Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 57

سورة الأنبياء

وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصۡنَامَکُمۡ بَعۡدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۵۷﴾

And [I swear] by Allah , I will surely plan against your idols after you have turned and gone away."

اور اللہ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Ibrahim broke the Idols Then Ibrahim swore an oath, which some of his people heard, to plot against their idols, i.e., to break them and destroy them after they had gone away and turned their backs, when they went out to their festival. They had a festival which they would go out to celebrate. Abu Ishaq reported from Abu Al-Ahwas from Abdullah (Ibn Mas`ud), "When the people of Ibrahim went out to celebrate their festival, they passed by him and said, `O Ibrahim, are you not coming out with us?' He said, `I am sick.' " It was only the day before that he had said, وَتَاللَّهِ لاََكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ And by Allah, I shall plot a plan for your idols after you have gone away and turned your backs. and some of the people had heard him.

کفر سے بیزاری طبیعت میں اضمحلال پیدا کرتی ہے اوپر ذکر گزرا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا ۔ اور جذبہ توحید میں آکر آپ نے قسم کھالی کہ میں تمہارے ان بتوں کا ضرور کچھ نہ کچھ علاج کرونگا ۔ اسے بھی قوم کے بعض افراد نے سن لیا ۔ ان کی عید کا دن جو مقرر تھا حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم اپنی رسوم عید ادا کرنے کے لئے باہر جاؤ گے میں تمہارے بتوں کو ٹھیک کردوں گا ۔ عید کے ایک آدھ دن پیشتر آپ کے والد نے آپ سے کہا کہ پیارے بیٹے تم ہمارے ساتھ ہماری عید میں چلو تاکہ تمہیں ہمارے دین کی اچھائی اور رونق معلوم ہوجائے ۔ چنانچہ یہ آپ کو لے چلا ۔ کچھ دور جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم گر پڑے اور فرمانے لگے ابا میں بیمار ہوگیا ۔ باپ آپ کو چھوڑ کرمراسم کفر بجا لانے کے لئے بڑھ گئے اور جو لوگ راستے سے گزرتے آپ سے پوچھتے کیا بات ہے راستے پر کیسے بیٹھے ہو؟ جواب دیتے کہ میں بیمار ہوں ۔ جب عام لوگ نکل گئے اور بڈھے بڑے لوگ رہ گئے تو آپ نے فرمایا تم سب کے چلے جانے کے بعد آج میں تمہارے معبودوں کی مرمت کردوں گا ۔ آپ نے جو فرمایا کہ میں بیمار ہوں تو واقعی آپ اس دن کے اگلے دن قدرے علیل بھی تھے ۔ جب کہ وہ لوگ چلے گئے تو میدان خالی پا کر آپ نے اپنا ارادہ پورا کیا اور بڑے بت کو چھوڑ کر تمام بتوں کا چورا کردیا ۔ جیسے اور آیتوں میں اس کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ اپنے ہاتھ سے ان بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔ اس بڑے بت کے باقی رکھنے میں حکمت ومصلحت یہ تھی کہ اولاً ان لوگوں کے ذہن میں خیال آئے کہ شاید اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو غارت کردیا ہوگا ؟ کیونکہ اسے غیرت معلوم ہوئی ہوگی کہ مجھ بڑے کے ہوتے ہوئے یہ چھوٹے خدائی کے لائق کیسے ہوگئے ۔ چنانچہ اس خیال کی پختگی ان کے ذہنوں میں قائم کرنے کے لئے آپ نے کلہاڑا بھی اس کی گردن پر رکھ دیا تھا ۔ جیسے مروی ہے ۔ جب یہ مشرکین اپنے میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے سارے معبود منہ کے بل اوندھے گرے ہوئے ہیں ۔ اور اپنی حالت سے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ محض بےجان بےنفع ونقصان ذلیل وحقیر چیزہیں ۔ اور گویا اپنی اس حالت سے اپنے پجاریوں کی بےوقوفی پر مہرلگا رہے تھے ۔ لیکن ان بیوقوفوں پر الٹا اثر ہوا کہنے لگے یہ کون ظالم شخص تھا جس نے ہمارے معبودوں کی ایسی اہانت کی؟ اس وقت جن لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ کلام سنا تھا ، انہیں خیال آگیا اور کہنے لگے وہ نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے اسے ہم نے اپنے معبودوں کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھتے اور فرماتے جو نبی آیا جوان ۔ جو عالم بنا جوان ۔ شان الٰہی دیکھئے جو مقصد حضرت خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کا تھا وہ اب پورا ہورہا ہے ۔ قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کو سزا دو ۔ حضرت خلیل اللہ یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضع کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کرو ۔ اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم وجاہل ہیں؟ کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ چنانچہ مجمع ہوا ۔ سب چھوٹے بڑے آگئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ نے انہیں قائل معقول کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے ۔ اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ نے توڑا نہ تھا پھر فرمایا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے؟ اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے ؟ اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھیر سکتے ہیں؟ چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الٰہی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں دو تو راہ اللہ میں ۔ ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے ۔ دوسرا یہ فرمانا کہ میں بیمار ہوں ۔ اور ایک مرتبہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ اتفاق سے ایک ظالم کی حدود سے آپ گزر رہے تھے آپ نے وہاں منزل کی تھی ۔ کسی نے بادشاہ کو خبر کردی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے ۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ حضرت سارہ کو لے آئے ۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میری بہن ہے اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو ۔ آپ حضرت سارہ کے پاس گئے اور فرمایا سنواس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتاچکاہوں اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا اس لئے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو ، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں ۔ یہ کہہ کر آپ چلے آئے حضرت سارہ وہاں سے چلیں آپ نماز میں کھڑے ہوگئے ۔ جب حضرت سارہ کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑلیا ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے ۔ گھبرا کر عاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔ آپ نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہوگیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ کو پکڑنا چاہا وہی پھر عذاب الٰہی آپہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گیا پھر عاجزی کرنے لگا غرض تین دفعہ پے درپے یہی ہوا ۔ تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کردے ۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور حضرت ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ کہو کیا گزری؟ آپ نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور حاجرہ میری خدمت کے لئے آگئیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] حضرت ابراہیم نے دل میں سوچا کہ یہ لوگ باتوں سے تو اپنی گمراہی کو سمجھتے نہیں۔ اب انھیں کسی عملی تجربہ سے سمجھائے بغیر چارہ نہیں۔ لہذا اللہ کی قسم کھالی۔ کہ جب یہ لوگ اپنے بتوں کے پاس سے غیر حاضر ہوئے تو پھر میں ان کے مشکل کشاؤں کی خبر لوں گا۔ اب اتفاق کی بات کہ ان کے جشن نوروز یعنی قومی میلہ کا دن قریب آگیا تو یہ سب لوگ اس میلہ پر چلے گئے۔ اور حضرت ابراہیم کو ایسا موقع میسر آگیا جس کی انھیں انتظار تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے زبان سے بتوں کی تردید کے بعد سمجھا کہ ان لوگوں کو زبانی سمجھانا کافی نہیں بلکہ ان کے دماغوں میں ان بتوں کی خدائی اور مشکل کشائی کا جما ہوا عقیدہ ختم کرنا ایک زبردست عملی کارروائی کے بغیر ممکن نہیں، جس سے ان کی بےبسی صاف واضح ہوجائے۔ چونکہ ان تک پہنچنا اور کارروائی کرنا آسان نہ تھا، تو اس کام کے لیے انھوں نے اس دن کا انتخاب فرمایا جب سب لوگوں کے جشن پر جانے سے کارروائی کا موقع مل سکتا تھا۔ دیکھیے سورة صافات (٨٨ تا ٩٠) ۔ 3 ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کے باطل ہونے کو عمل سے ثابت کرنے سے پہلے اللہ کی قسم کھا کر اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ کچھ لوگ پختہ قبروں یا آستانوں اور بتوں کو خفیہ طریقے سے توڑ دیتے ہیں اور روپوش ہوجاتے ہیں اور اپنے اس عمل کو سنت ابراہیمی قرار دیتے ہیں، لیکن اگر واقعی وہ سنت ابراہیمی کے پیروکار ہیں تو انھیں چاہیے کہ اعلان کرکے یہ کام کریں، تاکہ اس کے نتیجے کے ذمہ دار بھی خود بنیں اور ابراہیم (علیہ السلام) جیسی استقامت دکھائیں۔ یہ نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ 3 بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات دل میں کہی۔ بعض نے لکھا ہے کہ جب سب لوگ چلے گئے تو انھوں نے ایک آدھ آدمی کی موجودگی میں یہ بات کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اسرائیلیات ہیں۔ قرآن مجید نے صاف الفاظ میں ان کے اپنے والد اور قوم کے سامنے یہ بات کہنے کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر قوم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے، اس لیے انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَتَاللَّـهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم (And I swear by Allah that I will do something to your idols - 21:57) The wording of the verse indicates that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) spoke these words before his community. But this explanation leaves a little doubt in one&s mind because Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had excused himself from going to the Eid festival by pleading illness إِنِّي سَقِيمٌ - I am sick - 37:89). And when they found their idols broken, they started a search for the culprit. If they already knew what he had said about their idols and that he had stayed behind alone when they had gone to attend the Eid function, then it was fairly obvious that he had broken the idols. Then where was the need for them to go looking for the offender? There are more than one explanations to this situation. One, that since Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was the only one holding these views and enjoyed no standing in the community, people might have ignored and even forgotten what he had said as something of no consequence. (Bayan ul-Qur&an). Two, that those who were looking for the culprit were a different lot of people and were not aware of what he (Sayyidna Ibrahim علیہ السلام) had said about their idols. While in a third version Mujahid and Qatadah are of the view that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) did not speak these words before other people, but only pictured the situation in his mind, or had said that only at heart, or he might have spoken them before one or two old persons after the people had left for the festival. Later, when the idols were found broken and the people started looking for the one who did it, these old men revealed the secret to them. (Qurtubi)

معارف و مسائل وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ، الفاظ آیت سے ظاہر یہی ہے کہ یہ بات ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی برادری کے سامنے کہی تھی مگر اس پر شبہ یہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے اِنِّىْ سَقِيْمٌ (میں بیمار ہوں) کا عذر کر کے ان کے ساتھ عید کے اجتماع میں جانے سے گریز کیا تھا اور جب بتوں کو توڑنے کا واقعہ پیش آیا تو برادری اس تلاش میں پڑی کہ یہ کس نے کیا۔ اگر ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ کلام پہلے ہی برادری کو معلوم تھا تو یہ سب باتیں کیسے ہوئیں اس کا جواب اوپر خلاصہ تفسیر میں یہ دیا گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اس خیال کے اکیلے آدمی تھے پوری برادری کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہ سمجھ کر ممکن ہے کہ ان کے کلام کی طرف التفات نہ کیا ہو اور بھول بھی گئے ہوں (بیان القرآن) اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تلاش و تحقیق کرنے والے دوسرے لوگ ہوں جن کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اس گفتگو کا علم نہیں تھا اور مفسرین میں سے مجاہد اور قتادہ کا قول یہ ہے کہ یہ کلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے برادری کے سامنے نہیں کیا بلکہ اپنے دل میں کہا یا برادری کے جانے کے بعد ایک دو ضعیف آدمی جو رہ گئے تھے ان سے کہا پھر جب بت شکنی کا واقعہ پیش آیا اور برادری کو ایسا کرنے والے کی تلاش ہوئی تو ان لوگوں نے مخبری کردی (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَاللہِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ۝ ٥٧ كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ صنم الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام/ 