Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 97

سورة الأنبياء

وَ اقۡتَرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَقُّ فَاِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ اَبۡصَارُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ یٰوَیۡلَنَا قَدۡ کُنَّا فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا بَلۡ کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ ﴿۹۷﴾

And [when] the true promise has approached; then suddenly the eyes of those who disbelieved will be staring [in horror, while they say], "O woe to us; we had been unmindful of this; rather, we were wrongdoers."

اور سچا وعدہ قریب آلگے گا اس وقت کافروں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی کہ ہائے افسوس! ہم اس حال سے غافل تھے بلکہ فی الواقع ہم قصوروار تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ ... And the true promise (Day of Resurrection) shall draw near. the Day of Resurrection, when these terrors and earthquakes and this chaos will come to pass. The Hour has drawn nigh and when it comes to pass, the disbelievers will say: "This is a difficult Day." Allah says: ... فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا ... Then, you shall see the eyes of the disbelievers fixedly staring in horror. because of the horror of the tremendous events that they are witnessing. ... يَا وَيْلَنَا ... Woe to us! means, they will say, `Woe to us!' ... قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا ... We were indeed heedless of this, means, in the world. ... بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ nay, but we were wrongdoers. they will admit their wrong- doing at the time when that will not help them at all.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 یعنی یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ، جو برحق ہے، بالکل قریب آجائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہوجائے گی شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] یعنی یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہوجائے گی۔ قیامت کے واقعہ ہونے سے پہلے سب نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا۔ چناچہ عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ قیامت ان لوگوں پر قائم ہوگی جو اللہ کی مخلوق سے بدترین ہوں گے۔ (مسلم، کتاب الامارت باب الاترال طائفہ~ن~ من امتی۔۔ ) اور عبداللہ بن مسعود (رض) سے جو روایت ہے اس میں شرار المخلق کے لئے بجائے شرار الناس کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی قیامت ان لوگوں پر آئے گی جو لوگوں میں سب سے بدتر ہونگے (مسلم کتاب الفتن و شرائط الساعہ~ن)~ تو یہ بدترین لوگ جب قیامت واقع ہونے کا منظر دیکھیں گے تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ اس وقت وہ حسرت و یاس سے کہیں گے کہ ہم تو بھولے ہی رہے۔ پھر خود ہی کہنے لگیں گے کہ یہ صرف بھول ہی نہیں بلکہ یہ ہماری خطا تھی کہ ہم نے پیغمبروں کی بات نہ مانی ورنہ انہوں نے تو سمجھانے میں کچھ کسر نہ چھوڑی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ : ” اقْتَرَبَ “ ” قَرِبَ “ میں ہمزہ اور تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی بہت یا بالکل قریب ہوگیا۔ ” سچے وعدے “ سے مراد قیامت ہے۔ یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد مسیح (علیہ السلام) مسلمانوں کو لے کر پہاڑ سے اتریں گے، پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو زمین کی بیشمار برکتیں عطا فرمائے گا۔ صحیح مسلم (٢٩٣٧) میں ہے کہ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک طیب ہوا ان کی بغلوں کے نیچے بھیجے گا، جو ہر مومن کی روح قبض کرلے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، جو شہوت رانی کے لیے گدھوں کی طرح ایک دوسرے پر چڑھیں گے، انھی پر قیامت قائم ہوگی۔ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں : ( لاَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ إِلَّا عَلٰی شِرَارِ الْخَلْقِ ھُمْ شَرٌّ مِنْ أَھْلِ الْجَاھِلِیَّۃِ لاَ یَدْعُوْنَ اللّٰہَ بِشَيْءٍ إِلَّا رَدَّہُ عَلَیْھِمْ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٤ ] ” قیامت ان لوگوں پر قائم ہوگی جو اللہ کی مخلوق میں سے بدترین لوگ ہوں گے، وہ جاہلیت والوں سے بھی بدتر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو بھی مانگیں گے اللہ تعالیٰ انھیں وہ چیز دے دے گا۔ “ فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ” شُخُوْصٌ“ کا معنی حیرت یا خوف سے کھلا رہ جانا ہے، یعنی قیامت کا منظر دیکھ کر اس وقت تمام موجود لوگوں کی، جو بدترین کافر ہوں گے، آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ اس کی ہم معنی آیت : (وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ڛ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ 42 ۝ ۙ مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ ) [ إبراھیم : ٤٢، ٤٣ ] ” اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔ “ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ : اس وقت وہ اپنی بربادی اور ہلاکت کو آواز دیں گے اور پہلے غفلت کا عذر کریں گے، پھر خود ہی صاف اعتراف کریں گے کہ انبیاء نے ہمیں اس دن سے خبردار کیا تھا، اس لیے ہم غافل نہیں بلکہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ دیکھیے سورة ملک (٥ تا ١١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا ہِىَ شَاخِصَۃٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ۭ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۝ ٩٧ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ شخص الشَّخْصُ : سواد الإنسان القائم المرئيّ من بعید، وقد شَخَصَ من بلده : نفذ، وشَخَصَ سهمه، وبصره، وأَشْخَصَهُ صاحبه، قال تعالی: لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، شاخِصَةٌ أَبْصارُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الأنبیاء/ 97] ، أي : أجفانهم لا تطرف . ( ش خ ص ) ( الشخص ) کھڑے انسان کا جسم جو دور سے نظر آئے اسے شخص کہاجاتا ہے اور شخص من بلدہ کے معنی شہر سے چلے جانا کے ہیں ۔ شخص بصرہ اس کی آنکھ پتھراگئی ۔ شخص سھمہ تیر نشانے سے اونچا نکل گیا ۔ اور اشخص ( افعال) اس نے نشانے سے اونچا نکال دیا ۔ قرآن میں ہے : شْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] جب کہ ( وہشت کے سبب ) آنکھ کھلی کی کھلی رہ جائے گی ۔ شاخِصَةٌ أَبْصارُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الأنبیاء/ 97] کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) بس پھر یہ قصہ ہوگا، کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے انکار کرنے والوں کی ایک دم سے آنکھیں ذلیل و خوار ہو کر پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ اور یوں کہتے نظر آئیں گے ہائے ہماری کم بختی ہم اس دن سے غفلت میں تھے بلکہ حقیقتا ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے منکر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) ” انتہائی خوف کی وجہ سے انسان کی آنکھ حرکت کرنا بھول جاتی ہے۔ کفار و مشرکین قیامت کے دن اسی کیفیت سے دو چار ہوں گے۔ (یٰوَیْلَنَا قَدْ کُنَّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا بَلْ کُنَّا ظٰلِمِیْنَ ) ہم آخرت کا انکار کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔ ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے تمام خبریں مل چکی تھیں لیکن ہم نے غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور اس طرف کبھی توجہ ہی نہ کی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

93. For the details about Gog and Magog, see (E.Ns 62 and 69 of Surah Al-Kahf). They will be let loose in the sense that they will swoop down on the regions of the earth like a beast of prey which is set free from its cage suddenly. The time of the fulfillment of the true promise will come on the eve of Resurrection and the appearance of Gog and Magog will be a sign of it. In a tradition related in Muslim, by Huzaifah bin Asid Ghifari, the Prophet (peace be upon him) said: Resurrection will not take place until ten signs appear: (1) The smoke. (2) Dajjal. (3) Daabat-ul-Ard. (4) Rising of the sun from the west. (5) Coming down of Jesus, son of Mary. (6) Sudden attack of Gog and Magog. (7-9) Three land slides, one in the east, the second in the west and the third in Arabia. (10) The flare up of a great fire from Yaman which will drive the people to the Plain of Resurrection. In another tradition the Prophet (peace be upon him) stated that after the swoop of Gog and Magog, Resurrection will be so near that it may take place at any moment just as a pregnant woman might deliver the child at any moment, in the day or night, after her term has expired. But the reference to the appearance of Gog and Magog in the Quran and Hadith does not indicate that they will swoop on mankind jointly. It may be that they will clash against each other near the time of Resurrection and their mutual conflict might result in a universal catastrophe and destruction. 