Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 72

سورة الأنبياء

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَ یَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ ﴿۷۲﴾

And We gave him Isaac and Jacob in addition, and all [of them] We made righteous.

اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا اور یعقوب اس پر مزید اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ... And We bestowed upon him Ishaq, and Ya`qub Nafilatan. Ata' and Mujahid said, "Nafilatan means as a gift." Ibn Abbas, Qatadah and Al-Hakam bin `]Uyaynah said, "The gift of a son who has a son," meaning that Yaqub was the son of Ishaq, as Allah says: فَبَشَّرْنَـهَا بِإِسْحَـقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَـقَ يَعْقُوبَ But We gave her glad tidings of Ishaq, and after Ishaq, of Yaqub. (11:71) Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "He asked for one (son), and said, رَبِّ هَبْ لِى مِنَ الصَّـلِحِينِ "My Lord! Grant me from the righteous." (37:100) So Allah gave him Ishaq, and gave him Yaqub in addition. ... وَكُلًّ جَعَلْنَا صَالِحِينَ Each one We made righteous. means, both of them were good and righteous people.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 نَا فِلَۃ، زائد کو کہتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو صرف بیٹے کے لئے دعا کی تھی، ہم نے بغیر دعا مذید پوتا بھی عطا کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ ۭ وَيَعْقُوْبَ نَافِلَةً :” نَافِلَةً “ کا معنی زائد عطیہ ہے۔ اس آیت کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ ہم نے اسے اسحاق عطا کیا اور زائد انعام کے طور پر یعقوب (پوتا) عطا کیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب دونوں زائد انعام کے طور پر عطا کیے۔ مفسر ابن عاشور (رض) نے اس کی بہت عمدہ توجیہ فرمائی ہے کہ سورة صافات (١٠٠) میں مذکور ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : (رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ )” اے میرے رب ! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو۔ “ فرمایا : (فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ ) [ الصافات : ١٠١ ] ” تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ “ یہ بردبار لڑکا اسماعیل (علیہ السلام) تھے جن کی قربانی کا واقعہ بھی اس مقام پر مذکور ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا تو اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت سے قبول ہوگئی تھی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) جو عطا کیے تو وہ بغیر دعا اور بغیر امید کے عطا فرمائے، اس لیے دونوں کو زائد عطیہ قرار دیا جو اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد بلاطلب عطا ہوئے۔ دونوں کی خوش خبری بھی اکٹھی دی گئی تھی : (فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) [ ھود : ٧١ ] ” تو ہم نے اس (سارہ) کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ “ ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْن : ” كُلًّا “ سے مراد ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ آخری بات انھی کی ذکر ہوئی ہے۔ لوط (علیہ السلام) کا ذکر ابراہیم (علیہ السلام) کی معیت کے طور پر آیا ہے، ان کا الگ ذکر آگے آ رہا ہے۔ [ التحریر والتنویر ] ” صٰلِحِيْنَ “ صلاح فساد کی ضد ہے۔ ” صَلَحَ “ (ف، ک) درست ہونا، یعنی ہم نے ان تمام پیغمبروں کو درست عقیدے اور درست عمل والا اپنا مکمل فرماں بردار بنایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً (And We blessed him with Ishaq and Ya` qub as gift - 21:72) That is, Allah Ta` la had bestowed upon him the son Ishaq (علیہ السلام) as per his supplication and in addition to that a grandson Ya` qub (علیہ السلام) as a gift. This is why he is referred to as نَافِلَةً nafilah which originally means &extra&.

