Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 61

سورة الأنبياء

قَالُوۡا فَاۡتُوۡا بِہٖ عَلٰۤی اَعۡیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡہَدُوۡنَ ﴿۶۱﴾

They said, "Then bring him before the eyes of the people that they may testify."

سب نے کہا اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاؤ تاکہ سب دیکھیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "Then bring him before the eyes of the people that they may testify." meaning, in front of a large audience so that all the people could be present. This was Ibrahim's ultimate purpose, so that he could tell this great gathering about the extent of their ignorance and how foolish they were to worship idols which could not defend themselves from harm or help themselves, so how could they ask them for help! قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِألِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یعنی اس کو سزا ملتی ہوئی دیکھیں تاکہ آئندہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔ یا یہ معنی ہیں کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بت توڑتے ہوئے دیکھا یا ان کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] پھر جب اس && ظالم && کی نشان دہی ہوچکی تو کچھ لوگ کہنے لگے کہ اس کو جو کچھ سزا دینا چاہتے ہو۔ وہ سب لوگوں کے سامنے علی الاعلان دی جانی چاہئے۔ تاکہ لوگوں کے دل اپنے معبودوں کی طرف سے ٹھنڈے ہوں اور سزا بھی ایسی عبرت ناک ہونی چاہئے کہ آئندہ کسی کو ان مشکل کشاؤں کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰٓي اَعْيُنِ النَّاسِ : کہنے لگے، اگر ایسا ہے تو اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاؤ۔ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُوْنَ : اس کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہوجائیں کہ یہی شخص ہے جو بتوں کی برائی بیان کرتا تھا اور ان کا بندوبست کرنے کی قسمیں اٹھاتا تھا اور اس کا مجرم ہونا ثابت ہوجائے کہ یہ کام بھی اسی کا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کوئی موقع کا گواہ بھی مل جائے، جس نے اسے بت توڑتے ہوئے دیکھا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرک ہونے کے باوجود وہ لوگ ملزم پر جرم ثابت کرنا ضروری سمجھتے تھے، جو ان کے نزدیک جرم تھا۔ بقاعی (رض) لکھتے ہیں : ” اب اللہ تعالیٰ کی جناب ہی میں ان لوگوں کی شکایت ہے جو (مسلمان ہو کر) اپنے دین کے اکابر کو بغیر کسی دلیل یا تہمت کے پکڑ کر بند کردیتے ہیں (نہ فرد جرم، نہ کوئی گواہ اور نہ کوئی اور ثبوت، بلکہ اکثر اوقات انھیں بےگناہی کے جرم میں پکڑ لیتے ہیں) ۔ “ دوسرا معنی یہ ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہوجائیں اور آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اس کے ساتھ کیسا عبرتناک سلوک کیا جاتا ہے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کی جرأت نہ ہو۔ وہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کو مجرم ثابت کرنے کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر رہے تھے مگر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم (علیہ السلام) کی دلی تمنا پوری ہونے کا سامان ہو رہا تھا کہ کسی طرح سب لوگ جمع ہوں تو وہ ان کے سامنے بتوں کی بےبسی اور مشرکوں کی بےعقلی واضح کریں، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے عید کے دن دوپہر کے وقت تمام لوگوں کو کھلے میدان میں جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٥٨، ٥٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓي اَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَشْہَدُوْنَ۝ ٦١ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) یہ سن کر نمرود نے سب سے کہا، اچھا تو اس شخص کو سب لوگوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ سب اس کی حرکت یا اس کے قول یا ی کہ اس کو جو سزا دی جائے اس پر گواہ ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ ) ” تا کہ جن لوگوں کے سامنے اس نے گستاخانہ گفتگو کی تھی وہ اسے پہچان کر گواہی دے سکیں کہ ہاں یہی ہے وہ شخص جو ہمارے معبودوں کے بارے میں ایسی ویسی باتیں کرتا تھا اور جس نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں ضرور ان کے ساتھ کچھ چال چلوں گا۔ چناچہ جب آپ ( علیہ السلام) کو سامنے لا کر تصدیق کرلی گئی تو :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. This was exactly what Prophet Abraham (peace be upon him) expected to happen. He wished that the matter should not remain confined to the priests and the attendants but the common people also should be present there to witness that their deities were helpless and their priests were deluding them about their powers. The priests committed the same folly as was later committed by Pharaoh when he arranged an encounter between Prophet Moses (peace be upon him) and the magicians in the open in front of the multitudes of the common people, and the former got an opportunity to show publicly the miracle of the staff which shattered the illusory, magical tricks of the magicians.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :59 یہ گویا حضرت ابراہیم کی منہ مانگی مراد تھی ، کیونکہ وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ بات صرف پروہتوں اور پجاریوں ہی کے سامنے نہ ہو بلکہ عام لوگ بھی موجود ہوں اور سب دیکھ لیں کہ یہ بت جو ان کے قاضی الحاجات بنا کر رکھے گئے ہیں کیسے بے بس ہیں اور خود یہ پروہت حضرات ان کو کیا سمجھتے ہیں ۔ اس طرح ان پجاریوں سے بھی وہی حماقت سرزد ہوئی جو فرعون سے سرزد ہوئی تھی ۔ اس نے بھی جادوگروں سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرانے کے لیے ملک بھر کی خلقت جمع کی تھی اور انہوں نے بھی حضرت ابراہیم کا مقدمہ سننے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لیا ۔ وہاں حضرت موسیٰ کو سب کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ لائے ہیں وہ جادو نہیں معجزہ ہے ۔ اور یہاں حضرت ابراہیم کو ان کے دشمنوں نے آپ ہی یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ عوام کے سامنے ان کے مکر و فریب کا طلسم توڑ دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:61) فاتوا بہ۔ فعل امر۔ جمع مذکر حاضر۔ لائو اسے۔ حاضر کرو اسے۔ اتیان مصدر باب ضرب۔ علی اعین الناس۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے۔ لوگوں کے روبرو۔ یشھدون۔ مضارع جمع مذکر غائب شھادۃ مصدر (تاکہ) وہ گواہ رہیں (تاکہ) وہ دیکھیں مشاہدہ کریں۔ اول صورت میں اس امر کے گواہ رہیں کہ وہ اقرار جرم کرتا ہے۔ دوسری صورت میں دیکھیں کہ ہم مجرم کو کیسے سزا دیتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ یا ان کو جو سزا دی جائے اسے آنکھوں سے دیکھ لیں۔ لفظ ” یشھدون “ کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ (کبیرا)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ ” قَالُوْا فَاتُوْا الخ “ اب مشرکین نے کہا تو پھر اس (ابراہیم علیہ السلام) کو لوگوں کے روبرو لاؤ۔ تاکہ سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ہم اسے کس قدر عبرتناک سزا دیتے ہیں۔ ای یحضرون عقبوتنا لہ (مدارک ج 3 ص 36) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ ابراہیم کو سر عام حاضر کرو تاکہ کچھ اور لوگ بھی اس کے خلاف شہادت دیں۔ انھم کرھوا ان یاخذوہ بغیر بینۃ فارادوا ان یجیئوا بہ علی اعین الناس لعلھم یشھدون علیہ بما قالہ فیکون حجۃ علیہ بما فعل وھذا قول الھسن وقتادۃ والسدی وعطا وابن عباس (ج 6 ص 163) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس واقعہ سے یہی مقصد تھا کہ جب یہ معاملہ ان تماثیل کے تمام پجاریوں کے علم میں آئے اور ان سب کے سامنے پیش ہو اس وقت وہ ان کی جہالت اور بےوقوفی ظاہر کریں اور ان کے سامنے برملا ان کے معبودوں کی بےچارگی اور بےبسی کو واضح کرسکیں اور اس حقیقت کا اعلان کرسکیں کہ جن معبودوں کو تم ھاجت روا اور مشکل کشا اور نافع و ضار سمجھتے ہو۔ ان کے عجز کا یہ حال ہے کہ وہ کود اپنی ذاتوں سے بھی دفع ضرر کی قدرت نہیں رکھتے اس لیے وہ تمہارا بھی کچھ سنوار یا بگار نہیں سکتے اور نہ کچھ تمہیں دے سکتے ہیں۔ ” فَاتُوْا بِهٖ عَلیٰ اَعْیُنِ النَّاسِ “ ای علی رؤوس الاشھاد فی الملاء الاکبر بحضرۃ الناس کلھم لکان ھذا ھو المقصود الاکبر لابراہیم (علیہ السلام) ان یبین فی ھذا المحفل العظیم کثرہ جھلھم وقلۃ عقلھم فی عبادۃ ھذہ الاصنام التی لا تدفع عن نفسھا ضر او لا تملک لھا نصرا فکیف یطلب منھا شیء من ذالک (ابن کثیر ج 3 ص 182) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(61) یہ بات سن کر وہ لوگ کہنے لگے اچھا اس ابراہیم (علیہ السلام) کو عام لوگوں کے سامنے لائو تاکہ اور لوگ بھی گواہ ہوجائیں۔ یعنی جن لوگوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برا کہنے کا علم نہ تھا۔ انہوں نے کہا ہوگا یا سب نے کہا ہوگا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو لائو اس سے دریافت کیا جائے اور وہ اس حرکت کا اقرار کرے تو سب لوگ اس کے اقرار پر گواہ ہوجائیں اور جب لوگ گواہ ہوجائیں گے تو مقدمہ مضبوط ہوجائے گا اور حاکم اس کو سزا دے سکے گا۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا گیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا۔