Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 28

سورة الأنبياء

یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ لَا یَشۡفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰی وَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَتِہٖ مُشۡفِقُوۡنَ ﴿۲۸﴾

He knows what is [presently] before them and what will be after them, and they cannot intercede except on behalf of one whom He approves. And they, from fear of Him, are apprehensive.

وہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امور سے واقف ہے وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو وہ خود ہیبت الٰہی سے لرزاں و ترساں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ... He knows what is before them, and what is behind them, ... وَلاَ يَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضَى ... and they cannot intercede except for him with whom He is pleased. This is like the Ayat: مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission. (2:255) وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ Intercession with Him profits not except for him whom He permits. (34:23). There are many Ayat which say similar things. ... وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ ... And they for fear of Him, means, because they fear Him. ... مُشْفِقُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء صالحین کے علاوہ فرشتے بھی سفارش کریں گے۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، لیکن یہ سفارش انہی کے حق میں ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سفارش اپنے نافرمان بندوں کے لئے نہیں، صرف گناہ گار مگر فرماں بردار بندوں یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے پسند فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] مشرکین مکہ دو وجوہ سے فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ دوسرے اس لئے کہ وہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں اور اللہ کے حضور ہمارے قرب کا ذریعہ ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ سفارشی نہیں کریں گے کیونکہ کتاب و سنت کی رو سے انبیاو و صالحین فرشتوں اور خود قرآن کا سفارش کرنا ثابت ہے۔ بلکہ یوں فرمایا کہ وہ سفارش صرف اس کے حق میں کرسکتیں گے جس کے حق میں سفارش اللہ کو منظور ہو اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ فرشتوں کو علم غیب نہیں ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ جس کے حق میں وہ سفارش کر رہے ہیں اس کے اعمال کی کیا صورت اور کیفیت ہے اور یہ حالات صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ اس لئے سفارش صرف انہی کے حق میں کرسکیں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور وہ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں پھر اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کیسے کرسکیں گے۔ اب اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسے سفارش کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں۔ پھر بالخصوص فلاں شخص کے حق میں ملے گی یا نہیں تو پھر ایسے بےاختیار شفیع اس بات کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز خم کیا جائے اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان کے آگے دست سوال دراز کیا جائے یا انھیں پکارا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ : یعنی جو کام وہ کرچکے یا جو آئندہ کریں گے وہ ان سب کو جانتا ہے۔ اس میں ان کے اس قدر اطاعت گزار اور فرماں بردار ہونے کی وجہ بیان فرمائی ہے، یعنی وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری پہلی، پچھلی، ظاہر اور پوشیدہ ہر بات جانتا ہے، اس لیے وہ اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى : یعنی وہ اسی کے حق میں سفارش کرتے ہیں جسے وہ پسند کرے اور جس کے حق میں سفارش کو پسند کرے اور اس کی اجازت دے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٥) اور سبا (٢٣) مراد اس سے اہل ایمان اور اہل توحید ہیں، کیونکہ کافر و مشرک نہ اللہ کو پسند ہیں اور نہ اسے ان کے حق میں سفارش پسند ہے۔ یہ سفارش دنیا میں بھی ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں دعا اور استغفار کرتے ہیں (دیکھیے سورة مومن : ٧ تا ٩) اور انبیاء و رسل بھی ان کے حق میں دعا کیا کرتے تھے۔ آخرت میں بھی فرشتے اور انبیاء سفارش کریں گے۔ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( شَفَاعَتِيْ لِأَہْلِ الْکَبَاءِرِ مِنْ أُمَّتِیْ ) [ مستدرک حاکم : ١؍٦٩، ح : ٢٢٨، و صححہ الذھبی ] ” میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں والے لوگوں کے لیے ہوگی۔ “ اس میں بھی اولاد کی نفی ہے، کیونکہ اولاد والد کی مرضی کے خلاف بھی سفارش کرسکتی ہے۔ وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ : اس میں فرشتوں اور رسولوں کی اللہ تعالیٰ کے لیے انتہائی تعظیم کا ذکر فرمایا کہ وہ اس کے خوف کی وجہ سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی اولاد نہ ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ والد اور اولاد کا یہ حال نہیں ہوتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ۝ ٠ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَہُمْ مِّنْ خَشْيَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ۝ ٢٨ خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) اللہ تعالیٰ ان کے امور آخرت اور امور دنیا سب کو جانتا ہے اور قیامت کے دن وہ فرشتے سوائے اس شخص کے جس کے لیے شفاعت کرنے کی اللہ کی مرضی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی توحید کو قبول فرما لیا ہو اور کسی کی سفارش نہیں کرسکتے اور وہ سب فرشتے اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27. These two verses refute the two reasons for which the mushriks had made the angels their deities: (1) They took them for the offspring of Allah. (2) They thought that if they worshiped the angels, they would be so pleased that they would intercede with Allah on their behalf. See (Surah Younus, Ayat 18); (Surah AzZumur, Ayat 3). In this connection, it should also be noted that the Quran refutes the doctrine of intercession of the mushriks, saying, that their so called intercessors are not qualified to intercede for anyone. This is so because they have no knowledge of the hidden things, whereas Allah knows all that is hidden from or open to them. Therefore, the angels or Prophets or saints shall be allowed intercession only with the prior permission of Allah. As Allah alone has the power to hear or accept intercession, none else is entitled to divine worship or rights. For further details, please see (Surah TaHa, E. Ns 85-86).

