Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 75

سورة الأنبياء

وَ اَدۡخَلۡنٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾٪  5

And We admitted him into Our mercy. Indeed, he was of the righteous.

اور ہم نے لوط ( علیہ السلام ) کو اپنی رحمت میں داخل کر لیا بیشک وہ نیکوکار لوگوں میں سے تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

and We saved him from the town who practiced Al-Khaba'ith. Verily, they were a people given to evil, and were rebellious. And We admitted him to Our mercy; truly, he was of the righteous.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زاد (بھتیجے) تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے شام جانے والوں میں سے تھے۔ اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا۔ یہ جس علاقے میں نبی بنا کر بھیجے گئے، اسے عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے بحیرہ مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا۔ جس کا بڑا حصہ اب بحیرہ مردار کا جزو ہے۔ ان کی قوم لواطت جیسے فعل شفیع، گزر گاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازے کسنا اور انھیں تنگ کرنا روڑے ریزے پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی، جسے اللہ نے یہاں خبائث (پلید کاموں) سے تعبیر فرمایا ہے۔ بالآخر حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرکے یعنی انھیں اور ان کے پیرو کار کو بچا کر قوم کو تباہ کردیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] حضرت لوط (علیہ السلام) اور آپ کی بدکردار قوم کا قصہ پہلے سورة اعراف آیت نمبر ٨٠ تا ٨٩، سورة ہود آیت نمبر ٧٧ تا ٩٢ اور سورة حجر آیت نمبر ٦٠ تا ٧٢ میں گزر چکا ہے۔ متعلقہ حواشی ملاحظہ فرما لئے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَدْخَلْنٰہُ فِيْ رَحْمَتِنَا۝ ٠ۭ اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٧٥ۧ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) اور ہم لوط (علیہ السلام) کو آخرت میں جنت میں داخل کریں گے اور ان کو دنیا میں بھی نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا اور وہ انبیاء کرام کے طریقہ پر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل فرما لیا۔ یعنی ان بندوں میں شمار فرمایا جن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ ہوا کرتی ہے۔ آخر میں فرمایا (اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (بلاشبہ وہ صالحین میں سے تھے) قرآن مجید میں لفظ صالح حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بارے میں بھی وارد ہوا ہے۔ صالحیت بہت بڑا مقام ہے اور اس کے بڑے مراتب ہیں۔ سب سے بڑا مرتبہ انبیاء (علیہ السلام) کا ہے۔ کیونکہ وہ معصوم ہوتے تھے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں لے لیا کیونکہ وہ نکو کار لوگوں میں سے تھا۔ یعنی عذاب کے وقت لوط (علیہ السلام) کو اپنے دامانِ رحمت میں لے لیا اور عذاب سے بچالیا یا یہ کہ وہ نکوکار تھا اس لئے جن بندوں پر رحمت ہوتی ہے اس کو بھی انہی بندوں میں داخل کرلیا یا یہ کہ رحمت خاص میں لے لیا کیونکہ ایک عام رحمت ہے اور ایک خاص رحمت ہے۔ رحمت عام جو سب کے لئے ہے و رحمتی وسعت کل شئی اور خاص رحمت خواص کے لئے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خصوصیت اور ان کے مراتب علیا اور مقام ِ وصول کا اظہار ہے۔