Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 66

سورة الأنبياء

قَالَ اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمۡ ﴿ؕ۶۶﴾

He said, "Then do you worship instead of Allah that which does not benefit you at all or harm you?

اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do you then worship besides Allah, things that can neither profit you nor harm you! meaning, if they cannot speak and they can neither benefit you nor harm you, then why do you worship them instead of Allah أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَفَلَ تَعْقِلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] حضرت ابراہیم کے اس جواب پر مجمع میں جمع شدہ سب لوگوں کو اپنے مشکل کشاؤں کی بےبسی کا ٹھیک طور پر احساس ہوگیا اور لوگوں کے پاس ماسوائے شرمنگی اور خاموشی کے اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ لگے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کہ اب اس بات کا کیا جواب دیں۔ حضرت ابراہیم دراصل یہی کچھ چاہتے تھے اور یہ جو کچھ ہوا یہ حضرت ابراہیم کی توقعات اور منشاء کے عین مطابق تھا۔ تبلیغ اور رد شرک کا جو سنہری موقعہ اس وقت ہاتھ آیا تھا شاید اس لئے پہلے کبھی نہ آیا ہو۔ چناچہ اس وقت آپ نے اس بھرے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ تو تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ تمہارے مشکل کشا اپنا بھی دفاع نہیں کرسکتے۔ تو پھر وہ تمہاری کیا مشکلیں دور کرسکتے ہیں یا تمہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور افسوس تو تم لوگوں پر ہے جو یہ باتیں جانتے ہوئے بھی ایسے مشکل کشاؤں کی عبادت کئے جارہے ہو۔ جو اپنے ظالم سے بھی بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) اتنے بڑے مجمع میں ان کی زبان سے یہی کہلوانا چاہتے تھے اور سب کچھ اسی ترتیب سے ہو رہا تھا جو ابراہیم (علیہ السلام) کی توقع اور خواہش کے مطابق تھی۔ ان کے لیے توحید کی دعوت اور شرک کے رد کا ایسا سنہرا موقع شاید اس سے پہلے کبھی نہ آیا ہو، چناچہ فرمایا کہ جب یہ بول ہی نہیں سکتے تو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تو پھر کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کچھ فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان ؟ ” مَا “ کا لفظ عموماً ان چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں عقل نہیں ہوتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَـيْــــًٔا وَّلَا يَضُرُّكُمْ۝ ٦٦ۭ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی خوب خبر لی کہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو کہ وہ تمہاری اس عبادت کرنے میں نہ تمہیں کچھ نفع پہنچا سکے اور ترک عبادت میں تمہیں کچھ نقصان پہنچا سکے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:69) کونی۔ فعل امر۔ واحد مؤنث حاضر۔ تو ہوجا۔ (نار سے خطاب ہے) ۔ سلما۔ کونی سلما۔ تو سلامتی کا باعث بن جا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کے اقرار جرم کرلینے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انھیں ایک دفعہ پھر سمجھانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خداداد صلاحیت اور پوری دانشمندی کے ساتھ ایک مکالمے کے ذریعے اپنی قوم کو اس مقام پر لے آئے کہ جب انھوں نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا کہ اے ابراہیم ! تو جانتا ہے یہ تو پتھر اور مٹی کے بنے ہوئے بت ہیں جو بول نہیں سکتے۔ اس حقیقت کا اقرار کروانے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں پوچھا کیا پھر تم ان کے سامنے مراقبے، سجدے اور اپنی حاجات پیش کرتے ہو جو نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان دے سکتے ہیں۔ تم پر اور تمہارے معبودوں پر نہایت ہی افسوس ہے۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود بھی تم عقل سے کام لینے کے لیے تیار نہیں ہو۔ ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں دلائل، عملی مشاہدہ اور عقل و فکر کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لوگو ! اگر اپنے معبودوں کو بچانا اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہو تو پھر ابراہیم کو جلا کر راکھ کر دو ۔ اس کے بغیر اس سے تم اور تمہارے معبود نہیں بچ سکتے۔ مسائل ١۔ معبودان باطل اپنے آپ اور کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عقل و دانش کے حوالے سے بھی اپنی قوم کو توحید سمجھانے کی کوشش کی۔ ٣۔ قوم نے عقل سے کام لینے کی بجائے مخالفت میں آکر ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کیا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال افتعبدون۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون (٦٦ : ٧٦) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات سے ان کی دل تنگی کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ قدرے غصے میں نظر آتے ہیں اور ان کو سخت تعجب ہے کہ یہ لوگ اس قدر پوچ اور غیر معقول فکر و عمل میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب ان لوگوں کا رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔ ان کی ہٹ دھرمی اب انہیں سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ ان کا حال اس شخص جیسا ہوگیا جس کے پاس دلیل کچھ نہ ہو ‘ اور دلیل کی کمزوری اور کمی وہ تشدد کے ذریعہ پوری کررہا ہے۔ چناچہ یہ لوگ بھی اب تشدد پر اتر آئے اور یہ فیصلہ کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ ” قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ الخ “ جب مشرکین نے اپنے معبودوں کی بیچارگی اور بےبسی کا اقرار کرلیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی فکر و عقل کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا جب تمہیں معلوم ہے کہ یہ عاجز معبود تمہیں نہ نفع پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نقصان پہنچانے کی تو پھر تم اللہ کے سوا ان کی کیوں عبادت کرتے ہو۔ تف تم پر اور تمہارے فعل شرک پر تم ایسے صریح احمقانہ فعل کی قباحت بھی نہیں سمجھتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(66) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تم کو کوئی فائدہ اور نفع پہنچا سکیں اور نہ تم کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