Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 64

سورة الأنبياء

فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّکُمۡ اَنۡتُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿ۙ۶۴﴾

So they returned to [blaming] themselves and said [to each other], "Indeed, you are the wrongdoers."

پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقعی ظالم تو تم ہی ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The People's admission of their gods' incapability, and Ibrahim's preaching Allah tells us that when Ibrahim said what he said, his people, فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ ... turned to themselves, meaning, they blamed themselves for not taking precautions and protecting their gods. ... فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ They said: Verily, you are the wrongdoers. i.e., because you neglected them and did not guard them.

اپنی حماقت سے پریشان کافر بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہوگیا ۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے ۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی ، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے ۔ پھر غور وفکر کرکے بات بنائی کہ آپ جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ کو علم نہیں کہ یہ بت بےزبان ہیں ؟ عاجزی حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا اب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ فوراً فرمانے لگے کہ بےزبان بےنفع وضرر چیز کی عبادت کیسی؟ تم کیوں اس قدر بےسمجھ رہے ہو؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تھی وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ ہم نے ابراہیم کو دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑگئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیونکر ہوسکتا ہے ؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَنْفُسِهِمْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کی اس زبردست چوٹ نے انھیں سوچنے پر مجبور کردیا۔ سب نے اپنے دل میں غور کیا تو کہہ اٹھے کہ تم اس جوان کو خواہ مخواہ ظالم کہہ رہے ہو، ظالم تو تم خود ہو جو ایسی بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود قرار دے کر پوجتے پکارتے اور انھیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا قرار دیتے ہو، جن کی بےبسی اور بےچارگی کا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو بھی دفع نہیں کرسکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے آپ پر گزری ہوئی مصیبت کسی دوسرے کے سامنے بیان بھی نہیں کرسکتے، تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم اور حماقت کیا ہوسکتی ہے ؟ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے : (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) [ لقمان : ١٣ ] ” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “ بعض نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ تم ہی ظالم ہو کہ تم نے اپنے بتوں کی حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا، مگر پہلا معنی ہی صحیح اور مقام کے مناسب ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٦٤ۙ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) اس پر وہ لوگ خود کو ملامت کرنے لگے اور ان کے سردار نمرود نے ان سے کہا کہ حقیقت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مقابلہ میں تم ہی ناحق ہو اور وہ حق پر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (فَرَجَعُوْٓا الآی اَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) ” یہ گویا ان کے ضمیر کی آواز تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بات ہے تو درست ! ظالم تو تم خود ہو جو ان بےجان مجسموں کو معبود سمجھتے ہو ‘ جو خود اپنا دفاع بھی نہ کرسکے اور اب یہ بتانے سے بھی معذور ہیں کہ ان کی یہ حالت کس نے کی ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٤۔ ٦٧:۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ان چھوٹے بتوں سے تو یہ پوچھا جائے کہ ان کو کس نے توڑا ہے اور بڑے بت سے یہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے چھوٹے بتوں کو کیوں توڑا ہے تو قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس بات کو اپنے دل میں سوچا اور آپس میں ایک نے دوسرے کی طرف دیکھ کر یہ کہا کہ بغیر دیکھے ابراہیم (علیہ السلام) کو بتوں کے توڑنے کا الزام لگانا حقیقت میں ایک زیادتی اور بےانصافی کی بات ہے پھر گردن جھکا کر شرمندگی سے کہنے لگے ابراہیم تم کو کیا معلوم نہیں کہ یہ پتھر کے بت منہ سے نہیں بولتے ‘ قوم کے لوگوں سے یہ بات سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہارے بت