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء/ 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك . ( ص ن م ) الصنم کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام/ 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء/ 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ، أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل میں کہا، اللہ کی قسم میں تمہارے ان بتوں کی اچھی طرح درگت بناؤں گا جب تم ان کے پاس سے اپنی عید منانے چلے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَتَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ) ” جیسے ہندوؤں کے ہاں جنم اشٹمی کا میلہ ہوتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کا بھی کوئی تہوار تھا جس میں وہ سب کسی کھلے میدان میں جا کر پوجا پاٹ کرتے تھے۔ جب وہ دن آیا تو ان کے چھوٹے بڑے ‘ مرد عورتیں سب مقررہ مقام پر چلے گئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے ساتھ نہیں گئے : (فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ ) (الصّٰفٰت) ” انہوں ( علیہ السلام) نے کہا کہ میری طبیعت نا ساز ہے “۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتا۔ چناچہ جب شہر خالی ہوگیا تو آپ ( علیہ السلام) ایک تیشہ ہاتھ میں لے کر ان کے بت خانے میں گھس گئے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56. That is, if you do not understand this by argument, I will present a practical proof that these idols are helpless and have no powers. Therefore, it is wrong to make them your deities.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :56 یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا کہ یہ بے بس ہیں ، ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں ، اور ان کو خدا بنانا غلط ہے ۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کریں گے ، تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیم نے اس موقع پر نہیں بتائی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٧۔ ٦٣:۔ تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں زید بن اسلم وغیرہ کی روایتوں سے ان آیتوں کی تفسیر کے طور پر جو قصہ ہے سورة والصافات کے قصے کے ملانے سے اس سب قصے کا حاصل یہ ہے کہ جب ابرہیم (علیہ السلام) کی نصیحت سے ان کے باپ آزر اور قوم کے لوگوں نے بت پرستی نہیں چھوڑی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات سمائی کہ کبھی موقع پاکر ان بتوں کا پورا علاج کرنا چاہئے ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے لوگوں میں ہر سال ایک میلہ بستی کے باہر ہوا کرتا تھا جس میں بستی کے سب لوگ جایا کرتے تھے ‘ بتوں کے توڑنے کے سال میں جب وہ میلہ کا وقت آیا تو ابراہیم (علیہ السلام) بیماری کا عذر ظاہر کرکے اس میلہ میں نہیں گئے اور دبی ہوئی آواز سے بتوں کو صدمہ پہنچانے کی یہ قسم کھائی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے قوم کے لوگوں کے بستی کے باہر چلے جانے کے بعد بت خانہ کو اکیلا پا کر ابراہیم (علیہ السلام) بت خانہ میں گئے قوم کے لوگ میلہ میں جاتے وقت کچھ کھانا پکا کر بتوں کے آگے رکھ جاتے تھے اور میلہ میں سے جب پلٹ کر آتے تو وہ کھانا تبرک کے طور پر سب قوم کے لوگ مل کر کھالیا کرتے تھے اس لیے بت خانہ میں جانے کے بعد بتوں کے سامنے وہ کھانا دھرا ہوا دیکھ کر پہلے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے دل لگی کے طور پر ان بتوں سے یہ کہا کہ تم یہ کھانا کیوں نہیں کھاتے جب بتوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ‘ تم بولتے کیوں نہیں اس کے بعد سب سے بڑے بت کو تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ثابت چھوڑ دیا اور باقی کے سب چھوٹے بتوں کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑے بت کو جس غرض سے ثابت چھوڑ دیا اس کا ذکر خود ان آیتوں میں ہے کہ قوم کے لوگوں نے جب ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ابراہیم کیا تم نے ہمارے بتوں کو توڑا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا یہ بڑا بت ثابت نظر آتا ہے اسی نے چھوٹے بتوں کو اس غصہ سے توڑ ڈالا ہوگا کہ اس بڑے بت کے ساتھ چھوٹے بتوں کی پوجا کیوں کی جاتی ہے ‘ یہی مطلب لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ کا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے لوگ میلہ سے پلٹ کر شاید بڑے بت کے پاس آویں