Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 70

سورة الأنبياء

وَ اَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلۡنٰہُمُ الۡاَخۡسَرِیۡنَ ﴿ۚ۷۰﴾

And they intended for him harm, but We made them the greatest losers.

گو انہوں نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کا برا چاہا ، لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And they wanted to harm him, but We made them the worst losers. they were defeated and humiliated, because they wanted to plot against the Prophet of Allah, but Allah planned against them and saved him from the fire, and thus they were defeated.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یعنی مشرک تو اپنے معبودوں کی گستاخی کا اس صورت میں بدلہ لینے چاہتے تھے کہ ابراہیم کو اذیت دہ موت سے دوچار کرکے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیں۔ لیکن آپ کا آگ کے درمیان رہ کر کئی دنوں کے بعد زندہ سلامت نکل آنا ساری قوم کے لئے ایک نیا چیلنج بن گیا اور انھیں معلوم ہوگیا کہ ابراہیم کو نقصان پہنچانا ان کے بس سے باہر ہے۔ اور یہ بات ان کے لئے اور بھی زیادہ دل شکنی کا باعث بن گئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا ۔۔ : ” الْاَخْسَرِيْنَ “ اگرچہ اسم تفضیل ہے، مگر یہاں کسی سے زیادہ خسارا اٹھانے والے مراد نہیں، بلکہ یہ خاسرین میں مبالغہ ہے، اس لیے ترجمہ ” انتہائی خسارے والے “ کیا گیا ہے۔ اگر تفضیل کا معنی لیں تو ” أَخْسَرِیْنَ مِنْ کُلِّ خَاسِرٍ “ مراد ہوگا، یعنی ہر خسارے والے سے زیادہ خسارے والے۔ ” كَيْدًا “ خفیہ تدیبر کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کفار نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کی سازش ان سے خفیہ رکھی تھی۔ شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ (ابن عاشور) ” فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِيْنَ “ میں ” ھُمْ “ اور ” الْاَخْسَرِيْنَ “ دونوں کے معرفہ ہونے سے قصر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ بس وہی انتہائی خسارے والے ہوئے، ابراہیم (علیہ السلام) کو ذرہ بھر خسارا نہیں ہوا۔ انھیں خسارے والے (ناکام) اس لیے قرار دیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی کسی بھی دلیل کا جواب نہ دے سکے جس کے ساتھ انھوں نے سورج، چاند اور ستاروں کو بےبس ثابت کیا، یا جس کے ساتھ انھوں نے بادشاہ کا بےاختیار ہونا ثابت کیا، یا بتوں کا معبود نہ ہونا ثابت کیا۔ پھر نہ ان سے بت توڑنے کا انتقام لے سکے اور نہ انھیں آگ میں جلا سکے، بلکہ وہ سب کچھ جو انھوں نے انھیں سزا دینے کے لیے تیار کیا تھا ان کے لیے معجزہ اور ان کی عظمت شان کا باعث بن گیا اور انتہائی خسارا یہ کہ اس واقعہ کے بعد اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا، جیسا کہ سورة حج میں ان قوموں کا ذکر فرمایا جن پر اللہ کا عذاب آیا، تو ان میں قوم ابراہیم کا بھی ذکر ہے، آخر میں فرمایا : (فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ ۚ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ ) [ الحج : ٤٤ ] ” تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو میرا عذاب کیسا تھا ؟ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَرَادُوْا بِہٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِيْنَ۝ ٧٠ۚ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) ان لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کی کارروائی کی تھی سو ہم نے ان ہی لوگوں کو ذلیل ورسوا کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا ) ” ان الفاظ پر میں ایک طویل عرصے تک غور کرتارہا کہ اس سارے منصوبے میں ان کی ” چال “ آخر کون سی تھی مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر یکایک ذہن اس خیال کی طرف منتقل ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ لوگ درحقیقت ڈرانا چاہتے تھے ‘ جلانا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے آپ ( علیہ السلام) کو آپ ( علیہ السلام) کے موقف سے ہٹانے کے لیے انتہائی خوفناک دھمکی دی تھی (حَرِّقُوہُ ) کہ اسے جلا ڈالو ! ان کا خیال تھا کہ ابھی تو یہ بڑے بہادر بنے ہوئے ہیں ‘ بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں ‘ مگر جب انہیں آگ کے ہیبت ناک الاؤ کے سامنے لے جا کر کھڑا کیا جائے گا تو ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے ‘ اور آپ ( علیہ السلام) جان بچانے کے لیے توبہ پر آمادہ ہوجائیں گے۔ یوں انہوں نے آپ ( علیہ السلام) کے خلاف چال چلی مگر یہ چال انہیں الٹی پڑگئی۔ ؂ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی ! (فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیْنَ ) ” وہ اپنی چال میں ناکام ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:70) کیدا۔ بری تدبیر (ملاحظہ ہو 21:57) ۔ الاخسرین۔ زیادہ نقصان میں رہنے والے۔ زیادہ گھاٹا پانے والے۔ اخسر کی جمع۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کہ ان کا مقصود حاصل نہ ہوا، بلکہ اور بالعکس حقانیت ابراہیم (علیہ السلام) کا زیادہ ثبوت ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے سلامت نکل کر ہجرت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (فَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَسْفَلِیْنَ ) [ الصّٰفٰت : ٩٨] ” وہ چاہتے تھے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو مار دیں لیکن ہم نے ان کو بری طرح ذلیل کردیا۔ “ (وَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَخْسَرِیْنَ ) [ الانبیاء : ٧٠] ” انہوں نے ابرا ہیم (علیہ السلام) کو ما رناچا ہا لیکن ہم نے ان کو ناکام کردیا۔ “ اہل ایمان کے لیے اس واقعہ میں بہت سے اسباق عبرت ہیں۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے باپ اور دو سرے لوگوں نے نیچا دکھا نے کی کوشش کی لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کامیاب اور دوسرے ناکام رہے۔ حتی کہ انہوں نے آگ میں جانا قبول کرلیا۔ مگر نظریہ توحید کو نہ چھو ڑا۔ اے اہل ایماں اگر تم بھی سچی بات پر قائم رہو تو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ نا معلوم آگ سے نکلنے کے بعد ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کتنی مدت تک تبلیغ کا کام کیا۔ جو بات انہوں نے آگ سے نکل کر لوگوں کے سامنے رکھی قرآن کے الفاظ میں پڑھیے۔ (وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُون اللّٰہِ أَوْثَانًا مَوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ نَاصِرِیْنَ ) [ العنکبوت : ٢٥] ” ابراہیم نے ان سے کہا تم نے دنیا کی زندگی میں اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو آپس میں محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ مگر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے۔ تمہارا ٹھکانہ آگ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کرتے ہیں : صاحب قصص القرآن نے لکھا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے دوران ہجرت پہلا قیام کلدانین میں فرمایا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد آپ ( علیہ السلام) بمعہ حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے حاران نامی بستی میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ (علیہ السلام) کچھ عرصہ تک حاران نامی بستی میں ٹھہرے۔ یہاں بھی دین حنیف کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ بالآخر آپ اپنی رفیقہ حیات اور بھتیجے کے ساتھ ارض فلسطین میں تشریف لے گئے۔ یہی وہ سر زمین ہے جسکی روحانی ومادی برکات دنیا میں مسلمہ ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں اتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) نہیں ہوئے۔ آج بھی اس ارض فلسطین میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک اکثر انبیاء کرام (علیہ السلام) آرام فرما ہیں۔ فلسطین میں قیام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بھتیجے جناب لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن میں تبلیغ کے لیے مقرر فرمایا اور فلسطین کے مغربی اطراف میں خود سکونت پذیر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے کے بعد آپ (علیہ السلام) مصر کی طرف چلے گئے۔ (از قصص القرآن) نازک ترین آزمائش : ہجرت کے سفر میں آپ ( علیہ السلام) کو اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جس سے شاید صرف اور صرف ابراہیم (علیہ السلام) کو سابقہ پڑا۔ یعنی عزت وناموس کی آزمائش۔ بادشاہ نے آپ کی حرم پاک پر دست درازی کرنے کی ناپاک کوشش کی۔ حضرت امام بخاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس الم ناک واقعہ کو صحیح بخاری میں نقل فرمایا۔ یہ ایسی آزمائش ہے کہ اس موقع پر بڑے بڑے لوگوں کے اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں لیکن خلیل خدا ( علیہ السلام) بڑے حوصلہ کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کو ایک تجویز سمجھاتے ہیں۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی رفیقہ حیات حضرت سارہ اللہ کے فضل وکرم سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ بے حیا ظالم اور بےشرم بادشاہ اپنے آپ میں ذلیل ہوا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو راضی کرنے کے لئے اپنی بیٹی آپ کے ہمراہ کردی۔ تفصیل کے دیکھیں۔ (بخاری : باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ظالم قوم سے نجات دی۔ ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی بیوی حضرت سارہ (علیہ السلام) اور ان کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ہجرت کی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وارا دوا بہ کیدا فجعلنہم الاخسرین (٠٧) ” ‘۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معاصر بادشاہ کا نام نمرود تھا۔ وہ عراق کے آرامیوں کا بادشاہ تھا۔ وہ اور اس کے سردار عذاب الہی سے ہلاک کردیئے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات میں روایات کا اختلاف ہے اور ہمارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے ہم حقیقت کو پاسکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس سازش سے بچا لیا جو انہوں نے ان کے خلاف تیار کی تھی اور سازش کرنے والے خسارے میں رہے۔ ان کو کیا خسارہ ہوا اس کا ذکر یہاں نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(70) اور ان مشرکوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ فریب کا ارادہ کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کا برا چاہا اور ان کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا مگر ہم نے انہی مشرکوں کو ناکام کردیا اور ان کو نقصان میں ڈال دیا۔ یعنی انہوں نے ہمارے خلیل کے ساتھ بری چال چلنی چاہی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا لیکن ان کا کید اور مکر خود ان پر الٹ گیا اور ان کو نقصان اٹھانے والے خسارہ پانے والے ہم نے بنادیا اور ان کو ہلاک ہونے والوں میں سے کردیا نمرود جیسے جابر کی حکومت ختم کردی گئی اور ان پر مچھروں کا عذاب مسلط کردیا گیا۔