39. “Purest of the speeches”: though it may imply every pure thing, here it refers to the basic articles of the faith.
40. As already stated in the introduction, the portion of the Surah, which was revealed at Makkah, comes to an end here. Though its style is clearly that of the Makki Surahs and there is nothing to indicate that any part (or the whole) of it was revealed at Al-Madinah, yet the words, “these are the two parties”, have given rise to the misunderstanding that this verse was revealed at Al-Madinah. Some commentators are of the opinion that the two parties referred to were the parties who met in the Battle of Badr, but there is nothing in the context to support this opinion. On the other hand, from the context in which these words occur, it becomes obvious that the two parties referred to were the believers and the disbelievers. For the conflict between belief and disbelief has always been going on ever since the creation of man and will go on upto the Day of Resurrection.
Incidentally, this latter view helps prove that the Quran is a continuous whole and every part of it is closely connected with the other: whereas the comments mentioned earlier would imply that there is no continuous theme in the Quran but different parts of it have been put together without rhyme or reason.
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :39
اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں ، مگر مراد ہے وہ کلمہ طیبہ اور عقیدہ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر وہ مومن ہوئے ۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :40
جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے ، ہمارے نزدیک یہاں سورے کا وہ حصہ ختم ہو جاتا ہے جو مکی دور میں نازل ہوا تھا ۔ اس حصے کا مضمون اور انداز بیان وہی ہے جو مکہ سورتوں کا ہوا کرتا ہے ، اور اس میں کوئی علامت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصہ ، یا اس کا کوئی جز مدینے میں نازل ہوا ہو ۔ صرف آیت : ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ( یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہے ) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگ بدر کے فریقین ہیں ، اور یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو ۔ الفاظ عام ہیں ، اور سیاق عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اس نزاع عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی ۔ جنگ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق ہوتا تو اس کی جگہ سورہ انفال میں تھی نہ کہ اس سورے میں اور اس سلسلہ کلام میں ۔ یہ طریق تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر ان کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا ۔ حالانکہ قرآن کا نظم کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے ۔