Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 68

سورة الأنبياء

قَالُوۡا حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿۶۸﴾

They said, "Burn him and support your gods - if you are to act."

کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Ibrahim was thrown into the Fire and how Allah controlled it When their arguments were refuted and their incapability became clear, when truth was made manifest and falsehood was defeated, they resorted to using their power and strength, and; قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا الِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ They said: "Burn him and help your gods, if you will be doing." So they gathered together a huge amount of wood. As-Suddi said, "I if a woman was sick, she would make a vow that if she recovered she would bring wood to burn Ibrahim. Then they made a hole in the ground and set it aflame, and it burned with huge sparks and immense flames. There had never been a fire like it. They put Ibrahim, peace be upon him, into a catapult, at the suggestion of a nomadic Kurdish man from Persia." Shu`ayb Al-Jaba'i said, "His name was Hayzan, and Allah caused the earth to swallow him up, and he will remain sinking into it until the Day of Resurrection. When they threw him he said, `Sufficient for me is Allah, and He is the best disposer of affairs."' This is similar to what Al-Bukhari recorded from Ibn Abbas that Ibrahim said, "`Sufficient for me is Allah, and He is the best disposer of affairs," when he was thrown into the fire, and Muhammad said it when they said: إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَـناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ Verily, the people have gathered against you, therefore, fear them. But it increased them in faith, and they said: "Allah is sufficient for us, and He is the best disposer of affairs." (3:173) Sa`id bin Jubayr reported that Ibn Abbas said: "When Ibrahim was thrown into the fire, the keeper (angel) of the rain said: `When will I be commanded to send rain.' But the command of Allah was more swift. قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ

آگ گلستان بن گئی یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے ۔ یہاں ان لوگوں کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آکر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے ۔ اس بات پر سب نے اتفاق کرلیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کردیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفا ہوجائے تو ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی ۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا لکڑیوں سے پر کیا اور انبار کھڑا کرکے اس میں آگ لگائی روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی ۔ جب أگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اس کے پاس جانا محال ہوگیا اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے؟ آخر ایک کردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بیٹھا کر جھولا کر پھنک دو ۔ مروی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے ۔ جب آپکوآگ میں ڈالا گیا آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ کے مقابلے کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے بھی یہی پڑھا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں ۔ مروی ہے کہ جب کافر آپ کو باندھنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تیری ذات پاک ہے تمام حمدوثنا تیرے ہی لئے سزاوار ہے ۔ سارے ملک کا تو اکیلاہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک وساجھی نہیں ۔ حضرت شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آسمان وزمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟ آپ نے جواب دیا تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کردوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ میرے خلیل پر سلامتی اور ٹھنڈک بن جا ۔ فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی ۔ حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ کو ضرر پہنچاتی اس لئے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑا گڑھا بہت ہی گہرا کھودا تھا اور اسے آگ سے پر کیا تھا ہر طرف آگ کے شعلے نکل رہے تھے اس میں خلیل اللہ کو ڈال دیا لیکن آگ نے آپ کو چھوا تک نہیں یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اسے بالکل ٹھنڈا کردیا ۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے آپ کے منہ پر سے پسینہ پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آپ کو آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی ۔ سدی فرماتے ہیں سایہ یافرشتہ اس وقت آپ کے ساتھ تھا ۔ مروی ہے کہ آپ اس میں چالیس یا پچاس دن رہے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے اس وقت آپ کو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ کے والد نے کہا ابراہیم تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن جو جانور نکلا وہ آپ کی آگ کو بجھانے کی کوشیش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے ۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور فاسق کہا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے ۔ یہ پھونک رہا تھا پس آپ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا ۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا ۔ حضرت عطیہ عوفی کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لئے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا ۔ ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافربادشاہ کے انگوٹھے پر آپڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جسے روئی جل جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یوں اپنی حجت تمام کردی اور ان کی ضلالت و حماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کردیا کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بےنور کردیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آجاتے، الٹا ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انھیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کردی، چناچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کہا جاتا ہے کہ منجنیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ، ٹھنڈی کے ساتھ ' سلامتی ' نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] عقلی میدان میں جب قوم حضرت ابراہیم کے سامنے نادم اور لاجواب ہوگئی تو اب && ڈنڈے کے استعمال && کی باتیں ہونے لگیں۔ اور جہلاء کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جب دلیل و حجت کے میدان میں پٹ جائیں تو ضد بازی پر اتر آتے ہیں اور انہی اکثریت کے بل بوتے پر قوت کے استعمال پر اتر آتے ہیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ حضرت ابراہیم کا باپ آزر خود بت تراش، بت فروش اور عراق کے بادشاہ نمرود کا درباری مہنت تھا۔ اب اگر وہ حضرت ابراہیم کی بات مانتا تو اس کا روزگار۔ اس کی آمدنی کے ذرائع اور دربار میں اس کا مرتبہ و مقام سب کچھ ختم ہوتا تھا۔ لہذا قوم کے لوگوں سے بڑھ کر آزر ہی حضرت ابراہیم اور آپ کے دین کا دشمن بن گیا تھا۔ اب ان لوگوں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ جیسے بھی ہوسکے اپنے مشکل کشاؤں کی عزت اور بھرم کو بچاؤ اور اس کا بہتر حل ہے کہ ابراہیم کو بھڑکتی آگ میں جلا کر اسے صفحہ ہستی سے ختم کردو۔ چناچہ اس غرض کے لئے سرکاری سطح پر ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور ایک فلاخن کے ذریعہ حضرت ابراہیم کو اس کے اندر پھینک دیا گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ : یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا تو نیکی اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے۔ بدی کے غلبے کی صورت میں جب اس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی اور وہ مکمل طور پر لاجواب ہوجاتا ہے تو اپنے مخالف کو دھمکیاں دیتا ہے۔ دیکھیے نوح (علیہ السلام) کی قوم (شعراء : ١١٦) ، ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے والد کی دھمکی (مریم : ٤٦) ، لوط (علیہ السلام) کی قوم (شعراء : ١٦٧) ، شعیب (علیہ السلام) کی قوم (اعراف : ٨٨) ، فرعون کی موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی (شعراء : ٢٩) اور جادوگروں کو دھمکی (شعراء : ٤٩) ۔ پھر اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے لاجواب کردینے والے حریف کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بھی جب دلیل میں ہر طرح لاجواب ہوگئی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی جان کے درپے ہوگئی۔ مشورہ ہوا کہ اسے قتل کر دو یا جلا دو ۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٢٤) آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ اپنے معبودوں کا انتقام لینے کی اور ان کی نصرت کی یہی صورت ہے کہ اسے جلا کر راکھ بنادو ۔ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : یہ الفاظ ان کے ضمیر کی کشمکش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اول تو ابراہیم کو نقصان پہنچانے والے تمہارے کسی اقدام کا کوئی جواز نہیں۔ دلیل کا جواب دلیل ہے، مار ڈالنا نہیں، لیکن اگر تمہارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اور تم نے ضرور ہی اس کے خلاف کچھ کرنا ہے تو پھر معمولی سزا مت سوچو۔ اپنے معبودوں کی مدد کرتے ہوئے اس کا قصہ نہایت عبرت ناک سزا کے ساتھ ختم کرو، تاکہ آئندہ کوئی اس بحث کی جرأت ہی نہ کرے۔ (بقاعی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا حَرِّقُـوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِہَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ۝ ٦٨ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء : إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم . ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) ان کا سردار نمرود یہ سن کر کہنے لگا کہ نعوذ باللہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا دو اور ان سے اپنے معبودوں کا بدلہ لینے لیے اگر تمہیں کچھ کرنا ہو تو بس ان کو آگ میں ڈال دو ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِہَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ) ” چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں ڈال دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٨۔ ٧٠:۔ جب عقلی حجت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے باپ نمردو اور نمرود کے ساتھ کے لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) پر غالب نہ آسکے تو اس وقت ان سب لوگوں نے صلاح کر کے یہ بات نکالی کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیں۔ اس قصہ کے وقت حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی عمر سولہ برس ٢ ؎ تھی۔ تفسیر سدی ٣ ؎ میں ہے کہ وہ لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے کو ایسا اچھا سمجھتے تھے کہ ایک عورت بھی ان لوگوں میں بیمار ہوتی تھی تو یہ نذر مانتی تھی کہ اگر وہ اچھی ہوجائے گی تو ایک گٹھا لکڑیوں کا اس انبار میں ڈلوا دے گی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ١ ؎ ہے کہ جب یہ لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا قصد کر رہے تھے تو جو فرشتہ مینہ برسانے پر تعینات ہے اس کو گمان تھا کہ اللہ کا حکم اسی فرشتہ کو اس آگ کو بجھانے کا ہوگا لیکن اللہ کا حکم کسی ذریعہ کا محتاج نہیں ‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے خود آگ نے پانی کا کام دیا کیونکہ جس طرح پانی سے باغ سرسبز ہوتا ہے اسی طرح آگ سے گلزار قائم ہوگیا اور تمام روئے زمین کی آگ اس روز بجھ گئی اور اگر اللہ تعالیٰ اس طرح آگ کے ٹھنڈے ہونے کا حکم دیتا ‘ جس میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی صحت وسلامتی کے باقی رہنے کا ذکر نہ ہوتا تو بلاشک اس روز حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ کی ٹھنڈک سے تکلیف اٹھانی پڑتی ‘ تفسیر ابن ابی حاتم میں روایت ٢ ؎ ہے کہ چالیس روز تک حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اس آگ میں رہے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے کہ ان دنوں سے زیادہ آرام کے دن میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھے ‘ نمرود نے ایک اونچا محل اس آگ کا تماشہ دیکھنے کو بنایا تھا۔ جب نمرود نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) صحیح وسالم اس آگ میں بیٹھے ہیں تو اس نے چلا کر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے کہا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) بیشک تمہارا خدا بڑا قدرت والا ہے جس نے تم کو آگ میں جلنے نہیں دیا ‘ میں بھی تمہارے خدا کے نام کی قربانی کروں گا۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے جواب دیا کہ جب تو بت پرستی چھوڑے گا ‘ اس وقت تیری قربانی قبول ہوگی ‘ نمرود نے کہا یہ تو مجھ سے نہ ہو سکے گا ‘ اسی طرح آزر اور اور لوگ بھی یہ حال دیکھ کر خدا کی قدرت کے قائل ہوئے مگر ایمان نہ لائے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے ‘ کہ اس قصہ کے بعد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ملک شام کو چلے گئے ‘ بخاری ومسلم میں ام شریک (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے کہ روئے زمین پر جس قدر جانور ہیں سب نے اپنے مقدور کے موافق حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی آگ بجھانے کی کوشش کی مگر گرگٹ اس ارادہ سے پھونکیں مارتا تھا کہ وہ آگ اور بھڑک جاوے ‘ اس واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرگٹ کے مارنے کا حکم دیا۔ حضرت عائشہ (رض) نے ایک برچھی اپنے گھر میں اس غرض سے رکھی تھی کہ اس برچھی سے وہ گرگٹ کو مارا کرتی تھیں ‘ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بخاری میں یہ بھی روایت ٤ ؎ ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ پڑھ رہے تھے اور جنگ احد سے واپس ہونے اور پھر دوبارہ لڑائی کے ارادہ سے مدینہ منورہ سے نکلنے کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں نے جب مشرکین کی بڑی بھاری فوج کے اکٹھے ہونے کی خبر دی تو آپ نے بھی یہی کلمے پڑھے تھے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ نمرود اور اس کے ساتھیوں نے مشورہ کر کے یہ بات قراردی کہ اگر اپنے ٹھاکروں کا بدلہ لینا منظور ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا دیا جائے یہاں اس قصہ کو مختصر طور پر فرمایا ہے۔ سورة والصافات میں ذکر ہے کہ ان لوگوں نے ایک چنار دیواری کے اندر آگ جلائی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں ڈالا ‘ آگے فرمایا اللہ کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی ‘ اور اللہ کے رسول ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ سے کچھ نقصان نہیں پہنچا ‘ بلکہ ان لوگوں کا ایندھن کا خرچ آگ جلانے کی محنت سب کچھ رائیگاں گیا جس سے یہ لوگ نقصان میں رہے علاوہ اس نقصان کے پہلے پانچ ہزار گز کی اونچی عمارت کے گر پڑنے سے اور پھر مچھروں کے عذاب سے نمرود اور اس کا لشکر جو ہلاک ہوا ‘ یہ نقصان بھی ان لوگوں کو پہنچا ‘ تفسیر مقاتل تفسیر عبدالرزاق اور تفسیر ابن ابی حاتم کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور زید بن اسلم کی روایتوں کے حوالہ سے یہ قصہ سورة الخل میں گزرچکا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے اور جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ چار سو برس تک اللہ تعالیٰ نے نمرود کو مہلت دی لیکن جب وہ اتنی مہلت میں اپنی سرکشی سے باز نہ آیا تو مع اپنے لشکر کے بڑی ذلت سے ہلاک ہوگیا۔ اس قصہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مخالفت کا انجام قریش کو سمجھایا تھا لیکن بارہ تیرہ برس کی مہلت میں جب ان میں کے سرکش لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے باز نہ آئے تو یہی انجام ان کا ہوا کہ بدر کی لڑائی میں یہ لوگ بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوئے جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ (٢ ؎ الدرالمنثور ص ٣٢٣ ج ٢ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٨٣ ج ٣۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٨٤ ج ٣ ) (٢ ؎ ایضا ) (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٦١ باب مایحل ٢ کلہ وما یحرم و تفسیر ابن کثیرص ١٨٤ ج ٣۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری ص ٦٥٥ ج ٢ کتاب التفسیر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا۔۔۔۔۔۔۔ فعلین (٨٦) ” ‘۔ کیا ہی زبردست خدا ہیں کہ بیچاروں کی نصرت ان کے پجاری کررہے ہیں ‘ وہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک ہی نہیں۔ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں ‘ نہ اپنے بندوں کی۔ انہوں نے تو یہ حکم دیا کہ اسے جلا دو لیکن دوسری جانب سے بھی ایک حکم صادر ہوا ‘ یہ اصل حاکم مطلق کا حکم تھا ‘ اس نے پہلے حکم کو باطل کردیا۔ قلنا ینار کونی بردا وسلم ا علی ابرھیم (٩٦) ” ہم نے کہا ” اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر “۔ چناچہ ان کا جلایا وہا الائو ابراہیم کے لیے ٹھنڈا بھی ہوگیا اور ان کے لیے سلامتی کا موجب بنا ‘ یہ کیسے ؟ یہ سوال صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) والے الائو کے بارے میں کیوں پیدا ہو رہا ہے ؟ لفظ کن اور کونی سے یہ کائنات وجود میں آگئی ‘ بڑے بڑے جہاں پیداہو گئے۔ انما امرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیکون (٦٣ : ٢٨) ” اس کا حکم یہ ہے کہ اس نے جب کسی چیز کا ارادہ کیا تو صرف یہ کہتا ہے کن تو ہوجاتی ہے “۔ اس لیے ہم یہ سوال کرتے ہی نہیں کی آگ نے کس طرح نہ جلایا ‘ حالانکہ مشہور اور معروف اور زیر مشاہدہ طریقہ تو یہ ہے کہ آگ زندہ جسموں کو جلا دیتی ہے۔ جب ذات باری نے آگ سے کہا کہ جلائو تو وہ جلانے لگی۔ اس ذات نے اسے کہا کہ نہ جلائو اور سرد ہو جائو تو وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی۔ دونوں کلمات کا فرق صرف یہ ہے کہ ایک نتیجے کے ہم عادی ہیں اور دوسرے نتیجے کے ہم عادی نہیں۔ جو لوگ اللہ کے افعال کو انسانی افعال پر قیاس کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ اور کیسے ممکن ہوا ؟ لیکن جو لوگ اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ اللہ میں اور انسانوں میں فرق ہے ‘ تو ان کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہ ایسے واقعات کی علتیں تلاش نہیں کرتے۔ خواہ یہ علت سائنسی ہو یا غیر سائنسی ہو۔ کیونکہ یہ مسئلہ امر الہٰی کا ہے علت اور اسباب کا نہیں ہے ‘ خصوصاً انسانی پیمانوں کے مطابق سبب و مسبب کی تلاش کا نہیں ہے۔ معجزات کے سلسلے میں جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر سائنسی پیمانوں یعنی علت و معلول (Cause and Effect) کے زاویہ سے کرتے ہیں وہ غلط لائن پر جاتے ہیں۔ معجزات کی تفسیر یہی ہے کہ ان کو امر الہٰی کے حوالے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے افعال کو ان پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا جن سے ہم انسانی پیمانوں کو ناپتے ہیں۔ ہمیں چاہیے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے کہ ہم ان واقعات پر ایمان لائیں ‘ کیونکہ اللہ خالق اور صانع ہے اور ایک صانع اپنی مصنوعات کو جس طرح چاہے بنا سکتا ہے۔ یہ کیونکر ہوا کہ آگ سرد ہوگئی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صحیح و سلامت رہ گئے۔ قرآن کریم نے اس کی کوئی تشریح و تعلیل نہیں کی ہے کیونکہ ہم اپنے انسانی قوائے مدرکہ کے ساتھ اس چیز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا نص قرآن کے سوا ہمارے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو ٹھنڈا کردیا گیا اس کی مثالیں اس دنیا میں بھی واقعہ ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کا ہم نوٹس نہیں لیتے جس طرح اس اہم واقعہ کا نوٹس تاریخ نے لے لیا۔ تاریخ انسانی میں افراد پر اور جماعتوں پر اس سے بھی بڑے بڑے مظالم ہوتے رہے ہیں۔ اتنے ہولناک اور خوفناک مظالم کہ ان سے زندہ بچنے اور صحیح سلامت باہر آنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی لوگ نکل آتے ہیں۔ مظالم اور تشدد کی بڑے بڑے الائو جلائے جاتے ہیں اور ان میں ان لوگوں کو ڈالا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ زندہ بچ نکلتے ہیں اور مظالم اور تشدد کا یہ الائو ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ یہ الائو بظاہر تو بہت بڑا شر ہوتا ہے لیکن ان مظلوموں کے لیے وہ بہت بڑا خیر بن جاتا ہے۔ یہ معجزہ ہے کہ ” اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے “۔ افراد ‘ جماعتوں اور قوموں کی زندگی میں بار بار دہرای جاتا ہے ‘ خصوصاً افکار ‘ عقائد اور تحریکات کے زاویہ سے جب امرالہٰی آتا ہے تو انسانی اقوال باطل ہوجاتے ہیں۔ تمام سازشیں ختم ہوجاتی ہیں کیونکہ امرا لہٰی برتر حکم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” قَالپوْا حَرِّقُوْهُ الخ “ جب مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مدلل گفتگو کے سامنے مبہوت و لاجواب ہوگئے تو اب اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے جیسا کہ باطل پرستوں کا دستور ہے اور آپس میں طے کیا کہ ابراہیم نے چونکہ ان کے معبودوں کی توہین کی ہے اور انہیں ذلیل و رسوا کیا ہے اس لیے اس فعل کی اس کو سزا دینی چاہئے اور اسے جلا کر خاک کردینا چاہئے۔ لما عجزوا عن الحاجۃ وضاقت بھم الحیل وھذا ؟ ؟ المبطل المحجوج ازبھت بالحجۃ وکانت لہ قدرۃ یفزع الی المناصیۃ (روح ج 17 ص 67) ۔ ” وَانْصُرُوْا اٰلِھَتَکم “ بتحریق ابراہیم لانہ یسبھا ویعیبھا (قرطبی ج 11 ص 303) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(68) وہ مشرک آپس میں کہنے لگے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کا بدلہ لو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو یہ کرو۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا کر ختم کردو اور اپنے ٹھاکروں کی مدد کرو کیونکہ یہ تو کچھ کر ہی نہیں سکتے اور چونکہ ان کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی گستاخی کی ہے اس لئے اس سے بدلہ لو اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو بس یہ کام کرو۔ چناچہ یہی طے ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کے لئے ایندھن جمع کیا گی ایک احاطہ بنوایا گیا۔ آگ روشن کی گئی جب شعلے بھڑک گئے تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق میں بٹھا کر اس آگ میں ڈالا گیا آگ کی تیزی اور لپٹ کی وجہ سے کوئی آگ کے قریب نہ جاسکتا تھا۔