Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 74

سورة الأنبياء

وَ لُوۡطًا اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا وَّ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ تَّعۡمَلُ الۡخَبٰٓئِثَ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۴﴾

And to Lot We gave judgement and knowledge, and We saved him from the city that was committing wicked deeds. Indeed, they were a people of evil, defiantly disobedient.

ہم نے لوط ( علیہ السلام ) کو بھی حکم اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات دی جہاں کےلوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے ۔ اور تھے بھی وہ بدترین گنہگار ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلُوْطًا اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کا ذکر الگ کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انھیں پہلے تینوں انبیاء کے علاقے اور قوم کے علاوہ کسی دوسرے علاقے اور قوم کی طرف بھیجا گیا تھا۔ لوط (علیہ السلام) کا قصہ سورة اعراف (٨٠) ، ہود (٨١) اور حجر (٦١) میں گزر چکا ہے۔ ان کی بستی کے خبیث اعمال کا ذکر گزشتہ سورتوں کے علاوہ سورة عنکبوت (٢٨ تا ٣٥) اور سورة قمر (٣٣ تا ٣٧) وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ اس بستی کا نام سدوم مشہور ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The name of the city from which Sayyidna Lut (علیہ السلام) was saved and which has been mentioned in these verses was Sodom. There were seven other townships under this city which were thrown upside down by Jibra&il (علیہ السلام) except one which was left intact for Lut (علیہ السلام) and his followers. (Ibn ` Abbas, Qurtubl) تَّعْمَلُ الْخَبَائِثَ (21:74) خَبَائِثَ (Khaba&ith) is the plural of خَبِئیثَہ meaning wickedness. Too many wicked things collectively are called Khaba&ith (خَبَائِثَ ). Their most abominable practice in which even the animals do not indulge, was sodomy or homosexuality. It is possible that because of its extreme wicked nature this practice is referred to as خَبَائِثَ that is in plural instead of خَبِئیثَہ in singular, as some commentators have explained. The second explanation is that the people of Sodom also indulged in other bad habits such as drinking, singing, shaving off beard, growing moustaches, wearing silk clothes, stone throwing, whistling etc. (Ruh ul-Ma` ani).

خلاصہ تفسیر اور لوط (علیہ اسلام) کو ہم نے حکمت اور علم (مناسب شان انبیاء) عطا فرمایا اور ہم نے ان کو اس بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے گندے گندے کام کیا کرتے تھے (جن میں سے سب سے بدتر لواطت تھی اور بھی بہت سے بیہودہ اور برے افعال کے یہ لوگ عادی تھی۔ شراب خوری، گانا بجانا، داڑھی کٹانا، مونچھیں بڑھانا، کبوتر بازی، ڈھیلے پھینکنا، سیٹی بجانا، ریشمی لباس پہننا، اخرجہ اسحاق بن بشر والخطیب وابن عساکر عن الحسن مرفوعا کذا فی الروح) بلاشبہ وہ لوگ بڑے بد ذات بدکار تھے اور ہم نے لوط کو اپنی رحمت میں (یعنی جن بندوں پر رحمت ہوتی ہے ان میں) داخل کیا (کیونکہ) بلاشبہ وہ بڑے (درجہ کے) نیکوں میں سے تھے (بڑے درجہ کے نیک سے مراد معصوم ہے جو نبی کی خصوصیت ہے۔ ) معارف و مسائل : حضرت لوط (علیہ السلام) کو جس بستی سے نجات دینے کا ذکر ان آیات میں آیا ہے اس بستی کا نام سَدُوم تھا اس کے تابع سات بستیاں اور تھیں جن کو جبرئیل نے الٹ کر تہہ وبالا کر ڈالا تھا صرف ایک بستی باقی چھوڑ دی تھی جس میں لوط (علیہ السلام) مع اپنے متعلقین مومنین کے رہ سکیں (قالہ ابن عباس۔ قرطبی) تَّعْمَلُ الْخَـبٰۗىِٕثَ ، خبائث خبیثہ کی جمع ہے۔ بہت سی خبیث اور گندی عادتوں کو خبائث کہا جاتا ہے۔ یہاں ان کی سب سے بڑی خبیث اور گندی عادت جس سے جنگلی جانور بھی پرہیز کرتے ہیں لواطت تھی، یعنی مرد کا مرد کے ساتھ شہوت پوری کرنا۔ یہاں اسی ایک عادت کو اس کے بڑے جرم ہونے کے سبب خبائث کہہ دیا گیا ہو تو یہ بھی بعید نہیں جیسا کہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے اور اس کے علاوہ دوسری خبیث عادتیں ان میں ہونا بھی روایات میں مذکور ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں بحوالہ روح المعانی گزر چکا ہے اس لحاظ سے مجموعہ کو خبائث کہنا تو ظاہری ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلُوْطًا اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا وَّنَجَّيْنٰہُ مِنَ الْقَرْيَۃِ الَّتِيْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَـبٰۗىِٕثَ۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِيْنَ۝ ٧٤ۙ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے عقل سلیم اور نبوت عطا کی اور سدوم بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے برے برے کام کیا کرتے تھے یعنی لواطت بیشک وہ لوگ اپنے کفر میں بڑے بد ذات اور ان افعال لواطت وغیرہ میں بہت ہی بدکار تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَلُوْطًا اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا) ” حکم سے حکمت ‘ فہم اور قوت فیصلہ مراد ہے۔ (وَّنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبآءِثَ ط) ” یعنی اس بستی کے لوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67. The original Arabic word hukm is very comprehensive. It means judgment, wisdom and discretion, and authority from Allah. Ilm stands for the revealed knowledge of the truth. Thus, We bestowed hukm and ilm on Lot. We appointed Lot as a Prophet. (For the story of Lot, see (Surah Al-Aaraf, Ayats 80-84); (Suran Younus, Ayats 70-83); (Surah Al-Hijr, Ayats 57-74 )and the E.Ns there of).

