Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 51

سورة الأنبياء

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۵۱﴾

And We had certainly given Abraham his sound judgement before, and We were of him well-Knowing

یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اسکی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اسکے احوال سے بخوبی واقف تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Ibrahim and his People Allah tells: وَلَقَدْ اتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ And indeed We bestowed aforetime on Ibrahim his guidance, Allah tells us about His close Friend Ibrahim, peace be upon him, and how He bestowed upon him guidance aforetime, i.e., from an early age He inspired him with truth and evidence against his people, as Allah says elsewhere: وَتِلْكَ حُجَّتُنَأ ءَاتَيْنَـهَأ إِبْرَهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ And that was Our proof which We gave Ibrahim against his people. (6:83) The point here is that Allah is telling us that He gave guidance to Ibrahim aforetime, i.e., He had already guided him at an early age. ... وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ and We were Well-Acquainted with him. means, and he was worthy of that. Then Allah says: إِذْ قَالَ لاَِبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ

یہودی روایتوں سے بچو فرمان ہے کہ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطافرمائی تھی ۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی جیسے آیت میں ہے وتلک حجتنا اتیناہا ابراہیم علی قومہ ۔ یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کرسکیں ۔ یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الٰہی پر خصوصا ًچاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لئے کہ وہ صحت کے مطابق ہے اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے ۔ اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو ، موافقت ومخالفت کچھ نہ ہو ، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچاکرسکتے ہیں نہ غلط ۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ وہ واقعات ہمارے لئے کچھ سند نہیں ، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع نافع کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی ۔ ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کہ کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے ۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ہم نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے بچپنے میں ہی آپ نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا ۔ اور نہایت جرات سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو؟ حضرت اصبح بن بناتہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں ۔ آپ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے؟ کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے ، باپ دادوں سے چلی آتی ہے ۔ آپ نے فرمایا واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟ ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟ میں کہتا ہوں تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہوگئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو ۔ اب تو ان کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی ، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے ۔ اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبراگئے اور کہنے لگے ابراہیم کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو یا مذاق کررہے ؟ ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی ۔ آپ کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ رب تو صرف خالق آسمان وزمین ہی ہے ۔ تمام چیزوں کا خالق مالک وہی ہے ، تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی خالق ہیں نہ مالک ۔ پھر معبود مسجود کیسے ہوگئے ؟ میری گواہی ہے کہ خالق ومالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اسکے سوا کوئی رب نہ معبود ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ (علیہ السلام) کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کردی تھی۔ 51۔ 2 یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] رُشد سے مراد ایسی ہوش مندی ہے۔ جس سے انسان اپنے فائدہ و نقصان، نیک و بد اور خیر و شر میں امتیاز کرنے اور فائدہ کی بات کو قبول کرنے اور نقصان کی بات کو رد کرنے کے قابل ہوجائے۔ خواہ یہ نفع و نقصان دنیوی ہو یا اخروی ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت مدت پہلے ہم نے حضرت ابراہیم کو ہوش مندی اور عقل سلیم عطا کی تھی۔ وہ فرمانے کے رسم و رواج کے پیروکار نہیں تھے۔ بلکہ ہر بات کے نفع و نقصان کو خود سوچنے کے عادی تھے۔ اور ہم ان کے حالات سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ فی الواقعہ رسالت الٰہی کے مستحق ہیں۔ لہذا ہم نے انھیں نبوت عطا فرمائی۔ اگرچہ یہ ہوش مندی بھی ہم نے ہی انھیں عطا کی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ ۔۔ : ” رُشْدٌ“ ہدایت اور سیدھا راستہ، یہ لفظ ” غَیٌّ“ کے مقابلے میں آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہوچکی۔ “ اور سمجھ بوجھ اور ہوش مندی کے معنی میں بھی، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا ) [ النساء : ٦ ] ” پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھ داری معلوم کرو۔ “ ” رُشْدَهٗ “ یعنی وہ سمجھ بوجھ جو اس کے لائق تھی۔ مِنْ قَبْلُ : یعنی موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) سے پہلے یا نبوت عطا کرنے سے پہلے۔ بعض نے کہا غار سے نکلنے کے بعد۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (٧٥ تا ٧٩) ۔ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ : یعنی ہم اسے جانتے تھے کہ ہم نے اس میں کیا کیا خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی تھیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی جتنی بھی خوبیاں بیان کرلی جائیں اللہ تعالیٰ کی یہ شہادت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ منصب عطا ہی اسے ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں اس کا اہل ہو، فرمایا : (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) [ الأنعام : ١٢٤ ] ” اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ہم نے اس (زمانہ موسوی) سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی (شان کے مناسب) خوش فہمی عطا فرمائی تھی اور ہم ان (کے کمالات علمیہ و عملیہ) کو خوب جانتے تھے (یعنی وہ بڑے کامل تھے ان کا وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی برادری سے (ان کو بت پرستی میں مشغول دیکھ کر) فرمایا کہ کیا (واہیات) مورتیں ہیں جن (کی عبادت) پر تم جمے بیٹھے ہو (یعنی یہ ہرگز قابل عبادت نہیں) وہ لوگ (جواب میں) کہنے لگے کہ ہم نے اپنے بڑوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے، (اور وہ لوگ عاقل تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مورتیں لائق عبادت کے ہیں) ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک تم اور تمہارے باپ دادے ( ان کو لائق عبادت سمجھنے میں) صریح غلطی میں (مبتلا) ہو۔ (یعنی خود ان ہی کے پاس ان کی معبودیت کی کوئی دلیل اور سند نہیں ہے وہ تو اس لئے ضلال میں ہیں اور تم ایسوں کی تقلید کرتے ہو جو بےدلیل بےثبوت اوہام کے پیچھے چلنے والے ہیں اس لئے تم ضلال میں ہو چونکہ ان لوگوں نے ایسی بات سنی نہ تھی نہایت متعجب ہو کر) وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا تم (اپنے نزدیک) سچی بات (سمجھ کر) ہمارے سامنے پیش کر رہے ہو یا (یوں ہی) دل لگی کر رہے ہو، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں (دل لگی نہیں بلکہ سچی بات ہے اور صرف میرے ہی نزدیک نہیں بلکہ واقع میں بھی سچی بات یہی ہے کہ یہ عبادت کے قابل نہیں) بلکہ تمہارا رب (حقیقی جو لائق عبادت ہے) وہ ہے جو تمام آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے جس نے (علاوہ تربیت کے) ان سب (آسمانوں اور زمین اور ان میں جو مخلوق ہے جس میں یہ اصنام بھی داخل ہیں سب) کو پیدا کیا اور میں اس (دعوی) پر دلیل بھی رکھتا ہوں (تمہاری طرح کو رانہ تقلید سے کام نہیں کرتا) اور خدا کی قسم میں تمہارے ان بتوں کی گت بناؤں گا جب تم (ان کے پاس سے) چلے جاؤ گے ( تاکہ ان کا عاجز اور درماندہ ہونا زیادہ مشاہدے میں آ جاوے، ان لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ اکیلے ہمارے مخالف کارروائی کیا کرسکتے ہیں کچھ التفات نہ کیا ہوگا اور چلے گئے) تو (ان کے چلے جانے کے بعد) انہوں نے ان بتوں کو (تبر وغیرہ سے توڑ پھوڑ کر) ٹکڑے ٹکڑے کردیا بجز ان کے ایک بڑے بت کے (جو جثے میں یا ان لوگوں کی نظر میں معظم ہونے میں بڑا تھا کہ اس کو چھوڑ دیا جس سے ایک قسم کا استہزاء مقصود تھا کہ ایک کے سالم اور دوسروں کے قطع و برید سے ایہام ہوتا ہے کہ کہیں اسی نے تو سب کو نہیں توڑا، پس ابتداء تو ایہام ہے پھر جب وہ لوگ قطع و برید کرنے والے کی تحقیق کریں گے اور اس بڑے بت پر احتمال بھی نہ کریں گے تو ان کی طرف سے اس کے عجز کا بھی اعتراف ہوجاوے گا اور جحت اور لازم تر ہوجاوے گی۔ پس انتہاءً یہ الزام و افحام ہے یعنی لاجواب کرنا ہے اور مقصود مشترک اثبات عجز ہے، بعض کا انکار سے اور ایک کا ان کے اقرار سے، غرض ایک کو اس مصلحت سے چھوڑ کر سب کو توڑ دیا) کہ شاید وہ لوگ ابراہیم کی طرف (دریافت کرنے کے طور پر) رجوع کریں (اور پھر وہ تقریر جواب سے مکرر پوری طرح احقاق حق کرسکیں۔ غرض وہ لوگ جو بت خانہ میں آئے تو بتوں کی بری گت بنی دیکھی آپس میں) کہنے لگے کہ یہ (بےادبی کا کام) ہمارے بتوں کے ساتھ کس نے کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے بڑا ہی غضب کیا (یہ بات ایسے لوگوں نے پوچھی جن کو اس قول کی اطلاع نہ تھی تاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ الخ یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس وقت موجود نہ ہوں گے کیونکہ اس مناظرہ کے وقت تمام قوم کا مجتمع ہونا ضرور نہیں اور یا موجود ہوں مگر سنا نہ ہو اور بعضوں نے سن لیا ہو، کذا فی الدر المنثور عن ابن مسعود نحوا منہ) بعضوں نے کہا (جن کو اس قول کا علم تھا) کہ ہم نے ایک نوجوان آدمی کو جس کو ابراہیم کر کے پکارا جاتا ہے ان بتوں کا (برائی کے ساتھ) تذکرہ کرتے سنا ہے (پھر) وہ (سب) لوگ (یا جنہوں نے اول استفسار کیا تھا) بولے کہ (جب یہ بات ہے) تو اچھا اس کو سب آدمیوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ (شاید وہ اقرار کرلے اور) وہ لوگ (اس کے اقرار کے) گواہ ہوجائیں (پھر اتمام حجت کے بعد سزا دی جائے جس پر کوئی ملامت نہ کرسکے، غرض سب کے روبرو وہ آئے اور ان سے) ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہمارے بتوں کے ساتھ تم نے یہ حرکت کی ہے اے ابراہیم، انہوں نے (جواب میں) فرمایا کہ (تم یہ احتمال کیوں نہیں فرض کرتے کہ یہ حرکت میں نے) نہیں کی، بلکہ ان کے اس بڑے (گرو) نے کی (اور جب اس کبیر میں فاعل ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے تو ان صغار میں ناطق ہونے کا احتمال بھی ہوگا) سو ان (ہی) سے پوچھ لو (نا) اگر یہ بولتے ہوں (اور اگر بڑے بت کا فاعل اس عمل کا ہونا اور دوسرے بتوں میں بولنے کی طاقت ہونا باطل ہے تو عجز ان کا تمہارے نزدیک مسلم ہوگیا پھر اعتقاد الوہیت کی کیا وجہ ہے) اس پر وہ لوگ اپنے جی میں سوچے پھر (آپس میں) کہنے لگے کہ حقیقت میں تم ہی لوگ ناحق پر ہو (اور ابراہیم حق میں جو ایسا عاجز ہو وہ کیا معبود ہوگا) پھر (شرمندگی کے مارے) اپنے سروں کو جھکا لیا (ابراہیم (علیہ السلام) سے نہایت مغلوبانہ لہجہ میں بولے کہ) اے ابراہیم تم کو تو معلوم ہی ہے کہ یہ بت (کچھ) بولتے نہیں (ہم ان سے کیا پوچھیں اور اس سے فاعلیت کبیر کی نفی بدرجہ اولی ہوگی اس وقت) ابراہیم (علیہ السلام) نے (خوب خبر لی اور) فرمایا کہ (افسوس جب یہ ایسے ہیں) تو کیا خدا کو چھوڑ کر تم ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو تم کو نہ کچھ نفع پہنچا سکے اور نہ (بالمباشرة) کچھ نقصان پہنچا سکے تف ہے تم پر (کہ باوجود وضوح حق کے باطل پر مصر ہو) اور ان پر (بھی) جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے (اس تمام تقریر سے خصوص اس سے کہ توڑنے پھوڑنے سے انکار نہیں فرمایا باوجودیکہ احتمال انتقام مقتضی انکار کو تھا ان کو ثابت ہوگیا کہ یہ کام ان ہی کا ہے اور تقریر کا کچھ جواب بن نہ آیا تو بمقضائے اس قول کے کہ چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پرخاش درہم کشد روئے را یعنی جب جاہل جواب نہ رکھتا ہو اور قدرت رکھتا ہو تو برسر پیکار آجاتا ہے، آپس میں) وہ لوگ کہنے لگے کہ ان (ابراہیم) کو آگ میں جلا دو اور اپنے معبودوں کا (ان سے) بدلا لو اگر تم کو کچھ کرنا ہے (تو یہ کام کرو ورنہ بالکل ہی بات ڈوب جاوے گی۔ غرض سب نے متفق ہو کر اس کا سامان کیا اور ان کو آتش سوزاں میں ڈال دیا اس وقت) ہم نے (آگ کو) حکم دیا کہ اے آگ تو ٹھنڈی اور بےگزند ہوجا، ابراہیم کے حق میں (یعنی نہ ایسی گرم رہ جس سے جلنے کی نوبت آوے اور نہ بہت ٹھنڈی برف ہوجا کہ اس کی ٹھنڈک سے تکلیف پہنچے بلکہ مثل ہوائے معتدل کے بن جا چناچہ ایسا ہی ہوگیا) اور ان لوگوں نے ان کے ساتھ برائی کرنا چاہا تھا (کہ ہلاک ہوجائیں گے) سو ہم نے ان ہی لوگوں کو ناکام کردیا (کہ ان کا مقصود حاصل نہ ہوا بلکہ اور بالعکس حقانیت ابراہیم (علیہ السلام) کا زیادہ ثبوت ہوگیا) اور ہم نے ابراہیم کو اور (ان کے برادر زادہ کذا فی الدر المنثور عن ابن عباس) لوط (علیہ السلام) کو (کہ انہوں نے برخلاف قوم کے ابراہیم (علیہ السلام) کی تصدیق کی تھی قال تعالیٰ فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ اور اس وجہ سے لوگ ان کے بھی مخالف اور درپے تھے) ایسے ملک (یعنی شام) کی طرف بھیج کر (کافروں کے شر و ایذا سے) بچا لیا جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے واسطے (خیر و) برکت رکھی ہے (دنیوی بھی کہ ہر قسم کے عمدہ پھل پھول بکثرت پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی اس سے منتفع ہو سکتے ہیں اور دینی بھی کہ بکثرت انبیاء (علیہم السلام) وہاں ہوئے جن کے شرائع کی برکت دور دور عالم میں پھیلی یعنی انہوں نے ملک شام کی طرف باذن الٰہی ہجرت فرمائی) اور (ہجرت کے بعد) ہم نے ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب پوتا عطا کیا اور ہم نے ان سب (باپ بیٹے پوتے) کو (اعلیٰ درجہ کا) نیک کیا (اعلی درجہ کی نیکی کا مصداق عصمت ہے جو بشریت میں خواص نبوت سے ہے پس مراد یہ ہے کہ ان سب کو نبی بنایا) اور ہم نے ان (سب) کو مقتدا بنایا (جو کہ لوازم نبوت سے ہے) کہ ہمارے حکم سے (خلق کو) ہدایت کیا کرتے تھے (جو کہ مناصب نبوت سے ہے) اور ہم نے ان کے پاس نیک کاموں کے کرنے کا اور (خصوصاً ) نماز کی پابندی کا اور زکوة ادا کرنے کا حکم بھیجا (یعنی یہ حکم بھیجا کہ ان کاموں کو کیا کرو) اور وہ (حضرات) ہماری (خوب) عبادت کیا کرتے تھے (یعنی ان کو جو حکم ہوا تھا اس کو اچھی طرح بجا لاتے تھے پس صالحین میں کمال نبوت کی طرف اور اَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ میں کمال علم کی طرف اور کانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ میں کمال عمل کی طرف اور اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ میں دوسروں کی ہدایت و تربیت کی طرف اشارہ کافیہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰہِيْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِہٖ عٰلِمِيْنَ۝ ٥١ۚ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بالغ ہونے سے پہلے ان کو علم اور خوش فہمی عطا کی تھی یا یہ کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و حضرت ہارون (علیہ السلام) کے زمانہ سے پہلے ان کو نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا تھا یا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی تھی اور ہم ان کے کمالات کو اور یہ کہ وہ اس چیز کے اہل ہیں، خوب جانتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ ) ” ان آیات میں بڑی عمدگی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے درمیان ہونے والی کش مکش کی تفصیل بیان ہو رہی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. The Arabic word rushd is very comprehensive and means righteousness as well. We had blessed Abraham with discretion: The discretion he showed in discriminating between the right and the wrong etc. was not of his own acquirement but had been bestowed on him by Us. We knew him well: We knew that he was worthy of Prophethood, therefore We appointed him as such. According to (Surah Al-Anaam, Ayat 124): Allah knows best whom to entrust with His Mission. It contains a subtle answer to the objection raised by the chiefs of the Quraish: Why has Allah appointed this man, the Prophet (peace be upon him) to the office of Prophethood, when he is in no way superior to us. This objection has been answered, as if to say: The same objection might even have been raised against Prophet Abraham (peace be upon him) by his people, but We knew his capabilities. Therefore We selected him for Prophethood. In this connection, please also see (Surah Al-Baqarah, Ayats 124-141, 258-260): (Surah Al-Anaam, Ayats 74-84): (Surah At- Tauba, Ayat 114): (Surah Houd, Ayats 69-76): (Surah Ibrahim, Ayats 35-41): (Surah Al-Hijr, Ayats 51-58 )and (Surah An-Nahal, Ayats 120-122) and the E.Ns thereof.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :53 ہوشمندی ہم نے رشد کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے رشد کا ترجمہ راست روی بھی ہو سکتا ہے ، لیکن چونکہ رشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اس راست روی کو ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقل سلیم کے استعمال کا ، اس لیے ہم نے ہوش مندی کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے ۔ ابراہیم کو اس کی ہوش مندی بخشی یعنی جو ہوش مندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کردہ تھی ۔ ہم اس کو خوب جانتے تھے ، یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی ۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیا آدمی ہے ، اس لیے ہم نے اس کو نوازا : اللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے ( الانعام ، آیت 124 ) ۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سرداران قریش کے اس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اس شخص میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے ۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے دیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا ، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملک عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا ، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیت ہے ، اس لیے ان کی پوری قوم میں سے ان کو اس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پاک کے مختلف پہلو اس سے پہلے سورہ بقرہ آیات 124 تا 141 ۔ 258 ۔ 260 الانعام ، آیات 74 تا 81 جلد دوم ۔ التوبہ آیت 114 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 76 ۔ ابراہیم آیات 35 تا 41 ۔ الحجر آیات 15 تا 60 ۔ النحل ، آیات 120 تا 133 میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥١۔ ٥٦:۔ سورة الانعام میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش نمرود بن کنعان عراق کے بادشاہ کے زمانہ میں ہوئی ہے مکہ کے مشرک لوگ اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر بتلاتے تھے اس واسطے ان لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ سے قائل کرنے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرما کر انہیں یوں قائل کیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو بچپنے ہی میں بت پرستی سے بیزار تھے پھر یہ مکہ کے بت پرست اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر کیوں کر کہہ سکتے ہیں ‘ نمردو اور اس کے ساتھی ستارہ پرست لوگ تھے ستاروں کی پرستش کی نیت سے ان لوگوں نے ستاروں کی مورتیں بنار کھی تھیں جن کو ابرہیم (علیہ السلام) نے تماثیل کہا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جائے گا ‘ معتبر سند سے ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ١ ؎ سے حدیث قدسی ہے کہ مشرک کا کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ‘ اللہ کی وحدانیت کے اعتقاد کو نیک راہ اور شرک کے اعتقاد کو صریح غلطی جو فرمایا ‘ اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ موسیٰ اور ہارون کو نیک راہ کی توفیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے چھوٹی سی عمر میں ابراہیم (علیہ السلام) کو نیک راہ کی توفیق دی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں یہ بات ٹھہر چکی ہے کہ آزر بت پرست کے گھرانہ میں ابراہیم (علیہ السلام) ایسے نیک راہ اور اللہ کے رسول ہوں گے ‘ ان کے بعد ان کے گھرانہ میں قیامت تک نبوت چلے گی ‘ آگے ابراہیم (علیہ السلام) کے نیک راہ پر ہونے کی یہ تفصیل بیان فرمائی کہ وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کو بت پرستی کی حالت پر نہ دیکھ سکے اس لیے انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے پوچھا کہ تم ان مورتیوں کی پوجا میں ہر وقت کیوں لگے رہتے ہو ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اور قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقہ پر ہیں ‘ وہ بھی یہی کیا کرتے تھے جو ہم کرتے ہیں ‘ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی مورتوں کی اس قدر تعظیم کرنے میں تم بھی بڑی غلطی میں پڑے ہوئے ہو اور تمہارے باپ دادا بھی غلطی پر تھے ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر ان کے باپ اور ان کی قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ جب تم ہم کو اور ہمارے بڑوں کو غلطی پر بتاتے ہو تو تم ہمارے طریقہ سے بڑھ کر کوئی ٹھیک طریقہ بتلا سکتے ہو یا بچوں کی طرح جو منہ میں آتا ہے کہہ رہے ہو ‘ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا جو منہ میں آوے وہ میں نہیں کہتا بلکہ میں تو تم کو ٹھیک طریقہ بتلا سکتا ہوں کہ جس اللہ نے آسمان زمین سب کچھ پیدا کیا ‘ انسان پر اس کی تعظیم واجب ہے ان مورتوں نے تعظیم کے قابل کونسا کام کیا ہے جو تم ان کی تعظیم میں ہر وقت لگے رہتے ہو اس کے پیدا کیے ہوئے آسمان و زمین اور میں سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تعظیم کے قابل وہی ایک ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٦٩ ج ١ باب الترہیب من الریاء )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:51) رشدہ۔ مضاف مضاف الیہ رشد کے معنی ہیں ہدایت۔ دانائی۔ صلاحیت۔ راہ یابی۔ بھلائی۔ راستی۔ ہوشیاری۔ حسن تدبیر۔ رشد یرشد کا مصدر ہے۔ یہاں مراد دانائی فہم و فراست ہے۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ابراہیم ہے یا اس کا مرجع رشد بھی ہوسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی حضرت موسیٰ اور ارون (علیہما السلام) کو کتاب دینے سے پہلے یا سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے (جامع البیان) یہاں ” رشد “ سے خاص قسم کا رشد مراد ہے جو حجرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے شایان شان تھا۔ اس سے بعض نے نبوت بھی مراد لی ہے مگر اپنے عموم کے اعتبار سے یہ لفظ ہر قسم کے رش و ہدایت کو شامل ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٥) اسرارومعارف کس قدر واضح دلائل کے باوجود کفار انکار ہی کرتے چلے جاتے ہیں اس لیے کہ کفر ان کے قلوب سے ایمان قبول کرنے کی استطاعت ختم کردیتا ہے اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں دیکھیے کہ ہم نے بہت پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو نیکی اور بھلائی کی سمجھ ان کی شان کے مطابق عطا کی اور ان کے کمالات علمی اور عملی کے ہم خود گواہ ہیں اور کفار کو انہوں نے بہت دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی ، جب انہوں نے خود اپنے باپ اور قوم کو بتوں کی عبادت میں گرفتار دیکھا تو فرمایا کہ عجیب بات ہے کہ اتنی بہادر قوم ایک بہت بڑی اور طاقتور سلطنت کی مالک پتھر کی مورتوں کے سامنے سرنگوں ہے اور ان کی عبادت کر رہی ہے اور ان سے مدد کی طالب ہے تو انھوں نے جواب دیا بات ایسی نہیں بلکہ ہمارے بڑے جو تھے وہ بہت عقلمند اور تجربہ کار لوگ بھی تھے اور بہادر بھی تھے کہ سلطنت کے بانی تھے ہم نے ان کو دیکھا کہ وہ ان بتوں کو پوجتے تھے ، اگر ہمیں اس کی دلیل نہ بھی آئے تو ان کا ایسا کرنا ہی ہمارے لیے دلیل ہے ، آپ نے فرمایا کہ جس طرح تم غلطی پر ہو ایسے ہی تمہارے بڑوں سے بھی سخت بھول ہوئی ، بھلا یہ پتھر جنہیں تم خود تراش کر بناتے ہو کس طرح تمہارے معبود بن سکتے ہیں تو کہنے لگے کیا تمہاری بات واقعی سچی ہے اور آپ کے پاس دلیل ہے یا محض دل لگی کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح تم غلطی پر ہو ایسے ہی تمہارے بڑوں سے بھی سخت بھول ہوئی ، بھلا یہ پتھر جنہیں تم خود تراش کر بناتے ہو کس طرح سے تمہارے معبود بن سکتے ہیں تو کہنے لگے کیا تمہاری بات واقعی سچی ہے اور آپ کے پاس دلیل ہے یا محض دل لگی کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تمہاری ضرورتیں یہ پتھر پوری نہیں کرسکتے بلکہ تمہاری حاجات پوری کرنے والا یعنی تمہارا رب وہ ہے جو اس ساری کائنات کا رب ہے ، اس سارے نظام کا خالق بھی ہے اور اسے قائم رکھے ہوئے بھی ہے اور اس حقیقت کا سب سے بڑا گواہ میں ہوں ، اس اظہار میں دعوت بھی موجود ہے کہ جو نور قلبی اس حقیقت کو جاننے کا باعث ہے وہ مجھے تو نصیب ہے ، اگر تم بھی چاہتے ہو تو آؤ میری بات مانو کہ میں تمہارے قلوب بھی روشن کر دوں اور یہ حقیقت تم پر بھی آشکارا ہوجائے کیونکہ انھوں نے تو اپنے لیے دلیل چاہی تھی ۔ (دعوت) اب رہے یہ بت تو اللہ جل جلالہ کی قسم میں ان کی خبر لوں گا کہ ان کا عجز بالکل واضح ہوجائے مگر ذرا تم لوگ یہاں سے ہٹو تو یعنی جب تم موجود نہ ہو گے تو میں ان سے دو دو ہاتھ ضرور کروں گا ۔ چناچہ موقع پاکر آپ نے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ، سب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور ایک سب سے بڑے کو چھوڑ دیا بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ جس کلہاڑے سے بتوں کو توڑا وہ اس بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا یا اسے تھما دیا جیسے اس نے یہ سب کیا ہو مقصد یہ تھا کہ آخر وہ سب انہی کی طرف متوجہ ہوں گے اور انہی سے پوچھیں گے تو انھیں بتوں کا عاجز ہونا سمجھایا جاسکے گا ، چناچہ وہی ہوا جب لوگ بت خانے آئے اور تباہی دیکھی تو حیرت زدہ رہ گئے بھلا ایسا ظلم کون کرسکتا ہے کہ ہم جن کی عبادت اور پوجا کرتے ہیں انھیں مٹی میں ملا دیا گیا ہے تو کچھ لوگوں نے کہا ابراہیم نام کا ایک نوجوان ہے جو بتوں کے خلاف بات کرتا ہے اور تو ساری قوم ان کی عبادت ہی کرتی ہے بھلا ایسا کیوں کرے گی تو کہنے لگے پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کے روبرو لایا جائے تاکہ سرمیدان بات صاف ہوجائے اور سب کو پتہ چل جائے کہ قصور کس کا ہے چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا گیا جب کہ قوم کے سردار اور فیصلہ دینے والے لوگ بھی تھے اور عوام بھی سننے کے لیے موجود یہی ابراہیم (علیہ السلام) کا منشا بھی تو ہوگا کہ ایسا کرنے سے ساری قوم جمع ہوگی اور حق بات ثابت کرنے کا موقع ہاتھ آئے گا ، چناچہ انھوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم یہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ آپ نے کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا بھئی یہ تو لگتا ہے کہ اس بڑے بت کی کارستانی ہے جو سب کو توڑ پھوڑ کر خود کلہاڑا اٹھائے کھڑا ہے تو آپ لوگ خود ان سے بھی پوچھئے تو سہی ، دیکھیں وہ کیا بتاتے ہیں جن پر یہ سب بیتی ہے ۔ (ابراہیم (علیہ السلام) جھوٹ اور تقیہ دونوں سے پاک تھے) اس موضوع پر اکثر بحث کی جاتی ہے اور بخاری شریف میں ایک صحیح حدیث پاک بھی ہے جس میں ارشاد ہے ” ان ابراھیم (علیہ السلام) لم یکذب غیر ثلاث “۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تین بار خلاف واقعہ بات ارشاد فرمائی جن میں دو باتیں تو خالص اللہ کے لیے تھیں اور تیسری میں انہیں اپنی بیوی کی حفاظت مطلوب تھی ، پہلی بات یہی کہ یہ سب اس بڑے بت کا کیا دھرا ہے اور دوسرا جب قوم سے فرمایا تھا ” انی سقیم “ میں بیمار ہوں اور تیسری بات جب ایک ظالم حاکم سے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے تو یہ جھوٹ ہرگز نہ تھا بلکہ ” توریہ “ تھا توریہ ایسی بات کو کہا جاتا ہے جہاں دو معنی پائے جاتے ہوں اور خود کو دوسرے کے شر سے بچانے کے لیے کہنے والا ذو معنی جملہ کہہ دے کہ اس کی مراد ایک معنی ہو اور سننے والا دوسرا سمجھ رہا ہو مگر اس میں جھوٹ نہ ہو اگر جھوٹ ہو تو تقیہ کہلائے گا جو شیعہ فرقے میں ہے اور حرام ہے کہ صاف جھوٹ بولا جاتا ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے یہاں آپ کا فرمانا کہ ” یہ کارستانی بڑے بت کی ہے “ سے یہ بھی تو واضح ہے کہ اس کی پوجا کی جاتی تھی اور سب کا محافظ سمجھا جاتا تھا ، دوسرے سارے بت بھی اس کے خادم اور معاون تھے تو آپ نے غیرت اسلامی سے سب توڑ دیئے کہ ذرا ان کی حفاظت تو کر کے دکھائے اور اگر ان ہی کی حفاظت نہیں کرسکتا تو دوسروں کی کیا کرے گا پھر اسے سالم بھی رہنے دیا کلہاڑا بھی تھما دیا کہ پتہ چلے یہ ٹھیک بھی ہے اور سب کچھ اس کے سامنے ہوا ہے ایسے ہی آپ کا فرمان ” میں سقیم ہوں “ سے قوم نے جسمانی طور پر بیمار یا بخار وغیرہ میں مبتلا جانا جب کہ آپ قوم کی بت پرستی اور اس پر اصرار کے باعث سخت مغموم تھے اور سقیم میں دونوں معانی موجود ہیں ، ایسے ہی آپ کا گذر ایک ظالم حکمران پر ہوا جو خوبصورت عورتیں چھین لیتا اور خاوندوں کو قتل کرادیتا تھا ، تو آپ نے فرمایا میری بہن ہے اور حضرت سارہ (رض) سے بھی کہہ دیا کہ میں نے ایسا کہا ہے اور حق یہ ہے ، اس وقت یہاں ہم دونوں ہی مسلمان ہیں اور دینی اعتبار سے تم میری بہن ہی ہو ، اخوت اسلامی کے اعتبار سے یہ حق ہے چناچہ اس طرح وہ آپ کی ایذا سے تو باز رہا مگر حضرت سارہ (رض) کو اس کے پاس حاضر کیا گیا تو ان کی حفاظت اللہ کریم نے کی ، جب برے ارادے سے بڑھتا اندھا ہوجاتا پھر ان کی منت کرتا تو ان کی دعا سے ٹھیک ہوجاتا ایسا تین بار ہوا تو ڈر کر اپنے ارادے سے باز آگیا تو یہ تو ، یہ ہے جھوٹ ہرگز نہیں نہ تقیہ ثابت ہوتا ہے ہاں اتنی معمولی بات کی نسبت جب ایک عظیم رسول کی طرف ہوئی تو اسے کذب یا خلاف واقعہ فرما دیا گیا مگر یہ ارشاد حدیث پاک کا ہے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے ایسا کہنے کی اجازت نہیں بلکہ سخت بےادبی ہوگی ، ہاں قرآن حدیث میں جہاں ہوں تلاوت یا روایت کی جاسکتی ہے ۔ (اہل اللہ کے لیے نازل مرحلے) صاحب معارف نے یہاں عجیب نکتہ درج فرمایا ہے کہ حدیث شریف میں پہلی دو باتوں کو تو فی اللہ یعنی اللہ جل جلالہ کے لیے کہا گیا ہے مگر تیسری کو جس میں جان بچانے اور بیوی کی حفاظت مقصود تھی فی اللہ نہیں کہا گیا اگرچہ جان بچانا اور بیوی کی حفاظت بھی اللہ جل جلالہ ہی کی اطاعت تھی مگر یہاں اطاعت الہی کے ساتھ تھوڑا سا حظ نفس بھی تھا جو انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان کے باعث محض للہ فی اللہ کا درجہ نہ پاسکا ، سبحان اللہ کس قدر نازک معاملات ہیں اللہ جل جلالہ ہماری لغزشوں سے در گذر فرمائے آمین ! ۔ چناچہ جب آپ نے فرمایا انہی سے پوچھ لو تو قوم کے سرداروں کے سرجھک گئے سخت شرمندہ ہوئے اور اپنے دل میں سوچ رہے تھے کہ ہم ہی ظالم ہیں جو ایسی غلط روش اپنا رکھی ہے مگر سرجھکائے جھکائے یعنی شرمندگی کے ساتھ بھی کہنے لگے کہ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ بت بولا نہیں کرتے آپ نے فرمایا کس قدر بیوقوفی ہے کہ تم لوگ ایسے بتوں کی پوجا کر رہے ہو جو خود اپنا نفع نقصان بھی نہیں جانتے نہ تمہیں یا کسی اور کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں ، تف ہو تم پر بھی اور تمہارے بتوں پر بھی تم عقل کے اس قدر اندھے ہو ، جب قوم لاجواب ہوگئی تو جھگڑے پہ اتر آئی اور فیصلہ یہ کیا کہ انہیں یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو بھڑکتی آگ میں جلایا جائے تاکہ ہمارے بتوں کو نہ ماننے اور ان کی توہین کرنے کی سزا کا پتہ چلے چناچہ انہوں نے ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا ان کا بادشاہ نمرود ہی اس فیصلے کا کرنے والا تھا اور ساری قوم ساتھ تھی لہذا چالیس روز تک ہر قسم کا ایندھن ساری قوم نے مل کر جمع کیا اور ایک بہت بڑا میدان بھر گیا پھر اسے آگ لگا دی گئی اور ہفتہ بھر اسے بھڑکاتے رہے ، یہاں تک کہ فضا بھی شعلوں سے بھر گئی اور پرندوں تک کے لیے اوپر سے گزرنا محال ہوگیا اب سوال پیدا ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو کیسے پھینکا جائے تو مفسرین کرام کے مطابق ابلیس نے ظاہر ہو کر انہیں منجنیق بنانے کا طریقہ سکھایا اور اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بٹھا کر آگ میں پھینکا گیا ، اگرچہ منجنیق اس ظلم کے لیے ایجاد ہوئی اور ابلیس کے مشورے سے ہوئی پھر پہلا کام بھی اس سے یہی لیا گیا مگر تاریخ گواہ ہے ۔ (ایجادات کا استعمال) کہ پھر مسلمانوں جرنیلوں نے اسلامی فتوحات میں اسے خوب استعمال کیا اور ابلیس کا ہتھیار خود اس کی اولاد اور ماننے والوں کے خلاف کام آیا آج بھی اگر ٹیلیویژن وغیرہ ایجادات کو جو بےحیائی پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں اگر مثبت کام پر اور تعلیم وتربیت کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو فقیر کی رائے میں نرے فتوے دینے سے بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔ (آگ اور ابراہیم (علیہ السلام) ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے آگ سے فرما دیا کہ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی والی بن جا یعنی مزیدار ہوجا کہیں زیادہ ٹھنڈی ہو کر بھی ایذا کا باعث نہ بن جانا ، یہاں بہت سے مستشرقین نے بھی اور معجزات کے منکرین نے بھی فضول اعتراضات کیے ہیں جس کی بنیاد فلسفہ کے اصول پر ہے کہ جو وصف کسی ذات کے لیے لازم ہو وہ اس سے جدا نہیں ہوسکتا جیسے آگ کے لیے جلانا لازمی ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ لوازمات محض سنت اللہ ہیں کہ اس نے ان کے مزاج میں یہ بات رکھ دی جب وہ تبدیل کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا جیسے یہاں آگ کا بجھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ خود آگ کو حکم دیا کہ ہر شے کو جلانے والی تو ہے مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی کا سبب بن جا چناچہ آگ آگ ہی رہی ہر شے کو جلاتی رہی حتی کہ جن رسیوں میں ابراہیم (علیہ السلام) جکڑے ہوئے تھے وہ بھی اسی آگ نے جلا دیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ کہ صرف کوئی دکھ نہ پہنچا بلکہ انھوں نے فرمایا کہ جتنے روز میں نے وہاں گزارے وہ زندگی بھر یاد رہے کہ پھر ایسی راحت کہیں نہ ملی (مظہری) اللہ جل جلالہ چاہتے ہیں اشیاء کی تاثیر بدل جاتی ہے جیسے پانی میں ہر شے کی حیات ہے مگر قوم نوح (علیہ السلام) کے لیے موت بن گیا آل فرعون پانی میں غرق ہوئے مگر ارشاد ہے (آیت) ” اغرقوا فادخلوا نارا “۔ کہ غرق ہو کر آگ میں داخل ہوئے ایسے ہی یہاں جب کفار نے آگ میں پھینکنے کی تیاری کی تو ارض وسما کے فرشتے پکار اٹھے کہ اللہ جل جلالہ ہم کو اجازت دے تو تیرے خلیل کی مدد کو حاضر ہوں ارشاد ہوا ان سے پوچھ لو ، چناچہ ہواؤں ، بادلوں کے فرشتوں نے خود جبرائیل آمین نے حاضر ہو کر مدد کی اجازت چاہی تو فرمایا مجھے کیوں اور کس لیے آگ میں ڈالا جا رہا ہے عرض کیا اللہ جل جلالہ کے لیے تو فرمایا اللہ جل جلالہ خود جانتا ہے اور ہر چیز پہ قادر ہے لہذا تمہارا فکر مند ہونا صحیح نہیں میرے اور میرے محبوب کے درمیان مت آؤ ، چناچہ اللہ جل جلالہ نے اپنی عظمت کا اظہار یوں فرمایا کہ خود آگ کو حکم دیا وہ قادر ہے جیسے فرشتہ اس کی مخلوق ہے آگ بھی مخلوق ہے اور آگ آگ ہی رہی لپکتے شعلے اور دھویں کے اٹھتے بادل ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے خوبصورت اور خوشبوؤں سے بھری عطر بیز ہوئیں ثابت ہوئے ، اور جب آگ بھڑک بھڑک کر ٹھنڈی ہوئی تو آپ باہر تشریف لے آئے ۔ ارشاد ہوتا ہے انھوں نے اپنی طرف سے تو بہت بڑی تجویز پہ عمل کیا مگر قدرت باری نے انہیں ناکامی کا منہ دکھایا اور سخت نقصان میں رہے کہ اتنی عظیم ہستی اور اللہ جل جلالہ کے رسول سے مستفید نہ ہو سکے ۔ (جھگڑا محرومی کا سبب بنتا ہے) اگر وہ ان کے دلائل پر غور وفکر کرتے تو مستفید ہوتے مگر جھگڑا کرکے محرومی حاصل کی ، اہل اللہ سے جھگڑا جو نقصان سب سے کم دیتا ہے وہ ان کی برکات سے محرومی ہے اور نبی کی برکات ہی ایمان کہلاتی ہیں اولیاء اللہ سے جھگڑا بھی اگرچہ کفر تو نہیں مگر عموما بندے کو ادھر ہی کھینچ کرلے جاتا ہے اور ایسے لوگ مرتے گمراہ ہو کر ہی ہیں ، ” اعاذنا اللہ منھا “۔ ادھر کفار ناکام بھی ہوئے اور نامراد بھی ادھر ابراہیم (علیہ السلام) کو لوط (علیہ السلام) کو جو ان کا ساتھ دے رہے تھے ، اس جگہ سے نجات دے کر اور نمرود کی سلطنت یعنی ملک عراق سے ملک شام پہنچا دیا اور وہ ہجرت کرکے ایسے ملک میں تشریف لے گئے جو برکات کا مخزن ہے کہ بیشتر انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی وہاں پیدا ہوئے ۔ روحانی برکات کا مزکز بنی اور چشمے ، نہریں اور پھل وغیرہ بکثرت ہو کر دنیا کی نعمتوں کا مرکز بھی ہے اور ہم نے انہیں اسحاق (علیہ السلام) جیسا بیٹا اور یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا دیا جو سب نبی تھے یعنی نہ صرف یہ کہ ان کی نسل باقی رکھی بلکہ پشتوں تک نبوت سے سرفراز فرمایا اور لوط (علیہ السلام) کو بھی نبی معبوث فرمایا اور انھیں حکمت اور علم ان کی شان کے مطابق عطا فرمایا اور جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے ان کی خباثت اور بری عادتوں سے انہیں محفوظ فرما کر اپنی رحمت خاص میں داخل فرمایا روح المعانی میں ان کی خبیث عادات میں شراب خوری ، گانا بجانا ، داڑھی منڈانا اور مونچھیں بڑھانا ، کبوتر بازی ، ریشمی لباس اور فال کے ڈھیلے پھینکنا وغیرہ لکھی ہیں اور سب سے خبیث تر ان کی عادت لواطت کی تھی جسے ہم جنس پرستی کہا جاتا ہے اور جو آج کل مغرب کی تہذیب میں قانونی طور پر درست ہے اللہ جل جلالہ انہیں بھی ایسے ہی تباہ کرے جیسے قوم لوط ہوئی تھی ، آمین۔ بیشک لوط (علیہ السلام) بہت نیک یعنی اللہ جل جلالہ کے نبی تھے اور معصوم تھے لہذا انھیں سب پریشانیوں سے بچا لیا گیا اور ساتھ ان کے ماننے والوں کو بھی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 70 رشد ٹھیک سمجھ، عقل سلیم۔ تماثیل (تمثال) جانداروں کی شکل، موتریاں۔ عاکفون جم کر بیٹھنے والے۔ وجدنا ہم نے پایا۔ لاعبین ہنسی دل لگی کرنے والے۔ تاللہ اللہ کی قسم۔ لاکیدن میں ضرور تدبیر کروں گا۔ اصنام (صنم) بت۔ مدبرین پلٹنے والے۔ پیٹھ پھیرنے والے۔ جذاذ (جذیذ) ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔ سمعنا ہم نے سنا۔ اعین الناس لوگوں کی آنکھوں کے سامنے۔ ینطقون وہ بات چیت کرتے ہیں۔ نکسوا اوندھے کردیئے گئے۔ حرقوا جلا ڈال۔ کونی ہوجا۔ برداو سلاماً سلامتی کے ساتھ ٹھنڈا ہوجانا۔ کید فریب، دھوکہ، تدبیر۔ اخسرین زیادہ نقصان اٹھانے والے۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 70 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات بڑی سورتوں، بقرہ، انعام، توبہ، ہود، ابراہیم، الحجر اور النحل کے بعد سورة الانبیا میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا ذکر خیر فرمایا ہے۔ عرب کے تقریباً تمام قبائل حضرت ابراہیم کی طرف نسبت کرنے پر ایک خاص فخر محسوس کرتے تھے لیکن یہ نسبت عمل کرنے کے لئے نہیں بلکہ حسب نسب پر فخر کرنے کی غرض سے ہوتی تھی کیونکہ جب ہم ان کو عملی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ان میں حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد میں آنے والے نبیوں اور رسولوں کی بہت سی اچھی باتیں نہ تھیں بلکہ کفر و شرک اور اپنے بچوں کو قتل کرنے اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) تو بت شکن تھے مگر ان پر فخر کرنے والوں نے بیت اللہ شریف میں سینکڑوں بت رکھے ہوئے تھے۔ اللہ کو چھوڑ کر وہ ان سے اپنی مرادیں مانگنے پر فخر کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ بات ہمارے سفارشی ہیں۔ اگر ہم نے ان کی عبادت و بندگی نہ کی تو ہماری دعا کو قبول نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا واقعہ سنا کر ان بت پرستوں کو یاد دلایا ہے کہ وہ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ذرا بھی مناسبت ہے۔ کیونکہ ان کے اعمال ان کی اس خوش فہمی کی تردید کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ وہ لکڑی، پتھر اور مٹی کے بت جن کے سامنے تم جھکتے ہو اور ان کی عبادت و بندگی کرتے ہو وہ اس قدر بےحقیقت ہیں کہ خود اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں اگر ایک مکھی ان کی ناک پر بیٹھ جائے یا (حضرت ابراہیم کی طرح) ان بتوں کو کوئی شخص توڑ دے تو وہ ایک مکھی کو اپنے اوپر سے نہیں اڑا سکتے ہیں اور نہ بچاؤ کرسکتے ہیں فرمایا کہ یہ بت جتنے بےبس اور بےاختیار ہیں وہ دنیا بھر کے لوگوں کے نفع نقصان اور سکھ چین کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ حضرت ابراہیم کے واقعہ میں اسی بات کو یاد دلایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے ایک ایسے کافر گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاں دن رات ان کے والد آذر پتھروں ، لکڑیوں اور مٹی کے بت بناتے اور ان من گھڑت صورتوں، شکلوں کو اپنا معبود اور مشکل کشا مانتے تھے۔ گھر سے باہر کا ماحول اس سے زیادہ گھناؤنا اور مشرکانہ تھا جہاں ہر شخص چاند، سورج، ستاروں، درختوں اور پانی کو اپنا معبود بنائے ہوئے تھا اور ان کے سامنے ” ہاتھ جوڑے “ بیٹھا رہتا اور مرادیں مانگتا رہتا تھا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کو بھی یہی بتایا گیا تھا کہ یہ سب چیزیں تمہارے معبود ہیں مگر حضرت ابراہیم یہ سوچتے تھے کہ چاند، سورج، ستارے، نکلتے ہیں ڈوب جاتے ہیں، غائب ہوجاتے ہیں ہر وہ ایک کو دیکھتے تو یہ گمان ہوتا تھا کہ شاید یہی چیزیں جن کو میرا مبود بتایا جاتا ہے یہ میرے معبود نہیں ہیں بلکہ جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے وہی میرا رب ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ میں صرف ایک اللہ کا اپنا معبود مانتا ہوں اور بس ، میں کسی کے شرک کرنے میں شریک نہیں ہوں۔ جب انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آذر سے کہا کہ ابا جان آپ اور آپ کی قوم کے لوگ جن تصویروں پر جمے بیٹھے ہیں اور ان سے اپنی مرادیں مانگ رہے ہیں یہ سب کیا ہے ؟ یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت و بندگی کرتے دیکھا ہے لہٰذہم بھی ان کی عبادت کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ ان کے پاس ان کو معبود بنانے کی کوئی دلیل نہیں ہے سب لوگ رسموں اور گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ تو کھلی گمراہی ہے جس میں لوگ مبتلا ہیں حیرت سے کہنے لگے ابراہیم سنجیدگی سے کہہ رہے ہو یا ہسنی دلگی کے طور پر کہہ رہے ہو ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت وقار اور سنجیدگی سے جواب دیا کہ یہ مٹی، پتھر اور لکڑی کے بت تمہارے معود نہیں ہیں۔ بلکہ جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، جس نے تمہیں اور انہیں بنایا ہے وہی سب کا پروردگار ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے دل میں قسم کھا کر کہا کہ تمہارے جانے کے بعد پھر میں تمہارے ان بتوں کی دھجیاں بکھیروں گا اور پوری طرح خبر لوں گا۔ جب اس قوم کے میلے کا دن آیا جس میں وہ بڑی خوشیاں مناتے شہر سے باہر جاتے تھے سب کے سب جانے لگے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی کہا گیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ اس میلے ٹھیلے میں چلیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آسامان کے ستاروں کی طرف دیکھا اور پھر کہا کہ میں ” سقیم “ ہوں سقیم کے معنی بیمار ہونے کے بھی ہے اور غمگین اور رنجیدہ ہونے کے بھی ہے۔ ان سب لوگوں کے میلے میں جانے کے بعد حضرات ابراہیم السلام نے ایک کلہاڑا لیا اور اس سے ان تمام چھوٹے بڑے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور جوان میں سب سے بڑا بت تھا اور کلہاڑا اس کے گلے میں لٹکا دیا۔ جب پوری قوم میلے سے لوٹی اور اپنے بتوں کا یہ حال دیکھا تو پوری شہر میں کہرام مچ گیا ۔ ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ ہمارے بتوں کے ساتھ ایسا معاملہ کس نے کیا ہے ؟ کسی نے کہا کہ ہماری قوم میں تو صرف آذر کا بیٹا ابراہیم ہی ہے جو ہمارے بتوں کو برا کہتا ہے اور وہ میلے میں بھی نہیں کی گیا تھا۔ پوری قوم جمع تھیی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طلب کرکے پوچھا گیا کہ اے ابراہیم کیا تم نے یہ کیا ہے ؟ تم نے ہمارے بتوں کی یہ درگت بنائی ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اصل حقیقت پر بات کرنے سے پہلے ان کی ناسمجھی اور بےعقلی پر بھرپور طنز کیا، وہ بڑا بت جس کے گلے میں وہ کلہاڑا لٹکا ہوا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ان کے بڑے نے کیا ہوگا۔ اگر یہ بت تم سے بات کرسکتا ہے تو اس سے پوچھ لو۔ ان بےعقلوں پر یہ اتنا بڑا حملہ تھا کہ ان کی زبانیں بند ہو کر رہ گئیں۔ دل میں سوچنے لگے کہ یہ پتھر کے بےجان بت کیسے بتا سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے جھکے ہوئے سروں کو دیکھا تو فرمایا تم ایسے بتوں کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو جو نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچانے کی طاقت و قوت رکھتے ہیں۔ کیا تم لوگ اتنی سی بات بھی نہیں مجھ سکتے۔ ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے گویا ان سے یہ فرمایا کہ جب تمہارے یہ معبود اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے اپنے نفع نقصان کے مالک نہیں وہ تمہارے نفع نقصان کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں۔ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ وہ تمام لوگ اپنے بتوں کی درگت اور پانی توہین کو برداشت نہ کرسکے۔ کہنے لگے کہ لوگو ! اس کو مار ڈالو ! اس کو مار ڈالو، جلا ڈالو، اپنے معبودوں کی مدد کرو، تم جو کچھ کرسکتے ہو وہ کرو، آپس میں مشورہ کر کے طے کیا گیا کہ اتنے بڑے جرم کی سزا تو یہی ہو سکتی ہے کہ ابراہیم کو جلا کر خاک کردیا جائے جب قوم نے فیصلہ کرلیا تو ہر شخص اس کو کار ثواب سمجھ کر لکڑیاں جمع کرنے کے لئے بھاگ دوڑ میں لگ گیا ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کافی دنوں تک لکڑیاں جمع کی گئیں۔ پھر ان کو دھونکا دیا گیا۔ جب آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے تب رسیوں سے ہاتھ پیر باندھ کر کسی ذریعہ سے حضرت ابراہیم کو اچھا ل کر آگ میں پھینکا گیا۔ ادھر تمام مشرکین نے اپنی تدبیریں کر کے حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا۔ ادھر اللہ نے آگ سے فرمایا اے آگ تو ابراہیم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا۔ چناچہ وہ آگ بہترین باغ بن گئی۔ کفار اور مشرکین یہ سمجھ رہے تھے کہ اس آگ سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اس آگ کی لپیٹیں تانی تیز اور اونچی تھیں کہ اگر اس کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی گذر جاتا تو وہ جل بھن کر کباب ہوجاتا، وہ اپنی جگہ مطمئن تھے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم کو آگ میں بھسم کردیا لیکن جب آگ کو سلامتی کے ساتھ ٹھنڈا ہونے کا حکم الٰہی پہنچا تو حضرت ابراہیم اس آگ میں سات دن تک رہے اور فرماتے ہیں کہ ان سات دنوں میں مجھے جتنا سکون اور اطمینان نصیب ہوا پوری زندگی ایسا سکون نہیں ملا۔ بیشک جس کی حفاظت اللہ کرتا ہے اس کو سایر دنیا مل کر بھی نقصان ہیں پہنچا سکتی۔ شرط یہ ہے کہ اللہ کے لئے قربانی پیش کرنے کیلئے حضرت ابراہیم کا جیسا جگر اور ایمان ہونا چاہئے ۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا اس طرح اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دشمنوں سے بچا لیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اہلیہ حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کے ساتھ عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرما گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف اپنا پیغام بنایا بلکہ ان کی قربانیوں کے صلے میں ساری دنیا کی امامت و پیشوائی بھی عطا فرمائی صرف اولاد ہی نہیں بلکہ وہ صالح اولاد عطا فرمائی جن سے سینکڑوں نبی اور رسول دنیا میں تشریف لائے اور رشد اور ہدایت کا یہ سلسلہ جاری ہوا۔ فلسطین میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد اور حجاز میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کا سلسلہ قائم ہوا۔ اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم کو اسی لئے ابو الانبیاء کہا اجتا ہے کہ ان کی نسل میں ہزاروں پیغمبر آئے تھے۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتوں کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ 1- بخاری اور مسلم میں یہ روایت موجود ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ان ابراھیم (علیہ السلام) لم یکذب غیر ثلاثہ “ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تین موقعہ کے سوا کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس حدیث کے مطابق وہ تین موقعے یہ تھے (1) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لوگوں نے میلے میں چلنے کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا تھا ” انی سقیم “ یعنی میں بیمار ہوں۔ (2) دوسرا موقع وہ تھا کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا تھا اور بت پرستوں نے پوچھا تھا کہ اے ابراہیم کیا یہ کام تم نے کا ہے ؟ اس پر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ ان کے بڑے نے کیا ہوگا۔ (3) تیسرا موقع وہ ہے جس کو اسرائیلی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ظالم کے ظلم سے بچنے کے لئے اپنی بیوی حضرت سارہ کو اپنی بہن بتایا تھا۔ اس حدیث میں ان تین مواقع کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرما رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس حدیث پر بڑا شور مچایا ہے اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہونے کے باوجود درایت کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ ایسے موقع پر منکرین حدیث کا شور مچانا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ منکرین حدیث کا تو بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ کسی طرح حدیث رسول کو اس قدر غیر معتبر کردیا جائے کہ پھر قرآن کریم کی من مانی تاویلات کر کے ” ماڈرن اسلام “ بنانے میں ہر طرح کی سہولت حاصل ہوجائے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے ہیں ان کو اس طرح حدیث کا بےبے با کانہ انداز سے انکار کرنا یا تنقید کرنا بہت بڑی جسارت ہے جس سے انہیں یا ان کے ماننے والوں کو توبہ کرنی چاہئے کیونکہ ان تینوں موقعوں پر تاویل کی جاسکتی ہے بعض باتیں ایسی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کین گاہ میں جھوٹ محسوس ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ جھوٹ نہیں ہوتیں۔ اس کو عربی میں ” توریہ “ کہتے ہیں توریہ کے معنی ہے ایسا ذومعنی کلام جس سے کہنے والا جو کہہ رہا ہے کچھ ہے اور جو سننے والا ہے وہ اپنے انداز پر بات کو کچھ اور سمجھ رہا ہے ۔ یہ بظاہر جھوٹ لگتا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ان الفاظ کے پیچھے جھوٹ کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا بلکہ جس سے کہا جا رہا ہے اس کے شر سے محفوظ رہنے یا پوری طرح متوجہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ جیسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ بتاؤ اگر میں کہتا ہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو عنقریب تمہارے اوپر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے۔ سب نے کہا ہاں ہم آپ کی ہر بات پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس پہاڑ کے پیھچے کوئی لشکر نہیں ہے بلکہ شیطان کا لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہے اس جگہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی غلط بیانی کی تھی بلکہ آپ ذہنوں کو اپنی بات کے لئے تیار کر رہے تھے تاکہ آپ کی بات پر پورا دھیان دیا جاسکے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھو۔ اس جگہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے ہی کہہ دیتے کہ یہ کام میں نے نہیں کیا تو اس سے وہ پوری طور متوجہ نہ ہوتے۔ جب وہ متوجہ ہوگئے تب آپ نے ان کو نصیحت فرمائی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ بظاہر جھوٹ لگتا ہے لیکن حقیقت میں جھوٹ نہیں ہے۔ یہ ایک استثنا کی شکل ہے جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن اس پر کوئی اصول نہیں بنایا جاسکتا جس طرح کچھ لوگوں نے ” تقیہ “ کا ڈھونک رچایا ہوا ہے کہ اگر کسی سے تقیہ کرلیا جائے یعنی جھوٹ بول دیا جائے تو یہ کوئی گناہ نہیں ہے۔ میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم عل یہ السلام نے جو توریہ فرمایا ہے اس کی تاویل کرنا آسان ہے لیکن تم نے جو تقیہ کا ایک اصول بنا کر جھوٹ کو اسلام بنا دیا ہے اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔ شریعت میں تقیہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ کچھ لوگوں نے اپنی اغراض اور جھوٹ کا سہارا لینے کے لئے گھڑ لیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان کے کمالات علمیہ و عملیہ کو۔ 2۔ یعنی وہ بڑے کامل تھے بالقوة و استعداد قبل عطائے شد یا بالفعل بعد عطائے رشد۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل اور عظیم پیغمبر ہیں۔ جن کا تذکرہ یوں شروع کیا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا اور ہم ابراہیم کو جاننے والے ہیں۔ یہ مسلّمہ حقیقت اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے ماضی، حال اور مستقبل کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے ان کی ابتدا ہی سے خصوصی رہنمائی فرمائی تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا اور ہم انھیں اچھی طرح جاننے والے تھے۔ میری سمجھ میں اس تعارف کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم نے ستارہ پرستوں کو عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے استعارہ اور تمثیل کی زبان استعمال کی تھی۔ جس وجہ سے یہ شبہہ ہوسکتا تھا کہ شاید ابراہیم (علیہ السلام) بھی کچھ عرصہ شرک میں مبتلا رہے ہوں۔ اس لیے ضروری سمجھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا اس طرح تعارف کر وایا جائے تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکین کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اس سے کسی کو شبہ نہ ہوپائے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے دن یہ کہہ کر ستارہ پرستوں کے عقیدہ پر ضرب لگائی کہ دیکھو یہ ستارہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غائب ہوگیا تو فرمایا کہ غائب ہونے والوں کو میں پسند نہیں کرتا۔ دوسرے دن انھوں نے چمکتے ہوئے چاند کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا یہ میرا رب ہوسکتا ہے لیکن جب چاند چھپ گیا تو فرمایا کہ اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں گمراہ ہونے والوں میں سے ہوجاتا۔ تیسرے دن جگمگاتا ہوا سورج دیکھا تو فرمایا کہ یہ میرا سب سے بڑا رب ہوسکتا ہے لیکن جب سورج غروب ہوگیا تو فرمایا کہ اے میری قوم جو تم شرک کرتے ہو میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے اپنے چہرے کو مکمل طور پر اس ذات کے حوالے کیا ہوا ہے جو زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے۔ میں اپنے عقیدہ میں بالکل یکسو ہوں میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہے وہ رشد و ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اس لیے بھی رشد کا لفظ استعمال کیا گیا کیونکہ جس ماحول بالخصوص جس گھر میں انھوں نے تربیت پائی تھی وہ شرک کا مرکز اور ان کا باپ شرکیہ عقیدے کا بہت بڑا ترجمان تھا۔ لیکن اس کے باوجود ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے بچے رہے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی یَا حُصَیْنُ کَمْ تَعْبُدُ الْیَوْمَ إِلَہًاقَالَ أَبِی سَبْعَۃً سِتًّا فِی الأَرْضِ وَوَاحِدًا فِی السَّمَاءِ قَالَ فَأَیُّہُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِکَ وَرَہْبَتِکَ قَالَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ قَالَ یَا حُصَیْنُ أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُکَ کَلِمَتَیْنِ تَنْفَعَانِکَ قَالَ فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَیْنٌ قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ عَلِّمْنِی الْکَلِمَتَیْنِ اللَّتَیْنِ وَعَدْتَنِی فَقَالَ قُلِ اللَّہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی) [ رواہ الترمذی : باب جامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے باپ کو فرمایا اے حصین تم کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ میرے باپ نے کہا سات کی۔ چھ زمین میں ہیں اور ایک آسمان میں ہے آپ نے فرمایا خوف اور امید کے وقت کس کو پکارتا ہے۔ اس نے کہا جو آسمانوں میں ہے۔ آپ نے فرمایا اے حصین اگر تو اسلام لے آئے تو میں تجھے دو کلمات ایسے سکھلاؤں گا جو تیرے لیے نہایت ہی مفید ہوں گے۔ جب حصین اسلام لے آئے انہوں نے عرض کی اللہ کے محبوب مجھے وہ کلمات سکھلادیں جن کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا پڑھیں : قُلِ اللَّہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی اے اللہ مجھے رشدوہدایت عطا فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما “ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے رشد و ہدایت اور سمجھداری سے سرفراز فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت طیبّہ کی ایک جھلک : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے ابتداء سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (الانبیاء : ٥١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اطمینان قلب کی درخواست کی تھی۔ ( البقرۃ : ٢٦٠) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل اور بردبار تھے۔ (التوبۃ : ١١٤) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت راست باز نبی تھے۔ (مریم : ٤١) ٥۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم، بڑے خیر خواہ اور نرم دل تھے۔ (ہود : ٧٥) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے مومن بندوں میں سے تھے۔ (الصّٰفٰت : ١١١) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) معبودان باطل کے انکاری اور ان سے براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد اتینآ۔۔۔۔۔۔۔۔ علمین (١٥) ” ‘۔ ہم نے ان کو ہوشمندی عطا کی تھی ‘ ان کے حالات سے ہم اچھی طرح واقف تھے اور ان کی وہ صلاحیتیں بھی ہماری نظر میں تھیں جو حاملین رسالت کے لیے ضروری ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

