Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 13

سورة الأنبياء

لَا تَرۡکُضُوۡا وَ ارۡجِعُوۡۤا اِلٰی مَاۤ اُتۡرِفۡتُمۡ فِیۡہِ وَ مَسٰکِنِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡئَلُوۡنَ ﴿۱۳﴾

[Some angels said], "Do not flee but return to where you were given luxury and to your homes - perhaps you will be questioned."

بھاگ دوڑ نہ کرو اور جہاں تمہیں آسودگی دی گئی تھی وہیں واپس لوٹو اور اپنے مکانات کی طرف جاؤ تاکہ تم سے سوال تو کر لیا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ ... Flee not, but return to that wherein you lived a luxurious life, and to your homes, This is a way of ridiculing them. It will be said to them by way of ridicule: "Do not run away from the coming torment; go back to the delights and luxuries and fine homes in which you were living." Qatadah said, "Mocking th... em." ... لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ in order that you may be questioned. about whether you gave thanks for what you had. قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔ 13۔ 2 یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔ 13۔ 3 اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جا... ئے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی ؟ یہ سوال بطور خیال اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے ؟  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] یعنی اب اپنی مجالس کی مسندوں پر کیوں براجمان نہیں ہوتے۔ تاکہ لوگ آپ کے سامنے اپنی درخواستیں پیش کریں۔ اپنے مسائل حل کروائیں۔ آپ سے مشورے کریں۔ آپ کی رائے پوچھیں۔ اب کہاں جاتے ہو یہیں بیٹھو اور کچھ نہیں تو کم از کم بعد میں آنے والوں کو یہی بتلا دینا کہ تم پر عذاب الٰہی کیسے آیا تھا ؟ اور کس کس ... قسم کے حالات پیش آئے تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِيْهِ ۔۔ : یعنی ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ انھیں کہا جائے یا فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ بھاگو نہیں، بلکہ ان جگہوں کی طرف جن میں تمہیں خوشحالی دی گئی تھی اور اپنے گھروں کی طرف واپس آؤ، تاکہ تم سے پوچھا جائے کہ ان تمام نعمتوں کی تم نے کیا قدر کی ؟ ایک مع... نی یہ ہے کہ اپنی انھی مجلسوں میں دوبارہ واپس آؤ، تاکہ پہلے کی طرح تمہارے نوکر چاکر ہاتھ باندھ کر تم سے سوال کریں کہ سرکار کیا حکم ہے ؟ تیسرا معنی یہ ہے کہ بھاگو نہیں، بلکہ اپنی وہی پہنچایتیں اور کونسلیں جما کر بیٹھو، تاکہ لوگ اپنے مسائل کا حل تم سے پوچھنے کے لیے آئیں اور مانگنے والے تم سے مانگنے کے لیے آئیں، جنھیں تم فخر و ریا کے لیے دیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ سب کچھ انھیں ڈانٹنے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِيْہِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــَٔـلُوْنَ۝ ١٣ ركض الرَّكْضُ : الضّرب بالرِّجْل، فمتی نسب إلى الرّاكب فهو إعداء مرکوب، نحو : رَكَضْتُ الفرسَ ، ومتی نسب إلى الماشي فوطء الأرض، نحو قوله تعالی: ارْكُضْ بِرِجْلِكَ [ ص/ 42] ، وقوله : لا تَرْكُض... ُوا وَارْجِعُوا إِلى ما أُتْرِفْتُمْ فِيهِ [ الأنبیاء/ 13] ، فنهوا عن الانهزام . ( ر ک ض ) الرکض اس کے اصل معنی ٹانگ کو حرکت دینے کے ہیں اگر سوار کے متعلق بولا جائے جیسے : ۔ رکضت الفرس تو اس کے معنی گھوڑے کو تیز دوڑانے کے لئے ایڑھ لگانا کے ہوتے ہیں اور پیادہ پا آدمی کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی پاؤں کے ساتھ زمین کو روندنا کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ [ ص/ 42] یعنی ٹانگ زمین پر مارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلى ما أُتْرِفْتُمْ فِيهِ [ الأنبیاء/ 13] مت بھاگو اور سازو سامان ( دنیا کی ) طرف لوٹ جاؤ جس میں تم چین کرتے تھے ۔ میں انہیں شکست خوردہ ہو کر بھاگنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ( اور یہ نہی تہدید اور تعجیز کے لئے ہے ) رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) فرشتوں نے ان سے کہا بھاگو مت اور اپنے سامان عیش کی طرف اور اپنے مکانوں کی طرف واپس چلو، شاید تم میں سے کوئی ایمان لانے کے بارے میں یا نبی (علیہ السلام) کے قتل کرنے کے بارے میں پوچھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (لَا تَرْکُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰی مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْہِ وَمَسٰکِنِکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْءَلُوْنَ ) ” ( شاید وہاں تمہیں اپنا کوئیُ پرسان حال یا خبر گیری کرنے والا مل جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. This is a very meaningful sentence. It may mean: (1) Examine this scourge minutely so that if someone asks you about it, you may be able to give an accurate account of it. (2) Hold your grand meetings as usual. Perhaps your servants may come with folded hands before you to receive orders. (3) Hold your councils as before, perhaps people may still come to ask for your wise counsels.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :14 نہایت معنی خیز فقرہ ہے اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ، مثلاً ، ذرا اچھی طرح اس عذاب کا معائنہ کرو تاکہ کل کوئی اس کی کیفیت پوچھے تو ٹھیک بتا سکو ۔ اپنے وہی ٹھاٹھ جما کر پھر مجلسیں گرم کرو ، شاید اب بھی تمہارے خدم و حشم ہاتھ باندھ کر پوچھیں کہ حضور کیا حکم ہ... ے ۔ اپنی وہی کونسلیں اور کمیٹیاں جمائے بیٹھے رہو ، شاید اب بھی تمہارے عاقلانہ مشوروں اور مدبرانہ آراء سے استفادہ کرنے کے لیے دنیا حاضر ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یہ بات اُن سے طنز کے طور پر کہی گئی۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے عیش و عشرت میں منہمک تھے تو تمہارے نوکر چاکر تم سے پوچھا کرتے تھے کہ ’’کیا حکم ہے؟‘‘ اب ذرا اپنے گھروں میں واپس جا کر دیکھو، شاید تمہارے نوکر چاکر تم سے تمہارا حکم پوچھیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اب نہ تمہیں اپنے گھروں کا کوئی نشان ملے ... گا، نہ عیش و عشرت کے سامان کا، اور نہ ان نوکروں کا جو تمہارے احکام کے منتظر رہا کرتے تھے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:13) لا ترکضوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر، مت بھاگو۔ اترفتم۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ تمہیں عیش دیا گیا۔ تم نازو نعمت میں پالے گئے۔ اتراف (افعال) مصدر۔ الی ما اترفتم فیہ۔ اس حالت تعیش کی طرف جہاں تمہیں خدا نے نعمتیں، مال وزر زن و فرزند۔ و دیگر سامان تعیش دے رکھا تھا۔ یہ فقرہ طنزا کہا گیا ہے کہ اب ج... و تمہاری ناشکری اور کرتوتوں کی وجہ سے عذاب آیا ہے تو بھاگتے کیوں ہو ؟ جائو نا وہیں جا کر عیش لوٹو اور حکومت چلائو تاکہ تم سے تمہاری بربادی اور سزا و عذاب کے متعلق لوگ پوچھیں کہ بایں انعام و اکرام یہ تم عذاب میں کیوں مبتلا کئے گئے اور پھر تم اپنی کرتوتوں کا جواب دو ۔ قالوا۔ ای لمایئسوا من الخلاص بالھرب والقینوا استیلاء العذاب یعنی جب وہ بھاگ کر بھی خلاصی پانے سے مایوس ہوگئے اور غلبہ عذاب کا ان کو یقین ہوگیا تو پکارنے لگے یویلنا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی شاید کوئی تم سے از راہ ہمدردی پوچھے کہ کیا گزری ؟ اور تم اپنے چشم دید حالت بتاسکو یا شاید تمہارے نوکر چاکر تمہارے سامنے ہاتھ باندھ کر دریا قنط کریں کہ حضور فرمایئے کیا حکم ہے ؟ اور تم پہلے کی طرح اپنے ڈیرے اور مجلسیں جمائو اور لوگ مہمات میں تمہارے مشوروں سے مستفید ہونے کے لئے حاضر ہوں۔ بہرح... ال یہ ان سے تہکم اور توبیخ کے طور پر کہا جا رہا ہے (کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مقصود اس سے تعریض ہے کہ نہ وہ سامان رہا نہ مکان رہا، نہ کسی ہمدرد کا نشان رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لاترکضوا وارجعوآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسئلون (١٢ : ٣١) ” بھاگو نہیں ‘ جائو اپنے انہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کررہے تھے ‘ شاید کہ تم سے پوچھا جائے گا “۔ یہ تو تمہارا گائوں ہے اس سے مت بھاگو۔ اس کے اندر وہ سب سازو سامان ہے اور اس کے اندر تمہارے وہ مسکن ہیں ‘ جن میں تم عیش پرستیاں کرتے ت... ھے۔ واپس ہو جائو شاید کہ تم سے پوچھا جائے کہ تم نے یہ دولت کن امور میں خرچ کی۔ اس سوال کا وہ جواب کیا دیں ؟ یہ تو ان کے ساتھ ایک سنجیدہ مذاق تھا۔ اب ذرا تھکتے ہیں تو اب ان کو سمجھ آتی ہے کہ عذاب الٰہی نے تو انہیں گھیر لیا ہے اور اب یہ بھگدڑ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ یہ دوڑ انہیں دائرہ عذاب سے باہر نہیں ناکل سکتی تو اب وہ بدل جاتے ہیں ‘ جرم کا اعتراف کرتے ہیں ‘ توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ قالوا یویلنآ انا کنا ظلمین (١٢ : ٤١) ” ہائے ہماری کم بختی ‘ بیشک ہم خطا کار تھے “۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ‘ اب تو مہلت کی گھڑی ختم ہوچکی ہے۔ اب تو وہ جو چاہیں کہتے رہیں۔ اب یہ لوگ مرنے تک اقرار جرم کرتے رہیں ‘ توبہ کرتے رہیں۔ کوئی فائدہ نہ ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لاَتَرْکُضُوْا) جو فرمایا اس سے پہلے قیل لھم حذف ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ لوگ عذاب دیکھ کر بھاگنے لگے تو ان سے عذاب کے فرشتوں نے یا ان اہل ایمان نے جو وہاں موجود تھے بطور استہزا اور تمسخریوں کہا کہ ٹھہرو کہاں دوڑتے ہو۔ تمہیں تو اپنی نعمت اور دولت عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا۔ اپنے گھروں کو مزین کر ... رکھا تھا اور اونچے اونچے مکان بنا کر فخر کرتے تھے۔ آؤ دیکھو تمہارے مکان کہاں ہیں ؟ تم سے کوئی سوال کرنے والا سوال کرے تو اس کا جواب دو ۔ اب تو ظلم اور عیش و عشرت کا نتیجہ دیکھ لیا۔ بتاؤ کیا انجام ہوا ؟ (حَصِیْدًا خَامِدِیْنَ ) اس میں ہلاک شدہ لوگوں کا انجام بتایا ہے۔ حصید کٹی ہوئی کھیتی کو کہتے ہیں اور خامدین خمود سے مشتق ہے۔ جو بجھنے کے معنی میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ ہلاک ہوئے تو ان کے اجسام کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ جیسے کھیتی کاٹ کر ڈھیر لگا دیا جاتا ہے۔ اور ان کی شوں شاں اور کروفر ایسی ختم ہوگئی جیسے جلتی ہوئی شمعیں بجھا دی جائیں اور آگ جل کر ٹھنڈی ہوجائے اور ذرا بھی روشن نہ رہے۔ قرآن مجید میں یہاں مطلقاً یوں فرمایا ہے کہ ” کتنی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا “ کسی خاص بستی اور خاص علاقہ کا ذکر نہیں ہے اور عبرت دلانے کے لیے یہ اجمال کافی ہے۔ لیکن بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے اہل حضرموت مراد ہے جو یمن کا ایک علاقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک نبی بھیجا تھا۔ انہوں نے اسے جھٹلایا اور قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے انہیں قتل کیا اور قید کیا۔ جب قتل کا سلسلہ جاری ہوا تو پشیمان ہوئے اور بھاگنے لگے تو ان سے کہا گیا (لَا تَرْکُضُوْا وَارْجِعُوْٓا) (الآیۃ) ۔ (معالم التنزیل، ص ٢٤٠، ج ٣)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 ایڑ لگا کر بھاگو نہیں اور اسی سامان عیش کی طرف جو تم کو دیا گیا تھا واپس چلو اور نیز اپنے رہنے کے گھروں کی طرف واپس ہو جائو اور پھر چلو شاید تم سے کچھ پوچھ گچھ کی جائے۔ یہ محض تعریض اور تحکم کے طور پر فرمایا اور نہ سامان عیش اور مکان وغیرہ کہاں رہا۔ یعنی بھاگ کر کہاں چلے واپس ہی اس عیش میں اور پا... نے گھروں میں آ جائو جہاں تم مزے اڑایا کرتے تھے اور خدا کے پیغمبروں کی تکذیب کے مرتکب ہوتے تھے شاید تم سے پوچھا جائے کہ کہو کیا گزری اور وہ س امانت عیش کہاں گیا یا شاید یہ مطلب ہو کہ تم قوم کے بڑے تھے ہر مشورے میں بلائے جاتے تھے اور ہر مجلس میں یاد کئے جاتے تھے واپس جائو شاید تمہارے مشورے اور تمہاری رائے کی کسی کو ضرورت ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی یہ بات ہوئی تو تھی۔ خلاصہ ! یہ ہے یہ ارشاد تہکما ہے۔  Show more