94. “We were in heedlessness” contains a kind of excuse in it, as if to say: The Prophets warned us of the Day of Resurrection but we were wrongdoers and paid no heed to their warning.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :94 غفلت میں پھر ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے ، اس لیے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء نے آ کر اس دن سے خبردار کیا تھا ، لہٰذا درحقیقت ہم غافل و بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٧:۔ اوپر یاجوج ماجوج کے نکلنے کا ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا کہ یاجوج ماجوج کا نکلنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایسی نشانی ہے کہ جس کے بعد قیامت کے قائم ہونے کے سچے وعدہ کا وقت نزدیک آپہنچے گا اور جس دن اس سچے وعدہ کا ظہور ہوجائے گا تو اس دن کی آفتوں کو دیکھ کر دہشت کے مارے ان منکرین حشر کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاویں گی اور اس دن کی آفتوں سے غافل رہنے پر پچھتاویں گے اور کہیں گے کہ اللہ کے رسولوں نے ہمیں ان آفتوں کا حال جو بتلایا اور ہم نے ان کو جھٹلا دیا ‘ حقیقت میں ہم نے یہ اپنے حق میں بڑا ظلم کیا ہے ١ ؎‘ صحیح مسلم میں حذیفہ بن اسید سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آفتاب کے مغرب سے نکلنے کے بعد یاجوج ماجوج کے نکلنے کا ذکر فرمایا ہے ٢ ؎‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ گنہگار لوگوں کی توبہ قبول ہونے کا وقت آفتاب کے مغرب سے نکلنے تک ہے ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ یاجوج ماجوج کا نکلنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایسی قریب قیامت کی نشانی ہے کہ جس کے ظہور سے پہلے ہی گنہگاروں کی توبہ کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور اس نشانی کے ظہور کے وقت جو شخص جس حالت پر ہوگا ‘ قیامت کے دن وہ اسی حالت پر قبر سے اٹھے گا۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب الاستغفار والتوبۃ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:97) اقترب۔ ماضی بمعنی مضارع مستقبل واحد مذکر غائب اقترات افتعال مصدر وہ قریب آ لگے گا۔ الوعد الحق۔ موصوف صفت۔ سچا وعدہ۔ واقترب الوعد الحق۔ اس جملہ کا عطف فتحت یا جوج وما جوج پر ہے شاخصۃ۔ کھلی کی کھلی رہ جانے والی۔ شخص یشخص (فتح) شخوص سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث شخص بصرہ اس کی آنکھ پتھرا گئی۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے تشخص فیہ الابصار (14:42) جبکہ دہشت کے سبب نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ ابصار۔ آنکھیں۔ بینائیاں۔ بصر کی جمع ہے۔ بصر آنکھ اور بینائی دونوں کو کہتے ہیں۔ بینائی بھی آنکھ کی ہو یا دل کی ہو دونوں کو بصرکہا جاسکتا ہے۔ فاذاھی شاخصۃ ابصار الذین کفروا۔ اذا حرف مفاجاتیہ ہے (یعنی کسی چیز کا اچانک پیش آجانا) اور فاء جزائیہ کے بطور قائم مقام استعمال ہوتا ہے۔ (مثلاً یہاں اذاھی شاخصۃ اور فھی شاخصۃ بھی درست تھا) لیکن یہاں دونوں کو جزا اور شرط کے اصل میں معاونت کے لئے اکٹھا استعمال کیا گیا ہے۔ ھی (ضمیر مؤنث غائب) ضمیر قصہ ہے (جو جملہ سے پہلے بغیر مرجع کے واقع ہو) اور مبتدا ہے شاخصۃ خبر مقدم ہے۔ ابصار (بمع اپنی تفسیر الذین کفروا کے) مبتدا (مؤخر) یعنی جب یہ دونوں باتیں وقوع پذیر ہوں گی تو اہل کفر کی آنکھیں (دہشت سے) کھلی کی کھلی رہ جائیں گے۔ یویلنا۔ ہائے ہماری بدبختی۔ اس سے قبل یقولون مقدر ہے جو یا تو الذین کفروا سے حال ہے یعنی درآں حالیکہ وہ کافر پکار رہے ہوں گے ہائے ہماری بدبختی۔ یا یقولون یویلنا۔ جملہ مستانفہ ہے ۔ یعنی وہ پکار اٹھیں گے ہائے ہماری بدبختی۔ بل۔ بلکہ (مزید برآں) ہم تو قصور وار تھے۔ یعنی یہ محض غفلت ہی نہ تھی بلکہ باوجود تنبیہ و آگہی کے ہم نے جان بوجھ کر قصور کیا اور ظالم ٹھہرے۔ (بل کے متعلق مزید تفصیل ملاحظہ ہو (2:135) اور (21:44) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” یاجوج ماجوج “ کا خروج قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگا۔ اسی کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیات نہ دیکھ لو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس نشانیاں بیان فرمائیں۔ جن میں ایک یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا تھی۔ (مسلم) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عسیٰ کا نزول اور خانہ کعبہ کا حج وعمرہ کرنا یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے کے بعد ہوگا۔ (بخاری) 4 ۔ کافر پہلے تو اپنے غافل ہونے کا ذکر کریں گے پھر خود ہی اعتراف کرلیں گے کہ ہم قصور وار نہ تھے اور یہ مختلف مواطن میں ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حاصل یہ ہوا کہ اس وقت منکرین رجوع بھی رجوع کے قائل ہوجاویں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آیت ٩٤ میں صالح اعمال لوگوں کا اجر بیان ہوا۔ اس کے بعد برے لوگوں کا بیان ہوا۔ برے لوگوں کی برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرنے کی بجائے دوسروں کی عبادت اور تابعداری کرتے تھے قیامت کے دن ایسے عابد اور معبود جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ سب سے بڑی برائی ” اللہ “ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانا اور قیامت کے دن کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے کفار اور مشرکن کا معاملہ چکا یا جائے گا۔ رب ذوالجلال مشرکین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے گا کہ آج تم اور تمہارے معبود جنہیں تم مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے پکارا کرتے تھے سب کو جہنم میں جھونکا جا رہا ہے۔ اگر وہ کسی قسم کا اختیار رکھنے والے ہوتے تو آج انھیں اور تمہیں جہنم میں داخل نہ ہونا پڑتا۔ یہاں معبودان باطل کو جہنم کا ایندھن قرار دیا ہے۔ اس سے مراد ہر قسم کے وہ بت ہیں جن کو لوگ خدا کا اوتار سمجھ کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے، رکوع اور سجود کرتے، چلہ کشی اور مراقبہ کرتے ہوئے ان کے ذریعے مدد طلب کرتے تھے۔ ایسے معبودوں کو اللہ تعالیٰ ان کے پجاریوں کے ساتھ جہنم میں پھینک دیں گے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کی پرستش ان کی زندگی میں یا ان کے دئیے ہوئے ماحول کی وجہ سے ان کے مزارات پر کی جاتی رہی۔ انھیں ان کے مریدوں اور قبر پرستوں کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ جونہی جہنمی جہنم میں داخل ہوں گے وہ اس قدر آہ وزاری، چیخ و پکار اور واویلا کریں گے کہ کوئی کسی کی بات نہیں سن سکے گا۔ البتہ ان بزرگوں اور شخصیات کو جہنم سے محفوظ رکھا جائے گا جو اپنی زندگی میں لوگوں کو شرک و بدعت سے روکتے رہے۔ لیکن ان کی موت کے بعد لوگوں نے ان کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ (وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ نَارُ جَھَنَّمَ لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمْ مِّنْ عَذَابِھَا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْر وَ ھُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْھَا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآءَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ) [ فاطر : ٣٦۔ ٣٧] ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے اس میں انہیں نہ موت آئے گی اور نہ ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی ہم ہر ناشکرے کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ وہ اس میں چلاَئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہمیں یہاں سے نکال دے۔ ہم دنیا جو برے اعمال کرتے تھے ان کی بجائے نیک اعمال کریں گے اللہ فرمائے گا کیا ہم نے تمہیں سوچ و بچار کرنے کے لیے عمر نہ دی تھی اور تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے آج تم عذاب کا مزا چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “ (قَالَ اخْسَؤُا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ ) [ المؤمنون : ١٠٨] اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ جہنم میں ذلیل و خوار ہوتے رہو بس مجھ سے بات نہ کرو۔ “ مسائل ١۔ معبودان باطل کو ان کے پرستش کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ٢۔ مشرک ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں جہنمیوں کی چیخ و پکار اور واویلا : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

70:۔ ” وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الخ “ الوعد الحق سے قیامت مراد ہے وھو ما بعد النخۃ الاولی (روح ج 17 ص 92) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(97) اور سچا وعدہ قریب آپہنچا تو یکایک اس وقت یہ قصہ ہوگا کہ کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ کہتے ہوں گے ہائے ہماری خرابی ہم اس دن کے واقعات سے بڑی غفلت میں تھے نہیں بلکہ مہ ہی گنہگار اور قصوروار تھے۔ یعنی یاجوج اور ماجوج کے خروج کے ایک عرصہ بعد صور پہلی مرتبہ پھونکا جائے گا اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد جب دوسرا نفخہ صور ہوگا تو لوگوں کی حیرت اور خوف کی وجہ سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ حسرت و ندامت سے کہتے ہوں گے ہائے ہماری کم بختی ہم اس دن سے بڑی غفلت میں تھے بلکہ ہم ہی ظالم تھے یعنی اس دن کا انکار کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی خبر پہنچی تھی جان کرٹلادی۔ 12