Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 34

سورة الأنبياء

وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ ﴿۳۴﴾

And We did not grant to any man before you eternity [on earth]; so if you die - would they be eternal?

آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی کیا اگر آپ مر گئے تو وہ ہمیشہ کے لئے رہ جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No One has been granted Immortality in this World Allah tells: وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ ... And We granted not to any human being immortality before you; means, O Muhammad. ... الْخُلْدَ ... immortality, means, in this world. On the contrary, كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْـلِ وَالاِكْرَامِ Whatsoever i... s on it (the earth) will perish. And the Face of your Lord full of majesty and honor will remain forever. (55:26-27) ... أَفَإِن مِّتَّ ... then if you die, means, O Muhammad, ... فَهُمُ الْخَالِدُونَ would they live forever! means, they hope that they will live forever after you, but that will not happen; everything will pass away.   Show more

خضرعلیہ السلام مرچکے ہیں جتنے لوگ ہوئے سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے ۔ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں ۔ ہاں رب کی جلال واکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے ۔ اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام مرگئے ۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی ان... سان ہی تھے ولی ہوں یانبی ہوں یا رسول ہوں تھے تو انسان ہی ۔ ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ ایسا تو محض ناممکن دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں ۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ۔ پھر فرمایا موت کا ذائقہ ہر ایک کوچکھنا پڑے گا ۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے ۔ پھر فرماتا ہے بھلائی برائی سے ، سکھ دکھ سے ، مٹھاس کڑواہٹ سے ، کشادگی تنگی سے ۔ ہم اپنے بندوں کو آزمالیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا صابر اور ناامید کھل جائے ۔ صحت وبیماری ، تونگری ، فقیری ، سختی ، نرمی ، حلال ، حرام ، ہدایت ، گمراہی ، اطاعت ، معصیت یہ سب آزمائشیں ہیں ، اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں ۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے اس وقت جوجیسا تھا کھل جائے گا ۔ بروں کو سزا نیکوں کو جزا ملے گی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یہ کفار کے جواب میں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقینا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مستشنٰی نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگ... ی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔ ؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہوگئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء و اولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں فنعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ التی تعارض القرآن۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] جب کفار مکہ کے ظلم و ستم اور چیرہ دستیوں سے تنگ آکر ٨٠ کے قریب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ تو قریش مکہ کے سب گھروں میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ مشکل ہی سے کوئی گھرانا ایسا بچا رہ گیا ہوگا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو۔ ان لوگوں کو اپنی ایذا رسانیوں کا تو خیال تک نہ آتا تھا مگر یہ ضرو... ر سمجھتے تھے کہ ہمارے گھروں کی بربادی کا باعث صرف یہ شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ لہذا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ شخص مرجائے تو ہمارے گھر پھر سے آباد ہوسکتے ہیں۔ پھر وہ آپ کے لئے موت کی بددعا بھی کرتے تھے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کو مخاطب کرکے بتلایا جارہا ہے کہ موت ہر ایک کو آنے والی ہے۔ پہلے بھی سب لوگ۔۔ اور اس نہی کو بھی اپنے وقت پر موت آنے والی ہے۔ مگر تم بتاؤ کہ تم موت سے بچ سکتے ہو۔ وہ تو تمہیں بھی آکے رہے گی اور کیا معلوم کہ تم سے اکثر اس سے پہلے ہی مرجائیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ : اس سے پہلے چار آیات میں خالق کائنات کے وجود اور اس کی توحید کے چھ دلائل بیان فرمائے۔ اب یہاں سے بیان فرمایا کہ یہ نظام ہمیشہ قائم رہنے کے لیے نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش کے لیے بنایا گیا ہے۔ (کبیر) 3 بقاعی نے پچھلی آیت کے ساتھ یہ مناسبت ذکر کی ہے ک... ہ اس میں رات دن کے آنے جانے کا ذکر ہے، جس سے ہر انسان کی عمر کا سلسلہ آخر منقطع ہوجاتا ہے، اس لیے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، خواہ نیک ہو یا بد۔ یہ آیت خضر (علیہ السلام) کے زندہ نہ ہونے کی بھی ایک بہت مضبوط دلیل ہے۔ رہے عیسیٰ (علیہ السلام) ، تو ان کی عمر بہت طویل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہے، کیونکہ قیامت کے قریب زمین پر اترنے کے بعد انھوں نے بھی فوت ہونا ہے۔ [ بخاري، العلم، باب السمر في العلم : ١١٦، عن ابن عمر ] وہ حدیث بھی اس کی صریح دلیل ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنَّ رَأْسَ مِءَۃِ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ) [ بخاري، في العلم، باب السمر فی العلم : ١١٦۔ مسلم : ٢٥٣٨ ] ” جو لوگ آج زمین کی پشت پر موجود ہیں آج سے ایک سو سال کے سرے پر ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ “ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ : اس میں ان لوگوں کا جواب ہے جو یہ کہہ کر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنقریب مرجائیں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ دیکھیے سورة طور (٢٠) فرمایا، اس میں ان کے لیے خوشی کا موقع تو تب ہو جب انھیں ہمیشہ زندہ رہنا ہو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ‌ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ (And We did not assign immortality to any human (even) before you. - 21:34) The preceding verses give a strong and logical rebuttal of the unfounded and exaggerated beliefs of the infidels and polytheists to the effect that Sayyidna Masih and Sayyidna ` Uzair (علیہما السلام) are the associates of God or that Masih and the Angels are God&... amp;s children. Unable to come up with a satisfactory answer to the rational and logical arguments given by the Qur&an, the infidels of Makkah were in despair and wished for the death of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلمٍ. This has been mentioned in some other verses also, like e.g. نَّتَرَ‌بَّصُ بِهِ رَ‌يْبَ الْمَنُونِ (52:30). In this verse (34) Allah Ta` ala has given two answers to their pitiable wish. One, that even if the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) died early how would it help them? If they thought that they could use the death of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as an argument against his prophethood, they were very much mistaken, because all the other Prophets (علیہم السلام) whose prophethood they themselves had accepted, also died when their time came. Thus, if the death of their own prophets did not alter their position as prophets, how could the death of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) change his position? Secondly, if their purpose in wishing for his early death was only to appease their frustration, then they should have known that death is universal, and everybody has to die sooner or later. اگر بمرد عدو جأٰے شادمانی نیست کہ زندگانیء مانیز جاودانی نیست If an enemy dies, it is not to be rejoiced, because our own life is not eternal.  Show more

خلاصہ تفسیر اور (یہ لوگ جو آپ کی وفات کی خوشیاں منا رہے ہیں لقولہ تعالیٰ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ، یہ وفات بھی منافی نبوت کی نہیں کیونکہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لئے (خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی دنیا میں) ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا (لقولہ تعالیٰ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ ، پس جیس... ے آپ سے پہلے انبیاء کو موت آئی اس سے ان کی نبوت میں کسی کو شبہ نہیں ہوا اسی طرح آپ کی وفات سے آپ کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبوت اور موت دونوں ایک شخص میں جمع ہو سکتی ہیں) پھر (یہ کہ اگر آپ کا انتقال ہوجاوے تو کیا یہ لوگ (دنیا میں) ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے (آخر یہ بھی مریں گے پھر خوشی کا کیا مقام ہے ؟ مطلب یہ کہ آپ کی وفات سے ان کی خوشی اگر ابطال نبوت کے لئے ہے۔ تب تو مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ الخ اس کا جواب ہے اور اگر ذاتی بغض و عداوت سے ہے تو اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ اس کا جواب ہے غرض ہر حالت میں یہ انتظار مہمل اور لغو ہے اور موت تو ایسی چیز ہے کہ تم میں) ہر جاندار موت کا مزا چکھے گا اور (یہ جو ہم نے چند روزہ تم کو زندگی دے رکھی ہے تو اس سے مقصود محض یہ ہے کہ) ہم تم کو بری بھلی حالتوں سے اچھی طرح آزماتے ہیں (بری حالت سے مراد جو کہ خلاف مزاج ہو جیسے مرض و فقر اور اچھی حالت سے مراد جو کہ موافق مزاج ہو جیسے صحت اور غنا زندگی میں یہی حالتیں مختلف طور پر پیش آتی ہیں۔ کوئی ان میں ایمان اور اطاعت بجا لاتا ہے اور کوئی کفر و معصیت کرتا ہے مطلب یہ کہ زندگی اس لئے دے رکھی ہے کہ دیکھیں کیسے کیسے عمل کرتے ہو) اور (اس زندگی کے ختم پر) پھر تم سب ہمارے پاس چلے آؤ گے (اور ہر ایک کو اس کے مناسب سزا و جزا دیں گے پس امر مہم تو موت اور مابعد الموت ہی ہوا اور زندگی محض عارضی پھر یہ لوگ اس پر اتراتے ہیں اور پیغمبر کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں یہ نہ ہوا کہ اس مستعار زندگی میں دولت ایمان و اطاعت کما لیتے جو ان کے کام آتی اور الٹا نامہ اعمال سیاہ اور آخرت کی منزل بھاری کر رہے ہیں ڈرتے نہیں) اور (ان منکرین کی یہ حالت ہے کہ) یہ کافر لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے ہنسی مذاق کرنے لگتے ہیں (اور آپس میں کہتے ہیں) کہ کیا یہی (صاحب) ہیں جو تمہارے معبودوں (کا برائی سے) ذکر کیا کرتے ہیں (سو آپ پر تو بتوں کے انار کا بھی اعتراض ہے) اور (خود) یہ لوگ (حضرت) رحمان (جل شانہ) کے ذکر پر انکار (اور کفر) کیا کرتے ہیں (تو اعتراض کی بات تو درحقیقت یہ ہے اس لئے ان کو اپنی اس حالت پر استہزاء کرنا چاہئے تھا اور ان کی یہ حالت ہے کہ جب سزائے کفر کا مضمون سنتے ہیں جیسے اوپر ہی ذکر ہوا ہے اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ تو بوجہ تکذیب کے اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ یہ سزا جلد آجائے اور یہ تقاضا اور عجلت کچھ انسانی طبیعت کا خاصہ اکثریہ بھی ہے پس اس کا طبعی ہونا ایسا ہے جیسے گویا) انسان جلدی ہی (کے خمیر) کا بنا ہوا (ہے یعنی عجلت اور جلدی مثل اس کے اجزاء ترکیبیہ کے ہے اسی واسطے یہ لوگ عذاب جلدی جلدی مانگتے ہیں اور اس میں دیر ہونے کو دلیل عدم وقوع کی سمجھتے ہیں لیکن اے کافرو یہ تمہاری غلطی ہے کیونکہ اس کا وقت معین ہے سو ذرا صبر کرو) ہم عنقریب (اس کے وقت آنے پر) تم کو اپنی نشانیاں (قہر کی یعنی سزائیں) دکھائے دیتے ہیں، پس تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ (کیونکہ عذاب وقت سے پہلے آتا نہیں اور وقت پر ٹلتا نہیں) اور یہ لوگ (جب یہ مضمون سنتے ہیں کہ وقت موعود پر عذاب آوے گا تو رسول اور مؤمنین سے یوں) کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کس وقت آوے گا اگر تم (وقوع عذاب کی خبر میں) سچے ہو ( تو توقف کا ہے کا جلدی سے کیوں نہیں واقع کردیا جاتا۔ اصل یہ ہے کہ ان کو اس مصیبت کی خبر نہیں جو ایسی بےفکری کی باتیں کرتے ہیں) کاش ان کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی جبکہ (ان کو سب طرف سے دوزخ کی آگ گھیرے گی اور) یہ لوگ (اس) آگ کو نہ اپنے سامنے سے روک سکیں گے اور نہ اپنے پیچھے سے اور نہ ان کی کوئی حمایت کرے گا (یعنی اگر اس مصیبت کا علم ہوتا تو ایسی باتیں نہ بناتے اور یہ جو دنیا ہی میں عذاب نار کی فرمائش کر رہے ہیں سو یہ ضرور نہیں کہ ان کی فرمائش کے موافق عذاب نار آ جاوے، بلکہ وہ آگ (تو) ان کو ایک دم سے آلے گی سو ان کو بدحواس کر دے گی پھر نہ اس کے ہٹانے کی ان کو قدرت ہوگی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی اور (اگر وہ یوں کہیں کہ اگر یہ عذاب آخرت میں موعود ہونے کی وجہ سے دنیا میں نہیں ہوتا تو اچھا دنیا میں اس کا کوئی نمونہ تو دکھلا دو تو گو باقاعدہ مناظرہ نمونہ دکھلانا ضرور نہیں لیکن تبرعاً نمونہ کا پتہ بھی دیا جاتا ہے وہ یہ کہ آپ سے پہلے جو پیغمبر گزرے ہیں ان کے ساتھ بھی (کفار کی طرف سے) تمخسر کیا گیا سو جن لوگوں نے ان سے تمخسر کیا تھا ان پر وہ عذاب واقع ہوگیا جس کے ساتھ وہ استہزاء کرتے تھے (کہ عذاب کہاں ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ کفر موجب عذاب ہے پس اگر دنیا میں وقوع نہ ہو تو آخرت میں ہوگا اور یہ بھی ان سے) کہہ دیجئے (کہ دنیا میں جو تم عذاب سے محفوظ ہو سو یہ حفاظت بھی حضرت رحمان ہی کر رہا ہے اس میں بھی اسی کا احسان اور دلالت علی التوحید ہے اور اگر تم اس کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر بتلاؤ) کہ وہ کون ہے جو رات اور دن میں رحمان (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت کرتا ہو (اور اس مضمون کا مسلم مقتضا یہ تھا کہ توحید کے قائل ہوجاتے مگر وہ اب بھی قائل نہ ہوئے) بلکہ وہ لوگ (اب بھی بدستور) اپنے رب (حقیقی) کے ذکر (توحید کے قبول کرنے) سے روگرداں (ہی) ہیں (ہاں ہم مَنْ يَّـكْلَـؤ ُ كُمْ کے مصداق کی توضیح کے لئے صریحاً دریافت کرتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس ہمارے سوا اور ایسے معبود ہیں کہ (عذاب مذکور سے) ان کی حفاظت کرلیتے ہوں (وہ بیچارے ان کی تو کیا حفاظت کرتے ان کی بیچارگی دور ماندگی کی تو یہ حالت ہی کہ) وہ خود اپنی حفاظت کی قدرت نہیں رکھتے (مثلاً ان کو کوئی توڑنے پھوڑنے لگے تو مدافعت بھی نہیں کرسکتے کقولہ تعالیٰ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَاب الخ پس نہ وہ ان کے معبود ان کی حفاظت کرسکتے ہیں) اور نہ ہمارے مقابلہ میں کوئی ان کا ساتھ دے سکتا ہے (اور یہ لوگ باوجود ان دلائل ساطعہ کے جو حق کو قبول نہیں کرتے تو یہ وجہ نہیں کہ دعوی یا دلیل میں کچھ خلل ہے) بلکہ (اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ) میں نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو (دنیا کا) خوب سامان دیا یہاں تک کہ ان پر (اسی حالت میں) ایک عرصہ دراز گزر گیا (کہ پشتہائے پشت سے عیش آرام کرتے آ رہے ہیں پس کھا کھا کے غرانے لگے اور آنکھیں پتھرا گئیں مطلب یہ ہے کہ ان ہی میں خلل غفلت کا ہے لیکن باوجود منبہات تشریعیہ و تکوینیہ کے اتنی غفلت بھی نہ ہونا چاہئے چناچہ ایک امر منبہ کا ذکر کیا جاتا ہے وہ یہ کہ) کیا ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہم (ان کی) زمین کو (بذریعہ فتوحات اسلامیہ کے) ہر چہار طرف سے برابر گھٹاتے چلے جاتے ہیں سو کیا یہ لوگ (یہ توقع رکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین پر) غالب آویں گے (کیونکہ قرائن عادیہ اور دلائل تنزیلیہ متفق ہیں ان کے مغلوب اور اہل حق کے غالب ہوتے جانے پر تاوقتیکہ مسلمان اطاعت خداوندی سے منہ نہ موڑیں اور حمایت اسلام نہ چھوڑیں پس اس امر میں قائل کرنا بھی تنبیہ کے لئے کافی ہے اگر اس پر بھی عناد و جہالت سے وقوع عذاب ہی کی فرمائش کریں تو) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف وحی کے ذریعہ سے تم کو ڈراتا ہوں (عذاب کا آنا میرے بس سے باہر ہے) اور (گو یہ طریقہ دعوت الی الحق کا اور یہ انداز کافی ہے، مگر) یہ بہرے جس وقت (حق کی طرف بلائے جانے کے واسطے عذاب سے) ڈرائے جاتے ہیں سنتے ہی نہیں (اور طریق وضوح حق میں تامل ہی نہیں کرتے بلکہ وہی مرغی کی ایک ٹانگ عذاب ہی مانگے جاتے ہیں) اور (کیفیت عالی ہمتی کی یہ ہے کہ) اگر ان کو آپ کے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی ذرا لگ جاوے تو (ساری بہادری ختم ہوجاوے اور) یوں کہنے لگیں کہ ہائے ہماری کمبختی (کیسی ہمارے سامنے آئی) واقعی ہم خطاوار تھے (بس اس ہمت پر عذاب کی فرمائش ہے واقعی ان کی اس شرارت کا تو یہی مقتضا تھا کہ دنیا ہی میں فیصلہ کردیتے مگر ہم بہت سی حکمتوں سے دنیا میں سزائے موعود دینا نہیں چاہتے بلکہ آخرت کے لئے اٹھا رکھا ہے اور (وہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے (اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے) سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور (ظلم نہ ہونے کا یہ ثمرہ ہوگا کہ) اور اگر (کسی کا کوئی) عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کردیں گے (اور اس کا بھی وزن کریں گے) اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ (ہمارے اس وزن اور حساب کے بعد پھر کسی حساب و کتاب کی ضرورت نہ رہے گی بلکہ اسی پر سب فیصلہ ہوجاوے گا پس وہاں لوگوں کی شرارتوں کی بھی سزائے مناسب و کافی جاری کردی جاوے گی۔ معارف و مسائل وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ، سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کے باطل دعو وں اور مشرکانہ عقیدوں کی جن میں حضرت مسیح یا عزیر وغیرہ کو خدائی کا شریک یا فرشتوں اور مسیح کو اللہ تعالیٰ کی اولاد کہا گیا ان گمراہ کن عقائد کی تردید و ابطال واضح دلائل کے ساتھ آیا ہے جس کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا ایسے مواقع میں جب مخالف حجت و دلیل سے مغلوب ہوجائے تو جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے اسی کا نتیجہ تھا کہ مشرکین مکہ اس کی تمنا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد وفات ہوجاوے جیسا کہ بعض آیات میں ہے نّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی اس بیہودہ تمنا کے دو جواب دیئے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد ہی وفات ہوگئی تو تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا ؟ اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ ان کی موت ہوجائے گی تو ہم لوگوں کو بتلائیں گے کہ یہ نبی و رسول نہیں تھے ورنہ موت نہ آتی تو اس کا یہ جواب دیا کہ جن انبیاء کی نبوت کو تم بھی مانتے ہو کیا ان کو موت نہیں آئی، جب ان کی موت سے ان کی نبوت و رسالت میں کوئی فرق نہ آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے آپ کی نبوت کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور اگر تمہارا مقصد آپ کی جلد وفات سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے تو یاد رکھو کہ یہ موت کا مرحلہ تمہیں بھی درپیش ہے آخر تمہیں بھی مرنا ہے۔ پھر کسی کی موت سے خوش ہونے کے کیا معنے۔ اگر بمرد عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی مانیز جاودانی نیست   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۝ ٠ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ۝ ٣٤ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ... ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) اور ہم نے آپ سے پہلے اور انبیاء کرام میں سے کسی بھی نبی کو دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کا انتقال ہوجائے تو کیا یہ لوگ دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ وما جعلنا لبشر من قبلک “۔ (الخ) ابن منذر (رح) نے ابن جریج (رض) سے رو... ایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے انتقال فرمانے کی خبر دی گئی آپ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میرے بعد میری امت کی کون نگرانی کرے گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَفَاْءِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ مخالفین ابوجہل ‘ ابولہب وغیرہ ہمیشہ کی زندگیاں لے کر تو نہیں آئے۔ ان سب کو ایک دن مرنا ہے اور ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. From here the same theme of the conflict between the Prophet (peace be upon him) and the disbelievers, that was interrupted by (verses 19-33), has been resumed.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :36 یہاں سے پھر سلسلہ تقریر اس کش مکش کی طرف مڑتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: سورۃ طور : 30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے ... موت سے بچ جائیں گے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ ٣٥:۔ سورة یونس میں گزر چکا ہے ١ ؎ کہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کو قرآن شریف کی وہ آیتیں سناتے تھے ‘ جن میں ان کے بتوں کی مذمت ہوتی تھی تو ان میں کے بڑے بڑے سرکش اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ اگر تم کو ہمیں قرآن سنانا منظور ہے تو اس میں سے ہمارے ... بتوں کی مذمت کا ذکر بدل ڈالو ‘ مشرکین مکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ برس دن تک تم ہمارے بتوں کی پوجا کرو اور ہم برس دن تک تمہارے خدا کی عبادت کریں گے۔ پھر اس صورت میں ہمار تمہارا کوئی جھگڑا باقی نہ رہے گا ‘ یہ ذکر تفصیل سے سورة الزمر میں آتا ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ کی یہ باتیں کچھ کارگر نہ ہوئی تو یہ لوگ اللہ کے رسول کو کو ستے اور آپ کی وفات کی تمنا کرتے تھے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے اللہ تعالیٰ کا یہ انتظام تو تم سے پہلے کا ہے کہ کوئی بشر دنیا میں رہنے والا نہیں اس انتظام کے موافق اگر تم دنیا میں نہ رہے تو ایک دن یہ لوگ بھی نہ رہیں گے کیونکہ موت کا مزہ ہر شخص کو چکھنا ضرور ہے پھر اپنی دنیا کی خوش حالی کے نشہ میں یہ لوگ اپنی موت سے جو غافل ہیں ‘ یہ ان کی نادانی ہے ‘ دنیا کی خوشحالی اور تنگدستی تو اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش کے لیے پیدا کی ہے کہ خوشحالی کی حالت میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتا ہے اور کون ناشکری ‘ اسی طرح تنگدستی کی حالت میں کون صبر کرتا ہے اور کون بےصبری ‘ پھر ایک دن سب اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے والے ہیں اس وقت ہر شخص کے عملوں کے موافق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا ‘ صحیح مسلم کے حوالہ ٢ ؎ سے صہیب (رض) رومی کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ خوشحالی کے وقت شکر اور تنگدستی کے وقت صبر ان لوگوں کا کام ہے جو پکے ایماندار ہیں ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ خوشحالی اور تنگدستی دنیا میں آزمائش کی چیزیں ہیں اور آزمائش میں وہی لوگ پورے اترتے ہیں جو پکے ایماندار ہیں ‘ اللہ کے رسول کی وفات کا انتظار کرنے والوں میں سے بڑے بڑے سرکش بدر کی لڑائی میں ختم ہوگئے ‘ جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس (رض) بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے اور جن بتوں کی حمایت میں یہ لوگ اللہ کے رسول کی وفات کا انتظار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ سے ان بتوں کو جس قدر ذلیل کرایا ‘ صحیح بخاری کی عبداللہ (رض) بن مسعود ٣ ؎ اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) ٤ ؎ کی روایتوں کے حوالہ سے یہ قصہ بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار کر ان بتوں کو زمین میں پھینک دیا اور کس مشرک سے ان بتوں کی کچھ حمایت نہ ہوسکی۔ (١ ؎ ص ١٨‘ ١٩ جلد ٣ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب التوکل والصبر ) (٣ ؎ صحیح بخاری ابواب فتح مکہ ) (٤ ؎) صحیح مسلم ص ١٠٣ ج ٢  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:34) الخلد۔ خلد یخلد (نصر) خلود (مصدر) سے حاصل مصدر ہے۔ بمعنی دوام۔ بقائ۔ ہمیشگی۔ الخلود کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصل حالت پر قائم رہنے کے ہیں اور جب کسی چیز میں عرصہ دراز تک تغیروتبدل و فساد پیدا نہ ہو تو اسے خلود کے ساتھ متصف کرتے ہیں۔ مثلاً چولھے کے ان تین پتھروں ... کو جن پر دیگ چڑھائی جاتی ہے خوالد کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ دیر تک ایک ہی جگہ پڑے رہتے ہیں۔ اس بناء پر جس میں طویل عمر ہونے کے باوجود بڑھاپے اور کمزوری کے آثار نہ ہوں اسے مخلد کہتے ہیں۔ مت۔ مات یموت سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ افائن مت۔ تو کیا اگر، تم مرجائو یا مرگئے۔ فہم الخلدون۔ تو یہ لوگ ہمیشہ (یہاں) رہیں گے۔ مدتوں زندہ رہیں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اوپر کی آیات میں توحید اور صانع کیو جود پر ” دلائل ستہ “ بیان فرمائے جو تمام دنیوی نعمتوں کی اصل ہیں۔ اب یہاں سے بیان فرمایا کہ یہ نظام ہمیشہ قائم رہنے کے لئے نہیں، بلکہ ابتلاء و امتحان کے لئے بنایا گیا ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 34 تا 41 الخلد ہمیشہ زندہ رہنا۔ مت تو مر گیا۔ تیرا اتنقال ہوگیا۔ ضائقۃ چکھنے والا۔ فتنۃ آزمائش۔ ھزو مذاق۔ عجل جلد باز۔ لاتستعجلون تم جلدی نہ مچاؤ۔ لایکفون وہ نہ روک سکیں گے۔ بغتۃ اچانک۔ تبھت حیران۔ حاق گھیر لیا۔ آپڑا۔ تشریح :- آیت نمبر 34 تا 41 سورۃ الانبیاء کی یہ آیات اس وقت ... نازل ہوئیں جب کفار مکہ کی مخالفت اور دشمنی انتہاؤں تک پہنچ چکی تھی وہ ہر حال میں اس ابھرتی ہوئی تحریک کو اپنی سازشوں سے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ ان سے جو کچھ ممکن تھا انہوں نے اس میں کسر اٹھا نہ رکھی تھی ان لوگوں نے یہاں تک فیصلہ کرلیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نعوذ باللہ قتل کردیا جائے تاکہ یہ مقصد اور مشن ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان کیا ہے کہ اے نبی ؐ! اگر یہ لوگ آپ کی دشمنی میں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ آپ انتقال کر جائیں یا قتل کرا دیئے جائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ اس دنیا میں اسی طرح رہیں گے اور ان کو موت نہ آئے گی حالانکہ روئے زمین پر جو بھی ہے اس کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہے خیر و شر، بھلائی، برائی، زندگی اور موت کی آزمائشوں سے گزر کر آخر کار ہر شخص کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ جہاں زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ اور ہر ایک کے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائیں گے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اے نبی ! جب کفار آپ کو دیکھتے ہیں تو اپنی اصلاح کرنے کے بجائے یہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور طنز کے طور پر کہتے ہیں اچھا تو یہ ہیں وہ جو ہمارے معبودوں کا مذاق اڑاتے ہیں ؟ اور روز روز ہمیں عذاب کی دھمکیاں دیتے ہیں ؟ وہ کہتے تھے کہ اول تو عذاب آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر عذاب آ بھی جائے تو ہمارے ان معبودوں کی موجودگی میں ہمیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ جسارت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتے تھے کہ تم جس عذاب کی باتیں کرتے ہو آخر اس کے آنے میں دیر کیا ہو رہی ہے ؟ اگر عذاب کو آنا ہی ہے تو جلدی سے آجائے۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ یہ کس عذاب کی باتیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان بہت ہی جلد باز ہے وہ اپنی جلد بازی اور عجلت پسندی میں اس بات پر غور نہیں کرتا کہ جب اللہ کا عذاب آئے گا تو وہ ایک آگ ہوگی جو ان کو چاروں طرف سے گھیر لے گی۔ اس کی لپیٹیں چہروں کو جھلسا کر رکھ دیں گی اور وہ کچھ بھی نہ کرسکیں گیا ور وہ عذاب اتنا اچانک اور فوری طور پر آئے گا کہ کسی کو سنبھلنے کا یا اس کو روک لینے کا موقع بھی نہ مل سکے گا اور وہ ایسے بدحواس ہوجائیں گے کہ ان کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے گی وہ آگے جو آگے سے اور پیچھے سے آئے گی اسے نہ روک سکیں گے اور نہ کسی طرف سے ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ آج آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں آپ پر طرح طرح کے طنز کے تیر چلا رہے ہیں تو یہ کوئی بات نہیں ہے اللہ کے نبی اور رسول جب بھی آئے ان کا اسی طرح مذاق اڑایا گیا۔ حق اور صداقت کی آواز کو ہمیشہ اسی طرح دبانے اور مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن آخر کار اللہ نے دشمنان اسلام کو ذلیل اور رسوا کیا اور اپنے نبیوں اور رسولوں کو کامیاب بامراد فرمایا۔ یقینا آپ بھی ہر طرح کامیاب اور بامراد ہوں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے رات کے بعد دن، چاند اور سورج کو بنایا اور ان کے لیے دائرہ کار اور وقت مقرر کیا اسی طرح ہی ہر انسان کا ایک وقت اور اسے کچھ ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ جس طرح چاند غائب اور سورج غروب ہوجاتا ہے اسی طرح ہی انسان کی زندگی کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (صلی...  اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ پوری کائنات کا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس نے ایک معینّہوقت تک ہر چیز کی ایک ڈیوٹی لگا رکھی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔ جس طرح ہر چیز کی ایک ذمہ داری ہے اسی طرح ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذمہ ” اللہ “ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا تھا۔ اسی فرض کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ نے لوگوں کے سامنے عقیدۂ توحید اور اس کے دلائل پیش فرمائے تو لوگوں نے ان دلائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے نہ صرف اعراض کیا بلکہ آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت جیسی مسلمہ حقیقت بتلانے کے ساتھ تسلّی دی جا رہی ہے کہ اے محبوب پیغمبر ! گھبرانے کی ضرورت نہیں ایک وقت آنے والا ہے کہ جب آپ بھی اس دنیا سے کوچ کریں گے اور آپ کے دشمن بھی موت کے گھاٹ اتریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ لہٰذا آپ کو بھی موت آئے گی اور آپ کے مخالفوں نے بھی یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ ہر انسان نے موت کے گھاٹ اترنا ہے۔ ہم لوگوں کو نیکی اور برائی، تنگی اور کشادگی کے ساتھ آزماتے ہیں، پھر ہماری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے۔ موت وہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی عقلمند کے لیے ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی موت کی آغوش میں جانا پڑا۔ جو شخص موت کی وادی میں داخل ہوا، وہ واپس نہیں آیا اور نہ آئے گا۔ البتہ ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کی روح دنیا میں واپس آجاتی ہے۔ اس عقیدہ کو آوگون کا نام دیا گیا۔ افسوس ہندؤوں سے متاثر ہو کر کچھ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنایا اور پھیلایا کہ نیک لوگوں کی روحیں دنیا میں واپس آتی ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو خیر اور شر کے ساتھ آزماتا ہے خوش بخت ہے وہ انسان جس نے شر کے مقابلے میں خیر کا انتخاب کیا اور اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری لمحات : (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِنَّ مِنْ نِّعَمِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُوُفِّیَ فِیْ بَیْتِیْ وَفِیْ یَوْمِیْ وَبَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ وَاَنَّ اللّٰہَ جَمَعَ بَیْنَ رِیْقِیْ وَرِیْقِہٖ عِنْدَ مَوْتِہٖ دَخَلَ عَلَیَّ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍ وَبِیَدِہٖ سِوَاکٌ وَّاَنَا مُسْنِدَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرَاَیْتُہٗ یَنْظُرَ اِلَیْہِ وَعَرَفْتُ اَنَّہٗ یُحِبُّ السِّوَاکَ فَقُلْتُ اٰخُذُہٗ لَکَ فَاَشَارَ بِرَاْسِہٖ اَنْ نَّعَمْ فَتَنَاوَلْتُہٗ فَاشْتَدَّ عَلَیْہِ وَقُلْتُ اُلَیِّنُہٗ لَکَ فَاَشَارَ بِرَاْسِہٖ اَنْ نَّعَمْ فَلَیَّنْتُہٗ فَاَمَرَّہٗ وَبَیْنَ یَدَیْہِ رَکْوَۃٌ فِیْھَامَاءٌ فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَاءِ فَیَمْسَحُ بِھِمَا وََجْہَہٗ وَیَقُوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٌ ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ ) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ] حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بےپناہ انعامات میں سے ایک انعام یہ ہے ‘ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں ‘ میری باری کے دن ‘ میرے سینے اور میری گردن کے درمیان فوت کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے قریب میرے لعاب دہن اور آپ کے لعاب دہن کو جمع فرمایا وہ اس طرح کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر میرے پاس آئے اس کے ہاتھ میں مسواک تھی میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سہارا دے رکھا تھا۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ مسواک کی طرف متوجہ ہیں۔ میں جان گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا آپ کے لیے مسواک لوں ؟ آپ نے اثبات میں سر ہلایا میں نے مسواک آپ کو دی آپ نے مسواک کرنا شروع کی لیکن وہ سخت تھی۔ پھر میں نے پوچھا ‘ کیا میں اسے آپ کے لیے نرم کردوں ؟ آپ نے اپنے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں۔ چناچہ میں نے مسواک کو آپ کے لیے نر م کیا۔ آپ نے مسواک کی اور آپ کے ہاتھوں میں پانی کا بر تن تھا۔ آپ پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرے پر ہاتھ ملتے اور کہتے لاَ اِ لٰہ اِ لَّا اللّٰہ بلا شبہ سکرات موت برحق ہیں۔ پھر اپنا ہاتھ بلند کیا اور رفیق اعلیٰ کی دعا کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ ( وَعَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ یَتَغَشَّاہُ الْکَرْبُ فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ وَ اکَرَبَ اَبَاہْ ! فَقَالَ لَہَا لَیْسَ عَلٰی اَبِیْکَ کَرْبٌ بَعْدَ الْیَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ یَا اَبَتَاہُ اَجَابَ رَبَّا دَعَاہٗ یَااَبَتَاہٗ مِنْ جَنَّتِ الْفِرْدَوْسِ مَاْوَاہٗ ۔ یَا اَبَتَاہٗ اِلٰی جِبْرَءِیْلَ نَنْعَاہٗ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتُ فَاطِمَۃُ یَا اَنَسُ اَطَابَتْ اَنْفُسُکُمْ اَنْ تَحْثُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ التُّرَابَ ۔ ) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدید بیمار ہوئے۔ آپ پر بیماری کی وجہ سے غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ (رض) پکار اٹھیں ‘ ہائے ابو جان کی تکلیف ! رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ (رض) نے کہا ہائے ابا جان ! آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی۔ ابا جان ! آپ کا مقام جنت ہے۔ اے ابو جان ہم جبرئیل کو آپ کی موت پر مطلع کرتے ہیں۔ پھر جب آپ کو دفنایا گیا تو حضرت فاطمہ (رض) نے کہا ‘ اے انس ! تم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالنے پر اپنے آپ کو کیسے آمادہ کرلیا ؟ “ تفسیر ماجدی میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی ” وَمَا مُحَّمْدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ“ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں۔ ان سب نے اپنے وقت پر دنیا کو خیر باد کہا سو یہ بھی اپنے وقت موعود پر وفات پائیں گے۔ اور اس بات میں نہ کوئی بات حیرت کی ہوگی اور نہ کوئی پہلو اہانت کا نکلے گا۔ رسول کا مرتبہ خوب سمجھ لیا جائے رسول محض ہوتے ہیں صاحب وحی عقیدہ حلول، مظہریت، ابدیّت وغیرہ پر ضرب لگانے کے لیے مرتبہ رسالت کی بار بار تصریح ضروری تھی۔ حضور کی وفات کا حادثہ اس قدر سخت تھا کہ حضرت فاروق (رض) جیسے باوقار اور عالی ظرف صبر وضبط کھو بیٹھے اور بےاختیار ہوگئے۔ مسائل ١۔ کوئی انسان دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ ٢۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی موت نے آلیا۔ ٣۔ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو نیکی اور بدی کے ساتھ آزماتا ہے۔ ٥۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے ہاں لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن موت ایک حقیقت ہے : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٧۔ ” اللہ “ نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ( الانبیاء : ٣٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما جعلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والینا ترجعون ” کل نفس ذائقۃ الموت (١٢ : ٥٣) ” ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے “۔ یہ قانون قدرت اس کرئہ ارض پر حیات پر لاگو ہی اور اس قاعدے میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ لہٰذا تمام زندوں کو ‘ تمام عقلمند زندوں کو اس مذاق کا خیال رکھنا چاہیے۔ موت ہر زندہ چیزکا انجام ہے۔ زمین میں انس... ان کا ایک مختصر سفر ہے۔ سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہاں سفر کے دوران انسان کو جو حالات پیش آتے ہیں یہ تو اس کے لیے آزمائش ہے ‘ ایک امتحان ہے۔ ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ (١٢ : ٥٣) ” اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کررہے ہیں “۔ شر میں مبتلا کر کے آزمائش سمجھ میں آتی ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون کس قدر صبر کرتا ہے ‘ کس قدر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اسے کس قدر رحمت خداوندی پر یقین ہے لیکن بھلائی اور خیر میں آزمائش کیسی ؟ اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بھلائی اور خیر میں آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اگرچہ لوگ اسے شر کی آزمائش سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اکثر لوگ شر میں آزمائش کا مقابلہ تو کرلیتے ہیں لیکن خیر میں ان سے آزمائش کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ بیماری اور ضعف میں لوگ شر کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن صحت اور عافیت میں کم لوگ آزمائش کا مقابلہ کر ست کے ہیں۔ ان کے پاس اختیارات کی اندھی قوت ہوتی ہے یا جسمانی اندھی قوت ہوتی ہے۔ اس کے استعمال میں وہ فیل ہوجاتے ہیں۔ بیشمار لوگ ایسے ہوں گے جو فقرو فاقہ برداشت کریں گے اور ان کے نفوس کبھی بھی ان کو ذلت اور برے طریقوں پر رزق حرام پر آمادہ نہ کرسکیں گے لیکن کم ہیں جو دولتمندی کی آزمائش میں پورے اتریں۔ دولت کا حق ادا کریں ‘ تکبرو غرور نہ کریں اور عیش و عشرت سے بچیں۔ بہت لوگ ہوں گے جو تشدد کو برداشت کریں گے اور ڈراوے اور دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہ کریں گے لیکن کم لوگ ہوں جو امن و عافیت کے دور میں مرغوبات ‘ منصب اور سازو سامان کی کشش کا مقابلہ کرسکیں۔ بہت لوگ ایسے ملیں گے جو مارپیٹ اور جسمانی اذیت اور زخموں کا مقابلہ کریں گے لیکن کم ایسے ہوں گے جو عیش و عشرت سے صبر کرسکیں یا طمع و لالچ کے مقابلے میں سیدھے کھڑے ہو سکیں کیونکہ دنیا کا لالچ بڑے بڑوں کی گردنیں جھکا دیتا ہے اور لوگ اس قدر سست پڑجاتے ہیں کہ ان کی ہمتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور روحانی طور پر وہ ذلت اختیار کرلیتے ہیں۔ تشدد اور جسمانی تعذیب کے نتیجے میں انسان کی خودی بیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے اعصاب میں قوت برداشت پیدا ہوجاتی ہے اور جسم کی تمام قوتیں تشدد برداشت کرنے کے لیے صف آرا ہوجاتی ہیں۔ لیکن خو شحالی ! یہ بہت ہی خطرناک ابتلاء ہے۔ اس سے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ جسمانی قوت مدافعت پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے اور بیداری اور جدوجہد کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے تجربے کئے ہیں کہ تشدد اور جسمانی تعذیب میں ایک کارکن بہت ہی کامیاب رہا ‘ مقابلہ کرتارہا لیکن جب خوشحالی آگئی ‘ تو خوشحالی اور فراوانی کی آزمائش میں وہ فیل ہوگیا ۔ یہ ہے انسان یک کہانی۔ الا وہ لوگ جنہیں اللہ بچالے اور جن کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :” مومن کی شان بھی عجیب ہے کہ اس کا کام ہر حال میں کامیابی ہے۔ اور یہ سہولت صرف اہل ایمان کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ اگر اسے خوشحالی مل جئے تو وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے ‘ تو وہ اس کے لیے خیر ہوجاتی ہے ‘ اگر اس پر مشکل دن آجاتے ہیں توہ صبر کرتا ہے ‘ تو یہ برے دن بھی اس کے لیے اچھے ہوجاتے ہیں “۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو عموماً اور تحریک اسلامی کے کارکن کو خصوصاً برے دنوں کے مقابلے میں اچھے دنوں میں زیادہ چوکنارہنا چاہیے البتہ دونوں حالات میں رب تعالیٰ کے ساتھ حقیقی تعلق ہی کامیابی کی اصل ضمانت ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین و معاندین کا آپ کی موت کا آرزو مند ہونا اور آپ کے ساتھ تمسخر کرنا، اور تمسخر کی وجہ سے عذاب کا مستحق ہونا اہل مکہ و دیگر مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا کے رخصت ہونے کا انتظار کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ بس جی ان کی یہ باتیں تھوڑے ہی دن کی ہیں چند دن میں ختم ہوجائیں گی۔ چ... ند دن ان کی زندگی ہے آج دنیا سے گئے کل دوسرا دن۔ کون انہیں پوچھے گا اور ان کی باتیں کہاں تک چلیں گی ؟ اسی کو سورة طور میں فرمایا (اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ ) لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خود ہمیں ہی دنیا میں کتنے دن رہنا ہے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا (وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ ) (کہ ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کے لیے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا) دنیا میں جو بھی آئے ہیں سب کو موت سے دو چار ہونا ہے۔ (اَفَاْءِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) (اگر آپ کی وفات ہوگئی تو کیا یہ ہمیشہ رہیں گے) مرنا تو ان کو بھی ہے اور حال یہ ہے کہ آپ کی موت کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ مزید فرمایا (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ) (ہر جان موت کو چکھنے والی ہے) جب سب کو مرنا ہی ہے اور قیامت کے دن جمع ہونا ہے تو ہر شخص اس کی فکر کرے کہ وہاں میرا کیا ہوگا، اللہ کے نبی کی تکذیب کرنے پر عذاب ہوگا اور اس سے چھٹکارا کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے فکر مند ہوں تو ایمان کی توفیق ہوجائے گی۔ اس میں بھی مخالفین کے اس گمان کی تردید ہے کہ محمد عنقریب دنیا سے اٹھ جائیں گے تو ہم لوگوں سے کہیں گے کہ دیکھو اگر یہ نبی ہوتے تو وفات کیوں پاتے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ یہ مشرکین کے لیے زجر اور تیسرے سوال کے جواب کا اعادہ ہے ” کُلُّ نَفْسٍ الخ “ یہ ماقبل کی دلیل اور برہان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 اور اے پیغمبر ! ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا تجویز نہیں کیا پھر اگر آپ کا انتقال ہوجائے اور آپ کی وفات ہوجائے تو کیا یہ آپ کے مخالف ہمیشہ جیتے رہیں گے۔ پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) کی بعثت اور آپ کی نبوت پر کفار مکہ کے دو اعتراض تھے ایک تو یہ کہ اگر یہ نبی ہوتا تو اس پر حوا... دثات بشریٰ کیوں نازل ہوتے ہیں۔ مثلاً ضعیف ہونا کمزور ہونا، بوڑھا ہونا مرنا دوسرے یہ کہ اگر اس نبی کو مرنا ہے تو چند دن اور انتظار کرلو اس کے مرنے کے بعد یہ ساری چہل پہل ختم ہوجائے گی۔ اس کی آنکھیں بند ہوئیں او یہ تمام کارخانہ اور ڈھونگ جو اس نے بنا رکھا ہے سب درہم برہم ہوا حضرت حق نے پہلی بات کا جواب آیت کے پہلے حصہ میں دیا کہ موت اور نبوت میں کوئی منافات نہیں۔ موت سب پیغمبروں کے لئے ہے کسی کو ہمیشہ زندہ رہنا نہیں ہے۔ رہا پیغمبر کو موت کا اس توقع پر انتظام کرنا کہ یہ مرجائے گا تو ہم مزے کریں گے اور رسوم شرکیہ کے اجراء میں آزاد ہوں گے اس کا جواب آیت کے دور سے حصے میں ہے کہ اگر یہ مرجائے گا تو تم کیا زندہ بیٹھے رہو گے۔ یہ مرگ عدد جائے شادمانی نیست کہ زندگی مانیز جائو دانی نیست حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کافر کہتے تھے اس شخص تک ہے یہ دھوم جہاں یہ مرا پھر کچھ نہیں۔ 2 ؎  Show more