داعی توحید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینا، بت پرستی چھوڑنے کی تلقین فرمانا، ان کے بتوں کو توڑ دینا، اور اس کی وجہ سے آگ میں ڈالا جانا، اور سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آنا سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جس علاقے میں پیدا ہوئے وہ بت پرستوں کا علاقہ تھا۔ خود ان کا باپ بھی بت پرست تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو شروع ہی سے مشرکین کے عقائد اور اعمال سے دور رکھا تھا۔ وہاں کوئی موحد نہیں تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید سکھاتا اور شرک کی گمراہی پر متنبہ کرتا۔ لیکن سب سے بڑا معلم اللہ جل شانہ ہے۔ وہ جسے صحیح راہ بتائے، حق سمجھائے راشد و ہدایت سے نوازے اسے کوئی بھی گمراہ کرنے والا اپنے قول اور عمل سے راہ حق سے نہیں ہٹا سکتا۔ اللہ تعالیٰ شانہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اتنی بڑی بت پرست قوم کے اندر ہدایت پر رکھا اور ان میں اظہار حق اور دعوت حق کی استعداد رکھ دی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو اس سب کا علم تھا۔ اسی کو فرمایا (وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ ) (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہوش سنبھالا تو اپنے گھرانے کو اور اپنی قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا یہ لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے خصوصاً اور اپنے قوم سے عموماً سوال فرمایا کہ یہ مورتیاں جن پر تم دھرنا دیئے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ سوال کا مقصد یہ تھا کہ ان خود تراشیدہ بےجان چیزوں کی عبادت کرنا، اس کی کیا تک ہے ؟ وہ لوگ کوئی معقول جواب نہ دے سکے (اور کوئی بھی مشرک معقول جواب نہیں دے سکتا۔ یہ لوگ ماں باپ کی اندھی تقلید کرتے رہتے ہیں) انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی پر پایا ہے اور یہی کرتے دیکھا ہے کہ ان مورتیوں کی پوجا کرتے تھے۔ انہی کی دیکھا دیکھی ہم بھی بت پرستی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی مضبوطی اور قوت کے ساتھ فرمایا کہ تم اور تمہارے باپ دادے صریح گمراہی میں ہو، وہ لوگ کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس کوئی حق بات لے کر آئے ہو یا یوں ہی دل لگی کے طور پر باتیں کرتے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں حق بات لے کر آیا ہوں۔ تم سے دل لگی نہیں کر رہا ہوں۔ تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے۔ اسی نے تمہیں پیدا فرمایا، جس نے پیدا کیا اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کی عبادت کرنا یہ سراپا گمراہی نہیں ہے تو کیا ہے ؟ میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچی بات ہے اور میں اس کے سچا ہونے کا گواہ ہوں۔ یعنی دلیل سے بات کرتا ہوں اور یاد رکھو کہ تم جن بتوں کی پوجا کرتے ہو اللہ کی قسم میں ان کے لیے کوئی تدبیر کروں گا اور ایسا داؤ استعمال کروں گا کہ ان پر بہت بڑی زد پڑے گی۔ مجھے موقعہ کا انتظار ہے تم کہیں گئے اور میں نے ان کا تیا پانچا کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بتوں کو توڑنا سورة صافات میں بھی مذکور ہے۔ وہاں یوں بیان فرمایا : جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو ؟ کیا جھوٹ موٹ کے معبودوں کو اللہ کے سوا چاہتے ہو ؟ سو رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ سو ابراہیم نے ستاروں کو ایک نگاہ بھر کر دیکھا اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہونے کو ہوں، غرض وہ لوگ ان کو چھوڑ کر چلے گئے تو یہ ان کے بتوں میں جا گھسے اور کہنے لگے کیا تم کھاتے نہیں ہو ؟ تم کو کیا ہوا تم بولتے نہیں ہو ؟ پھر ان پر قوت کے ساتھ جا پڑے اور مارنے لگے۔ سو وہ لوگ ان کے پاس دوڑتے ہوئے آئے، ابراہیم نے فرمایا کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جن کو خود تراشتے ہو حالانکہ تم کو اور تمہاری ان بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے ابراہیم کے لیے ایک آتش خانہ تعمیر کرو پھر ان کو اس دہکتی آگ میں ڈال دو ۔ غرض ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ برائی کرنا چاہی سو ہم نے ان کو نیچا دکھا دیا۔ (سورۂ صافات، ترجمہ آیت ٨٥ تا ٩٨) معالم التنزیل میں مفسر سدی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ اس میں جمع ہوتے تھے پھر واپس آکر اپنے بتوں کو سجدہ کر کے اپنے گھروں کو جاتے تھے۔ جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے بت توڑے۔ یہ ان لوگوں کے میلہ کا دن تھا۔ جب یہ لوگ میلہ جانے کے لیے بستی سے باہر جانے لگے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے کہا کہ اے ابراہیم تم بھی ہمارے ساتھ چل کر ہماری عید میں شریک ہوجاؤ تو مناسب ہوگا۔ ممکن ہے کہ تمہیں ہمارا دین پسندآ جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھوڑی دور ساتھ چلے اور ستاروں پر ایک نظر ڈالی۔ پھر فرمایا کہ میں تو مریض ہونے والا ہوں۔ (چونکہ وہ لوگ ستاروں کو مانتے تھے اس لیے ستاروں میں نظر ڈالنے کو ایک بہانہ بنا لیا) وہ لوگ تو میلہ میں چلے گئے اور وہاں اس خیال سے کھانارکھ دیا کہ واپس آنے تک یہ بت انہیں متبرک کردیں گے پھر اس میں سے ہم کھا لیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کھانا رکھا دیکھا تو بطور استہزاء تمسخر فرمایا (اَلاَتَاْکُلُوْنَ ) (کیا تم کھاتے نہیں) وہ تو بت تھے ان میں نہ روح نہ جان، بولتے کہاں سے، جب جواب نہ ملا تو فرمایا کہ (مَالَکُمْ لاَ تَنْطِقُوْنَ ) (تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ہو) یہ بھی بطور تمسخر ہی تھا۔ اس کے بعد کلہاڑا لے کر چلانا شروع کردیا۔ خوب قوت کے ساتھ چلایا اور سارے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ہاں ان میں جو سب سے بڑا بت تھا اس کو نہیں توڑا اور اس کی گردن میں کلہاڑا لٹکا دیا۔ (لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ) یہ انہوں نے اس امید پر کیا کہ ممکن ہے وہ لوگ اپنے معبودوں کا عاجز ہونا دیکھ لیں تو ابراہیم (علیہ السلام) یعنی ان کے دین کی طرف رجوع کرلیں اور بعض حضرات نے الیہ کی ضمیر بڑے بت کی طرف راجع کی ہے اور آیت شریفہ کا مطلب یہ لیا ہے کہ شاید وہ بڑے بت کی طرف رجوع کریں اور اس سے پوچھیں کہ ہمارے ان معبودوں کو کس نے توڑا، اور ممکن ہے کہ اس کے گلے میں کلہاڑا پڑا ہوا دیکھ کر اس سے یوں کہیں کہ ہو نہ ہو تو نے ہی یہ حرکت کی ہے۔ (معالم التنزیل، ص ٢٤٨، ج ٣) اب قوم کے لوگ آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود کٹے پڑے ہیں۔ ٹکڑے ٹکڑے ہیں۔ دیکھ کر بڑے سٹ پٹائے اور آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ؟ جس نے ایسا کیا ہے وہ تو کوئی ظالم ہی ہوگا۔ پھر ان میں سے بعض یوں بولے کہ ہاں یاد آگیا ایک جوان جسے ابراہیم کہہ کر بلایا جاتا ہے، یہ ان کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے یوں کہا تھا کہ میں تمہارے پیچھے ان کی گت بنا دوں گا۔ اندازہ ہے کہ یہ کام اسی نے کیا ہے۔ کہنے لگے کہ اچھا اسے بلاؤ۔ وہ سب لوگوں کے سامنے آئے۔ اگر لوگوں کے سامنے اقرار کرلے تو گواہ بن جائیں اور اس آدمی کو بھی پہچان لیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا گیا اور ان سے قوم کے لوگوں نے دریافت کیا کہ تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا نام کیوں لگاتے ہو۔ جو ان سب سے بڑا ہے اسی نے یہ سب کار ستانی کی ہے۔ اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں آتا تو انہیں سے پوچھ لو کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ہے ؟ اگر وہ بولتے ہیں تو ان ہی سے دریافت کرنا چاہیے۔ یہ سن کر اول تو وہ لوگ ٹھڑے اور سوچ میں پڑگئے اور پھر آپس میں کہنے لگے کہ تم ہی ظالم ہو یعنی ابراہیم کی بات صحیح ہے۔ ان بتوں کی عبادت کرنا ظلم کی بات ہے۔ بھلا وہ کیسا معبود جو نہ بول سکے نہ بتاسکے۔ پھر شرمندگی کے مارے اپنے سروں کو جھکا لیا۔ لیکن شرک سے پھر بھی توبہ نہ کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں (یہ دعوت کا ایک طریقہ کار ہے کہ مخاطب سے بات کرتے کرتے اسے ایسے موقع پر لے آئیں کہ اس کی زبان سے خود اس کے اپنے مسلک اور اپنے دعویٰ کے خلاف کوئی بات نکل جائے) جب ان لوگوں کے منہ سے بےاختیار یہ بات نکل گئی کہ یہ بولتے نہیں ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فوراً پکڑ لیا اور فرمایا کہ (اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْءًا وَّ لَا یَضُرُّکُمْ ) (کیا تم ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع دے سکے نہ ضرر پہنچا سکے) مزید فرمایا (اُفٍّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) (تف ہے تم پر اور ان چیزوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو) جب وہ لوگ جواب سے عاجز ہوگئے اور کوئی بات نہ بنی تو کہنے لگے کہ اس شخص کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ (یہ بات بھی عجیب ہے کہ عبادت کرنے والے اپنے معبودوں کی مدد کا دم بھر رہے ہیں اور اپنے معبودوں کا انتقام لے رہے ہیں۔ وہ کیسا معبود ہے جو دوسروں کی مدد کا محتاج ہو لیکن مشرکین کی عقلوں پر پتھر پڑے رہتے ہیں۔ ایسی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی) ۔ صاحب معالم التنزیل نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں آگ میں جلانے کا فیصلہ کرلیا (جن میں نمرود بھی تھا) تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک گھر میں بند کردیا اور آگ جلانے کے لیے ایک احاطہ بنایا۔ پھر اس میں ایک مدت تک طرح طرح کی لکڑیاں ڈالتے رہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دشمنی میں کچھ ایسی صورت حال بن گئی کہ جو شخص مریض ہوجاتا یہ نذر مان لیتا تھا کہ میں اچھا ہوجاؤں گا تو ابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کروں گا، عورتیں اپنی محبوب چیزوں کے حصول کے لیے یوں نذر مانتی تھیں کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو آتش ابراہیم میں لکڑیاں ڈالوں گی، لوگ لکڑیاں خرید خرید کر اس میں ڈالتے تھے۔ حد یہ ہے کہ جو کوئی عورت چرخہ کا تتی تھی وہ بھی اس کی آمدنی سے لکڑیاں خرید کر آتش ابراہیم میں ڈال دیتی تھی۔ یہ لوگ ایک ماہ تک لکڑیاں جمع کرتے رہے۔ اس کے بعد ہر جانب آگ لگا دی۔ آگ جلی، خوب شعلے نکلے اور اس جگہ کی گرمی کا یہ حال تھا کہ جانور بھی وہاں سے گزرتا تھا تو اس کی گرمی کی شدت کی وجہ سے مرجاتا تھا۔ ان لوگوں نے برابر ایک ہفتہ تک آگ جلائی (ایک آدمی کو جلانے کے لیے اتنی آگ کی ضرورت تو نہ تھی لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو یہ ڈر تھا کہ اگر ہم نے اس کو آگ میں ڈالا اور نہ جلا تو ہماری ذلت ہوگی، لہٰذا اتنی آگ جلاؤ اور اتنے دن تک جلاؤ کہ اس کی سخت حرارت میں یہ شخص جل ہی جائے اور زندہ با سلامت بچنے کا احتمال نہ رہے) ۔ آگ تو تیار کرلی لیکن اب سوال یہ تھا کہ اس آگ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ڈالیں کیسے ؟ اس کے پاس تو پھٹکنا بھی مشکل ہے۔ چہ جائیکہ اس میں باقاعدہ ڈالنے کے لیے ایک دو منٹ ٹھہریں۔ ابلیس چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دشمنی میں آگے آگے رہتا تھا اور اب بھی اسلام کے دشمنوں کو سبق پڑھاتا رہتا ہے اس لیے اس موقع پر بھی حاضر ہوگیا اور اس نے سمجھایا کہ دیکھو کہ ایک منجنیق بناؤ (یہ ڈھیکلی کی طرح کسی بھاری چیز کو اٹھانے اور پھینکنے کا آلہ تھا۔ آج کل عمارتیں بنانے میں جو کرین استعمال کی جاتی ہے اسے دیکھنے سے منجنیق کی کچھ تقریبی صورت اور اس کا عمل سمجھ میں آسکتا ہے) منجنیق تیار ہوگئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر منجنیق کے ذریعہ آگ میں ڈال دیا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا تو پانیوں پر مقرر فرشتہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ چاہیں تو میں آگ کو بجھا دوں اور ہواؤں پر مقرر فرشتہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ چاہیں تو آگ کو ہواؤں میں اڑا دوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں اور یوں بھی کہا (حَسْبِیَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ) (مجھے اللہ کافی ہے وہ بہترین کار ساز ہے) حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ جب انہیں آگ میں ڈال رہے تھے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا اے ابراہیم کوئی حاجت ہے ؟ جواب میں فرمایا کہ مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا اچھا تو اپنے رب ہی سے سوال کرلو۔ فرمایا میرے رب کو میرا حال خوب معلوم ہے۔ اس کے علم میں ہونا ہی کافی ہے۔ چناچہ انہوں نے تفویض سے کام لیا اور دعا تک نہ کی۔ (ف صلی اللہ علی خلیلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگ کو حکم ہوا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے فرمان کے تابع ہے۔ مخلوقات میں جو صفات ہیں اور جو تاثیرات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا فرمانے سے ہیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا انہیں خطاب ہوتا ہے وہ اسے سمجھتے بھی ہیں گو ہم نہیں سمجھتے۔ آگ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ٹھنڈی ہوجا لہٰذا وہ سرد پڑگئی اور چونکہ برداً کے ساتھ سلاماً بھی فرمایا تھا اس لیے اتنی ٹھنڈی بھی نہ ہوئی کہ ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہلاک ہوجاتے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سات دن آگ میں رہے۔ آگ نے ان پر کچھ اثر نہ کیا۔ ہاں ان کے پاؤں میں جو بیڑیاں تھیں وہ جل گئیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں تھے کہ سایہ ڈالنے والا فرشتہ ان کے پاس پہنچا جو انہیں کی صورت میں تھا۔ وہ انہیں مانوس کرتا رہا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جنت سے ایک کرتہ اور ایک قالین لے کر آئے۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا گیا تھا) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے انہیں کرتا پہنایا اور نیچے قالین بچھایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر وہیں باتیں کرنے لگے۔ نمرود اپنے محل میں سے بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) باغیچے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک شخص بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ آس پاس جو لکڑیاں ہیں انہیں آگ جلا رہی ہے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صحیح سالم ہیں۔ باتوں میں مشغول ہیں۔ نمرود نے کہا کہ اے ابراہیم ! تم اس آگ سے نکل سکتے ہو ؟ فرمایا ہاں نکل سکتا ہوں۔ یہ فرمایا اور اپنی جگہ سے روانہ ہوگئے۔ حتیٰ کہ آگ سے باہر نکل آئے۔ یہ دیکھ کر نمرود نے کہا کہ اے ابراہیم ! تمہارا معبود تو بڑی قدرت والا ہے۔ جس کے حکم کی آگ بھی پابند ہے۔ میں تمہارے معبود کے لیے چار ہزار گائیں نذر کے طور پر ذبح کروں گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جب تک تو اپنے دین پر رہے گا اللہ تعالیٰ تجھ سے کچھ بھی قبول نہ فرمائے گا۔ تو اپنے دین کو چھوڑ دے اور میرا دین اختیار کرلے۔ نمرود نے کہا میں اپنے دین کو اور ملک کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں بطور نذر کے جانور ذبح کر دوں گا۔ اس کے بعد نمرود نے جانور ذبح کردیئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تکلیف پہنچانے سے بھی باز آگیا۔ (معالم التنزیل، ص ٢٥٠، وص ٢٥١، ج ٣) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دشمنوں نے خوب آگ جلائی اور بہت زیادہ جلائی جس کے بارے میں سورة صافات میں فرمایا (قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَاناً فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ ) (کہنے لگے کہ اس کے لیے ایک مکان بناؤ پھر اسے سخت جلنے والی آگ میں ڈال دو ) اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے اولاً آگ جلانے کے لیے مستقل ایک مکان بنایا پھر بہت زیادہ آگ جلائی جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ڈال دیا۔ لفظ الجحیم کے بارے میں قاموس میں لکھا ہے و الجحیم النار الشدیدۃ التاجج و کل نار بعضھا فوق بعض کالحجمۃ ویضم و کل نار عظیمۃ فی مھواۃ والمکان الشدید الحر کالجاھم۔ پوری قوم میں نمرود اور اس کی حکومت میں شخص واحد ہے جسے سب نے مل کر بہت بڑی آگ میں ڈال کر جلانا چاہا مگر اپنے مقصد میں نا کام ہوئے اور ذلیل ہوئے اور انہیں نیچا دیکھنا پڑا۔ اسی کو سورة الانبیاء میں (وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَا ھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ ) سے اور سورة صافات میں (فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَسْفَلِیْنَ ) سے تعبیر فرمایا۔ ہم نے جو کچھ معالم التنزیل سے نقل کیا ہے اس میں بعض چیزیں تو وہی ہیں جو سیاق قرآن کے موافق ہیں۔ ان سے قرآن مجید کے مفہوم کی تشریح ہوتی ہے اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو بظاہر اسرائیلیات سے منقول ہیں، چونکہ ان سے کسی حکم شرعی کا تعلق نہیں ہے اور کسی نص قرآنی کے معارض بھی نہیں ہیں اس لیے ان کو نقل کردیا گیا ہے۔ کتب حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ مذکورہ سے متعلق جو چند روایات ملتی ہیں وہ ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ گرگٹ کی خباثت اور اس کے قتل کرنے میں اجر حضرت ام شریک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرگٹ کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر پھونک رہا تھا۔ (رواہ البخاری، ص ٢٧٤، ج ٢) مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈال دیا تو گرگٹ نے بھی اپنی خباثت کا ہنر دکھایا، وہ بھی وہاں جا کر پھونکنے لگا، جہاں اتنی بڑی آگ جل رہی تھی وہاں اس کے پھونکنے نہ پھونکنے سے کیا ہوسکتا تھا ؟ لیکن اس کی طبعی خباثت نے اس پر آمادہ کیا اور شیطان نے اسے استعمال کرلیا، کیونکہ دشمن سے جتنی بھی دشمنی ہو سکے چوکتا نہیں ہے۔ وہ فریق مقابل کو تکلیف پہنچانے کے لیے جو کچھ کرسکتا ہے اس سے باز نہیں رہتا، چونکہ گرگٹ خبیث چیز ہے زہریلا جانور ہے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مارنے کا حکم فرمایا بلکہ اسے مارنے میں جلدی کرنے کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے گرگٹ کو پہلی ہی ضرب میں مار دیا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دو ضربوں میں مارا اس کے لیے اس سے کم اور جس نے تیسری ضرب میں مارا اس کے لیے اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔ (رواہ مسلم ص ٢٣٦، ج ٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قیامت کے دن سب سے پہلے کپڑے پہنائے جائیں گے : حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم لوگ اس حال میں جمع کیے جاؤ گے کہ پاؤں میں جوتے اور جسموں پر کپڑے نہ ہوں گے اور غیر مختون بھی ہو گے اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے (رواہ البخاری) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ جزوی فضیلت اس وجہ سے دی جائے گی کہ انہیں دشمنوں نے کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا تھا۔ شراح حدیث نے یہ بات لکھی ہے۔ (قال الحافظ فی الفتح ص ٣٩ و یقال ان الحکمۃ فی خصوصیۃ ابراھیم بذالک لکونہ القی فی النار عریانا وقیل لانہ اول من لبس السراویل) ۔ ثَلاَثُ کَذِباتٍ اور ان کی تشریح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قیامت کے دن شفاعت کبریٰ سے عذر فرما دینا حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کوئی جھوٹ نہیں بولا سوائے تین باتوں کے، دو باتیں تو ان میں ایسی تھی جو اللہ کی ذات کے بارے میں تھیں (یعنی ان میں محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود تھی) ان میں سے ایک تو یہ تھی کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جانے سے انکار کرنے کے لیے یوں فرما دیا کہ انی سقیم (میں بیمار ہوں) اور دوسری بات یہ کہ (بتوں کو توڑ کر) فرما دیا (بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ) (بلکہ ان کے بڑے نے ایسا کیا) اور تیسری بات یہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ اپنی بیوی سارہ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے کہ ان کا ایک ظالم بادشاہ پر گزر ہوا۔ اس ظالم بادشاہ کو کسی نے بتادیا کہ یہاں ایک شخص ہے اس کے ساتھ بہت خوبصورت عورت ہے۔ اس ظالم نے انہیں طلب کرنے کا حیلہ اختیار کر کے آدمی بھیجا۔ جو آدمی قاصد بن کر آیا اس نے کہا کہ یہ عورت کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سارہ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اس ظالم بادشاہ سے خطرہ ہے۔ اگر اسے معلوم ہوگیا کہ تو میری بیوی ہے تو تجھے اپنے پاس رکھ لے گا۔ سو اگر تجھے اس کے پاس جانا پڑے اور سوال کرے تو کہہ دینا کہ تم میری بہن ہو (ممکن ہے کہ وہ یہ بات سن کر تجھے چھوڑ دے) اور بہن کہنا کوئی غلط بھی نہیں ہے کیونکہ تو میری دینی بہن ہے۔ اس سر زمین میں میرے اور تیرے علاوہ کوئی مومن نہیں ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو جبراً اور قہراً طلب کیا تو نا چار ہو کر پہلی بار چلی گئیں۔ ادھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نماز شروع کردی۔ جب حضرت سارہ اس ظالم بادشاہ کے پاس پہنچیں تو اس نے ہاتھ ڈالنا چاہا۔ جوں ہی ہاتھ بڑھایا اس کو دورہ پڑگیا اور پاؤں مارنے لگا اور حضرت سارہ سے درخواست کی کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دو میں تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچاؤں گا۔ انہوں نے دعا کردی تو وہ چھوٹ گیا۔ لیکن پھر شرارت سوجھی اور دو بارہ ہاتھ بڑھایا۔ اس مرتبہ پھر اسے دورہ پڑگیا جیسے پہلی بار پڑا تھا یا اس سے سخت تھا۔ پھر کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کر دو ۔ میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا انہوں نے دعا کردی تو وہ چھوٹ گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک دربان کو بلایا اور کہا کہ تو میرے پاس انسان کو نہیں لایا تو میرے پاس شیطان کو لے آیا ہے۔ اس کے بعد اس نے سارہ کو واپس کردیا اور ان کے ساتھ ایک خادمہ بھی کردی جن کا نام ہاجرہ تھا۔ سارہ واپس آئیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے نماز کی حالت میں ہاتھ کے اشارہ سے سوال کیا کیا ماجرا ہوا ؟ سارہ نے بیان کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے مکر کو الٹا اسی پر ڈال دیا اور ایک ہاجرہ نامی عورت خدمت کے لیے دے دی۔ (رواہ البخاری ص ٤٧٤، ج ٢) حدیث بالا میں ثلاَثُ کَذِبَاتٍ (تین جھوٹ) کی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اول تو یہ کہ جب قوم کے لوگوں نے اپنے ساتھ باہر جانے کو کہا تو فرما دیا کہ اِنِّیْ سَقِیْم (بلاشبہ میں بیمار ہوں) پھر جب ان کے بتوں کو توڑ دیا اور انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم کیا تم نے ان کے ساتھ ایسا کیا ہے ؟ تو فرمایا (بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ) (بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے) ان دونوں باتوں کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں باتیں اللہ کے لیے تھیں کیونکہ اپنے کو بیمار بتا کر ان کے ساتھ جانے سے رہ گئے اور پھر اسی پیچھے رہ جانے کو بتوں کو توڑنے کا ذریعہ بنا لیا، اور اس طرح بتوں کی عاجزی ظاہر کر کے معبود حقیقی کی توحید کی دعوت دے دی، تیسری بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی کو یہ سمجھا دیا کہ میں نے ظالم بادشاہ کے قاصد کو بتادیا ہے کہ تم میری بہن ہو تم سے بات ہو تو تم بھی یہی بتانا کہ یہ بات سن کر ظالم تمہیں چھوڑ دے، چونکہ مطلق بہن نسبی بہن کے لیے بولا جاتا ہے اس لیے اسے جھوٹ میں شمار فرمایا۔ اگرچہ انہوں نے دینی بہن مراد لے لی تھی اور یہ بات اخی فی الاسلام کہہ کر انہیں بتا بھی دی تھی۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں نہیں فرمایا کہ یہ اللہ کی راہ میں تھی اور اس کے خلاف بھی نہیں فرمایا کیونکر اس میں تھوڑا سا نفس کا حصہ بھی ہے۔ اول تو یہ واقعہ سفر ہجرت کا ہے اور ہجرت اللہ کے لیے تھی پھر کسی بھی مومن عورت کو کافر سے بچانا بھی اجر وثواب کا کام ہے۔ پھر اپنی مومن بیوی کی حفاظت کرنا جو عفت اور عصمت میں معاون ہے کیونکر ثواب کا کام نہ ہوگا۔ اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ص ٩٢، ج ٦) میں بحوالہ مسند احمد حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو تین باتیں کہیں (جو بظاہر کذب ہے) ان کو انہوں نے اللہ کے دین کی حفاظت ہی کے واسطے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اختیار کیا۔ حضرات علمائے حدیث نے فرمایا ہے کہ تین باتیں جنہیں جھوٹ سے تعبیر فرمایا ان میں بظاہر جھوٹ ہے لیکن چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور تعریض کے یہ باتیں کہی تھیں۔ (جن میں ایسا پہلو بھی نکل سکتا ہے کہ انہیں جھوٹ نہ کہا جائے) اس لیے صریح جھوٹ بھی نہ تھیں۔ مثلاً (اِنِّیْ سَقِیْمٌ) فرمایا اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تمہارے ساتھ جانے کو میرا دل گوارا نہیں کرتا۔ اس نا گواری کو بیماری سے تعبیر فرمایا۔ اگرچہ وہ لوگ جسمانی بیمار سمجھے، اور بعض علماء نے یہ بھی فرمایا کہ لفظ سقیم صفت کا صیغہ ہے۔ اس میں کسی زمانہ پر دلالت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں، اسی طرح جب ان لوگوں نے بتوں کے بارے میں پوچھا تو یہ فرمایا ہی نہیں کہ میں نے توڑے۔ ہاں یوں فرما دیا کہ ان کے بڑے نے توڑے ہیں۔ اگر بڑے سے بڑا بت ہی مراد لیا جائے تو یہ بظاہر کذب ہے۔ لیکن مقابل سے بات کرتے ہوئے اس کے منہ سے اپنے موافق کوئی بات اگلوانے کے لیے کوئی بات کہہ دی جائے جو علی سبیل الفرض و التقدیر ہو تو یہ بھی تعریض کے مشابہ ایک صورت بن جاتی ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ بولتے ہوں تو سمجھ لو کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے۔ اس کو معلق بالشرط کردیا اور اس طرح تعلق بالشرط جائز ہے۔ اس میں کذب نہیں ہے۔ اب رہی بیوی کو بہن کہنے والی بات تو اس کی تاویل اس وقت انہوں نے خود ہی کردی اور دینی بہن مراد لے کر جھوٹ سے بچ گئے۔ اس سب کے باو جود جو تینوں باتوں کو کذب فرمایا یہ ان کے بلند مرتبہ کے اعتبار سے ہے۔ بڑوں کی بڑی باتیں ہیں۔ گناہ تو ان باتوں میں ہے ہی نہیں۔ کیونکہ یہ سب چیزیں بطور تاویل اور تعریض کی تھیں اور تھیں بھی حق پر جمنے کے لیے اور حق کے پھیلانے کے لیے لیکن پھر بھی انہوں نے جو کچھ فرمایا اسے کذب میں شمار کرلیا گیا۔ (صحیح بخاری، ص ٧٤، ج ٢) میں یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن جب سارے انسانوں کو شفاعت کی ضرورت ہوگی تو حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے۔ وہ انکار کردیں گے اور فرمائیں گے کہ ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ۔ جب ان کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے کہ میں شفاعت کرنے کے مقام پر نہیں ہوں۔ اس موقع پر وہ اپنے ان کذبات کو یاد کرلیں گے جو ان سے دنیا میں سرزد ہوئے تھے۔ یہ انکار شفاعت بھی اسی لیے ہوگا کہ ان سے جو مذکورہ تینوں باتیں صادر ہوئی تھیں ان کی وجہ سے اپنے کو لائق شفاعت نہیں سمجھیں گے۔ ع جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے قال الحافظ فی الفتح (ثنتین منھن فی ذات اللّٰہ) خصھما بذالک لان قصۃ سارۃ و ان کانت ایضا فی ذات اللّٰہ لکن تضمنت حظا لنفسہ و ندلہ بخلاف اثنین الاخیرتین فانھما فی ذات اللّٰہ محض و قد وقع فی روایۃ المذکورۃ ان ابراھیم لم یکذب قط الاثلث کذبت و ذلک فی ذات اللّٰہ و فی حدیث ابن عباس عند احمد وللّٰہ ان جادل بھن لاعن دین اللّٰہ۔ وقال ایضا و اما اطلاقہ الکذب علی الامور الثلاثۃ لکونہ قال قولا یعتقدہ السامع کذبا لکنہ اذا حقق لم یکن کذبا لانہ من باب المعاریض المحتملۃ لا مرین لیس بکذب محض۔ ملا علی قاری (رح) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں حدیث شفاعت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں و الحق انھا معاریض و لکن لما کانت صورتھا صورۃ الکذب سماھا اکاذیب و استنقص من نفسہ لھا فان من کان اعرف باللّٰہ و اقرب منہ منزلۃ کان اعظم خطرا او اشد خشیۃ و علی ھذا القیاس سائر ما اضیف الی الانبیاء علیھم السلام من الخطایا، قال ابن الملک الکامل قد یواخذ بما ھو عبادہ فی حق غیرہ کما قیل حسنات الابرار سیئات المقربین۔ یعنی حق بات یہ ہے کہ ان تینوں میں تعریض ہے (صریح جھوٹ نہیں ہے) لیکن چونکہ بظاہر جھوٹ کی صورت میں تھیں اس لیے جھوٹ سے تعبیر کردیا اور اپنی ذات کو مرتبہ شفاعت سے کمتر سمجھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جس قدر بھی معرفت حاصل ہوگی اور جتنا زیادہ قرب حاصل ہوگا اسی قدر وہ اپنے بارے میں زیادہ خطرہ محسوس کرے گا اور اس میں بہت زیادہ خوف و خشیت کا ظہور ہوگا۔ دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف جو خطایا منسوب ہیں ان کو بھی اسی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ ابن الملک نے فرمایا ہے کہ جو شخص کامل ہو بعض مرتبہ اس بات پر اس کا مواخذہ ہوجاتا ہے جو غیر کے حق میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ فائدہ : یہاں جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ (رض) کو بلوایا تھا اگر اسے قبضہ کرنا اور چھیننا ہی تھا تو کسی کی بیوی یا بہن ہونے سے کیا فرق پڑتا تھا۔ ظالم جب ظلم پر تل جائے تو اسے مقصد بر آری کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے جو یہ فرمایا کہ تم یوں کہہ دینا کہ میں ان کی بہن ہوں اس بات کو کہنے اور سمجھانے کی کیا ضرورت تھی ؟ پھر جب انہوں نے بتادیا کہ کہ میں اس کی بہن ہوں تو اس نے پھر بھی ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی (یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہاتھ پاؤں کے دورے میں مبتلا کردیا اور حضرت سارہ کی حفاظت فرمائی) اس سوال کو حل کرنے کے لیے مفسرین اور شراح حدیث نے کئی باتیں لکھی ہیں جن میں ایک یہ بات ہے کہ وہ ظالم بادشاہ گو ظالم تھا لیکن اپنے طور پر جس کسی مذہب کا پابند تھا اس میں کسی کی بہن کو اس کے بھائی کی موجودگی میں چھیننے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز میں لگے ہوئے تھے۔ ادھر حضرت سارہ نے بھی وہاں پہنچ کر نماز شروع کردی۔ نیز حضرت سارہ نے وہاں یہ دعا بھی کی اللھم ان کنت تعلم انی امنت بک و برسولک و احصنت فرجی الاعلی زوجی فلا تسلط علی الکافر (اے اللہ آپ کے علم میں ہے کہ میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان لائی اور میں نے اپنی شرم کی چیز کو اپنے شوہر کے علاوہ ہر کسی سے محفوظ رکھا۔ لہٰذا آپ مجھ پر کافر کو مسلط نہ فرمائیے) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور کافر کے تسلط سے نجات دی۔ (فتح الباری) اس ظالم بادشاہ نے شیطانی حرکت کا خود ارادہ کیا لیکن اپنے بعض دربانوں سے کہا کہ تم میرے پاس شیطان کو لے آئے ہو۔ ہاتھ پاؤں کا دورہ پڑا تو اسے شیطان کی طرف منسوب کردیا اور پاکباز عورت کو شیطان بنایا۔ زبانی طور پر اس نے حضرت سارہ کو شیطان بنا دیا لیکن ان کی نماز اور دعا سے متاثر ہو کر اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ یہ کوئی بڑی حیثیت والی خاتون ہے۔ اس کی خدمت کے لیے ایک خادمہ دینی چاہیے۔ چناچہ اس نے ایک ہاجرہ نامی عورت ان کی خدمت کے لیے دے دی۔ وہ واپس ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئیں اور ہاجرہ نامی عورت کو بھی اپنے ساتھ لے آئیں۔ یہ ہاجرہ نامی عورت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ بنیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے فلسطین سے آئے اور اپنے چھوٹے بچے اسماعیل اور ان کی والدہ کو مکہ مکرمہ کی چٹیل زمین اور سنسان میدان میں چھوڑ دیا۔ انہیں دو ماں بیٹوں سے مکہ مکرمہ کی آبادی شروع ہوئی اور انہیں دونوں ماں بیٹوں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کی ایک شاخ چلی جنہیں بنو اسماعیل اور عرب کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے خوب ہی نوازا۔ انہیں مشرکین کے درمیان ہوتے ہوئے داعی توحید بنایا۔ دشمنوں نے آگ میں ڈال دیا تو اس سے صحیح سالم نکال دیا اور آتش نمرود کو گلزار ابراہیم بنا دیا اور انہیں اپنا دوست بنا لیا۔ کما فی سورة النساء (وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلاً ) (اور ان سے (بشمولیت اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ شریف تعبیر کرایا پھر ان سے حج کی ندا دلوائی۔ اور انہیں ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا باپ بنایا۔ خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انہیں کی ذریت میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) جب کعبہ شریف بنا رہے تھے اس وقت یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ تعالیٰ مکہ کے رہنے والوں میں سے ایک رسول بھیج دینا۔ آپ کی یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ ان دونوں کی نسل سے سیدنا محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیدا فرمایا۔ آپ کی نبوت کا ظہور مکہ مکرمہ میں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سارے عالم کے لیے تا قیام قیامت ہادی اور داعی بنا دیا اور آپ پر نبوت ختم فرما دی اور آپ کو ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم دیا۔ ملت ابراہیم کی بہت سی چیزیں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا جزو ہیں اور توحید تو تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا سب سے پہلا اور مرکزی نقطہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ دلیل عقلی تفصیلی دوم از حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ ابراہیم علیہالسلام کو راہ ہدایت ہم ہی نے دکھائی۔ ” وَکُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَ “ اور ہم ہی اس کو جانتے تھے۔ یعنی دیکھو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو جد الانبیاء ہیں وہ بھی اپنے باپ اور اپنی قوم کو غیر اللہ کی پکار اور عبادت سے روکتے رہے۔ ” مِنْ قَبْلُ “ یہ ظرف مبنی علی الضم ہے اس کا مضاف الیہ محذوف منوی ہے ای من قبل النبوۃ (بحر ج 6 ص 320) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت عطا کرنے سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی شان کے مناسب ان کی صحیح ہدایت اور نیک راہ عطا فرمائی تھی اور ہم ان کی اہلیت اور صلاحیت کو جاننے والے تھے۔ یعنی موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کے زمانے سے پہلے ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی نیک راہ یعنی نبوت عطا کرچکے ہیں اور ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے نبوت و رسالت کی صلاحیت اور اہلیت کو خوب جانتے تھے اور ہم اس کی صلاحیت سے خوب واقف تھے۔