جب ایسے عاجز اور بےبس ہیں کہ جس نے ان کو صدمہ پہنچایا اس کا مقابلہ نہ کرسکے اور تمہارے پوچھنے پر یہ بھی نہیں بتلا سکتے کہ کس شخص نے ان کو صدمہ پہنچایا تو پھر تم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تم اور تمہارے بت دونوں بیزاری کے قابل ہیں کیونکہ یہ بت اپنی پوجا کرنے والوں کے ساتھ نہ کچھ بھلائی کرسکتے ہیں نہ پوجا کے چھوڑ دینے والوں کے ساتھ کچھ برائی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے دوزحی قرار پاچکے ہیں ان کو دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت سے قوم کے لوگ اگرچہ بت پرستی کی برائی کو سمجھ گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں وہ لوگ دوزخی ٹھہر چکے تھے اس لیے بجائے اس کے کہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت کی کچھ قدر کرتے انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ وہ بدسلوکی کی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:64) فرجعوا الی انفسہم۔ انہوں نے اپنے آپ کی طرف رجوع کیا۔ اپنے دلوں میں سوچنے لگے۔ ایک دوسرے سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے۔ انکم انتم الظلمون۔ یہ بات ان بت پرستوں نے آپس میں ایک دوسرے کو کہی۔ بیشک تم ہی غلط کار۔ زیاں کار و ستمگار ہو۔ غلط راستہ پر ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ ظاہر ہے کہ حجرت ابراہیم نے یہ بات تعریض اور کنایہ کے طور پر فرمائی اور تنز کیا کہ تم تو ان بتوں کو نفع و نقصان کے مالک سمجھتے ہو تو اگر یہ بولتے ہیں تو خود انہی سے دریافت کرلو کہ انہیں توڑنے کا کام کس نے کیا ہے ؟ مگر اس آیت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ ” یہ کام ان کے بڑے بت نے کیا ہے “ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے چونکہ جھوٹ ہے اس بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے جھوٹ ہی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے : ” ان ابراھیم لم یکذب غیر ثلاث “ کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے صرف تین موقعوں پر جھوٹ بولا ہے ایک ان کا کہنا کہ ” میں بیمار ہوں “ دوسرے اپنی بیوی سارہ کو اپنی بہن بتلانا، تیسرے ان کا کہنا کہ ” فعلہ کبیر ھم ھذا “ مگر اس حدیث میں بھی تعریض و کنایہ کو کذب سے تعبیر کرلیا گیا ہے اور عربی زبان میں اس قسم کا اطلاق جائزہ ہے۔ لہٰذا اس صحیح حدیث سے انکار کی ضرورت نہیں ہے۔ امام رازی (رح) نے اس آیت کے اور بھی تفسیری محل بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم 1 ۔ یعنی سمجھے کہ پتھر پوجنا کیا حاصل۔ (موضح) یا یہ کہ اپنے بتوں کی حفاظت نہ کرکے تم نے ظلم کیا ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فرجعوآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکم انتم الظلمون (٤٦) ” یہ ان کے اندر ایک اچھی سوچ کا آغاز تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے موقف میں بنیادی کمزوری ہے۔ وہ جو بتوں اور مورتیوں کی پوجا کررہے ہیں یہ دراصل ظلم ہے۔ پہلی مرتبہ یوں لگتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ جس راہ پر وہ بغیر سوچے سمجھے چل رہے ہیں وہ بہت ہی غلط ہے۔ لیکن یہ ان کے فکر و نظر کی دنیا میں ایک چمک ہی تھی۔ اندھیرا حسب سابق پھر غالب آگیا۔ ان کے مردہ دلوں کے اندر ایک دھڑکن سی پیداہوئی مگر جلد ہی وہ پھر خاموش ہو کر جمود کا شکار ہوگئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ ” فَرَجَعُوْا اِلٰی اَنْفُسِهِمْ الخ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب سن کر مشرکین کے ہوش ٹھکانے آئے اور ان کو تنبیہ ہوئی کہ وہ ان غیر ناطق جمادات کی عبادت کر کے اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں بھلا جو اس قدر عاجز و بےبس ہوں کہ اپنی حفاظت بھی نہ کرسکیں وہ دوسروں کے کیا کام آسکتے ہیں ” اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ “ ای بعبادۃ من لا ینطق بلفظۃ ولا یملک لنفسہ لحظۃ و کیف ینفع عابدیہ ویدفع عنھم الباس من لا یرفع عن راسہ الف اس (قرطبی ج 11 ص 302) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(64) پھر وہ مشرک اپنے دلوں کی جانب متوجہ ہوئے اور سوچنے لگے اور آپس میں کہنے لگے اس میں شک نہیں کہ تم ہی ناحق پر ہو۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس کہنے پر کہ اگر یہ بولتے ہیں تو ان ہی سے پوچھ لو وہ مشرک سوچ میں پڑگئے اور آپس میں یوں کہنے لگے کہ تم ہی ناحق پر ہو، یعنی بت پرستی کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سمجھے کہ پتھر پوجنا کیا حاصل۔ 12 بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آپس میں کہا کہ تم ہی ناحق پر ہو یعنی جب تم نے یہ دیکھا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تمہارے معبودوں کا مخالف ہے تو تم بت خانے کو کھلا چھوڑ کر چلے گئے اور اپنے معبودوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کیا۔