Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 79

سورة الأنبياء

فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۫ وَّ سَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ یُسَبِّحۡنَ وَ الطَّیۡرَ ؕ وَ کُنَّا فٰعِلِیۡنَ ﴿۷۹﴾

And We gave understanding of the case to Solomon, and to each [of them] We gave judgement and knowledge. And We subjected the mountains to exalt [Us], along with David and [also] the birds. And We were doing [that].

ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی ہم کرنے والے ہی تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّ اتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ... And We made Suleiman to understand (the case); and to each of them We gave wisdom and knowledge. Ibn Abi Hatim recorded that; when Iyas bin Mu`awiyah was appointed as a judge, Al-Hasan came to him and found Iyas weeping. (Al-Hasan) said, "Why are you weeping?" (Iyas) said, "O Abu Sa`id, What I heard about judges among them a judge is he, who studies a case and his judgment is wrong, so he will go to Hell; another judge is he who is biased because of his own whims and desires, so he will go to Hell; and the other judge he who studies a case and gives the right judgement, so he will go to Paradise." Al-Hasan Al-Basari said: "But what Allah tells us about Dawud and Suleiman (peace be upon them both) and the Prophets and whatever judgments they made proves that what these people said is wrong. Allah says: وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ And (remember) Dawud and Suleiman, when they gave judgement in the case of the field in which the sheep of certain people had pastured at night; and We were witness to their judgement. Allah praised Suleiman but He did not condemn Dawud." Then he -- Al-Hasan -- said, "Allah enjoins three things upon the judges: not to sell thereby for some miserable price; not to follow their own whims and desires; and not to fear anyone concerning their judgments." Then he recited: يدَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَـكَ خَلِيفَةً فِى الاٌّرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ O Dawud! Verily, We have placed you as a successor on the earth; so judge you between men in truth and follow not your desire -- for it will mislead you from the path of Allah. (38:26) فَلَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ Therefore fear not men but fear Me. (5:44) وَلاَ تَشْتَرُواْ بِـَايَـتِى ثَمَناً قَلِيلً and sell not My Ayat for a miserable price. (5:44) I say: with regard to the Prophets (peace be upon them all), all of them were infallible and supported by Allah. With regard to others, it is recorded in Sahih Al-Bukhari from `Amir bin Al-`As that the Messenger of Allah said: إِذَا اجْتَهَدَ الْحَاكِمُ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا اجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْر If the judge does his best, studies the case and reaches the right conclusion, he will have two rewards. If he does his best, studies the case and reaches the wrong conclusion, he will have one reward. This Hadith refutes the idea of Iyas, who thought that if he did his best, studied the case and reached the wrong conclusion, he would go to Hell. And Allah knows best. Similar to story in the Qur'an is the report recorded by Imam Ahmad in his Musnad from Abu Hurayrah, who said that the Messenger of Allah said: بَيْنَمَا امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَانِ لَهُمَا إِذْ جَاءَ الذِّيْبُ فَأَخَذَ أَحَدَ الاْبْنَيْنِ فَتَحَاكَمَتَا إِلَىىَداوُدَ فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى فَخَرَجَتَا فَدَعَاهُمَا سُلَيْمَانُ فَقَالَ هَاتُوا السِّكِّينَ أَشُقُّهُ بَيْنَكُمَا فَقَالَتِ الصُّغْرَى يَرْحَمُكَ اللهُ هُوَ ابْنُهَا لاَ تَشُقَّهُ فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى There were two women who each had a son. The wolf came and took one of the children, and they referred their dispute to Dawud. He ruled that the (remaining) child belonged to the older woman. They left, then Suleiman called them and said, "Give me a sword and I will divide him between the two of you." The younger woman said, "May Allah have mercy on you! He is her child, do not cut him up!" So he ruled that the child belonged to the younger woman. This was also recorded by Al-Bukhari and Muslim in their Sahihs. An-Nasa'i also devoted a chapter to this in the Book of Judgments. ... وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ... And We subjected the mountains and the birds to glorify Our praises along with Dawud. This refers to the beauty of his voice when he recited his Book, Az-Zabur. When he recited it in a beautiful manner, the birds would stop and hover in the air, and would repeat after him, and the mountains would respond and echo his words. ... وَكُنَّا فَاعِلِينَ And it was We Who were the doer (of all these things). The Prophet passed by Abu Musa Al-Ash`ari while he was reciting Qur'an at night, and he had a very beautiful voice, he stopped and listened to his recitation, and said: لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ الِ دَاوُد This man has been given one of the wind instruments (nice voices) of the family of Dawud. He said: "O Messenger of Allah, if I had known that you were listening, I would have done my best for you."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگئیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کردی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کرکے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آجائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کردی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کردیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہوسکتے، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہوگا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر) ۔ 79۔ 2 اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا) 79۔ 3 یعنی پرندے بھی داؤد (علیہ السلام) کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے، مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیئے گئے تھے (فتح القدیر) 79۔ 3 یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] اب دیکھئے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں نبی ہیں۔ اور دونوں کو اللہ نے قوت فیصلہ بھی عطا کی تھی اور علم نبوت بھی۔ اس کے باوجود حضرت داؤد سے فیصلہ میں اجتہادی غلطی ہوگئی۔ یعنی قاضی خواہ نہایت نیک نیتی سے فیصلہ کرے اس سے اجتہادی غلطی کا امکان ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : حسن بصری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان دونوں کو قوت فیصلہ اور علم دیا تھا۔ پھر اللہ نے سلیمان کی تو تعریف کی اور داؤد پر ملامت نہیں کی اگرچہ وہ فیصلہ درست نہ تھا اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ان دونوں پیغمبروں کا ذکر نہ کرتا تو میں سمجھتا ہوں کہ قاضی لوگ تباہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سلیمان کی تو درست فیصلہ کی تعریف کی اور داؤد کو (ان کی اجتہادی غلطی پر) مسدود رکھا۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب متی۔ یستجب الرحل القضائ) (٢) حضرت عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد کرکے کوئی فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر (بہ تقاضائے بشریت) فیصلہ میں غلطی کر جائے تو بھی اس کو ایک اجر ملے گا && (بخاری، کتاب الاعتصام۔ باب اجرالحاکم اذا اجتہاد فاصاب او اخطا) (٣) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے اور اس کے مطابق فیصلہ دے مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے بیٹھ جائے۔ (ابوداؤد۔ کتاب القضائ۔ باب فیالقاضی یخطی) حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے متعلق ایک واقعہ احادیث میں بھی مذکور ہے جو بالکل اسی نوعیت کا ہے۔ جو درج ذیل ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (بنی اسرائیل میں) دو عورتیں تھیں ان کا ایک ایک بچہ تھا۔ بھیڑیا آیا اور ایک بچہ اٹھا لے گیا اب دونوں اپس میں جھگڑنے لگیں۔ ایک نے کہا کہ تیرا بچہ لے گیا اور دوسری نے کہا نہیں، تیرا بچہ لے گیا۔ آخر دونوں فیصلے کے لئے حضرت داؤد کے پاس آئیں۔ انہوں نے بچہ بڑی عمر والی کو دلا دیا۔ پھر یہ دونوں عورتیں دوبارہ فیصلہ کے لئے حضرت سلیمان کے پاس آئیں اور اپنا اپنا دعویٰ پیش کیا اس وقت حضرت سلیمان صرف گیارہ برس کے تھے۔ انہوں نے حکم دیا : ایک کلہاڑی میں اس بچہ کو آدھا آدھا کرکے دونوں کو دے دیتا ہوں۔ یہ سن کر کم عمر والی عورت بولی && اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجئے۔ یہ بچہ اسی بڑی عمر والی کا ہے۔ پھر حضرت سلیمان نے بچہ چھوٹی عمر والی کو دلا دیا۔ (بخاری۔ کتاب الفرائض۔ ماذا ادعت المراۃ ابنا) یعنی حضرت داؤد نے اس لحاظ سے بڑی عورت کے حق میں دے دیا کہ ایک تو وہ بڑی تھی اور دوسرے بچہ اس کے قبضہ میں تھا۔ لیکن جو فیصلہ حضرت سلیمان نے دیا وہ عین فطرت انسانی کے مطابق تھا۔ جب حضرت سلیمان نے بچے کو دو ٹکڑے کرکے ایک ایک ٹکڑا ایک کو دینے کا فیصلہ کیا تو حقیقی ماں جو چھوٹی عورت تھی فوراً اپنے بچے کے دو ٹکڑے ہونے پر تلملا اٹھی۔ اور اس نے یہ سوچ کر کہ میرا بچہ زندہ رہے خواہ میرے پاس نہ رہے فوراً کہنے لگی کہ بچہ اس بڑی عورت کا ہے۔ اسے دے دیا جائے۔ لیکن بڑی خاموشی سے یہ فیصلہ سنتی رہی۔ اس کا بچہ ہوتا تو اسے کچھ تکلیف ہوتی یہ صورت حال دیکھ کر حضرت سلیمان نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کرکے بچہ اسے دلا دیا۔ یہ فیصلہ کے وقت ایسی باتیں سوجھ جانا حضرت سلیمان کے لئے خالصہ اللہ تعالیٰ کی دین تھی۔ [٦٧] حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خوش الحانی زبان زدعام و خاص بن چکی ہے اور لحن داؤد کا لفظ محاوراً استعمال ہوتا ہے۔ آپ کی آواز اس قدر سریلی اور خوشگوار تھی کہ حب آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے گیت گاتے تو ساری کائنات مسحور ہوجاتی اور وجد میں گانے لگتی تھی۔ پہاڑوں میں گونج پیدا ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ساتھ حمدوثنا کے گیت گا رہے ہیں۔ یہی حال جانوروں کا تھا جہاں آپ حمدوثنا کے گیت گارے وہاں پرندے اکٹھے ہوجاتے اور آپ کے ہمنوا بن جاتے تھے اور ان معنوں کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری جو نہایت خوش الحان تھے، اپنی سریلی آواز میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہاں سے گزر ہوا تو ان کی آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک آپ کی تلاوت سنتے رہے، جب انہوں نے تلاوت ختم کی تو آپ نے فرمایا : لقد اوتی فرما رامن مومیر ال داود۔۔ یعنی اس شخص کو حضرت داؤد کی خوش الحانی کا ایک حصہ ملا ہے۔ (بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب حسن الصوت بالقراۃ) آپ کی خوش الحانی اور آپ کی تسبیحات میں پہاڑوں اور پرندوں کے ساتھ رہنے کا ذکر سورة سبا کی آیت نمبر ١٠ اور سورة کی آیت نمبر ١٨ میں بھی آیا ہے۔ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کیسی تھی اور حضرت داؤد کے وہ کس طرح ہمنوا بن جاتے تھے۔ یہ پوری کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ چونکہ پہاڑوں اور پرندوں کا حضرت داؤد کے ساتھ مل کر تسبیحات کا پڑھنا اور ہم آہنگ ہونا ایک خرق عادت امر ہے لہذا پرویز صاحب کو ان باتوں کی تاویل کی ضرورت پڑگئی اور اپنی تفسیر عضوم القرآن میں یٰجِبَالُ (اے پہاڑو) کا مفہوم بیان فرمایا && اے سرکش سردارو &&! گویا اللہ میاں کو سرکش سرداروں کے لئے جبال کے علاوہ کوئی لفظ نہیں ملتا تھا اور سورة کی آیت نمبر ١٩ میں یہی مضمون آیا تو بمصداق دروغ گو را حافظہ بنا سد وہاں جبال کا مفہوم && پہاڑی قبائل && بیان فرما دیا۔ اور الطیر کا مفہوم قبیلہ طیر بیان فرمایا اور ادبی کا مفہوم بیان فرمایا کہ && داؤد کے ساتھ تم بھی نہایت سرگرمی سے قانون خداوندی کی اطاعت کرو && (لغات القرآن ج ١ ص ٢٨٣) حالانکہ پرویز صاحب خود اسی لغات میں اوپ کا معنی بالارادہ رجوع کرنا لکھ چکے ہیں۔ یعنی اے پہاڑو اور پرندو ! داؤد کی طرف بالارادہ رجوع کرو اور اس مقام پر نہایت سرگرمی سے قانون خداوندی کی اطاعت کا مفہوم بیان فرمایا۔ ذرا سوچئے کہ اس مفہوم میں قانون خداوندی قرآن کے کس لفظ کا معنی یا مفہوم ہوسکتا ہے اور نہایت سرگرمی سے اطاعت کس لفظ کا ؟ سچ فرمایا تھا اقبال نے : احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بنا دیتے ہیں باللہ ند

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ (So We enabled Sulayman to understand it - 21:79). This expression means that Allah Ta` ala had made known to Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) the judgment which was better. Although the judgment passed by Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was not in conflict with religious jurisprudence, but the one adjudged by Sulayman (علیہ السلام) was inspired by Allah and was therefore, more appropriate because it benefitted both the parties without hurting either. Imam Baghawi (رح) has reported this story on authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and Qatadah and Zuhri that two persons came to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) . One of them had a flock of goats and the other one owned a field on which he grew crops. The latter made a complaint against the former that his goats entered his field at night and ate up his crop (It appears that the respondent had accepted the petitioner&s complaint and presumably the value of the flock of goats was equal to the value of the crop). Thus Sayyidna Dawud (علیہ السلام) announced his judgment that the owner of the goats should give his entire flock to the other man in compensation for his loss. (This judgment was in line with the religious jurisprudence which requires that if goods valued by a price are destroyed by someone, the amount of compensation will be determined according to that price. In this case, the value of the crop was the same as the value of the flock; hence the judgment. When these two men i.e. the complainant and the respondent, emerged from the court of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) they met Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) at the door. He enquired from them about the judgment of their case, which they related to him. After hearing the judgment he remarked that if he were the judge in this case his verdict would have been different, which would be to the benefit of both parties. Then he went to his father Sayyidna Dawud (علیہ السلام) and repeated the same thing. Thereupon Sayyidna Dawud (علیہ السلام) enquired