Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 65

سورة الأنبياء

ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۵﴾

Then they reversed themselves, [saying], "You have already known that these do not speak!"

پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہوگئے ( اور کہنے لگے کہ ) یہ توتجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُوُوسِهِمْ ... Then they turned to themselves, means, they looked at the ground, and said: ... لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَوُلاَء يَنطِقُونَ Indeed you (Ibrahim) know well that these speak not! Qatadah said: "The people admitted their guilt and confusion, and said, لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَوُلاَء يَنطِقُونَ ("Indeed you know well that these speak not!") `So how can you tell us to ask them, if they cannot speak and you know that they cannot speak.' At this point, when they admitted that, Ibrahim said to them: قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لاَا يَنفَعُكُمْ شَيْيًا وَلاَا يَضُرُّكُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰي رُءُوْسِهِمْ ۔۔ : ” نَکَسَ “ کا معنی سر کے بل الٹا کرنا ہے، یعنی سر نیچے اور پاؤں اوپر کردینا، یہ کسی بھی شخص کی بدترین حالت ہے۔ ” نُکِسَ الْوَلَدُ “ جب بچے کی ٹانگیں سر سے پہلے باہر آئیں۔ ” نُکِسَ فِی الْمَرْضِ “ تندرست ہو کر پھر بیمار ہوجانا۔ یعنی اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب سنتے ہی ان کے دلوں نے فیصلہ کردیا کہ ظالم تم خود ہو جو ایسے بےحس اور بےبس بتوں کو معبود بنا بیٹھے ہو جو بول کر یہ بھی نہیں بتاسکتے کہ ان پر کیا گزری، مگر پھر حق تسلیم کرنے کے بجائے ان پر ضد اور جہالت سوار ہوگئی، جس سے ان کی عقل الٹی ہوگئی اور وہ بغیر کسی حیا کے وہ بات کہنے لگے جس سے ان کی بےوقوفی اور حماقت بالکل واضح ہو رہی تھی۔ ” نُكِسُوْا “ الٹے کردیے گئے، جیسے کسی چیز نے زبردستی انھیں سر کے بل اوندھا کردیا ہو، چناچہ کہنے لگے : (لَــقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰٓـؤُلَاۗءِ يَنْطِقُوْنَ ) ” بلاشبہ یقیناً تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰي رُءُوْسِہِمْ۝ ٠ۚ لَــقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰٓـؤُلَاۗءِ يَنْطِقُوْنَ۝ ٦٥ نكس النَّكْسُ : قَلْبُ الشیءِ عَلَى رَأْسِهِ ، ومنه : نُكِسَ الوَلَدُ : إذا خَرَجَ رِجْلُهُ قَبْلَ رَأْسِهِ ، قال تعالی: ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 65] والنُّكْسُ في المَرَضِ أن يَعُودَ في مَرَضِهِ بعد إِفَاقَتِهِ ، ومن النَّكْسِ في العُمُرِ قال تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] وذلک مثل قوله : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] وقرئ : ننكسه «3» ، قال الأخفش : لا يكاد يقال نَكَّسْتُهُ بالتَّشْدِيدِ إلّا لما يُقْلَبُ فيُجْعَلُ رأسُهُ أسْفَلَهُ «4» . والنِّكْسُ : السَّهْمُ الذي انكَسَرَ فوقُه، فجُعِلَ أَعْلَاهُ أسْفَلُه فيكون رديئاً ، ولِرَدَاءَتِهِ يُشَبَّهُ به الرَّجُلُ الدَّنِيءُ. ( ن ک س ) النکس ( ن ) کے معنی کسی چیز کو الٹا کردینے کے ہیں اور اسی سے نکس الولد ہے ۔۔ یعنی ولات کے وقت بچے کے پاؤں کا سر سے پہلے باہر نکلنا ۔ ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 65] پھر شرمندہ ہوکرسر نیچا کرلیا ۔ النکس صحت یابی کے بعد مرض کا عود کر آنا۔ اور نکس فی العسر العمر کے متعلق فرمایا : وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں ۔ اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اور ایک قرات میں ننکسہ ہے ۔ اخفش کا قول ہے ۔ کہ ننکسہ وبتشدید الکاف ) کے معنی کسی چیز کو سرنگوں کردینے کے ہوتے ہیں ۔ اور نکس اس تیرے کو کہتے ہیں جس کا فوتہ ٹوٹ گیا ہو اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچے لگا دیا گیا ہو ۔ ایسا تیر چونکہ روی ہوجاتا ہے ۔ اس لئے تشبیہ کے طور پر کمینے آدمی کو بھی نکس کہاجاتا ہے ۔ ( ن ک ص ) النکوص ( ن ض ) کسی چیز سے پیچھے ہٹنا ۔ قرآن پاک میں ہے : نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپاہوکر چل دیا ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) پھر شرم کے مارے اپنے سروں کو جھکا لیا اور پھر اپنی پچھلی بات پر آگئے اور نمرود کہنے لگا اے ابراہیم (علیہ السلام) تمہیں تو اچھی طرح معلوم ہی ہے کہ بت کچھ بولتے نہیں تو ان سے کیا پوچھیں کہ کس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُ وْسِہِمْ ج) ” ایک لمحے کے لیے دلوں میں یہ خیال تو آیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بات درست ہے اور ہم غلط ہیں ‘ مگر جاہلانہ حمیت و عصبیت کے ہاتھوں ان کی عقلیں پھر سے اوندھی ہوگئیں اور پھر سے وہ ان بےجان بتوں کا دفاع کرنے کی ٹھان کر بولے کہ ان سے ہم کیا پوچھیں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61. Literally the original text means: They were turned down upon their heads. Some commentators have interpreted it to mean: They hung down their heads with shame. But this does not fit in the context and the wording of the text. The right interpretation would be: When they considered the answer of Prophet Abraham (peace be upon him), they realized that they themselves were in the wrong, because they had set up helpless idols as deities, which could not even speak a word as to who had broken them. But soon after this, they were overpowered by obduracy and ignorance which perverted their minds and they again relapsed into crookedness.