Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 52

سورة الأنبياء

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیۡلُ الَّتِیۡۤ اَنۡتُمۡ لَہَا عٰکِفُوۡنَ ﴿۵۲﴾

When he said to his father and his people, "What are these statues to which you are devoted?"

جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When he said to his father and his people: "What are these images, to which you are devoted!" This is the guidance which he had been given during his youth: his denunciation of his people's worship of idols instead of Allah. Ibrahim said: .. مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ "What are these images, to which you are devoted!" meaning, which you worship with such devotion. قَالُوا وَجَدْنَا ابَاءنَا لَهَا عَابِدِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عاکف۔ عکوف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تماثیلیں (مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا فرمائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] یہ حضرت ابراہیم کی ہوش مندی کا تقاضا تھا کہ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کو بےجان اور ساکت و صامت بتوں کے سامنے سجدہ ریز دیکھا تو فوراً دل میں سوچنے لگے کہ ان بےجان پتھروں کے سامنے، جو نہ حرکت کرسکتے ہیں، نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ سجدہ کرنے کا فائدہ کیا ہے ؟ ایسی چیزوں کو سجدہ کرنا تو سراسر انسانیت کی توہین اور تذلیل ہے۔ قوم کی اس انسانیت سوز حرکت پر وہ مدتوں دل ہی دل میں کڑہتے اور نفرت کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنے طبیعت کے تقاضا سے مجبور ہو کر اپنے باپ اور اپنی قوم سے یہ سوال کر ہی دیا کہ مجھے بھی تو کچھ بتلاؤ کہ جن بےجان مورتیوں کے سامنے تم بیٹھ کر ان کی عبادت میں مشغول رہتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ ۔۔ : ” التَّـمَاثِيْلُ “ ” تِمْثَالٌ“ کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کی مثل بنائی ہوئی صورت، مجسمہ۔ بت پرست عموماً انسانوں کے مجسموں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ سمجھ بوجھ جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کا حق ہونا اور بتوں اور دوسرے تمام معبودوں کا باطل ہونا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بت پرست بھی تھی، ستارے، چاند اور سورج کی پرستش بھی کرتی تھی اور بادشاہ کو بھی رب مانتی تھی۔ ستارے، چاند اور سورج کے معبود نہ ہونے کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی نہایت مدلل، مؤثر اور لاجواب دعوت سورة انعام (٧٦ تا ٨٣) میں ملاحظہ فرمائیں۔ بادشاہ کے رب نہ ہونے کی دعوت سورة بقرہ (٢٥٨) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں بتوں کے بےاختیار ہونے کی تبلیغ اور اس کا عملی اظہار فرمایا ہے۔ مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِيْلُ ۔۔ : ” هٰذِهِ “ کا اشارہ بتوں کی تحقیر کے لیے ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے نادان بنتے ہوئے اپنے باپ اور اپنی قوم سے بتوں کا تذکرہ نہایت تحقیر کے ساتھ کرتے ہوئے پوچھا : ” یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو، کیا چیز ہیں ؟ “ گویا ابراہیم (علیہ السلام) ان کو کوئی چیز ماننے ہی پر تیار نہ تھے، کیونکہ وہ نہ سنتے تھے اور نہ کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے تھے۔ دیکھیے سورة مریم (٤٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّـمَاثِيْلُ الَّتِيْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰكِفُوْنَ۝ ٥٢ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] تِّمْثَالُ : الشیء المصوّر، وتَمَثَّلَ كذا : تصوّر . قال تعالی: فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا[ مریم/ 17] التمثال : تصویر۔ کسی چیز کو مجسمہ تمثل کذا کسی کی شکل بن جانا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا[ مریم/ 17] تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی ( کی شکل ) بن گیا ۔ عكف العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] ، أي : محبوسا ممنوعا . ( ع ک ف ) العکوف کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) جب کہ انہوں نے اپنے باپ آذر اور نمرود بن کنعان اور اس کے لوگوں سے کہا یہ کیا بیہود مورتیاں ہیں جن کی تم لوگ عبادت کر رہے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ ) ” ذرا ان پتھر کی خود تراشیدہ مورتیوں کی اصلیت اور حقیقت تو بیان کرو جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو اور جن کے گیان دھیان میں لگے رہتے ہو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. Before proceeding further, it should be kept in mind that the incident from the history of Prophet Abraham (peace be upon him) has been cited here to refute the erroneous creeds of the Quraish. This was meant to hit them hard for they were the descendants of Prophet Abraham (peace be upon him) and were proud of their relationship with him. It was he who had built the Kabah which had become the center of the entire Arabia and they, being its keepers, were its most important clan. Therefore, they could not remain indifferent to this answer.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :54 جس واقعہ کا آگے ذکر کیا جا رہا ہے اس کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ قریش کے لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے ، کعبہ ان ہی کا تعمیر کردہ تھا ، سارے عرب میں کعبے کی مرکزیت ان ہی کی نسبت کے سبب سے تھی اور قریش کا سارا بھرم اسی لیے بندھا ہوا تھا کہ یہ اولاد ابراہیم ہیں اور کعبہ ابراہیمی کے مجاور ہیں ۔ آج اس زمانے اور عرب سے دور دراز کے ماحول میں تو حضرت ابراہیم کا یہ قصہ صرف ایک سبق آموز تاریخی واقعہ ہی نظر آتا ہے ، مگر جس زمانے اور ماحول میں اول اول یہ بیان کیا گیا تھا ، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ قریش کے مذہب اور ان کی برہمنیت پر یہ ایک ایسی کاری ضرب تھی جو ٹھیک اس کی جڑ پر جا کر لگتی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:52) التماثیل۔ تمثال کی جمع۔ صورتیں۔ مورتیں۔ تصویریں۔ مجسمے۔ بت۔ عکفون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ عکف یعکف (ضرب وعکف یعکف (نصر) عکف۔ ترتیب دینا ۔ جب اس کا استعمال عن کے صلہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہوگا کسی کو کسی چیز سے منع رکھنا۔ روکے رکھنا۔ روکنا۔ اس معنی میں ہے والھدی معکوفا (48:25) اور قربانی کے جانور جو روک دئیے گئے ہیں۔ کہتے ہیں عکفہ عن الامر۔ اس نے اسے (اس ) امر سے روک دیا ہے۔ اور اگر علی کے صلہ کے ساتھ آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی طرف اس طرح لگ کر بیٹھ جانا کہ پھر اس کی طرف سے منہ ہی نہ موڑے۔ جیسے یعکفون علی اصنام لہم (7:138) اپنے بتوں کی عبادت کے لئے جم کر بیٹھے رہتے تھے۔ انہی معنوں میں صلہ لام کے ساتھ بھی مستعمل ہے مثلاً فنظل لھا عکفین (26:71) اور ہم انہی (کی پوجا) پر جمے رہتے ہیں۔ یا آیہ ہذا انتم لھا عکفون۔ جن (کی پوجا) پر تم جمے بیٹھے ہو۔ عکفون گرد جم کر بیٹھنے والے۔ مجاور۔ شرع کی اصطلاع میں عبادت کی نیت سے مسجد میں جم کر بیٹھنا عکوف فی المساجد کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے ولا تباشروہن وانتم عکفون فی المساجد (2:187) اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم مسجدوں میں عبادت کے لئے رکے بیٹھے ہو۔ اس کو اعتکاف (افتعال) کہتے ہیں اور وہاں بیٹھنے والوں کو معتکف کہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی جن کی پوجا پاٹ میں تم لگے رہتے ہو یہ کس کام کی ہیں اور کیا ہیں ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی یہ ہرگز قابل عبادت نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ نبوت کا پہلا اور مرکزی پیغام ” توحید “ ہے جس بنا پر انہوں نے اپنے باپ اور قوم کے سامنے ” اللہ “ کی توحید پیش فرمائی اور بتوں کی بےثباتی ثابت کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا لہٰذا سب سے پہلے باپ کے سامنے عقیدہ توحید پیش کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز ان کا گھر بنا ہوا ہے۔ لہٰذا حق کا تقاضا تھا کہ پیغامِ حق کی ابتداء اپنے گھر سے کی جاتی۔ چناچہ مؤثر دلائل اور پوری دل سوزی کے ساتھ توحید کی دعوت پہلے باپ کی خدمت میں پیش فرمائی اور اس کے ساتھ ہی قوم کو سمجھایا کہ ان مورتیوں اور مجسموں کے سامنے کیوں جھکتے اور اعتکاف کرتے ہو ؟ قوم کا پہلا جواب یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تم اور تمہارے آباؤ اجداد راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو۔ قوم کا دوسرا جواب یہ تھا کہ ابراہیم تم اپنی دعوت میں سنجیدہ ہو یا شغل کے طور پر ایسی باتیں کر رہیہو۔ گویا کہ قوم سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کے خداؤں اور آباء و اجداد کے طریقۂ عبادت کی کوئی شخص مخالفت کرسکتا ہے۔ اسی لیے پوچھتے ہیں کہ ابراہیم اپنی بات میں سنجیدہ ہو یا شغل کے طور پر یہ بات کہہ رہے ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) پوری سنجیدگی اور جلالت کے ساتھ فرماتے ہیں کیونکہ نہیں۔ جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ سچ اور حق ہے۔ میرا اور تمہارا وہ رب ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا میں اسی عبادت کی دعوت دیتا ہوں۔ نامعلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کس کس انداز اور کتنی مدت تک اپنے باپ اور قوم کو سمجھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک سمجھانے کے باوجود جب قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی تو آپ نے سوچا کہ اگر دلائل انکی سمجھ میں نہیں آرہے اور یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے اور ان مورتیوں پر مرے جا رہے ہیں تو اب ان کے معبودوں کی عملی طور پر خبر لینا چاہیے۔ تب ڈنکے کی چوٹ کہا اللہ کی قسم ! اب یہ مجسمے میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ (وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ) [ الأنبیاء : ٥٧] ” اور اللہ کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے بتوں کی ضرور خبر لوں گا۔ “ (فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوم فَقَالَ إِنِّی سَقِیمٌ) [ الصّٰفٰت ٨٨، ٨٩]” تاروں کی طرف دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ذہین تھے : جتنے بھی نبی اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے وہ اپنے دور کے سب سے ذہین اور فطین انسان تھے۔ دیکھیے ابراہیم (علیہ السلام) کتنے زیرک اور فطین ہیں کہ سب بتوں کو توڑا مگر بڑے کو چھوڑ دیا۔ تاکہ قوم واپس آکر کے دیکھے گی تو اس حادثے پر غور وفکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی طرف رجوع کرے گی۔ اگر اَلِیْہِ کی ضمیر (اشارہ) بڑے بت کی طرف ہو تو شاید یہ سوچیں کہ بڑے میاں نے کسی بات پر ناراض ہو کر چھوٹوں کا تیاپانچہ کردیا ہے۔ یا کم ازکم ان کے دلوں میں یہ خیال ضرور آئے گا کہ واقعی ابراہیم سچ کہتا تھا کہ یہ سب بےکار ہیں بتوں نے نہ اپنے آپ کو بچایا اور نہ ہی بڑے میاں ابراہیم کا ہاتھ پکڑ سکے۔ اگر ” اَلِیْہِ “ کا اشارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف ہے تو معنی بالکل صاف ہے کہ جب میرے پاس آئیں گے مجھے مزید بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔ میں کہونگا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے عقیدے کے مطابق بڑے بت سے پوچھو۔ اگر یہ بولتے ہیں تو انکا بڑا تو موجود ہے۔ ” کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کردیا ؟ وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے ہم نے ان کے خلاف ایک ابراہیم نامی نوجوان کو چیلنج کرتے سنا ہے۔ “ فتح مکہ کے موقعہ پر بتوں کو توڑا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَکَّۃَ وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاث ماءَۃٍ وَّسِتُّوْنَ نُصُبًا فَجَعَلَ یَطْعَنُھَا بِعُوْدٍ فِيْ یَدِہٖ وَجَعَلَ یَقُوْلُ (جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ) الآیۃ) [ رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب ھل تکسر الدنان التی فیھا الخمر ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور کعبے کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے گراتے اور فرماتے : (حق آچکا اور باطل بھاگ گیا) ۔ “ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور قوم بتوں کے سامنے مراقبے اور اعتکاف کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو بتوں کے سامنے مراقبے اور اعتکاف کرنے سے روکا۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا جواب یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح پایا ہے۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑنے کی دھمکی دی اور پھر اس پر عمل کر دکھایا۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرپور جوانی میں یہ کام کیا تھا۔ تفسیر بالقرآن دعوت توحید کی تحریک میں جوانوں کا کردار : ١۔ وہ کچھ جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے انکی ہدایت میں اضافہ کردیا۔ (الکہف : ١٣) ٢۔ ہم نے ایک نوجوان کا تذکرہ سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ (الانبیاء : ٦٠) ٣۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص : ١٤) ٤۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم عطا کیا۔ (یوسف : ٢٢) ٥۔ حضرت موسیٰ پر نوجوانوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا کیونکہ لوگ فرعون سے ڈرتے تھے۔ ( یونس : ٨٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اذ قال۔۔۔۔۔۔۔۔ عکفون (٢٥) ” “ ان کی یہ بات ہی ان کے رشد و ہدایت کی دلیل ہے۔ آپ نے ان پتھروں اور لکڑیوں اور دوسرے مواد کے لیے بڑا صحیح لفظ استعمال کیا یعنی مورتیاں ‘ تماثیل۔ ان کو انہوں نے الہٰ نہ کہا اور اس بات پر سخت گرفت کی کہ تم لوگ بڑی چاہت سے ان کی پرستش کرتے ہو ‘ عاکف کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلسل انکے ساتھ جھکے ہوئے رہتے تھے ‘ حالانکہ وہ دوسرے کام بھی کرتے ہوں گے لیکن ان کے دل ان بتوں ہی کے ساتھ تھے۔ اس لیے مصنوعی طور پر گویا وہ ان کے آگے مسلسل جھکے ہوئے تھے۔ اس لیے تعبیر ان الفاظ میں کی گئی کہ تم رات دن ان کے آگے جھکے ہوئے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ اِذْ ، قالوا موخر سے متعلق ہے۔ اور اذکر مقدر ماننے کی ضرورت نہیں۔ التماثیل، تمثال کی جمع ہے۔ تمثال اس مصنوعی چیز کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کے مشابہ بنائی جائے۔ مشرکین نے انبیاء علیہم السلام، اولیاء کرام اور ستاروں کی شکلوں پر بت بنا کر عبادت خانہ میں نصب کر رکھے تھے۔ انہی کی طرف اشارہ کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے سوال کیا کہ یہ مورتیاں کیسی ہیں جن کی عبادت پر تم جمے بیٹھے ہو۔ التمثال موضوع للشی المصنوع مشبھا بخلق من خلق اللہ (قرطبی ج 11 ص 296) ۔ ان القوم کانوا عباد اصنام علی صور مخصوصۃ کصورۃ الانسان او غیرہ الخ (کبیر ج 6 ص 160) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس سوال سے مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ مشرکین کسی شبہ کی وجہ سے ان مورتیوں کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور جب وہ اعتراف کرلیں گے کہ تقلید آباء کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تو انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ تمہارا یہ فعل سراسر گمراہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) ابراہیم (علیہ السلام) کا وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ مورتیاں کیا ہیں جن کی عبادت پر تم جمے بیٹھے ہو یعنی یہ پتھر کی مورتیاں یا کواکب کی تصویریں کیا لغو چیزیں ہیں جن کی خدمت میں تم ہر وقت مشغول اور ان کی جانب ہر وقت متوجہ رہتے ہو اور ان کی تعظیم کو بجا لانے میں لگے رہتے ہو۔ مطلب یہ کہ ان کی عبادت کیا کرتے ہو اور ان کے سامنے دوزانو ہوکر بیٹ تھے ہو۔