Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 26

سورة الأنبياء

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

And they say, "The Most Merciful has taken a son." Exalted is He! Rather, they are [but] honored servants.

۔ ( مشرک لوگ ) کہتے ہیں کہ رحمٰن اولاد والا ہے ( غلط ہے ) اس کی ذات پاک ہے بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Refutation of Those Who claim that the Angels are the Daughters of Allah; description of their Deeds and Status Allah says: وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا ... And they say: "The Most Gracious has begotten children." Here Allah refutes those who claim that He has offspring among the angels -- exalted and sanctified be He. Some of the Arabs believed that the angels were the daughters of Allah, but Allah says: ... سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ Glory to Him! They are but honored servants. meaning, the angels are servants of Allah who are honored by Him and who hold high positions of noble status. They obey Him to the utmost in all their words and deeds. لاَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ

خشیت الٰہی ۔ کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے ، فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں ، بڑے بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں قولاً اور فعلاً ہروقت اطاعت الہٰی میں مشغول ہیں ۔ نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں ، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں ۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں آکے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ذرے ذرے کا وہ دانا ہے ۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لئے لب ہلا سکیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ٢٥٥؁ ) 2- البقرة:255 ) وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جاسکے ؟ اور آیت میں ہے ( وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ 23؀ ) 34- سبأ:23 ) ۔ یعنی اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی ۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں ۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الہٰی سے ، ہیبت رب سے لرزاں وترساں رہا کرتے ہیں ۔ ان میں سے جو بھی خدائی کا دعوی کرے ہم اسے جہنم واصل کردیں ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں ۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو ۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے ۔ اسی طرح کی آیت ( قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀ ) 43- الزخرف:81 ) اور ( لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 65؀ ) 39- الزمر:65 ) ہے ۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک ممکن ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یہ خطاب صرف مشرکین مکہ کو ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ کیونکہ آگے اسی بات کی وضاحت آرہی ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے دست بستہ غلام ہیں اور معزز اس لحاظ سے ہیں کہ ہر وقت اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ باادب اتنے ہیں کہ اللہ کے حضور کوئی بات ہی نہیں کرتے بس صرف حکم کے منتظر رہتے ہیں۔ اور جب انھیں کوئی حکم دیا جاتا ہے تو فوراً اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا :۔۔ : عقلی اور نقلی دلیلوں سے شرک کی تردید کے بعد اب ان لوگوں کا رد کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے صاحب اولاد ہونے کے قائل تھے۔ عرب کے بعض مشرکین کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ بعض یہود کا کہنا تھا کہ (نعوذ باللہ) جنات اللہ تعالیٰ کے سسرال ہیں، جن سے فرشتے پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتایا۔ نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اور بعض مسلمان کہلانے والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کا ٹکڑا قرار دیا اور بعض نے کہا ؂ خدا کے نور سے پیدا ہوئے ہیں پانچوں تن محمد است، علی، فاطمہ، حسین و حسن چونکہ یہ شرک کی بدترین صورت اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی گستاخی تھی (دیکھیے مریم : ٨٨ تا ٩٠۔ بقرہ : ١١٦۔ نساء : ١٧١) اس لیے اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اس کا رد فرمایا۔ سب سے پہلے یہ کہہ کر رد فرمایا کہ ” وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا “ (اور انھوں نے کہا رحمٰن نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے) یعنی باپ اور اولاد ایک جنس ہوتے ہیں، اب کہاں رحمٰن کہ جس کی کمال رحمت سے یہ کائنات وجود میں آئی اور مسلسل چل رہی ہے اور جس کے سوا ” رحمان “ نام کا مصداق تم بھی کسی کو نہیں سمجھتے۔ اگر اس کی اولاد مانو تو والد اور اولاد کے ایک جنس ہونے کی وجہ سے فرشتوں کو اور عزیر و مسیح (علیہ السلام) کو اور ایک ہی نور سے ہونے کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پنجتن کو اسم رحمٰن کا مصداق ماننا پڑے گا۔ خود ہی سوچ لو کیا یہ رحمٰن تھے ؟ پھر ” سُبْحٰنَهٗ “ کہہ کر رد فرمایا، یعنی جن کمزوریوں کی وجہ سے اولاد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان سے پاک ہے۔ انسان کو اولاد کی ضرورت اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہوتی ہے، تاکہ وہ مشکل میں اس کی مدد کرے، بڑھاپے میں اس کا سہارا (عصائے پیری) بنے اور مرنے کے بعد اس کی جانشین بنے۔ پھر اولاد کے لیے بیوی کا ہونا لازم ہے، انسان اپنی خواہش نفس کی وجہ سے بیوی کا محتاج ہوتا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٠١) رحمٰن ان تمام کمزوریوں سے پاک ہے، اگر اس میں یہ کمزوریاں ہوں تو وہ رحمٰن نہیں ہوگا، بلکہ خود رحم کے قابل ہوگا، جس طرح تمام انسان، جن، فرشتے اور تمام مخلوقات ہیں۔ پھر وہ نہ رحمٰن ہوگا اور نہ تمام عیوب اور کمزوریوں سے پاک۔ [ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ] پھر ” سُبْحٰنَهٗ “ کہہ کر رد فرمایا، یعنی جنھیں یہ لوگ اولاد کہہ رہے ہیں وہ بندے (غلام) ہیں۔ غلام اپنے مالک کی اولاد نہیں ہوتا اور اولاد اپنے باپ کی غلام نہیں ہوتی۔ بندگی اور ولدیت جمع نہیں ہوسکتیں۔ اہل علم نے اس آیت سے استدلال فرمایا کہ اگر کسی کا بیٹا غلامی کی حالت میں اس کی ملکیت میں آئے تو آزاد ہوجائے گا، کیونکہ ولدیت اور عبدیت جمع نہیں ہوسکتیں۔ ” مُّكْرَمُوْنَ “ کفار نے ان ہستیوں کی عظمت شان کی وجہ سے انھیں اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہ کو یہ کہہ کر دور فرمایا کہ ان ہستیوں کی تمام عظمت و رفعت صرف اس لیے ہے کہ انھیں عزت عطا کی گئی ہے۔ اس میں ان کا اپنا کمال کچھ نہیں، جب کہ والد اور اولاد اوصاف میں یکساں اور برابر کا جوڑ ہوتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۝ ٠ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝ ٢٦ۙ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٧) اور ان کفار مکہ میں سے بعض یوں کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں اولاد بنا رکھی ہے توبہ توبہ اس کی ذات اولاد اور شریک سے پاک ہے، بلکہ وہ فرشتے اس کے بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت وفرمانبرداری کے صلے میں ان کو اعزاز واکرام سے نوازا ہے، قول وفعل میں اللہ کے حکم کے بغیر جبریل، میکائیل سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے مطابق قول وفعل انجام دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗط بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ) ” جس کسی کو بھی یہ لوگ اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں ‘ وہ فرشتے ہوں ‘ انبیاء ہوں یا اولیاء اللہ ‘ سب اس کے مقرب بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے بندوں کی حیثیت سے اپنے ہاں با عزت مقام عطا کیا ہے : (اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْط ) (یونس : ٢) ” یقیناً ان کے لیے ہے سچائی کا مرتبہ ان کے رب کے پاس۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. Here it refers to the angels as is clear from Ayat

