Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 31

سورة الأنبياء

وَ جَعَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِہِمۡ ۪ وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۳۱﴾

And We placed within the earth firmly set mountains, lest it should shift with them, and We made therein [mountain] passes [as] roads that they might be guided.

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیئے تاکہ وہ مخلوق کو ہلا نہ سکے ، اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنا دیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلْنَا فِي الاَْرْضِ رَوَاسِيَ ... And We have placed on the earth firm mountains, means, mountains which stabilize the earth and keep it steady and lend it weight, lest it should shake with the people, i.e., move and tremble so that they would not be able to stand firm on it -- because it is covered with water, apart from one-quarter of its surface. So the land is exposed to the air and sun, so that its people may see the sky with its dazzling signs and evidence. So Allah says, ... أَن تَمِيدَ بِهِمْ ... lest it should shake with them, meaning, so that it will not shake with them. ... وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلً ... and We placed therein broad highways for them to pass through, means, mountain passes through which they may travel from region to region, country to country. As we can see, the mountains form barriers between one land and another, so Allah created gaps -- passes -- in the mountains so that people may travel from here to there. So He says: ... لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ that they may be guided.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کردیا۔ 31۔ 2 اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہوگیا، دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح و مفادات حاصل کرسکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس جملہ کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ۔ [٢٨] یعنی پہاڑ پیدا کئے۔ پھر ان میں وادیاں اور ندی نالے بن گئے۔ انھیں ندی نالوں سے نشیب و فراز کو معلوم کرکے انسان کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کے لئے راستوں کی نشاندہی ہوتی گئی۔ پھر اس زمین میں اور کئی طرح کی علامات پیدا کردیں۔ کہیں گھاٹیاں ہیں، کہیں چھوٹے پہاڑ، کہیں درے، کہیں بڑے بڑے پہاڑ اور ندی نالے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کی ساخت بھی ایسی بنادی ہے کہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کی راہ بن جاتی ہے یا بنائی جاسکتی ہے۔ [٢٩] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ زمین میں چلنے پھرنے کے لئے راہ پالیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ان نشانیوں میں غور و فکر کرکے اللہ کی معرفت اور حقیقت حال معلوم کرسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ : ” رَوَاسِيَ “ ” رَاسِیَۃٌ“ کی جمع ہے جو ” رَسَا یَرْسُوْ رُسُوًّا “ سے اسم فاعل ہے، یعنی زمین میں گڑے ہوئے۔ ارضیات کے ماہروں پر اب یہ حقیقت ظاہر ہوئی ہے کہ پہاڑوں کا بہت بڑا حصہ زمین کے نیچے گڑا ہوا ہے۔ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ : ” مَادَ یَمِیْدُ مَیْدًا وَ مَیْدَانًا “ حرکت کرنا، ٹیڑھا ہونا۔ (قاموس) ” اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ ۠“ اصل میں ” أَنْ لَا تَمِیْدَ “ ہے۔ یہ تیسری دلیل ہے، یعنی اگر زمین میں یہ بھاری پہاڑ نہ گاڑ دیے جاتے تو اس میں ہر وقت زلزلے اور حرکت کی حالت رہتی، اس میں نہ وہ توازن ہوتا اور نہ سکون جو مخلوق کے رہنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ کسی وقت بھی ایک طرف جھک جاتی، یا زلزلے سے دو چار رہتی جس سے زمین کے ستر فیصد حصے پر پھیلا ہوا سمندر کا پانی خشکی پر چڑھ دوڑتا اور زمین پر ایک متنفس بھی باقی نہ رہتا۔ اب بھی کبھی کبھار اللہ تعالیٰ زلزلے کے ذریعے سے اپنی نعمت یاد دلاتا رہتا ہے، جس سے سمندر کا پانی خشکی پر چڑھ دوڑتا ہے اور میلوں تک آبادیوں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ وَجَعَلْنَا فِيْهَا فِجَـاجًا سُبُلًا : ” فِجَـاجًا “ ” فَجٌّ“ کی جمع ہے، یعنی پہاڑوں کے درمیان کھلا راستہ۔ زمخشری نے ” فِجَـاجًا “ کو ” سُبُلًا “ سے حال قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نکرہ ” سُبُلاً “ کی صفت ہے جو پہلے آئی ہے، جیسا کہ فرمایا : (لِّتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا) [ نوح : ٢٠ ] ” تاکہ تم اس کے کھلے راستوں پر چلو۔ “ یعنی اگر یہ بلند اور ٹھوس پہاڑ اس طرح واقع ہوتے کہ ان میں کوئی راستہ نہ ہوتا، یا ان میں ڈھلوان نہ ہوتی بلکہ عموداً کھڑے ہوتے تو نہ زمین کی ایک طرف کے لوگ دوسری طرف جاسکتے، نہ ایک شہر کے لوگ دوسرے شہر کے لوگوں سے مل سکتے اور نہ خود پہاڑوں پر آبادی ہوسکتی۔ یہ ہماری قدرت کا کمال ہے کہ ہم نے پہاڑوں میں ندی نالوں، دروں اور ڈھلوانوں کی صورت میں آنے جانے کے کشادہ راستے بنا دیے ہیں، جس سے پہاڑ بھی میدانوں کی طرح آباد ہیں۔ لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : تاکہ وہ زمین میں جہاں جانا چاہیں اس کے لیے راہ پاسکیں اور تاکہ وہ زمین و آسمان اور پہاڑوں کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے دیکھ کر اس کی توحید کی راہ پاسکیں۔ ” يَهْتَدُوْنَ “ میں دونوں مفہوم شامل ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ (And We created mountains on the earth, lest it should shake with them. 21:31) The word مَید (mayd) in Arabic language means to be convulsed. Therefore, the meaning of this verse is that Allah Ta` ala has planted mountains on the earth to hold it in place because any violent movement of the earth would be catastrophic to those who live on it.