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ ۭ وَيَعْقُوْبَ نَافِلَةً یعنی ہم نے عطا کردیا اس کو بیٹا اسحاق (ان کی دعا درخواست کے مطابق) اور اس پر زیادہ دے دیا پوتا یعقوب (علیہ السلام) یعنی دعا تو صرف بیٹے کے لئے تھی اللہ نے اپنے فضل سے بیٹا بھی دیا پھر اس سے پوتا بھی اپنی طرف سے زائد عطا فرما دیا اسی لئے اس کو نافلہ کہا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ۝ ٠ۭ وَيَعْقُوْبَ نَافِلَۃً۝ ٠ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْنَ۝ ٧٢ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ نفل النَّفَلُ قيل : هو الغَنِيمَةُ بعَيْنِهَا لکن اختلفتِ العبارةُ عنه لاختلافِ الاعْتِبَارِ ، فإنه إذا اعتُبِر بکونه مظفوراً به يقال له : غَنِيمَةٌ ، وإذا اعْتُبِرَ بکونه مِنْحَةً من اللہ ابتداءً من غير وجوبٍ يقال له : نَفَلٌ ، ومنهم من فَرَقَ بينهما من حيثُ العمومُ والخصوصُ ، فقال : الغَنِيمَةُ ما حَصَلَ مسْتَغْنَماً بِتَعَبٍ کان أو غَيْرِ تَعَبٍ ، وباستحقاقٍ کان أو غيرِ استحقاقٍ ، وقبل الظَّفَرِ کان أو بَعْدَهُ. والنَّفَلُ : ما يَحْصُلُ للإنسانِ قبْلَ القِسْمَةِ من جُمْلَةِ الغَنِيمَةِ ، وقیل : هو ما يَحْصُلُ للمسلمین بغیر قتالٍ ، وهو الفَيْءُ «2» ، وقیل هو ما يُفْصَلُ من المَتَاعِ ونحوه بَعْدَ ما تُقْسَمُ الغنائمُ ، وعلی ذلک حُمِلَ قولُه تعالی: يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِ الآية [ الأنفال/ 1] ، وأصل ذلک من النَّفْلِ. أي : الزیادةِ علی الواجبِ ، ويقال له : النَّافِلَةُ. قال تعالی: وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء/ 79] ، وعلی هذا قوله : وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء/ 72] وهو وَلَدُ الوَلَدِ ، ويقال : نَفَلْتُهُ كذا . أي : أعطيْتُهُ نَفْلًا، ونَفَلَهُ السّلطانُ : أعطاه سَلَبَ قَتِيلِهِ نَفْلًا . أي : تَفَضُّلًا وتبرُّعاً ، والنَّوْفَلُ : الكثيرُ العَطَاءِ ، وانْتَفَلْتُ من کذا : انْتَقَيْتُ منه . ( ن ف ل ) النفل بعض کے نزدیک نفل اور غنیمت ایک ہی چیز کے دونام ہیں ان میں صرف اعتباری فرق ہے اس لحاظ سے کہ وہ فتح کے بعد چھینا ہوا مال ہوتا ہے اسے غنیمت کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا غیر لازم ہونے کے لحاظ نفل کہلاتا ہے ۔ بعض کے نزدیک ان میں نسبت عموم وخصؤص مطلق ہے یعنی غنیمت عام ہے اور ہر اس مال کو کہتے ہیں جو لوٹ سے حاصل ہو خواہ مشقت سے ہو یا بلا مشقت کے فتح سے قبل حاصل ہو یا بعد میں استحقاق سے حاصل ہو یا بغیر استحقاق کے اور نفل خاض کر اس مال کو کہتے ہیں ۔ جو غنیمت سے قبل از تقسیم حاصل ہوا ہو ۔ بعض کے نزدیک نفل وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے اور اسے فے بھی کہتے ہیں اور بعض نے کہا ہے جو سامان وغیرہ تقسیم غنائم کے بعد بانٹا جاتا ہے ۔ اسے نفل کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِالآية [ الأنفال/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجاہد لوگ ) آپ سے غنیمت کے مال کے بارے میں در یافت کرتے ہیں کہ کیا حکم ہے ) اصل میں انفال نفل سے ہے جس کے معنی واجب پر زیادتی کے ہیں اور اسے نافلۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء/ 79] اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے سبب زیادہ ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل ہی اور آیت کریمہ : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء/ 72] اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کئے اور مستنراد وبر آن یعقوب ۔ میں نافلۃ بھی اسی معنی پر محمول ہے اور یہاں اس سے مراد اولاد کی اولاد ہے محاورہ ہے ۔ نقلتہ کذا میں نے اسے بطور نفل کے دیا ۔ نفلۃ السلطان بادشاہ نے اسے تبرع کے طور پر قتیل کا سامان سے دیا النوافل عطائے کثیر ۔ انتفلت من کذا میں نے اس سے چن لیا ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق بیٹا اور یعقوب پوتا عطا کیا اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں نبوت عطا کی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَط وَیَعْقُوْبَ نَافِلَۃً ط) ” اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) جیسا بیٹا اور یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا عطا فرمایا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65. That is, We made his son a Prophet and his grandson too.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :65 یعنی بیٹے کے بعد پوتا بھی ایسا ہوا جسے نبوت سے سرفراز کیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:72) نافلۃ۔ ابوحبان کے نزدیک یہ مصدر ہے جیسے عافیۃ وعاقبۃ اور وھبنا کے بعد بطور مصدر کے آنے کی وجہ سے منصوب ہے جیسے کہتے ہیں قعدت جلوسا۔ اور بمعنی عطاء فضل ہے یعنی ہم نے بطور عطاو فضل کے اس کو اسحاق اور یعقوب دئیے۔ یا نافلۃ بمعنی زیادۃ وفضلا ہے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کے لئے دعا کی تھی ہم نے اسے اسحاق بیٹا بھی دیا اور مزید برآں یعقوب بھی عطا کیا بغیر سوال کے۔ اس صورت میں نافلۃ حال ہے یعقوب سے اور بدین وجہ منصوب ہے۔ نفل عبادت کو بھی نفل اسی لئے کہتے ہیں کہ فرائج اور واجبات سے زائد اور ان کے علاوہ ہے۔ کلا۔ سب کو۔ ہر ایک کو۔ کل کو۔ جعلنا کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ۔ کل سے مراد حضرت ابراہیم حضرت اسحاق حضرت یعقوب (علیہم السلام) ہیں۔ صالحین مفعول ثانی ہے۔ ائمۃ امام کی جمع افعلۃ کے وزن پر۔ الامام جس کی اقتداء کی جائے۔ پیشوا ۔ مقتدا رہنما ام م حروف مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی جو انہوں نے مانگا نہیں تھا لیکن ہم نے اپنی طرف سے مزید انعام کے طور پر دیا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دعا تھی بیٹے ہی کی انعام میں دیا پوتا۔ (موضح) مگر اقرب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” نافلۃ “ کا تعلق دونوں سے ہو (کبیر) 7 ۔ یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ، لوط ( علیہ السلام) ، اسحاق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) سب کو اپنا مطیع فرمانبردار بنایا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اعلی درجہ کی نیکی کا مصداق عصمت ہے جو بشر میں خواص نبوت سے ہے، پس مراد یہ ہے کہ ان سب کو نبی بنایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سفر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنا ملک، گھر بار، باپ اور اپنی قوم کو چھوڑا تو اس وقت ان کو بڑی شدت کے ساتھ یہ کمی محسوس ہوئی۔ کہ اے اللہ اگر یہ قوم تیرے دین کو نہیں مانتی تو کم از کم نیک اولاد عنایت کردے۔ جو میرا سہارا اور غمخوار بننے کے ساتھ ساتھ میرے بعد تیرے دین کا پر چار کرتی رہے۔ تمام مورخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر سو سال اور آپ (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ( علیہ السلام) کی عمر نوے سال تھی۔ قرآن مجید نے ولادت اسحاق (علیہ السلام) کے سلسلے میں متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے کہ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ ” جب ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر پہنچے تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ابراہیم آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا ضیافت کے لیے لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے۔ تو وہ ان سے مشتبہ ہوگئے اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ “ [ ھود : ٦٩، ٧٠] ” اور اس کی بیوی (اس کے) پاس کھڑی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس پڑی، پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف ! