Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 59

سورة الأنبياء

قَالُوۡا مَنۡ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَاۤ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۹﴾

They said, "Who has done this to our gods? Indeed, he is of the wrongdoers."

کہنے لگے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا؟ ایسا شخص تو یقیناً ظالموں میں سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "Who has done this to our gods He must indeed be one of the wrongdoers." When they came back and saw what Ibrahim had done to their idols, humiliating them and lowering their status, proving that they were not divine and that those who worshipped them were fools, قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِألِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (They said: "Who has done this to our gods He must indeed be one of the wrongdoers)," because of this action of his. قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 یعنی جب وہ جشن سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا کہ معبود تو ٹوٹے پڑے ہیں، تو کہنے لگے، یہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِـهَتِنَآ : مشرکوں کے عقل سے عاری ہونے کی کیسی زبردست تصویر ہے۔ کہنے لگے، ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے ؟ سوچا ہی نہیں کہ وہ معبود ہی کیا جو اپنا دفاع بھی نہ کرسکے ؟ لطف یہ کہ سب نے یہی کہا کہ کوئی اور ان کے خداؤں کا یہ حال کر گیا ہے۔ قبر پرستوں کا بھی یہی حال ہے ؂ جو کروٹ بدلنا نہیں جانتے ہیں انھیں آپ مشکل کشا مانتے ہیں اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : ” إِنَّ “ اور لام کی تاکید کے ساتھ، بیشک وہ یقیناً ظالموں سے ہے کہ اس نے مشکل کشاؤں کی تعظیم کے بجائے ان کا یہ حال کردیا ہے۔ یا اس لیے کہ مارنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اس ظالم نے تو انھیں اتنا مارا ہے کہ ان کا کچھ باقی ہی نہیں چھوڑا اور نہ انھیں ذلیل کرنے میں کوئی کسر رہنے دی ہے۔ (رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِـہَتِنَآ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٥٩ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَآ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) ” ذراتصور کریں ‘ آج اگر بنارس یا متھرا (بھارت) میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو کیسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ ایسے ہی اس واقعہ سے شہر ار پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہ لمن الظلمین (٩٥) ” ۔ اب ان لوگوں کو بات یاد آئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کے بارے میں اپنے باپ سے بھی جھگڑا کیا ہے۔ باپ کے سوا دوسرے لوگوں سے بھی انہوں نے کہا ہے کہ ان مورتیوں کی پرستش تم کیوں کرتے ہو اور پھر انہوں نے بتایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ جب لوگ چلے جائیں گے تو میں ان کی خبر لوں گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ ” قَالُوْا مَنْ فَعَلَ الخ “ مشرکین جب عید منا کر واپس آئے تو حسب دستور اپنے معبودوں کو نذرانہ سجود پیش کرنے کے لیے عبادت خانہ میں داخل ہوئے تو معبودوں کو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھ کر سخت برہم ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ہمارے معبودوں سے یہ حرکت جس نے بھی کی ہے اس نے بڑا ظلم کیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) وہ واپسی پر بتوں کی یہ حالت دیکھ کر کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے اور اس بےادبی کا کون مرتکب ہوا اس میں شک نہیں کہ وہ کوئی بڑا ہی ظالم ہے۔ یعنی جب وہ میلے سے واپس آئے تو بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھا تو آپس میں کہنے لگے یہ گستاخی کس نے کی ہے وہ کوئی بہت ہی گستاخ اور ظالم ہے جس نے یہ غضب کیا ہے۔