Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 47

سورة الأنبياء

وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَیۡنَا بِہَا ؕ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ ﴿۴۷﴾

And We place the scales of justice for the Day of Resurrection, so no soul will be treated unjustly at all. And if there is [even] the weight of a mustard seed, We will bring it forth. And sufficient are We as accountant.

قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو ۔ پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گےاور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْيًا ... And We shall set up Balances of justice on the Day of Resurrection, then none will be dealt with unjustly in anything. meaning, "We shall set up the Balances of justice on the Day of Resurrection." The majority of scholars state that it is one Balance, and the plural form is used here to reflect the ... large number of deeds which will be weighed therein. ... فَلَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْيًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ then none will be dealt with unjustly in anything. And if there be the weight of a mustard seed, We will bring it. And sufficient are We to take account. This is like the Ayat: وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا and your Lord treats no one with injustice. (18:49) إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُوْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً Surely, Allah wrongs not even of the weight of speck of dust, but if there is any good, He doubles it, and gives from Him a great reward. (4:40) يبُنَىَّ إِنَّهَأ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى السَّمَـوَتِ أَوْ فِى الاٌّرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ "O my son! If it be equal to the weight of a grain of mustard seed, and though it be in a rock, or in the heavens or in the earth, Allah will bring it forth. Verily, Allah is Subtle, Well-Aware." (31:16) In the Two Sahihs it was recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said: كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم Two words which are light on the tongue, heavy in the Balance and beloved to Ar-Rahman: "Subhan Allahi wa bi hamdihi, Subhan Allahil `Azim (Glory and praise be to Allah, Glory be to Allah the Almighty)." Imam Ahmad also recorded that A'ishah said that; one of the Companions of the Messenger of Allah sat down before him and said, "O Messenger of Allah, I have two slaves who lie to me, betray me and disobey me, and I hit them and insult them. How do I stand with regard to them?" The Messenger of Allah said: يُحْسَبُ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَكَذَّبُوكَ وَعِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا لاَ لَكَ وَلاَ عَلَيْكَ وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلً لَكَ وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمْ اقْتُصَّ لَهُمْ مِنْكَ الْفَضْلُ الَّذِي بَقِيَ قَبْلَك The extent to which they betrayed you, disobeyed you and lied to you will be measured against the punishment you meted out to them. If your punishment was commensurate with their misconduct, then you will be equal and you will not have anything counted for you or against you. If your punishment of them was less than that what they deserved for their misconduct, then this will count in your favor. If your punishment of them was more than what they deserved for their misconduct, then Allah will take what is due to them from you. Then the man started to weep before the Messenger of Allah, and the Messenger of Allah asked, مَالَهُ لاَا يَقْرَأُ كِتَابَ الله وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْيًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ What is the matter with him Has he not read the words of Allah, And We shall set up Balances of justice on the Day of Resurrection, then none will be dealt with unjustly in anything. And if there be the weight of a mustard seed, We will bring it. And sufficient are We to take account. The man said, "O Messenger of Allah, I think there is nothing better than keeping away from these people -- meaning his slaves -- I call upon you to bear witness that they are all free."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 ‏موازین، میزان (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہونگے یا ترازو تو ایک ہی ہوگی انسان کے اعمال تو بےوزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہوگا ؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنادیا ... ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بےوزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو بےوزن کو دکھلانے کے لئے ان بےوزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلا ! صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے ؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند احمد 5۔ 287) ۔ اس کی مذید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة الاعراف 7 کا حاشیہ القسط مصدر اور الموازین کی صفت ہے معنی ہیں ذوات قسط انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] اس آیت میں مَوَازِیْنُ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو میزان بمعنی ترازو کی جمع ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کے لئے الگ الگ ترازو رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ مختلف اعمال کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ترازو ہوں۔ یہ حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اعمال کی حقیقت کا صحیح صحیح اندازہ کرنے کے ... لئے کس قسم کا ترازو استعمال ہوگا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص پورے خشوع و خضوع کے ساتھ وقت پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے۔ دوسرا بھی جماعت میں شامل ہوتا ہے مگر گرانبار طبیعت کے ساتھ اور اللہ کی یاد کی بجائے دوسرے ہی خیالات میں مستغرق رہتا ہے اور اس کی نماز ایسے ہوتی ہے جیسے کوئی خود کار آلہ ہو جس کا سوئچ دبا گیا ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اجر کے لحاظ سے ان دونوں کی نمازوں میں نمایاں فرق ہے اگرچہ ظاہری شکل و صورت ایک ہی جیسی ہے۔ پھر یہ باطنی معاملات ایسے ہیں جن کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا کہ فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی ہے اور وزن تو اعمال کے حقائق کا ہوگا جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ( وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۝) 7 ۔ الاعراف :8) اور اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو حدیث بطاقہ کے کام سے مشہور ہے۔ یعنی قیامت کے دن ایک شخص کو پکارا جائے گا جس کے ننانوے گناہوں کے دفتر ہوں گے اور اس سے پوچھا جائے گا کہ دیکھو کہ ان دفتروں کے مندرجات درست ہیں اور میرے کراماً کاتبین نے تجھ پر کچھ زیادتی تو نہیں کی ؟ وہ کہے گا اے پروردگار ! یہ سب کچھ درست ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تمہاری کچھ نیکیاں بھی ہیں ؟ وہ کہے گا، کوئی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہاری نیکیاں بھی نہیں اور آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ پھر اس کے لئے ایک پرچی نکالی جائے گا جس پر اشہد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ درج ہوگا۔ وہ کہے گا اے پروردگار ان ننانوے گناہ کے دفتر کے مقابلہ میں اس پرچی کی کیا حقیقت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج تجھ پر کچھ زیادتی نہیں ہوگی۔ چناچہ میزان الاعمال کے ایک پلڑے میں گناہوں کے ننانوے دفتر رکھیں جائیں گے اور دوسرے میں یہ پرچی تو گناہوں کا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور پرچی والا نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلے گا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد، باب مایرحی من (رح) یوم القیامہ) اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اعمال کے حقائق کو تولنے میں ہر ایک کے ساتھ پورا پورا عدل و انصاف ہوگا۔ پھر اس کے مطابق ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے لفظ عدل یا قسط کی ضد ظلم ہے اور ظلم اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی ہے۔ لہذا نہ تو یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی بدلہ نہ دے اور نہ یہ ممکن ہے کہ عمل کے لحاظ سے اجر کم عطا فرمائے۔ اور یہ دونوں ظلم کی صورتیں ہیں۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کا اجر عدل سے بڑھ کر عطا فرمائے اور اس صفت کا نام احسان ہے۔ جو عدل سے بھی برتر صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ کسی کو عمل سے زیادہ اجر دے۔ کسی کی خطائیں معاف ہی کردے۔ اور اگر حقوق العباد کا معاملہ ہو تو بندوں کو اپنی طرف سے ان کے حق عطا کرکے مجرم کو معاف کردے۔ یہ تو سب کچھ ممکن ہے لیکن اللہ سے ظلم ممکن نہیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیں حساب لینا آتا ہے۔ ہم اعمال کے حقائق کی تعیین کو بھی خوب جانتے ہیں اور کسی کے رائی بھر عمل کو بھی اور اس سلسلہ میں ہمیں کسی مددگار کی بھی ضرورت نہیں اور کَفٰی بِنَا حَاسِیِنْ َکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارا لیا ہوا حساب آخری اور فیصلہ کن ہوگا۔ جس کی نہ کوئی پڑتال کرنے کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی کہیں اپیل ہوسکے گی۔ کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ ۔۔ : پچھلی آیات میں ذکر ہوا ہے کہ کفار کے پاس جب تک قدرت رہتی ہے وہ عدل و انصاف سے کنارہ کش اور ظلم و جور پر تلے رہتے ہیں اور اختیار ختم ہوتے ہی حق کا اعتراف کرنے لگتے ہیں، اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس طرح نہیں، وہ ہمیشہ ” قَاءِمًا بالْقِسْطِ “ انصا... ف پر قائم ہے، حتیٰ کہ قیامت کے دن بھی وہ انصاف کے ترازو قائم فرمائے گا، پھر کسی جان پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (بقاعی) ” الْمَوَازِيْنَ “ ” مِیْزَانٌ“ کی جمع ہے۔ ” الْقِسْطَ “ مصدر ہے جو اسم فاعل ” مُقْسِطٌ“ کے معنی میں ہے اور ” الْمَوَازِيْنَ “ کی صفت ہے، جیسے مبالغے کے لیے عادل آدمی کو ” رَجُلٌ عَدْلٌ“ کہہ لیتے ہیں، یعنی اتنا عادل آدمی کہ سراپا عدل ہے۔ یعنی ہم ایسے ترازو رکھیں گے جو اتنے انصاف والے ہیں گویا عین انصاف ہیں۔ موصوف واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، مذکر ہو یا مؤنث، اگر اس کی صفت مصدر ہو تو وہ سب کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے۔ ” الْقِسْطَ “ مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی ہم انصاف کے لیے بہت سے ترازو رکھیں گے۔ ” الْمَوَازِيْنَ “ سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن متعدد ترازو ہوں گے، جن کے ساتھ اعمال کا وزن کیا جائے گا، پھر یا تو ہر آدمی کے لیے الگ ترازو ہوگا یا ہر عمل کے لیے۔ نیز دیکھیے سورة اعراف (٧) ۔ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا : ” پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا “ یعنی نہ نیکیوں میں کچھ کمی آئے گی اور نہ برائیوں میں کوئی اضافہ ہوگا۔ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ 3 ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة زلزال (٧، ٨) اور لقمان (١٦) ۔ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ : ہم حساب لینے والے کافی ہیں، ہمیں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں، پھر نہ ہمارے حساب کے بعد کسی پڑتال کی گنجائش ہے اور نہ کہیں اپیل ہوسکتی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Weighing of actions on the Day of Judgment and the scales to be used for this purpose وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ (And We shall place scales to do justice on the Day of Judgment - 21:47) The مَوَازِین word is plural of مِیزان ، which means a scale. In this verse the word is used plural which some exegesists have explained by saying that for measuring deeds and actions o... f people many scales will be used. Different balances may be used for different individuals, or different balances may be used for different types of deeds. But majority of scholars agree that there will be only one balance to weigh all the deeds, and that the word has been used in plural because it will serve the purpose of many balances and measure the deeds of all the children of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) from the earliest time to the Day of Judgment, whose count only Allah knows. قِسط (Qist) means justice and fairness. Thus the meaning of the verse is that the balance will measure fairly and justly and no injustice will be done