Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 11

سورة الأنبياء

وَ کَمۡ قَصَمۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ کَانَتۡ ظَالِمَۃً وَّ اَنۡشَاۡنَا بَعۡدَہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ﴿۱۱﴾

And how many a city which was unjust have We shattered and produced after it another people.

اور بہت سی بستیاں ہم نے تباہ کر دیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً ... How many a town given to wrongdoing, have We destroyed, meaning, they were very many. This is like the Ayah: وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ And how many generations have We destroyed after Nuh! (17:17) فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا And many a township did We destroy while they were given to wrongdoing, so that it lie in ruins. (22:45) ... وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اخَرِينَ and raised up after them another people! means, another nation which came after them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کردیں ( سورة بنی اسرائیل)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی یہ نہیں ہوا تھا کہ ظالم قوموں کو بلاک کرنے کے بعد یہ زمین بےآباد اور ویران رہ گئی تھی۔ جبکہ اس زمین کو ہم نے فوراً دوسرے لوگو لاکر آباد کردیا تھا اور اس کا اگر کچھ نقصان پہنچتا تھا تو صرف ظالموں ہی کو پہنچا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً : ” قَصْمٌ“ کا معنی کسی سخت چیز کو توڑنا ہے۔ کہا جاتا ہے : ” فُلاَنٌ قَصَمَ ظَھْرَ فُلاَنٍ “ کہ فلاں نے فلاں کی کمر توڑ دی۔ ” اِنْقَصَمَتْ سِنُّہُ “ فلاں کا دانت ٹوٹ گیا۔ ” کَمْ “ یہاں تکثیر کے لیے ہے، ” کتنی ہی بستیاں “ سے مراد بہت سی بستیاں ہیں، اس سے کوئی خاص بستی مراد نہیں۔ ابن عباس (رض) کی طرف منسوب وہ روایت موضوع ہے جس میں ان سے نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد یمن کے شہروں کے لوگ ہیں۔ [ الاستیعاب في بیان الأسباب ] آیت کے الفاظ کے مطابق بھی وہ بستیاں عام ہیں اور کوئی خاص علاقہ مراد نہیں۔ وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ : ” اَلإْنْشَاءُ “ کا معنی نئی چیز بنانا ہے۔ ” بَعْدَهَا “ بعض مقامات پر ” مِنْ بَعْدِھَا “ ہوتا ہے، اس میں کچھ دیر بعد مراد ہوتا ہے، یہاں ” بَعْدَهَا “ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان بستیوں کی ہلاکت کے بعد ساتھ ہی نئے سرے سے اور قومیں وہاں لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور بعد والی آیات میں اپنا ذکر جمع کے صیغے سے کیا ہے۔ مراد اس سے اپنی عظمت کا اظہار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary These verses describe the destruction of those settlements which some exegesists have taken as Fladhura& ) حضُوراء) and Qilabah (قلابہ) of Yemen. Allah Ta` ala had sent there a prophet about whose name there are different versions. Some say he was Musa Ibn Misha while others say his name was Shu` aib, in which case he was a different prophet from the one who lived in Madyan. This Prophet was killed by his people, who were, as a punishment annihilated by the infidel King Nabucad Nazzar. This King was placed in authority over them just as he was used as an instrument for the punishment of Bani Isra&i1 when they strayed from the righteous path in Palestine. In fact, Qur&an has not identified any specific settlement. Hence it will be apt to leave the subject open, so that these settlements of Yemen may also come in its ambit. واللہ (Only Allah knows best).

