Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 87

سورة الأنبياء

وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۸۷﴾ۚ ۖ

And [mention] the man of the fish, when he went off in anger and thought that We would not decree [anything] upon him. And he called out within the darknesses, "There is no deity except You; exalted are You. Indeed, I have been of the wrongdoers."

مچھلی والے ( حضرت یونس علیہ السلام ) کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے ۔ بلآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yunus This story is mentioned here, and in Surah As-Saffat and Surah Nun. Yunus bin Matta, upon him be peace, was sent by Allah to the people of Nineveh, which was a town in the area of Mawsil (in northern Iraq). He called them to Allah, but they rejected him and persisted in their disbelief. So he left them in anger, threatening them with punishment after three (days). When they realized that he was telling the truth and that a Prophet never lies, they went out to the desert with their children and cattle and flocks. They separated the mothers from their children, then they beseeched Allah and pleaded to Him, with the camels and their young groaning, the cows and their calves mooing, and the sheep and their lambs bleating, so Allah spared them from the punishment. Allah says: فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَأ إِيمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّأ ءَامَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْىِ فِى الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ Was there any town that believed (after seeing the punishment), and its faith saved it Except the people of Yunus; when they believed, We removed from them the torment of disgrace in the life of the world, and permitted them to enjoy for a while. (10:98) Yunus, meanwhile, went and traveled with some people on a ship, which was tossed about on the sea. The people were afraid that they would drown, so they cast lots to choose a man whom they would throw overboard. The lot fell to Yunus, but they refused to throw him overboard. This happened a second and a third time. Allah says: فَسَـهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ Then he (agreed to) cast lots, and he was among the losers. (37:141) meaning, the draw went against him, so Yunus stood up, removed his garment and cast himself into the sea. Then Allah sent from the Green Sea -- according to what Ibn Mas`ud said -- a large fish which cleaved the oceans until it came and swallowed Yunus when he threw himself into the sea. Allah inspired that large fish not to devour his flesh or break his bones, (as if He said) Yunus is not food for you, rather your belly is a prison for him. وَذَا النُّونِ ... ... إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا ... And (remember) Dhun-Nun, Here Nun refers to the fish; it is correct for it to be attributed to him here. when he went off in anger, Ad-Dahhak said: "Anger towards his people." ... فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ... and imagined that We shall not punish him! meaning, constrict him in the belly of the fish. Something similar to this was reported from Ibn Abbas, Mujahid, Ad-Dahhak and others. This was the view favored by Ibn Jarir, and he quoted as evidence for that the Ayah: وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّأ ءَاتَاهُ اللَّهُ لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ مَأ ءَاتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً and the man whose resources are restricted, let him spend according to what Allah has given him. Allah puts no burden on any person beyond what He has given him. Allah will grant after hardship, ease. (65:7) ... فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لاَّ إِلَهَ إِلاَّ أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ But he cried through the depths of darkness (saying): "There is no God but You, Glorified be You! Truly, I have been of the wrongdoers." Ibn Mas`ud said regarding the `depths of darkness': "The darkness of the belly of the fish, the darkness of the sea and the darkness of the night." This was also narrated from Ibn Abbas, `Amr bin Maymun, Sa`id bin Jubayr, Muhammad bin Ka`b, Ad-Dahhak, Al-Hasan and Qatadah. Salim bin Abu Al-Ja`d said: "The darkness of the fish in the belly of another fish in the darkness of the sea." Ibn Mas`ud, Ibn Abbas and others said: "This was because the fish took him through the sea, cleaving it until it reached the bottom of the sea. Yunus heard the rocks at the bottom of the sea uttering glorification of Allah, at which point he said: لااَّ إِلَـهَ إِلااَّ أَنتَ سُبْحَـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظَّـلِمِينَ There is no God but You, Glorified be You! Truly, I have been of the wrongdoers. `Awf Al-A`rabi said: "When Yunus found himself in the belly of the fish, he thought that he had died. Then he moved his legs. When he moved his legs, he prostrated where he was, then he called out: `O Lord, I have taken a place of worship to You in a place which no other person has reached."'

یونس علیہ السلام اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ صافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے ۔ یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی علیہ السلام تھے ۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا ۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی ۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کرچل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آجائے گا جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی ۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھالیا گیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ 98؀ ) 10- یونس:98 ) یعنی عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کونفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی ۔ حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکرطوفان کے آثار نمودار ہوئے ۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہوجائے ۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کانکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا ۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے آیت ( فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ ١٤١؀ۚ ) 37- الصافات:141 ) اب کہ حضرت یونس علیہ السلام خود کھڑے ہوگئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے ۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کر گئی ۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا ۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا ۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں ۔ آپ کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا ۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نقدر کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت ( وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ Ċ۝ۧ ) 65- الطلاق:7 ) سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عطیہ عوفی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قدر اور قدر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت ( فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ 12۝ۚ ) 54- القمر:12 ) بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے ۔ آپ نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی ۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جاکر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں ۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے بارالٰہی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے ۔ چنانچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کردی اسے سن کر فرشتوں نے کہابار الٰہا! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزورہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے ۔ جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے ۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے ۔ تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تیئں یونس بن متع سے افضل کہے ۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے ۔ اوپر جو روایت گزری اسکی وہی ایک سند ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے ۔ جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آوازہے ۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑتھے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے ۔ استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا ۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیاکرتے ہیں ۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کردیتے ہیں ۔ خصوصا جو لوگ اس دعائے یونسی کو پڑھیں سیدالانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تھے ۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آکر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو ۔ اس پر میں قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی پھر کچھ خیال کرکے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے ۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی ۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا بہ وقت گزرتا گیا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابو اسحاق ؟ میں نے کہا جی ہاں یارسول میں ہی ہوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ ) 21- الأنبياء:87 ) سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی حضرت یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے ۔ ابو سعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطافرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا یارسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لئے عام ہے فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے ۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں ۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابو سعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ برادرزادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 مچھلی والے سے مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انھیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انھیں مچھلی کا لقمہ بنادیا، اس کی کچھ تفصیل سورة یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورة صافات میں آئے گی۔ 87۔ 2 ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] حضرت یونس کو قرآن میں اس مقام پر ذالنون کہا گیا ہے اور سورة القلم صاحب الحوث۔ حوت اسم جنس ہے جس کا اطلاق ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلی پر ہوسکتا ہے۔ جبکہ نون سب سے بڑی (وہیل مچھلی) کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن) اور آپ کا یہ لقب اس لئے ہوا کہ آپ ایک مدت مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ زندہ و سلامت رہے اور اس دوران اللہ کی تسبیحات پڑھتے رہے۔ آپ اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی ق م ہے۔ حسب معمول قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا۔ آپ نے قوم کے مستقل انکار پر اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ اور جب قوم نے کہا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے تو آپ نے از خود ہی انھیں چالیس دن بعد عذاب آنے کی وعید سنا دی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا تھا۔ پھر جب یہ مدت گزرنے کو ہوئی اور عذاب کی کوئی علامت نہ دیکھی تو غم اور غدصہ کی وجہ سے وہاں سے فرار کی راہ اختیار کی تاکہ قوم انھیں جھوٹا نہ کہے۔ کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہچکولے کھانے لگی۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا اور اس قرعہ کے نتیجہ میں حضرت یونس کو سمندر میں پھینک دیا۔ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اس دوران آپ ہر وقت اللہ تسبیح اور اپنے گناہوں کے اعتراف پر مشغول رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مشکل سے نجات دی۔ اور مچھلی نے آپ کو برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ اسی قوم یعنی اہل نینوا کی طرف بھیجا۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ پیش آئی کہ جب حضرت یونس مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس کے قول کو پورا کردیا اور وقت معینہ پر اہل نینوا کو عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو وہ سب لوگ بچے، بوڑھے، جوان عورتیں مرد مل کر کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑ گڑائے اور توبہ کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں یہ ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب یونس آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی۔ لہذا آپ کی تبلیغ کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَذَا النُّوْنِ : یعنی مچھلی والے کو یاد کرو۔ ” النُّوْنِ “ کی جمع ” نِیْنَانٌ“ ہے، جیسے ” حُوْتٌ“ کی جمع ” حِیْتَانٌ“ ہے۔ اس سے مراد یونس بن متی (بروزن شَتّٰی) ہیں جو نینویٰ (پہلے نون کے کسرہ اور دوسرے کے فتحہ کے ساتھ) کے رہنے والے تھے، جو موصل (عراق) کے قریب تھا۔ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا : ” مُغَاضِبًا “ باب مفاعلہ سے اسم فاعل ہے جس میں مشارکت ہوتی ہے، یا معنی میں مبالغہ مراد ہوتا ہے۔ یونس (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو دعوت دی اور وہ مسلسل کفر کرتے رہے تو آخر اکتا کر سخت غصے کی حالت میں ان کے حق میں بددعا کی اور عذاب کی دھمکی دے کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر انھیں چھوڑ کر نکل پڑے۔ جب کہ منصب رسالت کا تقاضا تھا کہ ان کے تمام تر غیظ و غضب اور کفر و طغیان کے باوجود انھی میں رہتے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ہرگز انھیں چھوڑ کر نہ جاتے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال دعوت میں گزار دیے، نہ اکتائے اور نہ ان کے حق میں بددعا کی، جب تک اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ آئندہ ان کی قوم میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔ دیکھیے سورة ہود (٣٦) اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا : (فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ) [ القلم : ٤٨ ] ” پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو۔ “ اور فرمایا : (فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ) [ الأحقاف : ٣٥ ] ” پس اولو العزم رسولوں کی طرح صبر کر اور ان کے لیے جلدی (عذاب کا) مطالبہ نہ کر۔ “ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کے بلا اجازت نکلنے کو غلام کا بھاگ جانا قرار دیا ہے، فرمایا : (اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ) [ الصافات : ١٤٠ ] ” جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔ “ یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کے لیے مزید دیکھیے سورة یونس (٩٨) اور سورة صافات (١٣٩ تا ١٤٨) ۔ فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ : ” اَنْ “ اصل میں ” أَنَّا “ سے مخفف ہے، ” نَا “ کو حذف کر کے ” أَنَّ “ کے نون کو ساکن کردیا گیا ہے، یا ” أَنْ “ حرف تفسیر ہے جو ” أَيْ “ کے معنی میں ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ” قَدَرَ یَقْدِرُ “ کا معنی قادر ہونا، قابو پانا ہے، تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ کا جلیل القدر پیغمبر یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر قابو نہیں پا سکے گا ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ انھوں نے یہ ہرگز نہیں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر قابو نہیں پا سکے گا، بلکہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی معمولی کوتاہی پر بھی سخت خفگی کا اظہار فرماتے ہیں۔ اس آیت میں ان کی حالت کا بیان ہے کہ بلا اجازت ان کے چلے جانے سے ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ سمجھ رہے ہوں کہ مجھے کوئی پکڑ نہیں سکے گا۔ دوسرا جواب اس سے بہتر ہے کہ یہاں ” لَّنْ نَّقْدِرَ “ قادر ہونے کے معنی میں نہیں، بلکہ تنگی کرنے اور گرفت کرنے کے معنی میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ) [ الرعد : ٢٦ ] ” اللہ رزق فراخ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے۔ “ اور فرمایا : ( وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ) [ الطلاق : ٧ ] ” اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ “ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ یونس (علیہ السلام) نے سمجھا کہ ان کے بلا اجازت قوم سے نکل جانے پر ہم ان پر کوئی گرفت نہیں کریں گے۔ بعض اہل علم نے پہلے معنی کو سرے سے غلط قرار دیا ہے۔ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ : یہاں ایک لمبی بات حذف کردی گئی ہے، جو سورة صافات (١٣٩ تا ١٤٨) میں مذکور ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ وہ قوم سے نکلے تو سمندری سفر کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوئے جو ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ طوفان آیا اور سب کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوا تو کشتی ہلکی کرنے کے لیے سامان پھینکنے کے بعد کچھ آدمیوں کو سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ ہوا۔ قرعہ ڈالا گیا تو کئی اور آدمیوں کے ساتھ یونس (علیہ السلام) کے نام کا قرعہ نکلا، چناچہ دوسروں کے ساتھ انھیں بھی سمندر میں پھینک دیا گیا، جہاں اللہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مچھلی نے انھیں سالم ہی نگل لیا۔ اب وہ ایسی جگہ تھے جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ یہ ایسا قید خانہ تھا جہاں نہ کوئی ملاقاتی، نہ مقدمہ لڑنے والا، نہ پیروی کرنے والا، نہ قید کی کوئی میعاد، بلکہ تا قیامت قید کا فیصلہ (اگر وہ تسبیح نہ کریں) اور نہ اللہ کے سوا امید کی کوئی روشنی۔ ان کئی اندھیروں میں انھوں نے اپنے رب کو اس حال میں آواز دی کہ وہ غم سے بھرے ہوئے تھے، فرمایا : (ۘ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَكْظُوْمٌ ) [ القلم : ٤٨ ] ” جب اس نے پکارا، اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ “ 3 قرآن مجید میں ” الظُّلُمٰتِ “ کا لفظ ہر جگہ جمع ہی آیا ہے، واحد کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ (ابن عاشور) پھر سمندر کی تاریکیوں کا کوئی حساب ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ) [ النور : ٤٠ ] ” یا (کفار کے اعمال کی مثال) ان اندھیروں کی طرح ہے جو نہایت گہرے سمندر میں ہوں، جسے ایک موج ڈھانپ رہی ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، جس کے اوپر ایک بادل ہو، کئی اندھیرے ہوں، جن میں سے بعض بعض کے اوپر ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق سمندر کے اندھیرے جب صرف ” الظُّلُمٰتِ “ ہی نہیں بلکہ ” ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ “ ہیں تو ” الظُّلُمٰتِ “ کی جمع کا صیغہ مکمل کرنے کے لیے رات کا اندھیرا شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یونس (علیہ السلام) کی دعا دن کے وقت ہو تب بھی ” فِي الظُّلُمٰتِ “ ہی ہے۔ [ التفسیر القرآنی للشیخ عبد الکریم الخطیب ] اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ : یہ ” اَنْ “ بھی اصل میں ” أَنَّہُ “ سے مخفف ہے، یا حرف تفسیر بمعنی ” أَيْ “ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیت میں فرمایا ہے : ( فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ) ” تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔ “ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے کچھ مانگا ہی نہیں، نہ رہائی اور نہ اس مصیبت سے چھٹکارا، تو اللہ تعالیٰ نے کون سی دعا قبول فرمائی ؟ جواب اس کا یہ ہے (واللہ اعلم) کہ انھوں نے اپنی حالت کے مطابق بہترین دعا کی ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا مالک و معبود ہے، میں تیرا بندہ اور تیرا غلام ہوں، میں اور میرا سب کچھ تیرے سپرد اور تیرے تابع ہے۔ پھر اس کی تسبیح کی کہ تو ہر عیب اور کمی سے پاک ہے، میری اس آزمائش اور مصیبت میں تیرا کوئی ظلم ہے نہ زیادتی، تیری ذات ظلم سے یکسر پاک ہے۔ تو نے جو کیا مالک اور معبود ہونے کی وجہ سے تیرا حق ہے اور اس میں تیری بےشما رحکمتیں ہیں۔ آخر میں اپنے ظلم کا اعتراف کیا کہ یقیناً مجھ پر جو کچھ گزرا یہ میرے اپنی جان پر ظلم کی وجہ سے ہے۔ یہ دعا بہترین اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اعتراف میں درخواست ہو رہی ہے کہ تیرے سوا کوئی مجھے اس مصیبت سے نجات نہیں دے سکتا، تسبیح کے ضمن میں اظہار ہو رہا ہے کہ تو مجھے اس مصیبت سے نکالنے سے عاجز نہیں کہ جس سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نہیں اور ہمیشہ سے اپنے ظالموں میں سے ہونے کا اعتراف معافی اور بخشش مانگنے کی لطیف ترین صورت ہے۔ ایوب (علیہ السلام) نے بھی دعا کے لیے عرض حال اور اللہ کی رحمت کا واسطہ دینے پر اکتفا کیا ہے۔ مزید سورة فاتحہ کی تفسیر میں ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کے بہترین دعا ہونے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کی مزید تفصیل سورة صافات اور سورة قلم میں دیکھیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَذَا النُّونِ (21:87) The story of Sayyidna Yunus Ibn Matta (علیہ السلام) appears in the Holy Qur&an in Surah Yanus, Surah Al-Anbiya&, Surah As-Saffat and Surah Nun. At some places he is mentioned by his real name and at others by the title as Dhunnun or Sahihul Hut. The meaning of Nun and Hut both is fish. Thus, Dhunnun and Sahibul Hut can be translated as man of the fish. Sayyidna Yunus (علیہ السلام) remained inside the stomach of a fish for a few days in very odd circumstances by the will of Allah. It is because of this episode that he is sometimes referred to as Dhunnun or Sahib Al-Hut. The Story of Yunus (علیہ السلام) According to the commentary by Ibn Kathir, Sayyidna Yunus (علیہ السلام) was sent to preach Allah&s message among the people of Nineveh which is a township in the region of Mousel. Sayyidna Yunus (علیہ السلام) invited them towards Islam and asked them to follow the true religion and perform good deeds, but they rejected his call and behaved in an arrogant and defiant manner. Being dejected and annoyed, Yunus (علیہ السلام) left the place after warning them that Allah&s wrath would descend upon them within three days. After he had departed from the township, the people realized that his warning might come true. (According to some versions they had actually seen the signs of the impending disaster). So they repented and asked pardon for their sins and the entire population retired to a forest with their cattle and animals. Then they started lamenting and bewailing and invoked Allah&s forgiveness and protection. Allah Ta&ala accepted their sincere contrition and wailing over their sins and released them from the fear of the impending disaster. While all these events were taking place, Sayyidna Yunus (علیہ السلام) waited expecting the news about the destruction of his people. But when he learnt that the storm had passed and his people were safe and sound, he worried that they would regard him as a liar. According to some versions, it was customary with his people to execute a person if he was proved a liar. (Mazhari). Sayyidna Yunus (علیہ السلام) ، therefore, feared for his life and decided to go away to some other place rather than returning to his own people. He came across a river on his way and boarded a boat to cross it. While crossing the river it so happened that the boat was caught in a whirlpool and was in danger of sinking. The boatmen decided that if one of the passengers was off loaded from the boat the chances were that the rest of them would be saved from drowning. So they cast lots to decide as to who should be off-loaded. As luck would have it they drew the name of Sayyidna Yunus (علیہ السلام) . It seems that the boatmen were aware of his exalted position and they refused to throw him in the river. The lot was drawn a second and then a third time and his name was drawn on both occasions. This episode has been mentioned elsewhere in the Holy Qur&an in the following words: فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ (and cast lots, and was of the rebutted - 37:141). Thereupon Sayyidna Yunus (علیہ السلام) got up, took off the extra clothes which he was wearing and threw himself in the river. Immediately a fish from the Caspian Sea arrived on the scene as commanded by Allah Ta&ala and swallowed Yonus (علیہ السلام) . (as reported by Ibn Masud (رض) . The fish was further commanded by Allah Ta’ ala that he was not to be taken for food, that no harm was to be done to his body (both flesh and bones) and that he was only to be held as a prisoner in its stomach for a few days. (Ibn Kathir) There are references in the Qur&an that Sayyidna Yunus (علیہ السلام) earned Allah Ta` a1a&s displeasure when he left his people without His specific command and his stay for a few days in the stomach of the fish was a sign of Allah&s displeasure for his lapse. It is safe to assume that the warning of Sayyidna Yunus (علیہ السلام) to his people about their imminent destruction within three days was not the outcome of his own judgment but was based on Divine revelations. Similarly, his dissociation from his people was nothing new and was in line with the practice of other prophets in similar situations and must, therefore, also have been done by the command and approval from Allah Ta` ala. So, upto this point there seems nothing to be wrong in his conduct which would deserve Allah Ta’ ala&s displeasure. But later on when Allah Ta’ ala accepted the genuine remorse and repentance of the people and released them from the fear of destruction, it was to be expected that Yunus (علیہ السلام) would return to his people. But his decision not to return to them and go away from them was based on his own judgment (اِجتِھَاد). He reasoned that if he returned to them, they would regard him as a liar and his teachings would be rendered ineffectual and fruitless. There was also the danger that he might have been taken and executed. For these reasons he was hopeful that his parting with his people would not be a reprehensible act before Allah Ta` ala. Although his decision to migrate was based on his personal judgment (Ijtihad اِجتِھَاد) without waiting for a clear direction from Allah Ta` ala, yet it did not constitute a sin. Nevertheless for a prophet to take a decision on his own without waiting for the revelation (وَحِی) from Allah Ta’ ala was not liked by Him. This was not a crime but an act which was not desirable. The status of the prophets and His closed ones is highly exalted and it is expected of them not to indulge even in such undesirable acts. The slightest lapse on their part is subjected to Allah&s displeasure and reproach from Him, and that is why he faced this hardship. It is quoted in Tafsir al-Qurtubi from al-Qushairi that this had happened to Yunus (علیہ السلام) when the tempest was removed from his people, which was against his wish and that his stay in the stomach of the fish for a few days was more of a reformatory measure than punishment, as sometimes people warn their young children and take reformatory measures against them. (Qurtubi) After learning the background of the episode it would be easier to understand the meanings of the verses which is as follows: ذَّهَبَ مُغَاضِبًا (he walked away in anger 21:87) It is obvious that the anger was against his own people. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has explained it as such. فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ thought We will never put him to trouble - 21:87) Lexically the word نَّقْدِرَ‌ has three different meanings: If it is derived from the meaning would be that Sayyidna Yunus (علیہ السلام) imagined that Allah Ta` a1a would not be able to gain mastery over him. This is obviously an unacceptable explanation as no Muslim can ever entertain such thoughts in his mind, least of all a prophet of Allah. Alternatively if it is considered that the word نَّقْدِرَ‌ is derived from قَدر then the meaning would be to straighten or narrow down, as the Qur&an says: اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ‌ لَهُ (Allah extends provision to whom He wills and straitens it.) The Imams of Tafsir Ata&, Said Ibn Jubair, Hasan Basri and many other scholars have adopted this interpretation, and therefore the meaning of the verse would be that Yunus (علیہ السلام) thought that he would not be put in a straitened condition by Allah Ta` a1a if he abandoned his people. This second explanation is adopted by most commentators (and the translation of the text as appeared above is based on it). The third possibility is that نَقدِر is a derivative of تَقدِیر in which case the verse would mean that Yunus (علیہ السلام) was sure that he would not be blamed if he dissociated himself from his people. Qatadah, Mujahid and Farra& have adopted this explanation.

خلاصہ تفسیر اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونس (علیہ السلام) کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے جب وہ (اپنی قوم سے جبکہ وہ ایمان نہ لائی) خفا ہو کر چل دیئے (اور ان کی قوم پر سے عذاب ٹلنے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لئے ہمارے حکم کا انتظار نہیں کیا) اور انہوں نے (اپنے اجتہاد سے) یہ سمجھا کہ ہم (اس چلے جانے میں) ان پر کوئی داروگیر نہ کریں گے (یعنی چونکہ اس فرار کو انہوں نے اپنے اجتہاد سے جائز سمجھا اس لئے وحی کا انتظار نہ کیا لیکن چونکہ امید وحی تک وحی کا انتظار انبیاء کے لئے مناسب ہے اور یہ مناسب کام ان سے ترک ہوگیا لہٰذا ان کو یہ ابتلا پیش آیا کہ راستہ میں ان کو کوئی دریا ملا اور وہاں کشتی میں سوار ہوئے، کشتی چلتے چلتے رک گئی یونس (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ میرا یہ بلا اجازت فرار ناپسند ہوا اس کی وجہ سے یہ کشتی رکی، کشتی والوں سے فرمایا کہ مجھ کو دریا میں ڈال دو ، وہ راضی نہ ہوئے غرض قرعہ پر اتفاق ہوا تب بھی ان ہی کا نام نکلا، آخر ان کو دریا میں ڈال دیا اور خدا کے حکم سے ان کو ایک مچھلی نے نگل لیا، اخرجہ، ابن ابی حاتم عن ابن عباس کذا فی الدار المنثور) پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا (ایک اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا، دوسرا دریا کے پانی کا دونوں گہرے اندھیرے جو بہت سے اندھیروں کے قائم مقام، یا تیسرا اندھیرا رات کا، قالہ ابن مسعود کما فی الدر المنثور، غرض ان تاریکیوں میں دعا کی) کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں (یہ توحید ہے) آپ سب نقائص سے) پاک ہیں (یہ تنزیہ ہے) میں بیشک قصور وار ہوں (یہ استغفار ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ میرا قصور معاف کر کے اس شدت سے نجات دیجئے) سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اس گھٹن سے نجات دی (جس کا قصہ سورة صافات میں فَنَبَذْنٰهُ بالْعَرَاۗءِ الخ میں مذکور ہے) اور ہم اسی طرح (اور) ایمان والوں کو (بھی کرب اور غم سے) نجات دیا کرتے ہیں (جبکہ چندے غم میں رکھنا مصلحت نہ ہو) معارف و مسائل وَذَا النُّوْنِ ، حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) کا قصہ قرآن کریم نے سورة یونس، سورة انبیاء پھر سورة صافات اور سورة نون میں ذکر فرمایا کہیں ان کا اصل نام ذکر فرمایا ہے کہیں ذوالنون یا صاحب الحوت کے القاب سے ذکر کیا گیا ہے۔ نون اور حوت دونوں کے معنے مچھلی کے ہیں ذوالنون اور صاحب الحوت کا ترجمہ ہے مچھلی والا، حضرت یونس (علیہ السلام) کو بتقدیر الٰہی چند روز بطن ماہی میں رہنے کا واقعہ غریبہ پیش آیا تھا اس کی مناسبت سے ان کو ذوالنون بھی کہا جاتا ہے اور صاحب الحوت کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا گیا۔ قصہ یونس (علیہ السلام) : تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یونس (علیہ السلام) کو علاقہ موصل کی ایک بستی نینوی کے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یونس (علیہ السلام) نے ان کو ایمان و عمل صالح کی دعوت دی، انہوں نے تمرد اور سرکشی سے کام لیا۔ یونس (علیہ السلام) ان سے ناراض ہو کر بستی سے نکل گئے اور ان کو کہہ دیا کہ تین دن کے اندر تمہارے اوپر عذاب آجائے گا۔ یونس (علیہ السلام) بستی چھوڑ کر نکل گئے تو ان کو فکر ہوئی کہ اب عذاب آ ہی جائے گا (اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے بعض آثار کا ان کو مشاہدہ بھی ہوگیا) تو انہوں نے اپنے شرک و کفر سے توبہ کی اور بستی کے سب مرد عورت اور بچے جنگل کی طرف نکل گئے اور اپنے مویشی جانوروں اور ان کے بچوں کو بھی ساتھ لے گئے اور بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ کردیا اور سب نے گریہ وزاری کرنا شروع کی اور الحاح وزاری کے ساتھ اللہ سے پناہ مانگی، جانوروں کے بچوں نے جن کو ان کی ماؤں سے الگ کردیا گیا تھا الگ شور و غل کیا۔ حق تعالیٰ نے ان کی سچی توبہ اور الحاح وزاری کو قبول کرلیا اور عذاب ان سے ہٹا دیا۔ ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) اس انتظار میں رہے کہ قوم پر عذاب آ رہا ہے وہ ہلاک ہوگئی ہوگی جب ان کو یہ پتہ چلا کہ عذاب نہیں آیا اور قوم صحیح سالم اپنی جگہ ہے تو (ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اب میں جھوٹا سمجھا جاؤں گا، اور بعض روایات میں ہے کہ ان کی قوم میں یہ رسم جاری تھی کہ کسی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا (مظہری) اس سے حضرت یونس (علیہ السلام) کو اپنی جان کا بھی خطرہ لاحق ہوگیا تو) یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں واپس جانے کے بجائے کسی دوسری جگہ کو ہجرت کرنے کے قصد سے سفر اختیار کیا۔ راستہ میں دریا تھا اس کو پار کرنے کے لئے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے کشتی ایسے گرداب میں پھنسی کہ غرق ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ملاحوں نے یہ طے کیا کہ کشتی میں سوار لوگوں میں سے ایک کو دریا میں ڈال دیا جائے تو باقی لوگ غرقابی سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس کام کے لئے کشتی والوں کے نام پر قرعہ اندازی کی گئی اتفاق سے قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر نکل آیا (کشتی والے شاید ان کی بزرگی سے واقف تھے) ان کو دریا میں ڈالنے سے انکار کیا اور دوبارہ قرعہ ڈالا پھر بھی اس میں نام یونس (علیہ السلام) کا نکلا، ان کو پھر بھی تامل ہوا تو تیسری مرتبہ قرعہ ڈالا پھر بھی انہیں کا نام نکل آیا۔ اسی قرعہ اندازی کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ ان الفاظ سے آیا ہے فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ یعنی قرعہ اندازی کی گئی تو یونس (علیہ السلام) ہی اس قرعہ میں متعین ہوئے۔ اس وقت یونس (علیہ السلام) کھڑے ہوگئے اور اپنے غیر ضروری کپڑے اتار کر اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا ادھر حق تعالیٰ نے بحر اخضر سے ایک مچھلی کو حکم دیا وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی فوراً یہاں پہنچ گئی (کما قالہ ابن مسعود) اور یونس (علیہ السلام) کو اپنے اندر لے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو یہ ہدایت فرما دی تھی کہ نہ ان کے گوشت کو کوئی نقصان پہنچے نہ ہڈی کو یہ تیری غذا نہیں بلکہ تیرا پیٹ چند روز کے لئے ان کا قید خانہ ہے (یہاں تک یہ سب واقعہ روایت ابن کثیر میں ہے بجز ان کلمات کے جو قوسین میں لئے گئے ہیں وہ دوسری کتابوں سے لئے ہوئے ہیں) قرآن کریم کے اشارات اور بعض تصریحات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا بغیر اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند ہوا اسی پر عتاب نازل ہوا اور دریا میں پھر مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی نوبت آئی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جو قوم کو تین دن کے اندر عذاب آجانے سے ڈرایا تھا ظاہر یہ ہے کہ یہ اپنی رائے سے نہیں بلکہ وحی الٰہی سے ہوا تھا اور اس وقت قوم کو چھوڑ کر ان سے الگ ہوجانا بھی جو قدیم عادت انبیاء (علیہم السلام) کی ہے ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی بحکم خداوندی ہوا ہوگا یہاں تک کوئی بات لغزش کی موجب عتاب نہیں تھی مگر جب قوم کی سچی توبہ اور الحاح وزاری کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر ان سے عذاب ہٹا دیا اس وقت حضرت یونس (علیہ السلام) کا اپنی قوم میں واپس نہ آنا اور بقصد ہجرت سفر اختیار کرنا یہ اپنے اس اجتہاد کی بنا پر ہوا کہ اس حالت میں اگر میں واپس اپنی قوم میں گیا تو جھوٹا سمجھا جاؤں گا اور میری دعوت بےاثر بےفائدہ ہوجاوے گی بلکہ اپنی جان کا بھی خطرہ ہے اور اگر میں ان کو چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ و گرفت نہیں ہوگی اپنے اجتہاد کی بنا پر ہجرت کا قصد کرلینا اور اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کا انتظار نہ کرنا اگرچہ کوئی گناہ نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ کو یونس (علیہ السلام) کا یہ طرز عمل پسند نہ آیا کہ وحی کا انتظار کئے بغیر ایک فیصلہ کرلیا یہ اگرچہ کوئی گناہ نہیں تھا مگر خلاف اولیٰ ضرور ہوا۔ انبیاء (علیہم السلام) اور مقربان بارگاہ الٰہی کی شان بہت بلند ہوتی ہے ان کو مزاج شناس ہونا چاہئے۔ ان سے اس معاملے میں ادنیٰ کوتاہی ہوتی ہے تو اس پر بھی عتاب اور گرفت ہوتی ہے یہی معاملہ تھا جس پر عتاب ہوا۔ تفسیر قرطبی میں قشیری سے بھی یہ نقل کیا کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ صورت غضب یونس (علیہ السلام) کی اس وقت پیش آئی جبکہ قوم سے عذاب ہٹ گیا ان کو یہ پسند نہ تھا، اور مچھلی کے پیٹ میں چند روز رہنا بھی کوئی تعذیب نہیں بلکہ تادیب کے طور پر تھا جیسے اپنے نابالغ بچوں پر زجر و تنبیہ تعذیب نہیں ہوتی تادیب ہوتی ہے تاکہ آئندہ وہ احتیاط برتیں (قرطبی) واقعہ سمجھ لینے کے بعد آیات مذکورہ کے الفاظ کی تفسیر دیکھئے۔ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا : یعنی چلے گئے غصہ میں آ کر، ظاہر ہے کہ مراد اس سے اپنی قوم پر غصہ ہے حضرت ابن عباس سے یہی منقول ہے اور جن حضرات نے مُغَاضِبًا کا مفعول رب کو قرار دیا ہے ان کی مراد بھی مُغَاضِبًا لربہ ہے یعنی اپنے رب کے لئے غصہ میں بھر کر چل دیئے اور کفار فجار سے اللہ کے لئے غصہ کرنا عین علامت ایمان ہے (کذا فی القرطبی و البحر المحیط) فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ : لفظ نَّقْدِرَ میں باعتبار لغت ایک احتمال یہ ہے کہ مصدر قدرت سے مشتق ہو تو معنے یہ ہوں گے کہ انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ ہم ان پر قدرت اور قابو نہ پاسکیں گے ظاہر ہے کہ یہ بات کسی پیغمبر سے تو کیا کسی مسلمان سے بھی اس کا گمان نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسا سمجھنا کفر صریح ہے اس لئے یہاں یہ معنے قطعاً نہیں ہو سکے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مصدر قدر سے مشتق ہو جس کے معنے تنگی کرنے کے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے، اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ، یعنی اللہ تعالیٰ وسعت کردیتا ہے رزق میں جس کے لئے چاہے اور تنگ کردیتا ہے جس پر چاہے۔ ائمہ تفسیر میں سے عطاء، سعید بن جبیر، حسن بصری، اور بہت سے علماء نے یہی معنے اس آیت میں لئے ہیں اور مراد آیت کی یہ قرار دی کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اپنے قیاس و اجتہاد سے یہ گمان تھا کہ ان حالات میں اپنی قوم کو چھوڑ کر کہیں چلے جانے کے بارے میں مجھ پر کوئی تنگی نہیں کی جائے گی۔ اور تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ لفظ قدر بمعنے تقدیر سے مشتق ہے جس کے معنے قضاء اور فیصلہ دینے کے ہیں تو معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو یہ گمان ہوگیا کہ اس معاملہ میں مجھ پر کوئی گرفت اور مواخذہ نہیں ہوگا۔ ائمہ تفسیر میں سے قتادہ اور مجاہد اور فراء نے اسی معنے کو اختیار کیا ہے۔ بہرحال پہلے معنے کا تو اس جگہ کوئی احتمال نہیں دوسرے یا تیسرے معنے ہو سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْہِ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝ ٠ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٨٧ۚۖ نون النّون : الحرف المعروف . قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ [ القلم/ 1] والنّون : الحوت العظیم، وسمّي يونس ذا النّون في قوله : وَذَا النُّونِ [ الأنبیاء/ 87] لأنّ النّون کان قد التقمه، وسمّي سيف الحارث ابن ظالم ذا النّون «2» . ( ن و ن ) النون ۔ حرف ہجا میں سے ایک حرف کا نام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ن وَالْقَلَمِ [ القلم/ 1] ان ۔ قلم اور جو ( اہل قلم ) لک تھے ہیں اس کی قسم ۔ اور نون بڑی مچھلی کو بھی کہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَذَا النُّونِ [ الأنبیاء/ 87] اور ذالنون کو یاد کرو جب وہ ( اپنی قوم سے ناراض ہوکر ) چل دیئے ۔ میں یونس (علیہ السلام) کو ذا النون کہا ہے ۔ کیونکہ انہیں مچھلی نے نگل لیا تھا ۔ اور حارث بن ظالم کی تلوار کا نام بھی اذالنون تھا ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) اور مچھلی والے پیغمبر یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے جب کہ وہ اپنے بادشاہ سے ناراض ہو کر چل دیے اور انہوں نے یہ سمجھا کر ہم اس دن کے چلے جانے پر کوئی پکڑ نہیں کریں گے (اللہ کے حکم سے ان کو مچھلی نگل گئی) پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا، ایک اندھیرا دریا کا، دوسرا مچھلی کے پیٹ کا، تیسرا مچھلی کی آنتوں کا، غرض کہ ان تاریکیوں میں دعا کی کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ پاک ہیں، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں، بیشک میں قصور وار ہوں کہ بغیر آپ کے حکم کے ناراض ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا) ” یعنی حضرت یونس ( علیہ السلام) ۔ آپ ( علیہ السلام) کو ” مچھلی والا “ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) کو شہر نینوا کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ آپ ( علیہ السلام) نے بار بار دعوت دی ‘ ہر طرح سے تبلیغ و تذکیر کا حق ادا کیا ‘ مگر اس قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی کسی بات کو نہ مانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اس موقع پر آپ ( علیہ السلام) حمیتِ حق کے جوش میں قوم سے برہم ہو کر ان کو عذاب کی خبر سنا کر وہاں سے نکل آئے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر آپ ( علیہ السلام) سے ایک ” سہو “ سرزد ہوگیا کہ آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت آنے سے پہلے ہی اپنے مقام بعثت سے ہجرت کرلی ‘ جبکہ اللہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی رسول اپنے مقام بعثت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ اسی اصول اور قانون کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ اس کی اجازت نہیں مل گئی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت ہیں اور اللہ کے مقرب بندوں کا معاملہ تو اللہ کے ہاں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ اور ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ عزوجل اور اس کے ایک جلیل القدر رسول ( علیہ السلام) کے مابین ہے۔ اسے ہم الفاظ کے بظاہر مفہوم پر محمول نہیں کرسکتے۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) وہ رسول ہیں جن کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے یونس ابن متیّٰ پر بھی فضیلت نہ دو “۔ بہر حال حضرت یونس ( علیہ السلام) حمیتِ حق کے باعث اپنی قوم پر غضبناک ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ (فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ ) ” واللہ اعلم ! یہ الفاظ بہت سخت ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ ‘ یونس (علیہ السلام) فی الواقع ایسا سمجھتے تھے کہ وہ بستی سے نکل کر گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہی نکل گئے ‘ بلکہ آپ ( علیہ السلام) کے طرز عمل سے یوں لگتا تھا۔ یعنی صورت حال ایسی تھی کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ شاید آپ ( علیہ السلام) نے ایسا سمجھا تھا کہ اللہ ان کو پکڑ نہیں سکے گا ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کے دل میں ایسا کوئی خیال گزرا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل بندوں کی ادنیٰ ترین لغزش کا ذکر بھی بہت سخت پیرایہ میں کرتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) نے لکھا ہے کہ اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی ‘ بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگزاشت بھی کیوں کرتے ہیں ! ع ” جن کے رتبے ہیں سوا ‘ ان کی سوا مشکل ہے ! “ (فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ ) ” آپ ( علیہ السلام) اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد ایک کشتی میں سوار ہوئے اور وہاں ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ آپ ( علیہ السلام) کو دریا میں چھلانگ لگانا پڑی اور ایک بڑی مچھلی نے آپ ( علیہ السلام) کو نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ اور قعر دریا کی تاریکیوں میں آپ ( علیہ السلام) تسبیح کرتے اور اللہ کو پکارتے رہے : (اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) ” اے اللہ ! مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ‘ میں خطاکارہوں ‘ تو مجھے معاف کر دے ! یہ آیت ” آیت کریمہ “ کہلاتی ہے۔ روایات میں اس آیت کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ کسی مصیبت یا پریشانی کے وقت یہ دعا صدق دل سے مانگی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

82. That is, Jonah, literally Dhun-Nun means the man of the fish. He was called so because he was devoured by a fish by the command of Allah. (Also See (Surah As-Saffaat, Ayat 142) and (Surah Younus, Ayat 98 and its E.Ns 98-100). 83. Prophet Jonah left his people before he received Allah’s command for migration. 84. He presumed that he should leave, the place which was going to be visited by the scourge of Allah. This was not by itself an offence but it was an offence for a Prophet to leave the place of his mission without the permission of Allah. 85. “Darkness”: the darkness in the belly of the fish and the darkness of the sea over and above it.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :82 مراد ہیں حضرت یونس علیہ السلام ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ذوالنون اور صاحب الحوت یعنی مچھلی والے کے القاب سے یاد کیا گیا ہے ۔ مچھلی والا انہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے ، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا ، جیسا کہ سورہ صافات آیت 142 میں بیان ہوا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، یونس ، حواشی 98 تا 100 ۔ الصٰفّٰت ، حوشی 77 تا 85 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :83 یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور ان کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :84 انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر تو عذاب آنے والا ہے ، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تا کہ خود بھی عذاب میں نہ گھر جاؤں ۔ یہ بات بجائے خود تو قابل گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابل گرفت تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :85 یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا ، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ پیچھے سورۂ یونس : 97 میں گذر چکا ہے کہ وہ اللہ کا حکم آنے سے پہلے وہ اپنی بستی کو چھوڑ گئے تھے، اﷲ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی، اور اس کی وجہ سے ان پر یہ آزمائش آئی کہ جس کشتی میں وہ سوار ہوئے تھے۔ انہیں اس میں سے دریا میں اتار دیا گیا۔ اور ایک مچھلی انہیں نگل گئی، جس کے پیٹ میں وہ تین دن رہے، اس آیت میں اندھیریوں سے مراد مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک کنارے پر لا کر پھینک دے، اور اس طرح انہیں اس گھٹن سے نجات ملی، واقعے کی مزید تفصیل ان شاء اللہ سورۂ صافات : 139 تا 148 میں گذر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٧۔ ٨٨:۔ یہ یونس (علیہ السلام) کا قصہ یہاں ‘ سورة والصافات اور سورة نٓ میں اس طرح کئی جگہ آیا ہے ‘ تفسیر سدی ‘ تفسیر ابن ابی حاتم ‘ مسند بزار اور تفسیر ابن مردویہ میں عبداللہ بن مسعود کی صحیح روایت ١ ؎ سے یہ قصہ جو بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ موصل شہر کی سر زمین میں ایک نینوا بستی ہے ‘ وہاں کے لوگوں کی ہدایت کے واسطے یونس (علیہ السلام) نبی مقرر ہوئے تھے جب وہاں کے لوگوں نے یونس (علیہ السلام) کی نصیحت کو نہ مانا تو یونس (علیہ السلام) تین دن میں عذاب کے آجانے کا پیغام قوم کے لوگوں کو سنا کر قوم کی حالت پر غصہ میں بھرے ہوئے اس بستی سے باہر چلے گئے ‘ نینوا کے لوگوں نے جب کچھ آثار عذاب کے دیکھے تو جنگل میں جا کر بہت روئے اور خالص دل سے توبہ کی ‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حال پر رحم فرمایا اور اس عذاب کو ٹال دیا چناچہ اس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے بستی کے باہر جب یونس (علیہ السلام) کو یہ خبر پہنچی کہ وقت مقررہ پر عذاب نہیں آیا تو بغیر حکم الٰہی کے اس بستی سے دور جانا چاہا اور سفر کے ارادہ سے دریا پر جا کر کشتی میں بیٹھے ‘ اللہ کے حکم سے جب وہ کشتی نہ چلی تو انہوں نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا ‘ جہاں ایک مچھلی ان کو نگل گئی اور پھر مچھلی کے پیٹ کے اندھیرے ‘ رات کے اندھیرے ‘ ان اندھیروں میں یہ دعا مانگی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور اس رنج وغم سے ان کو نجات دے کر پھر اسی قوم کی ہدایت کے لیے انہیں بھیجا ‘ اسی کا ذکر ان آیتوں میں فرما کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنے نیک بندوں کو ہر ایک بلا سے نجات دیتا ہے زیادہ تفصیل اس قصہ کی سورة والصافات میں آوے گی فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِ رَ عَلَیْہِ اس کا مطلب یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے بغیر حکم الٰہی کے بستی کو چھوڑ کر خود اختیاری سے چلے جانے کو لائق گرفت گناہ خیال نہیں کیا۔ اللہ کے رسول خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خیال سے کہ یونس (علیہ السلام) کا قصہ سن کر لوگ یونس (علیہ السلام) کو حقیر نہ جانیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت اور صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس (رض) کی روایتوں ٢ ؎ میں فرمایا کوئی شخص مجھ کو یہ نہ کہے کہ میں یونس (علیہ السلام) سے بہتر ہوں ‘ نون عربی زبان میں مچھلی کو کہتے ہیں ‘ یونس (علیہ السلام) کو مچھلی نگل گئی تھی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو مچھلی والا پیغمبر فرمایا۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٣٣۔ ٣٣٤ ج ٤ ) (٢ ؎ ایضا ص ٣٣٤ ج ٤ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:87) ذا النون۔ کمافی (21:58) مچھلی والا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا لقب ہے کیونکہ آپ کو مچھلی نگل گئی تھی۔ آپ کو صاحب الحوت بھی کہتے ہیں۔ مغاضبا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ منصوب۔ مغاضبۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ ناراض ہو کر۔ غصہ میں۔ ای غضبان علی قومہ۔ اپنی قوم سے ناراض ہو کر کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے اور اتباع حق سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ ان لن نقدر علیہ۔ لن نقدر مضارع نفی تاکید بلن۔ قدر کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (1) اللہ کا حکم۔ مثلاً وکان امر اللہ قدرا مقدورا (33:38) اور خدا کا حکم ٹھہر چکا ہے یعنی اس کے متعلق فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ یا فالتقی الماء علی امر قد قدر (54:12) سو پانی اکٹھا مل گیا (اور چڑھ آیا اس قدر کہ) جتنا اسے حکم دیا گیا تھا۔ (2) اندازہ کرنا۔ مثلاً قد جعل اللہ لکل شیء قدرا (65:3) خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ اسی سے مقدار ہے وما ننزلہ الا بقدر معلوم (15:21) اور ہم اسے مناسب مقدار میں اتارتے ہیں۔ (3) بمعنی ضیق۔ تنگ کی کرنا۔ کمی کرنا۔ جیسے اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر (13:26) اللہ جس پر چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس پر چاہے تنگ کردیتا ہے ۔ اور ومن قدر علیہ رزقہ (65:7) اور جس کا رزق یا آمدنی تنگ کی گئی ہو۔ (4) قدرت رکھنا۔ طاقت رکھنا۔ واللہ علی کل شیء قدیر (2:284) اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور ایحسب الن یقدر علیہ احد (90:5) کیا وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کسی کو قدرت نہیں۔ آیت ہذا میں قدر کا استعمال بمعنی ضیق تنگی کرنا کے معنی میں آیا ہے یعنی (اس نے خیال کیا) کہ ہم اس پر تنگی نہیں کریں گے (راغب) ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کریں گے۔ ہم اس پر کوئی داروگیر نہیں کریں گے۔ (تھانوی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس چونکہ اس افرار کو انہوں نے اجتہاد جائز سمجھا، اس لئے انتظار نص اور وحی کا نہ کیا، لیکن چونکہ امید وحی کا انتظار انبیاء کے لئے مناسب ہے اس ترک مناسب پر ان کو یہ ابتلا پیش آیا، راہ میں ان کو کوئی دریا ملا، اور وہاں کشتی میں سوار ہوئے کشتی چلتے چلتے رک گئی، یونس (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ میرا یہ فرار بلا اذن ناپسند ہوا، اس کی وجہ سے کشتی رکی، کشتی والوں سے فرمایا کہ مجھ کو دریا میں ڈال دو ، وہ راضی نہ ہوئے، غرض قرعہ پر اتفاق ہوا تب بھی ان ہی کا نام نکلا، آخر ان کو دریا میں ڈال دیا اور خدا کے حکم سے ان کو ایک مچھلی نگل گئی۔ 5۔ ایک اندھیرا شکم ماہی کا دوسرا قعر دریا کا، پھر دونوں گہرے اندہیرے بجائے بہت سے اندھیروں کے یا تیسرا اندھیرا رات کا غرض ان تاریکیوں میں دعا کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور ذوالکفل ( علیہ السلام) کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا بیان۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) (صاحب الحوت) قرآن حکیم کی چھ سورتوں میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر موجود ہے چار سورتوں میں صرف نام آیا ہے اور دو سورتوں میں ذالنُّون اور صاحب الحوت کے الفاظ سے ذکر ہوا ہے۔ النساء : ١٦٣ الانعام : ٨٦ یونس : ٩٨ الانبیاء : ٨٧۔ ٨٨ الصافات : ١٣٩ تا ١٤٨ القلم : ٤٨ تا ٥٠ تعارف : بخاری شریف میں حضرت یونس (علیہ السلام) کے والد کا نامی متّٰی آیا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اسرائیلی نبی تھے مگر انہیں آشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا۔ اسی بنا پر آشوریوں کو قوم یونس کہا جاتا ہے اس قوم کا مرکز اس زمانے میں نینوی کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ” یونس نبی “ کے نام سے آج بھی ایک بستی مشہور ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو نینویٰ میں مبعوث کیا گیا۔ قرآن حکیم نے اس شہر کی آباد ی ایک لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ (الصٰفٰت : ١٤٧) ترمذی کی ایک روایت میں یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ اس قوم میں شرک وکفر کی کثرت تھی حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت کے لیے مامور کیا گیا وہ طویل عرصہ تک قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن قوم ان کی دعوت پر توجہ دینے کی بجائے کفر و شرک پر قائم رہی اور پہلے لوگوں کی طرح یونس (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے رہے۔ روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کو آگاہ کردیں کہ تین دن میں عذاب آنے والا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم میں اعلان کردیا، اس اعلان پر قوم کے بعض سرداروں کو احساس ہوا کہ یونس (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ دیکھا جائے یونس (علیہ السلام) رات اپنے گھر گزارتے ہیں یا ہجرت کر جاتے ہیں۔ اگر وہ مقیم رہے تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اگر ہجرت کر گئے تو ہم پر عذاب نازل ہوگا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) شہر چھوڑ کر دور نکل گئے۔ صبح ہوئی تو قوم پر سیاہ بادل منڈلانے لگے۔ صورت حال دیکھ کر قوم کو یقین ہوگیا کہ اب ہم ہلاک ہونے والے ہیں۔ یہ لوگ یونس (علیہ السلام) کی تلاش میں نکل گئے اور طے کرلیا کہ ان پر ایمان لے آئیں گے لیکن حضرت یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا۔ اب اخلاص کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہوئے بستی سے باہر ایک میدان میں نکل گئے عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے سب میدان میں جمع ہوگئے اور نہایت آہْ وزاری کے ساتھ توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی اجتماعی توبہ قبول فرمائی۔ (فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْن) [ یونس : ٩٨] ” پھر کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو تو اس کے ایمان لانے نے اسے نفع دیاہو، یونس کی قوم کے سوا جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں ذلّت کا عذاب دور کردیا اور انہیں ایک وقت تک فائدہ پہنچایا۔ “ اِدھر حضرت یونس (علیہ السلام) انتظار میں تھے کہ اب قوم پر عذاب نازل ہوگا۔ جب عذاب ٹل گیا تو فکر ہوئی کہ قوم مجھے جھوٹا قرار دے گی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اس پریشانی میں ہجرت کے لیے نکل پڑے۔ دریائے فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی لوگوں سے بھری ہوئی تیار کھڑی تھی۔ لوگوں نے یونس (علیہ السلام) کو دیکھا تو سوار کرلیا کشتی روانہ ہوئی جب دریا کے درمیان پہنچی توبھنور میں پھنس گئی۔ کشتی والوں نے اعلان کیا کہ کشتی میں کوئی بھاگا ہوا غلام ہے۔ اسے اپنے آپ کو پیش کردینا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے سب لوگ غرق نہ ہوں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے دل میں سوچا اگر یہ دستور ہے تو بھاگا ہوا غلام میں ہی ہوں۔ کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے ہجرت کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن تک رہے۔ مچھلی ان کو پانی کی تہہ تک لے گئی اور پانی میں دور دراز پھیراتی رہی۔ بعض مفسرین نے سات اور بعض نے تین دن مدت لکھی ہے (تفسیر مظہری) حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے آپ کو زندہ محسوس کیا، سجدہ میں پڑ کر ندامت کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عفو و درگزر کی درخواست پیش کی۔ (لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ) [ الانبیاء : ٨٧] ” الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں، بلاشبہ میں اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی درد بھری پکار قبول فرمائی۔” اللہ “ کے حکم سے مچھلی نے یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے پھینک دیا۔ (فَلَوْلاَ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ ۔ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہِ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۔ فَنَبَذْنَاہ بالْعَرَاءِ وَہُوَ سَقِیْمٌ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَقْطِینٍ ۔ وَاَرْسَلْنَاہُ اِِلٰی مِأَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ) [ الصّٰفٰت : ١٤٣ تا ١٤٧] ” اگر یونس اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ ہم نے اسے باہر کنارے پر پھینک دیا اس حالت میں کہ وہ بیمار تھے اس پر کدو کی بیل کو اگا دیا اور انہیں ایک لاکھ سے زائد افراد کی طرف بھیجا۔ “ یونس (علیہ السلام) نہایت کمزوری کے عالم میں خشکی پر ڈال دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان پر ایک بیلدار درخت اگا دیا۔ جس کے پتوں کا سایہ حضرت یونس (علیہ السلام) پر سائبان بن گیا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے شہر واپس آئے قوم نے دیکھا تو بےحد خوشی کا اظہار کیا اور ان کی رہنمائی میں دنیا وآخرت کی کامرانی حاصل کی آخر کار پوری قوم حضرت یونس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی وفات حضرت یونس (علیہ السلام) کے مقام وفات کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں : 1 نینویٰ میں مبعوث کئے گئے وہاں فوت ہوئے تھے۔ 2 فلسطین کے شہر الخلیل میں وفات پائی جو اکثر انبیاء کرام کا مدفن ہے۔ اہل تحقیق نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ (ماخوذ از قصص القرآن) (عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَعْوَۃُ ذِی النُّونِ إِذْ دَعَا وَہُوَ فِی بَطْنِ الْحُوتِ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَإِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِی شَیْءٍ قَطُّ إِلاَّ اسْتَجَاب اللَّہُ لَہُ ) [ رواہ الترمذی : باب دعوۃ ذالنون فی۔۔] ” حضرت سعد (رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت یونس (علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں کی ہوئی دعا (لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ ) تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے بلاشبہ میں ظالموں میں سے ہوں۔ کوئی مسلمان پڑھ کر اپنی حاجت پیش کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور انھیں اس عظیم پریشانی سے نجات دی۔ ٢۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت یونس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں تذکرہ اور ان کے اوصاف حمیدہ : ١۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں پانچ بار تذکرہ ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ یونس (علیہ السلام) رسولوں میں سے تھے۔ (الصٰفٰت : ١٣٩) ٥۔ یونس (علیہ السلام) کی اللہ نے دعا قبول فرما کر مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ (الانبیاء : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قصہ یونس علیہ السلام۔ آپ کو ذوالنون بھی کہتے ہیں۔ وذالانون اذ ذھب۔۔۔۔۔۔ کذلک نجی المومنین (٧٨۔ ٨٨) ’ “۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ بھی یہاں ایک سرسری اشارے کی شکل میں ہے ‘ جیسا کہ اس سورة کا انداز ہے اور سورة مضافات میں اس کی تفصیلات ہیں لیکن ضروری ہے کہ یہاں ہم بعض ضروری تفصیلات دے دیں تاکہ یہاں کے اشارات اچھی طرح سمجھ میں آجائیں۔ ان کو مچھلی والے (ذوالنون) اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب ان کو کشتی سے پھینکا گیا تو مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ قصہ یہ تھا کہ ان کو ایک گائوں میں دعوت اسلامی پھیلانے کے لیے بھیجا گیا۔ گائوں والوں نے ان کی ایک نہ مانی ‘ ان کو اس پر بہت غصہ آیا۔ اسی غصے کی وجہ سے ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے اور ان میں رہ کر دعوت اسلامی کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے صبر اور مصابرت سے کام نہ لیا۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ملک خدا تنگ نیست بئے مرالنگ نیست۔ اللہ کی مخلوقات سے اور گائوں بھرے پڑے ہیں ‘ اگر یہ لوگ دعوت کو قبول نہیں کرتے تو اللہ انہیں دوسروں کع طرف متوجہ گر دے گا۔ یہ ہے مفہوم فظن ان لن نقدر علیہ (١٢ : ٧٨) کا ” اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے “ یعنی ” لن نقدر “ کا مفہوم ہے ” لم نضیق علیہ “۔ ان کے غصے اور تنگ دلی نے ان کو گائوں سے نکلنے پر آمادہ کردیا۔ وہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں ایک کشتی تیار تھی۔ اس میں سوار ہر گئے۔ کشتی کو امواج بحری نے گھیر لیا۔ ملاح نے کہا کہ اگر اسے ہلکا نہ کیا گیا تو سب لوگ ڈوب جائیں گے۔ اس پر انہوں نے قرعہ اندازی کی۔ قرعہ حضرت یونس کا نکل گیا۔ لوگوں نے انہیں سمندر میں پھینک دیا یا خود کود پڑے۔ ان کو مچھلی نے نگل لیا۔ اور وہ مزید تنگ جگہ تک جا پہنچے۔ اس وقت اندھیروں میں تھے۔ ایک اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا ‘ دوسرا اندھیرا سمندر کا اور تیسرا اندھیرا رات کا۔ انہوں نے اپنے رب کو یوں پکارا۔ لاالہ الا انت سنحنک انی کنت من الظلمین (١٢ : ٧٨) ” نہیں ہے کوئی الہٰ مگر تو ‘ پاک ہے ذات تیری ‘ بیشک میں ہی ظالموں میں سے تھا “۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی۔ اس پریشانی سے انہیں نجات دی جس میں وہ تھے۔ مچھلی نے انہیں ساحل پر پھینک دیا۔ اس کے بعد کے ان واقعات سورة اصافات میں مفصل ہیں۔ یہاں اسی قدرضروری تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے قصے کے اس حصے میں عبرت اور غور طلب نکات ہیں لہٰذا یہاں قدرے قوقف ضروری ہے۔ یہ کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے دعوت اسلامی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر نہ کیا۔ ان کا دل بھر آیا ‘ انہوں نے دعوت کی ذمہ داریاں چھوڑدیں اور غصے میں اس گائوں سے چل پڑے۔ جب وہ چلے تو سخت پریشانی اور غصے میں تھے۔ اللہ نے ان کو ان مشکلات سے دوچارکر دیا جن کے مقابلے میں تکذیب کرنے والوں کی جانب سے آنے والی مشکلات کم تھیں۔ اگر وہ توبہ نہ کرتے اور اپنے نفس پر ‘ دعوت اسلامی پر اور اپنے فرائض پر ظلم کا اعتراف نہ کرتے تو اللہ ان کو اس مصیبت سے نہ نکالتا لیکن قدرت نے ان کی توبہ قبول کر کے ان کی حفاظت کی اور ان کو اس غم سے نجات دی۔ دعوت اسلامی کے حاملین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کے فرائض اور مشکلات کو برداشت کریں۔ اگر لوگ تکذیب کرتے ہیں تو وہ ان پر صبر کریں۔ اگر ایذادیتے ہیں تو صبر کریں ‘ حقیقت یہ ہے کہ ایک سچے آدمی کو جھوٹا کہنے کا اثر اس کے نفس پر بہت ہی کڑواہوتا ہے۔ لیکن رسالت کی ذمہ داریوں کا یہ قصہ ہے کہ لوگ مانیں یا نہ مانیں دعوت اسلامی کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر برداشت پیدا کریں ‘ صبر کریں اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ ضروری ہے کہ وہ از سر نو دعوت کا کام شروع کریں۔ دعوت کا آغاز از سر نو کریں اور پرو گرام کو پھر سے شروع کریں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ دعوت کے کام سے مایوس نہ ہوں ، دلوں میں از سر نو اصلاح کا جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کی اصلاح کا کام کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ قوم بار بار انکار کر دے اور تکذیب کر دے۔ سرکشی کرے اور دعوت کو رد کر دے۔ اگر سو بار کی دعوت دلوں پر اثر نہ کرے تو ہو سکتا ہے کہ ایک سو بار ایک بار کی دعوت دلوں میں اتر جائے۔ بعض اوقات انسان ایک ہزار ایک بار سعی کرنے پر کامیاب ہوتا ہے۔ اگر داعی صبر کرے ، کوشش کرے اور مایوس نہ ہو تو ہزار ہا کوششوں کے بعد وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ دعوت اسلامی کا کام آسان اور سہل نہیں ہے۔ لوگوں کے دلوں کو کسی دعوت کے لئے برانگیختہ کرنا بہت ہی دشوار کام ہے۔ دلوں کا جیتنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل ہے۔ باطل ، رسم و رواج اور عادات اور رسوم کا ایک تہ بہ تہ نظام ہے جس نے دعوت کے کام کو روک لیا ہوتا ہے۔ پھر ہر سوسائٹی اپنی موجودہ تنظیم اور اداروں کو بچانا چاہتی ہے۔ دلوں کے اوپر موجودہ عادات اور طرز زندگی زنگ کی طرح جما ہوتا ہے لہٰذا دلوں کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے سب کچھ کرنا ہوتا ہے تمام حساس مراکز تحریک کو چھونا ہوتا ہے اور بڑی مشکل سے اس رگ کو پکڑا جاتا ہے جس کے ذریعے پیغام پہنچ جاتا ہے ۔ ایک ایک نج کے بڑے صبر ، بڑی برداشت اور بڑی جدوجہد کرنی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات صرف ایک سرسری کوشش سے اور جب انسانی سوسائٹی کی دکھتی رگ کو پکڑ لیا جاتا ہے تو پھر بڑی آسانی کے ساتھ انسان منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور سوسائٹی میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ اس بات کو ایک عام مثال سے سمجھایا جاسکتا ہے۔ آپ ریڈیو کے ریسیور کی سوئی کو گھماتے رہتے ہیں لیکن مطلوبہ اسٹیشن نہیں لگتا۔ بار بار گھمانے کے بعد اچانک اچانک اسٹیشن لگ جاتا ہے بار بار کوششوں سے بعض اوقات اسٹیشن نہیں لگتا لیکن بعض اوقات سوئی کو محض لاپرواہی سے گھمانے کے نتیجے میں اسٹیشن لگ جاتا ہے اور پروگرام آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ انسانی دل ریڈیو کے ریسیور کے مانند ہے اور داعی کو چاہئے کہ وہ مایوس نہ ہو اور ریسیور کو گھماتا رہے۔ دلوں کو ٹٹولتا رہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت لوگوں کے دل اسے قبول کرنے کے لئے اچانک آمادہ ہوجائیں اور لوگ افق ہے ذرا بلند دیکھنے لگ جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی ہزار کوششیں ناکام رہیں اور ایک ہزار ایک نمبر پر کی جانے والی کوشش میں ہم منزل مقصود کو پالیں۔ یہ تو بہت آسان ہے کہ ایک داعی غضب میں آجائے برہم ہوجائے کہ لوگ میری بات کو قبول کیوں نہیں کرتے۔ وہ لوگوں کو چھوڑ دے ، آرام سے بیٹھ جائے ، ٹھیک ہے اس کی برہمی دور ہوجائے گی۔ اس کے اعصاب ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ لیکن دعوت اور پھر دعوت اسلامی کا کیا ہوگا ؟ کون واپس آئے گا اور جھٹلانے والی اور چھوڑی ہوئی قوم کو دعوت کون دے گا ؟ اصل بات دعوت ہے۔ داعی کی شخصیت اصل مقصود نہیں ہے۔ اگر داعی برہم ہوتا ہے یا اس کا سینہ دق ہوتا ہے تو اسے صبر کرنا چاہئے اور اپنی راہ کو نہ چھوڑنا چاہئے۔ اس کی ذات کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ صبر کرے اور لوگوں کی باتوں پر دل کو تنگ نہ کے۔ بےصبری کا مظاہرہ نہ کرے اور پھر لوگوں کی تکذیب اور لوگوں کی باتوں کی وجہ سے تو ایسا ہرگز نہ کرے۔ رہی داعی کی ذات تو اس کی حقیقت ہی کیا ہے۔ یہ تو دست قدرت کا ایک ہتھیار ہے۔ دعوت کا اصل کام اللہ خود کرتا ہے۔ وہی دعوت کا محافظ ہے۔ داعی کو چاہئے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے فریضہ کو پورا کرے۔ ہر فضا میں کام کے لئے راہیں نکالے۔ انجام اللہ پر چھوڑ دے۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت ذوالنون کے قصے میں داعیان حق کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اس سبق کو غور سے حاصل کریں۔ حضرت ذوالنون (علیہ السلام) نے جب توبہ کی ، اپنے موقف پر نظرثانی کی اور اپنے کام پر لوٹ آئے تو اس میں دعوت اسلامی کے کارکنوں کے لئے بہت بڑی عبرت ہے۔ کیا مناسب نہیں ہے کہ داعیان حق اس پر تدبر کریں۔ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا ، اندھیروں کے اندر ان کی دعا اور اللہ کی طرف سے اس کی قبولیت میں داعیان حق کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے۔ کیا یہ نہیں کہا گیا۔ کذلک ننحی المومنین (٢١ : ٨٨) ” اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔ “ اب حضرت زکریا اور یحییٰ (علیہما السلام) کے قصے کی طرف سرسری اشارہ اور حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت : وزکریآ…خشعین (٩٠)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ذوالنون یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ، مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھنا پھر اس مچھلی کا آپ کو سمندر کے باہر ڈال دینا ان دونوں آیتوں میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا ہے۔ چونکہ انھیں ایک مچھلی نے نگل لیا تھا اس لیے انہیں ذوالنون فرمایا۔ عربی میں نون مچھلی کو کہتے ہیں اور حوت بھی کہتے ہیں۔ اس لیے سورة ن و القلم میں (صاحب الحوت) فرمایا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا مفصل قصہ ہم سورة یونس میں بیان کرچکے ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ سورة صافات کی تفسیر میں بھی ذکر کریں گے۔ یہاں یہ قصہ بقدر ضرورت ذکر کیا جاتا ہے جس سے ان دونوں آیتوں کا مفہوم سمجھ میں آجائے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نینوا بستی والوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے بھی اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور دعوت و تبلیغ میں بہت محنت کی لیکن وہ برابر سر کشی پر تلے رہے۔ آپ نے ان سے فرما دیا کہ اب تم پر عذاب آئے گا۔ عذاب آنے میں ذرا دیر لگی تو وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اس روانہ ہونے میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نہیں بھیجی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی گرفت کرلی گئی۔ ان کا گمان تھا کہ ان لوگوں کو چھوڑ کر چلے جانے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ ادھر تو آپ اپنی قوم کو چھوڑ کر روانہ ہوگئے ادھر قوم پر عذاب آنے کے آثار ظاہر ہوگئے۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ہٹا لیا۔ جیسا کہ سورة یونس میں فرمایا (لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ ) اللہ تعالیٰ کی اس قوم کے ساتھ یہ خصوصی مہربانی تھی ورنہ تکوینی قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر ان کے کفر کی وجہ سے عذاب آجائے تو اس وقت کا ایمان قبول نہیں ہوتا اور عذاب نہیں ٹلتا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کو چھوڑ کر روانہ ہو کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ وہ کشتی ڈگمگانے لگی۔ اس پر انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحی آنے سے پہلے چلا آیا اور اسی وجہ سے کشتی ڈگمگا رہی ہے کشتی والوں سے کہا کہ مجھے سمندر میں ڈال دو تاکہ تم نجات پا جاؤ۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں اور پکڑ لیں گے تاکہ تمہاری وجہ سے ہم بچ جائیں۔ اس پر فرمایا کہ قرعہ ڈال لو۔ جس کا نام نکلے، اس کو سمندر میں ڈال دیا جائے۔ چناچہ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور ہر بار حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا۔ لہٰذا انہوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ جیسے ہی سمندر میں پہنچے وہاں ایک مچھلی نے انہیں نگل لیا اور تین اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے رہے۔ ایک اندھیری رات کی، دوسری اندھیری سمندر کی تہہ کی اور تیسری اندھیری مچھلی کے پیٹ کی۔ وہاں جو وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے رہے اس کے الفاظ سورة انبیاء میں یوں نقل کیے ہیں (لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) (اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں بلاشبہ میں ظلم کرنے والوں میں ہوں) ۔ سورۂ صافات میں فرمایا (فَلَوْلاَ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) (سو اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اس کے پیٹ میں رہتے) اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو غم اور گھٹن سے نجات دی۔ سورة ن و القلم میں فرمایا (فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوتِ اِِذْ نَادٰی وَھُوَ مَکْظُومٌ لَوْلاَ اَنْ تَدَارَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بالْعَرَاءِ وَھُوَ مَذْمُوْمٌ فَاجْتَبَاہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ) (آپ اپنے رب کی تجویز پر صبر سے بیٹھے رہیے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیے جبکہ انہوں نے دعا کی اور وہ غم میں گھٹ رہے تھے۔ اگر ان کے رب کا احسان ان کی دستگیری نہ کرتا تو وہ میدان میں بد حالی کے ساتھ ڈال دیئے جاتے۔ پھر ان کے رب نے ان کو برگزیدہ کرلیا اور ان کو صالحین میں سے کردیا) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی ان کو نجات بھی دے دی اور ان کو برگزیدہ بندہ بھی بنا لیا صالحین میں سے ہونے کی سند بھی دے دی لیکن بےپڑھے مفسرین ان سے راضی نہیں ان کی پیغمبرانہ معصومیت کو داغدار کرنے میں اپنا کمال سمجھتے ہیں حالانکہ آیات قرآنیہ میں ان کے کسی گناہ کا ذکر نہیں ہے صرف اتنی بات ہے کہ وہ قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے اور اس چلے جانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے کا انتظار نہیں کیا اور اجتہادی طور پر یہ گمان کرلیا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا یہ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے البتہ ان کے مقام رفیع کے خلاف ہے جو ان کی شان کے اعتبار سے ایک زلت یعنی ایک لغزش ہے، حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کی بجائے ان کی جانوں کا بدلہ لے لیا اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوا۔ حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کے زلات کا جہاں کہیں قرآن مجید اور احادیث میں ذکر آیا ہے اس کو آیت اور حدیث کی تشریح کے ذیل میں بیان کرنا تو درست ہے لیکن ان باتوں کو اڑانا ان حضرات کی طرف خطا اور قصور کی نسبت کرنا اور اس پر مضمون لکھنا یہ امت کے لیے جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ قرطبی سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ختم پر ہم سورة طہٰ میں لکھ آئے ہیں۔ فائدہ : حضرت یونس (علیہ السلام) نے جو مچھلی کے پیٹ میں دعا کی اس میں تہلیل یعنی اللہ کی توحید کا بیان ہے جو (لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ ) میں مذکور ہے اور اللہ کی تسبیح یعنی پاکی بیان کرنے کا ذکر بھی ہے جو لفظ (سُبْحٰنَکَ ) میں مذکور ہے اور اپنے قصور وار ہونے کا اعتراف ہے جو (اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے لیے لفظ دعا اور توبہ کے لیے لفظ توبہ اگر زبان پر نہ لایا جائے اور سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور تسبیح بیان کرلی جائے اور اپنے قصور کا اقرار کرلیا جائے تو یہ بھی دعا ہے اور توبہ ہے (ہاں اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد ذمہ ہوں تو ان کی ادائیگی بھی توبہ کا ایک جزو ہے (حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مچھلی والے (یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کی جو دعا مچھلی کے پیٹ میں تھی (لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) جو مسلمان بھی اس کے ذریعہ سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دعا قبول فرمائے گا۔ تفسیر درمنثور میں بحوالہ مستدرک حاکم حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں اللہ کا اسم نہ بتادوں ؟ وہ یہ ہے کہ (لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) جو بھی مسلمان چالیس بار اس کے ذریعے اپنے رب سے دعا کرے گا پھر اس مرض میں مرجائے جس میں یہ دعا کی تو اسے شہید کا ثواب دیا جائے اور اگر اچھا ہوگیا تو اس حالت میں اچھا ہوجائے گا کہ اس کے گناہ بخشے جا چکے ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ ” وَ ذَالنُّوْنِ اِذْ الخ “ یہ آٹھویں تفصیلی عقلی دلیل ہے حضرت یونس (علیہ السلام) عرصہ تک اپنی قوم کو دعوت و تبلیغ کے بعد ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور ان کے انکار و اصرار پر ناراض ہو کر ہجرت کرلی حالانکہ ابھی تک اللہ کی جانب سے اس قسم کا کوئی حکم ان پر نازل نہیں ہوا۔ غالباً اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا کہ ان لوگوں پر اب حجت خداوندی تام ہوچکی ہے اور ان کے یمان لانے کی کوئی امید نہیں اب تو عنقریب ہی ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے والا ہے اس لیے یہاں سے ہجرت کر جانا چاہئے۔ ” مُغَاضِبًا “ ای غضبان علی قومہ لشدۃ شکیمتھم وتمادی اصرارھم مع طول دعوتہ ایاھم وکان ذھابہ ھذا ھجرۃ عنھم لکنہ لم یومر بہ (روح ج 17 ص 83) ۔ چناچہ جب وہ اپنے شہر سے نکل کر روانہ ہوئے اور بحیرہ روم کے کنارے پہنچے تو کشتی تیار تھی اس میں سوار ہوگئے کشتی گرداب میں پھنس گئی اور غرق ہونے لگی تو ملاحوں نے کہا کہ سواریوں میں کوئی بھاگا ہوا غلام ہے اور ہمارا دستور یہ ہے کہ ایسے موقع پر ہم قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں پھینک دیتے ہیں چناچہ تین مرتبہ قرعہ ڈالا گیا تینوں مرتبہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا اب وہ سمجھے کہ انہوں نے بلا امر ربانی ہجرت کر کے غلطی کی ہے اور ملاحوں سے کہا بیشک میں ہی اپنے آقا کے حکم کے بغیر بھاگا ہوا غلام ہوں اور سمندر میں چھلانگ لگا دی ایک بڑی مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس کو کوئی تکلیف نہ دینا میں نے اسے تیری غذا نہیں بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔ 60:۔ ” وَ ظَنَّ انْ لَّنْ نَّقْدِرَ الخ “ نقدر یہاں قدرۃ سے نہیں بلکہ قدر سے ہے جس کے معنی قضا یا تنگی کرنے کے ہیں۔ یعنی یونس (علیہ السلام) قبل نزول امر ہجرت کر کے چلے گئے اور ان کا خیال تھا کہ اس فعل پر ان کو سزا دینے کا ہم کوئی فیصلہ نہیں کرینگے یا ہم ان پر کسی قسم کی تنگی نہیں کرینگے۔ ای لن نقضی علیہ العقوبۃ قالہ ابن عباس فی روایۃ عنہ وقیل معناہ فظن ان لن نضیق علیہ الحبس (خازن ج 4 ص 258) ۔ فظن ان لن نقدر علیہ ای لن نضیق علیہ وھو کقولہ تعالیٰ اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ و یقدر ای یضیق و من قدر علیہ رزقہ ای ضیق الخ (کبیرج 6 ص 189) ۔ 61:۔ ” فَنَادٰي فِی الظُّلُمٰتِ الخ “ مچھلی کے پیٹ میں پہنچ کر حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنے قصور کا اعتراف کیا اور اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مصروف ہوگئے آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی آہ وزاری قبول فرمائی اور مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مچھلی کے پیٹ میں خدا کو پکارا اس سے معلوم ہوا کہ وہ خود متصرف و کارساز نہ تھے کہ اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچا لیتے۔ ” فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ “ ان کی دعا ہم ہی نے قبول کی۔ ” وَ نَجَّیْنَاه “ اور مصیبت سے ہم ہی نے ان کو بچایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(87) اور مچھلی والے یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) بن متیٰ کا تذکرہ کیجئے جب وہ قوم سے خفا ہوکر غصہ کی حالت میں چلا گیا اور اس نے یہ سمجھا کہ ہم اس کو نہ پکڑ سکیں گے اور اس پر کوئی دارو گیر نہ کریں گے۔ پھر اس نے سخت اندھیریوں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اور تو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے بلاشبہ میں ہی قصوروار میں سے تھا۔ یعنی یونس (علیہ السلام) نینوا میں نبی بناکر بھیجے گئے تھے ان کی قوم نے ان کی بات نہیں مانی اور ان کی مخالفت کی وہ ناراض ہوکر اور اپنی قوم کو عذاب کا وعدہ دے کر بستی سے تشریف لے گئے اور یہ سجھ کر گئے کہ اس نکل جانے پر مجھ سے کوئی باز پرس اور گرفت نہ ہوگی اور چونکہ ان کا جانا بلا امر خداوندی تھا اس لئے راستے میں جبکہ یہ کشتی میں سوار ہوئے ان کی گرفت ہوگئی کشتی بھنور میں آگئی۔ کشتی والوں نے کہا ہماری کشتی میں کوئی ایسا غلام ہے جو اپنے آقا سے بھاگ کر یہاں آ بیٹھا ہے چناچہ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا کشتی والوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی شکل و صورت دیکھ کر یقین نہ کیا دوسری تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا۔ تب بھی حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کا نام نکلا۔ آخر حضرت یونس (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اور فرمایا میں ہی وہ غلام ہوں جو اپنے مولا سے بھاگا ہوا ہوں یہ کہہ کر دریا میں کود پڑے۔ فوراً ایک مچھلی نے نگل لیا۔ مچھلی کو حکم ہوا کہ یونس (علیہ السلام) تیری غذا نہیں ہے بلکہ تیرا پیٹ اس کے لئے قید خانہ مقرر کیا گیا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے قصور کا اعتراف کیا آخر مچھلی نے اگل دیا۔ دوسری طرف حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کے نشانات نمودار ہوئے۔ یہ لوگ جنگل میں نکل کر روئے۔ گڑگڑائے توبہ کی بتوں کو توڑ ڈالا ان پر سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ جیسا کہ ہم سورة یونس میں عرض کرچکے ہیں قوم حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کرتی پھرتی تھی آخر حضرت یونس (علیہ السلام) کو ایک بیل کے نیچے پالیا اور اور ان کو عزت و احترام کے ساتھ بستی میں لے آئے فظن ان لن نقدر علیہ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یونس (علیہ السلام) اس طرح بستی سے نکل کر گیا جیسے کوئی یوں سمجھے کہ وہ ہماری گرفت سے نکل گیا اور ہم اس پر قابو نہیں پاسکیں گے ورنہ ایک پیغمبر یہ کہاں خیال کرسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نکل گیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے محض اتنی بات نامناسب ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم آنے سے پہلے نکل گئے اسی پر گرفت ہوگئی۔ بڑے لوگوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ معمولی سی نامناسب بات پر بھی ان سے بازپرس ہوجاتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یونس (علیہ السلام) حزقیل پیغمبر (علیہ السلام) کے یاروں میں سے تھے۔ بڑے شوقین عبادت کے اور دنیا سے الگ حکم ہوا ان کو بھیجو شہر نینوا میں مشرکوں کو منع کریں بت پوجنے سے یہ خفا ہوکر گئے راہ میں ندی آئی ایک بیٹا کنارے چھوڑا ایک کو کندھے پر لیا۔ عورت کا ہاتھ پکڑا ندی میں جب پانی نے زور کیا عورت کا ہاتھ چھٹ گیا اس کے تھامنے میں کندھے سے لڑکا پھسل گیا گھبراہٹ میں دونوں بہہ گئے کنارے آئے دوسرے لڑکے کو بھیڑیا لے گیا جب اس شہر میں پہنچے سرداروں سے ملے اللہ کا پیغام دیا۔ وے ٹھٹھا کرنے لگے ایک مدت رہے آخر خفا ہوکر عذاب کی بددعا کی اور آپ نکل گئے۔ تین دن کا وعدہ کرکے۔ تیسرے دن عذاب آیا شہر کے سب لوگ جنگل میں نکلے اللہ کے آگے توبہ کی اور روئے سارے بت توڑ ڈالے۔ عذاب ٹل گیا۔ شیطان نے یونس (علیہ السلام) کو خبر دی کہ وہ قوم اچھی بھلی ہے اس پر عذاب نہ آیا یہ خفا ہوئے کہ اللہ نے مجھ کو جھوٹا کیا حکم کی راہ نہ دیکھی کسی طرف چل کھڑے ہوئے ایک کشتی پر سوار ہوئے وہ بھنور میں چکر کھانے لگی۔ لوگوں نے کہا کشتی میں کسی کا غلام ہے اپنے آقا سے بھاگا ہوا۔ قرعہ ڈالا تو ان کے نام پر آیا۔ دریا میں ان کو ڈال دیا ایک مچھلی نگل گئی۔ اس اندھیرے میں رب کو پکارا تب توبہ قبول ہوئی مچھلی نے کنارے پر اگل دیا وہاں ایک بیل نے چھاکر چھائوں کی اور ہرنی نے دودھ پلایا جب قوت پائی حکم ہوا اسی قوم میں پھرجانے کا وے آرزو مند تھے۔ راہ دیکھتے۔ ان کی عورت اور لڑکے پھر ملے بھیڑیئے سے لوگوں نے چھڑایا تھا اور بہتوں کو نکال لیا تھا اسی شہر میں اب ان کی قبر ہے۔ اور جو فرمایا کہ سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے یعنی مہربانی کے معاملے میں اس کو راضی نہ کرسکیں گے وہ ایسا خفا ہوا ہے اور حکومت کے معاملے میں ہر چیزآسان ہے۔ 12۔ مزید تفصیل انشاء اللہ والصافات میں آجائے گی۔ اور یہ جو فرمایا اندھیروں میں تو ایک مچھلی کا پیٹ دوسرے قعر دریا تیسرے رات کی تاریکی۔