to anyone. Mustadrak of Hakim has reported through Sayyidna Salman رضی اللہ تعالیٰ عنہ that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that the balance that will be used on the Day of Judgment for weighing deeds and actions will be so enormous in size and span that it could enclose the earth and the sky within its fold for measurement. (Mazhari) Hafiz Abu al-Qasim Lalkai has narrated in his Sunan (سُئن) through Sayyidna Anas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that an angel will be posted on the balance and every man will be brought before it. In case his good deeds overweigh his sins the angel will announce loudly, which everyone present will hear, that so and so has passed his test and now he will never be deprived of anything. And if the sins of a person overweigh his virtues, then the angel will announce that the wretched so and so has failed his test and has been made destitute forever. Hafiz has also reported on the authority of Sayyidna Hudhaifah (رض) ، that the angel who will be posted on the balance on the Day of Judgment is none other but Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) . Hakim, Baihaqi and &Ajurri have narrated through Sayyidah ` A&ishah (رض) that she enquired from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) whether he will remember his family members on the Day of Judgment; to which he replied that on that Day there will be three occasions when no one will remember any one. Firstly, when people will be brought before the scale of justice for the weighment of their deeds. Until it is known whether one&s virtues overweigh the sins or otherwise, everyone would forget everyone else. Secondly, when the records of deeds will be thrown in the air, until they are either placed in the right hand (which will be a sign of salvation) or in the left hand or from behind (which will be a sign of punishment) it would indicate God&s wrath. Thirdly, the occasion to cross the bridge of Sirat (صِرَاط) i.e. until this bridge is crossed, no one will remember any one else. (Mahari) وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ أَتَيْنَا بِهَا (And even if it (any act, good or evil) is to the measure of a mustard seed, we will bring it forth - 21:47) It means that on the Day of Reckoning, all the deeds of every person, big or small, good or bad, will be brought forth so that they may be subjected to reckoning and weighment. Method of the weighment of deeds One possibility is that deeds and actions of a person recorded by angels will be weighed as indicated by the famous Hadith generally known as حَدِیث البِطَقَۃ . (hadith al-bitaqahl). The other possibility is that deeds of a person will be converted into absolute substances which will then be weighed. By and large the traditions support the second view, and a majority of scholars have adopted this version. The verse وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرً‌ا (And they will find what they did all there - 18:49) and the like in the Holy Qur&an and many traditions also confirm the second view. Accountability of Deeds Tirmidhi has reported through Sayyidah ` A&ishah (رض) that a man came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and narrated to him that he had two slaves who called him a liar, were dishonest in their dealings and did not obey his orders. In retaliation he scolded them and also beat them. How then would his chastisement of his slaves be judged in relation to their misconduct. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied that their misdeed would be weighed against the punishment which he inflicted on them and if the two were equally balanced, then the matter would rest there, but in case their crimes exceed his punishment it would be regarded as a favour bestowed on them by him. But, on the other hand, if the punishment awarded to them exceeded their misdeeds, then he would be made subject to punishment and retaliation for his excess. Then the man rose and sat down in a corner and started weeping. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him whether he had not read this verse وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ (And We shall place scales to do justice on the day of judgment - 21:47). Then the man said that he had no choice but to free his slaves so that he might escape accountability. (Qurtubi) 1. The author has referred here to a long hadith in which it is mentioned that while reckoning a person&s deeds, a card will be placed in the balance on which the kalimah لا إلہ إلا اللہ will be written. This card will weigh more than a heap of bad deeds. (Muhammad Taqi Usmani)   Show more

قیامت میں وزن اعمال اور اس کی میزان : وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ لفظ مَوَازِيْنَ میزان کی جمع ہے جو ترازو کے معنے میں آتا ہے اس جگہ میزان کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے بعض حضرات مفسرین نے یہ قرار دیا ہے کہ وزن اعمال کے لئے بہت سی میزانیں استعمال کی جائیں گ... ی خواہ ہر شخص کے لئے الگ الگ میزان ہو یا خاص خاص اعمال کے لئے الگ الگ میزانیں ہوں مگر جمہوری علماء اس پر متفق ہیں کہ میزان ایک ہی ہوگی اس کو بصیغہ جمع اس لئے تعبیر کردیا ہے کہ وہ بہت سی موازین کا کام دے گی کیونکہ ساری مخلوقات آدم (علیہ السلام) سے قیامت تک جن کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے ان سب کے اعمال کو یہی ترازو تولے گی۔ اور قسط کے معنی عدل و انصاف کے ہیں معنے یہ ہیں کہ یہ میزان عدل و انصاف کے ساتھ وزن کرے گی ذرا کمی بیشی نہ ہوگی۔ مستدرک حاکم میں بروایت حضرت سلمان روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز جو میزان وزن اعمال کے لئے رکھی جائے گی اتنی بڑی اور وسیع ہوگی کہ اس میں آسمان و زمین کو تولنا چاہیں تو وہ بھی اس میں سما جائیں۔ (مظہری) حافظ ابوالقاسم لالکائی نے اپنی سنن میں حضرت انس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میزان پر ایک فرشتہ مقرر ہوگا اور ہر انسان کو اس میزان کے سامنے لایا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگیا تو فرشتہ منادی کرے گا جس کو تمام اہل محشر سنیں گے کہ فلاں شخص کامیاب ہوگیا اب کبھی اس کو محرومی نہیں ہوگی، اور اگر نیکیوں کا پلہ ہلکا رہا تو یہ فرشتہ منادی کرے گا کہ فلاں شخص شقی اور محروم ہوگیا اب کبھی کامیاب بامراد نہیں ہوگا، اور حافظ مذکور نے حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے کہ یہ فرشتہ جو میزان پر مقرر ہوگا حضرت جبریل امین ہیں۔ (قرطبی) حاکم اور بیہقی اور آجری نے حضرت صدیقہ عائشہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا قیامت کے روز بھی آپ اپنے اہل و اولاد کو یاد رکھیں گے تو فرمایا کہ قیامت میں تین مقام تو ایسے ہوں گے کہ ان میں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ ایک وہ وقت جب میزان عدل کے سامنے وزن اعمال کے لئے حاضر ہوں گے جب تک یہ نتیجہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کا پلہ نیکیوں کا بھاری ہوا یا ہلکا رہا کسی کو کسی کی یاد نہ آوے گی اور دوسرام مقام وہ ہے جب نامہائے اعمال اڑائے جاویں گے جب تک یہ متعین نہ ہوجائے کہ نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں آیا (جو نجات کی علامت) یا بائیں ہاتھ یا پشت کی طرف آیا (جو عذاب کی علامت ہے) اور تیسرا مقام پل صراط سے گزرنے کا وقت ہے جب تک پار نہ ہوجاویں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ (مظہری) وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا، یعنی یوم حساب اور میزان اعمال کے وقت انسان کے سارے چھوٹے بڑے اچھے برے اعمال حاضر کئے جائیں گے تاکہ حساب اور وزن میں شامل ہوں۔ وزن اعمال کی صورت : یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرشتوں کے لکھے ہوئے اعمال نامے تولے جائیں جیسا کہ حدیث بطاقہ سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عین اعمال کو وہاں جواہر مستقلہ کی شکل دے دیجائے اور ان کا وزن کیا جائے عام طور سے روایات اسی پر شاہد ہیں اور جمہور علماء نے اسی صورت کو اختیار کیا ہے۔ قرآن مجید میں وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وغیرہ آیات اور بہت سی روایات حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ اعمال کا محاسبہ : ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آ کر بیٹھا اور بیان کیا یا رسول اللہ میرے دو غلام ہیں جو مجھے جھوٹا کہتے ہیں اور معاملات میں خیانت کرتے ہیں اور میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں میں ان کو زبان سے بھی برا بھلا کہتا ہوں اور ہاتھ سے مارتا بھی ہوں، تو میرا اور ان غلاموں کا انصاف کس طرح ہوگا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کی نافرمانی اور خیانت اور سرکشی کو تولا جائے گا، پھر تمہارے سب و شتم اور مار پیٹ کو تولا جائے گا۔ اگر تمہاری سزا اور ان کا جرم برابر ہوئے تو معاملہ برابر ہوجائے گا اور اگر تمہاری سزا ان کے جرم سے کم رہی تو وہ تمہارا احسان شمار ہوگا اور اگر ان کے جرم سے بڑھ گئی تو جتنی تم نے زیادتی کی ہی اس کا تم سے انتقام اور قصاص لیا جاوے گا۔ یہ شخص یہاں سے اٹھ کر الگ بیٹھ گیا اور رونے لگا آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ اس نے عرض کیا کہ اب تو میرے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ میں ان کو آزاد کر کے اس حساب کے غم سے بےفکر ہوجاؤں۔ (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۝ ٠ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ۝ ٤٧ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ ... 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے قسط الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] ، ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ونصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، مِثْقَال : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات . والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين : أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا . والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] . المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالا آیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔ حبة الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔ خردل۔ رائی۔ مثقال حبۃ من خردل۔ رائی کے دانہ کے ہم وزن كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) بلکہ ہم قیامت کے روز میزان عدل قائم کریں گے اس میزان کے دو پلڑے ہوں گے اور اس کی زبان بھی ہوگی اس میں نیکیوں اور برائیوں کے علاوہ اور کسی چیز کا وزن نہیں کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی کی نیکیوں میں سے کچھ کمی کردی جائے اور کسی کی برائیوں میں اضافہ ک... ردیا جائے۔ بلکہ اگر کسی کا کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے وہاں حاضر کردیں گے یا یہ کہ اس کا بدلہ دے دیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں یا یہ کہ ہم حفاظت کرنے والے اور جاننے والے کافی ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ ) ” اس سلسلے میں ہمیں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48. See also (verses 8-9 and E.Ns 8-9 of Surah Al-Aaraf). It is difficult for us to understand the exact nature of the balance. Anyhow, it is clear that the balance will weigh accurately all the human moral deeds instead of material things, and will help judge whether a man is virtuous or wicked and how much. The Quran has used this word to make mankind understand that every deed, good or bad, wil... l be weighed and judged according to merit.  Show more

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :48 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 8 ۔ 9 ۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی ۔ بہرحال وہ کوئی ایسی چیز ہوگی جو مادی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی ۔...  اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے ۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ترازو کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی ، یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصور دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں ، اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامہ زندگی کو جانچ کر بےکم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: اس آیت نے واضح فرمایا ہے کہ قیامت کے دن صرف یہی نہیں کہ تمام لوگوں سے انصاف ہوگا ؛ بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے گا کہ انصاف سب لوگوں کو آنکھوں سے نظر آئے، اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ ایسی ترازویں برسر عام نصب فرمائیں گے جن میں انسانوں کے اعمال کو تولا جائے گا اور اعمال کے وزن کے حساب سے انسا... نوں کے انجام کا فیصلہ ہوگا، انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس دنیا میں اگرچہ ان کا نہ کوئی جسم نظر آتا ہے اور نہ ان میں کسی وزن کا احساس ہوتا ہے، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا وزن کرنے کی ایسی صورت پیدا فرمائیں گے جن سے ان اعمال کی حقیقت واضح ہوجائے، اگر انسان سردی گرمی جیسی چیزوں کو تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد کرسکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ ان اعمال کو تولنے کا عملی مظاہرہ فرمادیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٧:۔ معتبر مفسروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے تولنے کے لیے ایک ہی ترازو قائم کی جائے گی لیکن اس ایک ترازو میں ہر ایک جنس کے عمل مثلا نفلی نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ فرضی نماز ‘ روزہ ‘ حج علیحدہ یہ سب کچھ تولا جائے گا اس واسطے وہ ایک ترازو گویا کئی ترازوؤں کا کام دے گی اس لیے اس آیت میں ترا... زو نہیں فرمایا ‘ ترازوئیں لفظ جمع کا فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر ایک شخص کی کئی کئی تولیں قائم ہوں گی ‘ اس ترازو میں کیا چیز تلے گی نیک و بدعمل والے لوگ تلیں گے یا عمل کے کا غذ تلیں گے یا خود عملوں کو ایک جسم خدا بخشے گا وہ جسم تولا جائے گا ‘ اگرچہ مفسرین کے اس باب میں چند قول ہیں مگر امور آخرت میں جہاں عقل کا کچھ دخل نہیں بدوں صحیح حدیث صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی مفسر کا قول قابل بھروسہ نہیں قرار پاسکتا ‘ خود صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بات صحیح قرار پائی ہے وہ یہی ہے کہ خود اعمال تولے جاویں گے صحیح بخاری ومسلم ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی جو روایت ہے اس میں آپ نے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کو فرمایا ہے کہ یہ دو کلمے ایسے ہیں کہ زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن میزان میں بھاری ہیں اور یہ دو کلمے اللہ کو بہت پیارے ہیں جس کاغذ کے پر چے پر یہ دونوں کلمے لکھے جاویں گے اس کا ہلکا پن تو خود معلوم ہے ‘ اس لیے ظاہر ہے کہ خود ان کلموں کا بوجھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مطلب ہے مسند امام احمد بن حنبل ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں عبداللہ (رض) بن عمرو (رض) بن العاص ٢ ؎ سے جو روایتیں ہیں ‘ ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک کم سو دفتر ایک شخص کے گناہوں کے قیامت کے دن اتنی دور تک پھیلنے کے قابل نکلیں گے جتنی دور آدمی کی نگاہ کام کرسکتی ہے جب وہ شخص دوزخ میں بھیجا جانے لگے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کا ایک عمل تولنے سے رہ گیا ہے اس پر ایک چھوٹا سا پر چہ کاغذ کا لایا جائے گا جس میں کلمہ توحید کا ثواب لکھا ہوگا تولنے میں وہ کاغذ کا پر چہ ایک کم سو دفتروں سے بھاری نکلے گا اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ کاغذ کے پر چہ میں اس قدر بوجھ کہاں سے آسکتا ہے یہ عمل کا بوجھ ہے ‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے شرط مسلم پر صحیح کہا ٣ ؎ ہے ‘ غرض صحیح حدیثوں سے خود عملوں کا تولا جانا ثابت ہوچکا ہے سوائے ان روایتوں کے فقط مسند امام احمد میں جو لوگوں کے تلنے کی روایت ٤ ؎ ہے اس کی سند ایسی قوی نہیں ہے اور بلا کسی روایت کی سند کے بعضے مفسروں نے کچھ قول جو اس باب میں نقل کیے ہیں وہ صحیح حدیث کے روبرو کسی گنتی میں نہیں ہیں ‘ تین موقع قیامت کے دن بڑے سخت ہیں ایک یہی اعمال تلنے کا کہ کسی کا نیکی کا پلڑا بھاری نکلتا ہے اور کسی کا بدی کا دوسرے نامہ اعمال کے بٹنے کا موقع کہ کس کے سیدھے ہاتھ میں وہ کاغذ آتا ہے اور کس کے الٹے ہاتھ میں تیسرا پل صراط کے گزرنے کا موقعہ کہ کون صحیح سالم گزرتا ہے اور کون کٹ کر دوزخ میں گر پڑتا ہے ‘ ابوداؤد میں حضرت عائشہ ١ ؎ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز دوزخ کے عذاب کی شدت یاد کر کے میں رونے لگی ‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا کیوں روتی ہو ؟ میں نے کہا دوزخ کا عذاب یاد کر کے روتی ہوں ‘ پھر میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کے دن آپ اپنے اہل و عیال کو بھی یاد رکھیں گے آپ نے فرمایا تین موقعے تو ایسے ہیں کہ کوئی کسی کو یاد نہیں رکھے گا ‘ پھر آپ نے اعمال کے تولے جانے اور نامہ اعمال کے بٹنے اور پل صراط کے گزرنے کے تین موقع کا نام لیا ‘ یہ حدیث صحیح ہے چناچہ اس کی صحت کا حال سورة اعراف میں گزر چکا ہے اور معنی اس حدیث کے یہ ہیں کہ ان تینوں سخت موقعوں پر آپ کو امت کی شفاعت اور تینوں موقعوں سے نجات کا خیال زیادہ ہوگا اور آپ کے دل پر اس وقت ایک پریشانی سی ہوگی کیونکہ بعضے لوگ تو پل صراط پر ہوں گے اور بعضے جو پل صراط سے گزر چکے ہوں گے ادھر ان کے اعمال تلنے شروع ہوجاویں گے اس لیے پل صراط والے لوگوں کی سلامتی سے گزر جانے کی شفاعت فرمانے کے لیے گھڑی آپ پل صراط پر تشریف لاویں گے اور گھڑی میزان والے لوگوں کی شفاعت کے لیے میزان کے پاس تشریف لے جاویں گے۔ غرض یہ معنی اس حدیث کے نہیں ہیں کہ ان تینوں موقعوں پر آپ امت کے حال سے بیخبر ہوجاویں گے جنانچہ ترمذی میں حضر انس (رض) کی جو حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ‘ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے دن خاص طور پر اپنی شفاعت کی التجا کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری التجا کو قبول فرمایا۔ پھر میں نے آپ سے پوچھا کہ میں آپ کو شفاعت کے لیے کہاں ڈھونڈوں۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے مجھ کو پل صراط پر ڈھونڈنا ‘ پھر میزان کے پاس ‘ پھر حوض کوثر پر ‘ ان تینوں مقاموں میں سے کسی مقام پر میں ضرور ہوں گا ‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پل صراط اور میزان کے پاس بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفاعت فرماویں گے کیونکہ حضرت انس (رض) سے تو شفاعت ہی کا وعدہ تھا پھر اس وعدہ کے پورا کرنے کے لیے جو مقامات آپ نے بتلائے بلاشک وہ مقامات شفاعت کے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مقاموں پر عام امت کی نجات کے خیال میں مصروف ہونے کے سبب سے جس طرح خود یاد رکھنے کا وعدہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انس (رض) سے نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ خود حضرت انس (رض) آنحضرت کو ڈھونڈ لیویں ‘ اسی طرح حضرت عائشہ (رض) سے ان مقاموں پر اہل و عیال کے یاد رکھنے کا وعدہ آپ نے نہیں فرمایا۔ انس بن مالک کی اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ٢ ؎ ہے ‘ مطلب آیت کا یہ ہے کہ قیامت کے دن نہایت انصاف سے لوگوں کے عمل تولے جاویں گے اور عملوں کے تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنتی قرار پاویں گے اور جن کا بدعملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے اور دوزخ میں جانے کے بعد جس شخص کے دل میں ذرے برابر بھی ایمان ہوگا اس کی شفاعت ہوگی اور آخر ایسا ہر ایک شخص دوزخ سے نکل کر جنت میں جائے گا۔ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں شفاعت کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس حدیث سے فلا تظلم نفس شیئا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ظلم ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس واسطے قیامت کے دن کی جزا و سزا میں کسی پر یہ ظلم نہ ہوگا کہ نیکی کی جزا گھٹا یا بدی کی سزا بڑھا دی جائے۔ عبداللہ (رض) بن عمرو بن العاص سے روایت جو ابھی گزری ہے اس سے وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فقط کلمہ توحید کا ثواب بھی بغیر وزن کے نہیں چھوڑا گا ‘ معتبر سند کی انس بن مالک (رض) کی روایت مسند بزار کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکی ہے کہ بعضے لوگوں کے اعمال ناموں میں سے کچھ نیک عملوں کے نکال ڈالنے کا جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حکم دے گا تو نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے عرض کریں گے یا اللہ ظاہری طور پر تو ان عملوں میں کوئی خرابی نہیں معلوم ہوتی اللہ تعالیٰ فرماوے گا تم کو انسان کی نیت کا حال معلوم نہیں ‘ مجھ کو معلوم ہے کہ یہ عمل نیک نیتی سے نہیں ١ ؎ کیے گئے اس سے وکفی بنا حاسبین کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل کے ارادہ اور نیت تک کا حال معلوم ہے اس لیے اس سے بڑھ کر کوئی حساب کا لینے والا نہیں ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری کی آخری حدیث ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیرص ١٨٠ ج ٣ ) (٣ ؎ فتح الباری ص ٨٠٢ ج ٦ ) (٤ ؎ تفسیر ابن کثیر حوالہ بالا ) (١ ؎ الترعیب والترہیب ٤٢٤ ج ٤ ) (٢ ؎ ایضا الترغیب ص ٤٢٥ ج ٤ ) (١ ؎ الترغیب والترہہیب الترصیب من الریاء حدیث ٥٧ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:47) نضع۔ وضع یضع (فتح) وجع مصدر۔ مضارع جمع متکلم۔ الوضع کے معنی نیچے رکھ دینے کے ہیں۔ جیسے فرمایا واکواب موضوعۃ (88:14) اور آبخورے (قرینے سے) رکھے ہوئے۔ اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع ہے جس کے معنی جگہیں یا موقع جیسے قرآن میں آیا ہییحرفون الکلم عن مواضعہ (5:13) یہ لوگ کلمات (کتاب ) کو ان کے مقام... ات سے بدل دیتے ہیں۔ وضع۔ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں بھی آتا ہے مثلاً فلما وضعتھا (3:36) جب اس نے (مریم کو) جنا۔ اور کہتے ہیں وضعت الحمل۔ میں نے بوجھ اتار دیا۔ اور وضع سے مراد خلق و ایجاد (یعنی پیدا کرنا) بھی ہے مثلاً ان اول بیت وضع للناس (3:95) تحقیق پہلا گھر جو لوگوں کے (عبادت کرنے کے) لئے بنایا گیا۔ اور وضع بمعنی تیز رفتاری سے چلنے کے بھی ہیں جیسے وضعت الدابۃ فی سیرھا سواری تیز رفتاری سے چلی۔ واوضعتہا میں نے اسے دوڑایا۔ اور قرآن مجید میں ہے ۔ ولا وضعوا خللکم (9: 47) اور تمہارے درمیان (فساد ڈلوانے کی غرض سے) دوڑے دوڑے پھرتے۔ یہاں وضع کے معنی نیچے رکھنا بمعنی قائم کرنے کے ہیں یعنی ہم میزان عدل قائم کریں گے جیسا کہ اور جگہ فرمایا ووضع المیزان (55:7) اور اس نے ترازو قائم کیا۔ اس نے ترازو رکھ دیا۔ ونضع الموازین القسط (الموازین القسط موصوف وصفت مل کر نضع کا مفعول) ہم صحیح تولنے والے ترازو قائم کریں گے۔ الموازین القسط موصوف وصفت ہیں۔ موصوف اور صفت میں واحد۔ جمع میں مطابقت ہونی چاہیے۔ لیکن بقول علامہ قرطبی (رح) کے القسط مصدر ہے اور جب مصدر صفت ہو تو واحد جمع سب کی صفت واقع ہوسکتا ہے۔ مثقال۔ اسم مفرد مثاقیل جمع۔ ہموزن۔ وزن میں برابر۔ ثقل بوجھ۔ مثقال ایک خاص باٹ بھی ہے جس کا وزن درہم ہوتا ہے لیکن قرآن مجید میں ہموزن کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔ حبۃ۔ دانہ۔ گندم اور جو وغیرہ اناج کے دانہ کو حب یا حبۃ کہتے ہیں۔ اس کی جمع حبوب ہے۔ طب کی اصطلاح میں دوائی کی گولی کو بھی حبۃ (جمع حبوب) کہتے ہیں۔ خردل۔ رائی۔ مثقال ھبۃ من خردل۔ رائی کے دانہ کے ہموزن۔ حسبین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ حساب لینے والے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی تمام انسانوں کے اعمال ٹھیک ٹھیک تول کر ان کا بدلہ دیں گے۔ قیامت کے دن اعمال تولنے کے لئے ترازو اگرچہ ایک ہی ہوگی مگر چونکہ اعمال بہت سے ہوں گے ان کی مناسبت سے ” موازین “ بہت سی ترازوئیں جمع کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اکثر مفسرین کا یہی خیال ہے اور اعمال کے تولنے سے مراد صحائف اعمال کا تولنا ... ہی یا خود اعمال ہی تولے جائیں گے۔ وزن اعمال متعدد احادیث سے ثابت ہے لہٰذا اس سے انکار بےمعنی ہے (کبیر) 10 ۔ یعنی نیکیوں میں کچھ کمی آئے گی نہ برائیوں میں کوئی زیادتی ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو انسان گناہ کرکے اپنے آپ پر غلطم کرتا ہے مگر آخرت میں جزائے اعمال کے وقت اس پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ (کبیر) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس کچھ غلام ہیں جو خیانت کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اور میں انہیں گالیاں دیتا اور مارتا پیٹتا ہوں میرا (قیامت کے روز) کیا حال ہوگا ؟ فرمایا : ” اگر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہے تو تمہیں اجر ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہے تو زیادتی کا بدلہ تم سے لیا جائے گا اور اگر برابر ہے تو نہ اجر ملے گا نہ عذاب “ یہ سن کر وہ شخص رونے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے قرآن کی آیت نہیں پڑھی : ” ونضع الموازین … شیئا “ وہ کہنے لگا “ اب میرے اور ان غلاموں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مجھ سے جدا ہوجائیں۔ سو میں انہیں آزاد کرتا ہوں۔ (قرطبی بحوالہ ترمذی) 11 ۔ یہ تحذیر ہے کہ ہمارا علم وقدرت ہر چیز پر محیط ہے اور ہم عاجز نہیں ہیں۔ (کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ موازین کا جمع لانا یا تو اس وجہ سے ہے کہ ہر شخص کے لئے جدا میزان عمل ہو، یا چونکہ ایک ہی میزن میں بہت سے لوگوں کے اعمال کا وزن ہوگا، اس لئے وہ ایک قائم مقام متعددہ کے ہوگی۔ 4۔ شروع سورت سے یہاں تک توحید اور رسالت کا زیادہ اور اس کے ضمن میں اس کے تعلق سے مخالفین رسل کا آخرت میں عموما معذرت ہونا او... ر بعض کا دنیا میں بھی ہلاک ہونا مذکور تھا، آگے بعض حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے قصص بیان فرمانے سے ان ہی مضامین کی تائید فرماتے ہیں، رسالت کی تائید تو ان کے رسول ہونے سے ظاہر ہے، اور توحید کی تائید ان کے داعی الی التوحید ہونے سے، اور تعذیب کی تائید ان کی بعض امم کی ہلاکت سے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کو دنیا میں ان کے جرائم کی پوری پوری سزا نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے قیامت کا دن مقرر کیا ہے۔ جس کے لیے ہر کسی کو اس کی نیکی، بدی کے مطابق جزا اور سزادی جائے گی۔ قیامت کے دن حساب و کتاب کے کئی مراحل ہوں گے۔ جن میں آخری مرحلہ فیصلہ کن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہر ... ایک کے اعمال کا وزن کرنے کے لیے ترازو قائم فرمائیں گے۔ اس دن کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ اگر کسی کی نیکی یا بدی رائی کے دانے کے برابر ہوئی تو اسے بھی اس کے سامنے لے آیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب و کتاب لینے میں کسی کی معاونت کا محتاج نہیں۔ حساب و کتاب کے انداز اور طریقہ کار کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بات بتائی ہے کہ ہر کسی کی نیکی، بدی اس کے سامنے پیش کی جائے گی۔ مجرم اپنا اعمال نامہ دیکھ کر پکار اٹھے گا کہ ہائے میرے اعمال نامہ میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جسے چھوڑا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ (الکہف : ٦٩) ہر کوئی نیکی اور بدی کو اپنی آنکھوں کے سامنے پائے گا۔ (الزلزال : ٧۔ ٨) جہاں تک اعمال نامے کا وزن کرنے کا معاملہ ہے۔ ماضی بعید میں کچھ لوگ اس بات پر گمراہ ہوگئے کہ نماز، روزہ اور انسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کا وجود نہیں ہوتا تو پھر ان کا وزن کرنا کس طرح ممکن ہوگا۔ قرآن مجید نے اعمال کے حوالے سے صدیوں پہلے جس بات کا انکشاف کیا ہے آج جدید سائنس نے یہ بات عملاً ثابت کردی ہے کہ واقعی ہی اعمال کا وزن ہوسکتا ہے اور قیامت کے دن ایسا ضرور ہوگا۔ انسان کے جسم کی حرارت، بخار کا ٹمپریچر، ہوا کا وزن اور دباؤ وزن کیا جاسکتا ہے نہ معلوم مستقبل میں کیا کیا تجربات اور مشاہدات انسان کے سامنے آجائیں گے۔ اور کس کس چیز کا وزن کرسکے گا۔ سورة القارعۃ میں ارشاد ہے جس کے اعمال کا وزن بھاری ہوا وہ قیامت کے دن عیش و عشرت میں ہوگا۔ اور جس کے اعمال کا وزن ہلکا نکلا اس کی جگہ ہاویہ ہے اور آپ کیا جانیں ہاویہ کیا ہے ہاویہ دہکتی آگ ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ وَقَالَ یَدُ اللَّہِ مَلأَی لاَ تَغِیْضُہَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاء اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِیْ یَدِہِ ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ ، وَبِیَدِہِ الْمِیْزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔ انسان خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں سے رات دن خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بنائے ہیں کس قدر اللہ نے خرچ کیا ہوگا ؟ یقیناً اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ترازو ہے وہ اسے اوپر، نیچے کرتا ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُوضَعُ الْمَوَازِینُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُؤْتَی بالرَّجُلِ فَیُوضَعُ فِی کَفَّۃٍ فَیُوضَعُ مَا أَحْصِیَ عَلَیْہِ فَتَمَایَلَ بِہِ الْمِیزَانُ قَالَ فَیُبْعَثُ بِہِ إِلَی النَّارِقَالَ فَإِذَا أَدْبَرَ بِہِ إِذَا صَاءِحٌ یَصِیحُ مِنْ عِنْدِ الرَّحْمَنِ یَقُولُ لاَ تَعْجَلُوا لاَ تَعْجَلُوا فَإِنَّہُ قَدْ بَقِیَ لَہُ فَیُؤْتَی بِبِطَاقَۃٍ فیہَا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَتُوضَعُ مَعَ الرَّجُلِ فِی کَفَّۃٍ حَتَّی یَمِیلَ بِہِ الْمِیزَانُ ) [ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عمرو ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ترازو قائم کیا جائیگا ایک آدمی کو ایک پلڑے میں اور اس کے اعمال کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائیگاتو گناہوں والا پلڑا جھک جائیگا آپ نے فرمایا اسے جہنم کی طرف روانہ کردیا جائیگا جب وہ پیچھے مڑکر دیکھے گا تو ایک چیخنے والے کو سنے گا جو رحمٰن کے قریب سے زور زور سے کہہ رہا ہوگا اس کے بارے میں جلدی نہ کرو ابھی اس کے کچھ اعمال باقی ہیں تو ایک کاغذ لایا جائیگا جس میں لا الٰہ الا اللہ لکھا ہوگا اس کو اس آدمی کے ساتھ پلڑے میں رکھ دیا جائیگا حتٰی کہ اس کا پلڑا بھاری ہوجائیگا۔ “ عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَاباً یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ قَالَ أَنْ یَنْظُرَ فِی کِتَابِہِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْہُ إِنَّہُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَءِذٍ یَا عَاءِشَۃُ ہَلَکَ وَکُلُّ مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ یُکَفِّرُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃُ تَشُوکُہُ ) [ روہ احمد : مسند عائشہ صدیقہ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی نماز میں یہ الفاظ پڑھتے ہوئے سنا آپ کہتے بارالٰہا ! میرا حساب و کتاب آسان فرماناجب آپ نماز سے فارٖغ ہوئے تو میں نے عرض کی۔ اللہ کے محبوب آسان حساب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کے نامہ اعمال کی طرف دیکھ کر اس سے چھوڑ دیا جائے۔ اس دن جس سے حساب و کتاب میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ ہلاک ہوگیا جو تکلیف مومن کو پہنچتی ہے اللہ عزوجل اس کے عوض اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتٰی کہ کانٹا لگنے سے بھی گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔ “ ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ ! تجھے کس چیز نے رلایا ہے۔ سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی۔ کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل و عیال کو یاد رکھ پائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ 1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔ 2 نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3 جب جہنم کے اوپر پل صراط کو رکھا جائے گا۔ [ رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان ] مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ ٢۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ ٣۔ رائی کے دانے کے برابر کی ہوئی نیکی اور برائی اس کے کرنے والے کے سامنے لائی جائے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کا حساب کرنے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن حساب کے مراحل : ١۔ قیامت کے دن عدل و انصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ ( الانبیاء : ٤٧) ٢۔ ہر انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے گا اور حکم ہوگا اپنا نامہ اعمال پڑھو آج کے دن تیرا یہی حساب کافی ہے۔ ( بنی اسرائیل : ١٣، ١٤) ٣۔ ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا مجرم دیکھ کر کہیں گے کہ یہ نامۂ اعمال کیسا ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی بات درج کردی گئی ہے۔ ( الکہف : ٤٩) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی اور کوئی کسی کے متعلق کچھ دریافت نہیں کرے گا جن لوگوں کا نیکیوں پلڑا بھاری ہوگیا وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ( المؤمنوں : ١٠١، ١٠٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ونضع الموازین۔۔۔۔۔۔ حسبین (٧٤) ” رائی کے دانے سیمراد چھوٹی سے چھوٹی چیز ہے جو ترازو میں بہت ہی ہلکی ہو۔ یوم حساب میں اسے بھی نظر انداز نہ کیا جاسکے گا اور اس قدر حساس میزان ہوگا کہ حبہ خرولی سے بھی ترازو اوپر نیچے ہوگا۔ لہٰذا ہر نپس کو کل کے لیے زیادہ سے زیادہ بچت کرنا چاہیے۔ دلوں کو چاہیے کہ وہ ڈ... رانے والے کی طرف کان لگا کر سنیں۔ غافلوں ‘ منہ موڑنے والوں اور مذاق کرنے والوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے سنبھل جائیں کہ دنیا کے عذاب کا کوئی جھونکا انہیں آلے یا آخرت کے عذاب کا کوئی کوڑا ان کی پشت پر چسپاں ہوچکا ہو۔ اگر دنیا کے عذاب سے وہ بچ بھی جائیں تو عذاب آخرت تو ان کے لیے تیار ہے جسکے میزان میں کوئی ظلم نہ ہوگا ‘ رائی کے دانے کے برابر بھی۔ اس طرح آخرت کی نہایت ہی حساس میزان کو اس کائنات کے نہایت ہی حساس قوانین فطرت کیساتھ ہم آہنگ کردیا گیا ہے اسی طرح دعوت کے احوال اور انسانوں کی فطرت کو باہم مربوط کردیا گیا ہے اور ان سب امور کو دست قدرت کی تصرفات قرار دے کر ان سے ادارہ واحد ثابت کیا جو اس کائنات کی پشت پر کام کرتا ہے اور یہی دلیل ہے عقیدہ توحید پر۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن میزان عدل قائم ہوگی، کسی پر ذرا سا بھی ظلم نہ ہوگا اس میں سب کو قیامت کے دن کے محاسبہ کی یاد دہانی فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ ہم میزان عدل قائم کردیں گے۔ کسی پر ذرا سا ظلم نہ ہوگا۔ جس کسی نے کوئی بھی نیکی کی ہوگی اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو ہم اسے وہاں حاضر کردیں گے۔ اور وہ بھی حسا... ب میں شامل کرلی جائے گی۔ سورۂ نساء میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ) (بلاشبہ اللہ کسی پر ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں فرماتا) اور سورة الزلزال میں فرمایا (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ) (سو جس نے ذرہ کے برابر خیر کا کام کیا ہوگا وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا) آیت کے ختم پر فرمایا (وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ ) (اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں) یعنی ہمارے وزن اور حساب کے بعد کسی اور حساب کتاب کی ضرورت نہ رہے گی۔ ہمارا حساب لینا کافی ہے ہمارے فیصلے کے بعد کوئی فیصلے کرنے والا نہیں ! حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے چند غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں اور میری خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ میں انہیں برا کہتا ہوں اور مارتا بھی ہوں تو میرا اور ان کا کیا بنے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کی خیانت اور نافرمانی اور جھوٹ بولنے کا اور تیرے سزا دینے کا حساب کیا جائے گا، سو اگر تیرا سزا دینا ان کی خطاؤں کے برابر ہوگا تو معاملہ برابر سرابر رہے گا نہ ان سے تجھے کچھ ملے گا نہ تجھ پر کچھ و بال ہوگا۔ اور اگر تیرا سزا دینا ان کی خطاؤں سے کم ہوگا تو تجھے اس سے بدلہ دیا جائے گا اور اگر تیرا سزا دینا ان کی خطاؤں سے زیادہ ہوگا تو اس زائد کا انہیں تجھ سے بدلہ دیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ شخص وہاں سے ہٹ گیا اور اس نے چیخنا اور رونا شروع کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا تو اللہ کی کتاب نہیں پڑھتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا) (یہ سن کر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ، اللہ کی قسم میں ان کے لیے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں سمجھتا کہ ان سے جدا ہوجاؤں۔ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ سب آزاد ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٤٨٤) الموازین میزان کی جمع ہے لفظ جمع کی وجہ سے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ بہت سے ترازوئیں ہوں گی لیکن جمہور علماء کا فرمانا یہ ہے کہ میزان تو ایک ہی ہوگی اور بہت بڑی ہوگی۔ لیکن چونکہ وہ زیادہ میزانوں کا کام دے گی اس لیے جمع سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور لفظ قِسْط انصاف کے معنی میں آتا ہے اس کو موازین کی صفت قرار دیا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ترازو سراپا انصاف ہوگی۔ حضرت سلمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ترازو رکھ دی جائے گی اور وہ اتنی بڑی ہوگی کہ اگر اس میں آسمان و زمین سب رکھ دیئے جائیں تو سب اس میں سما جائیں۔ فرشتے اسے دیکھ کر کہیں گے کہ یا رب یہ کس کے لیے وزن کرے گی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اپنی مخلوق میں سے جس کے لیے چاہوں گا وزن کروں گا۔ اس پر فرشتے کہیں گے (سُبْحَانَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ ) (تیری ذات پاک ہے۔ ہم نے تیری ایسی عبادت نہیں کی جیسی عبادت کا حق ہے) (قال المنذری فی الترغیب، ج ٤، ص ٤٢٥، رواہ الحاکم و قال صحیح علی شرط مسلم) اعمال کا وزن کس طرح ہوگا اس کے بارے میں کچھ تفصیل سورة اعراف کے پہلے رکوع کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ (انوار البیان، جلد دوم)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازوئیں رکھیں گے اور قائم کریں گے سو کسی شخص پر ذرا سا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور بالکل ناانصافی نہیں کی جائے گی اور اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو اس کو بھی ہم حاضر کردیں گے اور لاموجود کریں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ شاید بہت سی ترازوئیں ... ہوں گی یا ایک ہی ترازو بہت بڑی ہوگی اس کو موازین فرمایا ہے اس ترازو میں اعمال تو لے جائیں گے یا صحائف اعمال یا دونوں باتیں ہوں گی یعنی صحائف بھی تلیں گے اور اعمال بھی تولے جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث میں منقول ہے اگر کسی کا کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو اس کو بھی لے آیا جائے گا کوئی عمل پوشیدہ نہ رہے گا ہم حساب لینے کو کافی ہیں یعنی ہمارے بعد کوئی حساب لینے والا نہیں ہم نہ تو حساب لینے میں کسی کے محتاج ہیں اور نہ کوئی غلطی کا امکان ہے کہ ہمارے حساب کو کوئی دوسرا جانچے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگر عمل کسی کا اتنا تھوڑا ہو تو وہ بھی ہم تولیں گے۔ 12  Show more