from him as to what kind of verdict he had in mind which would be more beneficial to both the parties. He replied that it would be more just and equitable if the flock of goats is given to the owner of the field so that he could use to his own benefit their milk, wool etc. and his field is given to the goats-man who should cultivate it and grow crops in it. When the field returns to the same condition in which it was before it was eaten by the goats, then the two men should get back their respective properties. Sayyidna Dawud (علیہ السلام) approved this judgment, called back the two men and announced the second judgment to them. (Mahari, Qurtubi, etc.) Can the verdict of a Judge (Qadi) be changed or annulled after it has been announced? It will be observed that Sayyidna Dawud (علیہ السلام) had pronounced a judgment which he revoked after hearing the views of Sayyidna Sulayman علیہ السلام . Here a question arises whether a Qadi (Judge) has the authority to change his own verdict pronounced by him earlier. Qurtubi has discussed this and similar matters in great detail, the gist of which is that where a Qadi (Judge) has given a verdict which is in conflict with the religious jurisprudence or is contrary to the views held by the people at large, then, by consensus of the Ummah, such a verdict is not valid. Then it is not only permissible but mandatory on any other Qadi (Judge) to nullify the verdict and to issue a fresh judgment in line with religious jurisprudence, and also to remove the incompetent Qadi from his position of authority. But, if the judgment of a Qadi is based on religious jurisprudence and Ijtihad (اِجتِھاد) then it is not permissible for any other Qadis (Judges) to revoke that judgment, because if this is allowed, the whole judicial system will collapse and Islamic Law will become a plaything in the hands of different people. However, if a Qadi, after passing a verdict according to the dictates of Ijtihad realizes that he had erred in his earlier judgment and Ijtihad, then it is allowed, rather preferable, that he himself should change the verdict. In a detailed letter which Sayyidna ` Umar (رض) wrote to Abu Musa al-Asha` ri elaborating the principles governing the administration of justice and disposal of court cases, he said that in case Ijtihad (اِجتِھاد) changes after announcing a judgment then the judgment should be changed to conform to the changed Ijtihad (اِجتِھاد) (This letter is reported by Dar Qutni). According to great commentator (امام تفسیر)Mujahid (رح) both the judgments are bona fide and correct in their own respective right. The verdict passed by Sayyidna Dawud علیہ السلام was strictly judicial, whereas the judgment made by Sayyidna Sulayman علیہ السلام was in the nature of a compromise between the two parties. The Holy Qur&an itself says , وَالصُّلْحُ خَيْرٌ‌ (And compromise is better - 4:128). That is why the second judgment was praised by Allah Ta` ala. (Mazhari) Sayyidna ` Umar (رض) had instructed all his Qadis (Judges) that when a dispute was raised before them, they should try to arrange a compromise between the parties. If a compromise was not possible, only then they should pass their judgment according to religious jurisprudence. The advantage in following this procedure, as he described it, was that in a legal judgment the loser has no option but to accept it, but at heart he develops a sense of hostility and hatred against his rival which is not healthy between the two Muslims. On the other hand, in the case of a compromise between the contesting parties, the element of hatred and ill will is removed. (From Mu&inal-Hukkam) Therefore, according to the explanation propounded by Mujahid (رح) it was not a case of revoking or changing an earlier verdict, rather a compromise was willingly agreed between both the parties to the dispute, before they left the court. If two Mujtahids by their separate Ijtihad pass two conflicting verdicts, should both be regarded as valid or should one of them be rejected? A number of commentators have discussed this subject briefly or in detail whether all Mujtahideen (` مُجتَھِدِینَ ) be regarded as correct in their judgment (مُصِیب) and two opposing verdicts be taken as valid or, in case of conflict, one judgment be accepted and the other rejected. Qurtubi has dealt this subject in great detail. Religious scholars have held different views on the subject from the very beginning, while projecting their reasoning. All have derived support for their views from this very verse. Those who support the argument that even conflicting verdicts are valid base their reasoning on the last sentence of the verse viz وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا (And to each one of them We gave wisdom and knowledge - 21:79). The sentence points out in clear terms that Allah Ta` ala had bestowed wisdom and knowledge to both Sayyidna Dawud and Sulayman (علیہما السلام) and there is no admonition to the former, nor is he warned for any error on his part. Therefore it proves that both the judgments given by Sayyidna Dawud علیہ السلام and Sulayman علیہ السلام were correct and valid. However, the judgment given by Sulayman (علیہ السلام) was preferred because it was advantageous to both the parties. As for those who argue that in the event of an Ijtihadi (اِجتِھادی) difference only one judgment can be correct and the other must be rejected as invalid, they too offer the first sentence of this very verse i.e. فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ (So, We enabled Sulayman (علیہ السلام) to understand it - 21:79) in support of their argument. They say that there is a specific reference to Sulayman (علیہ السلام) to whom the correct decision was revealed by Allah. It, therefore, follows that the verdict announced by Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was not right even though he might have arrived at this decision through his Ijtihad (اِجتِہھاد) and was, therefore, free from all blame. This subject has been discussed in great detail in the books of jurisprudence. Here one should keep in mind that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that if someone did Ijtihad (اِجتِہھاد) and gave a decision in accordance with the religious principles governing Ijtihad اِجتِہھاد ، and his Ijtihad is correct, he will be granted two rewards one for the the labour involved in making the Ijtihad, and the other for arriving at the right decision. But if he erred in his Ijtihad he would still get one reward for just his labour. (This Hadith is reported in most books of authoritative ahadith). This Hadith also explains that the difference among the scholars on this issue is one of semantics only. For those who believe that both the conflicting judgment are valid, the consequences