اور اس کو ثابت اور چھوٹے بتوں کو ٹوٹا ہوا پاکر یہ خیال کریں کہ بڑے بت نے ہی چھوٹے بتوں کی پوجا سے چڑ کر ان کو توڑ ڈالا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب دبی ہوئی آواز سے بتوں کو صدمہ پہنچانے کی قسم کھائی تھی تو قوم میں کے کچھ لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز سن لی تھی اس واسطے ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کا نام لیا اور قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) پر بتوں کے توڑنے کا الزام لگا کر نمرود کے روبرو اپنی فریاد پیش کی اور سب کی صلاح سے جب ابراہیم (علیہ السلام) نمرود کے سامنے بلائے گئے انہوں نے یہ کہا کہ تم لوگ بڑے بت کے ساتھ چھوٹے بتوں کی پوجا کرتے تھے اس واسطے اس کو غصہ آیا اور اس نے چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا اگر تمہارے ان بتوں میں بولنے کی طاقت ہے تو ان ہی سے اس حال کو دریافت کرلیا جاوے ‘ قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) پر بتوں کے توڑنے کا الزام لگا کر اپنے بادشاہ نمرود کے روبرو اپنی فریاد اس لیے پیش کی کہ وہ بت پرست بادشاہ اس فریاد کو سن کر ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں کوئی سخت سزا تجویز کرے اور تمام اہل دربار اور قوم کے لوگ بادشاہی سزا کی شہرت کے سبب سے سزا کے موقع پر آن کر اس سزا کو آنکھوں سے دیکھ لیں ‘ ان لوگوں کے اسی مطلب کو فَاْتُوْابِہٖ عَلٰـی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ کے لفظوں سے ادا فرمایا گیا ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) ١ ؎ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے دین الٰہی کی حفاظت میں ایسی تین باتیں منہ سے نکالی ہیں جن کی ظاہری صورت جھوٹ کی سی ہے ان میں سے یہ بات نکلتی ہے کہ بتوں کو خود توڑا اور بڑے بت کا نام لیا اور کہہ دیا اگر تمہارے ان بتوں میں بولنے کی طاقت ہو تو ان سے یہ حال دریافت کرلیا جاوے ‘ حاصل یہ ہے کہ بڑے بت کا نام لینے میں ظاہر صورت تو جھوٹ کی تھی اور حقیقت میں بَلْ فَعَلَہْ کَبِیْرُھُمْ سے ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ مطلب تھا کہ یہ کام ایسے بڑے نے کیا ہے ‘ جو ان بتوں کو صدمہ پہنچانے کی ایسی طاقت رکھتا ہے جس کے آگے یہ بت بالکل عاجز ہیں ‘ دوسری بات وہی ہے کہ بیماری کا عذر کر کے ابرہیم (علیہ السلام) میلہ میں نہیں گئے جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح بیمار شخص کہیں نہیں جاسکتا اسی طرح میں بھی اس میلہ میں نہیں جاسکتا ‘ تیسری بات یہ ہے کہ ملک عراق سے ملک شام کے سفر کے وقت جب مصر کے ایک ظالم بادشاہ نے خوبصورتی کے سبب سے حضرت سارہ کو بدکاری کے اردہ سے پکڑ لیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ بادشاہ میرا حال پوچھے تو کہہ دینا وہ میرے بھائی ہیں جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حضر سارہ ان کی دینی بہن ہیں ‘ وہ بدکار ظالم بادشاہ ہر ایک خوبصورت عورت کو بدکاری کے لیے زبردستی پکڑوا لیتا تھا ‘ اور اگر یہ سن لیتا تھا کہ عورت کے ساتھ اس کا خاوند بھی ہے تو اس مرد کو قتل کرا دیتا تھا ‘ اسی آفت سے بچنے کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ ظالم بادشاہ میرا حال پوچھے تو کہہ دینا وہ میرے بھائی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کی اسی روایت میں حضرت سارہ کا باقی کا قصہ یوں ہے کہ اس ظالم بادشاہ نے کئی دفعہ بدکاری کا ارادہ کیا لیکن اس برے ارادے کے ساتھ ہی وہ مدہوش ہوجاتا آخر عاجز آن کر اس نے حضرت سارہ کو رخصت کیا اور حضرت ہاجرہ کو حضرت سارہ کی خدمت کے لیے دیا اچھے لوگوں کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہوجاتا ہے اس لیے ظاہری صورت کے جھوٹ سے بھی حشر کے دن ابراہیم (علیہ السلام) ڈر جاویں گے چناچہ صحیح بخاری کو ابوہریرہ (رض) کی شفاعت کی روایت ١ ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیرص ١٨٣ ج ٣۔ ) (١ ؎ جیسا کہ پچھلے صفحہ پر گزرا )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:57) تاللہ۔ بخدا۔ اللہ کی قسم۔ ت حرف جر ہے۔ اس کے معنی قسم کے ہیں۔ اور تعجب کے ساتھ مخصوص ہے۔ نیز قسم میں اللہ کے نام کے سوا کسی اور کے نام پر داخل نہیں ہوتی۔ لا کیدن۔ لام تاکید کے لئے ہے اکیدن مضارع واحد متکلم بانون ثقیلہ ۔ الکید (خفیہ تدبیر) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں۔ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی۔ مگر عام طور پر برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ دائو۔ فریب۔ چالاکی۔ تدبیر۔ حسن تدبیر سب معنی کا حامل ہے۔ قرآن مجید میں ہے ان اللہ لا یھدی کید الخائنین (12:52) اور خدا تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے مکر چلنے نہیں دیتا۔ اور کذلک کدنا لیوسف (12:76) اس طرح ہم نے یوسف کے لئے ایک اچھی تدبیر کردی۔ اور جب حق تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر یہ لفظ آتا ہے تو مراد ہوتی ہے معاندین کی چالوں کو الٹ دینے سے۔ جیسے انہم یکیدون کیدا واکید کیدا (86:15 ۔ 16) یہ لوگ طرح طرح کے مکروفریب کر رہے ہیں اور میں بھی (ان کے انتقام و عقوبت کی ) تدبیر کررہا ہوں۔ لا کیدن۔ میں ضرور بالضرور کوئی نہ کوئی تدبیر کروں گا۔ لا کی دن اصنامکم۔ لا جتھدن فی کسرھا۔ میں ضرور ان کو توڑنے کی کوشش کروں گا۔ (روح المعانی) لا کسرنہا میں ضرور ان کو توڑ دوں گا۔ (مدارک التنزیل) تولوا۔ تولیۃ سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی عمل ان کی وجہ سے حذف ہوگیا۔ تم پھر جائوگے۔ تولیۃ لغات اضداد میں سے ہے۔ منہ کرنے اور منہ پھیرنے دونوں معنی کے لئے آتا ہے۔ مثلاً لیس البر ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب (2:177) طاعت یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کیا کرو یا مغرب کی طرف۔ اور آیۃ ہذا ۔ بعد ان تولوا مدبرین جب تم منہ پھیرتے ہوئے چلے جائو گے۔ تولوا اصل میں تتولون تھا یک تا حذف ہوگئی اور نون اعرابی حسب بالا محذوف ہوا۔ مدبرین۔ پھیرنے والے۔ دبر جمع ادبار۔ پیٹھ ۔ ہر چیز کا پچھلا حصہ۔ ولی دبرہ۔ اس نے (لڑائی میں) پیٹھ پھیری۔ بزدلانہ لڑائی سے بھاگ نکلا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی جب تم اپنے بتوں کی پوجا کرکے بتخانہ سے پہلے جائو گے تو میں تمہارے ان معبودوں کی خبر لوں گا۔ یعنی دلائل سے تو تم راہ راست پر نہیں آتے اب یہ عمل اقدام کروں گا۔ غالباً حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے یہ کلمات زیر لب کے ہوں گے صرف آس پاس کے ایک دو آدمیوں نے سنا ہوگا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” یہ علاج کرنا انہوں نے چپکے سے کہا۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ تاکہ ان کا عاجز اور درماندہ ہونا مشاہدہ میں آجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وتا للہ۔۔۔۔۔۔۔ مدبرین (٧٥) ” ‘۔ انہوں نے ان بتوں کے بارے میں کیا فیصلہ کیا۔ اسے انہوں نے مبہم چھوڑدیا ‘ اور اس کا ذکر نہ کیا۔ سیاق کلام میں یہ وضاحت بھی نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کو جواب کیا دیا۔ شاید وہ مطمئن ہوں کہ یہ ہمارے بتوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ اس لیے انہوں نے اسے نظر انداز کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ ” وَ تَاللّٰهِ لَاَکِیْدَنَّ الخ “ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ قوم نے ان ٹھوس عقلی دلائل سے کوئی اثر نہیں لیا تو اب ایک نہایت موثر اور محسوس طریقہ سے ان کے معبودان باطلہ کی بےچارگی کو واضح کرنے کی ایک نئی اسکیم سوچی چناچہ دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ تم اپنے میلے پر تو جاؤ پھر دیکھنا میں تمہارے معبودوں کی کیا گت بناتا ہوں ” فَجَعَلَھُمْ جُذَاذًا “ جب مشرکین اپنے تہوار میں شریک ہونے کے لیے شہر سے باہر چلے گئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تمام مورتیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا البتہ سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ تاکہ جب مشرکین واپس آ کر سارا ماجرا دیکھیں تو بڑے بت کی طرف رجوع کریں اور اس سے پوچھیں کہ حضرت یہ کیا ماجرا ہے کہ یہ حضرات سب کے سب ٹوٹے پڑے ہیں مگر آپ صحیح و سلامت براجمان ہیں اور کلہاڑا آپ کے کندھے پر ہے ان المعنی یرجعون الیہ کما یرجع الی العالم فی حل المشکلات فیقولون ما لھؤلاء مکسورۃ ومالک صحیحا والف اس علی عاتقک (کبیرج 162) ۔ اس سے مقصود الزام حجت تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) اور خدا کی قسم میں تمہارے ان مورتیوں کے پاس سے چلے جانے کے بعد ان کا علاج کروں گا اور ان کی گت بنائوں گا۔ یعنی جب تم ان کے پاس سے چلے جائو گے تو میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا اور ان سب کو ٹھیک کردوں گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ علاج کرنا انہوں نے چپکے کہا پھر جب وے شہر سے بہر گئے ایک میلے میں تب بت خانہ میں جاکر سب کو توڑا۔ 12