Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 60

سورة الأنبياء

قَالُوۡا سَمِعۡنَا فَتًی یَّذۡکُرُہُمۡ یُقَالُ لَہٗۤ اِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۰﴾

They said, "We heard a young man mention them who is called Abraham."

بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کہا جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "We heard a young man talking against them, who is called Ibrahim." Those who had heard him swearing to plot against them said, we heard a young man talking about them, and they said that he was called Ibrahim. قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے یہ اس کی کارستانی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] جب ان لوگوں نے میلہ سے واپس آکر اپنے مشکل کشاؤں کی یہ خستہ حالی دیکھی تو انھیں بہت دکھ ہوا۔ انھیں یہ خیال تک نہ آیا کہ بڑے بت کے کندھے پر جو کلہاڑا ہے تو شاید اسی بڑے خدا نے چھوٹے خداؤں کو تہس نہس کردیا ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بت تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے، توڑا پھوڑ کا کام کیسے کرسکتے ہیں ؟ اور یہی کچھ حضرت ابراہیم انھیں سمجھنا چاہتے تھے۔ انھیں خیال آیا تو صرف یہ کہ جس کسی نے یہ کام کیا ہے وہ بڑا ظالم ہے۔ اب ان مشکل کشاؤں کی ناراضگی سے ہم پر قہر نازل ہو کے رہے گا اور اس قہر سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اس ظالم کا سراغ لگائیں اور اسے قرار واقعی سزا دیں۔ حضرت ابراہیم چونکہ کئی لوگوں کے سامنے یہ اظہار خیال کرچکے تھے کہ && یہ بےجان پتھر کی مورتیاں نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نہ سنوار سکتی ہیں لہذا ان کی عبادت کرنا صریح گمراہی اور انسانیت کی توہین ہے && لہذا بعض لوگوں کو فوراً یہ خیال آگیا کہ یہ کارستانی ابراہیم کی ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص ہماری نظر میں ایسا نہیں جو ہمارے ان معبودوں میں اس قدر گستاخ واقع ہوا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا سَمِعْنَا فَـتًى يَّذْكُرُهُمْ ۔۔ : بتوں کو توڑنے کا مجرم تلاش کرنے میں انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ جن لوگوں نے وہ تقریر سنی تھی، جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے سامنے کی تھی اور جس میں انھوں نے صاف اعلان کیا تھا کہ اللہ کی قسم ! میں ضرور تمہارے بتوں کی خفیہ تدبیر کروں گا، انھوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو سنا ہے جو ان (بتوں) کا ذکر کر رہا تھا، اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ ان مشرکوں کا ابراہیم (علیہ السلام) کی تحقیر کا انداز دیکھیے، وہ انھیں ابراہیم نامی ایک غیر معروف جوان بتا رہے ہیں، حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) جیسی شخصیت گمنام ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ بھلا سورج یا چاند بھی چھپے رہ سکتے ہیں ؟ پھر وہ اس عمل کا باعث ان کی جوانی کو قرار دے رہے ہیں، حالانکہ ان جاہلوں کو معلوم ہی نہیں کہ اس جوان کی جوانی دیوانی نہیں بلکہ ایسی ہوش مند ہے جس پر بیشمار پختہ عمروں کی پختہ عمری قربان ہے۔ ” يَّذْكُرُهُمْ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٣٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا سَمِعْنَا فَـتًى يَّذْكُرُہُمْ يُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِيْمُ۝ ٦٠ۭ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ فتی الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة . قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ( ف ت ی ) الفتیٰ کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے ایک نوجوان آدمی کو جس کا نام ابراہیم (علیہ السلام) ہے ان بتوں کا برائی اور ذلت کے ساتھ ذکر کرتے سنا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْمُ ) ” ابراہیم ( علیہ السلام) ہی ان کے بارے میں زبان درازی کرتا ہوا سنا گیا تھا کہ ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے ‘ انہیں خواہ مخواہ معبود بنا لیا گیا ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ شاید اسی نے یہ حرکت کی ہو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بتوں کو پاش پاش کرنے پر قوم کا رد عمل۔ قوم جب واپس پلٹی تو ان کی مسرت و شادمانی، غم اور پریشانی میں تبدیل ہوگئی۔ زبردست اضطراب اور شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامی حالات کا اعلان ہوا اجلاس پہ اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو اپنی کارکردگی دکھا کر فوری طور پر مطمئن کیا جائے پھر دفعتًا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ (قَالُوا فَأْتُوْا بِہٖ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ ) [ الانبیاء : ٦١] ” انھوں نے کہا کہ اس کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ دیکھ لیں۔ “ (فَأَقْبَلُوْا إِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ ) [ الصّٰفٰت : ٩٤] ” وہ ان کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔ “ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ لوگ کس غیظ وغضب کے ساتھ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو پکڑ کر لائے ہوں گے۔ کتنے آوازے کسے ہوں گے اور کتنی گستاخیاں کی ہوں گی ؟ لیکن ابراہیم ہجوم مشرکین کو زمین کے ذرات سے بھی حقیر تصور فرماتے ہوئے ایسی جرأت اور مردانگی سے جواب دیتے ہیں کہ ان کی کئی کئی گز لمبی زبانیں اس طرح گنگ ہوگئیں، جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان میں نام نہاد دانش، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں لیکن کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ بولیں تو کس بنیاد پر بات کریں۔ یہی تو ہمارے رب کا فرمان ہے۔ (وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلَہًا آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہُ بِہٖ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکَافِرُوْنَ ) [ المؤمنون : ١١٧] ” جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی پکارتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ان کا حساب رب کے ذمہ ہے۔ یقین جانیے کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ “ جرگہ ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کرتا ہے : ابراہیم (علیہ السلام) کو جرگے کے سامنے پیش کیا گیا تو سرداران شرک و بدعت بڑے طمطراق اور رعب ودبدبہ کے ساتھ لال پیلے ہو کر پوچھتے ہیں۔ (قَالُوْا أَأَنْتَ فَعَلْتَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا یَا إِبْرَاہِیْمُ )[ الأنبیاء : ٦٢] ” اے ابراہیم آیا کہ تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ “ جواب : (قَالَ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ) [ الانبیاء : ٦٣] ” فرمانے لگے بلکہ ان کے بڑے نے یہ کاروائی کی ہوگی۔ پوچھ لیجئے ! اگر یہ بات کرسکتے ہیں۔ “ خاموشی ہی خاموشی ہے اور ہو کا عالم۔ اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے لگے۔ (فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوْنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُ وسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ ) [ الانبیاء : ٦٤، ٦٥] ” یہ سن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور اپنے دل میں کہنے لگے واقعی ہی تم خود ظالم ہو۔ مگر پھر گردنیں جھکا کر کہنے لگے ابراہیم تو جانتا ہے ! یہ تو بات نہیں کرسکتے۔ “ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ ٢۔ قوم نے بالآخر یہ اقرار کیا کہ ہمارے معبود بات نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن معبودان باطل کی بےحیثیتی : ١۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے انسان ہیں اگر وہ کچھ نفع و نقصان کے مالک ہیں تو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ کیا ان کے پاس چلنے کو پاؤں، پکڑنے کو ہاتھ، دیکھنے کو آنکھیں اور سننے کو کان ہیں۔ اپنے معبودوں کو بلالو پھر اپنی تدبیر کرلو اور مجھے ڈھیل نہ دو ۔ (الاعراف : ١٩٥) ٢۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگر مکھی کچھ چھین کرلے جائے تو واپس نہیں لے سکتے۔ ( الحج : ٧٣) ٣۔ فرما دیجیے ! جن کو تم اللہ کے سوا بااختیار تصور کرتے ہو وہ تم سے تکلیف دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٤۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں مردہ ہیں زندہ نہیں انھیں تو وہ اتنا جانتے بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل : ٢٠۔ ٢١) ٥۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) ٧۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ : ٢٣) ٨۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان باطل کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص : ٦٤) ٩۔ فرما دیجیے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے۔ (الاحقاف : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا سمعنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابرھیم (٠٦) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جواں سال تھے۔ ان کو اللہ نے جوانی ہی میں ہدایت دے دی تھی۔ اس لیے انہوں نے ان بتوں کی عبادت کو ایک قبیح فعل سمجھتے ہوئے ان کے بت توڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ان کو اس بات کا حکم بذریعہ رسالت اور وحی دے دیا گیا تھا یا نہیں ؟ یا یہ کہ یہ ان پر قبل رسالت الہام ہوا تھا۔ اس نے اس الہام کی بنا پر اپنے باپ اور دوسرے لوگوں کو دعوت حق دینا شروع کردی تھی۔ یہ تو راجح بات ہے البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے ان کے لیے سمعنا فتی (١٢ : ٠٦) کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے۔ ایک تو ان کی تحقیر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتے تھے۔ یقال لہ ابرھیم (١٢ : ٠٦) ” جسے ابراہیم کہتے ہیں “۔ اور یہ تصغیر اور مجہول کا صیغہ وہ اس لیے استعمال کررہے تھے کہ یہ کوئی اہم آدمی نہیں ہے نہ اس سے کوئی خطرہ ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں پہلی رائے ہی قابل ترجیح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جواں سال تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ ” قَالُوْا سَمِعْنَا الخ “ ان میں سے بعض نے کہا کہ ابراہیم نامی ایک نوجوان ہے وہ ان کا ذکر کر رہا تھا یہ اسی کی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ ” یذکرھم “ کا مطلب یہ ہے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے ہر وقت ہمارے ان معبودوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور ان کی توہین کرتا رہتا ہے اور ہمیشہ کہتا رہتا ہے کہ یہ عبادت اور پکار کے لائق نہیں اور نہ نفع و نقصان کے مالک ہیں اس لیے اندازہ یہی ہے کہ سب کچھ اسی نے کیا ہوگا بہت سے مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے ” سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُھُمْ “ یعیبھم فلعلہ الذی فعل ذلک بھم (روح ج 17 ص 63) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) انہی لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کوسنا ہے کہ وہ ان بتوں کا برائی کے ساتھ ذکر کرتا ہے اس نوجوان کو ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے۔ یعنی اس کا نام ابراہیم (علیہ السلام) ہے وہ نوجوان ان معبودوں کا تذکرہ برائی کے ساتھ کرتا ہے۔ شاید یہ نام بتانے والے وہ لوگ ہوں گے جن کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ جب تم چلے جائوگے تو میں ان مورتیوں سے بھگتوں گا اور ان کی خبر لوں گا۔