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :61 اصل میں : نُکِسُوْا عَلیٰ رُءُوْسِھِمْ ( اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل ) فرمایا گیا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے ۔ لیکن موقع و محل اور اسلوب بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ صحیح مطلب ، جو سلسلہ کلام اور انداز کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے ، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو ، کیسے بے جس اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا ، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے ۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد اور جہال سوار ہو گئی اور ، جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے ، اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی ۔ دماغ سیدھا سوچتے سوچتے یکایک الٹا سوچنے لگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کی حقیقت بتانے کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا، اس نے انہیں کم از کم اپنے دل میں سوچنے پر مجبور کردیا، اور ان کے دل نے گواہی دی کہ قصور در اصل ہمارا ہی ہے۔ لیکن مدتوں سے جمے ہوئے عقیدے کو چھوڑنے کی جرات نہ ہوئی، لاجواب ہو کر سر تو جھکا دیا، لیکن کہا یہ کہ یہ بات تو تم بھی جانتے ہو، اور ہم بھی پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:65) نکسوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ نکس مصدر (باب نصر) سر کا جھکانا۔ نکسوا ان کو سرنگوں کردیا گیا۔ صاحب ضیاء القرآن علامہ قرطبی کے حوالہ سے لکھتے ہیں اس کا یہ معنی نہیں کہ شرم وخجالت کے مارے ان کے سرجھک گئے۔ کیونکہ اگر مدعا یہ ہوتا تو عبارت یوں ہوتی نکسوا رؤسہم اور یہاں نکسوا علی رؤسہم ہے۔ اور اس کا معنی ہے کہ اپنی مشرکانہ جہالت اور بتوں کی عبادت کی طرف لوٹنا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہی معنی مروی ہے ای ادرکھم الشقاء فعا دوا الی کفرہم یعنی انہیں ان کی بدبختی نے آلیا اور پھر وہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ لقد علمت ای قالوا لقد علمت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی پہلے تو صحیح بات کی مگر پھر ان کی عقل لوندھی ہوگئی اور مجادلہ اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ لی۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم نکسوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ینطقون (٥٦) ’ واقعی پہلے فقرے میں وہ اپنے دلوں اور دماغوں کی طرف لوٹ آئے تھے اور دوسرے فقرے میں جو ہے کہ وہ اپنے سروں کو چھوڑ کر الٹے پھرے تو گویا الٹے پائوں پھرے اور اپنے سروں سے سوچ کا کام لینا بھی انہوں نے چھوڑدیا۔ پہلی حرکت اپنے ضمیر کی طرف تھی کہ سوچیں اور تدبیر کریں اور دوسری حرکت واپسی کی تھی اور سوچ اور تدبر کو ترک کر کے پھر واپس ہوئے اور ان کے منہ سے جو بےعقلی کی بات نکلی وہی ان کے خلاف حجت تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل ہی یہ تھی کہ دیکھو یہ بات بھی نہیں کرسکتے۔ جب وہ یہاں تک آگئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیساحلیم الطبع شخص بھی ان پر قدرے غصہ کرتا ہے کیونکہ ان کی یہ کم عقلی اس قدر واضح ہے کہ اس پر آدمی کے لیے صبر کرنا مشکل ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ ” ثُمَّ نُکِسُوْا الخ “ مگر تسویل و تضلیل شیطان سے بدبختی اور شقاوت نے پھر انہیں آلیا اور مہر جباریت کی وجہ سے وہ اپنی کفر و شرک کی پہلی حالت کی طرف فورًا منقلب ہوگئے۔ قال اھل التفسیر اجری اللہ تعالیٰ الحق علی لسانھم فی القول الاول ثم ادرکتھم الشقاوۃ ای ردوا الی الکفر بعد ان اقروا علی انفسہم بالظلم (مدارک ج 3 ص 64) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ یہ تو تمہیں بھی معلوم ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ معبود بولنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود ان کو اپنا معبود سمجھتے ہیں لا یخفی علینا وعلیک ایھا المیکت انھا لاتنطق کذالک وانا انما اتکذناھا الھۃ مع العلم بالوصف (روح جلد 17 ص 66) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(65) پھر انہوں نے شرمندہ ہوکر اپنے سروں کو جھکالیا اور ابراہیم (علیہ السلام) سے بولے بلاشبہ تو یہ بات جانتا ہی ہے کہ یہ بت بولتے نہیں۔ یعنی یہ بات تو تیرے علم میں ہے کہ یہ ہمارے معبود بولا نہیں کرتے ان کی اس بےبسی کو اور عاجزی کو دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور خوب کھری کھری سنائیں۔