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :67 حکم اور علم بخشنا بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کرنے کا ہم معنی ہوتا ہے ۔ حکم سے مراد حکمت بھی ہے ، صحیح قوت فیصلہ بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی ( Authority ) حاصل ہونا بھی ۔ رہا علم تو اس سے مراد وہ علم حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا کیا گیا ہو ۔ حضرت لوط کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ۔ الاعراف ، آیات 80 تا 84 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 83 ۔ الحجر ، آیات 57 تا 76 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: ) یوں تو یہ قوم بہت سے گندے کاموں میں مبتلا تھی، لیکن ان کی جس گھناؤنی حرکت کا قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے وہ ہم جنس پرستی یعنی مردوں کا مردوں سے جنسی لذت حاصل کرنا ہے، اس کا مفصل تذکرہ سورۂ ہود (١١۔ ٧٧، ٨٣) میں گزرچکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے اور نبی حضرت لوط (علیہ السلام) کا تعارف۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ نے اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تائید فرمائی جب عوام اور حکومت نے متفقہ فیصلہ کر کے آپ کو آگ میں جھونک دیا تھا۔ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صحیح وسالم آگ سے نکالا تو کوئی بھی ایمان نہ لایا سوائے لوط (علیہ السلام) کے۔ ” لوط (علیہ السلام) کے سوا ابراہیم (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہ لایا۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کی طرف ہجرت کررہا ہوں یقیناً اللہ عزیز اور حکیم ہے۔ “ [ العنکبوت : ٢٦] حضرت لوط (علیہ السلام) عراق کے قدیم ترین شہر ” اُر “ میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے یہی شہر جناب خلیل (علیہ السلام) کا مولد ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کرنے والے لوط (علیہ السلام) تھے۔ آپ پہلے حاران پھر مختلف مقامات پر ٹھہرے۔ بالاخر ابراہیم (علیہ السلام) نے فلسطین میں قیام فرمایا اور مختلف ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کیے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اندرون حجاز حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین و شام میں اور جناب لوط (علیہ السلام) کو شرقی اردن کے مرکزی شہر سدوم میں تعینات فرمایا۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پرلے درجے کے فاسق وفاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردار لوگ تھے۔ جنہوں نے دنیا میں بےحیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو تباہ کیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا۔ اسی بات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولوطا۔۔۔۔۔۔۔۔ انہ من الصلحین (٤٧ : ٥٧) ” ‘۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ اس سے پہلے مفصل گزرچکا ہے۔ یہاں اس کی طرف بالکل مجمل اشارہ ہوا ہے۔ عراق سے شام تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) دونوں ایک ساتھ آئے۔ انہوں نے سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ اہل سدوم خلاف فطرت فعل کا ارتکاب کرتے تھے ۔ مرد مردوں کے ساتھ اعلانیہ جنسی تعلقات قائم کرتے تھے اور اس میں کوئی ہرج نہ سمجھتے تھے۔ چناچہ یہ گائوں پوری آبادی سمیت ہلاک کردیا گیا۔ انھم کانوا قوم سوء فسقین (١٢ : ٤٧) ” درحقیقت یہ بہت ہی بری فاسق قوم تھی “۔ لوط (علیہ السلام) اور آپ کی پوری فیملی ماسوائے ان کی بیوی کے ‘ بچا لئے گئے۔ وادخلنہ فی رحمتنا انہ من الصلحین (١٢ : ٥٧) ” اور اسے ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔ اللہ کی رحمت وہ خوشگوار پناہ گاہ جس میں اللہ اسی شخص کو داخل کرتا ہے جسے وہ خصوصی طور پر چاہتا ہے۔ جو داخل ہوا وہ عیش و عشرت اور رحم وکرم میں داخل ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت لوط (علیہ السلام) پر انعام، بد کار بستی سے نجات، اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونا حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کرکے شام میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت اور علم عطا فرمایا اور نبوت سے نوازا۔ شام میں چند بستیاں تھیں جو اردن کے قریب تھیں۔ ان کی طرف انہیں مبعوث فرمایا۔ وہ لوگ بڑے بد کار تھے۔ مردوں اور لڑکوں سے شہوت زنی کرتے تھے اور اس کے علاوہ دوسرے برے اعمال میں مشغول رہتے تھے۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جب کوئی قوم مردوں سے شہوت زنی کے عمل کو اپنا لے اور اپنے رواج میں داخل کرلے تو اس کے بعد دوسرے اعمال کا ارتکاب کرنا معمولی سی بات ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے قوم کو بہت سمجھایا لیکن اپنی بد فعلیوں اور بری حرکتوں سے باز نہ آئے۔ ان کی زمین کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان پر پتھر برسا دیئے گئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ جو اہل ایمان تھے (جو ان کے گھر والے ہی تھے) ان کو اللہ تعالیٰ نے نجات دے دی اور سب کافر ہلاک ہوگئے۔ ان ہلاک شدگان میں ان کی بیوی بھی تھی۔ پورا قصہ سورة اعراف اور سورة ھود میں گزر چکا ہے۔ (انوار البیان)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ ” وَلُوْطًا اٰتَیْنَاہُ الخ “ یہ تیسری تفصیلی نقلی دلیل ہے۔ قوم لوط جب حضرت لوط کی تبلیغ و اصلاح کے باوجود اپنی خباثت اور بدعملی سے باز نہ آئی تو اللہ نے اس پر عذاب نازل فرما کر اسے ہلاک کردیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچالیا اور اسے اپنی رحمت میں داخل کرلیا ” اٰتَیْنَاہُ حُکْمًا وَّ نَجَّیْنٰهُ “۔” وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَا “ مجرمین کو ہلاک کرنا اور مطیعین کو بچانا ہمارا ہی کام ہے کسی دوسرے کو اس کی طاقت نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو حکمت یعنی نبوت اور علم عطا فرمایا اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اس شہر سے بچا نکالا جس شہر کے لوگ ناپاک اور گندے کام کیا کرتے تھے۔ بیشک وہ لوگ بہت برے اور بدکار تھے۔ یعنی سدوم کی بستیوں میں حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبی بناکربھیجا تھا وہاں کے لوگ ہر قسم کی برائی اور بدکاریوں میں مبتلا تھے یہ سمجھاتے رہے مگر وہ باز نہ آئے ان کی بیوی بھی کافروں سے مل گئی۔ جب وہ ہر طرح ان کے درپے آزاد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بستی والوں پر عذاب بھیجا اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو عذاب سے قبل بچالیا۔ عام طور سے یہ لوگ اغلام بازی، ڈاکہ ڈالنا، لوگوں کو لوٹنا، مسافروں کو غلط راستہ بتانا وغیرہ۔ بہت سے افعال قبیحہ اور افعالِ شفیعہ کا ارتکاب کیا کرتے تھے۔ آخر یہ بستیاں الٹی گئیں اور آج تک الٹی ہوئی پڑی ہیں۔