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ جب کہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔ “ [ ھود : ٧١، ٧٢، ٧٣] حضرت اسحاق (علیہ السلام) : جناب اسحاق (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے تیرہ یا چودہ سال چھوٹے ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت سارہ [ بطن سے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں انہی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ اور ہم نے اس ( ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) عطا کیے اور اس کی نسل کو کتاب اور نبوت سے نوازا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شام میں پیدا ہوئے اور ایک سو اسی سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مقام جرون آپ ( علیہ السلام) کی آخری آرامگاہ ہے، جو فلسطین میں ہے۔ عظیم خانوادہ نبوت : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا۔ تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک کس کا مرتبہ زیادہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو پرہیزگار ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا ہمارا یہ مقصد نہیں پھر آپ نے ارشاد فرمایا۔ خاندانی لحاظ سے سب سے بہتر اور افضل یوسف (علیہ السلام) جو نبی تھے۔ ان کے باپ نبی (یعقوب) تھے۔ پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے باپ اسحاق (علیہ السلام) نبی تھے۔ اور ان کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) نبی خلیل اللہ تھے۔ “ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیک وقت بیٹے اور پوتے کی خوشخبری عطا فرمائی۔ ٢۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی اللہ کے پیغمبر تھے۔ ٣۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہدایت کے امام تھے۔ ٤۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ دینے والے اور نیکی کے کاموں میں پیش پیش تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عبادت گزار بندوں میں شمار فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : ١۔ ہم نے اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کو ہدایت سے نوازا۔ ( الانعام : ٨٤) ٢۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : ٤٥ تا ٤٧) ٣۔ اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) نیکوکار تھے۔ ( الانبیاء : ٧٢) ٤۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نیکوکار نبی اسحاق کی بشارت دی۔ ( الصٰفٰت : ١١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ووھبنا لہ۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدین (٢٧ : ٣٧) ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وطن ‘ اہل وطن اور قوم کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ارض مبارکہ بطور وطن عنایت فرمائی ‘ جو ان کے وطن سے زیادہ بہتر تھی ‘ اور ان کو حضرت اسحاق جیسا بیٹا اور حضرت یعقوب جیسا پوتا دیا جو بہترین ہل و عیال ثابت ہوئے۔ اور پھر ان کی اولاد سے ایک نسل کثرت سے بڑھی کہ وہ دنیا میں ایک مستقل امت بن گئی تو یہ قومچھوڑنے کا صلہ تھا اور پھر آپ کی نسل میں بڑے بڑے ائمہ پیدا ہوئے جو اللہ کے حکم سے لوگوں کو ہدایت دیتے تھے اور اللہ نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ بھلائی کے مختلف کام کریں۔ نماز قائم کریں ‘ زکوۃ دیں اور اللہ کی اطاعت اور بندگی کریں۔ چناچہ اللہ نے ان کو اس کا بہترین معاوضہ دیا اور اس کے ساتھ بہترین انعام دیا۔ ان کا خاتمہ بھی بہت اچھا ہوا کہ اللہ نے ان کو آزمایا اور انہوں نے صبر کیا اور اللہ نے ان کو صبر جمیل کا اجر دیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(72) اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحٰق (علیہ السلام) عطا کیا اور مزید برآں یعقوب (علیہ السلام) نامی پوتا بھی دیا اور ہم نے ان سب کو نکوکار بنایا۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) نام بیٹا اور یعقوب (علیہ السلام) نامی نبی رہ یعنی پوتا عطا فرمایا اور ان کو نیک کیا یعنی سب کو پیغمبر بنایا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی زمین شام جس میں آسودگی خوب ہے۔ دعا تھی بیٹے ہی کی انعا میں دیا پوتا۔ 12۔ نافلہ کے معنی غنیمت عطیہ۔ جو چیز واجب نہ ہو اور لڑکے کا لڑکا۔