Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 95

سورة الأنبياء

وَ حَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۹۵﴾

And there is prohibition upon [the people of] a city which We have destroyed that they will [ever] return

اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those who have been destroyed, will never return to this World Allah tells: وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ And a ban is laid on every town which We have destroyed that they shall not return. وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ ... And a ban is laid on every town. Ibn Abbas said, "it is enforced", i.e., it has been decreed that the people of each township that has been destroyed will never return to this world before the Day of Resurrection, as is reported clearly (through other narrations) from Ibn Abbas, Abu Ja`far Al-Baqir, Qatadah and others. Ya'juj and Ma'juj Then Allah tells:

یافت کی اولاد ہلاک شدہ لوگوں کا دنیا کی طرف پھر پلٹنا محال ہے ۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ ان کی توبہ مقبول نہیں ۔ لیکن پہلا قول اولیٰ ہے ۔ یاجوج ماجوج نسل آدم سے ہیں ۔ بلکہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے لڑکے یافت کی اولاد میں سے ہیں جن کی نسل ترک ہیں یہ بھی انہی کا ایک گروہ ہے یہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار سے باہر ہی چھوڑ دیے گئے تھے ۔ آپ نے دیوار بنا کر فرمایا تھا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے ۔ اللہ کے وعدے کے وقت اس کا چورا چورا ہوجائے گا میرے رب کا وعدہ حق ہے الخ ۔ یاجوج ماجوج قرب قیامت کے وقت وہاں سے نکل آئیں گے اور زمین میں فساد مچا دیں گے ۔ ہر اونچی جگہ کو عربی میں حدب کہتے ہیں ۔ ان کے نکلنے کے وقت ان کی یہی حالت ہوگی تو اس خبر کو اس طرح بیان کیا جیسے سننے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور واقع میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر کس کی ہوگی؟ جو غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے ۔ ہوچکی ہوئی اور ہونے والی باتوں سے آگاہ ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکوں کو اچھلتے کودتے کھیلتے دوڑتے ایک دوسروں کی چٹکیاں بھرتے ہوئے دیکھ کر فرما اسی طرح یاجوج ماجوج آئیں گے ۔ بہت سی احادیث میں ان کے نکلنے کا ذکر ہے ۔ ( ١ ) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ لوگوں کے پاس پہنچیں گے جیسے اللہ عزوجل کا فرمان ہے آیت ( وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ 96؀ ) 21- الأنبياء:96 ) وہ چھاجائیں گے اور مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں میں سمٹ آئیں گے اپنے جانورں کو بھی وہی لے لیں گے اور اپنا پانی انہیں پلاتے رہیں گے یاجوج ماجوج جس نہر سے گزریں گے اس کا پانی صفاچٹ کر جائیں گے یہاں تک کہ اس میں خاک اڑنے لگے گی ان کی دوسری جماعت جب وہاں پہنچے گی تو وہ کہے گی شاید اس میں کسی زمانے میں پانی ہوگا ۔ جب یہ دیکھیں گے کہ اب زمین پر کوئی نہ رہا اور واقع میں سوائے ان مسلمانوں کے جو اپنے شہروں اور قلعوں میں پناہ گزیں ہوں گے کوئی اور وہاں ہوگا بھی نہیں تو یہ کہیں گے کہ اب زمین والوں سے تم ہم فارغ ہوگئے آؤ آسمان والوں کی خبرلیں ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شریر اپنا نیزہ گھما کر آسمان کی طرف پھینکے گا قدرت الٰہی سے وہ خون آلود ہو کر ان کے پاس گرے گا یہ بھی ایک قدرتی آزمائش ہوگی اب ان کی گردنوں میں گٹھلی ہو جائے گی اور اسی وبا میں یہ سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم مرجائیں گے ایک بھی باقی نہ رہے گا سارا شور وغل ختم ہوجائے گا مسلمان کہیں گے کوئی ہے جو اپنی جان ہم مسلمانوں کے لئے ہتھیلی پر رکھ کر شہرکے باہر جائے اور ان دشمنوں کو دیکھے کہ کس حال میں ہیں؟ چنانچہ ایک صاحب اس کے لئے تیار ہوجائیں گے اور اپنے آپ کو قتل شدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی خدمت کے لئے نکل کھڑے ہوں گے دیکھیں گے کہ سب کا ڈھیرلگ رہا ہے سارے ہلاک شدہ پڑے ہوئے ہیں یہ اسی وقت ندا کرے گا کہ مسلمانو!خوش ہوجاؤ اللہ نے خود تمہارے دشمنوں کو غارت کردیا یہ ڈھیر پڑا ہوا ہے اب مسلمان باہر آئیں گے اور اپنے مویشیوں کو بھی لائیں گے ان کے لئے چارہ بجز ان کے گوشت کے اور کچھ نہ ہوگا یہ ان کا گوشت کھا کھا کرخوب موٹے تازے ہوجائیں گے ۔ ( ٢ ) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح ہی صبح دجال کا ذکر کیا اس طرح کہ ہم سمجھے شاید وہ ان درختوں کی آڑ میں ہے اور اب نکلا ہی چاہتا ہے آپ فرمانے لگے مجھے دجال سے زیادہ خوف تم پر اور چیز کا ہے ۔ اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو میں خود نمٹ لونگا تم میں سے ہر شخص اسے بچے ۔ میں تمہیں اللہ کی ایمان میں دے رہا ہوں ۔ وہ جواں عمر الجھے ہوئے بالوں والا کانا اور ابھری ہوئی آنکھ والا ہے ۔ وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں گھومے گا ۔ ایک بندگاں الٰہی تم ثابت قدم رہنا ۔ ہم نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کتنا ٹھیرے گا ؟ آپ نے فرمایا چالیس دن ۔ ایک دن مثل ایک برس کے ایک دن مثل ایک مہینہ کے ایک دن مثل ایک جمعہ کے اور باقی دن معمولی دنوں جیسے ۔ ہم نے پوچھا یارسول صلی اللہ علیہ وسلم جو دن سال بھر کے برابر ہوگا اس میں ہمیں یہی پانچ نمازیں کافی ہوں گی آپ نے فرمایا نہیں تم اپنے اندازے سے وقت پر نماز پڑھتے رہاکرنا ۔ ہم نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رفتار کیسی ہوگی ؟ فرمایا جیسے بادل کہ ہوا انہیں ادھر سے ادھربھگائے لئے جاتی ہو ۔ ایک قبیلے کے پاس جائے گا انہیں اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی مان لیں گے ۔ آسمان کو حکم دے گا کہ ان پر بارش برسائے زمین سے کہے گا کہ ان کے لئے پیداوار اگائے ان کے جانور ان کے پاس موٹے تازے بھرے پیٹ لوٹیں گے ۔ ایک قبیلے کے پاس اپنے تائیں منوانا چاہے گا وہ انکار کردیں گے یہ وہاں سے نکلے گا تو ان کے تمام مال اس کے پیچھے لگ جائیں گے وہ بالکل خالی ہاتھ رہ جائیں گے وہ غیرآباد جنگلوں میں جائے گا اور زمین سے کہے گا اپنے خزانے اگل دے وہ اگل دے گی اور سارے خزانے اس کے پیچھے ایسے چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے ۔ یہ بھی دکھائے گا کہ ایک شخص کو تلوار سے ٹھیک دو ٹکرے کرادے گا اور ادھرادھر دور دراز پھنکوا دے گا پھر اس کا نام لے کر آواز دے گا تو وہ زندہ چلتا پھرتا اس کے پاس آجائے گا یہ اسی حال میں ہوگا جو اللہ عزوجل حضرت مسیح ابن مریم کو اتارے گا آپ دمشق کی مشرقی طرف سفید منارے کے پاس اتریں گے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے آپ اس کا پیچھا کریں گے اور مشرقی باب کے لد کے پاس اسے پا کر قتل کردیں گے پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف اللہ کی وحی آئے گی میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن سے لڑنے کی تم میں تاب وطاقت نہیں میرے بندوں کو طور کی طرف سمیٹ لے جا ۔ پھر جناب باری یاجوج ماجوج کو بھیجے گا جیسے فرمایا آیت ( وہم من کل حدب ینسلون ) ان سے تنگ آکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی جناب باری میں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر گٹھلی کی بیماری بھیجے گا جوان کی گردن میں نکلے گی سارے کے سارے اوپر تلے ایک ساتھ ہی مرجائیں گے تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع مؤمنوں کے آئیں گے ۔ دیکھیں گے کہ تمام زمین ان کی لاشوں سے پٹی پڑی ہے اور ان کی بدبوسے کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔ آپ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند بھیجے گا جو انہیں اللہ جانے کہاں پھینک آئیں گے ؟ کعب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہی مہیل میں یعنی سورج کے طلوع ہونے کی جگہ میں انہیں پھینک آئیں گے ۔ پھر چالیس دن تک تمام زمین میں مسلسل بارش برسے گی ، زمین دھل دھلا کر ہتھیلی کی طرح صاف ہوجائے گی پھر بحکم الٰہی اپنی برکتیں اگادے گی ۔ اس دن ایک جماعت کی جماعت ایک انار سے سیر ہوجائے گی اور اس کے چھلکے تلے سایہ حاصل کرلے گی ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کو اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو اور ایک بکری کا دودھ ایک گھرانے کو کافی ہوگا ۔ پھر ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جو مسلمانوں کی بغلوں تلے سے نکل جائے گی اور ان کی روح قبض ہوجائے گی پھر روئے زمین پر بدترین شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کودتے ہوں گے انہی پر قیامت قائم ہوگی ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں ۔ ( ٣ ) مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بچھو نے کاٹ کھایا تھا تو آپ اپنی انگلی پر پٹی باندھے ہوئے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا تم کہتے ہو اب دشمن نہیں ہیں لیکن تم تو دشمنوں سے جہاد کرتے ہی رہوگے یہاں تک کہ یاجوج ماجوج آئیں وہ چوڑے چہرے والے چھوٹی آنکھوں والے ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں جیسے ہوں گے ۔ ( ٤ ) یہ روایت سورۃ اعراف کی تفسیر کے آخر میں بیان کردی گی ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ معراج والی رات میں ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے روز قیامت کا مذکراہ شروع ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کردیا اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کے واقع ہونے کے وقت تو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ہاں مجھ سے میرے اللہ نے یہ تو فرمایا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے ۔ اس کے ساتھ دو ٹہنیاں ہوں گی ۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سیسے کی طرح پگلنے لگے گا یہاں تک کہ اللہ اسے ہلاک کردے جب کہ وہ مجھے دیکھے یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم یہ ہے میرے سایہ تلے کافر ۔ آ اور اسے قتل کر پس اللہ انہیں ہلاک کرے گا اور لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو ہر اونچائی سے پھدکتے آئیں گے جو پائیں گے تباہ کردیں گے پانی جتنا پائیں گے پی جائیں گے لوگ پھر تنگ آکر اپنوں وطنوں میں محصور ہو کر بیٹھ جائیں گے شکایت کریں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کرونگا اللہ انہیں غارت کردے ساری زمین پر ان کی بدبو پھیل جائے گی پھر بارش برسے گی اور پانی کا بہاؤ ان کے سڑے ہوئے جسموں کو گھسیٹ کر دریا برد کردے گا ۔ میرے رب نے مجھ سے فرما دیا ہے کہ جب یہ سب کچھ ظہور میں آجائے گا پھر تو قیامت کاہونا ایسا ہی ہے جیسے پورے دنوں میں حمل والی عورت کا وضع ہونا کہ گھر والوں کو فکر ہوتی ہے کہ صبح بچہ ہوا یا شام ہوا دن کو ہوا یا رات کو ہوا ۔ ( ابن ماجہ ) اس کی تصدیق کلام اللہ شریف کی آیت میں موجود ہے اس بارے میں حدیثیں بکثرت ہیں اور آثار سلف بھی بہت ہیں کعب رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے وقت وہ دیوار کو کھودیں گے یہاں تک کہ ان کی کدلوں کی آواز پاس والے بھی سنیں گے رات ہوجائے گی ان میں سے ایک کہے گا کہ اب صبح آتے ہی اسے توڑڈالیں گے اور نکل کھڑے ہوں گے صبح یہ آئیں گے توجیسی کل تھی ویسی ہی آج بھی پائیں گے الغرض یونہی ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ان کا نکالنا جب منظور ہوگا تو ایک شخص کی زبان سے نکلے گا کہ ہم کل انشاء اللہ ایسے توڑ دیں گے اب جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے تو کھود کر توڑیں گے اور باہر نکل آئیں گے ان کا پہلا گروہ بحیرہ کے پاس سے نکلے گا سارا پانی پی جائے گا دوسرا آئے گا کیچڑ بھی چاٹ جائے گا تیسرا آئے گا تو کہے گا شاید یہاں کبھی پانی ہوگا ؟ لوگ ان سے بھاگ بھاگ کر ادھر ادھر چھپ جائیں گے جب انہیں کوئی بھی نظر نہ پڑے گا تو یہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے وہاں سے وہ خون آلود واپس آئیں گے تو یہ فخر کریں گے کہ ہم زمین والوں پر اور آسمان والوں پر غالب آگئے ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ان کے لئے بدعا کریں گے کہ اللہ ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں اور زمین پر ہمارا چلنا پھرنا بھی ضروری ہے تو ہمیں جس طریقے سے چاہے ان سے نجات دے تو اللہ ان کو طاعون میں مبتلا کرے گا گلٹیاں نکل آئیں گی اور سارے کہ سارے مرجائیں گے پھر ایک قسم کے پرند آئیں گے جو اپنی چونچ میں انہیں لے کر سمندر میں پھینک آئیں گے پھر اللہ تعالیٰ نہرحیات جاری کردے گا جو زمین کو دھوکر پاک صاف کردے گی اور زمین اپنی برکتیں نکال دے گی ایک انار ایک گھرانے کو کافی ہوگا اچانک ایک شخص آئے گا اور ندا کرے گا کہ ذوالسویقتین نکل آیا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سات آٹھ سولشکریوں کا طلایہ بھیجیں گے یہ ابھی راستے میں ہی ہوں گے کہ یمنی پاک ہوا نہایت لطافت سے چلے گی جو تمام مؤمنوں کی روح قبض کرجائے گی پھر تو روئے زمین پر ردی کھدی لوگ رہ جائے گے جو چوپایوں جیسے ہوں گے ان پر قیامت قائم ہوگی اس وقت قیامت اس قدر قریب ہوگی جیسے پوری دنوں کی گھوڑی جو جننے کے قریب ہو اور گھوڑی والا اس کے آس پاس گھوم رہا ہو کہ کب بچہ ہو حضرت کعب رحمتہ اللہ یہ بیان فرما کر فرمانے لگے اب جو شخص میرے اس قول اور اس علم کے بعد بھی کچھ کہے اس نے تکلف کیا ۔ کعب رحمتہ اللہ کا یہ واقعہ بیان کرنا بہترین واقعہ ہے کیونکہ اس کی شہادت صحیح حدیث میں بھی پائی جاتی ہے ۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں بیت اللہ شریف کا حج بھی کریں گے چنانچہ مسند امام احمد میں یہ حدیث مرفوعا مروی ہے کہ آپ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد یقینا بیت اللہ کا حج کریں گے ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی ہے ۔ جب یہ ہولناکیاں ، جب یہ زلزلے ، جب یہ بلائیں اور آفات آجائیں گی تو اس وقت قیامت بالکل قریب آجائے گی اسے دیکھ کر کافر کہنے لگیں گے یہ نہایت سخت دن ہے ان کی آنکھیں پھٹ جائیں گی اور کہنے لگیں گے ہائے ہم توغفلت میں ہی رہے ۔ ہائے ہم نے اپنا آپ بگاڑا ۔ گناہوں کا اقرار اور اس پر شرمسار ہوں گا لیکن اب بےسود ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 جیسا کہ ترجمے میں واضح ہے۔ یا پھر لَا یَرْجِعُوْنَ میں لَا زائد ہے، یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا، اس کا دنیا میں پلٹ کر آنا حرام ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] اس آیت کے کئی مطلب بیان کئے جاتے ہیں اور وہ اپنی اپنی جگہ سب ہی درست معلوم ہوتے ہیں۔ ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔ بعض مجرم بستیوں کو ہم ہلاک کرتے ہیں۔ تو یہ ان کے جرائم کا پورا بدلہ نہیں ہوتا۔ انھیں قیامت کو یقیناً ہمارے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس وقت ہم انھیں ان کے جرائم کی سزا دیں گے اور یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے پاس نہ آئیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف اسی بستی کو ہلاک کرتے ہیں۔ جن کے متعلق ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے برے اعمال سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ ہلاک شدہ بستیوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہم انھیں دوبارہ زندہ کرکے واپس دنیا میں بھیج دیں۔ تاکہ وہ اب اچھے اعمال بجا لاسکیں اور تلافی مافات کرسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ ۔۔ : اس آیت کے تین معنی ہوسکتے ہیں اور تینوں درست ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا اعجاز ہے کہ ایک آیت کئی معانی کی گنجائش رکھتی ہے۔ پہلے معنی کی صورت میں ” وَحَرٰمٌ“ کا معنی ” ممنوع “ اور ” ناممکن “ ہے اور ” لَا يَرْجِعُوْنَ “ میں ” لَا “ کا حرف زائد ہے، نفی کا معنی نہیں دے رہا، مگر بےفائدہ نہیں بلکہ ” حَرٰمٌ“ کے معنی میں جو نفی پائی جاتی ہے اس میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا : (مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ) [ ص : ٧٥ ] ” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ کرے ؟ “ دوسری جگہ فرمایا : (مَا مَنَعَكَ اَ لَّا تَسْجُدَ ) [ الأعراف : ١٢ ] ” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا ؟ “ اس سے ظاہر ہے کہ ” اَ لَّا تَسْجُدَ “ میں ” لاَ “ زائد ہے اور ” مَنَعَکَ “ کے معنی میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں ناممکن ہے کہ وہ (دنیا میں) واپس لوٹیں، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) [ یٰسٓ : ٣١ ] ” کیا انھوں نے نہیں دیکھا، ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے کہ وہ ان کی طرف پلٹ کر نہیں آتے۔ “ دوسرے معنی کی صورت میں ” حَرٰمٌ“ کا معنی ” ممنوع “ اور ” ناممکن “ ہی ہوگا، مگر ” لَا يَرْجِعُوْنَ “ میں ” لَا “ نفی کے معنی میں ہوگا جو اس کا اصل ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں، ناممکن ہے کہ وہ (قیامت کے دن ہماری طرف) واپس نہ آئیں، بلکہ وہ ضرور ہماری طرف واپس لوٹیں گے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ یہاں ” حَرٰمْ “ کا لفظ لازم اور واجب کے معنی میں ہے، جیسا کہ ابن کثیر نے ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے فتح الباری (١١؍٥٠٣) اس صورت میں معنی یہ ہے کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں لازم ہے کہ وہ (دنیا میں) واپس نہیں لوٹیں گے۔ ابن کثیر (رض) نے اس معنی کو ترجیح دی ہے۔ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ; نے بھی اسی مفہوم کو اختیار فرمایا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تینوں معنوں کا نتیجہ ایک ہی ہے، البتہ اس میں سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے جنھیں اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً بنی اسرائیل کا مقتول جو گائے کا کوئی حصہ مارنے سے زندہ ہوا وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَحَرَ‌امٌ عَلَىٰ قَرْ‌يَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْ‌جِعُونَ (It is banned for (the people of) a town We destroyed that they come back - 21:95.) Commentators have given two different meanings to this verse. One, that the town and its people which Allah Ta` ala has destroyed cannot come back to life. The second explanation is that it is binding on the town which Allah has destroyed that it shall not return to this world. (Qurtubl) Thus the meaning of the verse is that the door of repentance is closed after death, and it is no more possible for someone to return to this world and atone for his sins by performing righteous deeds. The final court will take place on the Day of Judgment.

