Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 16

سورة الحج

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یُّرِیۡدُ ﴿۱۶﴾

And thus have We sent the Qur'an down as verses of clear evidence and because Allah guides whom He intends.

ہم نے اسی طرح اس قرآن کو واضح آیتوں میں اتارا ہے ۔ جسے اللہ چاہے ہدایت نصیب فرماتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ ... Thus have We sent it down, (the Qur'an), ... ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ ... as clear Ayat, clear in its wording and its meaning, evidence from Allah to mankind. ... وَأَنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يُرِيدُ and surely, Allah guides whom He wills. He sends astray whomsoever He wills and He guides whomsoever He wills, and He has complete wisdom and definitive proof in doing so. لااَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْـَلُونَ He cannot be questioned about what He does, while they will be questioned. (21:23) Because of His wisdom, mercy, justice, knowledge, dominion and might, no one can overturn His ruling, and He is swift in bringing to account.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] یعنی اگرچہ قرآن میں ایسے بیشمار واضع دلائل موجود ہیں پھر بھی ان دلائل سے ہر شخص کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی بلکہ اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے متعلق اللہ کی مشیت ہو۔ مشیت الٰہی صرف انھیں نصیب ہوتی ہے جو خود ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ ضدی، ہٹ دھرم، تکبر اور نافرمان قسم کے لوگوں کو نہ اللہ کی نسبت نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ جبراً کسی کو ہدایت دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : طبری نے فرمایا : ” اور جس طرح ہم نے مختلف دلائل کے ساتھ ان لوگوں کے لیے اپنی حجت واضح کی ہے جو لوگوں کے مرنے کے بعد انھیں زندہ کرنے پر ہمیں قادر نہیں مانتے اور ہم پر ایمان نہیں لاتے، اسی طرح ہم نے یہ پورا قرآن ہی نہایت روشن آیات کی صورت میں اتارا ہے۔ “ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ : اس جملے کا پچھلے جملے سے کیا تعلق ہے اور درمیان میں واؤ لانے کی کیا حکمت ہے ؟ اس سوال کے حل کے لیے اہل علم نے آیت کی کئی نحوی ترکیبیں کی ہیں، مگر مجھے سب سے قریب بقاعی کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ”ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ “ میں ” واؤ “ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس کا کسی محذوف پر عطف ہے جو ” وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ “ سے تعلق رکھتا ہے، چناچہ پوری عبارت یوں ہوگی : ” وَکَذٰلِکَ أَنْزَلْنَاہُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُعْلَمَ أَنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَاءُ وَ أَنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ “ ” اور اسی طرح ہم نے اسے روشن آیات کی صورت میں نازل کیا ہے، تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور یہ معلوم ہوجائے کہ بیشک اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ یعنی گو قرآن میں ایمان و توحید کی روشن دلیلیں موجود ہیں مگر سب لوگوں کے اس سے ہدایت نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ سب کو معلوم ہوجائے کہ گمراہی اور ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ کوئی شخص اپنے بل بوتے پر یہ نعمت حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے کہ یہ علم و عقل اور تجربہ تو حقیقت تک پہنچنے کا ایک امکانی ذریعہ ہے، لیکن اس تک رسائی صرف اللہ کی توفیق پر موقوف ہے۔ بعض اہل علم نے اس کی یہ ترکیب کی ہے : ” وَالْأَمْرُ أَنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ “ ” اور اصل معاملہ یہ ہے کہ بیشک اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝ ٠ۙ وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۝ ١٦ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور ہم نے اسی طرح اس قرآن کریم کو بذریعہ جبریل امین نازل کیا ہے جس میں حلال و حرام کی واضح آیات ہیں اور جو شخص ہدایت کا اہل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دین کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:16) کذلک۔ ایسے ہی۔ اسی طرح۔ مثل ذلک الانزال۔ جس طرح ہم نے یہ (مندرجہ بالا) باتیں کھلی کھلی بیان کی ہیں اسی طرح (انزلنہ) ہم نے سارا قرآن نازل کیا ہے۔ ہ ضمیر کا مرجع القرآن ہے۔ ایت بینت۔ موصوف صفت ہو کر انزلنا سے حال ہے اور بدیں وجہ منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی گو قرآن میں ایمان و توحید کی کھلی کھل دلیلیں موجود ہیں مگر اس سے ہدایت وہی پاتا ہے جسے اللہ ہدایت دینا چاہے اس لئے کہ یہ علم و عقل اور تجربہ تو حقیقت تک پہنچنے کا ایک امکانی ذریعہ ہے لیکن اس تک رسائی صرف اللہ کی توفیق پر موقوف ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ البتہ انسان کی سعی اور طلب کے بعد اللہ تعالیٰ ارادہ کر ہی لیتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکذلک ……من یرید (١٦) اللہ نے ہدایت اور ضلالت کا فیصلہ پہلے ہی کردیا ہے ، جو ہدایت طلب کرے گا ، تو اللہ کا ارادہ اس کی ہدایت کی شکل میں حقیقت کا روپ اختیار کرلے گا۔ یہ اللہ کی سنت کے مطابق ہوگا ، اور جس نے ضلالت طلب کی تو اسے ضلالت ملے گی۔ یہاں اللہ نے صرف ہدایت ہی کا ذکر فرمایا ہے۔ کیونکہ ان آیات میں مضمون ہدایت ہی کا ہے کہ وہ ایک صحتمند دل میں کس طرح داخل ہوتی ہے۔ رہے وہ فرقے اور مذاہب جو ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں ، ان میں سے حق پر کون ہے ؟ تو اس کا فیصلہ اس دنیا میں ہونا تو مشکل ہے ، قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے عقائد میں حق کہاں ہے اور باطل کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ ” وَکَذٰالِکَ اَنْزَلْنٰهُ الخ “ کاف بیان کمال کے لیے ہے یعنی مسئلہ توحید کو قرآن میں اس طرح دلائل سے واضح کرنا ہمارا ہی کمال ہے اور یہ ترغیب الی القرآن ہے۔ ” مَنْ یُّرِیْدُ “ یرید کا فاعل مَنْ ہے یعنی اللہ تعالیی ان لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے جو سیدھی راہ دیکھنا چاہیں اور اللہ کی طرف انابت کریں۔ یا یرید کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور عائد محذوف ہے ای یرید ھدایتہ یعنی اللہ تعالیٰ جسے راہ راست پر لانا چاہتا ہے اسے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور ہم نے اسی طرح اس قرآن کریم کو نازل کیا ہے کہ اس میں کھلی کھلی اور واضح دلیلیں ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ یعنی جس طرح ہم نے یہ احکام مذکورہ نازل فرمائے اسی طرح تمام قرآن کریم نازل کیا۔ درآنحالیکہ وہ دلائل واضحہ پر مشتمل ہے اور سب کو غور و فکر کا موقعہ دیا گیا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اور جس کے لئے ارادہ کرتا ہے اسی کو ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے اور دستو یہ ہے کہ تلاش حق کی نیت سے جو شخص کوشش کرتا ہے اس کی ہدایت کے ساتھ ارادئہ باری تعالیٰ کا تعلق ہو ہی جاتا ہے۔ اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویھدی الیہ من ینیب۔