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:28) لا یشفعون۔ میں ضمیر فاعل عباد مکرمون کی طرف راجع ہے۔ ارتضی۔ وہ راضی ہوا۔ اس نے پسند کیا۔ ارتضاء (افتعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ ضمیر فاعل کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے الا لمن ارتضی۔ مگر صرف اس کے لئے (سفارش کریں گے) جسے وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) پسند کرے گا۔ خشیتہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی ہیبت۔ اس کا ڈر۔ اس کا خوف۔ مشفقون۔ اسم فاعل جمع مذکر اشفاق (افعال) مصدر۔ مشفق واحد ڈرنے والے اس کا مادہ شفق ہے اور شفق کا معنی ہے غروب آفتاب کے وقت روشنی کا تاریکی سے اختلاط اسی لئے جو محبت خوف کے ساتھ مخلوط ہو اس کو شفقت کہتے ہیں۔ اشفق (باب افعال) سے پہلے من مذکور ہو تو خوف کا معنی نمایاں ہوتا ہے جیسے وہم من الساعۃ مشفقون (21:49) اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں۔ اور اگر اس کے بعد علی آئے تو محبت کے معنی کا زیادہ ظہور ہوتا ہے۔ مثلاً اشفق علی الصغیر۔ اس نے چھوٹے پر رحم کھایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی جو کام وہ پہلے کرچکے ہیں، یا جو آئندہ کرینگے وہ ان سب کو جانتا ہے کہ کذا قال ابن عباس (قرطبی) اس میں ان کے مطیع و مقاد ہونے کی علت کی طرف اشارہ ہے یعنی چونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ان کے ظاہر و باطن کو محیوط ہے اس لئے اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ (کبیر)7 یعنی جن کے لئے سفارش کرنے کی اللہ تعالیٰ اجازت دے، مردا اہل توحید ہیں۔ یہاں سفاشر کرنیوالوں سے فرشتے بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ نظم قرآن کے سیاق و سبقا سے معلوم ہوتا ہے اور صحیح علم میں اس کی تائید میں ایک حدیث بھی ہے اور انبیاء بھی جیسا کہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا : ان شفاعتی لاصل الکبایرمن امتی کہ میں اپنی امت کے گہنگاروں کی سفاشر کروں گا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28 اللہ تعالیٰ ان کے اگلے اور پچھلے حالات کو خوب جانتا ہے اور وہ فرشتے بجز اس شخص کے کسی دوسرے کی سفارش نہیں کرسکتے جس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے تمام اگلے پچھلے حالات کو جانتا ہے اور ان کی یہ طاقت بھی نہیں کہ کسی کی سفارش کریں البتہ جس کے اللہ تعالیٰ کی مرضی پاتے ہیں اور جس کے حق میں اس کی مرضی ہوتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے لئے سفارش بھی نہیں کرسکتے ان کے خوف و خشیت کی یہ حالت ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال سے ڈرتے رہتے ہیں۔