Commentary وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ (And We did not assign immortality to any human (even) before you. - 21:34) The preceding verses give a strong and logical rebuttal of the unfounded and exaggerated beliefs of the infidels and polytheists to the effect that Sayyidna Masih and Sayyidna ` Uzair (علیہما السلام) are the associates of God or that Masih and the Angels are God&... amp;s children. Unable to come up with a satisfactory answer to the rational and logical arguments given by the Qur&an, the infidels of Makkah were in despair and wished for the death of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلمٍ. This has been mentioned in some other verses also, like e.g. نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ (52:30). In this verse (34) Allah Ta` ala has given two answers to their pitiable wish. One, that even if the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) died early how would it help them? If they thought that they could use the death of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as an argument against his prophethood, they were very much mistaken, because all the other Prophets (علیہم السلام) whose prophethood they themselves had accepted, also died when their time came. Thus, if the death of their own prophets did not alter their position as prophets, how could the death of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) change his position? Secondly, if their purpose in wishing for his early death was only to appease their frustration, then they should have known that death is universal, and everybody has to die sooner or later. اگر بمرد عدو جأٰے شادمانی نیست کہ زندگانیء مانیز جاودانی نیست If an enemy dies, it is not to be rejoiced, because our own life is not eternal. Show more
خلاصہ تفسیر اور (یہ لوگ جو آپ کی وفات کی خوشیاں منا رہے ہیں لقولہ تعالیٰ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ، یہ وفات بھی منافی نبوت کی نہیں کیونکہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لئے (خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی دنیا میں) ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا (لقولہ تعالیٰ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ ، پس جیس... ے آپ سے پہلے انبیاء کو موت آئی اس سے ان کی نبوت میں کسی کو شبہ نہیں ہوا اسی طرح آپ کی وفات سے آپ کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبوت اور موت دونوں ایک شخص میں جمع ہو سکتی ہیں) پھر (یہ کہ اگر آپ کا انتقال ہوجاوے تو کیا یہ لوگ (دنیا میں) ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے (آخر یہ بھی مریں گے پھر خوشی کا کیا مقام ہے ؟ مطلب یہ کہ آپ کی وفات سے ان کی خوشی اگر ابطال نبوت کے لئے ہے۔ تب تو مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ الخ اس کا جواب ہے اور اگر ذاتی بغض و عداوت سے ہے تو اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ اس کا جواب ہے غرض ہر حالت میں یہ انتظار مہمل اور لغو ہے اور موت تو ایسی چیز ہے کہ تم میں) ہر جاندار موت کا مزا چکھے گا اور (یہ جو ہم نے چند روزہ تم کو زندگی دے رکھی ہے تو اس سے مقصود محض یہ ہے کہ) ہم تم کو بری بھلی حالتوں سے اچھی طرح آزماتے ہیں (بری حالت سے مراد جو کہ خلاف مزاج ہو جیسے مرض و فقر اور اچھی حالت سے مراد جو کہ موافق مزاج ہو جیسے صحت اور غنا زندگی میں یہی حالتیں مختلف طور پر پیش آتی ہیں۔ کوئی ان میں ایمان اور اطاعت بجا لاتا ہے اور کوئی کفر و معصیت کرتا ہے مطلب یہ کہ زندگی اس لئے دے رکھی ہے کہ دیکھیں کیسے کیسے عمل کرتے ہو) اور (اس زندگی کے ختم پر) پھر تم سب ہمارے پاس چلے آؤ گے (اور ہر ایک کو اس کے مناسب سزا و جزا دیں گے پس امر مہم تو موت اور مابعد الموت ہی ہوا اور زندگی محض عارضی پھر یہ لوگ اس پر اتراتے ہیں اور پیغمبر کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں یہ نہ ہوا کہ اس مستعار زندگی میں دولت ایمان و اطاعت کما لیتے جو ان کے کام آتی اور الٹا نامہ اعمال سیاہ اور آخرت کی منزل بھاری کر رہے ہیں ڈرتے نہیں) اور (ان منکرین کی یہ حالت ہے کہ) یہ کافر لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے ہنسی مذاق کرنے لگتے ہیں (اور آپس میں کہتے ہیں) کہ کیا یہی (صاحب) ہیں جو تمہارے معبودوں (کا برائی سے) ذکر کیا کرتے ہیں (سو آپ پر تو بتوں کے انار کا بھی اعتراض ہے) اور (خود) یہ لوگ (حضرت) رحمان (جل شانہ) کے ذکر پر انکار (اور کفر) کیا کرتے ہیں (تو اعتراض کی بات تو درحقیقت یہ ہے اس لئے ان کو اپنی اس حالت پر استہزاء کرنا چاہئے تھا اور ان کی یہ حالت ہے کہ جب سزائے کفر کا مضمون سنتے ہیں جیسے اوپر ہی ذکر ہوا ہے اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ تو بوجہ تکذیب کے اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ یہ سزا جلد آجائے اور یہ تقاضا اور عجلت کچھ انسانی طبیعت کا خاصہ اکثریہ بھی ہے پس اس کا طبعی ہونا ایسا ہے جیسے گویا) انسان جلدی ہی (کے خمیر) کا بنا ہوا (ہے یعنی عجلت اور جلدی مثل اس کے اجزاء ترکیبیہ کے ہے اسی واسطے یہ لوگ عذاب جلدی جلدی مانگتے ہیں اور اس میں دیر ہونے کو دلیل عدم وقوع کی سمجھتے ہیں لیکن اے کافرو یہ تمہاری غلطی ہے کیونکہ اس کا وقت معین ہے سو ذرا صبر کرو) ہم عنقریب (اس کے وقت آنے پر) تم کو اپنی نشانیاں (قہر کی یعنی سزائیں) دکھائے دیتے ہیں، پس تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ (کیونکہ عذاب وقت سے پہلے آتا نہیں اور وقت پر ٹلتا نہیں) اور یہ لوگ (جب یہ مضمون سنتے ہیں کہ وقت موعود پر عذاب آوے گا تو رسول اور مؤمنین سے یوں) کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کس وقت آوے گا اگر تم (وقوع عذاب کی خبر میں) سچے ہو ( تو توقف کا ہے کا جلدی سے کیوں نہیں واقع کردیا جاتا۔ اصل یہ ہے کہ ان کو اس مصیبت کی خبر نہیں جو ایسی بےفکری کی باتیں کرتے ہیں) کاش ان کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی جبکہ (ان کو سب طرف سے دوزخ کی آگ گھیرے گی اور) یہ لوگ (اس) آگ کو نہ اپنے سامنے سے روک سکیں گے اور نہ اپنے پیچھے سے اور نہ ان کی کوئی حمایت کرے گا (یعنی اگر اس مصیبت کا علم ہوتا تو ایسی باتیں نہ بناتے اور یہ جو دنیا ہی میں عذاب نار کی فرمائش کر رہے ہیں سو یہ ضرور نہیں کہ ان کی فرمائش کے موافق عذاب نار آ جاوے، بلکہ وہ آگ (تو) ان کو ایک دم سے آلے گی سو ان کو بدحواس کر دے گی پھر نہ اس کے ہٹانے کی ان کو قدرت ہوگی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی اور (اگر وہ یوں کہیں کہ اگر یہ عذاب آخرت میں موعود ہونے کی وجہ سے دنیا میں نہیں ہوتا تو اچھا دنیا میں اس کا کوئی نمونہ تو دکھلا دو تو گو باقاعدہ مناظرہ نمونہ دکھلانا ضرور نہیں لیکن تبرعاً نمونہ کا پتہ بھی دیا جاتا ہے وہ یہ کہ آپ سے پہلے جو پیغمبر گزرے ہیں ان کے ساتھ بھی (کفار کی طرف سے) تمخسر کیا گیا سو جن لوگوں نے ان سے تمخسر کیا تھا ان پر وہ عذاب واقع ہوگیا جس کے ساتھ وہ استہزاء کرتے تھے (کہ عذاب کہاں ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ کفر موجب عذاب ہے پس اگر دنیا میں وقوع نہ ہو تو آخرت میں ہوگا اور یہ بھی ان سے) کہہ دیجئے (کہ دنیا میں جو تم عذاب سے محفوظ ہو سو یہ حفاظت بھی حضرت رحمان ہی کر رہا ہے اس میں بھی اسی کا احسان اور دلالت علی التوحید ہے اور اگر تم اس کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر بتلاؤ) کہ وہ کون ہے جو رات اور دن میں رحمان (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت کرتا ہو (اور اس مضمون کا مسلم مقتضا یہ تھا کہ توحید کے قائل ہوجاتے مگر وہ اب بھی قائل نہ ہوئے) بلکہ وہ لوگ (اب بھی بدستور) اپنے رب (حقیقی) کے ذکر (توحید کے قبول کرنے) سے روگرداں (ہی) ہیں (ہاں ہم مَنْ يَّـكْلَـؤ ُ كُمْ کے مصداق کی توضیح کے لئے صریحاً دریافت کرتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس ہمارے سوا اور ایسے معبود ہیں کہ (عذاب مذکور سے) ان کی حفاظت کرلیتے ہوں (وہ بیچارے ان کی تو کیا حفاظت کرتے ان کی بیچارگی دور ماندگی کی تو یہ حالت ہی کہ) وہ خود اپنی حفاظت کی قدرت نہیں رکھتے (مثلاً ان کو کوئی توڑنے پھوڑنے لگے تو مدافعت بھی نہیں کرسکتے کقولہ تعالیٰ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَاب الخ پس نہ وہ ان کے معبود ان کی حفاظت کرسکتے ہیں) اور نہ ہمارے مقابلہ میں کوئی ان کا ساتھ دے سکتا ہے (اور یہ لوگ باوجود ان دلائل ساطعہ کے جو حق کو قبول نہیں کرتے تو یہ وجہ نہیں کہ دعوی یا دلیل میں کچھ خلل ہے) بلکہ (اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ) میں نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو (دنیا کا) خوب سامان دیا یہاں تک کہ ان پر (اسی حالت میں) ایک عرصہ دراز گزر گیا (کہ پشتہائے پشت سے عیش آرام کرتے آ رہے ہیں پس کھا کھا کے غرانے لگے اور آنکھیں پتھرا گئیں مطلب یہ ہے کہ ان ہی میں خلل غفلت کا ہے لیکن باوجود منبہات تشریعیہ و تکوینیہ کے اتنی غفلت بھی نہ ہونا چاہئے چناچہ ایک امر منبہ کا ذکر کیا جاتا ہے وہ یہ کہ) کیا ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہم (ان کی) زمین کو (بذریعہ فتوحات اسلامیہ کے) ہر چہار طرف سے برابر گھٹاتے چلے جاتے ہیں سو کیا یہ لوگ (یہ توقع رکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین پر) غالب آویں گے (کیونکہ قرائن عادیہ اور دلائل تنزیلیہ متفق ہیں ان کے مغلوب اور اہل حق کے غالب ہوتے جانے پر تاوقتیکہ مسلمان اطاعت خداوندی سے منہ نہ موڑیں اور حمایت اسلام نہ چھوڑیں پس اس امر میں قائل کرنا بھی تنبیہ کے لئے کافی ہے اگر اس پر بھی عناد و جہالت سے وقوع عذاب ہی کی فرمائش کریں تو) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف وحی کے ذریعہ سے تم کو ڈراتا ہوں (عذاب کا آنا میرے بس سے باہر ہے) اور (گو یہ طریقہ دعوت الی الحق کا اور یہ انداز کافی ہے، مگر) یہ بہرے جس وقت (حق کی طرف بلائے جانے کے واسطے عذاب سے) ڈرائے جاتے ہیں سنتے ہی نہیں (اور طریق وضوح حق میں تامل ہی نہیں کرتے بلکہ وہی مرغی کی ایک ٹانگ عذاب ہی مانگے جاتے ہیں) اور (کیفیت عالی ہمتی کی یہ ہے کہ) اگر ان کو آپ کے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی ذرا لگ جاوے تو (ساری بہادری ختم ہوجاوے اور) یوں کہنے لگیں کہ ہائے ہماری کمبختی (کیسی ہمارے سامنے آئی) واقعی ہم خطاوار تھے (بس اس ہمت پر عذاب کی فرمائش ہے واقعی ان کی اس شرارت کا تو یہی مقتضا تھا کہ دنیا ہی میں فیصلہ کردیتے مگر ہم بہت سی حکمتوں سے دنیا میں سزائے موعود دینا نہیں چاہتے بلکہ آخرت کے لئے اٹھا رکھا ہے اور (وہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے (اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے) سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور (ظلم نہ ہونے کا یہ ثمرہ ہوگا کہ) اور اگر (کسی کا کوئی) عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کردیں گے (اور اس کا بھی وزن کریں گے) اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ (ہمارے اس وزن اور حساب کے بعد پھر کسی حساب و کتاب کی ضرورت نہ رہے گی بلکہ اسی پر سب فیصلہ ہوجاوے گا پس وہاں لوگوں کی شرارتوں کی بھی سزائے مناسب و کافی جاری کردی جاوے گی۔ معارف و مسائل وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ، سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کے باطل دعو وں اور مشرکانہ عقیدوں کی جن میں حضرت مسیح یا عزیر وغیرہ کو خدائی کا شریک یا فرشتوں اور مسیح کو اللہ تعالیٰ کی اولاد کہا گیا ان گمراہ کن عقائد کی تردید و ابطال واضح دلائل کے ساتھ آیا ہے جس کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا ایسے مواقع میں جب مخالف حجت و دلیل سے مغلوب ہوجائے تو جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے اسی کا نتیجہ تھا کہ مشرکین مکہ اس کی تمنا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد وفات ہوجاوے جیسا کہ بعض آیات میں ہے نّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی اس بیہودہ تمنا کے دو جواب دیئے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد ہی وفات ہوگئی تو تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا ؟ اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ ان کی موت ہوجائے گی تو ہم لوگوں کو بتلائیں گے کہ یہ نبی و رسول نہیں تھے ورنہ موت نہ آتی تو اس کا یہ جواب دیا کہ جن انبیاء کی نبوت کو تم بھی مانتے ہو کیا ان کو موت نہیں آئی، جب ان کی موت سے ان کی نبوت و رسالت میں کوئی فرق نہ آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے آپ کی نبوت کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور اگر تمہارا مقصد آپ کی جلد وفات سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے تو یاد رکھو کہ یہ موت کا مرحلہ تمہیں بھی درپیش ہے آخر تمہیں بھی مرنا ہے۔ پھر کسی کی موت سے خوش ہونے کے کیا معنے۔ اگر بمرد عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی مانیز جاودانی نیست Show more