are that for the erring Mujtahid مُجتَھِد as well as his followers that Ijtihad اِجتِہھاد is correct and acting upon it will lead to their salvation. As for the view that only one verdict is correct and the other is wrong, the consequence of that also is no more than that the reward of the erring Mujtahid will be lesser because his Ijtihad fell short of the absolute right decision. However, he will be free from all blame and his followers will not be regarded as sinners. (Those who wish to see further details on the subject are advised to refer to Qurtub s commentary, where the subject is discussed in great detail). The question of animals of a person harming another person or damaging his property One can deduce from the verdict passed by Sayyidna Dawud (علیہ السلام) that if the animals of someone damage the property of a person at night, the owner of the animals will have to compensate the suffering party for his loss. However, it does not follow that a verdict given in accordance with the legal code of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) must ipso facto be adopted in the Shari&ah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also. This is why there is a difference of opinion among the cardinal jurists on this issue. The ruling given by Imam Shafi` i (رح) says that if someone&s animals damage the fields of another person at night, the owner of the animals will have to compensate for the loss, but if the animals damage the field during day time, then there shall be no compensation due on the owner of the animals. This ruling can be said to be drawn from the judgment of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) also, but, in fact he has based his ruling on a saying of the Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، which has been reported in Muwatta& of Imam Malik as Mursal (مُرسَل). This hadith concerns an incident in which a camel belonging to Sayyidna Bara& Ibn ` Azib (رض) entered someone&s orchard and damaged it. The matter when reported to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he ruled that the responsibility for protecting these fields and orchards at night rested on the owners, but if in spite of all reasonable measures adopted by them, the animals damaged the crop, then the owner of the animals shall be required to compensate for the loss. On the other hand the Imam Azam Abu Hanifah (رح) and other jurists of Kufa School hold the view that if the owner or the shepherd is with the animals, and yet they damage the field or the orchard due to his negligence, then the compensation for the loss rests with the owner irrespective of whether the damage is caused during day or night. But where unattended animal wandered into somebody&s field damaging the same without any negligence on the part of the owner, then the owner of the animals will not be held liable for compensation, regardless of the time of day or night when the damage is caused. Imam Abu Hanifah (رح) has based this ruling on the Hadith جَبَّار جرح العجمَا - (the wound caused by an animal is not compensated) which is reported by Bukhari and Muslim and all other Scholars of Hadith. It means that the owner of the animal is not bound to compensate the owner of the field for any loss caused by his animal (provided that the owner or the shepherd is not with the animal at the time of the damage). This saying has set the rule that irrespective of the time of day or night, if the animal has not been let loose deliberately by its owner into somebody&s field and the animal has escaped, then the owner is not liable to make good the loss caused by his animal. Glorification of Allah by birds and mountains وَسَخَّرْ‌نَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ‌ وَكُنَّا فَاعِلِينَ (And with Dawud We subjugated the mountains that proclaimed the purity of Allah, and the birds as well. And We were the One who did (it) - 21:79.) Allah Ta` ala had granted Sayyidna Dawud (علیہ السلام) a melodious voice among the other outward absolute excellences. When he used to recite Zabur the birds would stop in their flight and join him in recitation. In the same way the mountains and the trees used to produce sounds as if they were singing praises to glorify Allah. A melodious voice was an external attribute granted to him by Allah and the joining with him of the birds and the mountains in praising Allah with him was a miracle. Now, for a miracle to happen it is not necessary that the birds and the mountains must necessarily possess life and intelligence; rather a miracle can give intelligence and knowledge to those objects which were without these attributes earlier. However .scientific research has proved that rocks and mountains do have life and knowledge to a limited extent. Among the companions Sayyidna Abu Musa al-Ash` ari (رح) had a very sweet voice. Once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) passed by him when he was reciting the Holy Qur&an. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stopped and listened to the recitation. Then he remarked that Allah Ta` ala had granted him the sweet voice of Dawud (علیہ السلام) . When Abu Musa (رض) learnt that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had been listening to his recitation, he said|" Had I known that you were listening, I would have tried to recite with greater care|".

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ، فَفَهَّمْنٰهَا کی ضمیر بظاہر مقدمہ اور اس کے فیصلہ کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو فیصلہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ تھا اللہ تعالیٰ نے وہ حضرت سلیمان کو سمجھا دیا۔ اس مقدمہ اور فیصلہ کی صورت اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی ازروئے قانون شرعی غلط نہیں تھا مگر جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھایا اس میں فریقین کی رعایت اور مصلحت تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ پسندیدہ قرار دیا گیا۔ امام بغوی نے حضرت ابن عباس اور قتادہ اور زہری سے اس واقعہ کی روایت اس طرح کی ہے کہ دو شخص حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ایک شخص بکریوں والا دوسرا کھیتی والا تھا کھیتی والے نے بکریوں والے پر یہ دعوی کیا کہ اس کی بکریاں رات کو چھوٹ کر میرے کھیت میں گھس گئیں اور کھیت کو بالکل صاف کردیا کچھ نہیں چھوڑا (غالباً مدعا علیہ نے اس کا اقرار کرلیا ہوگا اور بکریوں کی پوری قیمت اس کے ضائع شدہ کھیت کی قیمت کے برابر ہوگی اس لئے) حضرت داؤد نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ بکریوں والا اپنی ساری بکریاں کھیت والے کو دیدے (کیونکہ جو چیزیں قیمت ہی کے ذریعہ لی اور دی جاتی ہیں جن کو عرف فقہاء میں ذوات القیم کہا جاتا ہے وہ اگر کسی نے ضائع کردی تو اس کا ضمان قیمت ہی کے حساب سے دیا جاتا ہے بکریوں کی قیمت چونکہ ضائع شدہ کھیتی کی قیمت کے مساوی تھی اس لئے یہ ضابطہ کا فیصلہ فرمایا گیا) یہ دونوں مدعی اور مدعا علیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عدالت سے واپس ہوئے تو (دروازے پر ان کے صاحبزادے) حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انہوں نے دریافت کیا کہ تمہارے مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوا ؟ ان لوگوں نے بیان کردیا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اگر اس مقدمہ کا فیصلہ میں کرتا تو اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا جو فریقین کے لئے مفید اور نافع ہوتا۔ پھر خود والد ماجد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہی بات عرض کی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے تاکید کے ساتھ دریافت کیا کہ وہ کیا فیصلہ ہے جو دونوں کے لئے اس فیصلہ سے بہتر ہے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ بکریاں تو سب کھیت والے کو دیدیں کہ وہ ان کے دودھ اور اون وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت کی زمین بکریوں والے کے سپرد کردیں کہ وہ اس میں کاشت کر کے کھیت اگائے جب یہ کھیت اس حالت پر آجائے جس پر بکریوں نے کھایا تھا تو کھیت کھیت والے کو دلوا دیں اور بکریاں بکری والے کو۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس فیصلے کو پسند فرما کر کہا کہ بس اب فیصلہ یہی رہنا چاہئے اور فریقین کو بلا کر دوسرا فیصلہ نافذ کردیا (مظہری و قرطبی وغیرہ) کیا فیصلہ دینے کے بعد کسی قاضی کا فیصلہ توڑا اور بدلا جاسکتا ہے : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) جب ایک فیصلہ دے چکے تھے تو سلیمان (علیہ السلام) کو اس کے توڑنے کا کیا حق تھا ؟ اور اگر خود حضرت داؤد ہی نے ان کا فیصلہ سن کر اپنے سابق فیصلے کو توڑا اور دوسرا جاری کیا تو کیا قاضی کو اس کا اختیار ہے کہ ایک فصلہ دیدینے کے بعد اس کو توڑ دے اور فیصلہ بدل دے۔ قرطبی نے اس جگہ اس طرح کے مسائل پر بڑی تفصیل سے بحث فرمائی ہے خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اگر کسی قاضی نے نصوص شرعیہ اور جمہور امت کے خلاف کوئی غلط فیصلہ محض اٹکل سے دے دیا ہے تو وہ فیصلہ باتفاق امت مردود و باطل ہے دوسرے قاضی کو اس کے خلاف فیصلہ دینا نہ صرف جائز بلکہ واجب اور اس قاضی کا معزول کرنا واجب ہے لیکن اگر ایک قاضی کا فیصلہ شرعی اجتہاد پر مبنی اور اصول اجتہاد کے ماتحت تھا تو کسی دوسرے قاضی کو اس فیصلہ کا توڑنا جائز نہیں کیونکہ اگر ایسا کیا جائے گا تو فساد عظیم ہوگا اور اسلامی قانون ایک کھیل بن جائے گا اور روز حلال و حرام بدلا کریں گے، البتہ اگر خود اسی فصلہ دینے والے قاضی کو بعد اس کے کہ اصول اجتہاد کے تحت وہ ایک فیصلہ نافذ کرچکا ہے اب ازروائے اجتہاد یہ نظر آئے کہ پہلے فیصلے اور پہلے اجتہاد میں غلطی ہوگئی ہے تو اس کا بدلنا جائز بلکہ بہتر ہے۔ حضرت فاروق اعظم نے جو ایک مفصل خط حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام قضاء اور فصل مقدمات کے اصول پر مشتمل لکھا تھا اس میں اس کی تصریح ہے کہ فیصلہ دینے کے بعد اجتہاد بدل جائے تو پہلے فیصلہ کو بدل دینا چاہئے۔ یہ خط دار قطنی نے سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (قرطبی ملخصاً ) اور شمس الائمہ سرخسی نے مبسوط باب القضاء میں بھی یہ خط مفصل دیا ہے۔ اور امام تفسیر مجاہد کا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں کے فیصلے اپنی اپنی جگہ ہیں اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نے جو فیصلہ فرمایا تھا وہ ضابطہ کا فیصلہ تھا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو فرمایا وہ درحقیقت مقدمہ کا فیصلہ نہیں، بلکہ فریقین میں صلح کرانے کا ایک طریقہ تھا اور قرآن میں والصُّلْحُ خَيْرٌ کا ارشاد وارد ہے اس لئے یہ دوسری صورت میں اللہ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہری۔ (مظہری) حضرت فاروق اعظم نے اپنے قاضیوں کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ جب آپ کے پاس دو فریق کا مقدمہ آئے تو پہلے ان دونوں میں رضا مندی کے ساتھ کسی بات پر صلح کرانے کی کوشش کریں اگر یہ ناممکن ہوجائے تو اپنا شرعی فیصلہ جاری کریں اور حکمت اس کی یہ ارشاد فرمائی کہ حاکمانہ عدالتی فیصلے سے وہ شخص جس کے خلاف ہوا ہو دب تو جاتا ہے مگر ان دونوں میں بغض و عداوت کا بیج قائم ہوجاتا ہے۔ جو دو مسلمانوں میں نہیں ہونا چاہئے بخلاف مصالحت کی صورت کے کہ اس سے دلوں کی منافرت بھی دور ہوجاتی ہے (از معین الحکام) مجاہد کے اس قول پر یہ معاملہ قاضی کے فیصلہ کو توڑنے اور بدلنے کا نہیں رہا بلکہ فریقین کو جو حکم سنایا تھا وہ ابھی گئے بھی نہ تھے کہ ان میں ایک صورت مصالحت کی نکل آئی اور وہ دونوں اس پر راضی ہوگئے۔ دو مجتہد اگر اپنے اپنے اجتہاد سے دو متضاد فیصلے کریں تو کیا ان میں سے ہر ایک صواب اور درست ہے یا کسی ایک کو غلط کہا جائے : اس موقع پر مختصر یہ بحث بھی کی ہے کہ ہر مجتہد ہمیشہ مصیب ہی ہوتا ہے اور دو متضاد اجتہاد ہوں تو دونوں کو حق سمجھا جائے گا یا ان میں سے ایک فیصلہ کو خطا اور غلط قرار دیا جائے گا اس میں قدیم زمانے سے علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ آیت مذکورہ سے دونوں جماعتوں نے استدلال کیا ہے جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ دونوں اجتہاد حق ہیں اگرچہ متضاد ہوں ان کا استدلال آیت کے آخری جملے سے ہی جس میں فرمایا وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۔ اس میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان دونوں کو حکمت اور علم عطا کرنے کا ارشاد ہے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر کوئی عتاب نہیں ہے نہ ان کو یہ کہا گیا کہ ان سے غلطی ہوگئی اس سے معلوم ہوا کہ داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی حق تھا اور سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی، البتہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلہ کو فریقین کے لئے اصلح ہونے کی بناء پر ترجیح دے دیگئی اور جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اختلاف اجتہادی کے مواقع میں حق ایک طرف ہوتا ہے دوسرا غلط ہوتا ہے ان کا استدلال اسی آیت کے پہلے جملہ سے ہی یعنی ڎفَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ کہ اس میں تخصیص کر کے حضرت سلیمان کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو حق فیصلہ سمجھا دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ حق نہ تھا گو وہ بوجہ اپنے اجتہاد کے اس میں معذور ہوں اور ان سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ یہ بحث اصول فقہ کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے آئی ہے وہاں دیکھی جاسکتی ہے یہاں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے اجتہاد کیا اور کوئی حکم دینی اصول اجتہاد کے ماتحت بیان کیا۔ اگر اس کا اجتہاد صحیح ہوا تو اس کو دو اجر ملیں گے ایک اجتہاد کرنے کی محنت کا دوسرا صحیح و صواب حکم تک پہنچنے کا اور اگر یہ اجتہاد صحیح نہ ہوا اس سے خطا ہوگئی تو پھر اس کو ایک اجر اجتہاد کی محنت کا ملے گا دوسرا اجر جو اصل حکم صحیح تک پہنچنے کا تھا وہ نہ ملے گا ( یہ حدیث اکثر مستند کتب حدیث میں منقول ہے) اس حدیث سے اس اختلاف علماء کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ درحقیقت یہ اختلاف ایک نزاع لفظی جیسا ہے کیونکہ حق دونوں طرف ہونے کا حاصل یہ ہے کہ اجتہاد میں خطا کرنے والے مجتہد اور اس کے متبعین کے لئے بھی اجتہاد حق و صحیح ہے اس پر عمل کرنے سے ان کی نجات ہوجائے گی خواہ یہ اجتہاد اپنی ذات میں خطاء ہی ہو مگر اس پر عمل کرنے والوں کو کوئی گناہ نہیں اور جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ حق دونوں میں ایک ہی ہے دوسرا غلط اور خطا ہے اس کا حاصل بھی اس سے زیادہ نہیں کہ اصل مراد حق تعالیٰ اور مطلوب خداوندی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے اس مجتہد کے ثواب میں کمی آجائے گی اور یہ کمی اس وجہ سے ہے کہ اس کا اجتہاد حق بات تک نہ پہنچا لیکن یہ مطلب ان کا بھی نہیں ہے کہ مجتہد خاطی پر کوئی ملامت ہوگی یا اس کے متعبین کو گناہگار کہا جائے گا۔ تفسیر قرطبی میں اس مقام پر ان تمام مباحث کو پوری تفصیل سے لکھا ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ فقیہہ کہ اگر کسی کے جانور دوسرے آدمی کی جان یا مال کو نقصان پہنچاویں تو فیصلہ کیا ہونا چاہئے : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے فیصلہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانور کے مالک پر ضمان آئے گا اگر یہ واقعہ رات میں ہوا ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ داؤد (علیہ السلام) کی شریعت کا جو فیصلہ ہو وہی شریعت محمدیہ میں رہے اس لئے اس مسئلے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے۔ امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر رات کے وقت کسی کے جانور کسی دوسرے کے کھیت میں داخل ہو کر نقصان پہنچاویں تو جانور کے مالک پر ضمان آئے گا اور اگر دن میں ایسا ہو تو ضمان نہیں آئے گا ان کا استدلال حضرت داؤد کے فیصلہ سے بھی ہوسکتا ہے مگر شریعت محمدیہ کے اصول کے تحت انہوں نے ایک حدیث سے استدلال فرمایا ہے جو موطا امام مالک میں مرسلاً منقول ہے کہ حضرت براء بن عازب کی ناقہ ایک شخص کے باغ میں داخل ہوگئی اور اس کو نقصان پہنچا دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فصلہ فرمایا کہ باغوں اور کھیتوں کی حفاظت رات میں ان کے مالکوں کے ذمہ ہے اور ان کی حفاظت کے باوجود اگر رات کو کسی کے جانور نقصان پہنچاویں تو جانور کے مالک پر ضمان ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ اور فقہاء کوفہ کا مسلک یہ ہے کہ جس وقت جانوروں کے ساتھ ان کا چرانے والا یا حفاظت کرنے والا کوئی آدمی موجود ہو، اس نے غفلت کی اور جانوروں نے کسی کے باغ یا کھیت کو نقصان پہنچا دیا اس صورت میں تو جانور کے مالک پر ضمان آتا ہے خواہ یہ معاملہ رات میں ہو یا دن میں اور اگر مالک یا محافظ جانوروں کے ساتھ نہ ہوں جانور خود ہی نکل گئے اور کسی کے کھیت کو نقصان پہنچا دیا تو جانور کے مالک پر ضمانت نہیں معاملہ دن اور رات کا اس میں بھی برابر ہے امام اعظم کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم اور تمام محدثین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جرح العجماء جبار یعنی جانور جو کسی کو نقصان پہنچاوے وہ قابل مواخذہ نہیں یعنی جانور کے مالک پر اس کا ضمان نہیں ہے (بشرطیکہ جانور کا مالک یا محافظ اس کے ساتھ نہ ہو جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے) اس حدیث میں دن رات کی تفریق کے بغیر عام قانون شرعی یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر جانور کے مالک نے خود اپنے قصد و ارادے سے کسی کے کھیت میں نہیں چھوڑا، جانور بھاگ کر چلا گیا تو اس کے نقصان کا ضمان جانور کے مالک پر نہیں ہوگا اور حضرت براء بن عازب کے واقعہ کی روایت کی سند میں فقہاء حنفیہ نے کلام کیا ہے اور فرمایا کہ اس کو صحیحین کی حدیث مذکور کے مقابلے میں حجت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح : وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ ، حضرت داؤد (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے ظاہری کمالات میں سے ایک کمال حسن صوت کا بھی عطا فرمایا تھا، جب وہ زبور پڑھتے تھے تو پرندے ہوا میں ٹھہرنے لگتے تھے اور ان کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ اور ہر شجر و مدر سے تسبیح کی آواز نکلنے لگتی تھی۔ خوش آوازی کا کمال تو ظاہری کمالات میں سے تھا اور پرندوں اور پہاڑوں کا تسبیح میں شریک ہوجانا بتسخیر خداوندی بطور معجزہ کے تھا اور معجزہ کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ پرندوں اور پہاڑوں میں حیات و شعور ہو بلکہ بطور معجزہ ہر غیر ذی شعور میں بھی شعور پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق یہی ہے کہ پہاڑوں اور پتھروں میں بھی حیات و شعور بقدر ان کی حیثیت کے موجود ہے صحابہ کرام میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بہت خوش آواز تھے ایک روز وہ قرآن پڑھ رہے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ان کی طرف ہوا تو آپ ان کی تلاوت سننے کے لئے ٹھہر گئے اور سنتے رہے پھر فرمایا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے خوش آوازی حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عطا فرمائی ہے۔ جب ابو موسیٰ کو معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی تلاوت سن رہے تھے تو عرض کیا کہ اگر مجھے آپ کا سننا معلوم ہوجاتا تو میں اور زیادہ سنوار کر پڑھنے کی کوشش کرتا (ابن کثیر) فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن میں حسن صوت اور اچھا لہجہ جس سے دلکشی پیدا ہو ایک درجہ میں مطلوب و محبوب ہے بشرطیکہ آج کل کے قراء کی طرح اس میں غلو نہ ہو کہ صرف آواز ہی سنوارنے اور لوگوں کو لبھانے کی فکر رہ جائے تلاوت کا اصل مقصد ہی غائب ہوجائے۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَفَہَّمْنٰہَا سُلَيْمٰنَ۝ ٠ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۝ ٠ۡوَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ۝ ٠ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ۝ ٧٩ فهم الْفَهْمُ : هيئة للإنسان بها يتحقّق معاني ما يحسن، يقال : فَهِمْتُ كذا، وقوله : فَفَهَّمْناها سُلَيْمانَ [ الأنبیاء/ 79] ، وذلک إمّا بأن جعل اللہ له من فضل قوّة الفهم ما أدرک به ذلك، وإمّا بأن ألقی ذلک في روعه، أو بأن أوحی إليه وخصّه به، وأَفْهَمْتُهُ :إذا قلت له حتی تصوّره، والِاسْتِفْهَامُ : أن يطلب من غيره أن يُفَهِّمَهُ. ( ف ھ م ) الفھم انسان کی اس ذہنی قوت کا نام جس سے وہ مطالب کو بہتری اور عمدگی کے ساتھ اخذکر لیتا ہے اور فھمت کذا کے معنی کسی چیز کو اچھی طرح سمجھ لینے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَفَهَّمْناها سُلَيْمانَ [ الأنبیاء/ 79] ہم نے فیصلہ کرنے کا طریقہ سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھادیا ۔ میں تفہیم کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو قوت فہم میں اضافہ کردیا زجس کے ذریعہ انہوں نے نزاع کی حقیقیت کو پالیا اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کی حقیقت ان کے قلب پر القاء کردی ۔ افھمتہ کے معنی کسی کو سمجھا نے دینے کے ہیں اور استفہام کے معنی کسی چیز کے سمجھنے کا طلب کے ہیں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) سو ہم نے اس فیصلہ کا آسان سمجھاؤ سلیمان (علیہ السلام) کو دے دیا اور یوں ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور نبوت عطا کی تھی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے، اور اسی طرح پرندوں کو بھی اور ان کے کاموں کے کرنے والے ہم تھے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَج ) ” فیصلے کے وقت حضرت سلیمان ( علیہ السلام) بھی شہزادے کی حیثیت سے دربار میں موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدمے کا ایک حکیمانہ حل ان کے ذہن میں ڈال دیا۔ چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس مسئلے کا حل یہ بتایا کہ بکریاں عارضی طور پر کھیتی والے کو دے دی جائیں ‘ وہ ان کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے۔ دوسری طرف بکریوں کے مالک کو حکم دیا جائے کہ وہ اس کھیتی کو دوبارہ تیار کرے۔ اس میں ہل چلائے ‘ بیج ڈالے ‘ آبپاشی وغیرہ کا بندوبست کرے۔ پھر جب فصل پہلے کی طرح تیار ہوجائے تو اسے اس کے مالک کے سپرد کر کے وہ اپنی بکریاں واپس لے لے۔ (وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ ط) ” حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آواز بہت اچھی تھی۔ اسی لیے لحن داؤدی کا تذکرہ آج بھی ضرب المثل کے انداز میں ہوتا ہے۔ چناچہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی دلکش آواز میں زبور کے مزامیر (اللہ کی حمد کے نغمے) الاپتے تو پہاڑ بھی وجد میں آکر آپ ( علیہ السلام) کی آواز میں آواز ملاتے تھے اور اڑتے ہوئے پرندے بھی ایسے مواقع پر ان کے ساتھ شریک ہوجاتے تھے۔ (وَکُنَّا فٰعِلِیْنَ ) ” ظاہر ہے یہ سب اللہ ہی کی قدرت کے عجائبات تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70. There is no mention of this event in the Bible, nor in the Jewish literature. According to the Muslim commentators, it happened like this: The goats of one person entered into the field of another person at night. The latter brought his complaint to Prophet David who decided that the strayed goats should be given to the owner of the field. Prophet Solomon, however, differed with this and opined that the goats should remain with the owner of the field up to the time that the former tilled and prepared the field as before. In regard to this Allah says: We led Solomon to the right decision. As regards the legal aspect of the matter, we cannot say with certainty what is the Islamic law in such a case nor is there any tradition of the Prophet (peace be upon him) to explain or support it. That is why the jurists have differed about it. It should, however, be noted that in this context, the incident has been cited to show that the Prophets were after all human beings in spite of their God given powers and abilities. In this case, Prophet David committed an error of judgment because he was not guided by Allah as was Prophet Solomon, though both of them were Prophets. In the succeeding passage the wonderful powers of both have been mentioned to show that they were God given and did not make anyone a god. Incidentally, we learn from this verse that if two judges give different decisions about one and the same case, both of them will be regarded as righteous, though the decision of only one of them will be correct, provided that both are duly qualified for sitting in judgment on the case. The Prophet (peace be upon him) has stated the same principle more elaborately. In a tradition of Bukhari, he is reported by Amar bin Aas to have said: If a judge does his very best to arrive at the right decision, he will get a double reward in case of a right judgment and a single reward if his judgment is wrong. According to another tradition, cited by Abu Daud and Ibn Majah, on the authority of Buraidah, he is reported to have said: Judges are of three kinds and only one of them will go to Paradise: the one who recognizes the truth and decides according to it. On the other hand, the one who recognizes the truth but gives his decision against it, will go to Hell, and he too, who sits in judgment on a case without the necessary knowledge (and competence). 71. From the wording of the text, it is clear that the mountains and the birds were subjected to join Prophet David (peace be upon him) with him in glorifying Allah. This is also supported by Surah Suad, Ayat 19: We had subdued the mountains by Our command so that they praised Us with him (David) in the morning and evening, and the birds too, which gathered together and repeated Our praise with him. And, according to Surah Saba, Ayat 10: We commanded the mountains to repeat Our praise with him and also the birds to do the same. We are of the opinion that it means this: When Prophet David (peace be upon him) sang hymns of Allah’s praise and glory, in his rich and sweet voice, the mountains echoed back his melodies and the birds gathered round him and the whole scene became charming. Our interpretation is supported by this tradition. Once when Abu Musa Ashari, who had an extremely sweet voice, was reciting the Quran, the Prophet (peace be upon him) who was passing by, stood and listened to him for a long time. When he finished the recital, the Prophet (peace be upon him) remarked: This man has been granted a portion of the melody of David.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :70 اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے ، اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا ۔ مسلمان مفسرین نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھس گئی تھیں ۔ اس نے حضرت داؤد کے ہاں استغاثہ کیا ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی بکریاں چھین کر اسے دے دی جائیں ۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا اور یہ رائے دی کہ بکریاں اس وقت تک کھیت والے کے پاس رہیں جب تک بکری والا اس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے ۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھایا تھا ۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ ، شافعیہ ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں ، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی ۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی تھے ، الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا ۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی اور وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کر گئے ، حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہبی کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے ۔ ضمناً اس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں ، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں تو اگرچہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا ، لیکن دونوں بر حق ہوں گے ، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو ، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ بخاری میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فاخطأ فلہ اجرٌ ۔ اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر ۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بریدہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قاضی تین قسم کے ہیں ، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی ۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دے ۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے ۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :71 مَعَ دَاوٗدَ کے الفاظ ہیں ، لِدَاوٗد کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی داوٗد علیہ السلام کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ، : اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَلَ مَعَہ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ ہ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃٌ کُلٌّ لَّہ اَوَّابٌ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے ، اور پرندے بھی مسخر کردیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے ، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ۔ سورہ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے : یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ وَالطَّیْرَ ۔ پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا ۔ ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھہر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے ۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا : لقد اوتی مزماراً من مزامیر اٰل داوٗد ، یعنی اس شخص کو داؤد ، کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: چونکہ حضرت داود علیہ السلام کا فیصلہ اصل قانون کے مطابق تھا۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی تجویز باہمی رضامندی سے ایک صلح کی صورت تھی، اس لئے اﷲ تعالی نے دونوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے علم اور حکمت دونوں کو عطا کی تھی، لیکن مصالحت کی جو صورت حضرت سلیمان علیہ السلام نے تجویز کی اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی سمجھ انہیں ہم نے عطا فرمائی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقدمے کے دوران قانونی فیصلہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ فریقین آپس کی رضا مندی سے مصالحت کی 33: اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بہت دلکش آواز عطا فرمائی تھی، اور معجزے کے طور پر یہ خصوصیت بخش تھی کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے تو پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ذکر اور تسبیح میں شریک ہوتے تھے، اور اڑتے ہوئے پرندے بھی رک جاتے، اور وہ بھی ذکر کرنے لگتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:79) ففھمنھا۔ فہم یفہم تفہیم (تفعیل) سمجھانا۔ فھمناہم نے سمجھا دیا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب وہ معاملہ جو زیر تجویز تھا۔ یعنی کھیت کا بکریوں نے چر جانا۔ یہ مفعول اول ہے۔ سلیمن مفعول ثانی۔ کلا۔ ای کل واحد منہما۔ ان دونوں میں ہر ایک کو۔ حکما وعلما۔ ملاحظہ ہو (21:74) متذکرہ بالا۔ سخرنا مع داوٗد الجبال یسبحن والطیر۔ الطیر کا عطف الجبال پر ہے۔ مع۔ سخرنا کا بھی متعلق ہوسکتا ہے۔ اور یسبحن کا بھی لفظا پہلا احتمال قوی ہے اور معنا دوسرا مع متعلق بسخرنا اویسبحن والاول اقوی لفظا والثانی معنا (مظہری بحوالہ ضیاء القرآن) الجبال والطیر دونوں سخرنا کے مفعول ہیں اور یسبحن الجبال سے موضع حال میں ہے۔ ترجمہ :۔ اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو دائود کا فرمانبردار بنادیا کہ وہ سب ان کے ساتھ تسبیح کہا کرتے ۔ وکنا فاعلین۔ اور یہ (شان) ہم دینے والے تھے۔ یعنی یہ خوارق ہمارے حکم سے تھے۔ اس لئے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ اس واقعہ کی تفصیل مفسرین نے عموماً یہ بیان کی ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس دو آدمی مقدمہ لے کر آئے۔ ایک کہنے لگا کہ اس شخص کی بکریاں رات کے وقت میرے کھیت میں گھس کر ساری کھیتی چرگئی ہیں۔ حضرت دائود نے نقصان اور بکریوں کی قیمت کا اندازہ لگا کر فیصلہ دیا کہ تم اس کی بکریاں لے لو۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں کہ ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گزارہ کرے اور بکریوں والے کو کھیت سپرد کردیا جائے کہ آبپاشی وغیرہ سے اس کی اصلاح کرے۔ یہاں تک کہ جب کھیت اپنی پہلی حالت پر آجائے تو کھیت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو واپس کردئیے جائیں۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس مقدمہ اک ٹھیک فیصلہ سلمان ( علیہ السلام) کو سمجھ دیا۔ (ابن کثیر، کبیر) مسئلہ : اگر کسی کے جانور دن کے وقت کسی دوسرے کے کھیت یا باغ کو چر جائیں تو جانور والے پر کوئی تاوان نہیں ہے اور اگر رات کے وقت چرجائیں تو جس قدر نقصان ہوا اس قدر تاوان جانور والے کے ذمہ ہوگا۔ یہی فیصلہ حضرت براء (رض) بن عازب نے ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے اور جمہور علما کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور دیگ فقہائے کوفہ جانور والے پر کسی صورت تاوان کے قائل نہیں اور دلیل میں ” العجماء جرحھا جبار “ جانور کا کسی کو زخمی کردینا معاف ہے۔ پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس حدیث میں صرف زخم کے معاف ہونے کا ذکر ہے کھیت کے نقصان کے معاف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت براء (رض) کی حدیث کو منسوخ کہا جائے۔ (قرطبی) اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اگر کوئی ھاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ غلط ہو تو اسے اکہرا اجر ملے گا اور اگر فیصلہ صحیح ہو تو دوہرا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں عمرو بن عاص کی روایت میں ہے۔ (فتح قدیر) 6 ۔ یعنی جب وہ تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کرتے۔ یہ چیز حضرت دائود پر خصوصی نعمت کے سلسلے میں ذکر کی ہے لہٰذا تسبیح کو اس کے حقیقی معنی پر محول کرنا ضروری ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت دائود کے ساتھ، زبور پڑھنے کے وقت پہاڑ اور جانور بھی انہی کی سی آواز سے پڑھتے۔ (موضح) 7 ۔ یعنی تعجب نہ کرو کہ یہ پہاڑ اور پرندے کیسے بولتے اور تسبیح کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا تھا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ صورت مقدمہ کی یہ تھی کہ جس قدر کھیت کا نقصان ہوا تھا اس کی لاگت بکریوں کی قیمت کے برابر تھی، داود (علیہ السلام) نے ضمان میں کھیت والے کو وہ بکریاں دلوا دیں، اور اصل قانون شرعی کا یہی مقتضا تھا، جس میں مدعی اور مدعی علیہ کی رضا بھی شرط نہیں، مگر چونکہ اس میں بکری والوں کا بالکل ہی نقصان ہوتا تھا اس لئے سلیمان (علیہ السلام) نے بطور مصالحت کے جو کہ موقوف تھی تراضی جانبین پر یہ صورت جس میں دونوں کی سہولت اور رعایت تھی تجویز فرمائی کہ چند روز کے لئے بکریاں تو کھیت والے کو دے دی جائیں کہ ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گزر کرے اور بکری والوں کو وہ کھیت سپرد کیا جاوے کہ اس کی خدمت آب پاشی وغیرہ سے کریں۔ جب کھیت پہلی حالت پر آجاوے تو کھیت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو دیدی جاویں، پس اس سے معلوم ہوگیا کہ دونوں فیصلوں میں کوئی تعارض نہیں کہ ایک کی صحت دوسرے کی عدم صحت کو مقتضی ہو اس لئے کلا اتینا حکما و علما بڑہا دیا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ ” وَ سَخَّرْنَا مَع دَاوٗدَ الخ “ ہم نے پہاڑ اور پرندوں کو داود (علیہ السلام) کے ماتحت کردیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح و تقدیس بیان کرتے تھے یہ سب کچھ ہم نے کیا تھا۔ ” وَ عَلَّمْنٰھُ صنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ “ الخ اور ہم نے داؤود کو لوہے کی زرہیں بنانے کی تعلیم دی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(79) پھر ہم نے اس قضیے کے فیصلے کی آسان شکل سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھا دی اور ہم نے دونوں ہی کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور سمجھ عطا فرمائی تھی اور دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا فرمایا تھا اور ہم نے پہاڑوں کو اور پرندوں کو دائود (علیہ السلام) کا تابع کردیا تھا کہ وہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اور یہ سب کچھ ہم ہی کرنے والے تھے۔ آسان شکل وہی جو مصالحت کی اوپر مذکور ہوئی دونوں کو حکمت و علم دیا گیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ پھر دونوں باپ بیٹوں کے فیصلوں میں بلاوجہ کی موشگافیاں کرنا کچھ مفید نہیں۔ پھر دونوں کو جن نعمتوں سے نوازا تھا ان کو علیحدہ علیحدہ بیان فرمایا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) جب زبور پڑھتے تو پہاڑ بھی تسبیح کرتے اور پرندے بھی جمع ہوجاتے اور حضرت دائود (علیہ السلام) کے اس اعجاز پر تعجب نہ کیا جائے کیونکہ یہ سب کچھ ہماری قدرت سے ہوا تھا اور ہم ہی کرنے والے تھے اور ہماری ہی قدرت کی کارفرمائی تھی۔ دائود (علیہ السلام) بہت خوش آواز تھے جب وہ تسبیح وتحمید کرتے تو اڑتے جانور اور پہاڑ ان کے ہمراہ تسبیح کرتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دائود (علیہ السلام) نے بکریاں دلوائیں کھیتی والوں کو بدلا ان کے نقصان کا ان کے دین میں چور کو غلام کرلیتے تھے۔ اس موافق یہ حکم کیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) لڑکے تھے انہوں نے بھی یہ جھگڑا اپنے پاس منگوایا اور کہا کہ بکریاں رکھو ان کا دودھ پیو اور کھیتی کو پانی دیا کریں بکری والے جب کھیتی جیسی تھی ویسی ہوجائے تب بکریاں پھیردیں اور کھیتی لے لیں جس میں دونوں کو نقصان نہ ہو۔ 12