Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 24

سورة الحج

وَ ہُدُوۡۤا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الۡقَوۡلِ ۚ ۖ وَ ہُدُوۡۤا اِلٰی صِرَاطِ الۡحَمِیۡدِ ﴿۲۴﴾

And they had been guided [in worldly life] to good speech, and they were guided to the path of the Praiseworthy.

ان کی پاکیزہ بات کی رہنمائی کر دی گئی اور قابل صد تعریف راہ کی ہدایت کر دی گئی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ... And they are guided unto goodly speech. This is like the Ayat: وَأُدْخِلَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ جَنَّـتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الاَنْهَـرُ خَـلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـمٌ And those who believed and did righteous deeds, will be made to enter Gardens under which rivers flow -- to dwell therein forever, with the permission of their Lord. Their greeting therein will be: "Salam (peace)!" (14:23) جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ءَابَايِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـيِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ سَلَـمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ And angels shall enter unto them from every gate (saying): "Salamun `Alaykum (peace be upon you!)", for you persevered in patience! Excellent indeed is the final home!" (13:23-24) لااَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً وَلااَ تَأْثِيماً إِلاَّ قِيلً سَلَـماً سَلَـماً No evil vain talk will they hear therein, nor any sinful speech. But only the saying of, "Peace! Peace! (Salaman! Salaman!)." (56:25-26) They will be guided to a place in which they will hear good speech. وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَـماً Therein they shall be met with greetings and the word of peace and respect. (25:75), unlike the scorn which will be heaped upon the people of Hell by way of rebuke, when they are told: ذُوقُواْ عَذَابَ الْحَرِيقِ (Taste the torment of burning!). (22:23) ... وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ and they are guided to the path of Him Who is Worthy of all praises. to a place in which they will give praise to their Lord for all His kindness, blessings and favors towards them, as it says in the Sahih Hadith: إِنَّهُمْ يُلْهَمُونَ التَّسْبِيحَ وَالتَّحْمِيدَ كَمَا يُلْهَمُونَ النَّفَس They will be inspired with words of glorification and praise, just as they are inspired with breath. Some scholars of Tafsir said that, the Ayah, وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ (And they are guided unto goodly speech), refers to the Qur'an; and it was said that it means La ilaha illallah or words of remembrance prescribed in Islam. And the Ayah: وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (and they are guided to the path of Him Who is Worthy of all praises), means, the straight path in this world. These interpretations do not contradict that mentioned above. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہونگی، وہاں بےہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوگی۔ 24۔ 2 یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہوگی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ اس آیت کو اس دنیا سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں جو مطلب ہوگا وہ ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے آخرت سے متعلق سمجھا جائے جیسا کہ پہلے اہل جنت کا ذکر چل رہا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی ایسے مقام کی طرف راہنمائی کی جائے گی جہاں فرشتے انھیں سلام کہیں گے۔ مبارک باد پیش کریں گے۔ وہاں کسی قسم کی بک بک اور جھک جھک نہ ہوگی اور یہ ایسی راہ ہوگی جہاں پہنچ کر اہل جنت ستودہ صفات اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں ہی ہمیشہ مشغول رہا کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ : یعنی دنیا میں انھیں پاکیزہ بات کلمۂ توحید ” لا الٰہ الا اللہ “ کی ہدایت عطا ہوئی اور انھیں تمام تعریفوں والے پروردگار کے راستے اسلام کی ہدایت ملی۔ اسی طرح آخرت میں انھیں اس مقام کی طرف لے جایا جائے گا جہاں وہ پاکیزہ کلام ہی سنیں گے، کوئی لغو یا گناہ کی بات کان میں نہیں پڑے گی۔ نہ جھگڑا ہوگا اور نہ کوئی بک بک، ہر طرف سے سلام کی آواز آئے گی، فرمایا : (لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا 25 ۝ ۙاِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا) [ الواقعۃ : ٢٥، ٢٦ ] ” وہ اس میں نہ بےہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات، مگر یہ کہنا کہ سلام ہے، سلام ہے۔ “ سلام کے علاوہ اللہ کی حمدہو گی اور اس کی تسبیح۔ دیکھیے سورة فاطر (٣٣ تا ٣٥) اور زمر (٧٣، ٧٤) ۔ وَهُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ : اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اہل جنت کو یہ سعادت حمد الٰہی کی وجہ سے حاصل ہوگی، فرمایا : (دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ یونس : ١٠ ] ” ان کی دعا ان میں یہ ہوگی ” پاک ہے تو اے اللہ ! “ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ (And guided they were to the good word (of faith) - 22:24) Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that this refers to the Kalimah tayyibah لا إله إلا اللہ . Some others say that it means Qur&an. (Qurtubi) As a matter of fact it includes all these things in its meaning.

وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہے۔ بعض نے فرمایا قرآن مراد ہے (قرطبی) صحیح یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۝ ٠ۚۖ وَہُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ۝ ٢٤ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ حمید إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، ( ح م د ) حمید اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) ان کو دنیا میں کلمہ طیب یعنی ” لا الہ الا اللہ “۔ کی ہدایت ہوگئی تھی اور ان کو اس اللہ کے رستہ کی ہدایت ہوگئی تھی جو لائق حمد وستایش ہے یہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری اور مسلمانوں کے درمیان ان کے اختلاف کے بارے میں فیصلہ فرمایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَہُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ج ) ” یہاں بہترین بات سے مراد کلمہ طیبہ : لَااِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہوسکتا ہے یا پھر یہ کلمہ : سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ ۔ (وَہُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) ” انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے کی ہدایت دی گئی ہے جو سب تعریفوں کے لائق ہے اور وہ اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ ج وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) ( الواقعہ ) کے اندر پہنچ جائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. “Purest of the speeches”: though it may imply every pure thing, here it refers to the basic articles of the faith. 40. As already stated in the introduction, the portion of the Surah, which was revealed at Makkah, comes to an end here. Though its style is clearly that of the Makki Surahs and there is nothing to indicate that any part (or the whole) of it was revealed at Al-Madinah, yet the words, “these are the two parties”, have given rise to the misunderstanding that this verse was revealed at Al-Madinah. Some commentators are of the opinion that the two parties referred to were the parties who met in the Battle of Badr, but there is nothing in the context to support this opinion. On the other hand, from the context in which these words occur, it becomes obvious that the two parties referred to were the believers and the disbelievers. For the conflict between belief and disbelief has always been going on ever since the creation of man and will go on upto the Day of Resurrection. Incidentally, this latter view helps prove that the Quran is a continuous whole and every part of it is closely connected with the other: whereas the comments mentioned earlier would imply that there is no continuous theme in the Quran but different parts of it have been put together without rhyme or reason.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :39 اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں ، مگر مراد ہے وہ کلمہ طیبہ اور عقیدہ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر وہ مومن ہوئے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :40 جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے ، ہمارے نزدیک یہاں سورے کا وہ حصہ ختم ہو جاتا ہے جو مکی دور میں نازل ہوا تھا ۔ اس حصے کا مضمون اور انداز بیان وہی ہے جو مکہ سورتوں کا ہوا کرتا ہے ، اور اس میں کوئی علامت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصہ ، یا اس کا کوئی جز مدینے میں نازل ہوا ہو ۔ صرف آیت : ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ( یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہے ) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگ بدر کے فریقین ہیں ، اور یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو ۔ الفاظ عام ہیں ، اور سیاق عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اس نزاع عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی ۔ جنگ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق ہوتا تو اس کی جگہ سورہ انفال میں تھی نہ کہ اس سورے میں اور اس سلسلہ کلام میں ۔ یہ طریق تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر ان کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا ۔ حالانکہ قرآن کا نظم کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:24) ھدوا۔ ماضی مجہول۔ جمع مذکر غائب۔ ھدایۃ مصدر (باب ضرب) ان کو ہدایت کی گئی۔ ان کو راستہ بتایا گیا۔ وھدوا الی الطیب من القول۔ ان کی راہنمائی کی گئی تھی کلمہ طیبہ کی طرف (بعض نے قرآن مراد لیا ہے۔ ماحصل ایک ہی ہے) صراط الحمید۔ مضاف مضاف الیہ۔ الحمید سے مراد ذات خداوند تعالیٰ ہے کہ سزاوار حمد وثنا ہے اور صراط (راستہ) سے مراد اسلام ہے۔ وھدوا۔ اور یہ باتین یعنی نہروں والے باغ، سونے اور موتیوں کے زیورات اور ریشمی لباس ان کو اس وجہ سے نصیب ہوں گی کہ دنیا میں اللہ کی طرف سے ان کو کلمہ طیبہ گامزن فرما دیا گیا تھا۔ حمید بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے بمعنی مفعول یعنی محمود ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسما حسنی میں سے ہے کیونکہ وہی حقیقی طور پر مستحق حمد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی اس مقام کی طرف جہاں وہ پاکیزہ اور بہتر کلام سنیں گے۔ مراد ہے جنت کہ وہاں ہر طرف سے سلام ہی سلام کی آوازآئے گی۔ لغو اور بیہودہ باتوں سے اہل جنت کے کان کبھی آشنا نہ ہوں گے۔ (واقعہ : 62) یا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں (دنیا میں) نیک بات (یعنی کلمہ توحید) کی ہدایت دی گئی۔ (شوکانی، ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وہ رستہ اسلام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا (وَ ھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ) کہ ان کو دنیا میں اچھی بات یعنی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ کی طرف رہبری کی گئی اس کو انہوں نے قبول کیا اللہ کی توحید کے قائل ہوئے اور اللہ کے رسول اور اللہ کی کتاب پر ایمان لائے جن کے ذریعہ انہیں ہدایت ہوئی، اب انہیں اس کا یہ پھل ملے گا کہ جنت میں آرام سے نعمتوں میں رہیں گے (وَ ھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ کی ہدایت دی گئی جو تعریف کے لائق ہے اور سب تعریفیں اسی کو زیبا ہیں، دنیا میں جب اس کی راہ پر چلے آخرت میں اس کی طرف سے انعام پائیں گے وہ اپنی راہ پر چلنے والوں کو محروم نہ فرمائے گا۔ فائدہ : آیت بالا میں جنتیوں کا زیور بیان کرتے ہوئے صرف کنگنوں کا ذکر فرمایا ہے حدیث شریف میں تاج پہنائے جانے کا بھی ذکر ہے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اہل جنت کے سروں پر تاج ہوں گے جن کے ادنیٰ موتی کی چمک اس قدر ہوگی کہ وہ مشرق و مغرب کے درمیان (کے خلا کو) روشن کرسکتا ہے۔ یعنی ان تاجوں میں سے اگر ادنیٰ موتی اس دنیا میں آجائے تو پورب سے پچھم تک پوری فضا کو روشن کر دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٤٩٩ از ترمذی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) یہ لوگ وہ ہیں جن کی پاکیزہ اور ستھری بات یعنی کلمہ طیب کی جانب رہنمائی کی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ جو ستودہ صفات اور سب خوبیوں سے سراہا گیا ہے اس کے راستے کی ان کو ہدایت ہوگئی تھی۔ پاکیزہ قول یعنی کلمۂ لآ الٰہ الا اللہ کی ہدایت نصیب ہوئی۔ صراط الحمید یعنی اللہ تعالیٰ کا راستہ جو اسلام ہے اس کی ہدایت بھی ان کو نصیب ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ بھی حمید ہے اور جو راستہ اس تک پہنچتا ہے وہ بھی حمید ہے اور خوبیوں والا ہے۔