خلاصہ تفسیر اور ہم نے بہت سی بستیاں جن کے رہنے والے ظالم (یعنی کافر) تھے تباہ کر ڈالیں اور ان کے بعد دوسری قوم پیدا کردی تو جب ان ظالموں نے ہمارا عذاب آتا دیکھا تو اس بستی سے بھاگنا شروع کیا (تاکہ عذاب سے بچ جاویں۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ) بھاگو مت اور اپنے سامان عیش اور اپنے مکانات کی طرف واپس چلو شاید تم سے کوئی پوچھے پاچھے (کہ تم پر کیا گزری مقصود اس سے بطور تعریض کے ان کی احمقانہ جسارت پر تنبیہ ہے کہ جس سامان اور مکان پر تم کو ناز تھا اب نہ وہ سامان رہا نہ مکان نہ کسی دوست ہمدرد کا نام و نشان رہا) وہ لوگ (نزول عذاب کے وقت) کہنے لگے کہ ہائے ہماری کم بختی بیشک ہم لوگ ظالم تھے ان کا یہی شور و غل رہا یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایسا (نیست و نابود) کردیا جس طرح کھیتی کٹ گئی ہو یا آگ بجھ گئی ہو۔ معارف ومسائل ان آیات میں جن بستیوں کے تباہ کرنے کا ذکر ہے بعض مفسرین نے ان کو یمن کی بستیاں حضور اء اور قلابہ قرار دیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک رسول بھیجا تھا جس کے نام میں روایات مختلف ہیں۔ بعض میں موسیٰ بن میشا اور بعض میں شعیب ذکر کیا گیا ہے اور اگر شعیب نام ہے تو وہ مدین والے شعیب (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کے رسول کو قتل کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک کافر بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں تباہ کرایا۔ بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جیسا کہ بنی اسرائیل نے جب فلسطین میں بےراہی اختیار کی تو ان پر بھی بخت نصر کو مسلط کر کے سزا دی گئی تھی مگر صاف بات یہ ہے کہ قرآن نے کسی خاص بستی کو معین نہیں کیا اس لئے عام ہی رکھا جائے اس میں یہ یمن کی بستیاں بھی داخل ہوں گی واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَۃٍ كَانَتْ ظَالِمَۃً وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ۝ ١١ قصم قال تعالی: وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] أي : حطمناها وهشمناها، وذلک عبارة عن الهلاك، ويسمّى الهلاک قَاصِمَةَ الظّهر، وقال في آخر : وَما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى [ القصص/ 59] . والْقُصَمُ : الرجل الذي يَقْصِمُ مَنْ قاومه . ( ق ص م ) القصم ( ج ) کے معنی ہلاک کرنے اور کسی چیز کو توڑنے دینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گا ر تھیں ہلاک کر مارا ۔ یعنی انہیں توڑ مروڑ کر ریزہ ریزہ اور ہلاک کردیا ۔ اور ہلاکت کو قاصمۃ الظھر کہا جاتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى [ القصص/ 59] اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے ۔ القصم وہ آدمی جو ہر مقادمت کرنے والے کو توڑ ڈالے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) اور ہم نے بہت سی بستیاں جہاں کے رہنے والے کافر و مشرک تھے برباد کردیں اور ان کی ہلاکت کے بعد دوسری قومی پیدا قوم پیدا کردی جو ان کی بسیتوں میں آباد ہوگئی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً ) ” ان کے باسی گنہگار ‘ سرکش اور نافرمان تھے۔ چناچہ انہیں سزا کے طور پر نیست و نابود کردیا گیا۔ (وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ) ” جیسے قوم نوح ( علیہ السلام) کے بعد قوم عاد کو موقع ملا اور قوم عاد کے بعد قوم ثمود نے عروج پایا اور اسی طرح یہ سلسلہ آگے چلتا رہا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :13 یعنی جب عذاب الہٰی سر پر آگیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ آ گئی شامت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٥:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قریش کی مشاورتوں کا ذکر فرمایا تھا اور ان کو جو شب ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں تھے اس کے جواب دیئے تھے اور قیامت اور حساب و کتاب کا وقت قریب آن لگنے سے ان کو ڈرایا تھا۔ ان آیتوں میں حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ تک جو لوگ اور بستیاں رسولوں کی مخالفت کے سبب سے غارت ہوگئی تھیں ‘ ان کا ذکر فرمایا ہے تاکہ قریش کو عبرت ہو کر رسولوں کی مخالفت کا نتیجہ ان کے حق میں بھی یہی پیش آوے گا جو پچھلی امتوں کو پیش آیا ‘ پچھلی قومیں جو ہلاک ہوئیں ‘ ان قوموں میں سب سے آخری جس قوم کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ وہ اللہ کا عذاب دیکھ کر بھاگے اور بھاگتے وقت ان سے کہا گیا کہ اب کیوں بھاگتے ہو جن مکانوں میں عیش و آرام کرتے تھے وہیں کیوں نہیں ٹھہرتے ‘ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مردویہ میں اس قصہ کی پوری تفصیل مجاہد کے قول کے موافق ہے ١ ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیانی زمانہ میں یمن کے ملک میں ایک شعیب ( علیہ السلام) نام کے نبی تھے ‘ جب ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور شہید کر ڈالا ‘ تو بخت نصر نے اس قوم کے اوپر چڑھائی کی ‘ اس وقت دو دفعہ تو یہ یمن کے لوگ بخت نصر کی قوم پر غالب ہوئے جب تیسری دفعہ بخت نصر بابلی اپنی ذات سے بڑی بھاری فوج لے کر آیا ‘ اس وقت یہ یمنی لوگ بھاگے اور فرشتوں نے طعن کے طور پر ان یمنی لوگوں سے یہ کہا کہ اب کیوں بھاگتے ہو اپنی آرام گاہوں میں اب کیوں نہیں ٹھہرتے اور اس طعن کے بعد فرشتوں نے بابلی لوگوں کے سامنے ان یمنی لوگوں کو گھیرا اور سب قتل ہوگئے۔ قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونے کے بعد یا موت کا یقین ہوجانے کے بعد یا عذاب الٰہی آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد کوئی ایمان لائے یا توبہ کرے تو ایسے آخری وقت کا ایمان اور آخری وقت کی توبہ قبول نہیں ہے کیونکہ ایسے وقت پر آدمی کے ذمہ شریعت کی پابندی باقی نہیں رہتی اس لیے ان یمنی لوگوں نے فرعون کی طرح آخری وقت پر ایمان لانے کا جو اقرار کیا ‘ وہ اقرار کام نہ آیا۔ رہا حضرت یونس ( علیہ السلام) کی قوم کا آخری وقت کا ایمان اس کا جواب خود صحاب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دے دیا ہے کہ ان کا ایمان عذاب کے خوف سے مجبوری کے طور پر نہیں تھا ‘ بلکہ خود ان کی خالص نیت ایمان لانے کی سچے طور پر ہوگئی تھی ‘ اس نیت کی قدر فرمائی اور ان کا آخری وقت کا ایمان قبول فرما لیا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے ٢ ؎ اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے یہ حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت یونس ( علیہ السلام) کی قوم کے آخری وقت کے ایمان کے قبول ہونے کا سبب صراحت سے فرمایا ہے ‘ یہ شعیب مدین والے شعیب نہیں ہیں بلکہ یہ انبیائے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ کے بعد ایک اور شعیب ہیں ‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ٣ ؎۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے قریب جب سورج مغرب سے نکلے گا تو پھر کسی کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے ٤ ؎۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موت کے قریب جب سانس اکھڑ کر خراٹا لگ جاتا ہے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی ‘ اوپر یہ جو گزرا کہ قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوجانے کے بعد یا موت اور عذاب کا یقین ہوجانے کے بعد انسان کے ذمہ شریعت کے حکم کی پابندی باقی نہیں رہتی ‘ اس واسطے ایسے وقت کو توبہ قبول نہیں ‘ اسی واسطے ان یمنی لوگوں کی آخری وقت کی توبہ قبول نہیں ہوئی ‘ ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ قصم کے معنی کسی چیز کے توڑ ڈالنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ بابلی لوگوں نے ان یمنی لوگوں کو ایسا مارا کہ ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ آگے کو لڑنے کی ہمت نہ رہی ‘ اور شکست کھا کر بالکل ہلاک ہوگئے ‘ چوپائے جانوروں کے قدموں کی آواز کو رکض کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ اپنی سواریوں پر سوار ہو کر بھاگے تھے لعلکم تسلمون اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ بڑے صاحب ثروت کہلاتے تھے۔ اب بھاگتے کیوں ہو ‘ اپنے اپنے گھروں کو جاؤ ‘ شاید تمہارے دوست آشنا ‘ نوکر چاکر ‘ روپیہ پیسہ خرچ کرنے اور اس عذاب کے ٹالنے کی تم سے کوئی تدبیر پوچھیں ‘ یہ بات بھی فرشتوں نے ان لوگوں کے شرمندہ کرنے کے لیے کہی تھی حصیدا خامدین اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بالکل کٹ گئے اور بجھی ہوئی آگ کی طرح بالکل ٹھنڈے اور دہم ہو کر رہ گئے۔ ١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣١٤ ج ٤۔ ٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣١٧۔ ٣١٨ ج ٣ سورة یونس۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعتہ۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ۔ باب الاستغفار والتوبہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:11) قصمنا۔ قصم یقصم (ضرب) قصم سے ماضی جمع متکلم۔ القصم کے معنی کسی چیز کو توڑ دینے اور ہلاک کردینے کے ہیں۔ قصم اللہ ظھر الظالم خدا ظالم کی کمر توڑ دے قاصمۃ الظھر پشت کو توڑ دینے والی مصیبت۔ کم قصمنا من قریۃ کانت ظالمۃ۔ ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ستمگار تھیں ہلاک کردیا۔ یعنی ان کو توڑ موڑ کر ریزہ ریزہ اور ہلاک کردیا۔ انشانا۔ انشاء سے ماضی جمع متکلم ہم نے پیدا کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٢) اسرارومعارف اور کتنی بستیاں تھیں جو ان سے پہلے ایسے ہی افعال پر اور ان جیسے کردار کے باعث تباہ کردی گئیں اور معمورہ عالم آباد بھی رہا ان کی جگہ اور پیدا کردیے ان ظالموں نے بھی عذاب کو واقع ہوتے دیکھا تب یقین آیا اور لگے بھاگ بھاگ کر جان بچانے مگر اللہ جل جلالہ کی گرفت سے کون بھاگ سکتا ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے مت بھاگو اپنے مکان اور عیش و عشرت کو کیوں چھوڑتے ہو آج اپنے ہمدرد تلاش کرو مگر وہ کہتے تھے کہ ہماری بدبختی کہ ہم نے ظلم کا راستہ اختیار کیا اور یونہی شور مچاتے رہے کہ عذاب الہی نے پیس کر رکھ دیا جیسے کٹے ہوئے کھیت ہوں یا بجھی ہوئی آگ ، بعض مفسرین کرام نے یمن کی بستیاں مراد لی ہیں مگر کتاب اللہ میں عمومی طور پر فرمایا گیا ہے ، لہذا روئے زمین پر جگہ جگہ ایسے ویرانوں کے نشان عبرت کا سامان بنے ہوئے ہیں ۔ یہ زمین وآسمان اور اس کا اس قدر خوبصورت اور صحیح ترین نظام ہم نے محض کھیل تماشے کو تو پیدا نہیں کردیا اگر مشغلہ ہی بنانا ہوتا تو اپنی شان کے لائق بناتے خالق ازلی وابدی کو بھلا فانی اور عاجز مخلوق سے کیا مشغلہ بلکہ یہ اتنا بڑا نظام اس میں زندگی اور موت ہر ایک کا رزق اور موت ہر ایک کا رزق رنگا رنگ پھول اور طرح طرح کے میوے ، سورج چاند ستارے اور رات دن کی آمد ورفت ، موسموں کا آنا جانا اور پھر ہر شے میں ایک خوبصورت نسبت اور متعین اندازہ اس کی عظمت شان پر دلالت کرتا ہے اور یہ سب اس کی معرفت اور پہچان کا ذریعہ ہیں بلکہ انھیں باطل پہ اکڑنا بھی نہ چاہیے کہ ہر شے کی ایک حد ہے باطل بھی جب بڑھنے لگتا ہے تو اس کے مقابل حق کو کھڑا کردیا جاتا ہے عبادت کرنے والے ہیں کبھی اس کی بارہ گاہ میں سر نہیں اٹھاتے اور نہ اطاعت سے نکلتے ہیں شب وروز اللہ جل جلالہ کی اطاعت پر کمر بستہ ہیں کبھی سستی تک نہیں کرتے اگر اس کی اولاد ہوتی تو وہ بھی اس جیسی صفات کی مالک ہوتی یعنی عبادت کی مستحق نہ کہ عبادت کرنے والی یا جن کو زمین پر سے انسانوں یا جنوں یا بتوں کو معبود مانتے ہیں کیا وہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں ہرگز نہیں تو پھر وہ کس بات پر انہوں نے معبود بنا رکھے ہیں کیا اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ایک کی جگہ دو معبود بھی ہوتے تو یہ نظام چل نہ پاتا بلکہ تباہ ہوچکا ہوتا کہ ایک کچھ کرتا اور دوسرا کچھ اور مگر ہر شے اس سلیقے سے اپنا اپنا کام اپنے اپنے وقت پر کر رہی کہ پتہ دیتی ہے یہ کسی ایک ہستی کے سب غلام ہیں ، اللہ جل جلالہ ان کی سب خرافات سے پاک ہے اور عرش کا مالک ہے کہ عرش تمام نظام عالم کا ایک مرکز اور سیکرٹریٹ ہے جس کا وہ اکیلاحاکم ہے گویا سب نظام اسی ایک ذات کے حکم کے تابع ہے ۔ وہ حاکم مطلق ہے جو چاہے کرے کوئی اس سے پرسش نہیں کرسکتا اور باقی ساری مخلوق اس کے حضور جوابدہ ہے لہذا ساری مخلوق اس کی فرمانبردار ہے جو کوتاہی کرے گا اسے جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے گا اگر یہ اس کے علاوہ کسی اور کو معبود تسلیم کرتے ہیں تو ان سے کہیے اس بات پر کوئی دلیل پیش کریں کہ آپ تو دلائل پیش کر رہے ہیں ، پھر کیا یہ دلیل کم ہے کہ آپ کے پاس اللہ جل جلالہ کی کتاب ہے اور ان سے کہیے کہ یہ کتاب بھی اور جس قدر کتب اس سے پہلے نازل ہوئیں سب کو دیکھ لیں سب اللہ ہی کو معبود برحق منوانے پر دلائل دے رہی ہیں مگر ان کی مصیبت جہالت بھی ہے کہ ان کی اکثریت حق بات کو تو سمجھتے نہیں اور محض منہ پھیر کر چل دیتے ہیں ورنہ تمام انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقدس جماعت ہی اعلان کرتی رہی اور ہم نے سب پر یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے علاوہ کوئی عبادت کا حق نہیں رکھتا لہذا صرف اور صرف میری عبادت کرو مگر کفار کہتے رہے کہ فلاں اللہ جل جلالہ کا بیٹا ہے جیسے یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ جل جلالہ کا بیٹا قرار دیا اللہ جل جلالہ ان باتوں سے پاک ہے اور بہت بلند ہے بلکہ یہ سب اللہ جل جلالہ کے مقرب اور معزز بندے ہیں ۔ (عبادت میں خلوص ہو تو اللہ جل جلالہ کی خشیت پیدا کرتی ہے اور بندہ عبادت پہ اکڑتا نہیں) فرشتے ہوں یا نبی سب اس کی مخلوق ہیں جو کبھی اس کی اطاعت اور عبادت سے سرتابی نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ تعمیل ارشاد پہ کمر بستہ رہتے ہیں اللہ جل جلالہ تو سب کے اگلے پچھلے تمام احوال سے واقف ہے وہ تو سفارش بھی صرف ان لوگوں کی کریں گے جن کی سفارش کرنے کی اللہ جل جلالہ نے اجازت دی ہے یعنی مومنین کی یہ کفار تو ان کی شفاعت سے بھی محروم رہیں گے اور اپنی تمام تر پارسائی اور عبادت گذاری کے باوجود اللہ جل جلالہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس کی بلند شان کے سامنے لرزاں وترساں رہتے ہیں یعنی بغیر اجازت بڑھ کر بات کرنے کی بھی نہیں سوچتے اور اگر انتہائی مقرب بندوں میں سے بھی بفرض محال کوئی کہہ دے کہ میں عبادت کا مستحق ہوں میری عبادت کی جائے تو اسے جہنم کی سزا دی جائیگی کہ اللہ کی قدرت سے وہ بھی بالاتر نہیں ہے اور ہر ظالم کو ایسے ہی سزا دی جاتی ہے یعنی ان مقدس ہستیوں سے ایسی بات کا کوئی تصور بھی نہیں لیکن اگر وہ بھی ایسا کریں تو گرفت میں آجائیں گے چہ جائیکہ کفار غیر اللہ کی عبادت پہ لگے ہوئے ہیں جو بہت بڑا ظلم ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 20 قصمنا (قصم) ہم نے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ظالمۃ ظلم و زیادتی، بدکاری کرنے والی۔ انشانا ہم نے اٹھا کھڑا کیا۔ باس عذاب یرکضون وہ بھاگتے ہیں۔ اترفتم تمہیں راحتیں /آسائشیں دی گئیں۔ یویلنا اے ہماری بد نصیبی، بدبختی۔ ما زالت ہمیشہ۔ حصید کٹی ہوئی کھیتی۔ خامدین بجھنے والے، راکھ ہوجانے والے۔ لھو کھیل، کھلونا۔ نقذف ہم پھینک مارتے ہیں۔ ضرب لگاتے ہیں۔ یدمغ (دمغ) دماغ نکال دینا، سرپھوڑ دینا۔ زاھق (زھوق) مٹج انے والا۔ لایستحسرون وہ نہیں تھکتے۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 20 ابتدائے کائنات سے آج تک اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا ہے کہ حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان جنگ میں فتح و نصرت اہل حق کو ہی حاصل ہوئی ہے۔ باطل پرستوں نے ہمیشہ اس دنیا اور اس کے عیش و آرام کو سب کچھ سمجھ کر حق و صداقت اور سچائیوں سے منہ پھیرنے اور آخرت سے غفلت کو اپنی کامیابی قرار دیا ہے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ کائنات خود بخودپیدا ہوگئی ہے جو اپنی فطرت اور مزاج کے لحاظ سے جس طرح چلتی آرہی ہے اسی طرح ختم ہو جائیگی۔ نہ اس کائنات کا کوئی خلاق ہے اور نہ اس کا بنایا ہوا بالاتر کوئی قانون ہے جس کی پابندی کرنا لازمی اور ضروری ہو۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو اس بات کو تو مانتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔ وہی اس کو چلاتا ہے لیکن کائنات کے چلانے میں وہ انسانوں کی طرح محتاج ہے۔ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیز (علیہ السلام) اس کے بیٹے ہیں (نعوذ باللہ) کچھ وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کا خلاق ایک بالاتر ہستی کو مانتے ہیں مگر انہوں نے اپنے معبودوں کے فرضی بت بنارکھے ہیں جن کے متعلق ان کا یہ خیال ہے کہ جب تک وہ ان کی سفارش نہ کریں گے اس وقت تک اللہ ان کی کسی بات کو نہ تو سنے گا اور نہ پورا کرے گا۔ غرضیکہ دنیا میں اس طرح کے ذہن و فکر رکھنے والے لوگوں نے اللہ کی ہستی کے عجیب عجیب تصورات قائم کر رکھے ہیں۔ قرآن کریم میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ ہے جو اس کا خلاق بھی ہے اور مالک بھی ہے وہی اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے اور وہ اس کے چلانے میں کسی طرح کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اس بات کو اللہ کے نبی اور رسول آ کر دنیا والوں کو بتاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ عظیم کتاب دے کر بھیجا جس میں کفار و مشرکین کے غلط عقائد اور افکار کی اصلاح فرمائی گی ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے قوانین کی پابندی کی اللہ نے انہیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں عطا فرمائیں لیکن جنہوں نے کفر و شرک اور نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا ان کو طویل مدت تک سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع دے کر مسلسل نافرمانیوں کے بعد ان کو تہس نہس کردیا گیا۔ اللہ کے اس عذاب کے آنے کے بعد ان کی ساری ترقیاتی اور تمدن اور تہذیب کو کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ جب اللہ نے باطل پر حق کی ضرب لگائی تو اس قوم کا اور باطل کا بھیجا بھی باہر آگیا اور وہ قوم اپنے وجود تک کو نہ بچا کسی ۔ انہیں باتوں کو اللہ نے ان آیات میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ نے کفر و شرک اور ظلم اور ستم کرنے والی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا اور ان کی جگہ دوسروں کو اٹھا کر ان کو عظمت سے ہمکنار کردیا۔ جب ان لوگوں کو اللہ کے عذاب کی بھنک پڑی تو انہوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا کیونکہ ان کو اپنا عیش و آرام چھوٹتا ہوا نظر آ رہا تھا تو اللہ نے فرمایا کہ اب تم اس عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ اب اگر تم اپنے عیش و آرام کی طرف لوٹ جاؤ تب بھی شاید ہی کوئی تمہارا پرسان حال ہو۔ فرمایا کہ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ ہم کتنے بدنصیب لوگ ہیں۔ کاش ہم اس سے پہلے اس بات کو سمجھ جاتے مگر ان کی پکار کو سننے والا کوئی بھی نہ ہوگا۔ اور اسی حالت میں ان کو کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ فضول یا کھیل تماشا نہیں ہے۔ اگر ہمیں کھلونا بنانا ہوتا تو پھر تمہیں کیوں پیدا کیا جاتا ہم ہی اس سے کھیل لیتے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہی ہے وہ جب چاہتا ہے حق کی ایک ہی ضرب سے باطل کا بھیجا نکال کر رکھ دیتا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف انسان ہے جس پر اللہ نے بےپناہ انعامات فرمائے ہیں یہاں تک کہ فرشتوں کو بھی انسان کے قدموں میں جھکادیا گیا دوسری طرف فرشتے ہیں جو ہر آن اس کے ہر حکم کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں اور ذرا بھی سرکشی اختیار نہیں کرتے۔ دن رات ان کا ایک ہی مشغلہ ہے کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے رہتے ہیں اور وہ اللہ کی عبادت اور بندگی اور اس کے حکم کو پورا کرنے میں ذرا سستی نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے کہ اگر اسے دنیا کی ذرا سی راحت و آرام اور عیش و سہولت مل جاتی ہے تو اللہ کی ذات کو بھول کر اس کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ لیکن اللہ کے فرشتے وہ ہیں جن کو اللہ نے ہر طرح کی طاقتیں عطا کی ہیں اس کے باوجود وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اس کے سامنے ادب و احترام سے جھکے رہتے ہیں اور اسی کی حمد وثناء میں مشغول رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر الزام لگائے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کا انکار کیا ان کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کیا جن کے رہنے والے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں ظلم کرنے والے تھے۔ انھیں تباہ و برباد کرکے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ قوموں کی تباہی اور دوسری اقوام کو لانے کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جمع کی ضمیر (ہُمْ ) استعمال فرمائی ہے۔ جس کا مقصد جلالت و جبروت کا اظہار کرنا ہے۔ چناچہ جب ظالم لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب کا مظاہرہ کیا اور ظالموں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارا بچنا مشکل ہے تو وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ انہیں کہو بھاگنے کی بجائے اپنے مال و دولت، عیش و عشرت اور محلات میں ٹھہرے رہو تاکہ تمہاری اچھی طرح پوچھ گچھ کی جاسکے۔ پوچھ گچھ سے مراد وہ عذاب ہے جس میں وہ مبتلا کیے گئے۔ گویا کہ انھیں ان کے مال و دولت سمیت تباہ کردیا گیا۔ جن محلات اور مکانات میں رہتے تھے وہی ان کے لیے قبرستان بن گئے۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس بات کا اقرار کرتے رہے کہ ہم پر ظلم نہیں ہوا بلکہ ہم خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ان کے اقرار کے باوجود۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ریزہ ریزہ کردیا جس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی۔ اس حالت میں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ تھا، باوجود اس کے وہ آہ وزاریاں کررہے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب کسی قوم پر نازل ہوتا تو انھیں بھاگنے کی مہلت نہیں ملتی۔ ٢۔ ہلاک ہونے والے لوگ اپنے جرائم کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ ٣۔ جس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو وہ راکھ کے ڈھیر کی مانند ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ کے عذاب کے وقت ظالموں کی حالت : ١۔ کیا وہ بےفکر ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب یا قیامت اچانک آلے اور انہیں معلوم بھی نہ ہو۔ (یوسف : ١٠٧) ٢۔ ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بیخبر تھے۔ ( الاعراف : ٩٥ ) ٣۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں معلوم نہ ہوگا۔ (العنکبوت : ٥٣ ) ٤۔ اللہ جب مصیبت نازل کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ کوئی اسے بچانے والا ہوتا ہے۔ (الرعد : ١١) ٥۔ ” اللہ “ کے عذاب سے ظالموں کو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ (الرعد : ٣٤) ٦۔ ” اللہ “ نے ظالموں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ ( المومن : ٢١) ٧۔ ” اللہ “ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٨۔ ” اللہ “ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکم قصمنا من قریۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصیدا خمدین (١١ تا ٥١) ” قصم کا مفہوم ہے شدت سے کاٹنا ‘ اس لفظ کی آواز کی شدت بھی اس کے ملسوم کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لفظ کے تلفظ ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم بستیوں کو بڑی شدت اور سختی سے اس طرح توڑا پھوڑا گیا کہ ان کا وجود ہی ختم کردیا گیا اور ان کی حالت یہ ہوگئی کہ ان کو پیس کر رکھ دیا گیا۔ وانشانا ۔۔۔۔۔۔۔ اخرین (١٢ : ١١) ” اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایا “۔ یہاں قصم کا فعل بستیوں پر وارد ہوتا ہے اور بستیوں اور ان کے باشندوں سب کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے لیکن انشا کا فعل صرف قوم پر وارد ہوتا ہے ‘ پہلے قوم پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ بستیاں آباد کرتی ہے۔ یہ تو ہے تو حقیقت واقعہ کہ تباہی بستیوں پر آتی ہے اور اس میں آبادی بھی ہلاک ہوجاتی ہے۔ اور جب اٹھایا جاتا ہے تو پہلے اقوام کو اٹھا یا جاتا ہے اور وہ پھر بستیاں آباد کرتی ہیں لیکن جس انداز میں ‘ ایک منظر کی شکل میں ہلاکت و بربادی کو پیش کیا گیا ہے ‘ یہ قرآن کریم کا مخصوص فنی اسلوب ہے۔ جب یہ تباہی آتی ہے تو اس میں لوگوں کا منظر بھی بڑا عجیب ہے۔ ان کی حالت یوں ہوتی ہے جس طرح پنجرے میں چوہے بند ہوجاتے ہیں ‘ جب تک وہ ہلاک نہ کردیئے جائیں ‘ وہ پنجرے کے اندر ادھر ادھر بھاگتے ہی رہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہلاک ہونے والی بستیوں کی بدحالی ان آیات میں منکرین اور مکذبین کو عبرت دلائی ہے اور پرانی بستیوں کی ہلاکت بتا کر یاد دہانی فرمائی ہے کہ تم سے پہلے کتنی ہی بستیاں تھیں جو ظلم کرتی تھیں۔ یہ ظلم کفر و شرک اختیار کرنے کی وجہ سے تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہم نے انہیں تباہ کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری قوم پیدا کردی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ عذاب آ رہا ہے تو وہاں سے دوڑ کر جانے لگے۔ ان سے کہا گیا کہ مت دوڑو۔ تم جس عیش و عشرت میں لگے ہوئے تھے اور جن گھروں میں رہتے تھے انہیں میں واپس آجاؤ تاکہ تم سے پوچھا جائے کہ تم جس ساز و سامان اور جن مکانوں پر گھمنڈ کرتے تھے اور اتراتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ کہاں ہے جائے پناہ اور کہاں ہے حفاظت کی جگہ ؟ جب عذاب آ ہی گیا تو کہنے لگے ہائے ہماری کمبختی ! ہم ظالم تھے ! کیونکہ عذاب آجانے کے وقت توبہ کرنا اور ظلم کا اقرار کرنا کچھ مفید نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ لوگ اپنی یہی بات کہتے رہے کہ ہائے ہائے ہم ظالم تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بجھی ہوئی حالت میں کردیا۔ لفظ قصمنا کا اصل معنی توڑ دینے کا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ تکلیف کو قاصم الظھر کمر توڑنے والی کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ لفظ لا کر ہلاک شدہ بستیوں کی پوری طرح تباہی بیان فرمائی ہے۔ اور رکض گھوڑے کے پاؤں مارنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جب گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑنا شروع کرتے ہیں اور اسے ایڑی مارتے ہیں۔ اس لفظ کو بھاگ جانے کے لیے استعمال فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ” قَصَمْنَا اي اھلکنا “ یعنی ہلاک کردیا ہم نے۔ ” ظالمة “ یعنی شرک کرنے والی۔ ” فَلَمَّا اَحَسُّوْا بَاسَنَا “ ان قوموں کے پاس ہمارے پیغمبر آئے تو انہوں نے ان کی پرواہ نہ کی اور ان کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کردیا۔ پھر جب ہمارا عذاب آپہنچا تو لگے بھاگنے۔ ” لَاتَرْکُضُوْا الخ “ ہم نے کہا اب بھاگو مت۔ بلکہ اپنے اموال و اولاد، باغات اور محلات کی طرف واپس آؤ۔ تاکہ آج جو کچھ تم پر گذرے گا۔ اس کے بارے میں کل تم سے پوچھا جائے گا اور تم اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرسکو۔ یہ ان سے بطور استہزاء کہا گیا۔ لعلکم تسئلون غدا عما جری علیکم ونزل باموالکم فتجیبوا السائل عن علم ومشاھدۃ (مدارک ج 3 ص 57) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو جو ظالم تھیں یعنی جن کے رہنے والے ظالم تھے ہلاک کر ڈالا اور چورا چورا کردیا اور ان بستیوں کو ہلاکت کے بعد ہم نے دوسرے لوگوں کو پیدا کردیا۔ یعنی ظالموں اور کافروں کو مٹا کر ان کی جگہ دوسروں کو پیدا کردیا۔