Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 53

سورة الأنبياء

قَالُوۡا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا لَہَا عٰبِدِیۡنَ ﴿۵۳﴾

They said, "We found our fathers worshippers of them."

سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "We found our fathers worshipping them." means, they had no other evidence apart from the misguided actions of their forefathers. قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَابَاوُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

جس طرح آج بھی جہالت و خرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات و رسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انھیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آباواجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب و سنت سے اعراض کر کے علماء ومشائخ کے آراء وافکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] اب اگر بتوں کے سامنے عبادت کرنے کا کوئی عملی فائدہ ہوتا یا ان کے پاس کوئی معقول جواب ہوتا تو قوم کے لوگ یقیناً حضرت ابراہیم کو بتلا کر انھیں مطمئن کردیتے۔ لیکن انھیں حضرت ابراہیم کے اس سوال کا اس بات کے سوا کوئی جواب میسر نہ آیا کہ چونکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا ہے، لہذا ہم بھی ان کی اتباع میں یہی کچھ کر رہے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ حضرت ابراہیم کے سوال کا معقول جواب نہیں تھا۔ اور اس مقام پر سوال کی اہمیت یہ ہے کہ قریش مکہ بھی بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ اور جب ان سے یہی سوال کیا جاتا تو ان کا جواب بھی بعینہ یہی کچھ ہوتا تھا۔ مزید برآں وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کے پیروکار بھی کہتے تھے۔ گویا یہ سوال && گفتہ آید در حدیث دیگراں && کے مصداق قریش مکہ سے بھی تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور ان کی قوم کے پاس بتوں کی عبادت کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی، اس لیے انھوں نے تقلید کا سہارا لیا اور کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرنے والے پایا ہے، حالانکہ باپ دادا سیدھے راستے پر ہوں تو بیشک ان کے پیچھے چلو، لیکن اگر وہ غلط راستے پر ہوں تو غلط راستے پر چلتے جانا کہاں کی دانش مندی ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا لَہَا عٰبِدِيْنَ۝ ٥٣ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) وہ لوگ کہنے لگے، ہم نے اپنے بڑوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے اس لیے ہم بھی ان کی عبادت کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی جب حضرت ابراہم ( علیہ السلام) کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے تو پچھلے بزرگوں کی تقلید کا سہارا لیا۔ یہی حال ” ملت اسلامیہ “ میں مقلد حضرات کا ہے۔ اگر کتاب و سنت کا کوئی عالم نہیں۔ انہیں قیاس اور رائے پر عمل کرنے سے روکتا ہے تو وہ یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے امام صاحب یہی فرماگئے ہیں اور انہی کی رائے پر چلتے ہوئے ہم نے اپنے بزرگوں کو پایا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انکا جواب اور دلیل صرف یہ تھی۔ قالوا وجدنآ ابناء نا لھا عبدین (٣٥) ” اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم باپ دادا کی تقلید کرتی ہے تو اس کی سوچ اور اس کی عقل کی قوتیں منجمد ہوجاتی ہیں جبکہ ایمان انسان کو آزادی ‘ فکر و نظر کی وسعت ‘ اور ہر چیز اور ہر صورت حال کا حقیقی جائزہ لینے کی تعلیم دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ ہر بات پر غور کرکے اس کا حقیقی وزن کرو۔ لہٰذا اللہ پر پختہ ایمان کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے۔ یعنی عقیدہ توحید اور شرک کا کہ انسان اوہام ‘ جامد تقلید اور وہی تصورات و عقائد سے چھوٹ جاتا ہے۔ وہ موروثی رواج جن کی پشت پر نہ احادیث ہیں اور نہ دلیل ان کو بسہولت ترک کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ مشرکین نے صاف اقرار کرلیا کہ ان کے پاس کوئی دلیل تو ہے نہیں بس انہوں نے اپنے باپ دادا کو ان تماثیل کی عبادت کرتے دیکھا اس لیے وہ بھی ان کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے بڑوں کو انہی مورتیوں اور تمثال کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ یعنی اپنے بڑوں کو یہی کرتے دیکھا ہے۔