How Ibrahim was thrown into the Fire and how Allah controlled it
When their arguments were refuted and their incapability became clear, when truth was made manifest and falsehood was defeated, they resorted to using their power and strength, and;
قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا الِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
They said: "Burn him and help your gods, if you will be doing."
So they gathered together a huge amount of wood.
As-Suddi said,
"I if a woman was sick, she would make a vow that if she recovered she would bring wood to burn Ibrahim. Then they made a hole in the ground and set it aflame, and it burned with huge sparks and immense flames. There had never been a fire like it. They put Ibrahim, peace be upon him, into a catapult, at the suggestion of a nomadic Kurdish man from Persia."
Shu`ayb Al-Jaba'i said,
"His name was Hayzan, and Allah caused the earth to swallow him up, and he will remain sinking into it until the Day of Resurrection.
When they threw him he said, `Sufficient for me is Allah, and He is the best disposer of affairs."'
This is similar to what Al-Bukhari recorded from Ibn Abbas that Ibrahim said,
"`Sufficient for me is Allah, and He is the best disposer of affairs,"
when he was thrown into the fire, and Muhammad said it when they said:
إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَـناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
Verily, the people have gathered against you, therefore, fear them. But it increased them in faith, and they said: "Allah is sufficient for us, and He is the best disposer of affairs." (3:173)
Sa`id bin Jubayr reported that Ibn Abbas said:
"When Ibrahim was thrown into the fire, the keeper (angel) of the rain said: `When will I be commanded to send rain.' But the command of Allah was more swift.
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ
آگ گلستان بن گئی
یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے ۔ یہاں ان لوگوں کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آکر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے ۔ اس بات پر سب نے اتفاق کرلیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کردیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفا ہوجائے تو ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی ۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا لکڑیوں سے پر کیا اور انبار کھڑا کرکے اس میں آگ لگائی روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی ۔ جب أگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اس کے پاس جانا محال ہوگیا اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے؟ آخر ایک کردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بیٹھا کر جھولا کر پھنک دو ۔ مروی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے ۔ جب آپکوآگ میں ڈالا گیا آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ کے مقابلے کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے بھی یہی پڑھا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں ۔ مروی ہے کہ جب کافر آپ کو باندھنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تیری ذات پاک ہے تمام حمدوثنا تیرے ہی لئے سزاوار ہے ۔ سارے ملک کا تو اکیلاہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک وساجھی نہیں ۔ حضرت شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آسمان وزمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟ آپ نے جواب دیا تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کردوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ میرے خلیل پر سلامتی اور ٹھنڈک بن جا ۔ فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی ۔ حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ کو ضرر پہنچاتی اس لئے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑا گڑھا بہت ہی گہرا کھودا تھا اور اسے آگ سے پر کیا تھا ہر طرف آگ کے شعلے نکل رہے تھے اس میں خلیل اللہ کو ڈال دیا لیکن آگ نے آپ کو چھوا تک نہیں یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اسے بالکل ٹھنڈا کردیا ۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے آپ کے منہ پر سے پسینہ پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آپ کو آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی ۔ سدی فرماتے ہیں سایہ یافرشتہ اس وقت آپ کے ساتھ تھا ۔ مروی ہے کہ آپ اس میں چالیس یا پچاس دن رہے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے اس وقت آپ کو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ کے والد نے کہا ابراہیم تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن جو جانور نکلا وہ آپ کی آگ کو بجھانے کی کوشیش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے ۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور فاسق کہا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے ۔ یہ پھونک رہا تھا پس آپ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا ۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا ۔ حضرت عطیہ عوفی کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لئے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا ۔ ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافربادشاہ کے انگوٹھے پر آپڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جسے روئی جل جائے ۔