Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 12

سورة الحج

یَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہٗ وَ مَا لَا یَنۡفَعُہٗ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ ﴿ۚ۱۲﴾

He invokes instead of Allah that which neither harms him nor benefits him. That is what is the extreme error.

اللہ کے سوا انہیں پکاراکر تے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکیں نہ نفع ۔ یہی تو دور دراز کی گمراہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُ وَمَا لاَ يَنفَعُهُ ... He calls besides Allah unto that which can neither harm him nor profit him. means, the idols, rivals, and false gods which he calls upon for help, support and provision -- they can neither benefit him nor harm him. ... ذَلِكَ هُوَ الضَّلَلُ الْبَعِيدُ That is a straying far away.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَمَا لَا يَنْفَعُهٗ ۔۔ : بعض لوگ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ سے مراد بت لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اولیاء اللہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ نہیں ہیں۔ حالانکہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے سوا ہر چیز ہے، خواہ بت ہوں یا قبریں، درخت ہوں یا جانور، مثلاً گائے وغیرہ، خواہ انسان ہوں یا جن یا فرشتے، زندہ ہوں یا مردہ، نیک ہوں یا بد، سب ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ ہیں، کیونکہ جو بھی موجود ہے یا اللہ ہے یا ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔ “ اگر ولیوں اور نبیوں کو ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ نہ مانیں تو انھیں اللہ ماننا پڑے گا۔ پھر ” وحدہ لا شریک لہ “ اور ” قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ“ کا مطلب کیا ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا سب کچھ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ (اللہ کے سوا) ہے۔ مزید دیکھیے سورة نحل (٢٠، ٧٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّہٗ وَمَا لَا يَنْفَعُہٗ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ۝ ١٢ۚ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور یہ بنو حلاف اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت کرنے لگے، جو نہ ان کو عبادت نہ کرنے کی صورت میں نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ عبادت کرنے کی صورت میں نفع پہنچا سکتی ہے یہ بھی حق و ہدایت سے انتہاء درجہ کی گمراہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:12) ذلک، ای ذلک الدعائ۔ یہ پکار ۔ یہ دعا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ مطلب واضح ہے لیکن ہمارے زمانے کے بعض بدعت پرست علماء جو لوگوں کو قبر پرستی کی تعلیم دیتے ہیں پہلے تو کسی نبی یا ولی کے متعلق لوگوں میں یہ ذہن پیدا کرتے ہیں کہ یہ نفع بھی دیتے ہیں اور نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں اور پھر ان سے کہتے ہیں کہ قرآن نے صرف ان چیزوں کو پکارنے سے منع کیا ہے جو کچھ نفع یا نقصان نہیں پہنچاتیں اور یہ قبر یا قبر والے چونکہ نفع بھی پہنچاتے ہیں اور نفقصان بھی اس لئے اسے سجدہ کرنا اور اس پر چڑھاوے چڑھانا قرآن کے منافی نہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ صرف یہی نہیں کہ اس کی عبادت سے نفع نہ ہوتا ہو بلکہ عبادت میں ضرر ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان جب اپنے رب کی بندگی چھوڑتا ہے تو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکتا ہے۔ مشرک اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے رب سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ عجلت پسندی کی وجہ سے ان کو پکارتا ہے جو نفع و نقصان پہچانے پر قدرت نہیں رکھتی۔ جلد باز اور مفاد پرست طبیعت کی وجہ سے مشرک اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس مزار یا بت کے سامنے اپنی حاجت پیش کررہا ہے وہ تو اسے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ یہ فکر و عمل اس قدر گمراہ کن ہے کہ آدمی ہدایت قبول کرنا تو درکنار حق بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا یہ عمل اس بات کی گواہی ہے کہ یہ شخص گمراہی میں بہت دور جا چکا ہے۔ ایسے شخص کو شعور نہیں ہوتا کہ جس کو پکار رہا ہے وہ تو فائدے کی بجائے اس کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ اپنے فائدے کی خاطر اسے پکارتا ہے وہ فائدہ تو پہنچا نہیں سکتے البتہ یہ فائدے کی بجائے ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ فائدے کی بجائے اپنے آپ کا نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا۔ بہت ہی برا عقیدہ اور سہارا ہے جس کو مشرک نے اپنا یا ہے۔ جس انسان کا یہ فکر و عمل ہوجائے اس کو اللہ تعالیٰ کی بجائے دوسروں پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مشکل کشا سمجھنے والا شخص فائدے کی بجائے نقصان کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جن پر مشرک بھروسہ کرتا ہے۔ وہ برا مولیٰ وہ برا ساتھی ہے، مشرک ایک کی بجائے کئی مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے، لیکن یہاں جمع کی بجائے واحد کا لفظ لایا گیا ہے۔ کیونکہ مشرک کے عقیدہ کا محرک اور سبب شیطان ہوتا ہے اس لیے بتلایا ہے۔ حقیقی خیر خواہی کی بجائے شیطان بد ترین خیر خواہی کرنے والا اور برا ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو یہ پڑھتے، اے ہمارے رب ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین خلاء کے برابر اور اس کے بعد جس قدر وسعتیں ہیں تو جس قدر چاہتا ہے، تمام تعریفات کا تو ہی لائق ہے اور بزرگی کا سب سے زیادہ تو حقدار ہے جو تعریف اور عظمت بندے بیان کرتے ہیں ہم تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ ! جو چیز تو عطاء کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں تجھ سے بڑھ کر کسی کی عظمت نہیں، تیری عظمت سے بڑھ کر کسی کی عظمت فائدہ نہیں دے سکتی۔ “ (عَنْ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ (رض) قَالَ عَلَّمَنِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی الْوِتْرِ إِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ ) [ رواہ ابوداود : باب الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ ] ” حضرت حسن بن علی (رض) ‘ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھلائی الٰہی بیشک تو فیصلہ کرتا ہے تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا جس کا تو دوست بن جائے اور جس کے ساتھ تو دشمنی رکھے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ “ مسائل ١۔ مشرک ان کو پکارتا ہے جو نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا دوسروں کو پکارنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : ١۔ فرما دیجیے جن کو تم معبود تصور کرتے ہو ان کو بلا کردیکھو کیا وہ تمہاری تکلیف دور کرنے پر اختیار رکھتے ہیں ؟ (بنی اسرائیل : ١٠٧) ٢۔ اللہ کے سوا ان کو پکارو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (یونس : ١٠٦) ٣۔ کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ (الانبیاء : ٦٦) ٤۔ فرما دیجیے میں بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨، یونس : ٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ الخ “ یہ ماقبل ہی سے متعلق ہے اور اس میں دنیا اور آخرت کے خسارے کی تفصیل مذکور ہے یعنی وہ ظالم اللہ تعالیی کی خالص عبادت چھوڑ کر ایسے عاجز و بےبس معبودوں کی پرستش اور پکار میں لگ جاتا ہے جو نہ اسے نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ نقصان پہنچانے کی اور یہ بہت بڑی گمراہی ہے کہ اللہ کی توحید کو چھوڑ کر شرک کیا جائے۔ استئناف مبین لعظم الخسران (روح ج 17 ص 124) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) دنیوی نفع سے ناامید ہوکر پلٹا تو وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس چیز کو پکارتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ اس کو کچھ نقصان پہنچا سکتی ہے نہ کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ اس کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ اس کا کچھ بھلا کرسکتی ہے یہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارنا یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ یعنی ان چیزوں کی عبادت نہ کرے تو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور عبادت کرے تو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ بھلا جو چیز اللہ تعالیٰ سے نہ حاصل ہو وہ جمادات اور پتھروں سے حاصل کرنا چاہتا ہے اس سے بڑھ کر حماقت اور پرلے درجے کی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے۔