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :26 یہاں پھر فرشتوں ہی کا ذکر ہے جن کو مشرکین عرب خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ بعد کی تقریر سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: اہل عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ ٢٩:۔ سورة والصافات میں شعب الایمان بیہقی ‘ تفسیر سدی ‘ تفسیر مقاتل وغیرہ کے حوالہ سے قتادہ وغیرہ کا قول آوے گا کہ مشرکین مکہ سے قبیلہ خزاعہ کے لوگ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد کہتے تھے اور ان کی مورتوں کی پوجا کر کے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جن بتوں کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں ‘ اگر قیامت قائم ہوئی تو وہ فرشتے اللہ کے روبرو ہماری سفارش کرکے ہم کو دوزخ کی آگ سے چھڑا لیویں گے ‘ اسی کے جواب میں فرمایا کہ جس طرح ان مشرکوں کے پاس بت پرستی کی کچھ سند نہیں ‘ اسی طرح فرشتوں کو اللہ کی اولاد ٹھہرانے کی بھی ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے ‘ شیطان کے بہکانے سے اپنی اٹکل سے یہ لوگ جو جی میں آتا ہے بکتے ہیں جس کا خمیازہ وقت مقررہ پر بھگتیں گے ‘ پھر فرمایا فرشتے تو اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے ہیں کہ اللہ کے حکم پر چلتے ہیں ‘ اپنی حد سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خلاف مرضی کوئی بات بھی وہ منہ سے نہیں نکالتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بھی معلوم ہے کہ جو مشرک بغیر توبہ کے مرجاوے گا تو جس طرح سوئی کے ناکے میں اونٹ کا گھس جانا ناممکن ہے ‘ اسی طرح ایسے مشرک کی نجات ناممکن ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے برخلاف اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان مشرکوں کی سفارش کیونکر کرسکتے ہیں ‘ پھر فرمایا فرشتے اللہ کی جو کچھ آئندہ فرمانبرداری کریں گے وہ اور ان آیتوں کے نازل ہونے تک جو فرمانبرداری انہوں نے کی ہے وہ اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے ‘ یہ مشرک جو کہتے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہوئی تو فرشتے اللہ کے روبرو ان مشرکوں کی سفارش کر کے ان مشرکوں کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیویں گے یہ ایک ایسی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں ان کا کہیں پتہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے علم غیب میں تو یہ ہے کہ فرشتے اللہ کی ہیبت سے بہت ڈرتے ہیں ‘ پھر ان سے یہ نڈر پنے کا کام کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے برخلاف ان مشرکوں کی سفارش کرنے کی جرأت کریں گے ‘ پھر فرمایا ‘ فرشتوں کی مورتوں کو یہ لوگ شیطان کے بہکانے سے پوجتے ہیں ‘ فرشتے ان کے اس شرک سے بالکل بیزار ہیں کیونکہ پچھلی قوموں پر جتنے عذاب آئے ہیں وہ فرشتوں ہی کے ہاتھوں آئے ہیں اس لیے فرشتوں کو یہ معلوم ہے کہ جو فرشتہ اپنی پوجا کا حرف بھی زبان پر لاوے تو بنی آدم میں کی نافرمان قوموں کی سزا کی طرح ایسے فرشتے کی سزا جہنم ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی اس حدیث کا ذکر کئی جگہ گزر چکا ہے جس میں قیامت کے دن کی شفاعت کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ اس حدیث کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ملائکہ ‘ انبیاء اور صلحا کی شفاعت کا سلسلہ ان کلمہ گو گنہگاروں پر ختم ہوجائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا یہ حدیث الا لمن ارتضی کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ الا لمن ارتضی کی حد ان کلمہ گو گنہگاروں تک ہے جن کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے جو مشرک بغیر توبہ کے مرجاویں گے نہ ان کا شمار کلمہ گو گنہگاروں میں ہوسکتا ہے ‘ نہ ان کی شفاعت کی قیامت کے دن کچھ امید ہے اوپر کے ذکر کے موافق مشرکین مکہ شفاعت کی جس بےبنیاد امید پر جیتے تھے ‘ اس بےبنیاد امید کا حال ان کو وقت پر معلوم ہوجائے گا ‘ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے طبرانی میں نواس بن سمعان سے اور تفسیر ابن مردویہ میں عبداللہ (رض) بن مسعود سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ وحی کے طور پر کوئی حکم فرماتا ہے تو سب فرشتے ڈر کے مارے کانپ جاتے ہیں ‘ پہلے پہل جبرئیل (علیہ السلام) کا ڈر کم ہوتا ہے اور وہ وحی کے حکم کو سمجھ کر باقی کے فرشتوں کی تسکین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معمولی حکم صادر ہوا ہے ‘ کچھ خوف نہ کرو ‘ اس تسکین کے بعد فرشتوں کا خوف کم ہوجاتا ہے آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں ‘ اس کا مطلب ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:26) اتخذ ولدا۔ الاخذ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا۔ جمع کرلینا ۔ اور احاطہ میں لے لینا۔ اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑنے کی صورت میں ہوتا ہے مثلاً معاذ اللہ ان ناخذ الا من وجدنا متاعنا عندہ (12:79) خدا بچائے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا ہم کسی اور کو پکڑیں۔ اور کبھی غلبہ کی صورت میں مثلاً لا تاخذہ سنۃ ولا نوم (2:225) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی ہے اور نہ ہی نیند۔ اس سے الاتخاذ (افتعال) ہے اور یہ دومفعولوں کی طرف متعدی ہو کر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے لا تتخذوا الیہود والنصاری اولیاء (5:51) یہود و نصاری کو دوست نہ بنائو۔ اتخذ۔ اس نے بنالیا۔ اس نے اختیار کیا۔ ولدا۔ الولد جو جنا گیا ہو۔ یہ لفظ واحد ۔ جمع۔ مذکر۔ مؤنث چھوٹے بڑے سب پر بولا جاتا ہے۔ والد جس کے ہاں جنا گیا ہو۔ والدۃ جس نے جنا ہو۔ والذین ماں باپ۔ ولد بیٹا۔ بیٹی۔ اولاد سب کے لئے آتا ہے۔ وقالوا اتخذ الرحمن ولدا۔ ای وقالوا اتخذ الرحمن الملئکۃ ولدا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ بنالیا ہے رحمن نے (فرشتوں کو) اولاد۔ عرب کے کئی قبائل مثلاً بنی خزاعہ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔ یہود و نصاریٰ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ یہاں اس بہتان صریح کی نفی کی جا رہی ہے۔ بل عباد مکرمون۔ بلکہ وہ تو اس کے معزز بندے ہیں۔ یعنی ملائکہ۔ عزیر (علیہ السلام) مسیح (علیہ السلام) وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 شرک کی تردید کے بعد اب ان لوگوں کے باطل عقیدہ کا رد کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے صاحب اولاد ہونے کے قائل تھے۔ اس خیال میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ بعض قبائل عرب بھی گرفتار تھے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ (دیکھیے سورة صافات :58 از کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی شخصیت اس کی ذات کا حصہ اور نہ ہی کوئی اس کی صفات میں شریک ہے۔ مشرکین نے کئی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ الٰہ بنا رکھے ہیں۔ مشرکین میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اولاد کی حاجت سے مبرّا اور پاک ہے۔ 1 اولاد کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ انسان اپنے سلسلہ نسب کا تسلسل چاہتا ہے۔ 2 ماں باپ کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اولاد چاہتے ہیں تاکہ ماں باپ کی حیثیت سے اولاد سے پیار کرسکیں۔ 3 اولاد ماں باپ کا بالخصوص بڑھاپے میں سہارا ہوتی ہے۔ 4 ماں اپنی بیٹی اور باپ اپنے بیٹے کی معاونت کا طلب گار ہوتا ہے۔ 5 اولاد کی پیدائش کے لیے میاں بیوی کے ملاپ کا ہونا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کمزوریوں اور حاجات سے مبرّا اور پاک ہے۔ 6 اولاد دوسرے لوگوں سے پیاری ہوتی ہے جس بنا پر ماں، باپ سے اولاد کے بارے میں جانب داری ممکن ہے۔” اللہ “ عادل ہے اس کے بارے میں جانب داری کا تصور کرنا پرلے درجے کا گناہ اور کفر ہے۔ کچھ لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو رب کا بیٹا قرار دیا۔ عیسائیوں نے اس سے آگے بڑھ کر حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا جز قرار دیا۔ کچھ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا اور مریم [ اللہ کی بیوی ہے۔ اس طرح انھوں نے تثلیث کا عقیدہ اختیار کیا۔ مسلمانوں نے ایسی لغویات اختیار نہیں کیں لیکن ایک گروہ نے یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور کا حصہ ہیں۔ جس کے لیے ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ “ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے گروہ نے پنجتن پاک کی اصطلاح اور عقیدہ بنا رکھا ہے۔ کتنے ظلم اور بےانصافی کی بات ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے پاس اپنے عقیدہ کی ناصرف کسی آسمانی کتاب اور قرآن مجید میں سے کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ سب کو چھوڑ کر ہم ان لوگوں کے عقیدہ کی بات کرتے ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ “ کہتے ہیں۔ کیا انھیں معلوم نہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی ایک جھلک طور پہاڑ برداشت نہ کرسکا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کی جھلک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ ماجدہ اور صحابہ کرام (رض) کس طرح برداشت کرسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ عقل و فکر کے خلاف اور پرلے درجے کا شرک ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں کے پاس شرک کی حمایت میں کسی قسم کی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس شرک کی تردید اس آیت میں یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس لیے بھی اولاد کی ضرورت نہیں کیونکہ ساری مخلوق ہی اس کی تابع فرمان، ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اس کے عاجز اور مکرم بندے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بندے اور ” اللہ “ میں اتنا فرق ہے کہ جس کا ہمارے ذہن اندازہ نہیں لگا سکتے۔ سنگین ترین جرم : ” کہتے ہیں رحمن بیٹا رکھتا ہے ایسا کہنے والو۔ تم بری بات زبان پر لاتے ہو۔ قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گرپڑیں۔ کہ انہوں نے ” اللہ “ کے لیے بیٹا تجویز کیا۔ حالانکہ ” اللہ “ کی شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ “ ( مریم، آیت : ٨٨ تا ٩٣) (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ : ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا) [ رواہ البخاری : باب وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّہُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ کیا میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے ؟ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔ “ مسائل ١۔ کچھ لوگوں کا باطل عقیدہ ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اولاد کی کمزوری سے مبّرا ہے۔ ٣۔ ساری مخلوق اللہ کی تابع فرمان ہے، ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اس کے بندے یعنی غلام ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے اللہ اولاد سے بےنیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقالوا اتخذالرحمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجزی الظلمین ” اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا تصور زمانہ جاہلیت میں مختلف لوگوں کے درمیان مختلف تھا۔ مشرکین عرب خیال کرتے تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین یہود کہتے تھے کہ عزیز ابن اللہ ہیں اور مشرکین نصاریٰ کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب شرکیہ عقائد ہیں اور دوسری اقوام مشرک کے ہاں اور طرح کے ہیں۔ یہاں اشارہ عربوں کے عقیدہ کی طرف ہے جو ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ یہاں ان کے عقیدے کی تردید فرشتوں کی نوعیت اور حقیقت کے بیان سے کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں نہیں ‘ جس طرح ان لوگوں کا زعم ہے بلکہ یہ اللہ کے ہاں مکرم بندے ہیں۔ یہ ایسی مخلوق ہے کہ اللہ کے سامنے جذبہ اطاعت ‘ ادب اور خوف خدا کی وجہ سے بات ہی نہیں کرتے۔ پس جو ان کو حکم دیا جاتا ہے ‘ بےچون و چرا اس پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ کا علم پوری طرح ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ لوگ کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے الا یہ کہ اللہ کسی کی سفارش پر راضی ہوجائے۔ وہ مزاجا اللہ سیڈرتے ہیں اور اللہ کے خوف سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کے قریب تر ہیں ‘ پاکباز ہیں ‘ پوری طرح مطیع فرمان ہیں اور ان کے اندر کوئی انحراف نہیں ہے۔ پھر ان کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ وہ الہٰ ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کوئی دعویٰ کر بھی بیٹھیں ‘ بفرض محال ‘ تو وہ بھی ایسی ہی سزا کے مستحق ہوں گے جس کا اعلان دوسروں کے لیے ہے ‘ یعنی جہنم اور یہ سب ظالم مشرکین کے لیے ہے۔ یہ اس لیے کہ الوہیت کا حق صرف اللہ کا ہے۔۔ اس طرح مشرکین عرب کا یہ دعویٰ غلط ‘ خلاف عقل اور مکروہ ہے ‘ کوئی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا اور اگر کرے گا تو مقررہ سزا پائے گا۔ جو بھی ہو یہ مدعی۔۔۔۔ یہاں فرشتوں کی اطاعت شعاری کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے خلاف میں ڈوبے رہتے ہیں جبکہ مشرکین مکہ جسارت کرتے ہیں۔ یہاں تک انسان کے سامنے توحید کے تکوینی دلائل رکھے گئے ‘ نیز تمام شرائع کے نقلی دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ سب کی تعلیم توحید ہے اور بعض وجدانی دلائل بھی دیئے گئے جو دلوں میں قدرتاً اتر جاتے ہیں۔ اب قرآن مجید انسان کو اس عظیم کائنات کی سیر کراتا ہے ‘ وہ کائنات جسے اللہ کا وست قدرت نہایت ہی حکیمانہ انداز میں چلاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ اس کائنات میں پھیلے ہوئے آیات و معجزات پر غور نہیں کرتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رشاد فرمایا (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ) (الایۃ) کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ یکسر وہ حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ وہ ہیبت الٰہی سے ڈرتے رہتے ہیں اور سفارش بھی اسی کے لیے کرسکتے ہیں جس کے لیے سفارش کرنا اللہ کی رضا کے مطابق ہو، ان میں سے کوئی فرد بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں معبود ہوں۔ بالفرض اگر ایسا کہے گا تو دیگر مدعیان الوہیت کی طرح وہ بھی دوزخ میں جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ یہ شکوی ہے یعنی انبیاء (علیہم السلام) اسی مسئلہ توحید کے مبلغ تھے ان کے بعد ناخلف اور گمراہ لوگوں نے شرک پھیلایا۔ انبیاء (علیہم السلام) تو مسئلہ توحید کو خوب واضح کرتے رہے لیکن اس کے باوجود مشرکین نے خود ساختہ کارساز بنا لیے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جواب مذکور ہیں۔ جواب اول ” سُبْحٰنَهٗ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلندو برتر اور اعلیٰ وارفع ہے۔ کہ اس کی عاجز و بےبس مخلوق میں سے کوئی اس کا ولد اور نائب ہو۔ جواب ثانی ” بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ الخ “ فرشتوں کو اللہ کا ولد اور اس کے کارخانہ عالم میں دخیل سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کے باعزت بندے ہیں۔ جواب ثالث ” لَایَسْبِقُوْنَهٗ الخ “ وہ اس کے سامنے ہر وقت ترساں و لرزاں رہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر بات بھی نہیں کرسکتے۔ جواب رابع ” وَھُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ الخ “ وہ اللہ تعالیٰ کے پورے پورے فرمانبردار ہیں۔ جواب خامس ” یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ “ سب کچھ جاننے والا صرف اللہ ہی ہے۔ فرشتے نہیں۔ جواب سادس و سابع ” لَا یَشْفَعُوْنَ الخ “ وہ ہر وقت اللہ کی ہیبت کے سامنے خائف رہتے ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکیں گے۔ ” اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰے “ اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے حق میں فرشتوں کو شفاعت کی اجازت ہوگی۔ مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں اور توحید پر قائم رہیں اور شفاعت سے آخرت کی شفاعت مراد ہے اور اگر دنیا میں شفاعت مراد ہو تو اس کا مطلب استغفار ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں عن ابن عباس من قال لا الہ الا اللہ و شفاعتہم الاستغفار (روح ج 17 ص 33) وفی الدنیا ایجا فانھم یستغفرون للمؤمنین الخ (قرطبی ج 11 ص 281) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 اور یہ منکر یوں کہتے ہیں کہ رحمان اولاد رکھتا ہے وہ جملہ عیوب سے پاک ہے فرشتے د خدا کی بیٹیاں نہیں بلکہ اس کے معزز بندے ہیں بعض کفار مکہ فرشتوں کے متعلق یہ کہتے تھے کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں حق تعالیٰ نے رد فرمایا کہ وہ اولاد سے پاک ہے خواہ بیٹا ہو یا بیٹی وہ فرشتے تو اللہ کے ذی عزت اور معزز بندے ہیں۔