معارف و مسائل وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ، اس جگہ لفظ حرام بمعنے ممتنع شرعی کے ہے جس کا ترجمہ خلاصہ تفسیر میں ناممکن سے کیا گیا ہے اور لَا يَرْجِعُوْنَ میں اکثر حضرات مفسرین کے نزدیک حرف لا زائد ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو بستی اور اس کے آدمی ہم نے ہلاک کردیئے ہیں ان کے لئے محال ہے کہ وہ پھر لوٹ کر دنیا میں آجائیں اور بعض حضرات مفسرین نے لفظ حرام کو اس جگہ بمعنی واجب قرار دے کر لا کو اپنے معروف معنی نفی کے لئے رکھا ہے اور مفہوم آیت کا یہ لکھا ہے کہ واجب ہے اس بستی پر جس کو ہم نے عذاب سے ہلاک کردیا ہے کہ وہ دنیا میں نہیں لوٹیں گے (قرطبی) آیت کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں آ کر عمل صالح کرنا چاہے تو اس کا موقع نہیں ملے گا، اب تو صرف روز قیامت کی زندگی ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝ ٩٥ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥) اور مکہ والوں کے لیے جیسا کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی ہیں جن کو ہم نے کفر کے ساتھ ذلیل کیا ہے ان کے لیے توفیق اور ہدایت ناممکن ہے کہ وہ اپنے کفر کو چھوڑ کر ایمان اختیار کریں یا یہ مطلب ہے کہ مکہ والوں میں سے جن لوگوں کو ہم نے بدر کے دن تہ تیغ کرکے ہلاک کردیا ہے، ان کے لیے دنیا میں لوٹ کر آنا ناممکن ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) ” اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جن بستیوں پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہوجاتا تھا ‘ وہاں کے لوگ نبی یا رسول کے آنے کے بعد بھی کفر و شرک سے لوٹنے والے نہیں ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اتمام حجت کے لیے رسول تو بھیج دیتا تھا ‘ لیکن اس کو خوب معلوم تھا کہ کفرو شرک سے ان لوگوں کے رجوع کرنے اور ایمان لانے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ کے عذاب سے جو بستی ایک دفعہ برباد ہوگئی پھر اس کے دوبارہ آباد ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92. The Arabic text of (verse 95) may be interpreted in three ways. (I) The community which is once destroyed by the scourge of Allah can never have a second or new life. (2) After its destruction, its people are not given a second chance for their test, then they shall be presented in the court of Allah for final judgment. (3) When a community transgresses the last limits in its wickedness, injustices and disobedience, and Allah ordains to destroy it, no other chance of repentance is given to it because it becomes incapable of turning back to right guidance.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :92 اس آیت کے تین مطلب ہیں : ایک یہ کہ جس قوم پر ایک مرتبہ عذاب الہٰی نازل ہو چکا ہو وہ پھر کبھی نہیں اٹھ سکتی ۔ اس کی نشاۃ ثانیہ اور اس کی حیات تو ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہلاک ہو جانے کے بعد پھر اس دنیا میں اس کا پلٹنا اور اسے دوبارہ امتحان کا موقع ملنا غیر ممکن ہے ۔ پھر تو اللہ کی عدالت ہی میں اس کی پیشی ہو گی ۔ تیسرے یہ کہ جس قوم کی بد کاریاں اور زیادتیاں اور ہدایت حق سے پیہم رو گردانیں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ اسے پھر رجوع اور توبہ و انابت کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ اس کے لیے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ضلالت سے ہدایت کی طرف پلٹ سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: کافر لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندگی آنے والی ہے تو جو کافر پہلے مرچکے ہیں انہیں زندہ کرکے ابھی ان کا حساب کیوں نہیں لے لیا جاتا ؟ یہ آیت اس کا جواب دے رہی ہے کہ حساب و کتاب اور جزا وسزا کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اس سے پہلے کسی کا زندہ ہو کر اس دنیا میں آجانا ممکن نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٥:۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ نافرمانی کے سبب سے جس بستی والوں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا ایسے لوگوں پر قیامت سے پہلے دنیا میں پھر آنا انتظام الٰہی میں حرام ٹھہر چکا ہے ‘ حضرت عبداللہ بن عباس کے اس قول کے موافق مَامَنَعَکَ اَنْ لاَّ تَسْجُدَ میں جس طرح حرف ما کے بعد تاکید کے لیے حرف لا بڑھایا گیا ہے۔ اسی طرح لَاَ یَرْجعُوْنَ میں لاَ حرف فقط حَرَامٌ کی تاکید کے لیے بڑھایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُئوْمِنُوْنَ میں آوے گا کہ ایسے نافرمان لوگ جب مرجاتے ہیں اور منکر نکیر کے جواب کے لیے ان کے جسم میں روح پھر اللہ کے حکم سے آجاتی ہے تو ایسے لوگوں کا دوزخ کا ٹھکانا ان کو دکھا کر اللہ کے فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اسی ٹھکانے میں رہنے کے لیے تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا ‘ اس وقت ایسے لوگ دنیا میں دوبارہ آنے اور نیک کام کرنے کی تمنا ظاہر کرتے ہیں اور ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ انتظام الٰہی کے موافق قیامت تک اب دنیا میں دوبارہ جانا ممکن نہیں ہے ‘ ہاں ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے روکنے کے لیے جو دیوار بنائی ہے ‘ قیامت کے قریب جب وہ دیوار ڈھے جائے گی اور یاجوج ماجج زمین پر پھیل جاویں گے اور پھر مرجاویں گے اور اس کے بعد وقت مقررہ پر پہلا صور پھونکا جا کر تمام دنیا ویران ہوجائے گی تو اس کے چالیس برس کے بعد ان دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا کرنے والوں کو قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے دوبارہ زندہ کیا جا کر دنیا کے میدان محشر میں سب کے ساتھ جمع کیا جائے گا ‘ اس پر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول جو بیان کیا گیا اس کا مضمون قَدْاَ فْلَحَ اْلُمْئومِنُوْنَ کی آیت کے مضمون کے موافق ہے اس واسطے آیت کی وہی تفسیر صحیح ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے حوالہ سے اوپر بیان کی گئی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ١ ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے کہ جو کچھ لکھا جانا تھا وہ لکھا جا کر قلم خشک ہوگیا ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قلم کو دوبارہ سیاہی میں ڈبویا جا کر نہ تر کیا جائے گا نہ کچھ لکھا جائے گا۔ شاہ صاحب نے حرام کا ترجمہ مقرر ہو رہا ہے جو کیا ہے یہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق ہے ‘ اوپر کی حدیثوں کے موافق اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حرام شریعت کے حکم سے نہیں مقرر ہوا بلکہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے انتظام الٰہی میں یہ امر مقرر ہوا ہے اور لکھا جا کر قلم بھی خشک ہوگیا ہے کہ ایسے لوگوں پر قیامت سے پہلے دنیا میں پھر آنا انتظام الٰہی کے موافق منع اور حرام ہے ‘ تفسیر کے حساب سے قرآن شریف کی مشکل آیتوں میں سے یہ آیت بھی مشہور ہے ‘ انتظامی حرام کی شریعت میں اور بھی مثالیں ہیں مثلا جیسے سورة القصص میں آوے گا کہ سوائے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دودھ کے غیر عورتوں کا دودھ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر حرام ٹھہرا دیا تھا یا مثلا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر ) (٢ ؎ ایضا )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:95) وھرام علی قریۃ اھلکنھا انہم لا یرجعون۔ اور حرام ہے (ناممکن ہے) کہ جس بستی کو (اہل بستی کو) ہم نے ہلاک کردیا (اس کے باشندے) پھر لوٹ کر آجائیں یہاں لا نفی کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا ہے وہ ہرگز ہرگز نہیں پلٹے گی۔ اس رجعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اس تباہ شدہ بستی (یا اہل بستی کی) حیات نو۔ یعنی جب وہ ایک دفعہ ہلاک کردی گئی تو اس کی نشاۃ ثانیہ ناممکن ہے۔ وہ صرف اب قیامت کے روز ہی اٹھائی جائے گی۔ (2) ان کا توبہ کی طرف رجوع ناممکن ہے تا آنکہ قیامت کا دن آجائے اور اس وقت ان کا رجوع بےفائدہ ہوگا کیونکہ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا۔ (3) ان کا کفر سے ایمان کی طرف رجوع بھی تاروز حشر ناممکن ہوگا۔ اور حشر کے دن ایسا رجوع ناممکن الحصول ہوگا۔ نمبر 2 ۔ و 3 ۔ کی صورت میں بستی یا اہل بستی کا اہلاک بمعنی ملزم اہلاک ہوگا۔ یعنی اگر علم الٰہی میں ان کا اہلاک مقدر ہوچکا ہے تو وہ نہ توبہ کی طرف رجوع کرسکیں گے اور نہ کفر سے ایمان کی طرف۔ آیات 96 ۔ 97 قرب قیامت کی علامت کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صالح اعمال کرنے والوں کی قدر افزائی کا تذکرہ کرنے کے بعد برے لوگوں کے انجام کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں بھی سزا دی اور قیامت کے دن بھی سزا پائیں گے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو مختلف الفاظ اور انداز میں کئی بار واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی، اس کی مہربانی میں کوئی شخص رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس کی گرفت سے کوئی کسی کو چھڑا سکتا ہے۔ جب وہ کسی بستی یا قوم کو تباہی کے گھاٹ اتارتا ہے تو پھر کوئی نہیں جو اسے دنیا میں واپس لے آئے۔ اسی حقیقت کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ جب وہ کسی بستی کو اس کے جرائم کی پاداش میں تباہ کرتا ہے تو پھر اسے کوئی واپس نہیں لاسکتا۔ یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے۔ اس کا یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے کہ تباہ و برباد ہونے والے لوگ دین کی طرف پلٹنے اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے نہ تھے۔ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج نکل آئیں گویا کہ قیامت قائم ہوجائے۔ یاد رہے کہ قیامت کی تین قسم کی نشانیاں قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جن میں کچھ نشانیاں وہ ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ تک پوری ہوچکی ہیں۔ جن میں ایک نشانی چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہے۔ ان نشانیوں کا دوسرا حصہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ کے بعد شروع ہوتا ہے جس کی انتہاء کا تعیّن کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ قیامت کی نشانیوں کا تیسرا حصہ وہ ہوگا جس دور میں یا جوج ماجوج نمودار ہوں گے۔ جن کی تفصیل کے لیے سورة الکہف کی آیت ٩٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یا جوج ماجوج ہر اونچی جگہ سے یلغار کرتے ہوئے لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یا جوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت قریب تر ہوجائے گی اور اس کا برپا ہونا برحق ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ قیامت اس قدر اچانک برپا ہوگی کہ ” اللہ “ کے منکروں اور باغیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر کافر اور نافرمان لوگ آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے افسوس ! ہم اپنی غفلت کی وجہ سے فسق و فجور میں مبتلا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ قیامت کا برپا ہونا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کر تمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ )[ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخری نشانی آگ یمن کے علاقہ عدن سے رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو موت دے یا کسی بستی تباہ کر دے اسے کوئی زندہ کرنے والا نہیں۔ ٢۔ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وقت بالکل قریب آجائے گا۔ ٣۔ یاجوج ماجوج ہر طرف دنگا و فساد کریں گے۔ ٤۔ جب قیامت برپا ہوگی تو لوگ چیخ و پکار کرتے ہوئے اپنے جرائم کا اعتراف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کی نشانیاں اور اس کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس : ٥٦) ٢۔ قیامت کے دن لوگ مدہوش ہونگے۔ ( الحج : ٢) ٣۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ : ٢٨١) ٤۔ قیامت آنکھ جھپکنے میں آجائے گی۔ (النحل : ٧٧) ٥۔ قیامت کی ہولناکیاں بڑی سخت ہوں گی۔ (الحج : ١) ٦۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٧۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ : ٣٠۔ ٣١) ٨۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وحرم علی قریۃ اھلکنھا انھم لایرجعون (٢١ : ٩٥) ” اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا وہ پلٹ کر نہ آئے گی۔ “ یہاں ہلاک شدہ بستیوں کا ذکر فرمایا جاتا ہے ، خصوصیت کے ساتھ ، اس لئے کہ اس سے قبل کہا گیا تھا کہ کل الینارجعون (٢١ : ٩٣) ” سب ہماری طرف پلٹ کر آنے والے ہیں۔ “ بعض اوقات ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ جن بستیوں کو دنیا میں ہلاک کردیا گیا ہے شاید وہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئیں اور وہ پلٹ کر نہ آئیں گی اور ان کا حساب و کتاب ختم ہوگیا اس لئے یہاں دوبارہ تاکید کی جاتی ہے کہ یہ بستیاں ضرور واپس لوٹ کر قیامت میں آئیں گی اور نہ ان کا آنا حرام ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہلاک شدہ بستیاں نہ آئیں۔ یہ انداز کلام ذرا عجیب و غریب ہے۔ اس لئے بعض مفسرین نے یہ تاویل کی ہے کہ ” لا “ یہاں زائد ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب ان بستیوں کو نابود کردیا گیا تو پھر وہ واپس نہیں آسکتیں۔ بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ اس ہلاکت کے بعد ان کا رجوع ہدایت کی طرف نہیں ہوسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں تاویلوں کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ نص قرآنی کی وہی تفسیر بہتر ہے جو اس کی ظاہری ترکیب کے مطابق ہو اور سیاق کلام میں اس مفہوم کے لئے قرینہ بھی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد مناظر قیامت میں سے ایک منظر کو یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر کا آغاز اس علامت سے کیا جاتا ہے کہ جس کا ظہور قرب قیامت کے زمانے میں ہوگا۔ وہ ہے یا جوج اور ماجوج کا کھل کر ٹوٹ پڑنا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہلاک شدہ بستیوں کے بارے میں یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ رجوع نہ کریں گے اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے حرام کا معروف معنی لیا ہے۔ ای ممتنع اور بعض حضرات نے فرمایا کہ حرام معنی میں ہے واجب کے اور لا کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ وہ زائدہ ہے یا نفی کے معنی میں ہے۔ ہم نے جو اوپر ترجمہ کیا ہے یہ حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق ہے۔ انہوں نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے وجب انھم لا یرجعون ای لا یتوبون جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی بستی کے ہلاک کرنے کا فیصلہ فرما دیا ہے وہ آخر تک کفر پر ہی جمے رہیں گے اور توبہ نہ کریں گے۔ حتیٰ کہ ہلاک ہوجائیں گے۔ اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ لا زائدہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا وہ لوگ ہلاک ہونے کے بعد دنیا کی طرف واپس نہ ہوں گے۔ ان کی واپسی ممتنع ہے۔ اس صورت میں حرام اپنے اصلی معنی میں ہوگا لیکن بعض حضرات نے اس مطلب کو پسند نہیں کیا۔ کیونکہ اس بات کے کہنے میں بظاہر کچھ فائدہ نہیں۔ (جو لوگ عذاب سے ہلاک کیے بغیر دنیا سے چلے گئے وہ بھی واپس نہ ہوں گے۔ پھر ہلاک شدگان کی خصوصیت کیا رہی) قال القرطبی فی احکام القرآن ج ١١ ص ٣٤٠ و اختلف فی ” لا “ فی قولہ ” لا یرجعون “ قیلھی صلۃ روی ذلک عن ابن عباس و اختارہ ابوعبید ای و حرام علی قریۃ اھلکناھا ان یرجعوا بعد الھلاک، و قیل لیست بصلۃ وانماھی ثابتۃ، و یکون الحرام بمعنی الواجب و من احسن ما قبل فیھا وأجلہ ما رواہ ابن عیینۃ و ابن علیۃ و ھیثم و ابن ادریس و محمد بن فضیل و سلیمان بن حیان و معلی عن داود بن ابی ھند عن عکرمۃ عن ابن عباس (رض) عنھما فی قول اللہ عزوجل ” و حرام علی قریۃ اھلکناھا “ قال وجب انھم لا یرجعون قال لا یتوبون، ...... اما قول ابی عبید ان ” لا “ زائدۃ فقدردہ علیہ جماعۃ لانھا لا تزاد فی مثل ھذا الموضع و لا فیھا یقع فیہ اشکال ولو کانت زائدۃ لکان التاویل بعیدا ” ایضا “ لانہ ان اراد ” و حرام علی قریۃ اھلکناھا ان یرجعوا الی الدنیا “ فھذا ما لا فائدۃ فیہ و ان اراد التوبۃ فالتوبۃ لا تحریم و قیل فی الکلام اضمار ای و حرام علی قریۃ حکمنا باستئصالھا، او بالختم علی قلوبھا ان یتقبل منھم عمل لانھم لا یرجعون ای لا یتوبون، قالہ الزجاج و ابو علی، و ” لا “ غیر زائدۃ و ھذا ھو معنی قول ابن عباس (رض) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ ” وَ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَةٍ الخ “ حرام یعنی ناممکن اور ممتنع۔ ” اَھْلَکْنَا “ یعنی ہم نے ان کی ہلاکت کا فیصلہ کردیا۔ ” لَایَرْجِعُوْنَ “ بمعنی مصدر ہے یعنی عدم رجوعھم اور مطلب یہ ہوگا کہ جزاء کے لیے ان کا ہماری طرف واپس نہ آنا ممتنع ہے یعنی ضرور ہمارے پاس آئیں گے ای ممتنع البتۃ عدم رجوعھم الینا للجزاء (روح) یا ” لا “ زائدہ اور سیف خطیب ہے یعنی جن لوگوں کی تباہی اور ہلاکت کا ہم نے فیصلہ کردیا ان کا شرک و کفر سے توبہ کر کے توحید اور اسلام کی طرف آنا ممتنع اور ناممکن ہے کیونکہ عذاب سے ہلاک کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب حجت خداوندی پوری ہوجائے اور منکرین کے دلوں پر ان کے مسلسل ضد وعناد کی وجہ سے مہر جباریت لگ جائے اور ان کے رجوع الی الحق کے تمام امکانات ختم ہوجائیں۔ المعنی و ممتنع علی قریۃ قدرنا ھلاکھا او حکمنا بہ رجوعھم الینا ای توبتھم علی ان (لا) سیف خطیب مثلھا فی قولہ تعالیٰ (ما منعک) ان لا تسجد فی قول (روح ج 17 ص 91) ۔ حضرت شیخ (رح) وفرماتے ہیں کہ حرام مبتداء محذوف کی خبر ہے یعنی الایمان حرام الخ اس صورت میں انھم لا یرجعون جملہ ماقبل سے بدل ہوگا اور لا زائدہ نہیں ہوگا قال مجاھد والحسن لایرجعون من الشرک ولایتوبون عنہ وھو قول مجاھد والھسن (کبیر ج 6 ص 194) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(95) اور ہم جن بستیوں کے باشندوں کو فناکر چکے ہیں ان کے لئے یہ بات مقرر ہوچکی ہے اور طے شدہ ہے کہ وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جزا و سزا کے لئے جو دوبارہ زندگی ہوگی وہ اس عالم کے لئے نہیں بلکہ دوسرے عالم کے لئے ہے۔ جس کے واقع ہونے کی بعض علامات کا آگے ذکر ہے۔ خلاصہ یہ کہ دوبارہ زندگی یقینی ہے یہ نہیں جیسا کہ منکرین سمجھتے ہیں کہ دوبارہ زندہ ہونا ہی نہیں اور یہ بات بھی نہیں جیسا کہ منکرین مطالبہ کرتے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آجاتی بلکہ اس کا ایک وقت موعود ہے جب وہ وقت موعود آجائے گا تو ابتداء میں اس کی علامات ظاہر ہونگی۔ ان علامات میں سے یا جوج ماجوج کا خروج بھی ہے ہم نے فنا ترجمہ کیا ہے تاکہ عذاب سے ہلاک ہونے والوں اور اپنی موت سے مرنے والوں کو سب کو شامل ہوجائے اور یہ معلوم ہوسکے کہ سزا وجزا کا عالم دوسرا ہے۔ کسی مرنے والے کو دوبارہ اس عالم میں آنا نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کفر نہیں چھوڑتے تب ہی کہتے ہیں۔ 12