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ لفظ مید عربی زبان میں اضطرابی حرکت کو کہا جاتا ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کا بوجھ حق تعالیٰ نے اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ڈال دیا ہے تاکہ وہ اضطرابی حرکت نہ کرسکے جس سے اس کے اوپر بسنے والوں کو نقصان پہنچے۔ اس کی فلسفیانہ تحقیق کہ پہاڑوں کے بوجھ کو زمین کے قرار میں کیا دخل ہے اس کی یہاں ضرورت نہیں۔ تفسیر کبیر وغیرہ میں اس کا مفصل بیان اہل علم دیکھ سکتے ہیں اور بقدر ضرورت سورة نمل کی تفسیر میں حضرت حکیم الامۃ نے تفسیر بیان القرآن میں بھی لکھ دیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِہِمْ ٠۠ وَجَعَلْنَا فِيْہَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّہُمْ يَہْتَدُوْنَ۝ ٣١ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ ميد المَيْدُ : اضطرابُ الشیء العظیم کا ضطراب الأرض . قال تعالی: أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل/ 15] ، أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء/ 31] . ومَادَتِ الأغصان تمید، وقیل المَيَدانُ في قول الشاعر : 432- نعیما ومَيَدَاناً من العیش أخضرا وقیل : هو الممتدُّ من العیش، وميَدان الدَّابة منه، والمائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] «2» ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان . ( م ی د ) المید ۔ زمین کی طرح کی کسی بڑی چیز کا مضطرب ہونا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل/ 15] کہ تم کو نے کر کہیں جھک نہ جائے ۔ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء/ 31] تاکہ لوگوں ( کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے ۔ مادت اکا غصان تمید شاخوں کا مضطرب ہونا بعض نے کہا ہے کہ شاعر کے کلام ( 417 ) فعیما ومیدا انا من العیش اخضرا نعمتیں اور سر سبز لہلہاتی ہوئی زندگی میں بھی میدا نا مادت الا غصبان سے ہے اور اس کے معنی کشادہ زندگی کے ہیں اور اسی سے میدان الدابۃ ہے جس کے منعی جانور کے کھلے میدان میں پھرنے کے ہیں ۔ المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ہم پر آسمان سے خواں نازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔ فجج الفَجُّ : شُقَّةٌ يکتنفها جبلان، ويستعمل في الطّريق الواسع، وجمعه فِجَاجٌ. قال : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] ، فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] . والفَجَجُ : تباعد الرّکبتین، وهو أَفَجُّ بيّن الفجج، ومنه : حافر مُفَجَّجٌ ، وجرح فَجٌّ: لم ينضج . ( ف ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی میں استعمال ہونا لگا ہے ۔ اس کی جمع فجاج ہے قرآن میں ہے : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج/ 27] دور ( دراز ) راستوں سے ۔ فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء/ 31] اسمیں کشادہ رستے الگ انسان کے دونوں گھنٹوں میں کشادگی ہونا اور ایسے آدمی کو جس کے گھنٹوں میں کشادگی ہو افج کہتے ہیں ۔ اسی سے حافر مفج سے یعنی وہ گھوڑا جس کی ٹانگوں کے درمیان کشادگی ہو اور خام زخم کو جوج فیج کہ جاتا ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اور ہم نے زمین پر مضبوط پہاڑوں کو جو کہ زمین کے لیے میخیں ہیں، اس لیے بنایا کہ زمین ان کو لے کر ہلنے نہ لگے اور ہم نے اس زمین میں گھاٹیاں اور کھلے کھلے رستے بنائے تاکہ وہ لوگ ان رستوں کے ذریعے سے سفر کی آمد ورفت میں منزل مقصود کو پہنچ جائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ ) ” میدانی راستوں کے علاوہ بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کے اندر بھی قدرتی راستے رکھے اور وادیاں بنائیں تاکہ ایسے علاقوں میں بھی لوگوں کے لیے سفر کرنا ممکن ہو سکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30. For explanation, see (E. N. 12 of Surah An-Nahl). 31. “Broad highways” are the passes between high mountains and the valleys and ravines made by the rivers in the mountainous regions and other natural ways that connect different regions on the earth. 32. This is a very meaningful sentence. It may mean that the people may find paths for traveling on the earth, and it may also mean that the wisdom that underlies the skill and the system of their creation may guide them to the reality.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :30 اس کی تشریح سورہ نحل حاشیہ نمبر 12 میں گزر چکی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :31 یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں ۔ اسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے راہ بن جاتی ہے یا بنا لی جا سکتی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :32 ذو معنی فقرہ ہے ۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے راہ پائیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس حکمت اور اس کاریگری اور اس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یہ حقیقت قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ جب زمین کو بچھایا گیا تو وہ ہلتی تھی، اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر کے اس پر جمائے تو اس کو قرار حاصل ہوا۔ جدید سائنس نے بھی صدیوں کے بعد یہ پتہ لگایا ہے کہ بڑے بڑے بر اعظم اب بھی بہت سست رفتار سے سمندر کے پانی پر سرکتے رہتے ہیں، مگر اب ان کی رفتار اتنی دھیمی ہے کہ عام آنکھیں ان کا ادراک نہیں کرسکتیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:31) رواسی۔ رسی یرسو (نصر) رسو ورسو (مصدر) سے اسم فاعل کا صیغہ جمع۔ راسیۃ واحد۔ رسا الشیء (نصر) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے وقدور راسیت اور بڑی بڑی بھاری دیگیں جو ایک جگہ پر جمی رہیں۔ رواسی وہ مضبوط پہاڑ جو ایک جگہ جم کر ٹھہرے ہوئے ہوں۔ المرسی۔ بندرگاہ۔ جمع مر اس۔ المرساۃ۔ کشتی یا جہاز کا لنگر۔ مرسی مصدر میمی بھی ہے لنگر انداز ہونا۔ ظرف زمان وظرف مکان بھی ہے۔ لنگر انداز ہونے کا وقت یا لنگر انداز ہونے کی جگہ۔ ان بمعنی لئلا استعمال ہوا ہے اور ہم سے مراد اہل الارض ہیں۔ تمیدبہم۔ تمید مضارع واحد مؤنث غائب (ضرب) وہ ہلے۔ وہ جھکے۔ یا وہ ہلتی ہے یا جھکتی ہے۔ مید مصدر بمعنی کسی بڑی چیز کا ہلنا یا حرکت کرنا۔ ان تمیدبہم تاکہ وہ لوگوں کو لے کر ہلنے نہ لگے۔ فیھا ای فی الرواسی پہاڑوں میں۔ فجاجا۔ فج کی جمع دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ راستے۔ دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو الفج کہتے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ :۔ من کل فج عمیق (22:27) ہر دور دراز راستے سے۔ یھتدون۔ مضارع جمع مذکر غائب (تاکہ) وہ راستہ پاسکیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یہ تیسری دلیل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے اور زمین ہلکی ہوتی تو زمین میں وہ انضباط نہ پایا جاتا جواب موجود ہے اور جو سطح زمین پر زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ (نیز دیکھیے سورة نحل :15)14 یا ہم نے زمین میں چوڑے چوڑے راستے رکھے۔ واختارہ الطبری (قرطبی) 1 یعنی ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک والوں سے مل سکیں۔ اگر پہاڑ اس طرح واقع ہوتے کہ راہیں بند ہوجاتیں تو یہ بات کہاں سے پیدا ہوتی 1 (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ ! اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے کا تیسرا، چوتھا اور پانچواں ثبوت۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرما کر اس میں بڑے بڑے پہاڑ نصب فرمائے تاکہ زمین اپنے بوجھ کی وجہ سے ہلنے اور ایک طرف جھکنے نہ پائے۔ پھر اس میں کشادہ راہیں بنائیں تاکہ لوگوں کو ایک سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے سہولت اور رہنمائی حاصل ہو۔ عربی زبان جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ عربی لغت میں ارض کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی الارض کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تہہ بہ تہہ سات زمینیں ہیں۔ اٹھائیسویں پارہ میں زمین کے لیے بھی ” مِثْلَھُنَّ “ کا لفظ استعمال فرما کر سات زمینیں ثابت کی ہیں۔ (الطلاق : ١٢) تیسویں پارے میں زمین اور پہاڑوں کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ : ” کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ؟ اور پہاڑوں کو میخوں کے طور پر زمین پر نہیں گاڑا۔ (النباء : ٧) اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں پر قیمتی درخت، نباتات اور برف کی شکل میں پانی کے ذخائر جمع کیے۔ پہاڑوں کے اندر اور ان کے نیچے بیشمار قسم کی گراں قیمت معدنیات کے خزانے محفوظ فرمائے اور پہاڑوں کے درمیان راستے رکھے۔ جو نہ صرف ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے راستے ہیں بلکہ پانی کی گزر گا ہیں ہیں۔ جن سے دریا سیراب ہوتے ہیں اور دریاؤں سے نہروں کی شکل میں پانی مختلف علاقوں میں پہنچتا ہے۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے “ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) یعنی پہلی تہہ میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پر ہم رہتے ہیں، ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (LaYers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کا رداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً ٠٣٥، ٦ کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر ٣٥ کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا۔ وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔ )[ النباء : ٦۔ ٧] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ “ یہاں عربی لفظ ” اَوْتَادً “ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھ رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو ١٢ سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر فرینک کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز نے سے بچائیں : (وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ )[ الانبیاء : ٣١] ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ “ اسی طرح کے ارشادات سورة لقمان، آیت : ١٠ اور سورة النحل اور آیت ١٥ میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں “ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً ١٠٠ کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے ٥ کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی ٣٥ کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی ٨٠ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بیشمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں جو صاف شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ تقریباً تمام دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بیشمار قسم کے قیمتی پتھر اور معدنیات پائی جاتی ہیں۔ جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِیدُ فَخَلَقَ الْجِبَالَ فَأَلْقَاہَا عَلَیْہَا فَاسْتَقَرَّتْ فَتَعَجَّبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ مِنْ خَلْقِ الْجِبَالِ فَقَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ قَالَ نَعَمِ الْحَدِیدُ قَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِیدِ قَالَ نَعَمِ النَّارُ قَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ قَالَ نَعَمِ الْمَاءُ قَالَتْ رَبِّ فَہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ قَالَ نَعَمِ الرِّیحُ قَالَتْ یَا رَبِّ فَہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّیحِ قَالَ نَعَمِ ابْنُ آدَمَ یَتَصَدَّقُ بِیَمِینِہِ یُخْفِیہَا مِنْ شِمَالِہِ ) [ رواہ احمد : مسند انس بن مالک ] (وقال الترمذی ھذا حدیث غریب) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا تو وہ ہلنا شروع ہوگئی تو اللہ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑ دیا تو وہ ٹھہر گئی فرشتوں نے پہاڑ کی تخلیق پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے پروردگار کیا تو نے پہاڑوں سے بڑھ کے کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہاں ! لوہا، فرشتوں نے عرض کی کیا لوہے سے بڑھ کر کوئی سخت چیز تخلیق کی گئی ہے ؟ اللہ نے فرمایا آگ۔ فرشتوں نے دریافت کیا، کیا آگ سے بھی سخت چیز آپ نے تخلیق فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا پانی اس سے بھی سخت تر ہے۔ انہوں نے عرض کی کیا پانی سے بڑھ کر بھی اے اللہ تو نے کسی چیز کو تخلیق کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہوا، فرشتوں نے سوال کیا اے پروردگار کیا تو نے ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ابن آدم کا اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین بنا کر اس میں پہاڑ نصب فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے درمیان راستے بنائے۔ تفسیر بالقرآن پہاڑوں کے فوائد اور ان کی ساخت : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سایہ دار چیزیں بنائیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی۔ (النحل : ٨١) ٢۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا۔ (النباء : ٧۔ ٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر پہاڑگاڑ دیے۔ (النازعات : ٣٢) ٤۔ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوبصورت گھر بناتے ہو۔ (الشعراء : ١٤٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں راستے بنائے۔ (الانبیاء : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

.31 اور ہم نے زمین میں اس لئے بھاری بھاری پہاڑ بنائے کہ وہ زمین ان لوگوں کو لے کر نہ ہلنے لگے اور ہم نے ان پہاڑوں میں کشادہ کشادہ گھاٹیاں اور گھاٹے بنائے تاکہ وہ لوگ منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک والوں سے مل سکیں اگر پہاڑ ایسے ڈھب پر پڑتے کہ راہیں بند ہوتیں تو یہ بات کہاں تھی۔ 12