰ “ اس سے مراد جنت ہے یا رحمت وسعادت یا توفیق طاعت۔ الحسنی ای الجنۃ (قرطبی ج 11 ص 345) ۔ الحسنی یعنی السعادۃ والعدۃ الجمیلۃ الجنۃ (خازن و معالم ج 4 ص 262) ۔ الحسنی ای الخصلۃ المفضلۃ فی الھسن وھی السعادۃ وقیل التوفیق للطاعۃ والمراد من سبق ذلک تقدیرہ فی الازل (روح ج 7 ص 97) ۔ الحسنی الرحمۃ والسعادۃ (جامع البیان ص 289) ۔ 75:۔ ” عَنھَا ای عن جَهَنَّم “ یعنی جن کے لیے حسنی کا وعدہ ہوچکا ہے انہیں جہنم سے دور رکھا جائیگا وہ تو جنت میں ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(101) بلاشبہ ! جن لوگوں کے لئے ہماری جانب سے پہلے ہی بھلائی مقرر ہوچکی ہے وہ لوگ اس جہنم سے دور رہیں گے۔ یعنی حضرت حق تعالیٰ کی جانب سے جن لوگوں کے لئے بھلائی اور جنت مقدر ہوچکی ہے وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے۔ مطلب یہ کہ دوزخ سے گزرنے کے بعد دوزخ سے اتنی دور کردیئے جائیں گے کہ ان کو اس کی آہٹ بھی نہیں پہنچے گی۔ کیونکہ وہ جنت میں ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایک بار گزر کر پھر ہمیشہ دور رہیں گے۔ 12۔ آگے دور رہنے کی مقدار کی طرف اشارہ ہے۔