Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 24

سورة الأنبياء

اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ ۚ ہٰذَا ذِکۡرُ مَنۡ مَّعِیَ وَ ذِکۡرُ مَنۡ قَبۡلِیۡ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۙ الۡحَقَّ فَہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۲۴﴾

Or have they taken gods besides Him? Say, [O Muhammad], "Produce your proof. This [Qur'an] is the message for those with me and the message of those before me." But most of them do not know the truth, so they are turning away.

کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ان سے کہہ دو لاؤ اپنی دلیل پیش کرو یہ ہے میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے اگلوں کی دلیل ۔ بات یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے اسی وجہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ الِهَةً قُلْ ... Or have they taken for worship gods besides Him Say: (-- O Muhammad --) ... هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ... Bring your proof. your evidence for what you are saying. ... هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ ... This is the Reminder for those with me, means, the Qur'an. ... وَذِكْرُ مَن قَبْلِي ... ... بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ and the Reminder for those before me. means, the previous Books, unlike what you claim. Each Book was revealed to each Prophet who was sent with the message that there is no god except Allah, but you idolators do not recognize the truth, so you turn away from it. Allah says: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُونِ

حق سے غافل مشرک ان لوگوں نے اللہ کے سوا جن جن کو معبود بنا رکھا ہے ان کی عبادت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ہم جس اللہ کی عبادت کررہے ہیں اس میں سچے ہیں ہمارے ہاتھوں میں اعلیٰ تر دلیل کلام اللہ موجود ہے اور اس سے پہلے کی تمام الہامی کتابیں اسی کی دلیل میں باآواز بلند شہادت دیتی ہیں جو توحید کی موافقت میں اور کافروں کی خود پرستی کے خلاف میں ہیں ۔ جو کتاب جس پیغمبر پر اتری اس میں یہ بیان موجود رہا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں لیکن اکثر مشرک حق سے غافل ہیں اور اللہ کی باتوں سے منکر ہیں ۔ تمام رسولوں کو توحید الٰہی کی ہی تلقین ہوتی رہی ۔ فرمان ہے آیت ( وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ 45؀ۧ ) 43- الزخرف:45 ) تجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں تو خود پوچھ لے کہ ہم نے ان کے لئے اپنے سوا اور کوئی معبود مقرر کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کرتے ہوں؟ اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ہم نے ہر امت میں اپنا پیغمبر بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم سب ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ پس انبیاء کی شہادت بھی یہی ہے اور خود فطرت اللہ بھی اسی کی شاہد ہے ۔ اور مشرکین کی کوئی دلیل نہیں ۔ ان کی ساری حجتیں بیکار ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] پہلے دو دلائل عقلی تھے جو اثبات توحید اور شرک کے ابکال پر پیش کئے گئے تھے۔ اب نقلی دلیل کا ذکر کیا کہ ان سے پوچھو کہ ان معبودوں کے جواز پر تمہارے پاس کوئی نقلی دلیل ہے ؟ اگر ہے تو لاؤ دکھاؤ۔ یہ قرآن بھی موجود ہے۔ جو میرے دور کے لوگوں اور میرے بعد آنے والوں کے لئے الہامی کتاب ہے اور تورات و انجیل بھی موجود ہے جو مجھ سے پہلے کے لوگوں کے لئے راہ ہدایت تھے۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ بات لکھی ہوئی دکھلا دو کہ اللہ نے فلاں فلاں کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کوئی فرمانروا اگر اپنے لئے کوئی نائب یا مددگار یا امیر وزیر مقرر کرتا ہے تو ان کا ریکارڈ بھی اس کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اتنی جاہل ہے کہ ان باتوں کی طرف غور ہی نہیں کرتی۔ بس تقلید اتباء کی گھسی پٹی راہ پر اندھا دھند بھاگے جارہے ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً : یہ بات شرک کے نہایت قبیح اور باطل ہونے کے بیان کے لیے پھر دہرائی۔ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ : اس سے پہلے شرک کے باطل ہونے کی دو عقلی دلیلیں بیان فرمائیں، ایک ” لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ“ اور دوسری ” لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ “ ، اس آیت میں اس کی دو نقلی دلیلیں بیان فرمائیں اور کفار سے مطالبہ فرمایا کہ تم بھی اپنی کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کرو۔ ظاہر ہے کفار کے پاس شرک کی کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی، ان کا سرمایہ محض وہم و گمان اور نفس کی خواہشیں ہیں (سورۂ نجم : ٢٣، ٢٨۔ یونس : ٦٦) یا آبا و اجداد کی تقلید (زخرف : ٢١ تا ٢٤) اور دونوں میں سے کوئی بھی دلیل یا برہان نہیں ہے۔ ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ : یہ توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کی دو نقلی دلیلیں ہیں۔ ” مَنْ مَّعِيَ “ (جو میرے ساتھ ہیں) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے مسلم مراد ہیں اور ان کے ذکر سے مراد قرآن کریم ہے جو اس امت کے لیے نصیحت ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٠ ] ” بلاشبہ یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ذکر (تمھاری نصیحت) ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟ “ ” وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ “ (اور مجھ سے پہلے لوگوں کی نصیحت) سے مراد پہلی امتوں پر نازل ہونے والی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور صحف ابراہیم وغیرہ ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن مجید اور پہلی کتابیں تمہاری دسترس میں ہیں، کسی میں شرک کی کوئی دلیل ہے تو دکھا دو ۔ پہلے پچھلے تمام اہل علم کی شہادت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فرمایا : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ آل عمران : ١٨ ] ” اللہ نے اس بات کی شہادت دی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب ہے، کمال حکمت والا ہے۔ “ قرآن مجید میں کفار سے شرک کی نقلی دلیل پیش کرنے کا مطالبہ کئی آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة احقاف (٣) اور زخرف (٤٥) ۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۙ الْحَقَّ : لفظ ” بَلْ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے سامنے عقلی یا نقلی دلیلیں پیش کرکے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ قبول کرلیں گے، کیونکہ یہ جاہل ہیں اور انھیں حق کا علم ہی نہیں۔ ” وَالنَّاسُ أَعْدَاءٌ لِمَا جَھِلُوْا “ (لوگ جس چیز کا علم نہ رکھتے ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں) ۔ ” اَكْثَرُهُمْ “ سے معلوم ہوا کہ وہ سب ایسے نہیں بلکہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق جانتے ہیں مگر عناد کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اور کچھ ایسے لوگوں کی طرف بھی اشارہ ہے جن کی طبیعتیں حق جان کر اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوچکی ہوتی ہیں، جیسے عمر بن خطاب اور ان جیسے دیگر اصحاب ( رض ) تھے اور ایسے لوگوں کی امید پر ہی داعیان حق کا حوصلہ قائم رہتا ہے۔ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ : اس میں ان کے جہل کا سبب بیان فرمایا کہ وہ حق معلوم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور نہ کسی دلیل پر غور کرتے ہیں، جیسے فرمایا : (وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ) [ یوسف : ١٠٥ ] ” اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے گزرتے ہیں اور وہ ان سے بےدھیان ہوتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

هَـٰذَا ذِكْرُ‌ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ‌ مَن قَبْلِي (Here is the Message for those with me and the Message for those before me. - 21: 24) One explanation of this verse on which the translation is based is that ذِکر means Message and |"Message for those with me|" refers to Qur&an, while |"the Message for those before me|" refers to Torah, Injil (Evangel) and Zabur (Psalms), the earlier divine books. According to this interpretation, the meaning of the verse is that neither the Qur&an (which is the Book for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his followers) nor the older books contain anything to suggest worship of anyone else but Allah. Despite the fact that the texts of Torah and Injil (Evangel) have been altered, it is not suggested in either of them that Allah has partners with whom he shares His authority. Another explanation of the verse is given in Al-Bahr ul-Muhit according to which the word (dhikr) means here |"description|", and the sense is that this Qur&an is a description for the people who were in the days of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which describes for them the rules of Shari&ah and invites them to the correct way of life. At the same time it is a description of those who were before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) because it keeps alive the stories and the traditions of people long gone by.

ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ ، اس کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ سے مراد قرآن اور ذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ سے مراد تورات و انجیل اور زبور وغیرہ کتب سابقہ ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ میرا اور میرے ساتھ والوں کا قرآن اور پچھلی امتوں کی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ موجود ہیں کیا ان میں سے کسی کتاب میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کی تلقین موجود ہے۔ تورات و انجیل وغیرہ میں تحریف ہوجانے کے باوجود یہ تو اب تک بھی کہیں صاف نہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کر کے دوسرا معبود بنا لو۔ بحر محیط میں اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قرآن ذکر ہے میرے ساتھ والوں کے لئے بھی اور ذکر ہے مجھ سے پہلوں کے لئے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ساتھ والوں کے لئے تو دعوت اور تشریح احکام کے لحاظ سے ذکر ہے اور سابقین کے لئے ذکر بایں معنے ہے کہ اس کے ذریعہ سابقین کے احوال و معاملات اور قصص زندہ ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً۝ ٠ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ۝ ٠ۚ ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ۝ ٠ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٠ۙ الْحَقَّ فَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٢٤ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ بره البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل : الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء . والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب : - دلالة تقتضي الصدق أبدا . - ودلالة تقتضي الکذب أبدا . - ودلالة إلى الصدق أقرب . - ودلالة إلى الکذب أقرب . - ودلالة هي إليهما سواء . قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء/ 174] . ( ب ر ہ ) البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا رکھے ہیں، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم اپنی دلیل ان جھوٹے معبودوں کے دعوی پر پیش کرو، یہ میری اور مجھ جیسوں کی کتاب ہے یعنی قرآن کریم ہے اور مجھ سے پہلے جو مومنین، کافرین گزرے ہیں ان کی کتابیں موجود ہیں، ان کی کتابوں میں یہ قطعا موجود نہیں کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے یا اس کا کوئی شریک ہے بلکہ ان لوگوں میں زیادہ وہی ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تصدیق نہیں کرتے، اس وجہ سے کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تصدیق نہیں کرتے، اس وجہ سے کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو جھٹلا نے پر تلے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. The first two were rational arguments and this is a historical one. This means that the study of all the former Scriptures shows that the Creator of the universe is One Allah and He alone is worthy of service and worship, while your religion is neither supported by rational arguments nor by historical evidence. 25. It is their lack of the knowledge of the reality which has created this indifference towards the message of the Prophet, and the same has made them heedless of the message.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :24 پہلے دو استدلال عقلی تھے ۔ اور یہ استدلال نقلی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جتنی کتابیں بھی خدا کی طرف سے دنیا کے کسی ملک میں کسی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں ، ان میں سے کسی اور کو بھی بندگی و عبادت کا حق پہنچتا ہے ۔ پھر یہ کیسا مذہب تم لوگوں نے بنا رکھا ہے جس کی تائید میں نہ عقل سے کوئی دلیل ہے اور نہ آسمانی کتابیں ہی جس کے لیے کوئی شہادت فراہم کرتی ہیں ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :25 یعنی نبی کی بات پر ان کا توجہ نہ کرنا علم پر نہیں بلکہ جہل پر مبنی ہے ۔ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے سمجھانے والے کی بات کو ناقابل التفات سمجھتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر ایک عقلی دلیل تو پچھلی آیت میں بیان فرما دی گئی ہے جس کی تشریح اوپر کے حاشیے میں گذری۔ اب اس آیت میں نقلی دلیل بیان کی جا رہی ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں توحید کے عقیدے پر ہی زور دیا گیا ہے اس قرآن کریم کے علاوہ جتنی کتابیں پچھلی قوموں پر نازل کی گئیں، ان سب میں یہی عقیدہ بیان ہوا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:24) ھاتوا۔ اصل میں اتو تھا۔ ایتاء (افعال) مصدر سے۔ ات تولا۔ واحد مذکر حاضر۔ اتی (واحدمؤنث حاضر) اتیا (تثنیہ مذکر ومؤنث حاضر) اتین (جمع مؤنث حاضر) ہمزہ کو ھاء سے بدل کر ھات۔ ھاتی۔ ھاتیا۔ ھاتوا۔ ھاتین کرلیا گیا۔ ھاتوا جمع مذکر حاضر فعل امر۔ تم لائو۔ ھذا ذکر من معی۔ یہ رہی کتاب (میری اور ) میرے ساتھیوں کی۔ وذکر من قبلی۔ اور (یہ رہی) کتاب مجھ سے قبل والوں کی۔ (ان دونوں میں سے کسی میں یہ نکال کر دکھائو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خدائی کا شائبہ رکھتا ہے اور اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کی بندگی کی جائے۔ آیات (21:23) میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقلی دلائل تھے اور آیت 24 میں استد لال نقلی ہے۔ بل اکثرہم لا یعلمون الحق (یہ کوئی دلیل نہیں لاسکیں گے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر حق کو جانتے ہی نہیں۔ فہم معرضون۔ اور اسی وجہ سے وہ (توحید الٰہی اور اتباع رسول سے ) روگردانی کر رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اپنے اس دعویٰ کی دلیل پیش کرو کہ تمہارے یہ معبود خدا کے شریک ہیں۔2 مراد ہیں توراۃ و انجیل اور صحیفے جو پہلے انبیاء پر نازل کئے گئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہیں وہ مختار کل اور قادر مطلق ہے مگر اس کے باوجود لوگوں نے اِلٰہ حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کو مشکل کشا بنا رکھا ہے اگر وہ مشکل کشا ہیں تو ان کے سچا ہونے کی کوئی عقلی و نقلی دلیل پیش کریں۔ جنھوں نے اِلٰہِ حق کو چھوڑ کر دوسرے اِلٰہ بنا رکھے ہیں۔ ان کے لیے کھلا چیلنج ہے کہ اگر ان کے پاس اپنے معبودوں کے برحق ہونے کی کوئی عقلی و نقلی دلیل ہے تو وہ سامنے لائیں۔ مجھ پر اور مجھ سے پہلے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر کتابیں نازل ہوئی ہیں ان میں عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اس حقیقت سے ناآشنا اور اپنی بےعلمی کی وجہ سے حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ” ذکر “ کا معنی نصیحت بھی ہے اور عقیدۂ توحید بھی۔ مراد یہ ہے یہی میرا، میرے ساتھیوں اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کا عقیدہ اور نصیحت ہے۔ جہاں تک اِلٰہِ حقیقی کے سوا کسی دوسرے اِلٰہ کا تعلق ہے اس کی کوئی عقلی و نقلی دلیل موجود نہیں۔ جس کا بین اور ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو اِلٰہ مانتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں اس کا حساب اس کے رب کے ہاں ہوگا۔ یقین جانو کہ کافر کبھی فلاح نہیں پائے گا۔ (المومنوں : ١١٧) کافر سے مراد یہاں کلمہ نہ پڑھنے والا بھی ہے اور مشرک بھی۔ اِلٰہ کا معنٰی ہے حاجت روا، مشکل کشا اور وہ ذات جس کے ساتھ انتہا درجے کی محبت کرتے ہوئے نہایت عاجزی کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اِسْمًا ماءَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ )[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب للہ ماءۃ اسم غیر واحد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔ “ (یاد کرنے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اسمائے گرامی کے مطابق عقیدہ بھی اختیار کیا جائے۔ ) مسائل ١۔ مشرک کے پاس اپنے عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اور پہلے انبیائے (علیہ السلام) کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں ہے۔ ٣۔ لوگوں کی غالب اکثریت عقیدۂ توحید سے نابلد اور اس سے منہ موڑنے والی ہے۔ تفسیر بالقرآن اِلٰہ کے معانی اور اس کی عبادت کا حکم : ١۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی الٰہ ہے ( المائدۃ : ٧٣) ٢۔ فرما دیجیے کہ اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شریکوں سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے ؟ کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ میں نے آسمان و زمین کو بغیر نمونے کے پیدا کیا، اور کون تم کو رزق دیتا ہے کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے۔ ( النمل ٦٤) ٦۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے، اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی رحم کرنے والا ہے۔ ( البقرۃ : ١٦٣) ٧۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص : ٧٢) ٨۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٩۔ اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ١٠۔ اے لوگو ! آخر دم تک ایک الٰہ کی عبادت کرو۔ (الحجر : ٩٩) ١١۔ جن و انس کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ (الذاریات : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام اتخذوا من دونہ۔۔۔۔۔ قبلی (١٢ : ٤٢) سابقہ رسولوں کی کتابیں بھی موجود ہیں ان میں بھی کمازکم اللہ کے شریکوں کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ یہ سب ادیان عقیدہ توحید پر قائم ہیں۔ لہٰذا مشرک جو شرک کرتے ہیں ‘ اس کا ماخذ کیا ہے ‘ یہ تو اس کائنات کے بھی خلاف ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی خلاف ہے ۔ حقیقت یہ ہے۔ بل اکثرھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معرضون (١٢ : ٤٢) ” مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بیخبر ہیں ‘ اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃً ) (کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا معبود تجویز کرلیے ہیں۔ (یہ استفہام انکاری بطور توبیخ کے ہے) ۔ (قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ ) (آپ فرما دیجیے کہ شرک کے جواز پر اپنی دلیل لے آؤ) تم اس پر کوئی بھی دلیل نہیں لاسکتے۔ شرک کرنا بےدلیل ہے۔ عقلاً بھی قبیح ہے اور نقلاً بھی۔ حضرات انبیاء (علیہ السلام) جو پہلے گزرے ہیں انہوں نے بھی شرک سے منع کیا ہے اور کتب الٰہیہ میں شرک کا گمراہی ہونا مذکور ہے۔ اسی کو فرمایا (ھٰذَا ذِکْرُ مَنْ مَّعِیَ وَ ذِکْرُ مَنْ قَبْلِیْ ) (یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے یعنی قرآن مجید اور جو حضرات مجھ سے پہلے تھے ان کی کتابیں یعنی توراۃ و انجیل بھی موجود ہیں۔ ان سب میں شرک کی قباحت بتائی ہے اور شرک کو گمراہی بتایا ہے۔ سو عقلاً و نقلاً شرک مذموم ہے اور قبیح ہے۔ (بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ الْحَقَّ فَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) (بلکہ ان میں اکثر وہ ہیں جو حق کو نہیں جانتے سو وہ اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ اعادہ بوجہ بعد عہد برائے مطالبہ دلائل از مشرکین۔ 19:۔ بطور معارضہ مشرکین سے ان کے مدعی پر دلائل کا مطالبہ کیا گیا۔ مدعی پر تین قسم کی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں عقلی، نقلی اور وحی اس لیے مطالبہ کیا گیا۔ اپنے دعوے پر ان دلائل میں سے کوئی ایک ہی دلیل لے آؤ۔ لیکن یاد رکھو۔ ان میں سے کوئی پیش نہیں کرسکوگے۔ کیونکہ عقل تو دعوائے توحید کی مؤید ہے۔ جیسا کہ ابھی دو عقلی دلیلوں سے ثابت ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی مالک و لارساز، متصرف و مختار اور عالم الغیب نہیں۔ اچھا عقلی دلیل نہ سہی۔ انبیاء سابقین میں سے کوئی نقلی دلیل ہی لے آؤ۔ مگر یہ بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) تو توحید کے داعی و مبلغ تھے۔ جیسا کہ آگے فرمایا۔ ” وَ مَا اَرْسَلْنَاکَ مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ الخ “ علی ہذا دلیل وحی سے بھی مسئلہ توحید ہی کی تائید ہوتی ہے۔ جیسا کہ سورت کے آخر میں فرمایا ” قُلْ اِنَّمَا یُوْحیٰ اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 کیا ان مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں آپ ان سے کہئے کہ اچھا تم اپنے دعوے پر دلیل لائو اور ان معبود ان باطلہ کی عبادت پر کوئی سند پیش کرو یہ میرے ساتھ والوں کا قرآن کریم اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں موجود ہیں یعنی ان کو دیکھ لو ان میں کہیں شرک کی کوئی دلیل نہیں بلکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ حق بات کا یقین نہیں رکھتے اور اس حق بات سے روگردانی اور اعراض کرتے ہیں۔ یعنی دلیل کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو کوئی عقلی دلیل ہو تو ان کے پاس کوئی عقلی دلیل تو ہے نہیں اور جو دلائل اوپر اثبات توحید کے سلسًلے میں برہان تمانع وغیرہ پیش ہوئے ان کے بعد ان کی ہمت ہی کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی عقلی دلیل پیش کرسکیں۔ اب رہی نقلی دلیل تو اس کی حالت یہ یہ کہ میری امت کا یہ قرآن کریم موجود ہے اور پہلے لوگوں کی توریت و انجیل وغیرہ موجود ہیں ان میں کہیں کوئی شرک کے جواز کی دلیل ہو تو وہ لے آئو حالانکہ کسی سماوی مذہب میں اور کسی سماوی کتاب میں کہیں شرک کا ذکر نہیں۔ دلیل کے فقدان کے باوجود ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں اکثر دین حق کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ یقین کرتے ہیں بلکہ امر حق سے روگردانی اور اعراض کا برتائو کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں پہلے ان معبودوں کا ذکر فرمایا جن کو برابر خدا کے کوئی سمجھے اگر دو حاکم ہوتیت و جہان خراب ہوتا۔ اب ان کا ذکر فرمایا جو خدا کے نائب ٹھیراتے ہیں اس کو مالک و سند چاہئے اس کے بغیر نائب کیونکہ ہوئے۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنے والوں کا بھی رد فرمایا او جو نائب سمجھ کر عبادت کرتے ہیں ان کا بھی رد فرمایا۔